Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لاٹری

پریم چند

لاٹری

پریم چند

MORE BYپریم چند

    جلدی سے مالدار بن جانے کی ہوس کسے نہیں ہوتی۔ ان دنوں جب فرنچ لاٹری کے ٹکٹ آئے تو میرے عزیز دوست بکرم سنگھ کے والد، چچا، بھائی، ماں سبھی نے ایک ایک ٹکٹ خریدلیا۔ کون جانے کس کی تقدیر زورکرے، روپے رہیں گے تو گھرہی میں، کسی کام کے نام آئیں۔

    مجھے بھی اپنی تقدیر آزمانے کی سوجھی، اس وقت مجھے زندگی کا تھوڑا بہت تجربہ ہوا تھا، وہ بہت ہمت افزانہ تھا لیکن بھئی تقدیر کا حال کون جانے، گاہ باشد کہ کودک ناداں۔ ایک باراپنی تقدیرآزمانے کودل بیتاب ہوگیا اوربکرم بھی دوسروں کادست نگر نہ بننا چاہتا تھا۔ جس کےنام روپے آئیں گے۔ وہ خود موج اڑائے گا۔ اسے کون پوچھتا ہے۔ دس پانچ ہزار اس کے حصےمیں آجائیں گے، مگر اس سے کیاہوگا۔ اس کی زندگی میں بڑے بڑے منصوبے تھے۔ پہلے توساری دنیا کی سیاحت کرنی تھی۔ ایک ایک کونے کی۔ عام سیاحوں کی طرح نہیں ہوکہ تین ہفتہ میں ساری دنیا میں آندھی کی طرح اڑ کرگھر آپہنچے۔ وہ ایک خطہ میں کافی عرصہ تک رہ کروہاں کے باشندوں، معاشرت کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا۔ پیروبرازیل، مڈغاسکر اوراربی سینیا، یہ سبھی دشوار گزارخطے اس کے پروگرام میں تھے۔ پھر اسے ایک بہت بڑا کتب خانہ تیار کرانا تھا جس میں ساری دنیا کی کتابیں رکھی جائیں۔ اس کے علاوہ لاکھ تک صرف کرنے کوتیارتھا۔ والد یا چچا کے ہاتھ روپے آئے تو شاید دوچارہزار مل جائیں۔ بڑے بھائی کے نام آئے تو دھیلابھی نہ ملے گا۔ ہاں اماں کے ہاتھ آئے تو بیس ہزار یقینی ہیں، مگر اس سے کہیں پیاس بجھتی ہے۔ منصوبے تو اتنے اونچے تھے۔ لیکن روپے نہ ان کے پاس تھےنہ گھر سے روپے ملنے کی اسے امید تھی۔ ممکن تھا بہت ضد کرتا تو مل بھی جاتے مگروہ اس امر کو پوشیدہ رکھناچاہتا تھا۔ میرے پاس بھی روپے تھے، میں اسکول میں ماسٹر تھا، بیس روپے ملتے تھے۔ دس گھر بھیج دیتا، دس میں لشٹم پشٹم اپناگزارہ کرتا۔ ایسی حالت میں پانچ روپے کے ٹکٹ خریدنا میرے لئے مشکل ہی نہیں محال تھا۔

    بکرم نے کہا، ’’کہو تومیں اپنی انگوٹھی دوں، کہہ دوں گا انگلی سے پھسل پڑی۔‘‘ میں نے منع کیاتھا،’’ نہیں چوری فورا کھل جائے گی اور مفت میں شرمندگی ہوگی۔ ایسا کام کیوں کرو کہ بعدمیں خفت ہو۔‘‘یہ تجویز ہوئی کہ ہم دونوں اپنی اپنی پرانی کتابیں کسی سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے دوکاندار کے ہاتھ بیچ ڈالیں اور اس روپے سے ٹکٹ خریدیں۔ ہم دونوں کے پاس اسکول کی کتابیں ارتھمیٹک، الجبرا، جیومیٹری، جغرافیہ موجود تھیں۔ میں توماسٹر تھا کسی بک سیلر کی دوکان پرجاتے جھینپتاتھا۔ قریب قریب سبھی مجھے پہچانتے تھے۔ اس لئے یہ خدمت بکرم کے سپردہوئی اوروہ آدھ گھنٹے میں پانچ روپے کاایک نوٹ لئے آپہنچا۔ کتابیں پچیس سے کم کی نہ تھیں مگر یہ پانچ اس وقت ہمارے لئے پانچ ہزار کے برابرتھے۔ فیصلہ ہوگیا۔ ہم دونوں سانجھے میں ٹکٹ لیں گے آدھا میرا ہوگا آدھا بکرم کا، دس لاکھ میں پانچ لاکھ میرے حصہ میں آئیں گے۔ پانچ لاکھ بکرم کے، ہم اپنے اسی میں خوش تھے۔ ہاں بکرم کواپنی سیاحت والی اسکیم میں کچھ ترمیم کرناپڑی۔ کتب خانہ کی تجویزمیں کسی قسم کی قطع وبریدناممکن تھی۔ یہ بکرم کی زندگی کا مقصدِدلی تھا۔

    میں نے اعتراض کیا، ’’یہ لازمی نہیں کہ تمہارا کتب خانہ شہر میں سب سے زیادہ شاندار ہو ایک لاکھ بھی کچھ کم نہیں ہوتا۔‘‘

    بکرم مستقل تھا، ’’ہرگزنہیں، کتب خانہ تو شہر میں لاثانی ہوگا۔ کیوں کہ تم کچھ مدد نہ کروگے؟‘‘

    میں نے اپنی مجبوری کا اظہارکیا، ’’بھئی میری ضرورتیں مقابلتاً کہیں زیادہ ہیں۔‘‘

    ’’تمہارے گھرمیں کافی جائیداد موجودہے۔ والدین بھی زندہ ہیں کسی قسم کا بار تمہارے اوپرنہیں ہے۔ میرے سرتو ساری گرہستی کابوجھ ہے۔ دوبہنوں کی شادیاں ہیں، دوبھائیوں کی تعلیم ہے۔ نیامکان بنوانا ہی پڑے گا۔ میں توایسا انتظام کروں گا کہ سارے مصارف سودسے نکل آئیں اور اصل میں داغ نہ لگنے پائے۔ کچھ ایسی قیدیں لگادوں گا میرے بعد کوئی اصلی کونہ نکال سکے۔‘‘

    ’’تم نے سوچی توبہت دورکی ہے، لیکن بینکوں کا شرح سود گرا ہوا ہے۔‘‘

    ’’پانچ لاکھ کی رقم بھی توکم نہیں۔ اگرپانچ فیصدی بھی ہے ۲۵ ہزارسالانہ ہوئے، تھوڑے ہیں۔ ہم نے کئی بینکوں کی شرحِ سود دیکھا۔ واقعی بہت کم تھا۔ خیال آیا کیوں نہ لین دین میں کاروبارشروع کر دیا جائے۔ بکرم اور میں دونوں کی مشترکہ کمپنی ہو۔ لین دین میں سودبھی اچھا ملے گا اور اپنا رعب داب رہے گا۔ اچھے اچھے گھٹنے ٹیکیں گے، ہاں جب تک اچھی جائیداد نہ ہو کسی کوروپیہ نہ دیاجائے، کتنا ہی معتبر آسامی ہو، مجبوری معتبروں کو بھی غیرمعتبر بنا دیتی ہے، جائیداد کی کفالت پر رہن نامہ لکھاکر روپیہ دینے میں کوئی اندیشہ نہیں رہتا۔ روپے نہ وصول ہوں توجائیداد تومل ہی جاتی ہے۔‘‘

    ’’مگر لاٹری کے ٹکٹ پر دو نام نہیں رہ سکتے کس کا نام دیا جائے۔‘‘

    بکرم نے کہا، ’’میرا نام رہے گا۔‘‘

    ’’کیوں میرا کیوں نہ رہے گا؟‘‘

    ’’تمہارا ہی نام سہی، لیکن میری بہت دل شکنی ہوگی، اگرروپے مل گئے تو میں گھروالوں پرگولا چھوڑ دوں گا اورلوگوں کوخوب چڑاؤں گا، بالکل طفلانہ خواہش ہے۔‘‘

    میں مجبور ہوگیا۔ بکرم کے نام سے ٹکٹ لیاگیا۔

    ایک ایک کرکے انتظار کے دن کٹنے لگے۔ صبح ہوتے ہی ہماری نگاہ کیلنڈر پر جاتی میرا مکان بکرم کے مکان سے ملا تھا۔ اسکول جانے سے قبل اوراسکول سے آنے کے بعد ہم دونوں ساتھ بیٹھے اپنے منصوبے باندھا کرتے اور سرگو شیوں میں کہ کوئی سن نہ لے۔

    ایک دن شادی کا تذکرہ چھڑگیا۔ بکرم نے فلسفیانہ اندازسے کہا، ’’بھئی شادی وادی کاخلجان نہیں چلانا چاہتا خواہ مخواہ کی کوفت اور پریشانی، بیوی کی نازبرداری میں ہی بہت سے روپے اڑجائیں گے۔ ہم بقائے نسل کے لئے کوئی ٹھیکیدار ہیں؟‘‘

    میں نے شادی کے دوسرے پہلوؤں پر غور کیا، ’’ہاں یہ تودرست ہے مگر جب تک شادی و غم میں کوئی رفیق نہ ہو، دولت کا لطف ہی کیا، تنہاخوری سے انسان کی طبیعت خود نفرت کرتی ہے، میں تو بھئی عیال داری سے اتنا بیزار نہیں، ہاں رفیق ہو اور وہ بیوی کے سوا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔‘‘

    بکرم کی پیشانی پر بل پڑگئے بولا، ’’خیر اپنا اپنا نقطہ نظر ہے آپ کوعیال داری مبارک، بندہ تو آزاد رہے گا، اپنے مزے سےجہاں چاہا اڑ گئے اور جب جی چاہا سو گئے۔ یہ نہیں کہ ہروقت ایک پاسبان آپ کی ہر ایک حرکت پرآنکھیں لگائے بیٹھا رہے۔ ذرا سی دیر ہوئی اور فوراً جواب طلب، آپ کہیں چلے اور فوراً سوال ہوا، کہاں جاتے ہو؟ کیوں کسی کو مجھ سے یہ سوال کرنے کا حق ہو۔‘‘

    ’’میں نہ یہ سوال کسی سے کرنا چاہتا ہوں، اور نہ چاہتا ہوں مجھ سے کوئی سوال کرے۔ نا بابا آپ کو شادی مبارک، بچے کو ذرا سا زکام ہو اور آپ اڑ ے چلے جارہے ہیں ہومیوپیتھک ڈاکٹرکے پاس، ذرا عمر کھسکی اور لونڈے منتیں ماننے لگے کہ کب آپ راہی عدم ہوں اور وہ گل چھڑے اڑائیں، نہ نہ اس وبال۔۔۔‘‘

    بکرم کی بہن کنتی نے اتنے دھماکے سے دروازہ کھولا کہ ہم دونوں چونک پڑے کوئی تیرہ چودہ سال کی تھی۔ مگربڑی خوش مزاج اور انتہا درجہ کی شوخ۔

    بکرم نے ڈانٹا، ’’تو بڑی شیطان ہے کتنی، میں تو ڈر گیا کس نے تجھے بلایا یہاں۔‘‘

    ’’تم لوگ ہر دم یہاں بیٹھے کیا باتیں کرتے ہو، جب دیکھو یہیں جمے ہو نہ کوئی کام نہ دھندا، کہیں گھومنے بھی نہیں جاتے ایسے اچھے اچھے تماشے آئے اورچلے گئے، تم چلے ہی نہیں، آخر کس کے ساتھ جاؤں۔ کیا کوئی جادو منتر جگا رہے ہو؟‘‘

    بکرم ہنسا، ’’ہاں جادو جگا رہے ہیں۔ جس میں تجھے ایسا دولہا ملے جو گن کر روز پانچ ہنٹر جمائے۔‘‘

    کنتی نے پیٹھ کی طرف سے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بولی، ’’مجھے اپنا بیاہ نہیں کرنا ہے اماں سے پچاس ہزار روپے لے لوں گی اور مزے سے عیش کروں گی کیوں کسی مرد کی غلامی کروں؟ کھلائے تو دوروٹیاں اورحکومت ایسی جتائے گاجیسے اس کی زرخرید لونڈی ہوں، بندی باز آئی ایسی شادی سے، میں روز اماں کے ٹکٹ کے لئے ایشور سے پرارتھنا کرتی ہوں، اماں کہتی ہیں کنواری لڑکیوں کی دعا میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ میرا تو دل کہتا ہے اماں کو ضرور روپے ملیں گے۔‘‘

    مجھے اپنی ننھیال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک باردیہات میں بارش بالکل نہ ہوئی تھی بھادوں کا مہینہ آگیا اورپانی کی ایک بوند نہیں۔ تب گاؤں والوں نے چندہ کرکے گاؤں کی سب کنواری لڑکیوں کی دعوت کی تھی اوردوسرے دن موسلادھار بارش ہوئی تھی۔ ضرور کنواری لڑکیوں کی دعا میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ میں نے بکرم کی طرف پرمعنی نظروں سے دیکھا۔ نظروں ہی نظروں میں ہم نے فیصلہ کرلیا ایسا شفیع پاکر کیوں چوکتے۔

    بکرم بولا، ’’اچھا کنتی۔ تجھ سے ایک بات کہیں، کسی سے کہے گی تونہیں اگرکہا تو حلال کردوں گا۔ میں اب کے تجھے خوب دل لگا کر پڑھاؤں گا اور پاس کرادوں گا۔ ہم دونوں نے بھی لاٹری کا ٹکٹ لیاہے، ہم لوگوں کے لئے بھی ایشور سے دعا کرو۔ اگر روپے ملے تو تجھے ہیرے جواہرات سے مڑھ دیں گے سچ، مگرخبردار کسی سے کہنا مت۔‘‘

    مگر کنتی کا ہاضمہ مضبوط نہ تھا۔ یہاں تو وہ وعدہ کرگئی، مگر اندر جاتے ہی بھانڈا پھوڑ دیا۔ ایک ہی لمحہ میں سارے گھر میں خبر پھیل گئی۔ اب جسے دیکھئے ہم دونوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ پانچ روپے لے کر پانی میں ڈال دیئے، گھرمیں چار ٹکٹ تو تھے ہی پانچویں کی کیا ضرورت تھی۔ یہ ماسٹر اسے خراب کر رہاہے، نہ کسی سے پوچھا نہ گچھالے کے روپے پھینک دیے۔ خود رانصیحت والی کہانی سامنے آئی۔ گھر کے بزرگ چاہے گھر میں آگ لگادیں، کوئی کچھ نہ کہہ سکتا، بچارے چھوٹے ان کی مرضی کے خلاف آواز بھی نکالیں تو کہرام مچ جاتاہے۔

    بکرم کے والد ٹھاکر کہلاتے تھے، چچا چھوٹے ٹھاکر، دونوں ہی ملحد تھے، پکے ناستک، دیوتاؤں کے دشمن، پوجا پاٹ کا مذاق اڑانے والے۔ گنگا کوپانی کی دھارا اور تیرتھوں کو سیر کے مقامات سمجھنے والے۔ مگر آج کل دونوں ہی معتقد ہوگئے تھے۔ بڑے ٹھاکر صاحب علی الصبح ننگے پاؤں اشنان کرنے جاتے، اورادھر سے شہر کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہوئے کوئی گیارہ بجے گھر لوٹتے تھے۔ چھوٹے ٹھاکر گھر ہی میں بیٹھے ہوئے روز ایک لاکھ رام نام لکھ کر تب جل پان کرتے۔

    دونوں صاحب شام ہوتے ہی ٹھاکر دوارے میں جابیٹھتے اور بارہ بجے رات تک بھاگوت کی کتھا سنا کرتے تھے۔ بکرم کے بھائی صاحب کا نام تھا پرکاش، انہیں سادھوسنتوں سے عقیدت ہوگئی تھی، انہیں کی خدمت میں دوڑتے رہتے۔ انہیں یقین ہوگیا تھاکہ جہاں کسی مہاتما نے آشیرواد دیا اوران کا نام آیا۔ رہیں بکرم کی اماں جی ان میں ایسا کوئی خاص تغیرتو نہ تھا۔ ہاں آج کل خیرات زیادہ کرتی تھیں اوربرت بھی زیادہ رکھتی تھیں۔ درگاپاٹ کابھی انتظام کیاتھا۔ لوگ ناحق کہتے تھے کہ مادہ پرستوں میں اعتقاد نہیں ہوتا۔ میں تو سمجھتا ہوں ہم میں جو اعتقاد اورپرستش اور دین داری ہے وہ ہماری مادہ پرستی کے طفیل، ہمارا دین اورمذہب ہماری دنیاکے بلی پرلٹکا ہوا ہے۔

    ہوس انسان کی رائے اور دماغ میں اتنی روحانیت پیدا کرسکتی ہے یہ میرے لئے نیاتجربہ تھا اور محض روحانیت کا ملمع نہ تھا۔ وہی خلوص، وہی نشہ، وہی انہماک گویا طبیعت ہی بدل گئی ہو۔ رہے ہم دونوں، ساجھے دارتھے۔ ہمارے پاس روپے نہ تھے، نہ اتنا وقت تھا۔ مجھے نوکری بچانی تھی بکرم کو کالج جانا تھا۔ ہم دونوں ہاتھ مل رہے تھے۔ جوتشیوں کی تلاش میں رہتے تھے مگر ان کے لئے ہمارے پاس نیازمندی اور خدمت گزاری کے سوا اور کیا تھا۔

    جوں جوں قتل کی رات قریب آجاتی جاتی تھی ہمارا سکون غائب ہوتاجاتا تھا۔ ہمیشہ اسی طرف دھیان لگارہتا۔ میرے دل میں خواہ مخواہ یہ شبہ ہونے لگا کہ کہیں بکرم مجھے حصہ دینے سے انکارکردے تو کیا کروں۔ صاف انکار کرجائے کہ تم نے ٹکٹ میں ساجھا ہی نہیں کیا، نہ کوئی دوسرا ثبوت، سارادارومدار بکرم کی نیت پرہے۔ اسی کی نیت میں۔۔۔ ذراسا خلل آیا اور میرا کام تمام، کہیں فریادنہیں کرسکتا۔ زبان تک نہیں کھول سکتا۔ اب اگر تحریر کے لئے کہوں تو بدمزگی کے سوا اورکوئی نتیجہ نہیں، اگر اس کی نیت بگڑگئی ہے تب تووہ ابھی سے انکار کردے گا۔ لیکن بھئی دولت پاکر ایمان سلامت رکھنامشکل ہے۔ ابھی تو روپے نہیں ملے ہیں۔ اس وقت ایماندار بننے میں کچھ ہرج نہیں ہوتا، آزمائش کا وقت توجب آئے گاجب روپے مل جائیں گے۔ میں نے اپنے باطن کا جائزہ لیا۔ اگرٹکٹ میرے نام کا ہوتا اورحسن اتفاق سے میرا نام آجاتا تو کیا میں نصف رقم بے چوں و چرا بکرم کے حوالے کردیتا۔۔۔؟ قرض دیئے تھے ان کے پانچ لے لو اور کیا کروگے؟مگرنہیں شایداتنی بددیانتی کرنے کی مجھ میں جرأت نہ تھی۔ اگردیتابھی توخوش معاملگی سے نہیں بلکہ بدنامی اور تشہیر کے خوف سے۔ ایک دن ہم دونوں بیٹھے اخبارپڑھ رہے تھے کہ یکایک بکرم نے کہا، ’’ہمارا ٹکٹ نکل آئے، مجھے دل میں یہ افسوس ضرور ہوگا کہ ناحق تم سے ساجھا کیا۔‘‘

    میں نے چونک کرکہا، ’’اچھا مگراسی طرح کیامجھے افسوس نہیں ہوسکتا؟‘‘

    ’’لیکن ٹکٹ تومیرے نام کا ہے۔‘‘

    ’’اس سے کیا ہوتاہے۔‘‘

    ’’اچھا مان لو، میں کہہ دوں، تم نے ٹکٹ میں ساجھاہی نہیں کیا۔‘‘

    ’’میرے خون کی حرکت بندہوگئی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔‘‘

    ’’میں تمہیں اتنابدنیت نہیں سمجھتا۔‘‘

    ’’مگر ہے بہت ممکن، پانچ لاکھ، سوچو۔‘‘

    ’’توآؤ لکھا پڑھی کرلو، جھگڑا کیوں رہے۔‘‘

    بکرم نے ہنس کر کہا، ’’تم بڑے شکی ہویار تمہارا امتحان لے رہا تھا۔ بھلا ایسا کہیں ہوسکتاہے۔ پانچ لاکھ نہیں پانچ کروڑ کا معاملہ ہوتب بھی ایشور چاہے گا تونیت میں فتور نہ آنے دوں گا۔‘‘

    مگرمجھے ان اعتماد انگیزباتوں سے تشفی نہ ہوئی، دل میں ایک تشویش آگ کی چنگاری کی طرح سلگنے لگی۔ کہیں سچ مچ انکار کر جائے تو کہیں کا نہ رہوں۔

    میں نے کہا، ’’یہ تو میں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت میں فتور نہیں آسکتا۔ لیکن تحریر سے پابند ہوجانے میں کیا حرج ہے؟‘‘

    ’’فضول ہے۔‘‘

    ’’فضول ہی سہی۔‘‘

    ’’تو پکے کاغذ پر لکھنا پڑے گا۔ دس لاکھ کی کورٹ فیس ہی دس ہزار ہوجائے گی کس خیال میں ہو آپ۔‘‘

    میں نے تامل کرکے کہا، ’’مجھے سادے کاغذ ہی سے اطمینان ہوجائے گا۔‘‘

    ’’جس معاہدے کی کوئی قانونی اہمیت نہ ہو، اسے لکھ کرکیوں وقت ضائع کریں؟‘‘

    ’’قانونی اہمیت نہ ہو، اخلاقی اہمیت تو ہے۔‘‘

    ’’اچھا لکھ دوں گا، جلدی کیا ہے۔‘‘

    مجھے دال میں کچھ کالا نظرآیا، بگڑکر بولا، ’’تمہاری نیت توابھی سے بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    ’’توکیا تم ثابت کرنا چاہتے ہوکہ ایسی حالت میں تمہاری نیت فاسد نہ ہو جاتی۔‘‘

    ’’میری نیت اتنی کمزورنہیں ہے۔‘‘

    ’’اجی رہنے بھی دو بڑے نیت والے دیکھے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے اپنے اوپر اعتبار نہیں رہا۔ میں تم سے معاہدہ لکھواکر چھوڑوں گا چاہے دوستی کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔‘‘

    بڑے نشست خانے میں جہاں دونوں ٹھاکر بیٹھاکرتے تھے، اسی طرح کا مناظرہ چھڑا ہوا تھا۔ جھڑپ کی آواز سن کر ہمارا دھیان ادھرلگا۔ دیکھا تو دونوں بھائیوں میں ہاتھا پائی ہورہی ہے۔ سچ مچ اپنی کرسیوں سے اٹھ کر پینترے بدل رہے تھے۔

    چھوٹے نے کہا، ’’مشترکہ خاندان میں کسی کے نام سے روپیہ آئے، ان پر سب کا مساوی حق ہے۔‘‘

    بڑے ٹھاکر نے بگڑکرجواب دیا، ’’ہرگزنہیں، جاکر قانون دیکھو اگرمیں کوئی جرم کروں تو مجھے سزاہوگی۔ مشترکہ خاندان کونہیں، یہ انفرادی معاملہ ہے۔‘‘

    ’’اس کافیصلہ عدالت کرے گی۔‘‘

    ’’شوق سے عدالت جائیے، اگر میرے لڑکے کی بیوی یا خود میرے نام لاٹری نکلی تو آپ کواس سے کوئی تعلق نہ ہوگا، جیسے آپ کے نام لاٹری نکلے تومجھ سے یا میری لڑکی سے یا میری بیوی سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔‘‘

    ’’اگر میں جانتا۔ آپ یہ پہلواختیار کریں گے تو اپنی بیوی بچوں کے نام سے ٹکٹ لے لیتا۔‘‘

    ’’تو یہ آپ کاتصور ہے۔‘‘

    ’’اسی لئے مجھے خیال تھاکہ آپ میرے حقیقی بھائی ہیں اورایک جا معاملہ ہے۔‘‘

    ’’یہ جوا ہے، یہ آپ کوسمجھ لیناچاہئے۔‘‘

    بکرم کی ماں نے دونوں بھائیوں کوشمشیر بکف دیکھا تودوڑی ہوئی باہر آئیں اور دونوں کو سمجھانے لگیں۔

    چھوٹے ٹھاکر صاحب بھرائی ہوئی آوازمیں بولے، ’’آپ مجھے کیا سمجھاتی ہیں انہیں سمجھائیے جوبھائی کی گردن پر چھری پھیررہے ہیں۔ آپ کے پاس چار ٹکٹ ہیں میرے پاس صرف ایک، میرے مقابلے میں آپ لوگوں کوروپے ملنے کا چوگنا چانس ہے۔‘‘

    بڑے ٹھاکر سے نہ رہا گیا بولے، ’’ہم نے بیس روپے نہیں دیئے ٹھناٹھن۔‘‘

    اماں نے انہیں ملامت کے اندازمیں دیکھا، اورچھوٹے ٹھاکرصاحب کوٹھنڈاکیا بولیں، ’’تم میرے روپے سے آدھے لے لینا۔ میں اپنے بیٹے۔۔۔‘‘

    بڑے ٹھاکر نے زبان پکڑلی، ’’کیوں واہیات قسم کھارہی ہو، وہ کیوں آدھا لے لیں گے۔ میں ایک دھیلابھی نہیں چھونے دوں گا۔ اگرہم انسانیت سے کام لیں تو بھی انہیں پانچویں حصے سے زائد کسی طرح نہ ملے گا۔ آدھے کا دعوا کس بنا پر ہو سکتا ہے۔‘‘

    چھوٹے ٹھاکر صاحب نے خونی نظروں سے دیکھا، ’’ساری دنیا کا قانون آپ ہی جانتے ہیں۔‘‘

    ’’جانتے ہیں۔ بیس سال تک وکالت نہیں کی ہے؟‘‘

    ’’یہ وکالت نکل جائے گی۔ جب سامنے کلکتہ کابیرسٹر کھڑا کردوں گا؟‘‘

    ’’بیرسٹر کی ایسی تیسی۔‘‘

    ’’اچھا زبان سنبھالئے میں نصف لوں گا۔ اسی طرح جیسے گھرکی جائیداد میں میرا نصف ہے۔‘‘

    بڑے ٹھاکر صاحب کوئی توپ چھوڑنے والے ہی تھے کہ مسٹرپرکاش، سراور ہاتھ میں پٹی باندھے خوش خوش لنگڑاتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔ بڑے ٹھاکر صاحب نے گھبراکر پوچھا، ’’یہ تمہیں کیاہوگیا، ارے یہ چوٹ کیسی، یہ کسی سے جھگڑا ہوا۔ کہیں گرپڑے۔ ارے منگواجاتو ڈاکٹرکوبلالا۔‘‘

    اماں جی نے پرکاش کوایک کرسی پرلٹادیااور وفودشک سے کچھ پوچھ نہ سکتیں تھیں۔

    پرکاش نے کراہ کرحسرت ناک لہجے میں کہا، ’’کچھ نہیں، ایسی کچھ چوٹ نہیں لگی۔‘‘ بڑے ٹھاکر صاحب جو غم وغصہ سے کانپ رہے تھے۔ کہا،’’ کیسے کہتے ہو چوٹ نہیں لگی۔ سارا ہاتھ اورسرسوج گیا ہے۔ کہتے ہیں چوٹ نہیں لگی۔ کس سے جھگڑا ہوا، کیا معاملہ ہے۔ بتلاتے کیوں نہیں۔ میں جاکر تھانے میں رپٹ کرتا ہوں۔‘‘

    ’’آپ ناحق گھبراتے ہیں بہت معمولی چوٹ ہے دوچار روزمیں میں اچھی ہوجائے گی۔‘‘ اس کے چہرے پراب بھی ایک مسرت آمیز امید جھلک رہی تھی۔ ندامت غصہ یاانتقام کی خواہش کا نام تک نہ تھا۔

    اماں نے آواز کوسنبھال کر پوچھا، ’’بھگوان کریں جلداچھے ہوجاؤ۔ لیکن چوٹ لگی کیسے کسی تانگہ پرسے گرپڑے۔‘‘

    پرکاش نے درد سے ناک سکوڑ کرمسکراتے ہوئے کہا، ‘‘کچھ نہیں، نہ کسی تانگہ سے، نہ کسی سے جھگڑا ہوا۔ ذرا جھگڑا بابا کے پاس چلاگیاتھا۔ یہ انہی کی دعا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں وہ آدمیوں کی صورت سے بھاگتے ہیں اورپتھرمارنے دوڑتے ہیں، جو دوڑ کربھاگا وہ نامراد رہ جاتاہے جوپتھر کی چوٹیں کھاکربھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتااس کی مرادپوری ہوجاتی ہے۔ بس یہی سمجھ لیجئے چوٹ کھائی اور پاس ہوئے۔ آج میں وہاں پہنچا تو ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ کوئی مٹھائیاں لئے کوئی پھولوں کی مالا، کوئی شال دوشالے۔ جھگڑا بابا استغراق کی حالت میں بیٹھے تھے۔ یکایک انہوں نے آنکھیں کھولیں اوریہ مجمع دیکھا تو گالیاں بکتے ہوئے کئی پتھراٹھاکردوڑے۔ مجمع میں بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ گرتے پڑتے بھاگے لیکن بندہ وہاں قطب مینار کی طرح ڈتارہا۔ بس انہوں نے پتھر چلاہی دیا۔ پہلاپتھر سرمیں لگا کھوپڑی بھناگئی، معلوم ہوا جیسے گولا لگ گیاہو۔ آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا۔ ابھی سنبھلنے بھی نہ پایاتھا کہ دوسرا پتھرہاتھ میں لگا، میں وہیں ڈھیرہوگیا۔ باباگالیاں بکتے ہوئے لوٹ گئے ادھر گھنٹہ بھر تک مجھ سے اٹھا ہی نہ گیا۔ آخر ہمت باندھ کراٹھا اورڈاکٹرصاحب کے پاس گیا اور انہوں نے کہاکہ فریکچر ہوگیاہے، پٹی باندھ دی۔ بڑی شدت کادرد ہے مگرمرادپوری ہوگئی اب لاٹری میرے نام آئی رکھی ہے۔ مطلق شبہ نہیں سب سے پہلے جھگڑا بابا کی کٹی بناؤں گا۔ ان کی مار کھاکرآج تک کوئی نامراد نہیں لوٹا۔‘‘

    بڑے ٹھاکر صاحب نے اطمینان کاسانس لیا۔ اماں جی کا اندیشہ بھی دورہوگیا، سر پھٹا توکیاہوا۔ ہاتھ بھی ٹوٹاتوکیاغم ہے لاٹری تواپنی ہوگی۔

    شام ہوگئی تھی، بڑے ٹھاکر صاحب مندر کی طرف چلے گئے، بھگوت سننے کاوقت آگیاتھا۔ چھوٹے ٹھاکرصاحب وہیں بیٹھے رہے ان کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ بولے، ’’جھگڑابابا تووہیں رہتے ہیں ندی کے کنارے نیچے میں۔‘‘

    پرکاش نے بے اعتنائی سے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’کیا بہت زور سے مارتے ہیں؟‘‘

    پرکاش نے ان کاعندیہ سمجھ لیا۔

    ’’آپ زور سے کہتے ہیں، ارے صاحب ایسا پتھرمارتے ہیں کہ بم کے گولے سا لگتا ہے۔ دیوساتھ ہے اور شہ زوراتنے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ شیروں کوگھونسے میں مارڈالتے ہیں۔ اف سرپھٹاجارہاہے۔ ان کا نشانہ ایسا بے خطا ہوتا ہے کہ آدمی بچ ہی نہیں سکتا ایک دوپتھر سے زیادہ کھانے کی کسی میں تاب ہی نہیں۔ جب تک گرنہ پڑیں، مگررازیہی ہے کہ آپ جتنے زیادہ پتھر کھائیں گے اتناہی اپنے مقصد کے قریب پہنچیں گے۔ ایک چوٹ کھاکر جان بچانے کے لئے کوئی بہانہ کرکے گرپڑے تو اس کا پھل بھی اتناہی ملتا ہے۔ آدھا یا اس سے کم۔ میں نے توٹھان لیا تھا کہ چاہے مرہی جاؤں لیکن جب تک نہ گرپڑوں پیچھا نہ چھوڑوں گا۔‘‘

    پرکاش نے ایسی ہیبت ناک مرقع کھینچا کہ چھوٹے ٹھاکر صاحب کانپ گئے جھگڑا بابا کی کٹیامیں جانے کی ہمت نہ پڑی۔

    آخرجولائی کی بیسویں تاریخ آئی، سویرے ہی ڈاک خانے کے سامنے کئی ہزار آدمیوں کامجمع ہوگیا۔ تارکاانتظارہونے لگا۔ دونوں ٹھاکروں نے گھڑی رات رہے گنگا اشنان کیا اورمندرمیں پوجا کرکے ہم دونوں ساجھے داروں نے اپنااپنا کام تقسیم کرلیا۔ بکرم توڈاک خانہ گیا۔ میں مندرمیں دیوتاؤں کے قدموں میں جابیٹھا۔ دونوں ٹھاکر بھی بیٹھے پوجا کررہے تھے۔ ان کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک جاتاتھا۔ بالکل بچوں کی سی کیفیت تھی، جوذرا سی بات میں ہنس دیتے ہیں اورذرا سی بات میں رودیتے ہیں۔

    بڑے ٹھاکر نے پوچھا، ’’بھگوان تواپنے بھگتوں پربڑی دیارکھتے ہیں۔ کیوں پجاری جی؟‘‘ پجاری نے فرمایا، ’’ہاں سرکار!‘‘

    ’’گج (۱) کوگراہ کے منہ سے بچانے کے لئے بھگوان چھپرساگرسے دوڑتے تھے۔ چھوٹے ٹھاکر نے پوچھا،’’ بھگوان توانترجامی، عالم الغیت ہیں، کس میں کتنی بھگتی ہے، یہ کیا ان سے چھپا رہتا ہے۔‘‘

    پجاری نے فرمایا، ’’نہیں سرکار ان سے کیا چھپا ہے۔‘‘

    ادھرپوجاہورہی تھی۔ ادھرمندر کے باہرمساکین کوغلہ تقسیم کیاجارہا تھا۔

    بڑے ٹھاکر نے پوچھا، ’’تمہارا دل کیا چاہتا ہے پجاری جی۔‘‘

    پجاری نے فرمایا، ’’آپ کی پھتے (فتح) ہوگی سرکار۔‘‘

    چھوٹے سرکار نے پوچھا، ’’اورمیری۔‘‘

    پجاری نے بے تکلف کہا، ’’آپ کی بھی پھتے ہوگی۔‘‘

    دونوں آدمیوں کی فتح کیسے ہوگی، اس پر غورکرنے کی وہاں کسے فرصت تھی۔

    کتھا ختم ہوگئی توبڑے ٹھاکر صاحب نشہ عقیدت سے سرشار مندرسے نکلے، بھجن گاتے ہوئے،

    سو میں تو تیری چرنوں میں آیا

    چھوٹے ٹھاکر صاحب بھبھوت لپیٹے حمدوثنا میں مصروف تھے،

    پیروں تلے بچھایا کیا خوب فرشِ خاکی

    اورسر پر لا جور کیا آسمان بنایا

    زندگی میں جب تیرا ہم کو ہمیشہ تھا خیال

    بعد مردن بھی ہوس دل میں وہی لے جائیں گے

    پرکاش بابوپٹیاں باندھے غریبوں کوغلہ بانٹ رہے تھے۔ اوربار بار فون پرجاکر پوچھتے کیا خبر ہے۔ ہرشخص کے چہرے پرامیدوبیم کا رنگ تھا۔ امیدرگوں میں، آنکھوں میں، ہر شخص میں امڈی پڑی تھی۔ اورہمارے دل میں دماغ میں، جگرمیں رعشہ پیدا کررہاتھا۔

    ٹیلی فون کی گھنٹی زور سے بجی سب کے سب دوڑے، رسیو ر بکرم کے ہاتھ لگا، ’’کون ہے؟‘‘

    ’’میں ہوں بکرم۔‘‘

    ’’کیا خوشخبری ہے۔‘‘

    ’’اس شہرکاصفایا ہے، شہرہی کافی نہیں، سارے ہندوستان کا، امریکہ کے ایک آدمی کانام آیاہے۔‘‘

    پرکاش بابوزمین پرگرپڑے۔ بڑے ٹھاکر صاحب پرجیسے فالج گرگیاہو۔ بے حس و حرکت نقش دیوار کی طرح کھڑے رہ گئے۔ چھوٹے ٹھاکر صاحب سرپیٹ کررونے لگے۔

    رہامیں، مجھے مایوسی کے ساتھ ایک حاسدانہ مسرت ہورہی تھی کہ مجھے بکرم کی خوشامد کرنے کی ذلت نہیں اٹھانی پڑی۔ اماں جان باہر نکل آئیں اورکہہ رہی تھیں سبھوں نے بے ایمانی کی، کون وہاں دیکھنے گیاتھا۔

    اس روزرات کوکسی نے کھانا نہیں کھایا۔ بڑے ٹھاکر صاحب نے پجاری جی پر غصہ اتاردیا اورانہیں برخاست کردیا اسی لئے تمہیں اتنے دنوں سے پال رکھا ہے حرام کا مال کھاتے ہو اور چین کرتے ہو۔

    اتنے میں بکرم رونی صورت لئے آکر بیٹھ گیا۔

    میں نے پوچھا، ’’اب معاملہ ختم ہوگیا، مگرسچ کہنا، تمہاری نیت فاسد تھی یا نہیں؟‘‘

    بکرم نے بے غیرتی کے ساتھ مسکراپڑا، ’’اب کیاکروگے پوچھ کر، پردہ ڈھکارہنے دو۔‘‘

    (۱) روایت ہے کہ ایک بارہاتھی (گج) ندی میں پانی پینے گیا۔ ندی میں ایک مگرمچھ تھا اس نے ہاتھی کی ناک پکڑلی۔ ہاتھی نے تب بھگوان کی یاد کی اور بھگوان نے اپنی جائے قیام چھپرساگر اودھ کے سمندرسے ہاتھی کی مدد کی۔

    مأخذ:

    پریم چند کے شاہکار افسانے (Pg. 22)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے