aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

منتظر

MORE BYسائرہ اقبال

    ایک شاہانہ محل، اونچی اونچی دیواریں، قلعہ نما عمارت جہاں داخلی راستے سے لے کر محل کی سیڑھیوں تک شمع دان موجود تھے، پہرہ دینے کے لئے۔ اس حویلی کی خاص بات یہی تھی کہ کوئی پہرہ دار نہ ہوتے ہوئے بھی ڈھیروں پہرہ دار تھے، اتنی روشنیوں کی صورت میں وہ روشنی اور وہ اجالے ہی تو اس حویلی پر پہرہ دیتے تھے، ہاں وہی پہرہ دار تھے وہی دربان تھے وہی قاصد تھے ہر آنے جانے والے کا نہ صرف پتہ دیتے بلکہ ان کو حفاظت کے ساتھ راستہ بھی دکھاتے اور ان کی منزل تک بھی پہنچاتے۔ وہ سب سے اوپر والی منزل پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ وہی جو ہر روزاس کے خوابوں میں سے جھانکتا ہوا بند دریچوں کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔

    اس کے شہنشاہوں جیسے اطوار۔۔۔ وہ سچ مچ کسی شہنشاہ سے کم نہ تھا۔ اونچا لمبا قد، گورا رنگ کہ صبح کی سفیدی کو بھی مات دے جائے۔ آنکھیں اتنی گہری کہ ہر رنگ اس کی آنکھوں میں جھلکے۔ اپنی آنکھوں کے رنگ ارد گرد بکھیرتا ہوا وہ لالٹین تھامے چلا آ رہا تھا۔ اس کی نظریں اس پر براجمان تھیں۔ وہ کسی شاہی سواری پر سوار سینہ تانے چلا آ رہا تھا۔ ساری شمعیں بجھاتے ہوئے، سارے سپاہیوں کو مات دیتے ہوئے جو اس شہزادی کی حفاظت پر معمور تھے۔ دور دور تک پتھر کا بنا ہوا فرش تھا۔ دائیں اور بائیں جانب سبزہ، ہرا گہرے رنگ کا جو نظریں خود کی طرف پاتا دیکھ کر ہی تازگی کا تحفہ بخشے۔

    وہ کچھ لمحے کے لئے رکا۔ پتھر کے فرش پر ایک گول دائرہ بنا تھا جس میں شیشے جڑے تھے۔ مختلف رنگوں کے، لال، ہرا، نیلا، پیلا۔ ان کے درمیان ایک چھوٹا سا گول دائرہ اور تھا جو فوارے کو سہارا دئے ہوئے تھا۔ پانی پھوہار بن کر اچھل اچھل کر باہر آ رہا تھا۔ وہ اس پانی کی پھوہار سے لطف اندوز ہونے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اس محل نما قلعے اور قلعے نما محل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قلعے کی دیوریں کھڑکیوں اور روشن دانوں سے سجی ہوئیں تھی مگر کھڑکی بس ایک ہی کھلی تھی۔ سبز، نیلے اور سرخ رنگ کی شیشے جہاں حویلی کی ہیبت میں اضافہ کر رہے تھے وہاں اس کی خوبصورتی کو بھی مختلف رنگوں سے دوبالا کر رہے تھے۔ اس کی مسکراہٹ اسے جلد یہ سرحدیں عبور کرنے کا پیغام دے رہی تھی۔ مگر وہ اسے انتظار کروانا چاہتا تھا۔ انتظار جو ایک محب اپنے محبوب کا کرے۔ تاکہ محبوب سر اٹھا کر میدان جنگ میں قدم رکھے۔ ایک ایسی جنگ جس میں فتح محبوب کی ہی ہوتی ہے۔ عاشق تو بن موت مارا جاتا ہے۔

    اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔ وہ مسلسل اس پر نظریں جمائے مسکرا رہی تھی۔ اس کی شخصیت کا سرور اسے نشے میں مبتلا کئے ہوئے تھا۔ اس کے وجود کی مہک وہ اتنی دور سے بھی محسوس کر سکتی تھی بالکل ایسے جیسے وہ اس کے سامنے کھڑا ہو، اس کے بہت قریب۔ اتنا قریب کہ وہ چھوئےگی تو اس کے جسم کی حرارت وہ جل نہ جائے۔ جیسے موم بتی کا موم ایک دم ہاتھ پر گرے تو ہاتھ جل جاتا ہے اور ایک انجانی سی چیخ منہ سے نکلتی ہے۔ مگر جب موم بتی اُٹھا کر خود اس کا موم ہاتھوں پہ گراتے جاﺅ تو وہ تکلیف ایک لذت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ان کا رشتہ بھی ایسا تھا۔ وہ محل نما قلعے میں داخل ہوا اور دائیں جانب موجود سیڑھیوں سے اوپر چڑھتا گیا۔ بائیں جانب نظر ڈالنے پہ معلوم ہوتا تھا کہ کھلا ہال نما لاوئنج تھا جس کے چاروں کونوں میں بڑی بڑی موم بتیاں سجی تھیں اور اوپر نظر ڈالنے پر ایک بھاری اور پھیلا ہوا فانوس نیچے کی طرف لٹکایا گیا تھا۔ فانوس میں جڑے موتی اور شیشے اس کی قیمت بیان کر رہے تھے۔ فانوس اتنا بڑا تھا کہ روشن کیا جاتا تو پورا زمانہ شائد روشن ہو جاتا۔ مگر جب زمانہ روشن ہوتا ہے تو بے عیب لوگوں کے عیب کھلتے ہیں۔ اس لئے حویلی میں کوئی فانوس روشن نہ ہوتا تھا کوئی دیا نہ جلتا تھا، کوئی شمع روشن نہ ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی آتا اپنے حصے کی شمع اٹھائے آتا۔ مگر اپنا اندھیرا حویلی میں ہی چھوڑ جاتا۔

    وہ لالٹین اٹھائے اس کے کمرے کے باہر پہنچ چکا تھا۔ وہ آنکھیں بند کئے اس کھڑکی میں اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ بس ایک دیا تھا جو وہ ہاتھ میں تھامے کھڑی تھی۔ وہ منتظر تھی اس کی دلکش اور جاذب نظر شخصیت کی، وہ منتظر تھی اس کے دبے قدموں کی چاپ کی، وہ منتظر تھی اس کی سحر انگیز آواز کی۔ وہ منتظر تھی اور منتظر رہی بالکل جیسے صحرا میں دہکتی ریت ہو، ریت کا ایک ایک ذرہ کسی دہکتے ہوئے، سلگتے ہوئے انگارے کا پتہ دے رہا تھا اور وہ اپنے قدموں میں اس کی تپش کی تاب نہ لا پا رہی ہو اور پھر جب ہمت جواب دے تو پیروں کی انگلیاں اندر کی طرف موڑ کر سارا وزن ایڑھیوں پر ڈال دے اور پھر بھی زخمی اور جھلسے ہوئے پیروں کے ساتھ ثابت قدم کھڑی رہے۔

    وہ منتظر رہی اس کی دستک کی جو ہر بار بنا دستک ہی چلا آتا ہے، ایسے جیسے کوئی شاہی مہمان ہو اور اس کی منظورِ نظر کنیز اس کے انتظار میں آہیں بھر رہی ہو۔ وہ اندر داخل ہوا ہاتھ میں تھامے لالٹین کو بجھا دیا۔ وہ آنکھیں بند کئے کھڑکی میں کھڑی رہی۔ وہ آہستہ آہستہ خاموش قدم اٹھاتا ہوا اس کے پیچھے آن کھڑا ہوا۔ وہ تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی منتظر تھی۔ وہ منتظر تھی اس شاہ سوار کی جو شاہی سواری پر سفر کر رہا ہے اور سواری یکایک رکتی ہے، اس سواری کے پاس گھٹنوں کے بَل ایک فقیرنی آتی ہے وہ فقیرنی خیرات کی منتظر تھی، اس کی محبت کی خیرات، اس کی چاہت کی خیرات، اس کے پیار بھرے دو میٹھے رسیلے بول کی خیرات۔ ہاں وہ خیرات ہی تھی کیونکہ وہ بھول گئی تھی کہ منتظر محبت جب وصول ہوتی ہے تو ایک خیرات ہی کی طرح ہوتی ہے۔ محبوب کی جانب سے دی جانے والی خیرات۔ ہاں وہ خیرات ہی تھی بندہ بشر کو اس کے آقا کی جانب سے دی جانے والی خیرات۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی، مکمل خاموشی، وحشت ناک خاموشی، معنی خیز خاموشی۔ ایسی خاموشی جو بسا اوقات موت کی خبر سننے پر چھا جاتی ہے کسی ایسے کی موت کہ جس پر بندہ آنسو بہا سکے نہ بین کر سکے۔ ہاں بالکل ویسی خاموشی۔ اس میں اور اس زخمی اداس پنچھی میں کوئی فرق نہ تھا۔ ایسازخمی اداس پنچھی جو بھولا بھٹکا کسی مسیحا کی قید میں آ گیا ہو۔ مسئلہ یہ ہو کہ دوا ہو نہ دعا کہ پنچھی کو آرام آ سکے۔ بس مسیحا امید کے سہارے ہی اس کی ڈھارس بندھائے رکھے۔

    چاند کبھی بادلوں کی اوٹ میں چھپتا تو کبھی بادل چاند کو پیچھے دھکیل دیتے۔ انہیں اس آنکھ مچولی اور دھکم پیل میں مزہ آ رہا تھا۔ باہر ٹھنڈ تھی، ہلکی ہلکی ٹھنڈ، نومبر کا آغا زتھا مگر کمرے میں حرارت تھی، شدت تھی، گرمی تھی، ایسی حرارت، ایسی شدت، ایسی گرمی جو ایسے رقص سے جنم لے جو محبوب کی رضا مندی حاصل کرنے لے کئے کیا جاتا ہے۔ قدم کبھی اٹھتے تو کبھی زمین پر پڑتے۔ ایک ایسی لَے جنم لیتی جو کوئی طبلہ کوئی سر نہ پید ا کر سکتا ہو اور اگر کوئی اس لے کو جنم دے سکے تو وہ ہے محبوب کا قرب۔ اسے وہ اپنے بہت قریب محسوس ہوا۔ اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں میں تھامے دیئے کی بتی پر ہاتھ رکھ دیا۔ بتی کی سانسیں بند ہو گئیں۔ اس نے آخری ہچکی لی اور اس کمرے کو الوداع کہہ دیا۔ وہ گل ہو چکی تھی۔ ایسا اندھیرا ابھرا جو ساری حسرتوں ساری خواہشوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد مسکراتا ہو اکسی کوٹھے پر آنکھیں کھولتا ہوا دکھائی دیا۔ کھڑکی بند ہوئی ایک زوردار آواز جس نے گہری خاموشی کو مات دے دی۔ وہ اندھیرا جو تمام روشنی کو شکست دے کر سینہ تان کر کھڑا یہ کہہ رہا تھا، آﺅ مجھے شکست دو۔ کوئی ہے جو مجھے شکست سے دوچار کرے۔۔۔ کوئی ہے مرد کا بچہ تو سامنے آئے۔ پھر سے ایک سناٹا اور ایک اندھیرا۔ سناٹے اور اندھیرے کا ملاپ جہاں وحشت کو خوش آمدید کہہ رہا تھا وہاں ایک لذت اور سرور کی بھی پیشگی دعوت دے رہا تھا۔ وہ آ چکا تھا۔ اس نے پلٹ کر کہا، ’شکر ہے آپ آ گئے۔ کب سے آپ کی منتظر تھی۔‘

    کچھ دیر خاموشی رہی جیسے دو محبوب برسوں بعد وصال کی کیفیت میں ہوں۔ یکایک ایک آواز آئی، پہلے چھنکار تھی چوڑیوں کی، پھر آواز آئی چوڑیاں ٹوٹنے کی۔ پہلے ایک پھر دو پھر تین اور چوڑیاں ٹوٹتی چلی گئیں، ایک ہلکی سی سسکی، ایک آہ اور محبت لٹ گئی!

    خاموشی، خاموشی ایسی خاموشی جو کسی شور کو دعوت دے رہی تھی۔ ایسی خاموشی جو خاموش رہ کر بھی صدیوں سے لکھے جانے والی داستان رقم کر رہی تھی۔ ایسی خاموشی جو چیخ چیخ کر سوال کر رہی تھی کہ یہ خاموشی کیوں ہے۔ ایسی خاموشی جو منتیں کر رہی تھی کسی مسیحا کو پکار رہی تھی جو آئے اور اس خاموشی کو توڑے۔ اس خاموشی کو ماچس کی تیلی نے توڑا۔ ماچش کی تیلی اپنی ڈبی سے مَس ہوئی۔ ایک شعلہ جلا جس نے ایک چنگاری کو جنم دیا۔ ہلکی سی چنگاری نے جس روشنی کو جنم دیا تو معلوم ہوا ایک گوشت کا لوتھڑا وہ خود میں سمیٹے، بےخبر تھا، ہر چیز سے بےخبر اپنے وجود سے بےخبر اس کے وجود سے بےخبر، یوں معلوم ہو رہا تھا بس دو جسم ہیں۔ جان ہے نہ روح۔۔۔ بس گوشت پوست کا ڈھیلا۔

    وہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے رہا تھا۔ اس نے ہاتھوں کو ایک بار پھر سے حرکت اور ہونٹوں کو زحمت دی۔ وہ اس کا آخری کش بھی تھا اور آخری وار بھی۔ وہ یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ گوشت کا ٹکڑا جو اس کے سینے سے چمٹا ہوا تھا نیچے گر گیا۔ گر گیا اور بکھر گیا۔ اس نے سگریٹ نیچے پھینکا اور پیروں سے اسے مسل دیا۔ سب کچھ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ کمرے میں بھی اب ویسی حرارت اور گرمی نہ تھی۔ وہ آگے بڑھا، ایک نظر نیچے بکھرے ہوئے گوشت کے لوتھڑے پر ڈالی۔ وہ شائد اپنی مدت پوری کر چکا تھا۔۔۔ گل سڑ چکا تھا۔ دوسری نظر سگریٹ پر ڈالی وہ بھی بجھا ہوا تھا۔ دونوں کی سلگن ماند پر گئی تھی، دونوں ہی ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ غرضیکہ دونوں ہی اختتام کے آخری مراحل کو عبور کر چکے تھے۔ نہ جانے کیوں ’بیڑی‘ اور ’ناری‘ ایک سی خصوصیات کی حامل ہیں۔ جب تک سلگتی رہیں گی، لبوں کے قریب رہیں گے جیسے ہی سلگن ختم ہوئی اپنے اختتام کو پہنچ جائیں گی۔ وہ بھی ٹھنڈی پڑ چکی تھی، سلگن بھی ماند پڑ چکی تھی۔ وہ اب اس کے کسی کام کی نہ تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھول دی۔ چاند اس کو دیکھتے ہی جھٹ سے بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔ بادل سہم کر کبھی چاند کی اوٹ میں چھپتے تو کبھی چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کر تا رہا۔ تارے بجھے چہرے کے ساتھ اپنی چمک ماند کر گئے۔ فلک نے غصے کی چادر اوڑھ لی اور ہر طرف سرخی پھیلا دی۔ اس نے اپنا شاہی لباس اٹھایا، کاندھے پرڈالا اور سینہ تانے واپس ہو لیا۔ وہ ٹوٹے اور جھلسے ہوئے وجود کے ساتھ اٹھی طاق میں پڑے دیئے کو جلایا، دیوی ماں کے مند رکی چوکھٹ پر بکھری زلفوں اور اجڑے حلیے کے ساتھ، دیئے کے گرد ہتھیلیاں جمائے پھر سے کھڑی ہو گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے