aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پت جھڑکے لوگ

سلمی صنم

پت جھڑکے لوگ

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    جاڑوں کے آتے ہی ان بوڑھی کھوسٹ ہڈیوں کو جانے کیا ہو جاتا ہے کہ چیخنے لگتی ہیں، ہلنے لگتی ہیں کچھ اس قدرکہ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا ایک عذاب لگنے لگتا ہے۔ بوسیدہ سی کھٹیا پردراز خستہ لحاف میں دبکی خود کو آ دھی طرح گرماتے ہوئے میں نے بےاختیار سوچا۔

    اف!! یہ سرما کی طویل راتیں اور سردیوں کی شدت۔ اللہ کی ایک ساری مخلوق بلوں میں گھسی اپنی جمع کی ہوئی پونجی پر زندگی بسر کرتی ہے۔ کاش کہ ہم پت جھڑ کے لوگوں کو بھی ایسا کچھ میسر آتا۔ ہماری بھی کہیں کوئی بل ہوتی۔ ہم نے بھی کوئی غذا جمع کی ہوتی۔ ساری زندگی بچوں کو سمیٹتے گذرادی اور یہ بچے!!

    بےچین ہوکر میں نے کروٹ بدلی تو لگا جیسے جوڑ جوڑہل گیا ہو۔

    اف!! یہ پت جھڑکا موسم آیا نہیں کہ سب کچھ بکھرنے لگا ہے سب کچھ سوکھا سا زرد، بہت جی چاہا کوئی گیت گاؤں کہ آواز کہیں حلق میں ہی گھٹ گئی بےکراں، مہیب سیاہ رات نے پوچھا اوبرہن تیرے وہ دن کہاں گئے؟

    اور مجھے اچانک محسوس ہوا جیسے لحاف سرکا کر کوئی نمودار ہوا ہے وہ جس کے ہمراہ ساری جوانی اسی کھٹیا پر، اسی خستہ لحاف میں دبکی گذار دی تھی۔ ہائے زندگی کتنی سہانی لگتی تھی ندی کی طرح تیز، شبنم کی طرح خاموش، بجلی کی طرح سبک اور سورج کی طرح روشن۔

    وہ کیا آیا کہ میرے اندر اجالا سا پھیل گیا۔

    سیما۔۔۔۔ اسی نے آواز دی تھی۔ وہی مسحور کن خوشبو۔۔۔ یہ کس کی آواز تھی یہ کون تھا؟؟

    مدثر۔۔۔ میں نے چاہا کہ اس کو اپنی گرفت میں لے لوں۔ اس بےکراں نور کو اپنے اندر سمیٹ لوں کہ میں بری طرح چونک گئی۔

    ارے۔ میری بانہوں میں تو ثنا ہے۔ پھیلی ناک والا۔۔۔ ابھری آنکھوں والا مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیا ہوا بھکشو۔۔۔ سرمنڈوائے کھڑاؤں پہنے کھیسیں نکالے۔

    ہائے!! یہ میرے لحاف میں کون تھا؟ مدثر یا ثنا۔۔۔ جب تک مدثر زندہ رہے ثناہم دونوں کے بیچ ہمیشہ رہا اور آج جب وہ نہیں رہے تواب بھی یہ کم بخت بھکشو میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔

    کیوں تھا یہ؟۔۔۔ میں نے اس کا دامن جھٹک کر مدثر کو آواز دینی چاہی کہ کم بخت دھونی رمائے میرے بازو ہی بیٹھ گیا۔

    وہ سدا سے ایساہی بےغیرت تھا۔ کالج کے دنوں سے میرے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا تھا۔ جانے مشرقی ہندوستان کی کس بستی سے آیا تھا۔ سب اسے بھکشو کہتے تھے۔ پھیلی ناک والا۔ ابھری آنکھوں والا۔۔۔ اور میں تو پریوں کی شہزادی تھی۔ ہواؤں کے دوش پر اڑتی تھی۔ میرا اس بھکشو سے کیا میل تھا؟ میں۔۔۔ تو یہی کہتی تھی ارے ثنا۔۔۔ وہ تو بس یونہی ساہے۔ واجبی شکل، منہ پھٹ، بے غیرت۔۔۔ مگر وہ کھیسیں نکالے کہتا۔ میں تمہاری پرستش کرتا ہوں۔ میری ہو جاؤ۔

    وہ دن تھے۔۔۔ یاخواب تھے۔۔۔ وہ تھایا نہیں تھا۔

    لحاف میں دبکے۔ اونگھتے جاگتے مدثر اور ثنا کے پیچھے بھاگتے میں بےساختہ منہ کے بل گری اور چاروں خانے چت ہو گئی۔ ایک بھونچال سا آیا اور میرا دل حلق میں آ گیا۔ میں زمیں پر تھی یا آسمان پر یا درمیان میں ہی کہیں معلق۔۔۔ حواس قابو میں آئے تو پتہ چلا کہ میں زمیں پر ہوں۔ نہ مدثر ہے نہ ثنا۔۔۔ مشرق سے سے سورج اگ رہا ہے اور روپیلا اجالا چاروں اور بکھرا ہوا ہے اور حلق پھاڑے چیخ رہا ہے۔ پڑوسی کا وہ موا اسٹیریو۔۔۔ ہر صبح ایک قیامت ہے۔ میں نے ایک سرد آہ بھری، اپنی گذربسر کے لئے ملحقہ کمرے کرائے پر کیا دیئے کہ ایک عذاب مول لیا تھا۔ وہ کالج جاتی چھوکری۔ اثنیٰ ہر صبح ورزش کرتی تھی۔ اتناریش میوزک لگاکر کہ درودیوار ہلتے محسوس ہوتے۔۔۔ کتنی بار شکایت کی کہ میں بوڑھی جان ہوں۔اتنا شور شرابہ برداشت نہیں کر پاتی۔ تو اثنیٰ بپھر جاتی۔

    ’’ڈیم اٹ۔ یہ ہماری عمر ہے موج مستی کی۔ اب شورنہ کروں تو پھر کب کروں۔؟‘‘

    ’’پر بیٹا۔۔۔ انہیں تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ اس کی ماں اس کو سمجھانے کی کوشش کرتی۔’’ تکلیف۔۔مائی فٹ ‘‘وہ آگ بگولہ ہو جاتی یہ بوڑھے ہوتے ہی ایسے ہیں وبال جان میراجی کرتا ہے، میں سارے بوڑھوں کو گولی سے اڑا دوں‘‘۔ ٹھیک ہی تو کہتی ہے۔ ہم پت جھڑ کے لوگ ہوتے ہی وبال جان ہیں۔ کاش یہ پت جھڑکا موسم آئے ہی نا۔

    میں بےبس سی، لاچار سی اس طوفان بدتمیزی کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔مگر لمحہ لمحہ یوں لگ رہا تھا جیسے حواس پر بم گر رہے ہو۔ مدقوق جسم ہلنے لگا۔ حوائج ضرور یہ سے فارغ ہونے کو اٹھی ہی تھی کہ وہ پھسل گئے اور میں بےبس سی اپنا لباس گندا ہوتے دیکھتی رہی۔ سامنے ہی ٹیبل پر مدثر کی تصویر مسکرا رہی تھی۔

    ’’آپ تو بہاروں میں رخصت ہو گئے مجھے کیوں پت جھڑکے حوالے کر گئے‘‘ میرے دل نے بے ساختہ شکایت کی۔ مگر وہ بدستور مسکراتے رہے آپ بھی۔۔۔ میں نے کچھ کہنا چاہا کہ دیکھا کہ ان کی پشت پر ثنا مسکرا رہا ہے تم بھی آ پہونچے بھکشو۔۔۔ میری بےبسی کا تماشہ دیکھنے۔ میرے چہرے کی جھریاں کانپنے لگیں۔ آنکھیں کچھ اور دھندلانے لگی۔

    ثنا۔۔۔ مدثر۔۔۔ یا مدثر۔۔۔ ثنا۔۔۔ ان دونوں کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھے لگا وہ دونوں میرے بوڑھے دماغ سے نکل کر میرے بھوکے پیٹ میں گھس گئے ہیں۔ مجھے محسوس ہوا جیسے دماغ۔ پیٹ سب کچھ ایک ہو گیا ہو۔ بڑے زوروں کی بھوک لگی تھی۔ کہاں کا مدثر؟ کون سا ثنا۔ بھوک کی شدت اور زندہ رہنے کی جدوجہد ہر چیز پر پانی پھیر دیتی ہے۔ انسان سے اس کاکلچر، فلسفہ، منطق، مذہب، سیاست، سب کچھ چھین لیتی ہے۔

    میں نے بھی زندہ رہنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ پیٹ بھرنے اور حلق ترکرنے کی مقدور بھر کوشش کی اور اس کے لئے میرے نحیف و نزارجسم کو جو کچھ برداشت کرنا پڑا یہ کچھ میرا دل ہی جانتا ہے۔

    مدثر۔۔۔ میں بے ضبط سی ان کی تصویر سینے سے لگائے رو پڑی۔ یہ کیسی نسل میری گود میں ڈال گئے آپ۔ میں تو ایک چھتناوردرخت تھی خوب پھیلا۔۔۔ پھولوں پھلوں سے لدا۔

    مگر یہ پت جھڑ کیا آیا کہ تمام پتے جھڑ گئے۔ پھول بکھر گئے۔ پھل کسی اور کی گود میں جاگرے اور اب میں لنڈ منڈ سی کھڑی ہوں۔ تنہا بےسایہ دار۔ مدثر۔ آپ کا وہ بیٹا جس کے حوالے آپ مجھے کر گئے تھے۔۔۔ یہ کیسی دلہن لایا تھا۔ اس کو تو مجھ سے جنموں کا بیر تھا۔ کیوں؟

    میں تو کبھی اس کی آزادی میں مخل نہ ہوئی۔ اونچے سروں میں کبھی اس سے بات تک نہ کی۔ کبھی اس سے کچھ نہ مانگا۔ دو نوالے وہ ڈال دیتی۔ میں اسی پر قانع ایک گوشے میں پڑی خدا کو یاد کئے جاتی۔۔۔ مگر یہ بھی اس عورت سے دیکھا نہ گیا۔۔۔ بات بات پر مجھ سے لڑتی۔۔۔ ذرا کچھ ہوا نہیں کہ ایک ہنگامہ کھڑا کر دیتی۔۔۔ اورپتہ نہیں آپ کے بیٹے کو کیا پٹی پڑھاتی کہ وہ ہمیشہ مجھ پر گرجتا برستا رہتا۔ لنگور کی شکل بنائے ہاتھیوں جیسا چنگھاڑتا تھا کچھ اس قدر مہیب اور بھیانک ہوتا اس کا وجود کہ مجھے اس آگے جانے سے بھی خوف محسوس ہونے لگتا تھا۔۔۔ اور وہ آپ کا پوتا بنٹی جس کے لئے ہم دونوں ترس رہے تھے اور جس کو پاکر نہال ہوگئے تھے وہ تو ایسا نکلا کہ الاماں۔۔۔ کیسے تڑ تڑ بولتا رہتا تھا۔

    ’’دادی بڑی گندی ہے۔ کپڑے گندے کر لیتی ہے۔ میں اس کے پاس نہیں جاتا۔ چھی چھی۔‘‘ سن رہے ہیں نا آپ؟۔۔۔ میں نے تصویر نگاہوں کے آگے کی۔ ارے پت جھڑ کا وجود ہے میرا۔بکھر بکھر جاتی ہوں خود کو کہاں سے سمیٹوں۔ کس طرح سنبھالوں۔ عمر بھر سایہ داردرخت کی طرح ہر کسی کو چھاؤں دی اور آج لنڈ منڈ سی دھوپ کی تمازت سہہ رہی ہوں اور اس پر بھی یہ ستم اور وہ آپ کی پوتی۔۔۔ وہ تواپنی ماں کی زبان بولتی ہے۔ ایک دم کڑوی کسیلی کہتی ہے’’دادی ہم تمہارے ساتھ نہیں رہینگے۔ ہمیں اپنا فیوچر بنانا ہے۔ ہم الگ رہیں گے۔ موج مستی کرینگے۔‘‘

    تو کرتے نامدثر۔۔۔ میں کون سا ٹوکتی انہیں۔۔۔ الٹا میں بڈھی ان کے کتنے کام انجام دیتی تھی اپنے ہاتھوں سے۔۔۔ پھر بھی انہیں الگ رہنے کی چاہ تھی۔ وہ اڑنے کے قابل ہو گئے تھے اب میرا گھونسلہ چھوڑ کر ایک نیا آشیاں بنانے کی تگ و دو میں تھے۔ جب اپنا بیٹا ہی پرایا تھا تو پھر اپنا کون تھا؟ جب دئکھو یہی کہتا ’’آپ طلعت کے پاس کیوں نہیں رہتیں۔ اولاد ہے وہ بھی آپ کی اس کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ کی دیکھ بھال کرے۔‘‘

    ہائے اب اس ظالم بیٹی سے کیا شکوہ کرتی جو اتنی کٹھور نکلی کہ الاماں۔۔۔ مہینے گذر جاتے تھے پلٹ کر نہ پوچھتی تھی کہ ماں جیتی ہے کہ مر گئی۔ جس طلعت کو ہم نے آنکھوں کا نور بنا رکھا تھا۔۔۔ اسی نے تو جیتے جی مجھے اندھی کر دیا تھا۔ جب من بھاری ہو جاتا اور اس سے گلہ کرتی تو فوراً کہتی۔

    ’’امی۔۔۔ میں کیا کروں۔ میری اپنی ذمہ داریاں اس قدر ہیں کہ اپنے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ملتی۔ بھلا آپ کے بارے میں کیا سوچوں؟‘‘

    ٹھیک ہی تو کہتی ہے۔۔۔ وہ بھلا میرے بارے میں کیا سوچے گی۔ وہ تو اپنی اولاد کے بارے میں ہی سوچےگی نا۔۔۔ اس لئے انہیں اس ڈھب پر ڈالا تھاکہ نانی کی صورت انہیں زہر لگتی تھی۔

    جانتے ہیں آپ۔۔۔ بیٹے کی روز۔۔۔ روزکی بک بک سے تنگ آکر ایک دن بیٹی سے دب زبان میں کہا کہ میں اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں تو پلٹ کر بولی۔

    ’’ارے امی۔۔۔ یہ غضب مت کرنا۔ وہ بہت بڑے افسر ہیں ہر دم ہمارے یہاں لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔ سماج میں ہماری بہت عزت ہے۔ سوچئے لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹے کے ہوتے ہوئے آپ داماد کے گھر میں پڑی ہیں۔۔۔ نا۔۔۔ نا۔۔۔ آپ یہیں ٹھیک ہیں۔۔۔ میں بھائی جان سے بات کرتی ہوں‘‘۔

    پھر جانے بھائی بہن میں کیا طے ہوا کہ بیٹی منھ پھیر کر اپنے گھر چلی گئی اور بیٹا بنا کچھ کہے سنے بوریہ بستر لپیٹ کر رفو چکر ہو گیا۔

    اب دیکھئے میں اکیلی ہوں۔۔۔ مدثر کی تصویر مسکرا رہی تھی اور اس کی پشت پر کھڑا وہ بھی مسکرا رہا تھا۔

    تم نے بھی میری بپتا سنی ہے نابھکشو۔۔۔ تم کہاں ہو؟ ہو بھی یا نہیں کیا میں واقعی اکیلی ہوں۔؟

    دن کا اجالا۔۔۔ چاروں طرف پھیل گیا تھا۔

    ہائے اللہ۔۔۔ یہ کس کے دیدار ہو گئے تھے۔ رعناکے گھر میں اس شخص کو دیکھتے ہی میں سن سی ہو گئی۔ پھیلی ناک والا۔۔۔ ابھری آنکھوں والا۔ مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیا ہوا بھکشو۔۔۔

    وہ خراماں۔۔۔ خراماں میری طرف یوں آ رہا تھا۔۔۔ جیسے دل کے آنگن میں چہل قدمی کر رہاہو۔۔۔ ثنا۔۔۔ دل نے دھڑک کر صدادی۔۔۔ آ پہونچے بھکشو۔ مگر اس قدر تاخیر کیوں؟

    ’’یہ شایاں ہیں میرے مرحوم شوہر کے دوست بشنو پور سے آئے ہیں‘‘

    رعنانے تعارف کرایا تو میں نے بری طرح چونک کر دیکھا۔۔۔ یقین بالکل نہ آیاکہ یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔ یہ شخص شایاں کیسے ہو سکتا ہے؟ دھڑکنیں جھوٹ تو نہیں بولتیں۔۔۔ یہ ثناہے۔۔۔ یہ سو فیصد ثنا ہے۔۔۔ رعنا کو دھوکا ہوا ہے۔۔۔ یہ اس کے مرحوم شوہر کا دوست نہیں ہو سکتا۔۔۔ وہی چہرہ۔۔۔ وہی روپ۔۔۔ ثنا۔۔۔ یہ بالکل ثنا ہے۔۔۔ یہ پورے کا پورا ثنا ہے۔

    ’’میڈم۔۔۔ میں جیتا جاگتا انسان ہوں۔۔۔ کسی میوزیم میں رکھا آثار قدیمہ کا کوئی نمونہ نہیں۔‘‘

    اس شخص نے مجھے یوں ٹکر ٹکر دیکھتے پاکر ایک قہقہہ لگایا اور رعنا بھی ہنسنے لگی میں بری طرح جھینپ گئی۔

    ’’یہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں۔ بشنو پور جلد ہی لوٹ جائییں گے۔‘‘

    رعنا جانے کیا کچھ کہتی رہی عجیب دوست تھی میری۔ ثناکے بارے میں سینکڑوں مرتبہ مجھ سے سنا تھا اور پھر بھی ثنا کو۔۔۔ شایاں بناکر پیش کر رہی تھی۔۔۔ کیا یہ سچ مچ ثنا نہیں ہے۔۔۔ کیا یہ کوئی اس کا ہم شکل ہے۔ پھر یہ دھڑکنوں میں انتشار کیوں ہے؟ میں یہ مان کیوں نہیں رہی ہوں کہ یہ شایاں ہی ہے۔ یہ ثنا ہے میرا ثنا۔ پھر تو اکثر اس سے ملنا ہوا۔۔۔میں اس سے بارہا ملی۔۔۔ پیہم لگاتار۔۔۔ دل ہمیشہ یہی کہتا رہا۔۔۔ وہ بھکشو ہے۔۔۔ پھیلی ناک والا۔۔۔ ابھری آنکھوں والا۔۔۔ مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیا ہوا۔ بشنو پور بھی تو مشرقی ہندوستان میں ہے۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ شایاں ہو۔۔۔ وہ ثنا ہے۔۔۔ وہ سو فیصد ثنا ہے۔

    میں نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی دن شایاں سے کہہ ہی ڈالا۔

    ’’کون ثنا۔۔۔ کیامیری شکل اس سے ملتی ہے‘‘۔ اس نے مسکراکر پوچھا۔ ’’بالکل‘‘۔۔۔ میں نے بغور دیکھا کہ آیا وہ سچ کہہ رہا ہے یا بن رہا ہے۔ مگر میں کچھ بھی سمجھ نہ پائی۔

    ’’تو پھر مجھے ہی اپنا ثنا سمجھ لو‘‘۔۔۔ وہ پورے خلوص سے مسکرایا۔

    اف خدایا!! کتنی آسانی سے اور کس قدر سہولت سے وہ یہ بات کہہ گیا میرا دل حلق میں دھڑکنے لگا۔۔۔ مدقوق جسم ہلنے لگا۔

    کیا وہ ثنا نہیں تھا؟ کیا وہ شایاں ہی تھا۔۔۔ آخر وہ کون تھا؟

    کون کہتا ہے کہ پیپل بوڑھا ہو گیا ہے۔ اس کی سوکھی شاخوں پر تو ابھی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ نئے تروتازہ ہرے ہرے پتے اگ رہے تھے۔

    میں جب سے شایاں سے ملی ہوں میراجی چاہتا ہے۔ پت جھڑکی ساری ویرانی اپنی رگ رگ سے کھینچ کر اپنی مٹھیوں میں جکڑ لوں۔۔۔ اور اسے دور۔۔۔ کہیں دور۔۔۔ سمندر میں پھینک آؤں۔۔ اور اپنے کھوکھلے سینے سے بہاروں کو بھینچ لوں تاکہ میرے ٹوٹتے بکھرتے جسم میں نئی کونپلوں کی مہک ہو۔ کچی مٹی کی سوندھی سی خوشبو ہو۔ قوس وقزح کے رنگ ہو۔جلتے بجھتے جگنو ہوں۔۔۔ ایسے لطیف جذبے۔ ایسے اچھوتے احساسات۔۔۔ جب سے مدثر سے بیاہ ہو اتھا میرے اندر جا نے کہا ں جاسوئے تھے۔ مدثر کے ساتھ جس قدر بھی گزری اس زندگی میں رعنائیاں تو تھیں پھر بھی وہ بو جھل اور تھکی تھکی سی لگتی تھی۔ یکسانیت سے بھر پور۔۔۔ کہیں کوئی خم نہیں۔ کوئی ولولہ نہیں۔ بس روز مرہ نبھاتے جاؤ۔ جیتے جاؤ۔ حتیٰ کہ مدثر مجھے تنہا چھوڑ بھی گئے۔

    لیکن اس پت جھڑ کے موسم میں بھلایہ کون آ گیا تھا؟ کیا یہ ثنا تھا۔ کیا یہ شایاں تھا؟ یہ کون تھا؟۔۔۔ کیا مجھے پیار ہو گیا ہے۔

    وہ ایک قہقہہ تھا جومیرے دل کی گہرائیوں سے نکلا تھا۔ جومیرے اندر اجالے سے بکھر گیا۔۔۔ یہ کس کا نور تھا؟ یہ کون تھا؟؟

    وہ دھونی رمائے میرے آگے بیٹھا ہوا تھا۔ بھکشو۔۔۔ میرا بھکشو۔۔۔ جس نے پت جھڑکے موسم میں گل کھلا دئے تھے۔ ’’لگتا ہے۔ تم ثنا کو بہت چاہتی تھیں‘‘۔ اس نے پوچھا تو میں بری طرح چونک اٹھی۔۔۔ ’’نہیں تو‘‘۔۔۔ میں نے فوراً ہی جھٹلا دیا۔

    ’’اچھا۔۔۔ تو پھر اس کو اس قدر یاد کیوں کرتی ہوں‘‘۔۔۔۔ وہ بےحد سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ ’’بھول جاتی۔۔۔ لیکن مدثرنے اسے ہم دونوں کے بیچ ہمیشہ زندہ رکھا‘‘۔ ’’وہ بھلا کیوں‘‘، ’’انہیں شک تھا کہ میں انہیں نہیں ثنا کو چاہتی ہوں‘‘۔ ’’کیا واقعی‘‘۔ ہاں۔۔۔ انہیں ہمیشہ مجھ میں ثنا نظر آتا تھا۔ میری ہر بات میں انہیں ثنا کی کسی بات کا سایہ دکھائی دیتا تھا اور میرے ہر عمل میں ا س کے کسی عمل کا عکس‘‘۔

    ’’کیا وہ ثنا سے کبھی ملے تھے‘‘۔

    ’’نہیں۔۔۔ مگر انہیں جانے کیوں ایسا لگتا تھا کہ میں ثنا کا پرتو ہوں۔ اسی کے طرح چلتی ہوں۔۔۔ ہنستی بولتی ہوں۔ اسی کی طرح جیتی ہوں۔۔۔ اس کی زبان بولتی ہوں اور وہ بھی اس کے لب و لہجہ میں‘‘

    ’’اور کیا یہ سچ تھا۔۔۔ یا صرف مدثر کا وہم‘‘۔

    وہم ہی تو تھا۔۔۔ انہیں اپنے اوپر قطعی اعتماد نہ تھا۔۔۔ وہ ثنا کی پرچھائی کو اپنے حقیقی وجود سے زیادہ موثر سمجھتے تھے۔ ’’کمال ہے‘‘

    ’’جانتے ہو۔۔۔ انہیں ہمارے بچوں میں بھی ثنا ہی نظر آتا تھا۔ ہمیشہ خود کو نہیں ثنا کو ان بچوں کا ڈیڈی کہتے تھے۔

    ’’یہ تو پاگل پن ہے۔۔۔ وہ ایسا کیوں کرتے تھے۔‘‘

    وہ چاہتے تھے کہ میں ثنا کو بھول جاؤں۔ بس ان کی ہور ہوں۔۔۔ ’’مگر اس طرح تو انہوں نے ثنا کو کبھی تم سے جدا نہ کیا۔

    ’’ہاں۔۔۔ میں نے ثنا۔۔۔ اور مدثر دونوں کے ساتھ گذاری ہے۔‘‘

    ’’کاش مجھے پتہ ہوتا کہ تم۔۔۔ وہ خود فراموشی کے عالم میں کچھ کہتے کہتے رک گیا۔۔۔ اور میں نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔‘‘

    پھیلی ناک والا۔ ابھری آنکھوں والا۔ مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیا ہوا بھکشو۔۔۔ سر منڈوائے۔۔۔ کھڑاؤں پہنے۔ کھیسیں نکالے۔

    میرا دل چیخ پڑا۔ کون ہو تم کون ہو۔۔۔ ہو بھی یانہیں۔۔۔ اور وہ سچ مچ نہیں تھا۔

    بشنو پور لوٹتے ہوئے اس نے جو کچھ رعنا سے کہا وہ میں نے بھی سنا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’سیما مجھے بہت چاہتی ہے بھابھی مگر میں کیا کروں؟ میری زندگی میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ میری چہیتی بیوی ہے۔ بچے ہیں۔ بھرا پورا کنبہ ہے۔ میں اسے کیسے اپنا سکتا ہوں؟‘‘۔

    ’’آپ۔۔۔‘‘رعنا پگلی کچھ بھی نہ سمجھ پائی۔

    ’’سیما ٹھیک کہتی ہے۔ میں ثناہوں۔ اس نے ساری عمر میرے ساتھ گذاری ہے میں ہی نہیں رہ پایا اس کے ساتھ کالج کی محبت کو وقتی جذبہ سمجھ کر کبھی کا اسے بھول گیا‘‘۔

    ’’اچھا،‘‘ رعنا کا لہجہ شکست خوردہ تھا۔

    ’’پلیز۔۔۔ سیماسے مت کہنا کہ میں اس کا ثنا ہوں‘‘۔

    دھڑکنیں جھوٹ نہیں بولتیں۔ وہ ثنا تھا۔ پھیلی ناک والا۔۔۔ ابھری آنکھوں والا۔ مشرقی ہندوستان کی کسی بستی سے آیا ہوا بھکشو۔۔۔ سر منڈوائے۔ کھڑاؤں پہنے۔ کھیسیں نکالے۔

    وہ تو بس۔۔۔ ایک پرچھائی تھا اور پرچھائیوں کو میں مٹھی میں قید کیسے کرتی بھلا؟؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے