Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میری ڈائری کے چند ورق

اختر حسین رائے پوری

میری ڈائری کے چند ورق

اختر حسین رائے پوری

MORE BYاختر حسین رائے پوری

    12 جون
    اس عالم بیداری میں جانداروں کے اس اژدھام عظیم میں زندگی کی اس پر شور روانی میں رہتے ہوئے بھی محسوس ہوتا ہے کہ میں اکیلا ہوں۔ اکیلا، بالکل اکیلا، میری تنہائی اس قیدی سے بھی زیادہ المناک ہے جو ایک چہار دیواری میں بند ہونے کے بعد یہ سوچ ہی رہا ہو کہ اسیروں کے اس انبوہ میں کوئی دادرس نکل آئےگا اور یک بیک بلا اطلاع اسے ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا جائے اس کے ساتھی دنیا کو آواز دینے کے لئے جس بیقراری کا اظہار کرتے ہیں وہ فریاد بھی اس سیہ بخت کے لئے اتنی ہی مبہم ہو جاتی ہے۔ جتنی ہوا کی مسلسل ہچکیاں میری بےچارگی کو صرف وہ ستارہ سمجھ سکتا ہے جو افقِ بعید سے بھی پرے اس حسرت میں جھلملاتا رہتا ہے کہ اس کی تابانی کو کوئی نگاہ دیکھے اور ہمیشہ کے لئے خیرہ ہو جائے۔

    ہر روز کی طرح آج بھی میں بہت سی غلط عبارتوں کو پڑھ کر تھک چکا ہوں جن کا ماحصل روپیہ ہے اور میری آنکھیں ان دوپایوں کو دیکھ کر پتھرا گئی ہیں جو زندگی کے رتھ میں روپیوں کے پہئے ڈال کر خدا سے ملنے چلے جا رہے ہیں۔ سرِ شام سے میں بستر پر لیٹا ہوا ہوں اور میری روح میلے کپڑوں کے ساتھ الگنی پر لٹکی ہوئی ہے۔ صبر و سکون کے بجائے یہ لمحات میرے لئے اور بھی جان لیوا ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی ایک تشنۂ آب اندھے کنوئیں کی طرح ہے جس میں مشاہدات کے کنکر گرتے ہیں تو ’’میں‘‘ کی صدائے بازگشت آسمان پر حلقے بنانے لگتی ہے۔

    کئی روز سے سر میں گرانی سی ہے۔ درد تو نہیں ہے لیکن جیسے پارہ کا ایک ایک قطرہ کوئی میرے دماغ پر ٹپکا رہا ہے یا ناخن سے آہستہ آہستہ اسے ٹھوکے دے رہا ہے۔ آج پتہ چلا کہ اس گرانباری کی وجہ کیا ہے۔ میرے کمرے کے سامنے ایک دیسی ہوٹل ہے جس کے تنور میں صبح سے شام تک خمیری روٹیاں سینکی جاتی ہیں۔ نان بائی کے ہاتھ اتنے جنچے ہوئے ہیں کہ وہ گندھے ہوئے آٹے کی ایک خاص مقدار نوچتا ہے اسے توے پر ایک خاص تال کے ساتھ بجا کر پھر ایک دھماکے کے ساتھ تنور میں تھوپ دیتا ہے۔ آٹے کے گولے پر پہلے تین تھپکیاں زور سے اور پھر ایک دھیرے سے، دن میں سترہ سو ساٹھ مرتبہ یہی ڈفلی بجا کرتی ہے اور اب یہ بھیانک راگ پیار و قوال کی نعت کی طرح میرے دماغ کے سونے آسمان میں کڑھتا رہتا ہے۔

    شام کو پڑوس کی مسجد سے نکل کر نمازی ثواب کی خانہ پری کے لئے بھٹیار خانہ کے آگے فقیروں کو روٹیاں بانٹا کرتے ہیں اور ثواب و افلاس کی اس کشاکش میں راہ چلنا دشوار ہو جاتا ہے، کل میرے ساتھ ایک عبرت ناک واقعہ پیش آیا۔ جب میں راہ گیروں کے دھکوں سے پتلون کی کریز بچاتا ہوا ہوٹل کے آگے سے گزر رہا تھا تو ایک فقیر نے میرا بازو تھام لیا۔ میری رگِ شرافت پھڑک اٹھی اور میں اسے جھڑکنے والا ہی تھا کہ ششدر رہ گیا۔ اس کے ہاتھوں کو لقوہ مار گیا تھا اور وہ گھاس کی طرح تھر تھرا رہے تھے۔ اس کی بغل میں روٹی کے ٹکڑے دبے ہوئے تھے لیکن اتنی سکت نہ تھی کہ خود انہیں کھا سکتا۔ ناک سے رینٹھ بہہ کر داڑھی مونچھ کے بالوں میں لپٹ گئی تھی۔ کیا انسان اتنا بھی بے بس ہو سکتا ہے؟ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ اس کی روٹیاں کوئی اسے کھلا دے۔ جب میں اس کے منہ میں نوالے ڈالنے لگا تو وہ درندوں کی طرح بلبلا کر بغیر چپائے انہیں نگلنے لگا اور اس کی آنکھوں کے آنسو میری انگلیوں پر ٹپکنے لگے۔ وہ انسان تھا اور انسانیت کے ساز سے ہم آہنگ ہو سکتا تھا۔ میرے کچھ ملاقاتی مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر حیرت وحقارت سے مجھ پر ہنس رہے تھے۔ آہ یہ قدرت اور اس کے بے حس، بیدرد دوٹنگے جانور۔

    16جولائی
    آج سیٹھ۔ نے میرے شدید احتجاج کے باوجود مولود شریف کر ہی ڈالا۔ میں بھی روشنی بجھا کر برآمدے میں آرام کرسی ڈال کر بیٹھوں گا اور دور ہی سے لذت آشنا ہوں گا۔ فکر ثواب کو میں نے ایک مدت دراز کے لئے طاق نسیاں کے سپرد کر دیا ہے۔ اس لئے زندگی کے اوقات کو امن و امان سے گزار سکتا ہوں۔

    چندن چوک سے پرے ایک مولوی اس آواز سے جو خلافِ معمول آج چکنی چپڑی ہو گئی ہے، جھوم جھوم کر مولود پڑ رہا ہے۔ بیچ بیچ میں سامعین کو درود شریف پڑھنے کی ہدایت دے کر خود چائے پینے لگتا ہے اس کے روبرو ایک جریب زمین کا حلقہ کئے جو حاجی جی بیٹھے ہیں، وہ آج ہی ریس کورس کا وارانیارا کر چکے ہیں اور ان وکیل صاحب نے آج ہی ایک سود خوار کی پیروی میں کئی گاڑی بانوں پر قرقی کا وارنٹ نکالا ہے۔ ان کی آنکھیں اشک بار ہیں، شاید فرطِ الوہیت میں۔ گوکہ ان کے پاس کچھ غیر مقلد بیٹھے یہ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ رتوندہی کی وجہ سے یہ آنکھیں ہمیشہ بسورتی ہی رہتی ہیں۔ان سب کے چہرے بقعۂ نور ہیں اور وہ ہمہ تن تجلی زار بنے ہوئے ہیں۔ شیرینی کے لالچ میں فقیراور قلی اس مجمع کے عقب میں شامل ہو گئے ہیں اور ببانگ دہل یا نبی سلام علیک کا ورد کر رہے ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے ان کے چہرے بھی اطمینان اور مسرت سے دمک رہے ہیں، کیوں نہیں وہ اس امتیاز کو سمجھتے جو ان کے اور اس سیٹھ کے مابین ہے۔ کیوں نہیں وہ خوانچہ والا اس ڈاکٹر کا شانہ ہلا تا جواب سراپا جائے نماز ہو رہا ہے لیکن جس نے اس کے جاں بلب بچے کو صرف اس وجہ سے دیکھنے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ فیس میں چار روپے نہیں دے سکتا تھا۔ وہ قلی جن کی کمائی کا ایک حصہ پولیس کا یہ حوالدار چھین لیتا ہے۔ کیوں نہیں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتے جو یوں گلا پھاڑ کر چیخ رہا ہے گویا جنت کی کنجی خودی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

    بندے اور بندہ نواز ایک صف میں کھڑے ہوئے ہیں لیکن میں ان کےفرق کو صاف دیکھ رہا ہوں۔ مگر مجھ سے زیادہ تر ان رنج گروں کو اس تمیز کا احساس ہونا چاہئے تھا لیکن نہیں وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ قسمت کے جادو نے ان سب کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے ہیں۔

    قسمت! قسمت! قسمت! دن میں کتنی مرتبہ یہ بے معنی لفظ میرے کانوں سے ٹکرایا کرتا ہے۔ غریب اس لئے بھوکا مرتا ہے کہ یہ اس کی قسمت ہے۔ امیر اس لئے عیش کرتا ہے کہ یہ اس کا نصیب ہے غریب اس لئے عبادت کرتا ہے کہ یہ اس کی قسمت ہے، امیر اس لئے گناہ کرتا ہے کہ یہ اس کا نصیب ہے! واہ ری قسمت اور واہ ری تیری شعبدہ گری!

    27 جولائی
    مر گیا! وہ خبیث مالک مکان آخر مر ہی گیا۔ آگر ہنگامہ کا خوف نہ ہوتا تو میں ضرور اس کے دروازے پر نوبت بجواتا۔

    آج اس مکان کا ہر ذرہ مسرور و مطمئن ہے۔ صبح سویرے نیم کے پیڑ پر دو مرغ خوش الحان بیٹھےگاندھی جی اور گاندھی بھاگو، کا تکراری گیت گا رہے ہیں۔ اب ہر قسم کی موسیقی میں یہی دو گتیں سنائی دیتی ہیں۔

    وہ اپنے خون، تھوک اور پیپ میں شرابور چوکھٹ پر مرا پڑا ہے، اب تک ایسی روح فرسا موت نظروں سے نہ گزری تھی کہ ہر آدمی اس کی ناپاک لاش کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس نے مرتے دم تک کسی معالج کو نہ بلایا کہ روپے دینے ہوں گے۔ آخری سانس تک اسے کسی تیماردار کی منت کشی منظور نہ تھی۔ مبادا کچھ خرچ کرنا ہوگا۔ اس نے اپنی بیوہ بہن کو ایک کانی کوڑی تک دینے سے انکار کر دیا۔ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے طوائف کا پیشہ کرنے لگی مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کا اکلوتا بیٹا پان کی دکان کرنے لگا لیکن اس کا دل نہ پسیجا اور انجام کار وہ آج مر گیا اور اس کی تمام دولت کا عرق پلا کر بھی کوئی اسے زندہ نہیں کر سکتا۔

    لوگ نیلام ہونے والے لاوارث گھوڑے کے ایال، کھر اور پٹھوں کی طرح اس اتری ہوئی کینچلی کے ثواب و عذاب اور روپیوں پیسوں کا حساب لگانے لگے اور سگریٹ کی پھونک اور پان کی پیک کے ساتھ اسے خدااور اس کے جہنم کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے۔ اس لاش کے سرہانے گھڑی کے کانٹے وقت کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر سرعت سے عدم کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ہر منزل پر وہ ایک لمحہ کے لئے رکتے ہیں اور ابدیت کے دروازے پر دستک دے کر پھر اپنے نامعلوم راستہ کی طرف بے تحاشہ بھاگنے لگتے ہیں۔ اس کی متعفن لاش کو مچھر بھی نہیں چھونا چاہتے۔ اس کے خون میں اپنے ڈنک ڈوب کر وہ تڑپنے لگتے ہیں۔

    اس خوشی میں کل میں اپنے دوستوں کو چائے پر بلاؤں گا۔

    4 اگست
    پھر ریل کا سفر! میں ڈرائنگ ماسٹر کے پرکار یاپٹواری کی جریب کی طرح ہمیشہ گردش میں ہوں۔ میں کہاں جارہا ہوں؟ معلوم نہیں! کیوں جا رہا ہوں؟ نہیں جانتا! ایک کشش ہے جو بے بس مجھے اس شہر خموشاں کی طرف لئے جا رہی ہے۔ گاڑی کی قرأت کی ایک لے ہے۔ چلا چل چلا چل۔

    ریل کے ڈبہ کے تقدس کی کچھ انتہا ہے! ہمارے ملک میں یہی ایک جگہ ہے جہاں ذات پات کی قیود ٹوٹتی ہیں، یہیں ہندو مسلم اتحاد کی بیل قومیت کے منڈھے چڑھتی ہے، یہیں جنسی مساوات کا علم بلند ہوتا ہے، یہیں برقعے اترتے ہیں، یہیں گھونگھٹ اٹھتے ہیں، یہیں دیسی رومان کا آغاز ہوتا ہے۔

    صلوۃ بردیسی ریل!

    پورے 24 گھنٹے گزر گئے اور چٹیل میدانوں کو تاکتے تاکتے آنکھیں آ گئیں۔ میدان مولوی کے سر کی طرح سپاٹ ہیں، درخت اس کے جذبات کی طرح خشک ہیں، ندیاں اس کے احساس کی طرح بے آب ہیں، پشاور سے لے کر کلکتہ اور کلکتہ سے لے کر کرانچی تک بے برگ و شجر میدانوں کے سوا کہیں کچھ نہیں۔ بورڈنگ کی زندگی کی طرح یک رنگ و یکساں مٹی کے تودوں کا انبار، ہندوستان جنت نشان کی جمال آفرینی پر نکتہ چیں ہے۔

    ماں کا پیٹ، چھوٹے سے پیمانے پر ریل کا ڈبہ ہی ہے۔ بھائی بہن مسافروں کی طرح کچھ وقت کے لئے اس میں جمع ہوتے ہیں اور پھر اپنے اپنے اسٹیشن پر اتر کر ہنگامۂ ہستی میں گم ہو جاتے ہیں۔

    مادر ہند کے اس مختصر سے ایڈیشن میں ہر چیز اپنی جگہ پر دلچسپ ہے۔ دو صاحب بڑی سنجیدگی سے اس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں کہ بنگال کلکتہ کا دارالسلطنت ہے یا کلکتہ بنگال کا! ایک بوہرا تکیہ کے غلاف میں روپیوں کی تھیلی بھر کر اسے سرہانے رکھے ہوئے اسم اعظم پڑ رہا ہے، ایک سردار جی طرح طرح سے منہ بنا کر اس تیزی سے منتر جپ رہے ہیں۔ گویا ان کے نام خدا گنج کا پروانہ آ چکا اور لالہ جی کا سپوت انہیں دیکھ کر زار و قطار رو رہا ہے۔ للائن نے اپنے ’’تھن‘‘ اس کے منہ سے لگا دیئے لیکن اسے چپ نہ ہونا تھا، وہ بدستور روتا ہی رہا۔ تنگ آکر ماں نے اسے ڈرانے کے لئے میری طرف اشارہ کر کے کہا، ’’پیتا ہے تو پی ورنہ ان بابو جی کو دے دوں گی!‘‘ کیا میں اتنا بھوکا معلوم ہونے لگا ہوں؟

    5 ستمبر
    میں اپنے نئے مکان میں اٹھ آیا ہوں۔ ایک ہفتہ کے اندر میرا کمرہ خاک و گرد میں اٹ گیا ہے گویا کسی شاعر کی خوابگاہ میں اس کا دل جل کر خاکستر ہو گیا ہو۔ گناہوں کے بارے میں دبے ہوئے بڑھاپے کی طرح میرا پلنگ جھلنگا ہو گیا ہے۔

    نہیں مانتے، لوگ کسی طرح نہیں مانتے۔ سلام علیکم اور مزاج شریف سے ناک میں دم آ گیا ہے، کہتے کہتے تھک گیا کہ بابا سلامتی کی ضرورت نہیں ہے اور مزاج بہت خراب ہیں لیکن یہ ہیں کہ کسی طرح نہیں مانتے۔

    آج ٹھاکر سے ملاقات ہوئی۔ بڑے قوم پرست اور روح پرور بزرگ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روح بھی کھدر پوش ہوگی۔ اپنی نگرانی میں مکان کی مرمت کرا رہے ہیں۔ صبح سے شام تک بیٹھک میں ڈٹے ہوئے موٹی عینک کے اندر سے مزدوروں کی کارگزاری کا جائزہ لیا کرتے ہیں۔ آج کئی کسان بقایا ادا کرنے کے لئے زمینداری سے آئے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بڑی گرمجوشی سے بغل گیر ہوئے اور مسند پر بٹھالیا اس کے بعد روح و مادہ کا تنازعہ شروع ہو گیا۔ اگر نپولین اور حیدر علی بیک وقت کئی کام انجام دے سکتے تھے تو یہ حضرت کم از کم کسان، مزدور اور روح کو تو ایک ساتھ بنٹا سکتے ہیں۔

    ٹھاکر صاحب: جی ہاں، آپ جیسے متعصب مادہ پرست کبیر داس کو نہ سمجھ سکیں تو عجب نہیں۔ کہتے تو سہی کایا کو مایا، نہ کہیں تو ارے بیساکھو،کمبخت ڈیڑھ گھنٹہ دیر سے آ رہا ہے؟ بچہ کو اسپتال لے گیا تھا تو بھائی کیا ہم نے اسےپیدا کیا ہے؟ منشی جی آج کی مزدوری کاٹ لیجئےگا۔ جی ہاں مولانا روم نے بھی مثنوی شریف میں ایک ہم معنی شعر لکھا ہے۔ صاحب عدم تشدد کے اصول پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ یہیں تو انسان و بہائم کا اصل فرق ظاہر ہوتا ہے جسے آپ زندہ نہیں کر سکتے اسے مارنے کا حق۔ سنو جی بودہ رام تمہارے ذمہ جو پچھلے سال کا سولہ روپیہ تھا وہ سود وغیرہ ملاکر 33 روپے سوا دس آنہ ہو گیا ہے۔ اگر 33 روپے ابھی جمع کر دو تو ہم سوا دس آنہ معاف کر دیں گے۔ کیا کہا؟ زمین رہن رکھ کر۔ ایں، تو ہم پر کیا احسان کیا! ماں کی تجہیز و تکفین۔۔۔ نہ کھاؤ سر ہمارا۔۔۔ جی ہاں یہی تو وہ جرمنی والے مولانا بھی کہتے ہیں۔

    مرا سر چکرانے لگا، میں بیک بینی و دوگوش نوکدم وہاں سے بھاگ نکلا۔ روح کے ساتھ کسانوں کے مصائب اور عدم تشدد کے ساتھ سرمایہ داروں کے مظالم میں مجھے کوئی خاص ارتباط نظر آنے لگا۔

    15 ستمبر
    میری داخلی دنیا میں عرصہ سے ایک ہنگامہ برپا ہے اور ماحول و شخصیت کا یہ تنازعہ روز بروز بڑھتا جاتا ہے۔ خودی کا احساس مجھے اپنی بے چارگی کاشا ر بنا رہا ہے۔

    آج بھی وہ آئی اور چلی گئی۔ اس کے لرزہ تبسم سے میرے گھر کے چراغ جلتے بجھتے رہتے ہیں۔ جب وہ دل کی کنڈی ہلا کر ایک ریشمی دوپٹے کی طرح لہرا کر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے تو میرے محبوب کا منی کے پھول ٹوٹ ٹوٹ کر شبنم کے قطروں سے لپٹ جاتے ہیں۔

    ہر روز کی طرح آج بھی وہ زندگی کی سیاہی کو تاریک تر بنا کر شب کے اندھیرے میں گھل مل گئی۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا کہ جس جگہ کھڑا ہوں وہاں تک ایک راستہ ماضی کی موت سے نکل کر آتا ہے اور دوسرا رستہ یہاں سے شروع ہو کر مستقبل کی منزلوں سے گزرتا ہوا موت کے دروازے پر غائب از چشم ہو گیا ہے۔ ان دونوں کے درمیان میں تاریخ کی مسولی پر تھرتھرائی ہوئی انسانیت کی طرح پیکر تصویر بنا کھڑا ہوں۔ یکایک ایک بادل کراہام ہوا میرے قدموں پر گرپڑا۔ درخت حال زدہ صوفیوں کی طرح سر دھنےن لگے، کتے بھونکنے لگے، چوکیدار بڑے چوروں سے چھوٹے چوروں کی غمازی کرنے لگے اور موذن نے مجھے یاد دلایا کہ ’’خدا بڑا ہے! خدا بڑا ہے! خدا بڑا ہے!‘‘

    جب میں اس سورش سے پناہ لینے کے لئے کمرے میں جا بیٹھا تو ایک اختلاج کا دورہ شروع ہو گیا، ہاتھ تھرانے لگے، دل پنکھے کی طرح گھومنے لگا۔ کانوں میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ چہرہ خون کی حدت سے سرخ ہو گیا۔ سراسیمگی کی اس کیفیت میں یہ معلوم ہونے لگا کہ درخت روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ رہے ہیں، پہاڑ شریر بچوں کی طرح کھڑکی سے جھانک کر منہ چڑا رہے ہیں اور فرشتے اپنے پروں سے بسکٹ توڑ کر منہ میں بھر رہے ہیں اور اسی وحشت میں یہ گمان ہوا کہ حضرت میکائیل پرووائس چانسلر سے معانقہ کر رہے ہیں اور دونوں میں اس مسئلہ پر بحث ہو رہی ہے کہ اسے جنت سے نکال کر یونیورسٹی روانہ کر دیں یا یونیورسٹی سے نکال کر جنت بھیج دیں۔ ایسا دورہ کبھی نہ ہوا تھا۔ ہاتھ پاؤں نڈھال ہونے لگے اور غش طاری ہو گیا۔

    30 ستمبر
    کیا انسان روٹی کمانے اور کھانے والے جانور کے سوا کچھ نہیں۔ کیا یہی اس لفظ کی آخری تفسیر ہے؟ اگر کام کرنے اور زندہ رہنے میں کوئی فرق نہیں تو میں ہرگز کام نہ کروں گا۔ کیوں نہ ان پرندوں کے ترانوں اور ستاروں کے نغموں کو سنتا ہوا، دوب پر خاموش پڑا رہوں۔ اس وقت تک جب تک کہ میرا جسم سڑ کر اس زمین میں مل جائے اور اسی جگہ سے ایک شجر گندم پیدا ہو جو تنہا قیامت کے ہیولے میں لہلہاتا رہے اور پھر ایک آدم آئے، خدا کی نافرمانی کر کے دوبارہ اس شجر ممنوعہ کے پھل کو چکھے اور جہانِ نو کی بنا ڈالے۔ اگر میں اس دنیا کے لئے مد فضول ہوں تو وہ بھی میرے نزدیک کتاب کائنات کے غلط نامے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

    آج کئی دلچسپ واقعات نظر سے گزرے جس جگہ مولوی صاحب تفسیر پڑھا رہے تھے، وہیں کسی بھکاری کے بچے گٹر سے پڑے سڑے ہوئے امرود نکال کر کھا رہے تھے۔ شہر میں ایک بنیا سانڈوں کو مٹھائی کھلا رہا تھا اور جب کسی فاقہ زدہ نے اس تھال کو اپنی طرف سر کا لیا تو اس کے منہ پر پے در پے کئی طمانچے پڑ گئے، لیکن بھاگتے بھاگتے بھی وہ ان ٹکڑوں کو اٹھا ہی لے گیا جو اس چھینا جھپٹی میں نالی میں گر پڑے تھے۔ وہ اس روائتی کتے سے زیادہ چالاک تھا جو نقش بر آب روٹی کی طرف لپکا اور اپنی جمع بھی گنوا آیا۔ سامنے کے مندر میں بنئے کا خدا ایک شہ نشین پر بیٹھا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔

    کون سی وہ تین چیزیں ہیں جو مجھے قدرت کی خوش مذاقی کا قائل بنانے لگی ہیں؟ سمندر عورت اور ٹومیٹو! ایک وسیع ہے، دوسری عمیق ہے، تیسرا من سلویٰ ہے۔ اوٹومیٹو پیدا کرنے والے، اگر تو میرے باغ کو ٹویٹوزار، بنادے تو میں ہمیشہ کے لئے اطاعت گزار ہو جاؤں۔

    16 اکتوبر
    یہ ماحول کس قدر زہریلا ہے! اس میں میرا دم گھٹ رہا ہے، اس آتشکدے میں میرا جسم ہی نہیں، میری روح تک جل کر خاک سیاہ ہو رہی ہے۔ ان گوبریلوں میں جگنو کی طرح کبھی جلتا ہوں اور کبھی بجھتا ہوں، اب بھی موقع ہے، کیوں نہ تنگ و تاریک باؤلی سے نکل کر اس بہتے ہوئے دریا میں کود پڑوں جو قید و بند سے آزاد اور سمت و ساحل سے بےخبر ہو کر تحت الثریٰ سے نکل کر آسمان کی طرف بہہ رہا ہے اور یا کیوں نہ میں اپنا پلنگ اس پہاڑ کی چوٹی پربچھا کر دم بھر آرام کروں۔

    مجھے خوش ہونا چاہئے تھا کہ اپنی بے راہ روی پر حاوی ہو گیا۔ لیکن نہیں آہ اپنے فیصلہ پر میں آپ غمزدہ اور ماتم کناں ہوں۔

    اس نے کہا کہ تو چلا جا، لیکن میں تیرا انتظار کروں گی! اس نے کہا کہ جب تو ہر رستہ پر چل کر تھک جائےگا اور ہراس و مایوسی سے بیدم ہو جائےگا تو دل کی راہ کی طرف بھی ایک نظر دیکھ لینا تجھے ایک چراغ نظر آئےگا۔ جس کی شعاعیں طوفان کے تھپیڑوں سے سر نکال کر تیری رہبری کریں گی اور یہ محبت کا چراغ ہوگا۔

    کیونکہ اس نے میری زندگی کی روکو بدل دیا؟ کیوں اس نےنفرت کے اس سیہ کرہ میں الفت کی جوت جگا دی کل تک اس دل کی دنیا میں سونا پن تھا۔ وہ دنیا جس کا ہر ذرہ آگ سے بنا تھا۔ ایک ایسا آسمان جس میں ستاروں کی جگہ بجلیاں جھلملایا کرتی تھیں۔ کیوں اس نے اس آگ کو کریدا، کیوں اس نے اس زندگی سے محبت پیدا کر دی، کیوں اس نے اس فریب میں مجھے مبتلا کر دیا۔ محبت کا فریب! کیوں آہ، ایسا کیوں ہوا؟

    کل تک میں اپنے متعلق کچھ نہ سوچتا تھا۔ تنکے کی طرح حالات کے بہاؤ میں بہا چلا جاتا تھا۔ کیوں اس نے راہ روک کر پوچھ لیا کہ او خود فراموش، او خواب گر، کیا تو ہمیں نہیں پہچانتا؟ اور مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ وہی آواز ہے جو روزازں سنی تھی۔ چشم زدن میں کائنات کا ہر ذرہ ایک دوسرے کا شانہ ہلا کر پوچھنے لگا کیا تو ہمارا آشنا نہیں ہے۔ روح کے خلا اور مادہ کے ہیولے سے صرف ایک صدا سنائی دینے لگی۔ کیا تو ہمیں نہیں پہچانتا؟

    10 فروری
    اس بیمار کی طرح جسے مرتے مرتے مسیحا نے زندگی عطا کی اورجب وہ زندہ ہونے لگا تو اپنا دامن چھڑا کر چلا گیا، اس نے مجھے وہاں لاکر گرادیا ہے جہاں حیات و ممات کی سرحدیں ملتی ہیں۔ جہاں ظاہر میں ہی نہیں عالم باطن میں بھی غضب کا اکیلا پن ہے۔ قلم ہاتھوں سے چھوٹ رہا ہے اور نبض کی ہر چیک اور دل کی ہردھڑک دم واپسیں کی صدائے باز گشت معلوم ہوتی ہے۔

    لیکن میں بھی اپنی دنیا بنا سکتا ہوں۔ جب ہر طرف اندھیرا ہوگا تو آسمان میرے لئے نورانی محفل سجائےگا۔ کبھی اس شجر بے برگ میں بھی شگوفے آئیں گے۔ یہ بجھی ہوئی بجلی پھر چمکےگی۔ کملایا ہوا پھول پھر کھلےگا، ابھی نہ زندگی ہے اور نہ موت۔ بےکاری ہے، بے حرکتی ہے، بے حسی ہے لیکن کیا وہ دن کبھی نہ آئے گا، جب اگر میری زندگی موت پیدا کرےگی تو موت زندگی کا تانا بانا بننے لگےگی؟

    مأخذ:

    محبت اور نفرت (Pg. 187)

    • مصنف: اختر حسین رائے پوری
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے