Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناقۃ اللہ

آصف فرخی

ناقۃ اللہ

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ انسان کے ظلم و تشدد اور اس کے تخریبی رجحان کی روداد ہے جو عہد نامہ عتیق کے اونٹنی والے واقعہ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اونٹنی کو معجزہ کے طور پر بھیجا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہارے لئے برکت کا سبب ہے۔ انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے باری باری اپنی اونٹنیوں کو پانی پلائیں اور اس معجزاتی اونٹنی کے لئے ایک دن چھوڑ دیں۔ لیکن لوگوں نے عدم برداشت کا مظاہرہ کیا اور اونٹنی کے کونچیں کاٹ دیں اور پھر اس کا گوشت بھون کر جشن کا ماحول برپا کیا گیا۔

    ’’چنانچہ ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی کا صریح معجزہ دیا، پھر بھی انہوں نے نہ مانا اور اسے ستایا یہاں تک کہ اس کو ہلاک کر دیا۔۔۔‘‘

    القرآن ۱۷/۱۵۔۔۔ ۵۹

    اونٹنی کھلا معجزہ تھی۔

    آؤ تم سے بہت عمدہ قصہ بیان کریں کہ اس سے پہلے تم اس سے بے خبر تھے۔ کندھوں پر اس نے چادر لپیٹی اور بستی والوں کو پکار کر اکٹھا کیا اور سب جمع ہوئے تو انہیں ایک ماجرا سنایا۔ اس نے بتائی انوکھی باتوں کی حیرت، پھر اس نے ذکر کیا دہشت کا۔ مگر انہوں نےاس کا اعتبار نہ کیا۔ وہ بولے کہ تو، تو ہمارے جیسا ہے اور کیوں کر ہم اس شخص کی پیروی کریں جو ہم میں سے ہے اور اگر ایسا کریں تو بے شک ہم گمراہی میں پڑیں، ہم میں سے کیا اس کو الہام ہوا ہے؟ ہو نہ ہو یہ شخص جھوٹا اور ڈینگیا ہے۔ انہوں نے اس کا یقین نہ کیا اور اس سے نشانیاں طلب کیں کہ ناموں کے معنی بتائے تاکہ ہم کو تسلی ہو۔ اس نےانہیں دکھائیں گھاس کی پتیاں، خاک کے ڈھیلے اور دروازے جو ہنوز کھلے نہ تھے۔ اس پر انہوں نے کہا یہ تو گھاس ہے اور خاک اور بند دروازے۔ ہمیں معجزہ دکھلا۔ اس نے کلام کیا اے میری قوم حذر کرو کہ معجزہ دیکھنے والوں پر بھاری ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔

    آخر کار اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے وہ ایک پتھر کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا جو مدت مدید سے وہاں دھرا تھا اور اس کی خاموشی سے کلام کرنے لگا۔ پتھر میں لکیریں ابھری تھیں اور عجب نقشے بناتی تھیں جیسے دیوار سے اکھڑتے پلستر، چٹانوں کی دراڑ، برساتی سیلن کے بھیگے نشان، فرش پر تیل کے چکتے، دیوار پر دھوئیں کی کالک، ٹھیرے پانی کی سطح پر کائی، کونے کھدروں میں پھپھوند اور سفید کاغذ پر سیاہی کے دھبے میں اشکال مرتب ہونے لگتی ہیں۔ دیکھتی آنکھوں کے سامنے لکیریں چلنے لگیں، ایک لمبی لکیر کھنچتی چلی گئی جیسے اس کو پیر لگ گئے ہوں اور اس میں سچ مچ پیر نکل بھی آیا، ایک لکیر اوندھ گئی کوہان کی طرح، ایک لمبوتری تھی کہ دور سے تھوتھنی معلوم ہوتی تھی، ایک لکیر دم کی طرح ہلنے لگی اور ایک جو تھی آنکھ کی طرح چمکتی تھی۔

    پتھر کے اوپر اونٹنی کے نقوش ابھرنے لگے، لکیریں مل کر ایک شبیہ بنانے لگیں اور اونٹنی کا روپ دھار لیا۔ تصویر مکمل ہوگئی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ پتھر میں سے اونٹنی نکل آئی۔ وہ اونٹنی کھلا ہوا معجزہ تھی اور رنگت اس کی پہاڑی نمک جیسی اور چال ایسی کہ چھم چھماتی بدلی برستی برساتی نکل جائے۔ جس نے دیکھا دانتوں میں انگلی داب لی۔ ایک نے دیکھا دوسرے سے کہا، ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی، شہر بھر میں شہرہ ہو گیا۔ تمام خلقت اونٹنی دیکھنے امڈ پڑی۔ انہوں نے دیکھا اور تعجب کیا کہ یہ اونٹنی پتھر میں سے نکلی جس کے بارے میں کسی کو گمان نہ تھا کہ اس میں مضمر ہوگی۔ وہ اس کے گرد بھیڑ لگا کر جمع ہو گئے اور اس پر حیرت کرنے لگے۔

    اور بستی والے اونٹنی کے گرد جمع ہو کر اس کی تعریف کرنے لگے تو چادر کندھوں پر دہری کرتے ہوئے اس نے دو ہتڑ سینے پر مارا اور نعرہ بلند کیا جان لو وہ وقت آن پہنچا کہ جانوروں کی صورت میں علامات کا ظہور ہو رہا ہے۔

    اونٹنی جو چلی تو ایسا بھلا لگا کہ نمک کا ٹیلا ٹھمکتا جاتا ہے اور لوگ اس کے پیچھے ہولیے کہ حیرت کرتے تھے اور خوشی مناتے تھے۔ اس نے بستی والوں کو پکار کر اکٹھا کیا اور سب جمع ہو لیے تو ان سے اقرار لیا کہ اونٹنی کے پانی پینے کی ایک دن باری ہے اور ایک دن تم کو باری مقرر ہے اور نہ کیجیو برا ورنہ پھر تمہارے لیے برے دن کی پکڑ ہے کہ یہ اونٹنی اللہ کی ہے۔

    تب انہوں نے ٹھیرایا کہ ایک دن پانی پر وہ جاوے اور ایک دن اور لوگوں کے جانور جاویں۔ اونٹنی پتھر سے نکل کر چھٹی پھرتی تھی، جس جنگل میں چرنے جاتی، جانور وہاں سے دور ہو جاتے اور جس تالاب پر پینے آتی دوسرے تھم جاتے۔ بستی کے وسط میں تالاب تھا کہ جس سے سارے لوگ ضرورت بھر پانی لیتے تھے، اونٹنی وہاں آئی اور سب پانی اس کا پی لیا۔ تب چادر والے نے قوم سے کہا تم دودھ دوہ کے پیو، پس انہوں نے اس کا دودھ دوہا اور پیا اور پی کر سیر ہو گئے۔ دودھ اتنا وافر تھا کہ کم نہ ہوا اور وہ دودھ کے گھڑے اور مشکیں بھر بھر کے لے جانے لگے۔

    ان کو ہدایت تھی کہ پانی ایک روز اونٹنی کا ہے جس دن دودھ دوہا جاوے اور ایک دن ان کا ہے جس دن دودھ نہ دوہا جاوے۔ اونٹنی کے دودھ سے مکھن اور گھی جمع کر کے شہروں میں لے جا کے بیچتے تھے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے تھے اور اس کے سبب سے تونگر ہوئے اور وہ اونٹنی ان کے لیے برکت تھی۔ باری کے دن وہ پانی پینے آتی اور باری کے دن اسے دوہا جاتا اور جدھر سے وہ گزرتی اس کو احترام و محبت سے دیکھتے اور جہاں وہ جاتی بستی کے بچے اور بڑے اس کے پیچھے پیچھے چلتے۔ پھر روز روز اونٹنی کو اپنے درمیان دیکھ کر وہ اس سے مانوس ہو گئے اور اس میں ان کے لیے کوئی اچنبھا نہ رہا۔ بستی کے بچے دوسرے کھیلوں میں لگ گئے اور بڑوں کو بہت سے کام تھے۔ اونٹنی اپنے طریق پر کھلی پھرتی تھی اور تالاب سے پانی پیتی اور ان کے راستے میں کبھی آ جاتی تو وہ راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہٹ جاتے۔ پھر وہ اونٹنی سے بے زار آگئے۔ اونٹنی راستے میں نظر آ جاتی تو اپنی جگہ کھڑے رہتے یا چلتے جاتے اور اونٹنی کو ان کے لیے رکنا پڑتا۔

    اونٹنی تالاب کا پانی پی جاتی تو انہیں بہت کھلتا کہ باقی جاندار پیاسے ہیں اور اونٹنی نرم کونپلیں بھی تمام چبا جاتی ہے۔ پہلے پہل دبے دبے لفظوں میں، پھر کھلے بندوں کہا جانے لگا۔ اونٹنی کی ناگواری ان کے دلوں میں بس گئی اور اس کا شوق جو انہیں تھا دریا کی طرح اتر گیا۔ اپنے آپ سے اور مویشیوں سے اونٹنی کی برتری پر وہ کڑھنے لگے اور بھول گئے کہ ان کو جتلایا گیا تھا کہ اونٹنی تمہارے لیے برکت ہے اس کو آزار پہنچاؤگے تو حیات تمہاری تین دن کے سوا باقی نہ رہے گی کہ پہلے روز روپ تمہارا سرخ ہو جاوےگا دوسرے روز زرد اور تیسرے دن سیاہ ہووے گا۔ پھر کڑکتی چیخ تمہیں آلےگی۔ مگر وہ اپنا وعدہ بھولے اور اونٹنی سے جھنجھلانے لگے اور طرح طرح اس کو ستانے لگے۔ ان کے سلوک سے خفا ہو کر اونٹنی کا بچہ اسی پتھر میں لوٹ گیا جہاں سے اونٹنی نکلی تھی۔

    ایک روز اونٹنی جنگل چر کے آتی تھی کہ ان میں سے ایک جو زیادہ دلیر تھا آگے بڑھا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ کونچیں کٹنے سے اونٹنی معذور ہوئی اور نیچے گر پڑی۔ اونٹنی کو گرتا دیکھ کر انہوں نے خوشی کا نعرہ مارا گویا انہیں نجات مل گئی ہو اور تیر بھالے نیزے لے کے اس پر پل بڑے۔ نیزے چبھو چبھو کے اسے مار ڈالا اور ذرا دیر میں اس کی تکا بوٹی کر دی۔ اس کو مار کے انہوں نے گوشت کے پارچے الگ کئے اور آگ پر بھوننے کو رکھ دیے۔

    اونٹنی کے مارنے کا وہ جشن منانے لگے۔ آگ پر اونٹنی کے گوشت کے پارچے بھنتے تھے اور اس کے گرد بستی والے جمع تھے اور ڈھول تاشے بجاتے تھے اور خوشی سے ناچتے تھے۔ جب گوشت اچھی طرح بھن گیا تو اس پر انہوں نے کتری ہوئی پیاز ڈالی اور آپس میں تقسیم کیا اور ہر ایک کو اس میں سے حصہ ملا اور سبھوں نے اس کو کھایا اور کھاتے میں شراب کے پیالے بلند کرتے اور خوشی سے نعرے مارتے۔

    اس نے اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی کے قتل کا جشن مناتے دیکھا تو کندھے سے چادر کھول ڈالی اور عذاب میں مبتلا کرنے والی چیخ سننے کے لیے کان زمین پر لگا دیے۔

    مأخذ:

    آتش فشاں پر کھلے گلاب (Pg. 187)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: طارق پبلی کیشنز کراچی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے