Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

راستہ چلتی عورت

بلونت سنگھ

راستہ چلتی عورت

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    طاقت ور کے سامنے لفنگوں کی خود سپردگی کی کہانی ہے۔ بوٹا سنگھ اپنی نئی نویلی خوبصورت دلہن کے ساتھ اپنے گاؤں جا رہا تھا کہ راستے میں بیٹھے ہوئے جگیر سنگھ اور اس کے ساتھی اس کو چھیڑتے ہیں اور ہیروں کی حفاظت کا طنز کرتے ہیں۔ بوٹا سنگھ اپنی لاٹھی کے جوہر دکھا کر لوگوں کو حیران کر دیتا ہے۔ پھر جگیر سنگھ سے کہتا ہے کہ آپ کی بات کا تو میں نے جواب دے دیا، لیکن کیا اس گاؤں میں کوئی اپنے باپ کا تخم اور ماں کا لال نہیں ہے جو ہیرے جھپٹننے کی خواہش رکھتا ہو۔ جگیر سنگھ بوٹا سنگھ سے کہتا ہے اس گاؤں میں کوئی اپنے باپ کا تخم اور ماں کا لال نہیں ہے۔۔۔

    یہ کوئی شعلہ نہیں تھا، بلکہ بوٹا سنگھ کی نئی نویلی بیر بہوٹی سی دلہن کے سرخ دوپٹے کا آنچل تھا، جو تیز گرم ہوا کے جھونکوں میں پھڑپھڑا رہا تھا۔ اب وہ کوٹ گوراں نام کے گاؤں کے قریب پہنچ چکے تھے، شادی کے بعد پہلی بار بوٹا سنگھ بیوی کو اس کے میکے سے اپنے گاؤں کو لے جا رہا تھا۔ تقریباً آدھا راستہ طے ہو چکا تھا، کیونکہ کوٹ گوراں آدھے راستے پر واقع تھا۔

    دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ اور گرمی کی شدت کی حد نہیں تھی۔ کوٹ گوراں کے لوگ انتہائی گرمی کا یہ وقفہ کسی قدر آرام سے گزارنے کے لیے گاؤں کے باہر شرینہہ کے اونچے اور گھنے پیڑوں کے جھنڈ کی چھاؤں تلے گزارتے تھے۔ چنانچہ اس وقت بھی وہ وہاں جمع ہوکر اپنے اپنے مشاغل میں مصروف تھے۔ کوئی شطرنج کھیل رہا تھا، کوئی چوسر۔ کوئی باتیں بنا رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا۔ بعض لوگ گھروں سے ہلکی پھلکی چارپائیاں اٹھا لائے تھے اور بعض زمین پر ہی بوریا بچھائے ہوئے تھے۔ البتہ جگیر سنگھ اپنے لفنگے ساتھیوں کے ساتھ الگ محفل جمائے ہوئے تھا۔ وہ محض درشنی جوان ہی نہیں تھا بلکہ سچ مچ دم خم کا مالک تھا اور اپنے چیلے چانٹوں میں سب سے ممتاز تھا۔

    کچھ دن پہلے تیز و تند آندھی کے طوفان میں شرینہہ کے اونچے پیڑ کی ایک بھاری بھرکم ڈالی چرچراکر زمین پر آ گری تھی۔ جگیر اور اس کے آٹھ دس ساتھی اسی سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ اس وقت وہ محض آپس کی گپ شپ سے محظوظ ہو رہے تھے۔ جگیر اپنی ایک فٹ کی کرپان سے ایک چھوٹی سی شاخ کو بائیں ہاتھ میں تھامے آہستہ آہستہ چھیل رہا تھا۔ اس بے مصرف کام کے دوران میں رہ رہ کر اس کی باچھیں چری جاتی تھیں۔ اس کے اجڈ چہرے سے خشونت کے آثار ہویدا تھے۔ اس کے ساتھی غیرضروری انہماک کے ساتھ یا تو اس کے ہاتھوں کی جانب دیکھ رہے تھے یا شکاری جانور جیسی مستعدی کے ساتھ ادھر ادھر تاک رہے تھے۔ اچانک انہوں نے دور سے آتی دلہن کو دیکھا تو پر معنی انداز میں ہلکے سے کھانس کر ایک نے جگیر کے کولہے پر کوہنی کا ٹہوکا دیا۔

    پیہا، یعنی وہ چوڑی راہ گزر جس پر بوٹا سنگھ اپنی بیوی کے ساتھ چلا آ رہا تھا، پیڑوں کے اس جھنڈ کے قریب سے ہی گزرتی تھی۔ سامنے کچھ فاصلے پر گوردوارے کی چھوٹی سی عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے گنبد پر ایک جھنڈا لہرا رہا تھا جس کا رنگ کبھی گہرا زرد رہا ہوگا تاہم اس پر ایک چکر، دو کرپانوں اور ایک کھڑے کھنڈے کا نشان اب تک معدوم نہیں ہوا تھا۔ وہاں پر موجود ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کی نظر بے اختیار اس دلہن کی طرف نہ اٹھ گئی ہو، جو ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے ابھی ابھی کسی باکمال کمہار کے چاک سے اتاری گئی ہو۔ جگیر اور اس کے ساتھیوں کی نگاہیں تو گویا دلہن کے چندن سے بدن پر پیوست ہو کر رہ گئیں۔

    جیسے جیسے دلہن قریب آتی گئی، یہ حقیقت اور بھی واضح ہوتی گئی کہ لڑکی واقعی نایاب تھی۔ اس کے آگے چلتے ہوئے بوٹا سنگھ کی شان بھی نرالی تھی۔ دیکھنے میں وہ کوئی لحیم شحیم کڑیل جوان نہیں تھا۔ اس کا قد میانہ، جسم اکہرا اور تیور مردانہ تھے۔ چال میں ناگ کا سا لہرا تھا۔ دوہرے شملے والی پگڑی سے کج کلاہی ٹپکتی تھی۔ سانولے سلونے چہرے پر عجب دمک تھی۔ ہاتھ میں ہلکی پھلکی لاٹھی تھی۔ جب یہ جوڑا ان سب لوگوں کے سامنے سے گزر رہا تھا تو یکایک جگیر سنگھ ایک خاص انداز سے کھانس اٹھا۔ بوٹا سنگھ رک گیا۔ ان دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے الجھ کر رہ گئیں۔ پل بھر کے تامل کے بعد بوٹا سنگھ مسکرایا تو اس کے سامنے والے اوپر کے دونوں دانتوں میں پیوست سونے کی ننھی ننھی کیلیں دمکنے لگیں۔ وہ جگیر کو آنکھوں آنکھوں میں تولتے ہوئےبھاری آواز میں بولا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کچھ تکلیپھ ہے۔‘‘

    ’’ہے تو۔‘‘ جگیر نے پر اسرار اور پر معنی انداز میں ایک نظر دلہن پر ڈالی۔

    ’’ایسی ویسی بھاگی بھگائی لڑکی نہیں ہے۔ میری بیاہتا جورو ہے۔‘‘

    ’’تو بھائی، اپنا راستہ ناپیے۔‘‘

    ’’سو تو ناپ ہی رہے تھے، لیکن آپ کو کچھ تکلیپھ میں پاکر رکنا پڑا۔‘‘

    ’’تکلیپھ کی بات چھوڑو، مگر ایک پرشن جرور اٹھتا ہے۔‘‘

    بوٹا سنگھ نے کھڑے کھڑے پہلو بدلا، ’’پرشن؟‘‘

    جگیر نے زور سے زمین پر تھوک کر جواب دیا، ’’پرشن اٹھتا ہے کہ جو لوگ گلے میں ہیرے لٹکائے پھرتے ہیں انہیں اس بات کا پر بندھ بھی کر لینا چاہیے کہ کہیں کوئی اجنبی جھپٹا نہ مار لے جائے۔‘‘

    گاؤں کے سب ہی لوگ جانتے تھے کہ راہ گیروں پر بےجا آوازے کسنا جگیر اور اس کی ٹولی کا شیوہ تھا۔ مگر آج وہ حد سے کہیں آگے نکل گئے تھے۔ یہ کسی بھی نظر میں پسندیدہ بات نہیں تھی۔

    ’’سمجھا۔‘‘ بوٹا سنگھ دبے دبے قہر میں ڈوبی آواز میں غرایا۔ سب لوگ غیر معمولی لفڑے کے لیے تیار ہو گئے۔ بوٹا سنگھ نے اپنی لاٹھی دلہن کے حوالے کی اور پھر اس نے آگے سے تہبند کو سمیٹ کر پورے پلو کو دونوں رانوں میں گھماکر اسے پیچھے کی طرف سے نیچے پہنے ہوئے کچھے (جانگیے) کے نیفے تک اچھی طرح ٹھونس لیا۔ جوتے اتار کر ایک طرف رکھ دیے۔ پھر لاٹھی ہاتھ میں لے کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ سب لوگ ایک ٹک اس کی ہر حرکت غور سے دیکھ رہے تھے۔ اس نے لاٹھی کو پہلے اپنی انگلی پر ٹکا کر ہوا میں اٹھایا۔ لمحہ بھر رکنے کے بعد اس نے لاٹھی کو ہوا میں خوب اوپر تک اچھالا۔ جب لاٹھی اوپر سے نیچے کی طرف گری تو اس نے اسے دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر دسوں انگلیوں پر نچانا شروع کر دیا۔ عجب تماشا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے لاٹھی کسی قسم کا ساز ہے، جس کے تاروں پر بوٹا سنگھ کی تیزی سے چلتی ہوئی انگلیاں رقصاں تھیں۔ کیا مجال جو لاٹھی اس کی انگلیوں کی گرفت سے نکل کر گر جائے۔

    لاٹھی پر اپنی گرفت کے کمال کا مظاہرہ کرنے کے بعد بوٹا سنگھ نے اسے دونوں ہاتھوں میں تھام کر چاروں طرف گھمانا شروع کر دیا۔۔۔ وہ پینترے پر پینترا بدلنے لگا۔ سرک لگاتا ہوا کبھی ادھر کبھی ادھر نکل جاتا۔ اس کی ٹانگوں میں گویا بجلی بھری تھی۔ پاؤں کے نیچے سے دھول کے ہلکے ہلکے بادل بلبلاکر ہوا میں اٹھنے لگے۔ کچھ لمحے تو ایسے آئےجب دیکھنے والوں کو لاٹھی نہیں محض اس کا کوندتا ہوا سایہ دکھائی دے رہا تھا۔ لاٹھی تھی کہ بپھرا ہوا ناگ۔ ایسا لگتا تھا کہ نہ جانے کتنے ناگ فضا میں پھنکار رہے ہیں۔ اس امر میں تو کوئی شبہ نہ رہا تھا کہ اگر بوٹا سنگھ حملہ آوروں سے گھرا ہوتا تو اس وقت تک اس کی لاٹھی نہ معلوم کتنوں کا خون چاٹ چکی ہوتی اور نہ جانے کتنی لاشیں زمین پر بچھ چکی ہوتیں۔

    آخر بوٹا سنگھ نے لاٹھی روک دی اور اس کی بونجی موٹھ پر ٹھوڑی ٹیک کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھوں کی پتلیاں گھما گھما کر وہاں موجود اشخاص کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ ہر شخص دم بخود بیٹھا یا کھڑا تھا۔ اب بوٹا سنگھ نے جگیر سنگھ پر نظر جما دی، جو ابھی تک اسی ٹہنی کو چھیلے جا رہا تھا۔ کچھ توقف کے بعد بوٹا سنگھ نے اس سے کہا، ’’جو سوال آپ نے اٹھایا تھا اس کا جواب تو میں نے دے دیا۔ اب میرے من میں ایک سوال اٹھا ہے جس کا جواب مجھے ملنا چاہیے۔‘‘ روئے سخن جگیر کی طرف تھا، جو بدستور کرپان سے ٹہنی چھیلے جا رہا تھا۔ بوٹا کہتا گیا، ’’یہاں سے آگے بڑھنے کے بعد جو ہوگا اس سے تو میں نمٹ لوں گا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس گاؤں میں بھی تو کوئی نہ کوئی اپنے باپ کے تخم سے اور اپنی ماں کا لال ہوگا، جس کے دل میں پرائے ہیرے اڑانے کا چاؤ ہوگا۔‘‘

    اس سے آگے بوٹا سنگھ جو کہنا چاہتا، وہ یا تو اس نے دانستہ طور پر یا نادانستہ طور پر نہیں کہا۔۔۔ تاہم اس کی بات ادھوری ہونے پر بھی مکمل تھی۔ ظاہر تھا کہ یہ جگیر کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ لوگ باگ یہ دیکھنے کے منتظر تھے کہ کیا جگیر اور اس کے ساتھی بوٹا سنگھ پر ٹوٹ پڑیں گے۔۔۔ اب جگیر کرپان ہاتھ سے رکھ کر قدم بہ قدم بوٹا سنگھ کی طرف بڑھا اور قریب پہنچ کر مسکراتے ہوئے گہری آواز میں بولا، ’’سردارجی، اس گاؤں میں نہ تو کوئی اپنے باپ کے تخم سے ہے اور نہ اپنی ماں کا لال ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر جگیر الٹے قدموں لوٹ گیا۔

    ایک بار پھر دونوں راہ گیر اپنے راستے پر ہولیے، پیچھے عورت چکوری کی طرح چلتی ہوئی آگے مرد، جس کی پگڑی کا شملہ اصیل مرغ کی کلغی کی طرح ہوا میں سر بلند کیے ہوئے تھا۔

    مأخذ:

    بلونت سنگھ کے بہترین افسانے (Pg. 139)

      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1995

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے