Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نجات

MORE BYمعین الدین جینابڑے

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے مرشد کی کہانی ہے، جسے اس کا پیر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کہتا ہے جو اس کا آخری امتحان ہے۔ وہ سوال کے جواب کی تلاش میں ایک گاؤں میں پناہ لیتا ہے اور وہیں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ جب اسے وہاں بھی جواب نہیں ملتا تو وہ گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ لیکن جب وہ گاؤں چھوڑ کر جا رہا ہوتا ہے تو ایک ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ اسے خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہوتا۔

    اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اِس گاؤں کو چھوڑ دے گا۔ کسی اور گاؤں کی طرف ہجرت کرے گا تاکہ عمر کے ان آخری دنوں میں ہی سہی اسے اس سوال کا جواب مل جائے جس کی تلاش اس کے لیے زندگی سے عبارت ہو کر رہ گئی تھی!

    اس کے لیے یہ گاؤں پرایا نہیں تھا اور نہ ہی یہاں کے لوگ اب اس کے لیے اجنبی تھے۔ نگرواسیوں کو تو وہ دن آج بھی یاد ہے جس دن اس نے گاؤں میں پہلی مرتبہ قدم رکھا تھا۔ اس کی آمد کی خبر پورے گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ خوشی کا یہ عالم تھا کہ وہ گاؤں کی سرحدیں توڑ کر باہر نکلی جا رہی تھی۔ ہر شخص اپنی جگہ مسرور و مطمئن تھا۔ کسی کے نزدیک سائیں جی کی آمد نگر کے کلیان کی ضامن تھی۔ تو کسی کا دل کہہ رہا تھا کہ سوامی جی کی تپسیہ اور ان کا آشیرواد گاؤں کو سکھ شانتی سے بھر دے گا اور کسی نے خدا کا شکر ادا کیا کہ شاہ صاحب نے گاؤں کا ذمہ لے لیا!

    اس نے گاؤں کا ذمہ لیا ضرور تھا لیکن گاؤں والوں کی بنتی پر نہیں۔ اسے اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل مقصود تھی۔ وہ دن اس کی زندگی کا سنہرا دن تھا جب مرشد نے اسے اپنے خاص حجرہ میں بلا کر کہا تھا۔

    ’’آج تمہاری تربیت پوری ہو گئی۔ تم نے ریاضت کی تمام منزلیں سرکیں اور ہر امتحان سے کامران گذرے۔۔۔ لیکن ایک آخری امتحان رہ گیا ہے!‘‘

    اس نے دست بستہ عرض کیا تھا۔

    ’’اگر پیرومرشد فقیر کو اس لائق سمجھیں تو فقیر اس کے لیے تیار ہے۔‘‘

    مرشد نے بہت غور سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ کچھ دیر کے لیے انہوں نے آنکھیں موند لی تھیں اور پھر آنکھیں کھول کر گویا ہوئے تھے۔

    ’’اب تم پر واجب ہے کہ اپنی ذات سے بنی نوع انسان کو فیض پہنچاؤ۔ خدا کی بنائی ہوئی یہ زمین تنگ نہیں ہے۔ اس کے چپے چپے پر اس کا نام لینے والے آباد ہیں۔ میں تم سے مشرق کی طنابیں مغرب سے ملانے نہیں کہتا اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ شمال کے سرے کو جنوب سے ملاؤ۔ تمہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنی ذات کو انسانوں کے لیے فیض و برکت اور عنایت کا سرچشمہ بناؤ۔‘‘

    مرشد نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے عقیدت و احترام کے ساتھ اسے چوما اور چوم کر جامد و ساکت مرشد کے حضور میں کھڑا رہا۔ مرشد نے پوچھا،

    ’’کچھ تامل ہے؟ یا کچھ استفسار؟‘‘

    ’’اگر پیرو مرشد اجازت دیں تو۔۔۔‘‘

    ’’پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ آج کے بعد ہم پھر کبھی نہیں ملیں گے یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔‘‘

    ’’پیرومرشد یہ ارشاد فرمائیں کہ فقیر اس حکم کی تکمیل کس طرح کر سکتا ہے؟‘‘

    ’’تم بھول رہے ہو یہ تمہارا امتحان ہے۔ آخری امتحان۔ اس کا جواب خود تمہیں ڈھونڈنا ہوگا۔‘‘

    اس کے جی نے چاہا کہ مرشد سے پوچھے کہ کیا آپ اس امتحان سے کامیاب گذرے ہیں! لیکن وہ یہ جسارت نہ کرسکا کیوں کہ ایسا کرنا مرشد کی شان میں گستاخی کے مترادف تھا۔ سوے ادب کے خیال نے اس کے لبوں پر مہر لگا دی۔ لیکن مرشد آخر مرشد تھے۔ وہ اپنے شاگرد کے باطن اور ظاہر دونوں سے پوری طرح واقف تھے۔ جس لمحے اس کے دل میں یہ خیال آیا اسی پل خیال کی ترسیل ان تک ہو گئی۔ انہوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

    ’’میں اس قوی امّید کے ساتھ تمہیں رخصت کر رہا ہوں کہ تم باقی زندگی میں اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈ نکالوگے۔۔۔ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں نہ جانے کتنے سرگرداں ہیں اور نہ معلوم کتنوں نے تھک ہار کر کمریں کھول لی ہیں۔۔۔ تمہیں آخری سانس تک کوشش کرنی ہوگی‘‘

    اس نے آخری بار مرشد کے ہاتھ کو چوم کر عزم کیا کہ وہ اس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈ نکالے گا۔

    بہ ظاہر اس نے گاؤں والوں کی بنتی سوئیکار کی تھی لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس کے عزم اور اس کی امید نے اس سے کہا تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں تجھے اس سوال کا جواب ملے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یہاں اس ٹیلے پر برگد کے نیچے آسن جمایا تھا۔

    یہاں بیٹھا وہ ایک ایسے کھیل کا تماشائی تھا جس میں تماشہ گر اور تماشہ بین میں فرق نہیں تھا۔ ذرا الگ ٹیلے پر بیٹھ کر وہ اس فرق کو دیکھ سکتا تھا۔ سمجھ سکتا تھا۔ لیکن وہ جو نیچے تھے۔ ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ اس کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ ان کی عدم واقفیت نے ان کے لیے اس پورے شغل کو ایک بوجھ بنا دیا تھا۔ ایک ایسا بوجھ جو پیدائش کی ساعت ہی سے ان کی پیٹھ پر لدا چلا آ رہا ہے اور وہ چا ہے اَن چاہے اسے لادے پھر رہے ہیں۔

    انہیں اس کا احساس تھا کہ جس مشغلے میں ان کی عمریں صرف ہو رہی ہیں اسے سمجھنے میں ان سے کہیں کوئی کوتاہی ہو رہی ہے لیکن ان میں اتنی اہلیت نہیں تھی کہ وہ خود اس کی نشان دہی کرتے اور اس کا مداوا ڈھونڈ نکالتے۔ ایک طرف ان کے جسم اس بوجھ کو ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہو گئے تھے اور دوسری طرف اس مشغلے کی نوعیت سے عدم واقفیت کے احساس اور اس کی تفہیم میں ان کی جانب سے ہو رہی کوتاہی کے اعتراف نے ان کی روحوں کو بوجھل بنا دیا تھا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ نڈھال جسموں کو بوجھل روحیں بار معلوم ہو رہی تھیں اور جسموں کی قید میں تھکی ہاری روحوں کی سانسیں گھٹ رہی تھیں۔

    ایک پل کے لیے اس کے دل میں یہ خیال آئے بغیر نہیں رہ سکا کہ گاؤں والوں کو اس حالت میں چھوڑ کر جانا مناسب نہیں لیکن اب جب کہ اس کی زندگی کے کچھ ہی دن باقی رہ گئے تھے اور اس نے گاؤں میں ایک لمبی عمر گذاری تھی اسے یہ احساس ہو چلا تھا کہ اس نے غلط جگہ قیام کیا ہے۔ یہاں اسے اپنے سوال کا جواب نہیں مل سکتا۔ ویسے گاؤں کے لوگ بہت اچھے تھے۔ ان کے دلوں میں اس کے لیے اب بھی وہی عزت تھی۔ آج بھی وہ اس کی پہلے جیسی قدر کرتے تھے۔ اس خصوص میں گاؤں میں اس کا پہلا دن اور آج کا دن دونوں برابر تھے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہوا تھا کہ وہ اس گاؤں کی عادت بن گیا تھا!

    روز رات کو اپنی گردنوں پر ندامت کا بوجھ لیے شکست خوردہ فوج کے سپاہیوں کی صورت بنائے اس کے سامنے حاضر ہونا گاؤں والوں کا معمول بن گیا تھا۔ ان کا معمول بن گیا تھا کہ روز رات کو پیروں کے انگوٹھوں سے زمین کریدتے ہوئے اس کی باتیں سنیں اور صبح جب اپنے اپنے گھر وں سے باہر نکلیں تو سب کچھ بھلا کر اپنی سی کرنے لگیں۔

    اب وہ کوئی احمق تو نہیں تھا کہ کسی کی عادت بن جانے کے بعد بھی اپنے دل کو یہ کہہ کر بہلائے کہ اب بھی تو اس لائق ہے کہ تیرے ہاتھ وہ گو ہر لگے جس کی تلاش میں نہ جانے کتنے سرگرداں ہیں اور نہ معلوم کتنوں نے تھک ہار کر کمریں کھول لی ہیں۔۔۔ بہتر یہی ہے کہ یہاں سے کوچ کیا جائے۔

    رات کے اندھیرے نے جب اچھّی طرح ہاتھ پیر نکالے اور پوری طرح گاؤں پرچھا گیا تو وہ اپنے آسن سے اٹھا۔ اس نے ایک الوداعی نظر گاؤں پر ڈالی، صدیوں پرانے برگد کا ایک پتہ توڑ کر بطور یادگار اپنے ساتھ لیا اور فقیرانہ بے نیازی کے ساتھ قدم اٹھاتا ہوا گاؤں کی سرحد پار کر گیا۔ اس کے گاؤں کی سرحد کے باہر قدم رکھتے ہی آسمان پر زور سے بادل گرجے۔ ان کی گڑ گڑاہٹ سے دھرتی سہم گئی اور سہم کر تھر تھر کانپنے لگی۔۔۔ گاؤں کے کھڑکی دروازے بجنے لگے۔۔۔ گاؤں والوں کی نیندیں اچٹ گئیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈی میں نیچے سے اوپر تک ایک سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔ وہ سہمے سہمے، گھبرائے گھبرائے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ اس نے مڑ کر گاؤں کی طرف دیکھا، ادھر گاؤں والوں کی نظریں آسمان کو تک رہی تھیں۔ آسمان پر ایک بجلی سی کوندی اور پلک جھپکتے ہی صدیوں پرانا وہ برگد کا پیڑ ڈھیر ہو گیا!

    وہ سراپا حیرت بنا سرشٹی کے اس انقلاب کو دیکھ رہا تھا کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور اس کے ہاتھ سے برگد کا وہ آخری پتہ اڑا لے گیا۔ اس نے لپک کر اسے پکڑنے کی کوشش کی کہ اس کے لیے وہ صرف پتا نہیں تھا۔، عمر بھر کی تپسیہ کی یاد گار تھا۔ لیکن وہ اسے پکڑ نہیں سکا اور ہوا کے دوش پر لہراتا ہوا وہ پتہ گاؤں کی سرحد میں جاگرا…اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ دوبارہ اس گاؤں میں قدم رکھتا۔۔۔ جسے ایک بار تج دیا اسے سدا کے لیے تج دیا!

    گاؤں کی سرحد کے باہر ٹھہر کر اس نے آخری نظر گاؤں پر ڈالی۔ پورا گاؤں بین کر رہا تھا۔ سب روتے چلاتے اس کے ٹیلے کی طرف جا رہے تھے۔ کوئی رو رو کر کہہ رہا تھا۔ سائیں جی نے گاؤں کی بلا اپنے سر لے لی تو کوئی سسکیوں کے بیچ رک رک کر کہہ رہا تھا سوامی جی نے ہم پاپیوں کے لیے اپنی بھینٹ چڑھا دی اور کہیں سے آواز آئی شاہ صاحب نے ہماری جانوں کا صدقہ ادا کیا۔ غم و اندوہ کی ایک لہر تھی جس نے پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور وہ لہر اب گاؤں کی سرحدوں کو توڑ کر آگے نکل جانا چاہتی تھی کہ گاؤں والوں کو یاد آیا۔۔۔ جانے والا کہا کرتا تھا ’’غم ہویا خوشی اس کا قد تمہارے قد سے کبھی اونچا نہ ہو‘‘ ۔۔۔ انہوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ سسکیوں اور ہچکیوں کو روکا اور باری باری انتہائی احترام و عقیدت کے ساتھ آگے بڑھ کر اس راکھ کے ڈھیر میں سے اپنے اپنے حصے کی استھی اٹھانے لگے۔

    یہ منظر دیکھ کر اس نے منہ پھیر لیا۔ اس کی نظر اس منظر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تھی۔ اس نے گاؤں کی طرف پیٹھ کی اور ناک کی سیدھ میں چل پڑا۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے