Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ندبہ

MORE BYنیر مسعود

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ ایک مخصوص کمیونٹی کے رسوم و روایات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ مرکزی کردار ایڈوینچر کی غرض سے مختلف علاقوں کا سفر کرتا ہے اور ہر جگہ اپنے میزبان کو اپنا نام اور پتہ کاغذ پر لکھ کر دے آتا ہے۔ رفتہ رفتہ اسے یہ گھومنا پھرنا فضول مشغولیات محسوس ہوتی ہیں۔ ایک طویل عرصے کے بعد ایک ہجوم اس کے شہر میں آکر اسے تلاش کرتا ہے ان کی وضع قطع سے لوگ انھیں بھیک مانگنے والے سمجھتے ہیں لیکن جب یہ اپنے ہاتھ لکھا ہوا پرچہ دیکھتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ان کے اشاروں اور عوامل سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امداد چاہتے ہیں لیکن واحد متکلم ان کی کوئی مدد نہیں کر پاتا۔

    (۱)

    میں نے بے حاصل مشغلوں میں زندگی گزاری ہے۔ اب اپنا زیادہ وقت یہ سوچنے میں گزارتاہوں کہ مجھے ان مشغلوں سے کیاحاصل ہوا۔ یہ میرا نیا اورشاید آخری اور شاید سب سے بے حاصل مشغلہ ہے۔

    برسوں تک میں ملک میں ادھر سے ادھر گھومتاپھرا۔ مقصدشاید یہ تھا کہ اپنے چھوٹے بڑے شہروں سے واقفیت بڑھاؤں، لیکن ان دوروں کاحاصل یہ نکلا کہ مجھے اپنے شہر کے سواسب شہرایک سے معلوم ہونے لگے اورمیں اپنے شہر واپس آکر کئی مہینے تک گوشہ نشین رہا۔ پھرمیرا دل گھبرایا اور میں پھرنکل کھڑا ہوا۔ اب کی بار میرا رخ دیہاتی آبادیوں کی طرف تھا۔ لیکن بہت جلد مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ آبادیاں شہری آبادیوں سے کچھ بہت مختلف نہیں ہیں، یا کم سے کم مجھ کومختلف نہیں معلوم ہوتیں۔ میں واپس لوٹ آیا اور بہت دنوں تک اس وہم میں گرفتاررہا کہ میں چیزوں میں فرق کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھاہوں۔ میں اس وہم کو دل میں لئے رہا اور کوشش کرتا رہا کہ میری کسی بات سے اس کااظہار نہ ہونے پائے، لیکن جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے روزکےملنے والے مجھ کوعجیب نظروں سے دیکھنے لگے ہیں تو میں نے پھر مسافرت اختیارکی۔

    اس مسافرت میں ایک عرصے تک میں اپنی قدیم سرزمین کے اجاڑ علاقوں میں گھومتاپھرا۔ ان علاقوں کے موسم سخت اورمٹی خراب تھی۔ دریا ان سے دورپڑتے تھے اورزیادہ ضرورتوں والے انسانوں کاوہاں بسنا ممکن نہ تھا، پھر بھی یہ علاقے انسانوں سے خالی نہ تھے۔ میں ایسے علاقوں سے بھی ہوکرگزرا جنہیں انسان نے شاید کبھی اپنا مسکن نہیں بنایا تھا، لیکن یہ محض بڑے بڑے غیرآباد جغرافیائی خطے تھے جوکسی مبہم اندازمیں سمندروں سے مشابہ تھے اورغیرآباد ہونے کے باوجود اجاڑ نہیں معلوم ہوتے تھے۔ اجاڑعلاقے وہ تھے جنہیں انسانوں نے قدیم زمانوں سے آباد کر رکھا تھا۔ یہ علاقے ان جغرافیائی خطوں سے گزرتے میں کسی ٹاپو کی طرح اچانک مل جاتے تھے اورشاید انسانوں ہی کے آباد ہونے سے اجاڑ معلوم ہوتے تھے۔ اور جس طرح یہ انسان اپنے علاقوں پراثرڈالتے تھے اسی طرح وہ علاقے بھی اپنے باسیوں پرایسا اثر ڈالتے تھے کہ انسانوں کے یہ منتشر گروہ ایک ایک کرکے ختم ہورہے تھے۔ کوئی اچانک وبایا موسم کی کوئی بڑی تبدیلی ان کو آسانی سے مٹاسکتی تھی اورمٹادیتی تھی۔

    کئی بار ایسا ہوا کہ کسی برادری میں کچھ دن گزرانے کے بعد جب میں دوبارہ اس کے علاقے سے گزرا تو میں نے دیکھا اب وہاں کوئی نہیں ہے اوروہ علاقہ کسی غیرآبادی جغرافیائی خطے میں قریب گم ہوچکا ہے، اس لئے کہ ان برادریوں کی نشانیاں بہت جلد مٹتی تھیں۔

    میں ان لوگوں کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں کرسکا، اس لئے کہ اگرچہ میری زبان وہ کچھ کچھ سمجھ لیتے تھے لیکن ان کی بولیاں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں اورہماری زیادہ گفتگو اشاروں میں ہوتی تھی، لیکن اس نے بھی مجھے کچھ بہت فائدہ نہیں دیا اس لئے کہ الگ الگ برادریوں کے الگ الگ اشارے ہوتے تھے اور کبھی کبھی ایک ہی اشارہ دوبرادریوں میں ایک دوسرے کے بالکل برخلاف معنی دیتاتھا۔ ایک برادری خوشی کے اظہار میں جس طرح ہاتھوں کوپھیلاتی تھی دوسری اسی طرح غم کے اظہار میں پھیلاتی تھی، ایک برادری سر کی جس جنبش سے کسی بات کا اقرار کرتی تھی دوسری اسی جنبش سے انکار کرتی تھی۔ ان کے اشاروں کوصحیح صحیح سمجھنے کےلئے وقت چاہئے تھا اور میں کسی ایک برادری میں زیادہ ٹکتا نہیں تھا اس لئے اشاروں کی مدد سے جو کچھ میں نے اپنے نزدیک معلوم کیا اس کا کوئی بھروسہ نہ تھا اورمیں نے اس الٹی سیدھی معلومات کو واپس لوٹنے سے پہلے ہی بھلادیا۔ جو کچھ مجھے یاد رہ گیا وہ ان برادریوں کا ندبہ تھا جو ہر جگہ میری پہچان میں آجاتاتھا۔

    میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ محض اتفاق تھایا ان لوگوں میں موتیں زیادہ ہوتی تھیں لیکن بہت سی برادریوں میں میرے پہنچنے کے دوسرے ہی تیسرے دن کوئی نہ کوئی موت ضرور ہوئی جس کا اعلان مرنے والے کے قریب ترین رشتہ داروں، یا ان رشتہ داروں کے قریب ترین رشتہ داروں کے چیخنے یا رونے سے ہوتا تھا۔ برادری والے ان سوگواروں کے پاس خاموشی کے ساتھ آتے اور انہیں چپ کراکے خاموشی کے ساتھ واپس چلے جاتے تھے۔ کچھ لوگ میت کوٹھکانے لگانے کے بندوبست میں لگ جاتے۔ یہ بندوبست مکمل کرکے کہیں میت کوٹھکانے لگانے کے بعد اورکہیں اس سے پہلے ہی سب مل کر ندبہ کرتے جس کے لئے باقاعدہ مقام اور وقت مقرر ہوتا تھا۔

    زیادہ تر برادریوں کا ندبہ فریادی لہجے میں موت کی شکایت سے شروع ہوکر مرنے والے کی یاد تک پہنچتا، پھر اس میں تیزی آنے لگتی۔ اورجب ندبہ پورے عروج پر آتا تو سب پر ایک جوش طاری ہوجاتا اور ان کے بدنوں کی جنبشوں اوران کی آوازوں اور سب سے بڑھ کر ان کی آنکھوں سے غم کے بجائے غصے کا اظہار ہونے لگتا اور کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا کہ سب نے کوئی تیزنشہ استعمال کرلیاہے۔ کہیں کہیں مجھ کوبھی اس رسم میں شریک ہوناپڑتا لیکن میں ایسے موقعوں پرجذبوں سے عاری بے عقلی کے ساتھ دوسروں کی بھونڈی نقالی کرتارہ جاتا اور ندبہ ختم بھی ہوجاتا، جس کے بعدسب ایک دوسرے کو تسلی دیتے۔ اس میں مجھے بھی تسلی دی جاتی تھی۔

    ندبہ کرنے والوں میں کہیں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی، کہیں مردوں کی، لیکن ایک برادری میں عورتوں اور مردوں کی تعداد بالکل برابر رکھی جاتی تھی۔ یہی ایک برادری تھی جس کی عورتوں کو اس رسم کے دوران میں نے بہت قریب سے اورچھوکر دیکھا۔ ان عورتوں کے قدچھوٹے اوررنگ سانولے تھے۔ ان کے عورت ہونے کی پہچانیں بنانے میں قدرت نے مبالغے سے کام لیاتھا اور وہ قدیم زمانے کی ان مورتیوں اور دیواری تصویروں کی اصل معلوم ہوتی تھیں جن کے بارے میں خیال کیاجاتاہے کہ ان لوگوں کی بنائی ہوئی ہیں جنہوں نے سچ مچ کی عورت کوکبھی نہیں دیکھا تھا، یا قریب سے نہیں دیکھا تھا اورچھوکر توبالکل ہی نہیں دیکھا تھا۔

    اس برادری کاندبہ یوں ہوتا تھا کہ ایک قطار میں مرد اور ان کے روبہ رودوسری قطار میں عورتیں ننگی زمین پردو زانو ہوکر بیٹھتی تھیں اور یہ آمنے سامنے والے ایک دوسرے کی کہنیوں سے کہنیاں ملاتے، پھر کلائیاں ملاتے، پھر ہتھیلیوں پرہتھیلیاں مارتے اور انگلیاں آپس میں الجھاکر جوکچھ کہناہوتا کہتے، پھر الگ ہوتے، پھر کہنیاں اورکہنیوں سے کلائیاں تک ملاکر ہتھیلیاں لڑاتے اور انگلیاں الجھاکر بول کہتے۔ ان کا ندبہ باربار عروج پر آتا، دھیما پڑتا۔ پھرعروج پرآتا اوردیکھنے میں سمندرکا جواربھاٹا معلوم ہوتا۔ یہاں تک کہ سب کی آنکھیں پلٹ جاتیں اور آخرسب پسینے پسینے ہوکرکپکپاتی ہوئی کمزور آوازوںمیں ندبہ ختم کرتے اورآہستہ آہستہ ہانپتے ہوئے الگ ہوجاتے۔

    میرے سامنے اس برادری میں تین موتیں ہوئیں۔ پہلی دو موتوں پر ندبہ کرنے والوں کے ساتھ میں بھی شریک ہوا، لیکن تیسری موت میرے بوڑھے میزبان کی ہوگئی۔ میں نے اپنے پاس موجود رہنے والی دواؤں سے اس کاعلاج بھی کیا تھا لیکن وہ بچ نہ سکا۔ اس کی صورت ہی نہیں، کئی ادائیں بھی میرے باپ کی یاد دلاتی تھیں اور میں نے اسے، کچھ زبان سے اور کچھ اشاروں سے، یہ بات بتانے کی کوشش بھی کی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نے برادری والوں سے میرے بارے میں کیا باتیں کی تھیں، لیکن اس کے مرنے کے بعد جولوگ سوگواروں کو چپ کرانے نکلےتھے ان میں سے ایک دو میرے پاس بھی آگئے اور اگرچہ میں خاموش تھا لیکن انہوں نے مجھے چپ کرایا۔ ان کے آنے سے مجھ کو اپنے باپ کی موت کا دن یاد آگیا۔ اس دن میرے گھرمیں عورتوں کے رونے کا بے ہنگم شور تھا اور میں سب سے الگ چپ چاپ بیٹھا رہ گیاتھا۔

    میزبان کی موت نے مجھے اپنے باپ کا آخری وقت کا چہرہ یاد دلادیا۔ پھر مجھے بوڑھے میزبان کی صورت یاد آنے لگی اورجب اس کے آخری بندوبست کے بعد برادری کی عورتیں اورمرد آمنے سامنے قطاریں بنانے لگے تو میں خاموشی کے ساتھ اٹھ کر اس علاقے سے متصل غیرآباد خطے کی طرف نکل گیا اور وہیں کے وہیں میں نے اپنی مسافرت ختم کردینے کا فیصلہ کیا اور اسی دن واپسی کا سفر شروع کردیا۔

    اب جیسا کہ میں نے بتایا، میرا زیادہ وقت یہ سوچنے میں گزرتا ہے کہ مجھے ان مشغلوں سے کیا حاصل ہوا۔ اس طرح میری زندگی، جس کا بڑا حصہ ناہمواریوں میں نکل گیا، اب ایک مدت سے بالکل ہموار گزررہی ہے۔ البتہ صرف ایک دن اس میں تھوڑی سی ناہمواری آئی تھی۔ یہ ناہمواری شاید میرے ایک مشغلے کا حاصل تھی، لیکن ایسا حاصل جومیں سمجھتا ہوں بے حاصلی سے بھی بدتر تھا۔

    (۲)

    اس دن سویرے سویرے میرے مکان کے اس دروازے پردستک دی گئی جو بازار کی طرف کھلتاتھا۔ میں نے سستی کے ساتھ اٹھ کر دروازہ کھولا تودیکھا محلے کا پاگل لڑکا ہاتھ میں کاغذکا ایک مڑا تڑا پرزہ لئے کھڑاہے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے پرزہ میرے ہاتھ میں تھمایا اور ہنستا ہوا بھاگ گیا۔ اس کی عادت تھی کہ بازار کی گری پڑی چیزیں اٹھاتا اور دوسروں کوبانٹ دیتاتھا۔ اسے وہ انعام دینا کہتاتھا اور بازار والے تقاضا کرکے اس سے انعام لیا کرتے تھے۔

    تو آج مجھے بے مانگے انعام مل گیا، میں نے دروازہ بند کرتے ہوئے سوچا اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں لگ گیا۔ میں نے یہ بھی سوچا جو میں کبھی کبھی سوچا کرتا تھا کہ اس لڑکے کوپاگل کیوں سمجھا جاتاہے۔ اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، سوا اس کے کہ وہ ہر وقت خوش رہتا اور بات بات پرہنستا تھا، تاہم سب اس کوپاگل سمجھتے تھے، میں بھی سمجھتا تھا۔ کچھ دیربعد پھر اسی دروازے پردستک ہوئی۔ میں نے پھر دروازہ کھولا۔ پھر وہی لڑکاتھا۔

    ’’بلارہےہیں۔‘‘ اس نے ہنسی روک کرکہا۔

    ’’کون بلارہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ‘’جو آئے ہیں۔‘‘

    ’’کون آئے ہیں؟‘‘

    ‘’پرچے والے۔‘‘ وہ بولا، زور سے ہنسا اور بھاگ گیا۔

    میں نے دروازہ بھیڑکرپلنگ پرپڑا ہوا پرزہ اٹھالیا۔ پرانا کاغذ تھا اور اس پر میری ہی تحریر میں میرا نام اورپتا لکھاہواتھا اوریہ تحریر ان زمانوں کی معلوم ہوتی تھی جب میں ہاتھ سنبھال کراور حرفوں کوخوبصورت بناکر لکھتا تھا۔ مجھے وہ زمانے یاد آئے۔ یہ بھی یاد آیا کہ انہیں میں سے ایک زمانہ میں نے اجاڑعلاقوں کی برادریوں میں گھومتے گزاراتھا۔ مجھے یاد نہ آسکا کہ یہ پرزہ میں نے کب اورکہاں لکھا تھا لیکن یہ ضرور یاد آگیا کہ اس زمانے میں کاغذ کے ایسے پرزے میں نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ برادریوں میں تقسیم کئےتھے۔ میں ان کی مہمان نوازیوں کایہی ایک صلہ دیتاتھا۔ میں یہ تاکید بھی کردیتاتھا، زیادہ ترغلط سلط اشاروں کی زبان میں کہ اگر کسی کوکبھی شہر میں کوئی کام آپڑے تو میری تحریر کی مدد سے سیدھا میرے پاس پہنچ جائے۔

    میں جانتاتھا کہ اپنی ان تحریروں میں سے کوئی بھی مجھے پھر دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ لیکن اس وقت اتنے زمانے کے بعد ایک تحریر کا پرزہ میرے ہاتھ میں تھا اور اگرچہ اطلاع دینے والا وہ تھا جس کو سب کےساتھ میں بھی پاگل سمجھتا تھا، مگر مجھے اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ اس پرزےکی مدد سے مجھ تک پہنچ گئےہیں اور مجھے بلوارہے ہیں۔ چندلمحوں کے اندر میری دیکھی ہوئی ساری برادریاں خواب کے خاکوں کی طرح میرے ذہن میں گھوم کرغائب ہوگئیں اور میں گھر سے نکل کربازار میں آگیا۔

    دکانیں کھلنےکا وقت ہوگیاتھا لیکن زیادہ تر دکانیں بند پڑی تھیں۔ دکاندار البتہ موجود تھے اورایک ٹولی بنائے ہوئے آپس میں چہ میگوئیاں کررہےتھے۔ مجھ کودیکھ کر سب میری طرف بڑھ آئے۔

    ’’یہ کون لایا ہے؟‘‘ میں نے پرزہ انہیں دکھاکرپوچھا۔ انہوں نے کچھ کہے بغیرشمال کی طرف اترنے والی اس بے نام کچی سڑک کی طرف اشارہ کردیا جس کے دہانے کوبازار کےکوڑا گھرنے قریب قریب بند کردیاتھا۔ میں نے اس طرف دیکھا۔ ایک نظر میں مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کوڑا گھر کی حد سے باہر تک کوڑے کے چھوٹے چھوٹے ڈھیر لگے ہوئےہیں لیکن دوسری نظر میں پتا چلا کہ یہ زمین پر بیٹھے ہوئے آدمیوں کی ٹولی ہے۔

    ’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ کسی دکاندار نے مجھ سے پوچھا۔

    ’’کوئی برادری معلوم ہوتی ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اُدھر بڑھنے کوتھا کہ ایک اور دکاندار بولا:’’انہیں آپ نے بلایاہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    ‘’ملنا تو آپ ہی سے چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’مگر میں نے انہیں بلایانہیں ہے۔‘‘

    ’’اچھا ان کی گاڑی توہٹوائیے۔ راستہ رک رہاہے۔‘‘

    میں نے پکی سڑک پرکھڑی ہوئی گاڑی کواب دیکھا۔ ایک بڑے سے پیپے کو بیچ سے کھڑا کھڑاکاٹ دیا گیا تھا۔ اس طرح اس کی شکل ایک مدوّر پیندے اوربغیر نوکوں والی چھوٹی ناؤ کی سی ہوگئی تھی، یا شاید وہ کوئی بے مصرف ناؤ ہی تھی جس کے دونوں سروں پر کسی پرانے درخت کے گول تنے کی دوبڑی بڑی ٹکیوں کے پہیے لگا کر اسے خشکی میں سفر کے قابل بنایا گیا تھا۔ میں نے گاڑی کو ذرا اور غور سے دیکھا توپتا چلا جسے میں پیپا سمجھ رہا تھا وہ بھی کسی درخت کا آدھا کیا ہوا کھوکھلا تنا تھا جس کے نیچے ہری چھال کے ریشوں کی موٹی رسی میں بندھا اورزمین کو قریب قریب چھوتا ہوا ایک بڑا سا بے ڈول پتھرجھول رہا تھا۔ یہ شاید گاڑی کا توازن قائم رکھنے کےلئے لٹکایا گیا تھا، پھر بھی گرد سے اٹے ہوئے دوآدمی اسے دونوں طرف سے پکڑےہوئےتھے۔ میں نے بےدھیانی کے ساتھ سوچا، اگر وہ اسے چھوڑدیں تو گاڑی آگے کی طرف الٹے گی یا پیچھےکو۔ پھرمیں نے اسے اورغور سے دیکھا۔

    گاڑی کے خلامیں اوپر تک گودڑبھرا ہوا تھا اور اس پر جھکی ہوئی ایک عورت گودڑ کو مسلسل ادھر ادھر کررہی تھی۔ سرسے پیر تک چادر میں لپٹی ہونے کے باوجود وہ جوان معلوم ہوتی تھی۔ میں نے ایک نظر اس کو اور گاڑی کو تھامے ہوئے دونوں آدمیوں کو دیکھا ہی تھا کہ ایک اوردکاندار کی آواز سنائی دی:’’کون سی برادری ہے؟‘‘

    میں نے مڑکر کوڑا گھر کے آگے زمین پربیٹھے ہوئے لوگوں کودیکھا۔ دس بارہ آدمی تھے اور سب کے سب گرد میں اس طرح اٹے ہوئے تھے کہ ان کے کپڑوں کے رنگ تک آسانی سے پہچانے نہیں جاسکتے تھے۔ ان لوگوں کودیکھ کر مجھے کچھ بھی یاد نہیں آیا۔ تاہم میں نے پہچان لیا کہ یہ اجاڑ علاقوں کی رہنے والی کوئی برادری ہے۔ میں نے انہیں دیر تک دیکھا۔ وہ سب میری طرف بے تعلقی سے دیکھ رہے تھے اورمجھے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ میں اس برادری میں کبھی نہیں رہا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا نام پتا ان لوگوں کے پاس کہاں سے آگیا۔ میں نے ایک بارپھر کاغذ کے اس پرزے کو غورسے دیکھا۔ تب ان لوگوں نے بھی دیکھا کہ میرے ہاتھ میں کاغذ کا پرزہ ہے، اور اچانک سب میں جان سی پڑگئی۔ انہوں نے جلدی جلدی آپس میں کچھ باتیں کیں، پھر سب کے سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے کپڑوں سےتھوڑی سی گرد اڑی اور میں نے خود کو ان کے حلقے میں پایا۔ اسی کے ساتھ میں بازار والوں کے سوالوں کےبھی نرغے میں آگیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا آخری سوال دہرایا: ’’کون سی برادری ہے؟‘‘

    میں نے بتا دیا کہ میں ان لوگوں سے واقف نہیں ہوں، پھر بھی سب مجھ سے اس طرح سوال کرتے رہے جیسے مجھ کو ان لوگوں کاضامن سمجھ رہےہوں۔ مگر ان کے سوال ایسے تھے کہ میں ان کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ یہ ناپاک لوگ تو نہیں ہیں؟ شہر میں چوری کی وارداتوں میں جو اچانک اضافہ ہو گیا ہے، کیا اس کا سبب یہی لوگ ہیں؟ یہ کہاں سے آئےہیں؟ کیا یہ بھیک مانگنے والے ہیں؟

    اب میں نے پوچھا، ’’کیا انہوں نے کسی سے کچھ مانگا ہے؟‘‘

    ’’ابھی تک تونہیں۔‘‘ مجھے جواب ملا، ’’ہم تو جس وقت آئےہیں یہ کاغذ دکھا دکھا کر سب سے آپ کا پتا پوچھ رہے تھے۔‘‘

    ’’کس بولی میں؟‘‘

    ’’اشارے سے۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘ میں نےپوچھا، ’’اشارے سے بھیک تو نہیں مانگ رہے تھے؟‘‘

    ’’مگر ان کا حلیہ تو دیکھئے۔‘‘

    ’’دیکھ رہا ہوں۔‘‘

    ’’اور گاڑی۔۔۔‘‘ سب سےبلند آوازوالا دکاندار بولا۔

    ’’وہ بھی دیکھ رہاہوں۔‘‘

    ’’اور گاڑی میں کس کو بٹھالائے ہیں؟ ابھی ختم ہوجائے تو ٹھکانے لگانے کے لئے ہمارے ہی سامنے نہیں روئیں گے؟ سب کھانے کمانے کے ڈھنگ ہیں۔‘‘

    اب میں نے گاڑی کے سوار کودیکھا۔ ابھی تک میں سمجھ رہا تھا کہ گاڑی میں بھرا ہوا گودڑ کچھ اوپر اُبھر آیاہے لیکن یہ اس کے سوار کا بار بار جھکتا ہوا سر تھا جسے عورت سہارا دیتی تھی لیکن وہ پھر جھک جاتاتھا۔ میں بڑھ کراس کے قریب پہنچ گیا۔ عورت نے اس کے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کراٹھانا شروع کیاتھا کہ مجھے ان سب لوگوں کی آوازیں ایک ساتھ سنائی دیں اورمیں ان کی طرف مڑگیا۔

    وہ بار بار میرے گھٹنے چھورہے تھے اوربول رہے تھے۔ ان کی بولی میری اپنی زبان کی کوئی بگڑی ہوئی۔ ۔ ۔ یا بگڑنے سے پہلے کی، ابتدائی شکل معلوم ہوتی تھی جو میری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ میرے گھٹنے چھوتے، پھر گاڑی کی طرف اشارہ کرتے اور ان کے لہجے میں لجاجت آجاتی۔ اس وقت مجھ کو بھی شبہ ہوتا تھا کہ یہ بھیک مانگنے والوں کی ٹولی ہے۔ ان سے دو ہی چار باتیں کرنے کے بعد مجھ کو احساس ہوگیا کہ وہ بھی میری زبان نہیں سمجھتے ہیں، بلکہ میرا سپاٹ لہجہ ان کواندازے سے بھی میری بات نہیں سمجھنے دیتا۔ خود ان کے لہجے مختلف تھے تاہم مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کسی بڑی خدشے میں مبتلا ہیں، طرح طرح کی مصیبتیں جھیلتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں، مجھ سے کسی قسم کی امداد چاہتے ہیں اور ان سب باتوں کا تعلق گاڑی کے سوار سےہے۔

    اس عرصے میں عورت مستقل سوار کی نشست درست کرتی اور اس کے جھکتے ہوئے سر کوسہارا دیتی رہتی تھی۔ میں اس کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ سوارسینے تک گودڑ میں دفن تھا اور اس کے سرپربھی گودڑ لپٹاہوا تھا۔ عورت نے ایک طرف سرک کر دونوں ہاتھوں سے اس کاچہرہ اوپر کیا اور میری طرف گھمادیا۔

    میرے سامنے ایک بچے کاسوجاہواچہرہ تھا۔ اس کی آنکھوں کے پیوٹے بہت پھول گئےتھے۔ ایک پپوٹے میں ہلکی سی درز تھی جس میں وہ مجھ کو دیکھ رہاتھا۔ دوسرا پپوٹا بالکل بند تھا لیکن اس پر چونا یا کوئی اورسفیدی پھیر کربیچ میں کاجل یا کسی اور سیاہی کا بڑا سا دیدہ بنادیاگیا تھا جس کی وجہ سے اس بھرےہوئے پپوٹے پرایسی آنکھ کا دھوکا ہوجاتاتھا جو حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہو۔ میں نے اس حیران آنکھ پر سے نظریں ہٹالیں اور جھک کر دوسری آنکھ کی درزمیں جھانکا۔ الجھی ہوئی پلکوں کے پیچھے چھپی ہوئی نگاہ میں اذیت بھی تھی، لجاجت بھی تھی اور بیزاری بھی۔ میں نے اس کے چہرے کو ذرا اورقریب سے دیکھنے کی کوشش کی توگاڑی میں ٹھنسے ہوئے گودڑ میں لہریں سی پڑیں۔ سوار نے ایک جھٹکے سے اپنا چہرہ پیچھے کرلیا۔ اس کے ہونٹ سکڑے اور دانت باہر نکل آئے۔ دور سے دکانداروں کووہ شاید ہنستاہوا دکھائی دیا لیکن مجھ کو وہ کسی بیمارکتے کی طرح نظرآیا جس کی طرف شریر لڑکے بڑھ رہےہوں۔

    مجھے اپنی پشت پربازار والوں کی بھنبھناہٹ اور برادری والوں کی تیز آوازیں سنائی دیں۔ مجھے شبہ ہوا کہ وہ آپس میں الجھ پڑ ے ہیں۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ دونوں گروہ مجھ سے کچھ کہہ رہےتھے۔ لیکن میری سمجھ میں کسی کی کوئی بات نہیں آئی۔ اسی وقت عورت نے میرا ہاتھ دبوچ لیا اور میں اس کی طرف گھوم گیا۔ اس نے اپنا دوسرا ہاتھ گودڑ میں ڈالا اور ادھرادھر ٹٹول کر سوار کا ایک ہاتھ کہنی تک باہرنکال لیا۔ میرے سامنے تین ہاتھ تھے، میرا اپناجانا پہچاناہاتھ، اس کی انگلیوں میں انگلیاں الجھائےہوئے عورت کا نرم، سفید اور دھیرے دھیرے پسییجتاہوا ہاتھ، اورہم دونوں کی ہتھیلیوں کے درمیان سوار کا چھوٹا سا سوکھاہوا ہاتھ جس کی کلائی سے کہنی تک رنگ برنگے ڈورے لپٹے ہوئےتھے اور ان کے بیچ بیچ سے دکھائی دیتی ہوئی مردہ سی کھال میں جھریاں پڑی ہوئی تھی۔

    عورت کی انگلیاں میری انگلیوں میں دل کی طرح دھڑکیں، مجھے ہلکی سی جھرجھری آئی اور سوار نے منھ سے ایک آواز نکالی۔ اسی بیمار کتے کی طرح جس کی طرف شریر لڑکے بڑھ رہےہوں۔ ایک دکاندار نے میرے کندھے پرہاتھ رکھا اور میں ادھرمڑگیا۔

    ’’گاڑی ہٹوائیے۔‘‘ وہ کہہ رہاتھا، ’’دکانداری خراب ہورہی ہے۔ سویرے سویرے یہ لوگ۔۔۔‘‘

    میں برادری والوں کی طرف مڑا۔ اب وہ سب خاموشی سے مجھ کو تک رہےتھے۔ میں نے انہیں سیدھی سڑک پر مغرب کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا جو ان کی سمجھ میں فوراً آگیا۔ گاڑی کو سہارا دینے والے آدمیوں نے اسے آسانی سے مغرب کی طرف گھما دیا۔ عورت نے میرے ہاتھ سے اپناہاتھ چھڑایا اور سوار کاہاتھ گودڑ کے اندر کرکے اس کے سر کو سہارا دینا شروع کیا اورگاڑی ہلکی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ آگے بڑھی۔ اس کے پیچھے اپنی میلی کچیلی پوٹلیاں سنبھالے اورہاتھوں میں لمبی لمبی لاٹھیاں تھامے برادری والے چل رہےتھےاور سڑک کے دونوں طرف دکاندارمحلے کے دوسرے لوگ، جن میں کچھ عورتیں اور بچے بھی تھے، خاموش کھڑے ہوئےتھے۔

    میں گاڑی کے آگے آگے تیزی سے چلتا اور دکانوں کے سلسلےکو پیچھے چھوڑتاہوا پکی سڑک کے جنوبی موڑ تک پہنچ کررکا۔ میں نے مڑکر ان لوگوں کو اس موڑ پر آکے ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتے رہے۔ ان کے آس پاس دھویں کی طرح گرد منڈلا رہی تھی اور اب مجھے سب کچھ ایک ساتھ نظر آیا۔ ان میں سے ہرفرد اور ہر شئے خستہ اور بوسیدہ اور عنقریب بکھر جانے والی معلوم ہوتی تھی۔ پھر بھی، میں نے سوچا، اگر سب کچھ اتنا غبار آلود نہ ہوتا اور اگر گاڑی کے نیچے لٹکتا ہوا پتھر کچھ سڈول ہوتا تو اس جلوس پرکسی شاہی سواری کا بھی گمان ہو سکتا تھا۔

    وہ میرے قریب آکر رک گئے۔ میں نے ان کے پیچھے کچھ دور پر بازار والوں کو اپنی دکانوں کی طرف جاتے او رتماشائیوں کی قطاروں کو منتشر ہوتے دیکھا۔ پھرمیں برادری والوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہوں نے شاید سمجھ لیا کہ اب میں اطمینان کے ساتھ ان کی بات سن سکتاہوں۔ انہوں نے بھی اطمینان کے ساتھ بولنا شروع کیا۔ میری سمجھ میں صرف اتنا آیاکہ وہ گاڑی کے سوار کے بارے میں مجھے تفصیلیں بتارہے ہیں۔ لیکن ان تفصیلوں کاصرف ایک جزمیری سمجھ میں آسکا کہ گاڑی کا وہ سوار آخری ہے۔ چھوٹی برادریوں میں گھومنے کے دوران میرے سامنے آخری کامفہوم مختلف بولیوں میں اور مختلف اشاروں سے اتنی بارادا کیا گیا تھا کہ اب اسے میں آسانی سے سمجھ لیتا تھا۔ اس برادری کا بھی قریب قریب ہر آدمی سوار کا حال بتانے کے بعد میرے گھٹنے چھوتا اور بڑی لجاجت کے ساتھ جتاتا کہ وہ سوار آخری ہے۔

    میں نے بلاسبب خود کو ان کا، اوران سے زیادہ اس سوار کا، ضامن محسوس کیا اور انہیں مطمئن ہونے کا اشارہ کیا۔ وہ سب خاموش ہوکر مجھے دیکھنے لگے، پھر سب نے ایک دوسرے کومطمئن ہوجانے کا اشارہ کیا اور واقعی مطمئن ہوگئے۔ میں نے انہیں وہیں ٹھہر کر انتظار کرنے کا اشارہ کیا اور تیزقدموں سے چلتاہوا، جیسے ابھی واپس آتا ہوں، اپنے مکان کے دروازےپر آگیا۔ پاگل لڑکا دروازے پر کھڑا تھا اور ڈرا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔

    ’’وہ کون لوگ ہیں۔‘‘ اس نے گھٹی ہوئی آوازمیں پوچھا۔

    ’’پرچے والے ہیں۔‘‘ میں نےجواب دیا، ’’تم نے انہیں انعام نہیں دیا؟‘‘

    ’’انعام؟‘‘ اس نے یوں پوچھا جیسے اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیاہو۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا اورکہا: ’’جاؤ دوڑ کر انعام لے آؤ پھر ان کےپاس چلیں گے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے کہا اور پہلے سے بھی زیادہ ڈرا ہوا معلوم ہونے لگا۔

    ’’اچھا جاؤ کھیلو۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے کام ہے۔‘‘

    ’’وہ بڈھا کون ہے؟‘‘

    ’’بڈھا؟‘‘

    ’’جو گاڑی میں چھپا ہوا ہے۔۔۔‘‘

    ’’وہ بڈھا نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    پھرمیرے ذہن کوایک جھٹکا لگا۔ میں نے اسے بچہ کیوں سمجھ لیاتھا؟وہ کوئی بوڑھا بھی ہوسکتا تھا۔ میں نے اس کی ہیئت یادکی۔ اس کاچہرہ سوجا ہوا تھا اورہاتھوں پر جھریاں تھیں۔ میں نے ذہن پرزور ڈال کر اس کے ہاتھ کی بناوٹ کو یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی جگہ مجھے عورت کا سفید پسیجا ہوا ہاتھ یاد آیا جس کی انگلیاں میری انگلیوں میں الجھی ہوئی تھیں اور دل کی طرح دھڑکتی تھیں۔ میں نے سر کو زور سے جھٹکادیا اور برادری والوں کی باتوں اور اشاروں کویاد کرنے لگا۔ میری سمجھ میں صرف اتنا آیاتھا کہ وہ آخری ہے۔ برادری کا آخری بچہ، یا آخری بوڑھا؟ کسی آدمی کی، یا کسی واقعے کی، آخری نشانی؟ کسی چیز کی، یا کسی زمانے کی، آخری یادگار؟میرا دماغ الجھتا گیا اور میں نے اس الجھن میں شاید بہت وقت گزاردیا اس لئے کہ جب میں نے فیصلہ کیا کہ اسے پھر سے جاکر دیکھوں توپاگل لڑکا جاچکاتھا اور دوپہر ڈھلنے کے قریب تھی۔

    کوڑا گھر اور دکانوں کے سلسلے کو پیچھے چھوڑتا ہوا میں آگے بڑھا تو میں نے دیکھا وہ سب میری طرف آرہے ہیں۔ گاڑی آگے آگے تھی۔ سوارکاچہرہ گاڑی کی کگار پرٹکا ہوا تھا اور اس کے سرپرلپٹاہواگودڑ اب جگہ جگہ سے کھل گیا تھا۔ عورت بار بار خود بھی گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کررہی تھی اور ہر بار کوئی نہ کوئی آدمی اسے پکڑکر پیچھے گھسیٹ لیتاتھا۔ مجھے گاڑی کی کھڑکھڑاہٹ کے پیچھے ان کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ کچھ گاتے ہوئے سے معلوم ہو رہے تھے۔ باری باری ایک آدمی کچھ بول کہتا اور اس کے آخری لفظوں کو سب مل کر دہراتے تھے۔ انہو ں نے ایک صف بنالی تھی اور ان کی آوازیں بلندہوتی جارہی تھیں۔ ایک آدمی صف سے ذرا آگے نکلا، اس نےلحن سے کچھ کہا اور سب نے اسے دہرایا۔ وہ آدمی صف میں واپس چلا گیا اور دوسرا آدمی آگے نکلا۔ اس کی آواز اوردوسروں کی جوابی آواز پہلے کی آوازوں سے زیادہ بلند تھی۔ اوراب ا ن کے ہاتھ اور بدن کچھ رقص کے سے انداز میں جنبش کررہےتھے۔ کچھ کچھ دیربعد کوئی ایک آدمی آگے بڑھتا کچھ بول کہتا، سب اس کاساتھ دیتے، پھر چپ ہوکریوں سرہلاتے جیسے اسے داد دے رہے ہوں۔ میرے خیال میں وہ داد دینے کا اشارہ تھا، لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس برادری میں اس اشارے کاکیا مطلب، جس طرح یہ نہیں معلوم تھا کہ اس برادری میں داد دینے کا اشارہ کیاہے۔

    میں ان کی آنکھوں کے ٹھیک سامنے ہونے کے باوجود انہیں شاید نظر نہیں آرہا تھا۔ ان کی پیش قدمی کے ساتھ میں الٹے قدموں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہا تھا۔ میرے کان ان کی آوازوں پراورنگاہیں ان کی جنبشوں پرلگی ہوئی تھیں۔ وہ کوئی داستان سنارہےتھے اور اس داستان کے مبہم منظر میرے سامنے خواب کے خاکوں کی طرح بن بن کرمٹ رہے تھے۔ میں نےدیکھا کہ ایک نوزائیدہ بچے کو گودیوں میں کھلایاجارہا ہے۔ بچہ چلنا سیکھ رہاہے۔ ڈگمگاتا ہوا چلتاہے، چلتے چلتے گر کر رو رہاہے۔ اٹھایاجاتاہے، بہلایا جاتا ہے، بہل گیا ہے۔ دوڑ رہاہے۔ درخت پر چڑھ رہاہے۔ تھک کرسوگیا ہے۔ سو کراٹھاہے۔ ہتھیلیوں سے آنکھیں مل رہاہے اور اس کی دونوں آنکھیں سرخ ہوگئی ہیں۔

    مجھے بہت سی سرخ آنکھوں کے جوڑے اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیے۔ اب وہ سب ایک ساتھ ایک ہی لحن میں، ایک ہی اشارے سے آخری آخری کہہ رہے تھے اور ان کے گلےپھٹے جارہےتھے۔ ان پرایک جوش طاری تھا اور معلوم ہوتا تھا سب غصے سے پاگل ہورہے ہیں۔ پھرسب پرنشہ سا چڑھ گیا۔ ہلکی گردنے ان کے کپڑوں سے نکل نکل کر اوران کے قدموں سے اٹھ اٹھ کر ان کو لپیٹ لیا۔ اس گرد کے پیچھے گاڑی کے سوار کے چہرے کو عورت نے پھر سہارا دے کر اوپر اٹھادیاتھا۔ اس کی آنکھ کی درزبند ہوگئی تھی۔ لیکن دوسری سفیدی اورسیاہی سے بنی ہوئی آنکھ مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھی اور گرد میں اٹ جانے کے بعد بھی بند نہیں ہورہی تھی۔ گاڑی سڑک کے کسی کھانچے پر سے گزری۔ سوار کے سر کو ایک جھٹکا لگا اور اس پرلپٹا ہوا گودڑ تھوڑا اور کھل گیا۔ آنکھ میں ملامت جھلکی، پھر غصہ، پھرہلکا سا نشہ، اور وہ پھرحیرت سے میری طرف دیکھنے لگی۔

    دکانوں کےسلسلے کےقریب پہنچتےہی وہ سب خاموش ہوکررک گئے۔ سب تھکن سے چور اور میری موجودگی سے بے خبرمعلوم ہورہےتھے۔ انہوں نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور دور پرمیرے مکانوں کے دروازے کی طرف اشارہ کرنے لگے۔ میں مڑا اور تیزی سے اپنےمکان کی طرف چلا۔ دروازہ آنے سے کچھ پہلے میں نےپلٹ کر دیکھا۔ اب وہ میری طرف اشارے کرکے ایک دوسرے کو کچھ بتارہےتھے۔ پھروہ آگے بڑھنےلگے، سیدھے میری طرف۔ میں مڑا اور اپنے دروازے کوپیچھےچھوڑتا ہوا کوئی چالیس قدم آگےنکل کرپھررکا۔ آہستہ سے گھوم کر میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ مجھے کوڑے کے ایک ہلتےہوئے ڈھیر کی طرح نظر آئے۔ پھر ان کی ترتیب بگڑگئی اور سب نے سرجھکالئے۔

    دیر تک مجھ پر یہ احساس غالب رہاکہ میں نے کوئی منظر دیکھا ہے جسے آئندہ کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ مجھے ہلکا سا پچھتاوا بھی تھا کہ میں خود اس منظر میں شامل نہیں ہوا۔ تاہم میں نے خود کوبہت محفوظ بھی محسوس کیا اس لئے کہ اب وہ لوگ شمال کی سمت کٹنے والی اس بے نام کچی سڑک پر اتر رہےتھے جو شہر سے باہر اجاڑ علاقوں کی طرف جاتی تھی۔

    مأخذ:

    طاؤس چمن کی مینا (Pg. 48)

    • مصنف: نیر مسعود
      • ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
      • سن اشاعت: 2013

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے