Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیکی کا بھوت

عوض سعید

نیکی کا بھوت

عوض سعید

MORE BYعوض سعید

    حرامی سے میری پہلی ملاقات گوپال چند بلڈنگ کے کمرہ نمبر ۶میں ہوئی جہاں وہ رتی لال سیٹھ کی طرف سے سٹہ کی بٹنگ لیا کرتا تھا۔

    پہلے پہل میری آمد پر رتی لال سیٹھ نے مسرت سے اپنے بد نما ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا ’’اشفاق نواب! مجھے خوشی ہے کہ آپ نے آج پہلی بار میری’’ بکٹ شاپ ‘‘میں قدم رکھا ہے۔‘‘ پھر کچھ قدم آگے بڑھ کر انھوں نے کرسی پر بیٹھے ہوئے ایک کسرتی بدن والے کالے کلوٹے نوجوان سے میرا تعارف کرایا۔

    ’’میرا ورکنگ پارٹنر حرامی ہے۔‘’

    اور حرامی یکبارگی گردن تنا کر فخر سے یوں مسکرایا جیسے واقعی اس کے دل کی مرجھائی ہوئی کلی کھل اٹھی ہو۔

    پھر قینچی کی طرح اس کی زبان چلنے لگی، جب وہ بات کرتے ہوئے چند ثانیوں کے لیے رک جاتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے چلتے چلتے یکایک کوئی بھاری مشین رک گئی ہو۔

    اشفاق نواب قسم ہے پیر کی، اپنے پاس ’’زیرو، پانچ‘‘ کا کوئی جھگڑا نہیں، زیرو کا بھی وہی بھاؤ ہے جو دوسرے فیگروں کا ہے اور پھر فٹافٹ پے منٹ۔ نہ پولیس کا خوف نہ سی آئی ڈی کا ڈر۔ ایک مہینے میں آپ کے نام دو شاندار بلڈنگیں کھڑی نہ کرا دوں تو میرا نام حرامی نہیں۔

    ظاہر ہے کہ اس کے ماں باپ نے اس کا نام حرامی تو نہ رکھا ہوگا، اب اگر یار لوگ اسے اپنی فیاضی سے حرامی کے خطاب سے نوازیں تو اس میں اس کے ماں باپ کا کیا دوش!

    حرامی اب بٹنگ لینے میں مشغول ہو گیا تھا اور سلپ لکھتے لکھتے وقفے وقفے سے دلچسپ باتیں بھی کرتا جا رہا تھا۔ اس کے اطراف آٹھ دس افراد مختلف انداز میں بیٹھے آنے والے فیگر کے پیچیدہ زاویوں میں الجھے ہوئے تھے۔ دو سکھ نوجوان دو ربینچ پر چارٹ رکھے تازہ فیگر کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ایک مدراسی نوجوان ان کے سر کے اوپر کھڑا حسابی انداز میں اپنی پتلی پتلی انگلیاں تھرکا رہا تھا، ان میں ایک نوجوان سکھ یکبارگی خوشی سے اچھل پڑا اور مدراسی سہم کر دور جا بیٹھا۔

    ’’واہگرو کی قسم! یہ ڈبل تیا اور آج کھلاڑی ڈبل چوا موت کی طرح اٹل فیگرسمجھ کر کھیلیں گے اور وہ سالا الو بناکر اس کا اپوزٹ فیگر مارےگا۔‘‘ اس کا ساتھی اپنے دوست کے اس ’’آئیڈیا‘‘ پر سر دھننے لگا، اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی، داڑھی اور مونچھوں کے بال فرط مسرت سے قدرے کھڑے ہو گئے۔

    دو بوڑھے بنچوں پر بیٹھے ’’ ٖPop‘‘ دیکھنے میں اتنے محو تھے کہ انھیں ذرا بھی اپنا ہوش نہ تھا۔ نو عمر سٹہ بازوں میں ایک دبلا پتلا نوجوان ’’ ٹائمز‘‘ کے Popمیں چیروٹ دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے اکا کھیلنے کی تلقین کر رہا تھا اور اس کے ساتھی اس کے آئیڈیا کی دھجیاں اڑا رہے تھے۔

    اور حرامی رعونت سے کرسی پر بیٹھا چار مینار سگریٹ کا دھواں فضا میں پھیلا تا ہوا ہر شخص کا انجانے انداز میں جائزہ لے رہا تھا، اسے معلوم تھا کہ آج کونسا ’’پنٹر‘‘ کس فیگر پر زیادہ سے زیادہ کتنی رقم کھیل سکےگا۔ تھوڑی دیر بعد حرامی کے پاس آ کر ان دونوں سکھ نوجوانوں نے اپنی پسند کا اپوزٹ فیگر کھیلا اور آپ ہی آپ مسکراتے باہر چلے گئے۔ جب ان کے قدموں کی دھمادھم فضا میں بالکل ہی ڈوب گئی تو حرامی نے مسکرا کر مجھ سے کہا۔ اشفاق نواب! میری مانو ابھی سو پچاس Unchange پر لگا دو، اگر رات یہ فیگر نہ آئے تو میرا نام حرامی نہیں۔

    میں نے حرامی کی بات مان لی اور اس کے کہنے کے مطابق Unchange پر پچاس روپے لگا کر گھر لوٹ آیا۔ گھر آ کر بستر پر پڑا میں بہت دیر تک سوچ کی ’’بھول بھلیوں‘‘ میں بھٹکتا رہا اور جب صبح جاگا تو گیارہ بج چکے تھے۔ دھوپ دریچوں سے رینگتی ہوئی میرے بستر تک آ پہنچی تھی اور ملازم نے حسب معمول ’’ٹائمز‘‘ کا تازہ پرچہ ٹیبل پر لاکر رکھ دیا تھا۔ میرے ہاتھ غیرشعری طور پر ’’ٹائمز‘‘ ہی کی طرف گئے لیکن وہاں Unchange کے بجائے سکھوں کی کھیلی ہوئی ’’براکٹ‘‘ آ چکی تھی۔ میں نے غصے میں اخبار کو ایک طرف پھینک دیا، میرا دماغ بھنا جا رہا تھا، اب مجھے اس کم بخت کو حرامی سمجھنے میں ذرا بھی تامل نہ تھا۔

    رات جب میں گوپال چند بلڈنگ پہنچا تو وہاں حرامی موجود نہ تھا، میں نے دل ہی دل میں سوچا، شاید سالا شرمندگی کے مارے آج نہ آیا ہو لیکن جب اس کے کردار کی جیتی جاگتی تصویر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئی تو مجھے آپ ہی آپ اس کی تردید کرنی پڑی۔

    ’’بھلا حرامیوں کو بھی شرم کا احساس ہو سکتا ہے۔‘‘

    گوپال بلڈنگ میں آج کچھ ضرورت سے زیادہ ہی پنٹرس‘‘ کھیلنے آ گئے تھے، ان میں چند نئے نوجوان بھی تھے جن کے ہاتھوں میں لانبے چارٹ تھے اور فری پریس اور ٹائمز کے تازہ شمارے بھی اور حرامی کی جگہ بالکل اسی ٹائپ کا نوجوان بیٹھا بٹنگ لیتا ہوا ’’سلپس‘‘ چاک کر رہا تھا۔ ’’پنٹرس‘‘ کافی سوچ بچار کے بعد قریب آ آکر فیگر لگا رہے تھے۔ وہ حرامی کی طرح طرار اور باتونی نہ تھا، وہ زبان سے زیادہ قلم چلا رہا تھا۔ تیز بہت تیز، جیسے ٹائپ رائٹر چل رہا ہو۔ میں نے اس کے قریب جا کر پوچھا۔ ’’کیا تم نے حرامی کی جگہ لے لی، اس پر اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھوں کو گھماتے ہوئے مجھے غور سے دیکھا اور کہا۔’’ صاحب میں حرامی کی جگہ کیوں لینے چلا،میں ایک شریف پٹھان ہوں۔ ‘‘میں اس کے جواب سے چپ سا ہو گیا اور دور جا کر فیگر نکالنے بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد یکایک میں نے رتی لال سیٹھ کو اوپر آتے دیکھا اوہ! اشفاق نواب، کب آئے آپ؟۔‘‘

    ’’کچھ ہی دیر پہلے‘‘

    ’’کیا آپ نے حرامی کو نکال دیا ہے؟‘‘

    ’’اس سالے کا نام نہ لو۔ کمینے نے پنٹروں کی لگائی ہوئی بٹنگ کھائی اور مجھے اس کی پابجائی کرنا پڑی، اب منہ چھپائے جانے کہاں بیٹھا ہے، پھر چند دنوں بعد میری ہی جوتیاں چاٹنے آ دھمکےگا لیکن اب کی بار میں اسے ہرگز ہرگز معاف نہ کروں گا۔‘‘

    شام کے سات بج چکے تھے، نیچے بازار کی دوکانوں کی پیشانیوں پر بجلی کے چھوٹے چھوٹے حسین قمقمے جگمگ جگمگ کر رہے تھے اور نیا آیا ہوا حرامی ’’اوپن‘‘ کی بٹنگ کی ’’سلپس‘‘ جلد جلد پھاڑتا ہوا پنٹروں کے ہاتھ تھما رہا تھا۔

    پھر یکبارگی سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی میں نے رتی لال سیٹھ سے کہا۔ شاید حرامی آ رہا ہو۔

    ’’نہیں وہ سالا مدراسی ہوگا۔‘‘

    جب دبلا پتلا مدراسی کمرے میں داخل ہوا تو مجھے رتی لال کے قیافے پر تعجب ہوا۔

    مدراسی آج خلاف معمول نئی دھوتی پر نہرو جیکٹ پہنے مسکراتا ہوا دور ایک بینچ پر جا بیٹھا تھا، شاید کئی دنوں کی مسلسل ہار کے بعد اس نے گذشتہ رات ’کلوز‘ جیتا ہو۔

    ’’میں نے آج‘‘ اوپن ٹو کلوز صرف پندرہ ہی روپے کھیلے تھے جب میں نے سلپ رتی لال سیٹھ کو دکھائی تو انھوں نے ہنس کر کہا۔

    ’’یہ بھی کوئی کھیل ہے اشفاق نواب، یہ ہمارا مدراسی ہے نا وہی روزانہ چالیس پچاس کی رقم داؤ پر لگا ہی لیتا ہے۔‘‘

    مجھے رتی لال سیٹھ کی طنزیہ گفتگو ناگوار لگی، زیادہ یا کم کھیلنا یہ میرا اپنا اختیاری فعل تھا اور اس میں کسی کی دخل اندازی کا میں سرے سے روا دار نہ تھا۔

    میں حسبِ معمول ’’اوپن‘‘ کھیلنے کے بعد بجائے گھر جانے کے ’’اور ینٹ‘‘ چلا گیا جہاں میرا دوست نیازی آیا کرتا تھا۔ میں کاؤنٹر سے ہوتا ہوا برآمدے میں آ کر اپنے ساتھی کو دیکھنے لگا لیکن مجھے ایک بھی جانا پہچانا چہرہ دکھائی نہ دیا، ہاں دور کونے میں چند بڑے بڑے بالوں والے نوجوان کرسیوں میں دھنسے کسی موضوع پر تیز انداز میں گفتگو کر رہے تھے، ان میں قدرے پستہ قد کا ایک ملیح نوجوان ہاتھوں کو فضا میں نچاتا ہوا جواباً بلند آواز میں قہقہے لگا رہا تھا اور بیرا ہاتھ میں کشتی لیے ان کے قریب کھڑا آرڈر لے رہا تھا۔

    ’’میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے بیٹھنا بھی چاہیے یا نہیں میرا دوست نیازی چپکے سے اندر داخل ہوا۔’’ ارے اشفاق! تمھیں ’’امریکی دنیا‘‘ سے فرصت ملتی ہی نہیں، کم بخت میں تمھیں کتنے دنوں سے ڈھونڈ رہا ہوں، خیر بڑے اچھے موقع پر آئے ہو اور پھر اس نے بیرے کو کری پفس اور چائے لانے کو کہا۔

    جب چائے کے ساتھ بیرے نے کری پفس اور کیک لا کر رکھے تو اس نے مجھ سے تھوڑی دیر توقف کرنے کی التجا کی۔

    ’’میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ آج بڑا ہی اچھا مال ہاتھ لگا ہے’’ اللہ کی قسم بالکل نئی ’’پوئنیٹگ‘‘ ہے اور قیمت صرف پانچ ہزار۔ ’’نئی پوئینٹگ اور پانچ ہزار قیمت! تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو‘‘۔ ’’خیر میں پاگل ہی سہی، ٹھہرو وہ ابھی آتا ہی ہوگا۔ پھر چل کر موٹر کی بات کر لیں گے۔‘‘

    دو منٹ بعد ہی ایک جانا پہچانا گٹھیلے جسم کا شخص بنی کے سوٹ میں ملبوس تیزی سے آ کر کرسی پر بیٹھ گیا، میں بھونچکا سا رہ گیا کیونکہ یہ حرامی تھا، میں حرامی کو دیکھ کر حیرت میں ڈوب گیا۔ حرامی نے جو کچھ دیکھا ایک لمحہ کے لیے جھجکا لیکن چہرے سے ذرا بھی ظاہر ہونے نہیں دیا کہ وہ مجھ سے خائف ہے، آتے ہی اس نے چائے اور کری پفس پر ہاتھ صاف کیے پھر موٹروں کی خریدوفروخت پر بات چل نکلی تو آدھ گھنٹہ یوں ہی گزر گیا۔

    ’’فلاں راجہ صاحب کی بیوک، میں نے فلاں نواب صاحب کو اونے پونے داموں میں دلوا دی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    ’’اشفاق! یہ موٹروں کے مشہور کمیشن ایجنٹ حسین علی ہیں! کبھی ضرورت ہو تو ان ہی کی خدمات حاصل کرنا‘‘ نیازی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے میرا اس سے تعارف کرایا، وہ کھسیانے انداز میں مسکرایا۔

    ’’مجھے رہ رہ کر نیازی کی بیوقوفی پر دکھ ہو رہا تھا لیکن اس کی موجودگی میں میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔‘‘

    حرامی سے اس نے حسین علی بروکر کا روپ کب سے دھار لیا تھا یہ بات میرے لیے عجوبے سے کم نہ تھی، پتہ نہیں وہ دن میں کتنے سوانگ بھرتا تھا۔

    مجھے حرامی کی ڈھٹائی پر حیرت ہو رہی تھی، وہ مجھے دیکھ کر ایسے ہی انجان ہو گیا جیسے وہ مجھے جانتا ہی نہیں۔ مانا کہ اس سے میری ایک ہی دفعہ ملاقات ہوئی تھی لیکن دو تین گھنٹوں میں اس نے جو بکواس کی تھی وہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ تھی۔

    اور پھر یہ بات گزشتہ ماہ ہی کی تو تھی، غنڈوں کے حافظے تو تیز ہوا کرتے ہیں؟ میرا ارادہ ہوا کہ نیازی کو علیحدہ لے جاکر اس کا سارا کچھ چٹھا کھول دوں لیکن نہ جانے کس جذبے کے تحت میں چپ ہو کر رہ گیا ’’اب چلنا چاہیے۔‘‘ نیازی نے اس سے مخاطب ہوکر کہا، حرامی یک لخت کرسی سے اٹھا اور ذرا آگے بڑھ کر دیوار پر لٹکی ہوئی بڑی گھڑیال میں وقت دیکھنے لگا، ۹ بج چکے ہیں۔

    پھر ہم تینوں کاؤنٹر کے قریب جونہی پہنچے، بڑھ کر ہمارا سارا بل ادا کر دیا اور ریسور اٹھا کر فون کرنے لگا ’’ہاں، جی، کیا آنا ٹھیک نہ ہوگا۔ نہیں ؟‘‘ ’’بات کل پر جا ٹھہری اس وقت وہ باہر ہیں، میں کل ساڑھے آٹھ بجے’’ اور ینٹ ‘‘ہی میں آپ سے ملوں گا۔ خدا حافظ۔‘‘

    نیازی کا چہرہ ایک لمحہ کے لیے اتر گیا، ہوا کے دوش پر اڑ کر موٹر خریدنے کی وہ پیاری خواہش فون کرنے کے بعد مر چکی تھی۔ جب چائے آئی تو چلا گیا تب میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ آؤ تھوڑی دیر اور بیٹھیں، میں ایک کپ اور چائے پی لوں۔ وہ چپ رہا اور میں اسے گھسیٹتا ہوا برآمدے میں لے آیا۔ ہوٹل تقریباً خالی ہو چکا تھا لیکن کونے میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے بالوں والے نوجوان ابھی تک بیٹھے ہانک رہے تھے۔

    میں نے بیرے کو چائے کا آرڈر دیا، تھوڑی دیر میں چائے آ گئی۔

    نیازی بت بنا کرسی میں دھنسا ہوا تھا، میں نے چائے کا ایک گھونٹ لے کر نیازی کی طرف طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا ’’ہاں تو یہ محترم حسین علی سیٹھ موٹروں کے مشہور کمیشن ایجنٹ آپ کے یار غار ہیں، کیوں ہے نا یہی بات۔‘‘

    وہ پہلے ہی سے بجھا ہوا بیٹھا تھا، میری طنز آمیز گفتگو سے جھلا کر بولا، آخر تم کیا کہنا چاہتے ہو۔

    ’’بھلے آدمی تم جسے حسین علی سمجھ رہے ہو دراصل اس کا نام حرامی ہے۔‘‘

    ’’حرامی؟‘‘ اس نے چونک کر کہا۔

    ’’ہاں صد فی صد حرامی۔‘‘

    چند دن پہلے ہی کی بات ہے وہ رتی لال سیٹھ کی طرف سے گوپال چند بلڈنگ میں سٹے کی بٹنگ لیا کرتا تھا، ایک دن اس نے بٹنگ کی بڑھیا رقم ہضم کر لی اور اب منہ چھپائے پھر رہا ہے اور تو اور اس نے خود مجھے بھی سٹے میں الو بنایا ہے۔

    ’’میں نے اپنی بات ختم کر کے نیازی کے چہرے کی طرف دیکھا تاکہ اپنی کہی ہوئی باتوں سے پیدا ہونے والے تاثر کو پڑھ سکوں لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ نیازی کے چہرے پر تعجب کی ایک بھی آڑی ترچھی لکیر نمودار نہ ہو سکی تھی، اس کا ثبوت مجھے فوراً مل گیا جب اس نے کہا۔’’ اشفاق تم کیسی بے تکی باتیں کر رہے ہو، حسین علی کو میں آج سے نہیں تقریباً دو سال سے۔۔۔

    جب نیازی نے اپنی تائیدی گفتگو مکمل کر لی تو میں نے آگے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا اور اسے خدا حافظ کہتا ہوا گھر آ گیا۔

    دو تین ہفتے میرے مصروف گزرے کیونکہ مجھے اپنے ایک رشتہ دار کی شادی میں دلی جانا پڑا۔

    شادی کے ہنگامے ختم ہو گئے تو میں حیدرآباد آ گیا، اس دوران مجھے بہت کم ٹائمز دیکھنے یا سٹہ کھیلنے کی فرصت ملا کرتی تھی، گھر آ کر میں نے سارے ٹائمز کے پرچے دیکھے جو دلی جانے کے دوران میں آئے تھے۔

    میں اپنے شاندار مکان میں صرف ایک ملازم کے ساتھ بالکل تنہا زندگی گزار رہا تھا، آمدنی معقول تھی لیکن ایک بات کا مجھے شدید صدمہ تھا کہ میں نے اپنی والدہ کو سٹے کے تعلق سے بڑی تکلیفیں دی تھیں جسے برداشت نہ کرتے ہوئے وہ اپنی بہن کے ہاں چلی گئی تھیں۔ وہ میرے سٹہ کھیلنے کی سخت مخالف تھیں۔ انھوں نے گھر سے جاتے ہوئے دیگر آواز میں کہا تھا کہ جب تک میں اس ذلیل جوئے سے باز نہ آؤں وہ کبھی اس گھر میں قدم نہ رکھیں گی۔ پرانی یادیں تازہ ہو رہی تھیں اور دل تکلیف سے ڈوب رہا تھا، میں ارادہ کر کے بھی گوپال چند بلڈنگ جا نہ سکا اور ینٹ ہوٹل چلا گیا۔ وہاں نیازحسبِ معمول اپنی مخصوص نشست پر موجود تھا، مجھے دیکھ کر خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔

    ’’آؤ آؤ دلی سے کب لوٹے، شادی تو ٹھاٹ باٹ سے ہوئی ہوگی، کیوں نہ ہو فیملی جو اونچی ٹھہری۔‘‘ اور میں نے مختصراً حالات سنا دئیے۔ تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی خوشگوار باتیں ہوتی رہیں مجھے یکایک کچھ دن پہلے کی بات یاد آئی اور میں بےاختیار پوچھ بیٹھا ’’ارے ہاں تم نے موٹر خرید لی؟‘‘

    پتہ نہیں اس چھوٹے سے جملے میں کیا کڑواہٹ تھی کہ اس کا چہرہ اتر کر عجیب سا ہو گیا پھر اس نے کہا۔ ’’واقعی میں نے اسے سمجھنے میں غلطی کی،وہ ایک دم حرامی نکلا، مجھ سے تین سو روپے ہتھیا لیے لیکن موٹر نہیں دلوائی اور میں اس کی چکنی چپڑی باتوں کے جال میں پھنس گیا اور جب میں نے موٹر کے مالک کے گھر جا کر پوچھ گچھ کی تو معاملہ کچھ اور ہی تھا، ان کی موٹر کو فروخت ہوئے کوئی دو سال ہو چکے تھے۔ سالا بڑا ہی نمبری نکلا، میں اس دن خواہ مخواہ اُس کی تائید میں تم سے الجھتا رہا، خیر کسی دن سامنا ہو جائے تو اسے دیکھ لوں گا۔‘‘

    تین سو روپوں ہی پر بلا ٹلی یہی غنیمت جانو! اب رہی کسی وقت اسے دیکھ لینے کی بات تو یہ سراسر مہمل ہے۔ جس شخص نے رتی لال جیسے عیار آدمی کے کان کتر لیے ہوں وہ تم جیسے مریل نوجوانوں کی دھمکیوں میں آنے سے رہا۔ وہ میری ساری باتیں دھیان دے کر سنتا رہا۔ پھر نیازی کو چورا ہے تک رخصت کر کے میں گھر آ گیا۔

    صبح اٹھا تو طبیعت بوجھل تھی اور سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا تھا، تھوڑی دیر گھر ہی میں ٹائمز دیکھتا رہا، جی نہ لگا تو اٹھ کر تفریح کے لیے باہر نکل پڑا۔ اس وقت اور ینٹ جانا فضول تھا، نیازی سے ملاقات نہ ہو سکتی تھی کیونکہ وہ رات کا شہزادہ تھا مجھے کوفت ہو رہی تھی کہ میں نے دوستی کی بھی تو ایک ہی سے اور اس وقت نیازی نہ ملے تو اس کے یہی معنی ہو سکتے تھے کہ میں صرف لانبی لانبی سڑکیں ناپتا پھروں یا سٹہ کھیلوں۔ میں اسی سوچ میں عابد روڈ کے چورا ہے پر کھڑا تھا، سامنے پرائیویٹ ٹیٹوریل انسٹی ٹیوٹ کے چند طالب علم حلقہ بنائے باتیں کرتے کھڑے تھے، دو طالب علم ہاتھ میں کتابیں لیے پیلیس میں لگی تازہ پکچر کی تصویریں بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے اور ہاکرس بس اسٹینڈ کے قریب چیلوں کی طرف منڈلا رہے تھے۔ عابد روڈ کی چوڑی چکلی سڑک پر موٹریں، سائیکلیں، رکشائیں تیزی سے دوڑ رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ کہاں جاؤں؟ دفعتاً سامنے سے موٹر سائیکل پر حرامی آتا دکھائی دیا، وہ کافی تیزی سے میرے سامنے سے گزر گیا، اس نے مجھے نہیں دیکھا۔ حرامی کو دیکھ کر مجھے گوپال چند بلڈنگ کا خیال آیا لیکن اتنی جلدی جا کر کھیلنا بھی تو حماقت تھی۔ نیازی بھی کچھ اس ٹائپ کا آدمی تھا کہ اس سے اس وقت گھر پر بھی ملنے کا بہت کم امکان تھا۔ چار و ناچار مجھے گھر لوٹنا ہی پڑا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد سوکر جب میں اٹھا تو سات بج چکے تھے۔ میں تین چار ہفتوں کی غیر حاضری کے بعد آج فیگر کھیلنے جا رہا تھا اور مجھے خواہ مخواہ محسوس ہو رہا تھا جیسے میں پہلی بار اس دنیا میں داخل ہو رہا ہوں۔ جب میں گوپال بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا کمرہ نمبر (۷) میں آیا تو مجھے حیرت ہوئی، میری غیرحاضری میں کئی نئے کھلاڑیوں کا اضافہ ہوا تھا، ایک ماہ پہلے صرف پندرہ بیس ہی مخصوص پنٹرس یہاں بٹنگ لگایا کرتے تھے لیکن چند ہی دنوں میں یہ تعداد سہ گنا ہو گئی تھی۔ اس وقت سوائے مدراسی نوجوان کے کوئی بھی میرا جانا پہچانا نہ تھا۔ سامنے جو بڑی میز رکھی تھی وہاں اب بنچیں ڈال دی گئی تھیں جس پر نئے آئے ہوئے ’’پنچھی‘‘ بیٹھے یا تو اونگھ رہے تھے یا پر تول رہے تھے۔ مدراسی کونے میں بیٹھا چارٹ پر نظریں جمائے ہوئے تھا، دور سے کھڑے ہو کر اُسے کوئی دیکھ لے تو یہ ناممکن تھا کہ کوئی اسے انسان سمجھے وہ بالکل اسٹیچو کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔

    میں نے اس کے قریب جا کر کندھے پر بےتکلفی سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’کہو ہری راؤ جی اچھے تو ہو؟‘‘ اس نے کوئی جواب نہیں دیا، سٹے نے اسے بالکل ہی تباہ کر دیا تھا پھر دوبارہ جب میں نے اس کے شانے جھنجھوڑے تو اس نے اپنی پتلی پتلی نکیلی آنکھوں کو گھماتے ہوئے برابر کے کمرے کی طرف اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو، مجھے کیوں Disturb کرتے ہو بابا۔ پہلے کی جگہ تبدیل ہو گئی ہے اب تم اندر کے کمرے میں جا کر اپنی قسمت آزما لو۔

    میں نے اندر کے کمرے میں قدم رکھا تو حرامی اطمینان سے کرسی پر بیٹھا سلپ پر فیگر لکھ رہا تھا اور چار آدمی اس کے گرد کھڑے تھے۔ حرامی کی نگاہ جب مجھ پر پڑی تو اس کے چہرے کے پھول کھل اٹھے۔

    ’’اشفاق نواب! آخر آپ آ ہی گئے، آئیے آئیے آج آپ کی قسمت چمکا دوں گا، قسم پیر کی اگر آج آپ یہاں آئے نہ ہوتے تو میں کسی طرح ڈھونڈ ڈھانڈ کر آپ کو یہاں کھینچ لاتا۔‘‘

    ’’آج Unchange پر اپنی ساری پونجی لٹا دیجیے۔‘‘

    ’’میں چپ چاپ اس کی بکواس سنتا رہا اور وہ مودبانہ انداز میں گڑ گڑاتا رہا۔’’ اشفاق نواب! قسم پیر کی۔ سوچیے، اس گولڈن چانس کے کھو جانے کا آپ کو زندگی بھر ملال رہےگا، سنیے اشفاق نواب بٹنگ کلوز ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا ہے، اس سیاہ بورڈ پر چند گھنٹوں بعد Unchange آپ لکھا ہوا نہ پائیں تو میرا نام حرامی نہیں۔

    وہ بکتا رہا، پھر کئی لوگ آ کر فیگر لگاتے رہے۔ حرامی اپنا سینہ خالی کر کے بالکل تھک گیا تو میں نے اٹھ کر ایک فیگر لکھایا جوUnchange نہیں تھا۔ حرامی چپ تھا، اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی نمی تیر رہی تھی، اسے اپنی شکست کا بڑا احساس تھا، اس نے میرے کہنے پر سلپ تو پھاڑ دی لیکن اس کا چہرہ صاف چغلی کھا رہا تھا کہ وہ میری اس حرکت پر بڑا دل گیر اور اداس ہے۔

    وہ رات عجیب کشمکش میں گزری، ایک کروٹ بھی مجھے نیند نہ آئی، صبح اٹھ کر میں نے کانپتے ہاتھوں سے ٹائمز دیکھا، میں بتا نہیں سکتا میرا کیا حال ہوا، جیسے دھک سے میرا دل کہیں چلا گیا ہو، میرا دماغ چکرانے لگا، حرامی کا بتایا ہوا Unchange منہ کھولے مجھے گھور رہا تھا۔ مجھے رہ رہ کر دکھ ہو رہا تھا کہ میں نے حرامی کی بات کیوں نہیں مانی، اس نے کتنی منتیں نہ کی تھیں، اگر میں اس کی بات مان لیتا تو آج زندگی کتنی شاندار ہو جاتی۔ اس واقعے نے دل پر کچھ ایسا ہتھوڑا لگایا کہ میں دوبارہ بکٹ شاپ میں قدم نہ رکھ سکا۔

    میں نے سٹہ بازی سے تو توبہ کر لی لیکن حرامی کی ذات سے جو ازلی نفرت تھی وہ جاتی رہی پتہ نہیں کیوں؟ میں نے دل ہی دل میں حرامی کے حضور میں شکریے کے موتی رولے کہ اس نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی۔ اب میں اپنی کھوئی ہوئی عظیم ماں کے قدموں کے قریب آ چکا تھا، میری بوڑھی ماں کی پیشانی خوشی سے چمک رہی تھی کہ اس کے سپوت نے سٹے کی مسموم فضا سے اپنا دامن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھڑا لیا تھا۔

    ایک رات ذرا دیر گئے گھر لوٹ رہا تھا، قریب کے راستے سے گھر جانے کے لیے جب میں لانبی گلی میں داخل ہوا تو مجھے کسی کے قدموں کی دبی سی چاپ سنائی دی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے قدرے ڈر محسوس ہوا تاہم میں بغیر رکے چلتا رہا لیکن مجھے محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی شخص میرے پیچھے پیچھے آ رہا ہے، میں نے اپنی رفتار کچھ تیز کر دی اور لمبے ڈگ بھرتا ہوا گلی کے نکڑ پر آ کر کھڑا ہو گیا۔

    تھوڑی دیر بعد ایک وحشت زدہ انسان میلے کچیلے کپڑوں میں میرا راستہ روکے کھڑا تھا، میں اسے پہچان نہ سکا اور میری گھگھی بندھ گئی۔

    ’’اشفاق نواب! ڈرئیے نہیں میں حرامی ہوں۔‘‘

    ’’کہو تمھیں کیا کہنا ہے۔‘‘ میں نے بدقت زبان سے یہ الفاظ ادا کیے لیکن اس ڈر کے باوجود مجھے پوری طرح اطمینان تھا کہ حرامی مجھے نقصان نہیں پہنچائے گا مگر طمانیت کے اس خول میں بھی ایک طرح کا خوف ہی تھا۔

    ’’اشفاق نواب! میں لٹ چکا، میری ماں مر چکی ہے، میں نے اسے کتنے دکھ دئیے، آخر وہ سسک سسک کر مر ہی گئی نا، میری کمینگی پر لعنت بھیجتے ہوئے پڑوسیوں نے بھی میری ماں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا۔ اس دن اچھا ہوا کہ آپ جلد بکٹ شاپ سے چلے گئے، آپ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی پولیس مجھے گرفتار کر کے لے گئی، جیل میں چار ماہ سڑنے کے بعد میری یہ حالت ہو گئی ہے، پولیس نے تو رتی لال کو چھوڑ دیا لیکن مجھے جیل میں ڈال دیا۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ بڑی دیگر آواز میں سسکیاں بھرنے لگا۔ میں چپ چاپ اس کی بپتا سنتا رہا۔ پھر اس نے سنبھل کر کہا:

    ’’اشفاق نواب! اگر اس وقت آپ مجھے پچاس ساٹھ روپے دیں تو میں یہ سمجھوں گا کہ آپ نے مجھ پر احسانِ عظیم کیا ہے،زندگی اگر وفا کرے تو میں ضرور کسی طرح بھی آپ کے روپے لوٹا دوں گا۔ اشفاق نواب! آپ چپ کیوں ہیں ؟ اتنے سخت نہ بنیے، میری ماں معمولی عورت نہیں تھی وہ بہت عظیم تھی۔۔۔‘‘ اس کی آواز ڈوبتی جا رہی تھی مجھے یکایک ایک جھٹکا سا لگا اور دل میں یہ شک بری طرح جاگزیں ہو گیا کہ کہیں حرامی جھوٹ کہہ کر مجھے الو تو نہیں بنا رہا ہے اس کی مخدوش حالت سے تو یہی اندازہ ہو رہا تھا۔

    جب میں نے اسے دھیرے سے کہا۔ ’’کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اس وقت میں تمھارے ساتھ خود روپے لے کر تمھارے گھر تک چلوں۔‘‘

    ’’اشفاق نواب!‘‘ وہ ایک دم چیخ اٹھا۔

    ’’میں حرامی سہی لیکن اتنا حرامی نہیں کہ آپ سرے سے میری ذات پر اعتبار نہ کریں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چپ تو ہو گیا لیکن اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ میری جیب میں اس کے مطالبے سے کہیں زیادہ روپے تھے، میں اس کے ساتھ ہولیا۔ وہ آگے چل رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے میں۔

    فضا کچھ عجیب تھی، رات کی اتھاہ خاموشی میں دونوں کے قدموں کی چاپ یوں سنائی دے رہی تھی جیسے خزاں رسیدہ پتے درخت سے گر کر چرچرا رہے ہوں۔ وہ مختلف گلیوں سے گھماتا ہوا مجھے ایک بوسیدہ ویران مکان کے قریب لے آیا جسے دیکھتے ہی وحشت ہو رہی تھی پھر اس نے زنجیر کھولی ’’اندر آئیے‘‘۔

    میں وہیں کھڑا رہا، مجھے اندر جاتے ہوئے عجیب طرح کا خوف ہو رہا تھا، میرا دل بری طرح گھبرا رہا تھا جیسے اب میری موت واقع ہو جائےگی۔

    ’’میں کہہ رہا ہوں اندر آ جائیے۔‘‘ اس کی آواز میں جیسے برقی رو دوڑ گئی اور میں دبے پاؤں سہما ہوا اندر چلا گیا۔ میرے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے بڑھیا کی لاش تھی، اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ہونٹ بری طرح بھنچے ہوئے تھے۔ میں جیسے تڑپ کر رہ گیا، وہ قریب کھڑا دل سوز آواز میں کہہ رہا تھا۔

    ’’میں حرامی سہی لیکن اتنا کمینہ نہیں کہ ماں کی موت کے نام پر آپ سے کچھ بٹوروں۔‘‘

    اس کے آگے وہ کچھ کہہ نہ سکا، اس کا گلا رندھ گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے