Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی عورت

MORE BYفیروز ناطق خسرو

    محلے بھر میں اس کی مخالفت آج کل روزوں پر تھی۔ بزرگ اس کا نام آتے ہی لاحول پڑھتے تھے۔ آتے جاتے کہیں نظر پڑ جاتی تو کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے گزر جاتے۔ لونڈے لباڑے دن بھر گلی میں شور و غل مچائے رکھتے، نئے نئے کھیل ایجاد کئے جاتے، مگر جہاں اسے آتے دیکھا تو دم سادھ کر کھڑے ہو جاتے یا کونوں کھدروں میں چھپنے کی کوشش کرتے۔ البتہ محلے کی عورتوں کو اچھا موضوع ہاتھ آ گیا تھا۔ جلد از جلد گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر میرے تیرے کے یہاں پہنچتیں اور زور و شور کے ساتھ تبصرے شروع ہو جاتے۔ مگر وہ نجانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا، سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بنا رہنا۔ نہ کبھی تیوری پر بل پڑتے نہ منہ سے شکایت کا کوئی لفظ نکلتا۔ ہر ایک سے اس خندہ پیشانی سے ملتا۔ بابوجی، مزاج اچھا ہے، گھر میں سب خیریت ہے۔ اماں جی سلام اصغر بھیا، میرے لائق کوئی خدمت۔ کسی کا دل چاہا تو جباب دے دیا ورنہ سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔

    شدو کی مخالفت میں حاجی فضل الہی پیش پیش تھے۔ ایک زمانے میں حاجی صاحب اور شدو کے گھرانو ں میں کافی میل جول تھا۔ دونوں مکانوں کے بیچ صرف ایک دیوار حائل تھی۔ جس میں ایک چھوٹا سا دروازہ لگا ہوا تھا۔ حجن بی اکثر شدو کی بیوی رشیدہاں کو گھر کے کام کاج کے لئے آواز دے لیا کرتی تھیں۔ مگر جب حجن بی کا انتقال ہو گیا اور اس کے ایک ماہ بعد ہی رشیداں بقول شدو کے کسی بات پر روٹھ کر میکے جا بیٹھی تو حاجی صاحب نے دروازے میں قفل ڈال دیا۔

    حجن بی کے انتقال اور رشیداں کے چلے جانے کے بعد لوگوں کا خیال تھا کہ شدو کو کھل کھیلنے کا موقع ملےگا۔ مگر تین ماہ کا عرصہ گزر جانے پر بھی جب شدو کے معمول میں کچھ فرق نہیں آیا تو لوگوں کو اس کے تائب ہو جانے کا گمان ہو نے لگا۔ البتہ حاجی فضل الہٰی کو اب بھی یہ یقین تھا کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا اور شدو کا تو کام ہی ہیرا پھیری کا تھا۔ مہینے دو مہینے بعد ہی ہیرا منڈی سے کوئی نہ کوئی ہیرا اپنی گڈری میں چھپائے کٹیا کا رخ کرتا اور چند روز بعد کسی جوہری کی نذر کر دیتا شدو اس کا م کو ثواب سمجھ کر کرتا، مگر حاجی فضل الٰہی کے نزدیک یہ دوزخ کمانا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ لذیذ کھانے دیکھ کر رال تو ٹپک ہی پڑتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئلوں کی دلدل میں ہاتھ کالے نہ ہوں۔ لاکھ شدو نیت ٹھیک ہو، مگر بھئی عورت، عورت ہی ہے۔ جوان، پرشباب اور گناہ آلود زندگی گرائے ہوئے۔ یہ کہتے ہی حاجی صاحب کی آواز بھرا جاتی اور وہ زور زور سے لاحول پڑھنے لگتے۔

    شدو، محنت مزدوری کر کے اپنا گزارا کرتا تھا۔ شکل و صورت کے علاوہ روئیے پیسے کے معاملے میں بھی غریب واقع ہوا تھا۔ تعلیم بھی کچھ خاصی نہ تھی، یہی مڈل کی آٹھ جماعتیں پاس تھا، مگر سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے سبب اونچے حلقوں میں اس کی خاصی آؤ بھگت ہوتی تھی۔ محلے والوں نے شدو کے ان مشاغل کو کبھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ حجن بی اور رشیداں کی موجودگی میں انہیں کہنے سننے کا کچھ زیادہ موقع نہیں ملتا تھا۔ کیونکہ حجن بھی اپنی بزرگی اور سلوک کے باعث محلے میں سب سے زیادہ قابل احترام ہستی تصور کی جاتی تھیں اور ان کے نزدیک بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانا ثواب عظیم کا درجہ رکھتا تھا۔ حجن بی کے انتقال کے بعد محلے کی فضا شدو کے حق میں خاصی حد تک ناگوار ہو چکی تھی اور اس میں حاجی فضل الہٰی کی کوششوں کو زیادہ دخل تھا۔

    یہ بھی عجب اتفاق تھا کہ جتنی مرتبہ شدو کسی نئی عورت کو لایا۔ اس کا ٹکراؤ سب سے پہلے حاجی صاحب ہی سے ہوا اور نتیجے میں استقبال کچھ زیادہ ہی شاندار ہوتا۔ تمام محلہ حاجی صاحب کی چیخ و پکار سے گونج اٹھتا۔ حرامزادہ، مردود، بدمعاش۔ عرض جو کچھ منہ میں آتا وہ کہے چلے جاتے۔ مگر شاباش ہے شدو کو جواب میں اُف تک نہ کرتا۔ سر جھکائے، تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گزر جاتا۔ پیچھے پیچھے سیاہ برقعہ میں اپنے آپ کو لپیٹے ہوئے ایک عورت برقعہ کے اندر ہی سے نقاب کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے، شدو کے نقش قدم تلاش کرتی چلتی۔ چنانچہ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ سردیوں کے دن تھے۔ صبح کے چھ بجنے کے باجود بھی لوگ بستر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔ یکایک حاجی صاحب کے چنگھاڑنے کی آوازوں سے پورا محلہ بیدار ہو گیا۔ لوگ سمجھ گئے کہ آج پھر شدو کسی عورت کو لے آیا ہے۔ پھر کہاں کی نیند اور کیسی سردی۔ سو سو کرتے، بغلوں میں ہاتھ دیئے، گھروں سے نکل آئے۔

    شدو حسب معمول مفلر منہ سے لپیٹے، سر جھکائے بمعہ ایک برقعہ پوش کے تیز تیز سے قدموں سے گلی میں سے گزر رہا تھا اور دور اپنے چبوترے پر کھڑے حاجی حاجی فضل الہٰی ہاتھ چلا چلا کر صلواتیں سنا رہے تھے۔ لوگوں کو دیکھ کر حاجی صاحب کی آواز میں اور زور پیدا ہو گیا۔ دیکھا صاحب میں کہتا ہوں آخر اس مردود نے اس محلے کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ یہ شریفوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ شریفوں کے۔ یہاں ہماری بہو بیٹیاں رہتی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے حاجی صاحب کی نگاہیں کھڑکیوں اور دروازوں کی او ٹ سے جھانکتی ہوئی بہو بیٹیوں کا جائزہ لینے لگیں۔ اگر آج ہی اس بدمعاش کو پولیس کے حوالے نہ کیا تو میں بھی حاجی کرم الہٰی کے نطفے سے نہیں۔ حاجی صاحب نے اپنا کئی مرتبہ کا کیا ہوا عہد پھر دہرایا۔ نجانے کیا سوچ کر حاجی صاحب اپنی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے سے ہچکچاتے تھے۔

    پچھلے دنوں جب شدو پہلے پہل کسی عورت کو لے کر آیا تھا تو حاجی صاحب نے رات کا بڑا حصہ اپنے آنگن میں ٹہل ٹہل کر گزار دیا تھا۔ بار بار شدو کی سمت کھلنے والے دروازے کے پاس جاتے۔ تالے کو کھینچ کر دیکھتے اور پھر واپس ہو جاتے نہ معلوم انہیں کس بات کا اندیشہ تھا۔

    عورت کو گھر پہنچا کر شدو تھوڑی دیر بعد کہیں چلا گیا۔ حاجی صاحب کی مخالفت کا اس پر اب کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ اس دن بھی حاجی صاحب بک جھک کر خاموش ہو گئے مگر تمام رات انہیں نہ جانے کس وجہ سے نیند نہیں آئی زور زورسے لاحول پڑھتے رہے لگتا تھا کہ یہ رات حاجی صاحب پر گزشتہ تمام راتوں کے مقابلے میں زیادہ بھاری ہے۔

    حسب معمول الصبح حاجی صاحب اپنے۔۔۔ ٹہل ٹہل کر۔۔۔ میں مصروف تھے کہ انہیں دور سے شدو آتا دکھائی دیا۔ وہ تمام رات ہی باہر رہا تھا۔ شدو کو دیکھتے ہی اجی صاحب نے بڑے لہک کر آواز دی۔ شدو میاں۔ ارے بھائی شدو۔ شدو جو حاجی صاحب سے نظریں چرا کر گھر میں داخل ہونا چاہتا تھا اس انداز تخاطب پر حیران ہو گیا۔ بڑی مدت کے بعد حاجی صاحب نے اس پرانے انداز سے آواز دی تھی جب اللہ بخشے مرحومہ حجن بی زندہ تھیں۔

    یہاں آؤ بھئی۔ وہیں کھڑے کھڑے کیا منہ تک رہے ہو۔ یہ کہتے ہوئے حاجی صاحب گھر میں داخل ہو گئے۔ پیچھے پیچھے شدو ان کی اس غیر متوقع مہربانی پر حیران ہوتا ہوا آنگن میں قدم رکھتے ہی اسے مرحومہ حجن بی یا دآ گئیں اور اس کے ساتھ ہی اپنے گھر سے وابستہ بہت سی تلخ و شیریں یادیں۔ بیساختہ اس کی نگاہیں اپنے گھر میں کھلنے والے دروازے کی طرف اٹھ گئیں۔ یہ دیکھ کر اسے کافی حیرت ہوئی کہ دروازے کی کنڈی کھلی ہوئی ہے۔ جب کہ اس کا خیال تھا کہ حاجی صاحب نے تالا ڈال رکھا ہے۔

    بیٹھو بھائی شدو۔ حاجی صاحب نے اطمینان سے کمرے میں بچھے ہوئے چیر کھٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ رات اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں اب تک ناحق تمہاری مخالفت کرتا رہا ہوں۔ حالانکہ یہ واقعی بہت نیک کام ہے بقول تمہاری حجن بی مرحومہ کے، بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھانا جہاد عظیم کا درجہ رکھتا ہے۔ خدا تمہیں اس کا اجر دےگا۔ میں تو خیر اب قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا ہوں۔ آج مرا کل دوسرا دن۔ یہ کہتے ہوئے حاجی صاحب نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ مگر تم تو ماشااللہ جوان ہو۔ یہ سرد، پہاڑ سی طویل راتیں بھلا کیسے کٹی ہوں گی۔ بھئی میری مانو تو اب جاکر دلہن کو منا لاؤ۔ عورت کے بغیر گھر بالکل سونا لگتا ہے۔ حاجی صاحب شدو کے چہرے پر نظریں جمائے اپنی دھن میں کہے جا رہے تھے اور شدو کی نگاہیں گھر کے درودیوار کا جائزہ لے رہی تھیں۔ جہاں سیروں کے حساب سے گرد جمی ہوئی تھی اور جا بجا مکڑی کے جالے تنے ہوئے تھے۔ دیوار سے اس کی نظریں پھسلتی ہوئی حاجی صاحب کے چیرکھٹ پر جاٹھہریں اور۔۔۔ اور۔۔۔ شدو نے وہاں ایک ایسی چیز دیکھی جسے وہ بخوبی پہچانتا تھا۔ ایک کشمیری سر کا دوشالہ۔ رشیداں کل یہی دوشالہ اوڑھے اس کے ساتھ گھر واپس آئی تھی۔ صفرا بائی کے کوٹھے پر اس نے اپنی بیوی کو یہی دوشالہ اوڑھے دیکھا تھا۔ رشیداں جس سے اسے بڑی محبت تھی اور جو یکایک اسے چھوڑ کر اپنے کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس نے رشیداں کی تلاش میں کہاں کہاں خاک نہ چھانی وہ اس بازار کے گلی کوچوں سے بھی آشنا ہوا اور تب ہی اسے احساس ہوا۔ بدی کے اس کوچے میں سب ہی اپنی مرضی سے قدم نہیں رکھتیں۔

    رشیداں کو واپس لانے میں اسے اپنے آپ سے بڑی جنگ کرنا پڑی تھی۔ رشیداں اپنی پچھلی زندگی میں لوٹ آنے کی خواہش مند تھی۔ آخر وہ کیسے انکار کر سکتا تھا۔ اس نے تو انجان عورتوں کو سہارا دیا تھا اور یہ تو اس کی اپنی بیوی تھی۔ چنانچہ ایک دن وہ موقع پا کر رشیداں کو نکال لایا۔ محلے والے یہی سمجھے کے شدو پہلے کی طرح پھر کسی نئی عورت کو لے آیا ہے۔ وہ انہیں کیا بتاتا کہ یہ نئی عورت اس کی اپنی بیوی ہے۔ اس نے تو سب سے یہی کہہ دیا تھا کہ وہ اس سے لڑ بھڑکر میکے جا بیٹھی ہے۔ یکایک شدو کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ حاجی صاحب کی آواز اب اسے دور سے آتی ہوئی لگ رہی تھی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور تھکے تھکے قدموں سے باہر کی طرف چل دیا۔ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ حاجی صاحب اس کی غربت پر ترس کھاکر جیب سے کرارے سرخ نوٹ نکال رہے تھے۔۔۔ آنگن سے گزرتے ہوئے اس نے ایک نظر اپنی طرف کھلنے والے دروازے کو دیکھا اور گھر سے نکل کر مرے مرے قدموں سے نامعلوم منزل کی طرف چل دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے