aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناستک

MORE BYمعین الدین جینابڑے

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو بچپن میں ایک شاستری جی کے ساتھ دوران گفتگو خود کو ناستک اعلان کر تا ہے۔ اس کے بعد وہ گاؤں چھوڑ دیتا ہے اور ساری دنیا کی سیر کرتا پھرتا ہے۔ بیس سال بعد اس کی ملاقات پھر اسی شاستری جی سے ہوتی ہے۔ شاستری جی بھی اسے پہچان لیتے ہیں۔ لیکن جب اس بار ان کے درمیان معانقہ ہوتا ہے تو شاستری اپنی سدھ چھوڑکر اس ناستک کو اپنا گرو مان لیتے ہیں۔

    سوامی جی کے چہرے سے جلال ٹپک رہا تھا۔ ان کی شانت لیکن تیز نظریں، سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے وجود کو چیرتے ہوئے، دور افق پار تک پہنچ جاتی تھیں اور نہ معلوم ماضی و حال کی کتنی صدیوں کا احاطہ کرنے کے بعد لوٹتی تھیں۔ اسی لیے کسی پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ آنکھیں موند لیتے تھے اور کچھ توقف کے بعد لب کشا ہوتے تھے۔ سوامی جی جب کچھ کہنے کے لیے منہہ کھولتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان گنت سمندروں کی گہرائیاں گونج رہی ہیں اور آبشار بن کر ان کے ہونٹوں سے پھوٹ رہی ہیں۔ حالتِ مراقبہ میں ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی لکیر ابھرتی تھی اور پورے ماحول کو شفق زار کر جاتی تھی۔۔۔ جلال اور جمال کی آمیزش وہ سماں باندھ دیتی تھی کہ عقیدت مندوں کو اس ساعت میں ہری درشن مل جاتے تھے!

    ادھر کئی برسوں سے سوامی جی نے بھکتوں کو درشن نہیں دیئے تھے۔ وہ اس سلسلے کو موقوف کر چکے تھے۔ لیکن جن دنوں یہ سلسلہ جاری تھا اس وقت ان کے دروازے پر ایک بھیڑ لگی رہتی تھی۔ مزدور سے لے کر منسٹر تک اور کلرک سے لے کر دولتمندوں تک سب ایک قطار میں کھڑے اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے تھے اور باری آنے پر، سانس کے ساتھ جی کو جتنے روگ اور آس کے ساتھ جان کو جتنے جنجال لگے ہیں ان کا رونا روتے تھے۔ سوامی جی کا آشیر واد ان کے مردہ دلوں میں جان ڈال دیتا تھا اور وہ ایک مرتبہ پھر سانس کے دھاگے سے آس کا جال بننے لگتے تھے۔۔۔ بنتے بنتے ہوتا یہ تھا کہ کہیں گِرہ الٹی پڑ جاتی تھی اور اس کی انہیں خبر نہیں ہوتی تھی۔ بنت پوری ہونے پر معلوم ہو تاکہ یہ تو جنجال بن گیا۔۔۔ جال پھر بننے سے رہ گیا۔۔۔ ضرور کہیں الٹی گرہ پڑی ہو گی۔ وہ پھر سوامی جی کے پاس آتے۔ سوامی جی سمجھ جاتے کہ ماجرا کیا ہے؟ اب کے آنے والا زبان سے کچھ نہ کہتا اور سوامی جی بھی اسے خاموش آشیر واد دے کر لوٹا دیتے۔

    یہ تھا وہ سلسلہ جسے کسی وقت سوامی جی نے جاری رکھا تھا۔۔۔ دراصل یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری تھا لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ کب سے جاری تھا۔ بستی والے آپس میں باتیں کرتے تو یہی بات سامنے آتی کہ ان کے پرکھوں کے جو پر کھے تھے، ان کے زمانے سے سوامی جی جن کلیان میں لگے ہوئے ہیں۔ صحیح بات تو شاید صرف اس ندی کو معلوم ہو جو صدیوں سے بستی والوں کو امرت بانٹ رہی ہے۔۔۔ لیکن بڑوں نے پہلے ہی کہا ہے کہ ندی کے سروت اور سنت کی جڑ کو، کون پا سکا ہے! اس لیے بستی والوں نے سوامی جی کے بارے میں سوچنا ترک کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک ایسی سوچ شردّھا میں کھوٹ کا پتہ دیتی تھی۔۔۔ اور ان کی سوامی جی پر اٹوٹ شردھا تھی!

    خود سوامی جی کے جیون میں اس ندی کو بڑا دخل تھا۔ ان کی صبح ندی کے نرمل جل میں اشنان سے ہوتی اور رات کے سمے دھونی کا رمانا اور دھیان کا لگانا سب کچھ اسی کے تٹ پر ہوتا تھا۔

    ایسی ہی ایک رات کا واقعہ ہے۔ سوامی جی نے دھونی رمائی تھی اور دھیان لگا کر بیٹھے تھے۔ اماوس کی گھڑی تھی۔ آدھی سے زیادہ رات بیت چکی تھی، چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ ندی کے پانی کی کل کل اور سنکی ہوئی ہوا کی سر سر، ہر پل فضا کے سکوت اور ماحول کے انجماد کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سوامی جی ان سب سے بےنیاز تھے۔ جل تت اور وایوتت پروہ بہت پہلے وِجے پراپت کر چکے تھے اور ان کے گرو کی کرپا درشٹ نے انہیں سادھنا کی ابتدائی منزل ہی میں ماٹی سے ایک روپ کر دیا تھا۔۔۔ آج اماوس کی اندھیری رات میں سوامی جی اگنی سے ساکشا تکار کی پرتکشا میں تھے۔ برسوں کی سادھنا اور تپسیہ کے بعد وہ اس قابل ہوئے تھے کہ آج کی دھونی رماتے۔ انہوں نے ایک عمر صرف کی تھی اپنے آپ کو اس رات کی خاطر تیار کرنے میں۔ آدھی سے کچھ ادھر رات ڈھل چکی تھی۔ گہرا اندھیرا کچھ اور گہرا ہو گیا تھا کہ اچانک سوامی جی حالت مراقبہ سے عالم وجود میں آ گئے۔ ازخود ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے دیکھا کہ ندی کا پانی ٹھہرا ہوا ہے، ہوا تھم گئی ہے اور گردش کے چکر میں گرفتار یہ دھرتی جامد ہو گئی ہے۔۔۔ سوامی جی نے سب کچھ ٹھہرا ہو ادیکھا اور ان پر سرور چھا گیا۔ وہ جھوم اٹھے کہ آج ان کی تپسیہ سپھل ہو گئی۔ عالم وجد میں انہوں نے بستی پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ پوری بستی نور میں نہائی ہوئی ہے۔۔۔ ان کی آنکھیں خیر ہ ہو گئیں۔۔۔ اب وہ کچھ دیکھ نہیں پا رہے تھے۔۔۔ اندھیرا چھا گیا تھا ان کی آنکھوں میں۔۔۔ پل بھر کے لیے انہوں نے آنکھیں میچ لیں۔۔۔ چند ثانیوں بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ بستی پر دھیرے دھیرے اندھیرے کا سایہ پڑنے لگا ہے۔۔۔ انہوں نے دیکھا کہ اندھیرے کا ایک ہالہ ہے جس نے چاروں طرف سے بستی کو گھیر لیا ہے اور بیچوں بیج وہ روشنی کا ہالہ ہے جس نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔۔۔ لمحہ بہ لمحہ اندھیرے کا ہالہ بڑھنے لگا اور روشنی کا ہالہ سمٹنے لگا۔ معلوم ہوتا تھا کہ بڑھتا ہوا ہالہ سمٹتے ہوئے ہالے کو دبوچ لینا چاہتا ہے۔ جس رفتار سے اندھیرے کا ہالہ بڑھ رہا تھا اسی رفتار سے روشنی کا ہالہ سمٹ رہا تھا جس کی وجہ سے ایک دائرہ بن گیا تھا جو دونوں کے درمیان حد فاصل کا کام کر رہا تھا۔ گو وہاں سوامی جی کے علاوہ کوئی اور دیکھنے والا نہیں تھا تاہم دائرے کے سمٹنے کی رفتار دیکھنے والے کو دونوں ہالوں کی کیفیت کا پتہ دے سکتی تھی۔ یہ دائرہ سمٹتا رہا اور ہالے اس کی مطابقت سے پھیلتے اور سکڑتے رہے۔۔۔ سمٹتے سمٹتے وہ دائرہ ایک نقطے پر آ کر رک گیا، گویا اس نے دونوں ہالوں کی حد متعین کر دی!

    سوامی جی نے اپنے آپ کو اس روشنی کے ہالے کے مرکز میں پایا۔ گویا وہ محور ہیں اور ہالہ ان کے گرد بنایا گیا ہے۔ انہوں نے پوری طرح گھوم کر دیکھا، انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ہالے کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ عالم وجد میں انہوں نے ہالے کے مرکز پر خود کو گول گول گھمانا شروع کیا اور گھومتے گھومتے وہ غش کھا کر گر پڑے!

    اس واقعے کے تین دن بعد تک سوامی جی نے اپنی کٹیا کا دروازہ نہیں کھولا۔ چوتھے روز وہ باہر آئے۔ ان کے سیوک چرن داس نے بڑھ کر ان کی چرن دھو لی۔ سوامی جی نے ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کی بھیڑ کو جانے کے لیے کہا۔ ان کے رعب اور جلال کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکا۔۔۔ دیکھتے دیکھتے بھیڑ چھٹ گئی۔۔۔ لیکن وہ ایک شخص اپنی جگہ پر اٹل کھڑا رہا!

    پتہ نہیں وہ کس گاوں کا تھا۔ اس بستی کی تلاش میں اس نے کہاں کہاں کی خاک چھانی تھی، یہ وہی جانتا تھا۔ وہ ننگے پیر تھا۔ س کے سر کے بال کھچڑی کھچڑی تھے۔ ان میں سفیدی کی لکیریں، ابھر رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں سمندروں کی گہرائی تھی اور اس کی ستواں ناک اس کی شخصیت کے وقار کو مزید اعتبار عطا کر رہی تھی۔

    اس نے ایک نگاہ غلط انداز سوامی جی پر ڈالی۔ سوامی جی کے چہرے سے اب بھی جلال ٹپک رہا تھا۔ ان کی نظریں اس کے وجود کو چیر کر آگے بڑھ جانا چاہ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی لکیر ابھری۔۔۔ اس لکیر نے جلال میں جمال کی ہلکی سی آمیزش کر دی۔۔۔ ایک بجلی سی چمکی اور تنویر و تقدیس کی فضا پورے ماحول پر چھا گئی تو نو وارد کی یادوں کے خوابیدہ گوشے جاگ اٹھے۔

    اسے یاد آیا، یہ وہی صاحب ہیں جو کبھی میرے گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ ہم سب انہیں شاستری جی کہتے تھے۔ شاستری جی جوتش ودیا کے بڑے ماہر تھے۔ سب انہیں تری کال درشی بتاتے تھے۔ جنم پتری بنانے اور دیکھنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ پچاس پچاس کوس کے فاصلے سے لوگ آپ کے پاس جنم پتریاں بنوانے اور دکھانے آتے تھے۔ جہاں تک گاؤں کا سوال تھا کوئی شادی شاستری جی کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوتی تھی۔ لڑکے اور لڑکی کی جنم پتریاں ملانے کے بعد وہ دونوں کو آشیر واد دیتے تھے۔

    اسے یاد آیا کہ وہ ایک مرتبہ پتا جی کے ہمراہ شاستری جی کے یہاں گیا تھا۔ بس پہلی اور آخری مرتبہ! معاملہ وہی شادی کا تھا۔ پتا جی اس کی اور لڑکی کی جنم پتری شاستری جی کو دکھانے لائے تھے۔ شاستری جی نے اس جنم پتری دیکھ کر پتا جی سے کہا تھا،

    ’’ججمان! آپ جس کی جنم پتری میرے پاس لائے ہیں اس کی مرتیو کو بیس ورش بیت چکے ہیں۔‘‘

    شاستری جی کی ودیا اور ان کا گیان شک و شبہ سے بلند تھا۔ پتا جی نے بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ہی کرب کے ساتھ کہا تھا،

    ’’شاستری جی، آپ کے کہے مطابق میری ونش ریکھا اسی دن کٹ گئی تھی جس دن میرے گھر پتر جنما تھا‘‘

    پتا جی کا ہاتھ اس کے سر پر تھا۔ شاستری جی باپ بیٹے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ایک گاؤں ہی کے تو تھے وہ۔ شاستری جی نے کہا تھا،

    ’’پنڈت جی! یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ کچھ مہانو بھاو ایسے ہوتے ہیں جن کی اصل کسی کو معلوم نہیں ہوتی۔۔۔ ندی کے سروت کے سمان!‘‘

    ’’جی شاستری جی!‘‘

    ’’تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی ونش ریکھا اسی کا رن اس دن کٹ گئی۔ آپ دھنیہ ہیں ور میں۔۔۔‘‘

    ’’اور آپ شاستری جی!‘‘

    ’’میرے دھنیہ ہونے کا سمے ابھی نہیں آیا‘‘

    وہ خاموش کھڑا دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ یہ باتیں اس کے لیے بڑی مضحکہ خیز تھیں۔ جیسے تیسے وہ ان کو برداشت کر رہا تھا۔ اس نے غیر معمولی ضبط سے کام لیا تھا ورنہ ضرور اس کے ہنسی پھوٹ پڑتی۔ بہر صورت چہرے پر سنجیدگی کے آثار بنائے رکھنے میں وہ کامیاب رہا۔ لیکن دھیرے دھیرے یہ احسا س اس کے اندر جڑ پکڑنے لگا کہ بظاہر بےتکی اور تضاد سے بھری ان باتوں کو گیان اور شاستر کی پشت پناہی حاصل ہے بلکہ یہ اور ایسی دوسری باتیں ہی گیان اور شاستر کہلاتی ہیں۔ وہ سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آج وہ زندہ بھی ہے اور اس کی موت بیس برس قبل واقع ہو چکی ہے۔ وہ حیران تھا کہ اس کی پیدائش کی گھڑی موت کی گھڑی تھی یا موت کی گھڑی پیدائش کی گھڑی۔ ہونے اور نہ ہونے کے اس مسئلے کی فکر نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ آخر کار جھنجھلا کر اس نے ایشور کے ہونے سے انکار کیا اور اطمینان کے ساتھ اپنے ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ناستک ہو جانے پر پتا جی اسے اس کی مرضی کے خلاف شاستری جی کے پاس لے گئے تھے۔ شاستری جی نے کہا تھا،

    ’’پنڈت جی! چنتا نہ کریں۔ ایک دن یہ خود میرے پاس آئے گا اور اس دن۔۔۔‘‘

    وہ وہاں سے پتا جی کا ہاتھ چھڑا کر نکل پڑا تھا۔ پتا جی نے اسے آواز دی تھی۔ رکنے کے لیے کہا تھا اور شاستری جی ان سے کہہ رہے تھے،

    ’’پنڈت جی! اسے مت روکیے۔ اب یہ کسی کے روکے نہیں رکے گا۔ اس کا اس طرح چلا جانا ہی اچت ہے۔ ایک دن یہ خود میرے پاس آئےگا اور اس دن۔۔۔‘‘

    اس دن سے آج کے دن تک وہ برابر چلتا رہا ہے۔ راستے میں کتنے نگر آئے کتنی بستیاں پڑیں۔ کتنے لوگ ملے۔ ان میں کتنے تو سادھو تھے، کتنے سنت تھے، کئی جوگی تھے تو کئی جنگم تھے۔ ان میں فقیر بھی تھے اور بیراگی بھی۔۔۔ سب اسے اپنانا چاہتے تھے اور وہ ہر جگہ سے دامن جھٹک کر اٹھ آیا تھا۔۔۔ لیکن آج اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں کی زمین نے اسے پکڑ رکھا ہے۔ وہ قدم اٹھانا چاہتا تھا پراٹھا نہیں پا رہا تھا اوراس کی نظریں سوامی جی کی نظروں کا تعاقب کر رہی تھیں۔ وہ اس کوشش میں تھیں کہ سوامی جی کی نظروں پر پہرہ بٹھا دیں۔

    اس سے پہلے کبھی وہ ایسی صورتحال سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ اس کے ذہن کے پردے پر یکے بعد دیگرے دو تصویریں ایک تواتر کے ساتھ ابھرنے لگیں۔۔۔ شاستری جی اور سوامی جی۔۔۔ سوامی جی اور شاستری جی۔۔۔ ہوتے ہوتے اس تواتر کی رفتار اتنی تیز ہو گئی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ غش کھا کر گر پڑا۔

    ہوش آنے پر اس نے دیکھا کہ چرن داس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ وہ بوڑھا بچوں کی طرح ناچ رہا ہے اور اچھل اچھل کر سوامی جی سے کہہ رہا ہے۔ ’’دیکھئے میرا ببوا آ گیا۔ آ گیا میرا ببوا! آپ کے کہے مطابق ہی ہوا، گھوم پھر کر آخر کو یہ لوٹ آیا، چرن داس نے آگے بڑھ کر اسے لپٹا نا چاہا لیکن اس نے قدرے احتیاط سے خود کو بچایا۔۔۔ ذرا فاصلے پر جا کر اس نے چرن داس نے کہا ’’چھما کیجئے۔ میں آپا کا پتر نہیں۔‘‘ اس کی زبان سے یہ لفظ سنتے ہی چرن داس کے تن سے اس کی روح پرواز کر گئی۔ اس نے چرن داس کی آتما کو اس کے تن سے جدا ہوتے ہوئے دیکھا اور دھیرے سے کہا،

    ’’چھما کیجئے۔ میں کسی کا پتر نہیں!‘‘

    اب سارے میں سوامی جی کی آواز گونج اٹھی۔

    ’’آؤ ناستک! میں تمہاری ہی پرتکشا کر رہا تھا۔‘‘

    اس نے تول تول کر قدم اٹھائے۔ سوامی جی کے مقابل ٹھہر کر ان کی نظروں میں اپنی نظریں گاڑ دیں اور کورے برتن کی طرح کھنکھناتی آواز میں کہا،

    ’’تم میری پرتکشا نہ جانے کتنے برسوں اور کتنی صدیوں سے کر رہے ہو لیکن اس دوران تم سے یہ نہ ہوا کہ جتنا کھرا ناستک میں ہوں اتنے کھرے آستک تم بنتے۔۔۔ تمہیں یہ ادھیکار نہیں کہ مجھے ناستک کہہ کر پکارو۔‘‘

    سوامی جی نے کہا،

    ’’ہم دونوں کے مارگ الگ تھے۔ ہماری تپسیہ۔۔۔‘‘

    اس نے سوامی جو کو ٹوکتے ہوئے کہا،

    ’’اب یہ نہ کہئے کہ ہماری تپسیہ بھی الگ تھی۔۔۔ اکیلے آپ کے چھل کو تپسیہ کا پھل سمجھے لینے سے تپسیہ الگ نہیں ہو جاتی‘‘

    سوامی جی کی آنکھوں میں وہ اماوس کی رات گھوم گئی۔ انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا،

    ’’یہ تو مارگ مارگ کا فرق ہے۔ جس مارگ پر میں چلا تھا اس میں پریکشا جیون میں ایک بار ہی ہوتی ہے۔۔۔ اور جیون کے دھارے میں بہتے ہوئے ہم اس ایک پل میں بھول کر جاتے ہیں۔۔۔ تمہارا مارگ ہمارے مارگ سے بہت الگ ہے۔ ناستِک کے جیون کا ہر پل اس کی پریکشا کا پل ہوتا ہے۔ پھل سو روپ وہ جیون بھر سچیت رہتا ہے۔۔۔ بڑا فرق ہے ان دو مارگوں میں‘‘

    اس نے بڑے ہی تیکھے لہجے میں سوال کیا،

    ’’یہ بتائیے کیا آپ جانتے ہیں کہ جیون میں ایک بار ہونے والی پریکشا کا وہ پل کون سا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں! آج تک کسی سادھک نے اس ایک پل کی آہٹ نہیں سنی۔۔۔ وہ تو بس آ جاتا ہے‘‘

    اس پر ناستک نے کہا،

    ’’ا گیانی ہوکر، گیانی کی منود شامیں جینے کا بھرم پالنے کا ساہس سادھک کو شوبھا نہیں دیتا۔۔۔ جب یہ نہیں معلوم کہ وہ ایک پل کون سا ہے تو جیون کے ہر پل کو ’’وہ ایک پل‘‘ سمجھ کر جینا چاہیے ہے سادھک جان لو کہ ا گیان اندھکار کا جنم داتا ہے اور اندھکار بھید بھاؤ کا!‘‘

    سوامی جی کی آنکھوں میں تارے چمکنے لگے۔ انہوں نے بڑی ہی شردّھا کے ساتھ ناستک کو پرنام کیا۔ آگے بڑھ کر اس کے چرن چھوئے اور کہا،

    ’’آج میں دھنیہ ہو گیا‘‘

    اوپر اٹھ کر انہوں نے دیکھا تو وہ جا چکا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے