لوگ سر اٹھائے ہوئے اس بھیانک ہاتھ کو تک رہے تھے جو ایک عظیم الجثہ مچھلی کی طرح فضا میں تیر رہاتھا۔ ہزار بارہ سو فٹ لمبا ہاتھ، جمبو جیسا بے ڈول ہاتھ، اژدہے جیسا فربہ ہاتھ۔
سب اسی کو دیکھ رہے تھے۔ اسی کو تک رہے تھے۔ اتنا بڑا ہاتھ انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسے ہاتھ کے بارے میں انہوں نے کبھی نہیں سنا تھا۔ کسی داستان میں بھی نہیں اور نہ کسی کتھامیں!
انہوں نے ہاتھ کے اس قدر لمبے ہونے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ گمان بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ہاتھ اتنا بڑا ہو سکتا ہے۔
ہاتھ واقعی بہت لمباتھا۔
بہت فربہ تھا۔
بہت کڑا تھا۔
اسے دیکھ کر دہشت ہوتی تھی، جی ڈرتا تھا، گمان ہوتا تھا کہ جیسے وہ ملک الموت کاہاتھ ہو، جو اپنے شکنجے میں کسنے کو ہمارے گلے کی طرف بڑھ رہاہو یا فضا میں معلق وہ کوئی چٹان ہو جو کسی بھی لمحہ ہم پر بیٹھ سکتی ہو۔ لیکن وہ تو صرف ایک ہاتھ تھا جسے دیکھ کر دہشت ہوتی تھی، جی ڈرتا تھا۔
’’تم کب تک اسے یوں ہی تکتے کھڑے رہو گے؟‘‘
’’آں!‘‘ وہ جیسے نیند سے چونکے۔
سب کی گردنیں گھومیں۔ سبھی کی آنکھوں سے خوف اُمڈ رہا تھا۔ وہ چبوترے پر کھڑا تھا۔
’’کیوں دیکھ رہے ہو میری طرف رحم طلب نظروں سے؟‘‘
’’کیوں خوف امڈا جارہا ہے تمہاری آنکھوں سے؟‘‘
’’آں!‘‘ وہ نیند سے پھر چونک پڑے۔
ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کے سامنے فقیروں اور سوالیوں کی طرح کیوں کھڑے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی علم نہیں تھا کہ ان کی آنکھوں سے ڈر آنسو بن کر اترنے والا ہے۔ وہ اسی کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ انہیں امید تھی کہ وہ انہیں راستہ دکھائے گا۔ انہیں اس آفت سے نجات دلائے گا۔
وہ بولا، ’’میری طرف رحم طلب نظروں سے مت دیکھو۔ مت ڈرو اس سے۔
وہ کوئی بلا نہیں کہ آسمان سے نازل ہوئی ہو تم پر
وہ کوئی جن نہیں کہ جو فنا کردے گا تم سب کو۔
وہ ایک ہاتھ ہے، صرف ہاتھ۔‘‘
’’اتنا بڑا ہاتھ۔ اتنا سنگین ہاتھ! اتنا بھیانک اور ڈراؤنا ہاتھ۔‘‘
’’ہاں، وہ بڑا بھی ہے اور سنگین بھی۔ وہ ڈراؤنا بھی ہے اور بھیانک بھی۔ لیکن تمہیں نہ اس کی جسامت سے ڈرناچاہیے نہ اس کی سنگینی سے خوف کھانا چاہیے اور نہ اس کی صورت سے ہیبت زدہ ہی ہونا چاہیے۔‘‘
جب یہ جملے ان کے کانوں میں پڑے تو ان کی ڈھارس بندھی۔ ان کے سینوں میں ٹوٹتی ہوئی ہمت بندھی۔ انہیں اپنے اندر پگھلتی ہوئی قوت کے تھمنے کا احساس ہوا۔
’’یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ کیا ہے؟ یہ ہم پر کیوں مسلط ہے؟ ہم سے یہ چاہتا کیا ہے؟‘‘
وہ مسکرایا،
’’تم اتنے ڈرتے ہو اس سے! اتنے خوف زدہ ہو!
مجھے تو شبہ ہوتا ہے تمہاری مردانگی پر۔
دیکھتے نہیں کہ وہ ایک ہاتھ ہے۔ صرف ایک ہاتھ!
اور وہ تم پر محض اسی لیے مسلط ہوا کہ تم نے اسے اپنے آپ پر مسلط ہونے کا موقع دیا۔ اسے ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ نہ تلوار اٹھائی، نہ بندوق۔ نہ تو جنگ ہی کی نہ جدوجہد۔ اور یہ کوئی پوچھنے کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ تم سے کیا چاہتا ہے۔ دیکھتے نہیں کہ اس کی مٹھی بھنچی ہوئی ہے اور اس میں سے خون سے ٹپک رہا ہے۔‘‘
’’خون۔۔۔ خون۔۔۔ خون۔۔۔‘‘
سبھی کے منہ سے نکلا۔ سب ڈر کر ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔
کئی اونچی اونچی چمنیاں تھیں۔ ہر چمنی اپنے دہانے سے آگ اگل رہی تھی اور شعلے اپنی زبانیں لپ لپاکر وہ خون چاٹ رہے تھے۔ اس منظر نے انہیں لرزادیا اور وہ چیخ پڑے، ’’ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اور یہ۔۔۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ خون کس کا ہے؟‘‘
’’میں تمہیں بتاسکتاہوں کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ لیکن میں تمہیں ہرگز نہیں بتاؤں گا کہ یہ خون کس کا ہے؟‘‘
’’کیوں۔۔۔ کیوں نہیں بتاؤگے تم؟‘‘
’’تمہیں اتنی سمجھ تو ہونی ہی چاہئے تھی۔ اپنی جان کا خیال تو کرنا ہی چاہئے تھا۔ اپنی قوت کے زائل ہونے کا احساس، اپنی کمزوری، اپنا لاغری کی فکر تو تمہیں ہونی ہی چاہیے تھی لیکن تم تو ٹھہرے نرے مورکھ۔۔۔ خیر! تم نے کبھی کسی مریض کو اسپتال میں خون لیتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں دیکھا ہے، دیکھا ہے۔‘‘
’’تو تم نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ بوتل سے ایک نلی لگی ہوتی ہے اورنلی کا دوسرا سرامریض کی نبض میں پیوست کردیا جاتاہے۔‘‘
اچانک ان کے ہاتھ اپنے دل کی طرف بڑھے۔
ایک لمبی سوئی ان میں سے ہر ایک کے دل میں پیوست تھی اور ایک پتلی سی ٹیوب اس سے منسلک!
کانپتی انگلیوں سے انہوں نے اسے چھوا۔
ٹیوب میں گرم گرم خون دوڑ رہا تھا۔
ان کی انگلیاں ٹیوب پر کپکپاتے ہوئے چلنے لگیں، چلتے چلتے سر پر آگئیں، پھر اوپر اٹھیں، اوپر اور اوپر۔ پھر ٹھہرگئیں۔ کیونکہ ان کی رسائی وہیں تک تھی اور ٹیوب کادوسرا سراان کے سروں پر مسلط تھا اور اس ہاتھ سے جڑا ہوا تھا جو اپنی مٹھی بار بار کھینچ کر ان کے جسموں کا خون اوپر کھینچ رہا تھا۔
’’اے بھگوان۔ اے رام۔۔۔‘‘ وہ چیخے اور دھڑام سے زمین پر گرپڑے۔
ان میں سے کئی ایک نے اس ٹیوب کو اپنے ہاتھوں کے جھٹکوں سے توڑنا چاہا لیکن ٹیوب انتہائی لچک دار تھا۔ وہ اسے جتنا کھینچتے کھنچتا چلا جاتا، یہاں تک کہ دھاگا جیسا ہوجاتا، مگر پھر بھی نہیں ٹوٹتا۔
کئی دوڑے دوڑے جھونپڑوں میں گئے اور وہاں سے چھریاں اور چاقو اٹھالائے۔ پھر انہوں نے ان ہتھیاروں سے اسے کاٹنا شروع کیا۔ ٹیوب کٹا۔ لیکن وہ ابھی اطمینان کا سانس بھی نہ لینے پائے تھے کہ اوپر سے ٹیوب کی لمبائی بڑھی اور قدرتی طور پر ان کے دل میں گڑی ہوئی سوئی سے جڑگئی۔ وہ ٹیوب کاٹتے جاتے تھے مگر ٹیوب کے سرے جڑتے جاتے تھے!
وہ ٹیوب کاٹتے اور سرے جڑتے!
ان کی لاچاری اور بے بسی قابل دید تھی۔
دراصل ان میں اور لاغر بچوں میں کوئی فرق نہ تھا۔
فرق تھا تو صرف عمروں کا۔
لیکن عمر تو سمجھ دیتی ہے، عقل دیتی ہے۔
حیف کہ ان کی عمر نے انہیں کچھ بھی نہیں دیا تھا۔
یوں بھی وہ کم سمجھ اور کم عقل لوگ تھے۔
وہ کم سننے اور کم بولنے والے لوگ تھے۔
وہ کم کھانے اور کم پہننے والے لوگ تھے۔
وہ ایسی زندگی کے مالک تھے کہ جس کے تقاضے بہت کم تھے!
رہنے کو گز ڈیڑھ گز زمین۔
کھانے کو مٹھی دو مٹھی اناج۔
پینے کو پیالا ڈیڑھ پیالا پانی۔
پہننے کو دوچار چیتھڑے۔
اور
ان کم سمجھوں، کم سخنوں، کم سماعت اور کم بصارت رکھنے والوں کی بستی پر وہ عفریت مسلط تھا اور ان کے جسموں سے قطرہ قطرہ خون لگاتار چوس رہا تھا۔
وہ بستی شہر کے قلب میں واقع تھی۔
اس کے اطراف میں بڑے بڑے کارخانے تھے۔
بڑی بڑی عمارتیں تھیں۔ بڑے بڑے ہوٹل تھے۔ بڑی بڑی تماش گاہیں تھیں، بڑی بڑی بینکیں تھیں، بڑی بڑی مارکیٹیں تھیں۔
لیکن
ان کارخانوں! ان بینکوں، ان مارکیٹوں، ان ہوٹلوں، ان تماش گاہوں کو جانے والے تمام راستے اسی بستی سے ہوکر گزرتے تھے۔ اس بستی کے دل سے۔
جب لمبی لمبی کاریں، بڑی بڑی بسیں اور بڑے بڑے طیارے ان پر سے گزرتے تو بستی کے بوڑھے، جوان، بچے سب انہیں حیرت سے دیکھتے۔ کبھی کوئی اپنا استعجاب چھپانہ پاتا تو ان رنگ برنگی اشیاکو دیکھ کر قلقاری مارنے لگتا۔۔۔ کبھی کوئی ان کے پیچھے دوڑنا شروع کردیتا اور کئی ایک نے تو ان کے آگے لیٹ کر ان کو اپنے اوپر سے گزرجانے کا سنسنی خیز تجربہ بھی کیا۔
لمحے منٹوں میں، منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں میں، دن سالوں میں اور سال صدیوں میں منتقل ہوتے رہے اور اسی طرح خون اِن باریک باریک ٹیوبوں کے ذریعے قطرہ قطرہ اس ہاتھ میں جمع ہوتا رہا۔
وہ دن بہ دن سیاہ سے سیاہ تر، کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے۔ اب تو ان کی کمریں بھی جھک چکی تھیں۔ انہیں دکھائی بھی نہیں دیتا تھا، وہ سن بھی نہیں سکتے تھے اور بولنا تو وہ کب کا بھول چکے تھے۔ بس ایک دوسرے کو چھوکر ایک دوسرے کی ضرورت سمجھ لیتے تھے اور کوشش کرتے کہ اپنی ضرورت خود پوری کرسکیں۔
چبوترے پر کھڑا ہوا شخص بھی بوڑھا ہوچکا تھا۔ اب کھڑے رہنے کے لیے اسے عصادرکار تھا۔
وہ انہیں آواز دیا کرتا۔
’’جاگو، اٹھو، بڑھو۔‘‘
لیکن اس کی آواز اس کے گلے ہی میں گھٹ کے رہ جاتی۔
وہ پکارتا،
’’جاگو، اٹھو، بڑھو۔‘‘
لیکن الفاظ اس کے ذہن ہی میں گونج کر رہ جاتے۔
وہ چیخ کر کہتا،
’’جاگو، اٹھو، بڑھو۔‘‘
بس اس کے صرف لب پھڑپھڑاتے لیکن منہ سے آواز نہ نکلتی۔
ایک دن
سارا عالم بقا۔۔۔ تحفظ۔۔۔ بقا۔۔۔ تحفظ۔۔۔ بقا۔۔۔ تحفظ۔۔۔ بقا۔۔۔ تحفظ۔۔۔ کے شور سے گونجنے لگا۔
انہیں یاد آیا۔
یہ الفاظ ہزاروں سال پہلے گھنے جنگلوں، اندھے غاروں میں انہوں نے سنے تھے۔ یہی وہ الفاظ تھے جو انہوں نے آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے سنے تھے۔ یہی وہ الفاظ تھے جو انہوں نے زلزلوں اور سیلابوں میں گھرے ہوئے اپنے ساتھیوں سے سنے تھے۔
اور آج
وہی آواز صدیوں کاسینہ چیرتی ہوئی ان تک پھر پہنچی تھی۔
پھر یہ ہوا کہ انہی میں سے چند نوجوان اٹھے، گویا ان کے کانوں میں صور پھونک دیا گیا ہو یا اس آواز پر لبیک کہنے وہ اٹھے ہوں۔
یا اس آواز کا خیر مقدم کرنے کے لیے؟
وہ آہستہ آہستہ چل کر اس بوڑھے تک پہنچے جو اَب بھی عصا تھامے چبوترے پر کھڑا من منا رہا تھا۔
’’جاگو، اٹھو، بڑھو، جاگو، اٹھو، بڑھو۔‘‘
انہوں نے اسے اپنے شانوں پر اٹھایا اور دور لے جاکر ایک چارپائی پر لٹادیا۔
پھر وہ خود اس چبوترے پر جاکر کھڑے ہوگئے۔
اور ایک ساتھ وہ اپنی پوری قوت سے چیخے۔
’’سنو! غور سے سنو۔
سنو! غور سے سنو۔
سنو! غور سے سنو۔‘‘
ان کی آواز ان کم عقلوں، کم سمجھوں کے کانوں میں پڑی۔
جو ضعیف ہوچکے تھے ان کے تو صرف کان ہی بجے، جو تندرست تھے صرف وہی سن پائے۔
’’ہمیں قربانی دینی ہوگی۔
قربانی دینی ہوگی۔
دینی ہوگی۔‘‘
’’ہمیں اپنی نجات کا سامان کرناہوگا۔
نجات کا سامان کرنا ہوگا۔
سامان کرنا ہوگا۔‘‘
’’ہمیں اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسل کے لیے اپنی جان دینی ہوگی۔
آئندہ نسل کے لیے جان دینی ہوگی۔
جان دینی ہوگی۔‘‘
’’ہمیں جاں بازوں کا گروہ تیار کرنا ہوگا۔
گروہ تیار کرنا ہوگا۔
تیار کرنا ہوگا۔‘‘
’’ہمیں اپنے ہاتھوں سے اپنی رگیں کاٹ کر خون دینا ہوگا۔
رگیں کاٹ کر خون دینا ہوگا۔
خون دینا ہوگا۔‘‘
’’جنہیں بار بار مرنے کے بجائے یک لخت جان دینا عزیز ہو۔
اور
جو قطرہ قطرہ خون دینے کے بجائے اکٹھا خون دینا چاہتے ہوں وہ آگے بڑھیں۔
آگے بڑھیں۔
ہم تک، ہمارے دلوں تک۔‘‘
کوئی آگے نہ بڑھا۔ کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ کسی نے جنبش تک نہ کی۔
نوجوان اپنی اپیل دہراتے رہے۔
’’سنو! غور سے سنو، سنو! غور سے سنو۔
ہمیں قربانی دینی ہوگی، قربانی دینی ہوگی۔
ہمیں اپنی نجات کا سامان کرنا ہوگا، نجات کا سامان کرنا ہوگا۔
ہمیں آئندہ نسل کے لیے اپنی جان دینی ہوگی، جان دینی ہوگی۔
ہمیں جاں بازوں کا گروہ تیار کرنا ہوگا۔ گروہ تیار کرنا ہوگا۔
ہمیں اپنی رگیں کاٹ کر خون دیناہوگا، خون دینا ہوگا۔
جنہیں لمحہ لمحہ موت کے بجائے اچانک موت کی خواہش ہو اور جو قطرہ قطرہ خون کے بجائے اکٹھا خون دینا چاہتے ہوں۔
وہ آگے بڑھیں۔ آگے بڑھیں۔
ہم تک، ہمارے دلوں تک۔‘‘
کوئی آگے نہ بڑھا، کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا، کسی نے جنبش تک نہ کی۔
سورج مشرق سے چلتے چلتے نصف النہار پر پہنچا۔
پھر ڈھلنے لگا۔
اور روپوش ہوگیا۔
پھر سورج نکلا، نصف النہار پر پہنچا، پھر ڈھل گیا۔
کتنے سورج نکلے، کتنے نصف النہار پر پہنچے اور کتنے روپوش ہوگئے؟
نوجوان بدستور اپنے الفاظ دہراتے رہے۔
’’سنو! غور سے سنو، سنو! غور سے سنو، سنو! غور سے سنو!‘‘
اس مجمع پر موت کی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
وقت لمحوں میں۔
اور خون قطروں میں بٹتا رہا۔
یوں محسوس ہونے لگا کہ اب یہ لوگ کاٹھ کے پتلوں میں بدل جائیں گے اور منظر فریز (FREEZ) ہوجائے گا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ہوا یہ کہ پہلے تو دور سے مکھیوں کی بھنبھناہٹ سنائی دی۔
پھر یہ بھنبھناہٹ بتدریج تیز ہوتی گئی۔
مجمع میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں اور مردوں کی طرح ساکت کھڑے ہوئے لوگ حرکت کرنے لگے تھے۔
وہ مڑ مڑ کر پیچھے دیکھ رہے تھے۔
اور ہاتھوں کے اشارے سے کسی کی نشان دہی کر رہے تھے۔
اچانک وہ مجمع دوحصوں میں بٹ گیا۔
ایک نوجوان لڑکا سینہ تانے، گردن اٹھائے تیز قدموں سے چلتا ان کے درمیان میں نظر آیا۔ وہ چبوترے ہی کی طرف آرہا تھا۔
چند لمحوں کے بعد وہ لڑکا اس چبوترے کے پاس پہنچ گیا۔
چبوترے پر کھڑے ہوئے نوجوانوں کے چہرے دمک اٹھے۔
مجمع میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔
وہ دبے دبے جوش کے ساتھ مختلف آوازیں نکالنے لگے۔
ہاتھ اٹھا اٹھاکر اپنے جذبات کااظہار کرنے لگے۔
چبوترے پر کھڑے ہوئے تمام نوجوان اس لڑکے کے استقبال کو نیچے اتر آئے۔ انہوں نے باری باری اس کاماتھا چوما، اسے گلے لگایا۔ پھر اسے لے کر وہ مجمع تک پہنچے۔
مجمع میں شامل ہر شخص سے انہوں نے اس نوجوان کا تعارف کرایا۔
ان کے تعارف کاانداز بالکل نرالا تھا۔
پہلے وہ مجمع میں کھڑے آدمی کا نام معلوم کرتے۔ وہ شخص جو نام بتاتا اسی نام سے یہ اس نوجوان کو اس شحص سے متعارف کراتے۔ اس نوجوان کو مجمع کے تمام لوگوں سے فرداً فرداً اسی انداز سے جب وہ متعارف کراچکے تو پھر وہ چبوترے پر چڑھ گئے۔
اب وہ وقت آچکا تھا۔
نوجوانوں کی آنکھیں روشن تھیں۔ چہروں پر عزم و جلال کی سرخی!
انہوں نے ایک ساتھ گردن اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھا۔
وہ ہاتھ عظیم الجثہ مچھلی کی طرح فضا میں تیر رہاتھا۔
پھر انہوں نے اپنی نظریں نوجوان پر مرکوز کردیں۔
وہ نوجوان گویا اِن کی ہدایت کا منتظر تھا۔
انہوں نے پھر اسے اپنا فرض ادا کرنے کی اجازت دے دی۔
وہ نوجوان دو قدم آگے بڑھ کر چبوترے کے سرے پر پہنچ گیا۔
بجلی کی سرعت سے اس نے اپنی جیب سے چاقو نکالا۔
چاقو کی نبض پر انگلی رکھی۔
ہاتھ فضا میں بلند کیا۔
چاقو کاپھل نیزے کی انی کی طرح چمچمانے لگا۔
وہ زور زور سے نعرے لگانے لگے۔
ہاتھ اٹھا اٹھاکر اپنے جوش کا مظاہرہ کرنے لگے۔
نوجوان نے چاقو کے دستے کو اپنی دونوں مٹھی میں جکڑ لیا۔ اس کا پھل اپنی جانب کیا۔
دوسرے ہی لمحے۔
اس نے وہ خنجر اپنے دل میں اتارلیا۔
اسی لمحہ، اسی پل
وہ ہاتھ، وہ عظیم الجثہ ہاتھ، وہ جمبو جیسا بے ڈول ہاتھ،
وہ اژدہے جیسا فربہ ہاتھ، وہ فولاد جیسا کڑا ہاتھ
اچانک لرزا
اور بڑی دیر تک لرزتا رہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.