Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سانکھیا یوگی

الطاف فاطمہ

سانکھیا یوگی

الطاف فاطمہ

MORE BYالطاف فاطمہ

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ کہانی مقدس مذہبی صحیفہ گیتا کے اپدیش کے گرد گھومتی ہے، جس میں کرم یوگ اور سانکھیا یوگ پر غور کیا گیا ہے۔ کرم یوگی ہمیشہ سانکھیا یوگ پر بھاری پڑتا ہے، کیونکہ وہ سننیاسی ہوتا ہے۔ مگر وہ کرم یوگی نہیں بن سکا تھا، اسے جو کام سونپا گیا تھا اسے کرنے میں وہ ناکام رہا تھا۔ فائٹر جیٹ میں سوار ہوکر جب وہ لاہور پر بم گرانے گیا تھا تو اس نے فقط اسلئے اس کام پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس شہر کی کسی بستی میں اس کی معشوقہ رہتی تھی۔‘‘

    تب سری بھگوان نے یہ اپدیش دیا،

    ’’سانکھیا یوگ اورکرمایوگ دونوں ہی مہا آنند کا کارن بنتے ہیں، پرنتودونوں میں کرمایوگ، سانکھیایوگ پر بھاری ہے۔‘‘

    اور سری بھگوان نے یہ بھی کہاکہ کرمایوگی تو سنیاسی ہے۔

    سری بھگوان، سانکھیا یوگ، کرمایوگ اور سنیاس۔ آہ!

    ’’اوف، اوگوش، وہ کدھر گیا۔ کون تھا۔۔۔ ہوں۔۔۔ ذرا سننے دو، میرے کان بہرے۔۔۔ مگر انسانوں کو کانوں سے نہیں، آنکھوں سے دیکھو۔۔۔ آنکھوں سے۔‘‘ وہ چلا رہا ہے۔ اس کی آنکھیں سرخ ہوکر باہر کو ابلی پڑتی ہیں، وہ اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کر رہا ہے، مگر۔۔۔ مگر وہ نہیں اٹھ سکےگا۔۔۔ نہیں، وہ نہیں اُٹھ پائےگا۔ ’’مگر میرا دل چاہ رہا ہے دواؤں اور انجکشنوں سے بھری ہوئی یہ سفید ٹرے زور سے زمین پر دے ماروں۔۔۔‘‘

    اور ہاں نہیں تو پھر اسے سمجھانے کا اور آخر کون سا طریقہ نکالوں۔ ہاں میں اسے سمجھانا چاہتی ہوں کہ تم نہیں اٹھ سکوگے۔ اس وقت۔۔۔ اور شاید یوں بھی ہوکہ کبھی نہیں، مگر وہ نہیں سمجھےگا۔۔۔ اف! میرے خدا! یہ میرا سر کیوں چکرا رہا ہے۔

    وہ لڑکھڑا کر کرسی پر بیٹھ گئی تھی اور پھر اس نے اپناسر کرسی کی چوبی پُشت کے ساتھ ٹیک دیا۔

    اور پھر وہ بھی چیختے چیختے خاموش ہو گیا۔

    اس نے اپنا اٹھتا ہوا سر بےبسی سے تکیے پر ٹکا دیا ہے۔

    سرخ آنکھوں سے آنسوبہ بہ کر تکیے کے ملگجے غلاف میں جذب ہو رہے ہیں۔

    اس نے کرسی کی پشت پرسے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا ہے، جیسے وہ خیال کی دنیا سے نکل کر حقیقت اور عمل کی دنیامیں واپس آنا چاہ رہی ہو۔

    اوہ! اچھا یہ تھرمامیٹر؟ ہیں۔۔۔ اس نے حیرت سے سپرٹ میں بھیگی روئی کے اندر کھونسے ہوئے تھرمامیٹر کو دیکھا ہے۔ تھرمامیٹر! اچھا تو اس کا مطلب یوں ہوا۔۔۔ اور اب وہ قطعی سوچ بچار اور خواب کی دنیا سے باہر آ چکی تھی۔ ’’اے ای اپنا منہ کھولو ذرا۔۔۔‘‘

    ’’ہوں! ہیں کیا ہے بھئی۔‘‘

    بہت زور سے جھلائی آواز میں اس کی چیخ سن کر وہ بھی جھلا گئی ہے۔

    ’’تم اتنا غل کس لیے مچا رہے ہو۔ اس جگہ اور بھی بہت مریض ہیں۔۔۔‘‘اور پھر وہ اپنے لہجے کی ترشی پر ہنس دی ہے۔

    اتنی بات سننے اور سمجھنے کا ہوش کس کو ہے اور بلاکہے سنے تھرمامیٹر اس کے منہ میں گھسیڑ دینے کے ارادے سے وہ اس کے اوپر جھکی ہے۔

    ’’ارے! تم رو رہے ہو!‘‘ اس نے افسردگی سے کہاہے اور خود ہی جان لیا ہے کہ اس کی بات کا جواب نہیں ملےگا۔

    سرخ سرخ آنکھیں بہت موٹی موٹی نظر آ رہی ہیں۔ ان کے گوشوں میں سے بہتے ہوئے موٹے موٹے اجلے اجلے قطرے کس سہولت سے بہ بہ کر تکیے کے ملگجے غلاف کو نم کر رہے ہیں۔

    وہ بےبسی سے تکیے پر سر ادھر ادھر رگڑ رہا ہے۔ ’’ممی۔۔۔ ماں۔۔۔ ماتا۔۔۔‘‘ وہ بڑبڑایا ہے۔۔۔ ایکاایکی پوری قوت سے دھاڑا ہے۔۔۔ ’’مم ڈارلنگ۔‘‘ اس کے گلے کی رگیں چلانے کی وجہ سے پھول آئی ہیں اوراس نے بڑی عاجزی سے سوال کیا ہے، ’’تم مجھے نظر نہیں آ رہی ہو۔ مم، کہاں ہو تم۔‘‘

    ’’ہاں میرے لال چندا، ہاں میرے راجا، یہ رہی میں تو۔‘‘

    یہ اندر ہی اندر سرگوشیاں سی کون کر رہا ہے۔ اس نے بڑی حیرت سے ادھر ادھر دیکھا ہے۔ سرگوشیاں بڑھ رہی ہیں، مگر یہ اس کی آواز کے جواب میں کون سرگوشیاں کر رہا ہے۔ تھرمامیٹر اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گر پڑا ہے۔

    نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔۔۔

    ’’ہم تواس کی رگ گلو سے بھی نزدیک ہیں۔۔۔ اور بیٹا، اللہ تو یہ کہتاہے کہ میرا بندہ جب بھی مجھے تڑپ کر آواز دیتا ہے، تومَیں اسی وقت اس کو جواب دیتا ہوں۔ وہ تو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔۔۔‘‘ اور اب یہ کس کی آواز ہے۔ وہ اور بھی سراسیمہ ہو گئی تھی۔ یہ تو اس کی اپنی ماں کی آواز تھی جو کتنے ہی سال ہوئے فضا میں تحلیل ہوکر فنا ہو چکی تھی۔ خدایا! یہ سب کیا ہے، کہیں میں پاگل تو نہیں ہو رہی ہوں۔ اس نے چکرا کر اس کے پلنگ کا کٹہرا پکڑ لیا۔

    ’’مم۔۔۔ مم ڈارلنگ۔‘‘ وہ پھربے قراری سے چلایا ہے۔

    ’’ہاں میرے لال۔‘‘

    اور بالآخر اس کو جوابی سرگوشی کا کھوج مل گیا اور یہ کتنی معمولی سی بات تھی۔

    خدا، بندہ، ماں، ماتا، مم اور وہ خودہی مل کر تو ایک اکائی بنے ناں۔۔۔

    چناں چہ وہ بےقراری سے اس پر جھک گئی۔ اس نے اپنی نرم نرم انگلیوں میں ان موٹے موٹے اُجلے قطروں کوجذب کرنے کی کوشش کی ہے۔

    ’’ماتا۔۔۔ مم۔۔۔‘‘ وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح سسکا ہے۔

    ہاں میرے لال۔۔۔ ایک لفظ بولے بغیر اس نے خود اپنی آواز سنی ہے اور اس کو یوں محسوس ہوا ہے جیسے اس کی پلکوں کے اس طرف برکھا سی ہوئی ہو۔

    ’’میں کرما یوگی نہیں بن سکا اور وہی تو سنیاس کا درجہ پاتا۔۔۔ میں سانکھیا یوگی۔۔۔ اوہ! ہائے مم۔۔۔ میں اٹھ کر بیٹھنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں اٹھ کر بیٹھوں گا۔‘‘ اس نے بےبسی سے اس کی طرف دیکھ کر التجا کی ہے۔

    ان آنکھوں میں کتنی بےہوشی، بےخودی اور اپنی حالت سے لاعلمی ہے۔ کسی محاذ پر سے آتی ہوئی توپوں کی دھس دھس کی آواز سے قدموں تلے کی زمین لرزتی معلوم ہوتی ہے۔

    لیکن بالآخر ہمیں اور ہر کسی کو اپنی ڈیوٹی پوری کرنی ہی پڑتی ہے کہ عمل، علم اور سوچ سے بہر طور افضل ہے۔

    تیسرے پہر جب وہ راؤنڈ پر آئی، تووہ صبح کے مقابلے میں پرسکون تھا اور تیسرا قیدی بہت شور مچا رہا تھا۔ لیکن وہ پُرسکون ہونے کے باوجود بھی غفلت میں تھا اور ابھی اس نے کوئی گڑبڑ کیے بغیر تھرمامیٹر منہ میں لے لیا تھا اور جب اس نے ٹمپریچر دیکھنے کے لیے اسے آنکھوں کے سامنے کیا، تو وہ پھر سے اپنی زیرِ لب گفتگو کا سلسلہ جوڑ چکا تھا۔

    You know Mum, Karma Yogi is the Yoga of action, and is superior to knowledge.

    اس نے خاموشی سے دوا کا آؤنس اس کے منہ میں انڈیل دیا۔

    ’’اونہہ! کیا بدتمیزی ہے۔‘‘وہ جھلا گیا۔

    ’’You know I never drink.۔ تم کیا جانو، میں نے میا سے وعدہ کیا ہوا ہے۔‘‘ پھر وہ اونچی آواز میں بولا، ’’مم اور ہے اور میا اور۔۔۔‘‘

    ’’میا، یہ میا کون ہے۔‘‘ اس نے تھرمامیٹر کو جھٹکا اور سپرٹ سے بھیگی ہوئی رُوئی میں کھونس دیا۔

    ’’سو جاؤ۔‘‘ اس نے اس کی موٹی موٹی سرخ آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’آنکھیں بند کرلو!‘‘

    ’’آنکھیں بند کر لوں! آنکھیں بند کر لوں!‘‘ وہ غنودگی کے عالم میں دھیرے دھیرے بڑبڑایا، ’’مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘

    اب تو اس کی آواز بتدریج بلند ہو رہی تھی۔ ’’اب میرا ہنٹر ٹھیک لاہور کی فضا پر پرواز کر رہا ہے۔ ہاں میں نقشے میں صاف دیکھ رہا ہوں۔ میرے ایک طرف نیلا آکاش ہے اور دوسری طرف دھرتی۔۔۔ اور اب میں بمباری کے لیے بالکل تیار ہوں، مگر مشکل تویہ آن پڑی ہے کہ میں کچھ سونچ رہا ہوں۔۔۔ میں کچھ نہیں کر پا رہا ہوں۔۔۔ میں سونچ رہا ہوں۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ حرکت اور عمل، سونچ سے افضل ہے، پھر بھی میں سونچ رہا ہوں اور اس جیٹ نے مجھے آ لیا ہے۔۔۔ خیر دیکھا جائےگا، مگر میں ائیریفنگ کیوں نہیں شروع کر دیتا۔‘‘ وہ زور سے چیخا ہے، ’’مجھے ایئریفنگ کرنا چاہیے۔‘‘

    پھر اس کی آواز میں سراسیمگی آ گئی۔

    ’’اب میرے ہنٹر کا دایاں بازو جل رہا ہے۔‘‘

    ’’میا جی، اب بھی بتا دو نا۔۔۔ تم کدھر ہو۔۔۔‘‘ اس کی آواز میں بڑی بے کسی تھی اور پھر اس نے اس کی نبض ٹٹولتی ہوئی انگلیوں کو جھٹکا دیا۔

    چھوڑو یار، کیا مذاق ہے۔

    یہاں اس سی ایم ایچ میں کتنی افراتفری اور کتنا ہنگامہ ہے۔ کتنی مستعدی اور تاسف ہے۔ کتنی آہیں اور کرب ہے۔

    محاذ پر دغتی ہوئی توپوں کی مسلسل آوازیں چلی آرہی ہیں۔ ان سے کہہ دو، اب ساری گنجائشیں ختم ہو چکی ہیں۔

    میں یہاں ہوں، لیکن یہاں اور وہاں میں کیا فرق ہے۔ یہی ہذیان، یہی غفلتیں اور کرب۔ یہی ڈاکٹروں کی خاموش بے حس مستعدی اورنرسوں کی سرد سرد شفقتیں، دل جوئی اور بے شمار آوازیں۔

    ’’ا چھا، ا چھا، یہ سورہاہے۔ ہی ازسوینگ اینڈ ہینڈ سم۔ اچھا یہ سپائنل کورڈ کا کیس ہے۔‘‘

    ’’پھر کیا اپنی اصل حالت پر آ سکےگا؟‘‘

    ’’کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘‘

    ’’پھر بھی اس کو پورا آرام اور توجہ ملنی چاہیے۔ پور بوائے۔ Poor Brave Boy‘‘۔

    تم کون تھے؟ تمہاری آواز میں اتنی نرمی اور ہمدردی کیوں تھی؟ مَیں تم کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ کاش! مَیں آنے والوں کی آہٹ پر اپنی آنکھیں بند کرکے سوتا نہ بن جایا کروں۔ پھر یکایک ہی اس کو غصہ آ گیا۔

    ’’نہیں، مَیں بالکل ٹھیک کرتا ہوں جو آنکھیں بند کر لیتا ہوں، مَیں تمہاری شکلیں نہیں دیکھنا چاہتا۔ تم لوگوں کی آنکھوں میں نرمی کیوں ہوتی ہے، تمہاری آواز میں میرے لیے ہمدردی اور تاسف کیوں ہے اور تم لوگ مجھے خصوصی توجہ کیوں دے رہے ہو۔ کیا تمہارے کان بہرے ہو چکے ہیں۔ کیاتم ان دھس دھس کی آوازوں کو نہیں سن رہے ہو جو محاذ کی طرف سے آ رہی ہیں۔ تم سب مل کر میرے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔ یہ دیکھو میری بانہہ میں Giving Set کی سُوئی کا نشان ہے جس کے ذریعے تم نے میرے اندر جوان اور توانا خون پہنچایا ہے۔ میری بانہہ اس خون کی آگ سے اب تک جل رہی ہے۔ یہ خون تمہارا تھا، تمہارے کسی جوان کاجس کے لیے میں اپنے ہنٹرمیں بیٹھ کر ہلاکت اور موت لایا تھا۔

    کیا تمہاری آنکھیں ان ٹرکوں کونہیں دیکھتیں جن میں گاجر مولی کی طرح بھر بھر کر تمہارے زخمی اور شہید آ رہے ہیں۔

    آؤ ناں۔ پھر تم میرے منہ پر آکر تھوکتے کیوں نہیں۔ تم مجھے سے یہ کیوں پوچھتے ہو، تمہیں کچھ چاہیے تو نہیں۔ آؤ میں بتاؤں مجھے تمہاری نفرتیں اور ملامتیں چاہئیں۔ آؤ مجھ سے نفرت کرو۔۔۔ اس لیے کہ مَیں کرما یوگی نہیں ہوں۔۔۔ اور سانکھیا یوگی کا مرتبہ کرما یوگی سے کم ہے۔ آہ! مجھے سنیاس نہیں مل سکا۔

    ‘‘اوہ بھئی۔ تم پھر چیخ رہے ہو۔ تم پھر ہذیان بک رہے ہو۔‘‘اس کے قدم دروازے میں داخل ہوتے ہوتے رک گئے۔ ’’آخر تمہیں ہوش کب آئےگا۔‘‘

    بکتے بکتے وہ پرسکون ہو چلا تھا اور اب وہ سن بھی سکتا تھا۔ وہ ڈاکٹر سے کہہ رہی تھی، ’’سر، یہ کسی کسی وقت ہوش میں آ جاتا ہے اور بالکل سکون سے لیٹا رہتا ہے۔ پھر اچانک ہی بکنے لگتا ہے۔ اتنی عجیب عجیب کہ۔۔۔‘‘

    بیڈ ریسٹ کے سہارے اونچا ہوکر مَیں اس سامنے والی کھڑکی سے باہر دیکھ سکتا ہوں اور اس کھڑکی کے اس طرف مجھے کتنی بہت سی جانی پہچانی چیزیں نظر آ رہی ہیں۔ نیلے آسمان کا وہ کونا۔۔۔ گل مہر اور املتاس کے درختوں کی پھننگیں اورسی ایم ایچ کی چاروں طرف پھیلی ہوئی عمارت کے کہیں کہیں سے ابھرتے ہوئے دریچے اورستون اور ان کے تلے بھوری مٹی والی زمین اور نیلے آکاش کے ساتھ ساتھ اڑتے ہوئے چیل کوے۔

    اوہ گوش، ان میں سے ایک چیز بھی توپرائی نہیں۔ مجھے ایسا شک پڑتا ہے جیسے آتی دفعہ یہ سب کاسب میں اپنے ہنٹر میں رکھ لایا تھا۔ میرے ہنٹرمیں کوئی پائلٹ، نیوی گیٹر اور کوئی بم نہ تھا۔ بس یہ نیلا آسمان تھا، بھوری مٹّی والی زمین تھی اورفضامیں تیرتے چیل کوے۔

    اس نے پرشوق اندازمیں بہ مشکل گردن کو قدرے بڑھا کر نظر کھڑکی سے اور آگے دوڑانے کی کوشش کی اور اسے عمارت کے درودیوار اور میدان کے درختوں کے ادھر ادھر چلتے ہوئے انسانوں کے اوپری دھڑ نظر آئے۔ چلتے ہوئے انسانوں کو یوں چپ چاپ اور بے بس بیٹھ کر دیکھنا کتنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ Really it is fun۔

    اس کی آنکھیں چلتے ہوئے انسانوں کا تعاقب کرتے کرتے ہانپ سی گئیں، جیسے انہیں پسینہ سا آ گیا ہو۔

    ارے آج پھران سرخ سرخ ڈوروں والی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو تیر رہے ہیں۔ شکر ہے یہاں اس سائیڈروم میں آکر اس کی بکواس تو بند ہوئی اور اب یہ کچھ Improve بھی تو کر رہا ہے اور وہاں وارڈ میں تو اس نے دوسرے مریضوں کا سکون اڑا رکھا تھا۔

    آج اس کو پھر اس پر ترس آ رہا تھا۔ ’’کیوں، کیسی طبیعت ہے؟‘‘

    ’’ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے بددماغی سے سر ہلا دیا تھا۔

    اسے اس کی خر دماغی پرکبھی کبھی حیرت ہونے لگتی تھی۔ کم بخت اتنا بھی نہیں سوچتاکہ میں ان کا قیدی ہوں، کوئی لاٹ صاحب تو نہیں ہوں۔۔۔ مگر خیر کھانا تو اس کو کھلانا ہی پڑتا تھا۔ وہ تو کھا نہیں سکتا تھا۔

    اور پہلے د ن جب وہ کچھ کچھ ہشیار تھا، اپنے کھانے کو بغور دیکھ کر بگڑ گیا تھا۔

    ’’یہ کیا ہے؟‘‘

    ’’کھانا ہے اور کیا ہے۔‘‘وہ بھی اس کی بددماغی پر چڑ گئی۔

    ’’مگریہ۔۔۔ یہ کھانا قیدی کا کھانا ہے؟ تم لوگ کہیں گھاس تو نہیں کھا گئے ہو۔۔۔‘‘ پھر وہ ایک دم غرایا تھا، ’’یہ قیدیوں کا کھانا ہے! تم لوگ میرا مذاق اڑا رہے ہو۔‘‘

    ’’یہ مریض کا کھانا ہے۔‘‘

    ’’مگر میں قیدی ہوں۔‘‘

    ’’تم پاگل ہو اور کچھ نہیں۔‘‘

    ’’پاگل تم ہو۔ یا پھر تم جنیوا رولز کی پابندی کر رہے ہو۔‘‘

    جہنم میں جائیں جنیوا رولز، یہ رولز، کاغذی قانون، بھلا پابندی کے لائق ہوتے ہیں؟ اس نے سوچا اور فقط اتنا کہا تھا، ’’یہ جینوا رولز کی پابندی نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر کیا ہے ؟َ‘‘

    ’’سر ہے تمہارا۔ میں تمہاری تیماردار کی حیثیت سے تم کو حکم دے رہی ہوں کہ جوکچھ تم کو کھلاؤں، چپ چاپ کھا لو، ورنہ۔۔۔‘‘

    ’’ورنہ۔۔۔ کیا؟‘‘

    ’’میں اپنی ڈیوٹی دوسرے وارڈ میں لگوا لوں گی۔ تم کومعلوم ہے کہ ہمارے اتنے زخمی۔۔۔‘‘ اس کی آواز گلوگیر ہو گئی تھی اور فیڈنگ کپ اس نے اٹھا لیا تھا۔

    ’’قوم کے مرد مجاہد، تجھے کیا پیش کروں۔۔۔‘‘

    کسی کے ٹرانزسٹر کی بچھڑی ہوئی آواز اس کھڑکی سے ٹکرائی تھی۔

    وہ خاموشی سے اس آواز کو سنتا رہا۔۔۔ او رپھر اس نے سرجھکا لیا۔ ہوا کی ایک اور لہر اس کی کھڑکی کے راستے اندر آئی۔

    ’’میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’اگر زحمت نہ ہو تو یہ کھڑکی بند کر دو۔‘‘

    ’’کیوں؟ کیا بات ہے؟‘‘

    اس کی نرم نرم آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو امڈ آئے۔

    اور وہ سوچ رہی تھی، ان آنکھوں میں آنسو کس آسانی سے آ جاتے ہیں اور وہ ان میں بھلے بھی لگتے اور بھلا یہ سپاہی یعنی دشمن کی آنکھیں ہیں۔

    پھر دوبارہ جب وہ اس کی خبر لینے آئی تو وہ بڑے آرام سے سویا ہوا تھا۔ سوتے میں وہ ذرا بھی اڑیل ضدی اور الجھا ہوا نہیں معلوم ہو رہا تھا اور نہیں معلوم اس کو یہ کیا خبط تھا کہ اکثر سوتے سے جاگتا یا غفلت سے ہوشیار ہوتا تو سوال کرتا، مجھے کوئی پوچھتا ہوا تو نہیں آیا تھا؟ کوئی بوڑھی عورت مجھے ڈھونڈتی ہوئی تو نہیں آئی تھی؟

    اور اس کو بھلا یہاں کون پوچھنے آ سکتا تھا۔

    ’’تم شاید بھول رہے ہو، قیدیوں کو ڈھونڈنے کوئی نہیں آیا کرتا ہے۔‘‘ ایک مرتبہ اس نے اس کو یاد دلایا تھا۔ پھر وہ بڑی دیرتک اس کے لیے کڑھتی رہی تھی، جو اپنے ہنٹر میں بیٹھ کر اس کے شہر پر آگ برسانے آیا تھا اور اب اپنے نچلے دھڑ کو خود سے حرکت بھی نہ دے سکتا تھا۔

    اب محاذوں پر سے توپوں کی آوازیں آنا بند ہوچکی ہیں اور نہ ہی رات کے سناٹے میں خطرے کے سائرن بجنے کی آوازیں آتی ہیں۔ اکتوبر کی نرم نرم سی دوپہر سرکتے سرکتے شام کنارے آ لگی ہے۔ اجالے ملگجے ہوتے جا رہے ہیں اور شام کے دھندلکوں میں چپ چاپ کھڑے درختوں کی آڑ سے شفق نمودار ہو رہی ہے۔۔۔ سرخیاں نیلی نیلی سیاہیوں میں ڈوبنے سے پہلے پوری طرح اُبھر رہی ہیں۔ میں بیڈ ریسٹ کے سہارے اونچا ہو کر کھڑکی کے باہر دیکھ رہا ہوں۔

    باہرجہاں سڑکیں ہیں، دھول ہے، مکان اور ان کی کھڑکیاں ہیں، گلیاں اور بازار ہیں اور بازاروں میں چلتی ہوئی خلقت ہے، وہ سب لوگ ہیں جواپنے نچلے اور اوپری دھڑوں کو یکساں طور پر حرکت دے سکتے ہیں۔ یہی وہ آبادی ہے جس پر ہلاکت اور موت کا تحفہ لے کر میں اپنے ہنٹر میں بیٹھ کر پوری تیاری اور پورے سازوسامان کے ساتھ آیا تھا اور میرا ہنٹر بہترین حالت میں تھا۔ اس کا نیوی گیٹر فقط میرے بٹن دبانے کا منتظر تھا اور مَیں بغیر غلطی کیے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ گیا تھا۔

    پھر کیا بات ہو گئی کہ سب کچھ ہوا، مگر میں وہ نہ کر سکا جو مجھے کرنا تھا۔ اب یہ نومبر کا مہینہ ہے اور مجھے ان کی نگرانی میں پلنگ پر لیٹے دو مہینے ہو چکے ہیں اور اب نہیں معلوم کہ مَیں ان کا قیدی ہوں یا مریض۔

    یہ دشمن کا علاقہ ہے اور اس کھڑکی سے باہر کا پورا منظر بھی اسی کا ہے، مگر مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ میرے ساتھ آیا ہو۔۔۔ دور سے نظر آتی چھتوں کی چمنیوں میں بل کھاتا دھواں ہر طرف پھیلتا جا رہا ہے اور اب مجھے نیند آ رہی ہے۔ اسی طرح کھڑکی کی طرف تکتے تکتے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔

    ’’پتا بھی ہے تم کتنی دیر سوئے؟‘‘ آج اس کی آنکھوں میں پھر غفلت اور بےخودی تھی۔

    ’’تم میری بات کا جواب دو۔ تم نے اس کو کیوں بھیج دیا۔ وہ آئی بھی اور واپس لوٹ گئی۔ وہ مجھ سے ملنے آئی تھی۔‘‘ وہ زور سے چیخا۔

    ’’بیرو، تم پھر بہک رہے ہو۔‘‘ وہ تشویش سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

    وہ دھیرے دھیرے بڑبڑایا، ’’وہ آئی تھی اور انہوں نے اس کو واپس بھیج دیا۔‘‘

    ’’کون آیا تھا۔ کوئی بھی تو نہیں آ سکتا۔ بیرو سنگھ، تم سمجھتے کیوں نہیں۔۔۔ تم کو کیا ہو جاتا ہے بیٹھے بٹھائے۔‘‘

    ’’کون آتا!‘‘ وہ بگڑ گیا۔ ’’میا آئی تھی اورتم کو اتنا خیال نہیں آیا۔۔۔‘‘ اس کی آواز گھٹ گئی۔ ’’اوراب جو وہ پاس آ گئی، تو اس کو بھیج دیا۔‘‘

    ’’میا! میا کون ہے، بیرو۔۔۔‘‘

    ’’میا کون ہے۔۔۔ میا کون ہے!‘‘ اس نے غنودگی میں دہرایا۔

    ’’سنو بیرو سنگھ، تم اپنے آنسو پونچھ ڈالو۔‘‘

    وہ جلدی سے باہرنکل آئی۔ اب انسان ہروقت تو اس موڈ میں نہیں ہوتا کہ اپنے دشمنوں کے آنسو اپنی نرم نرم انگلیوں میں جذب کرے۔۔۔ کجلائے ہوئے آسمان کی نیلگوں سیاہیوں پر پھیلی شفق کو تکتے تکتے اس کومحسوس ہوا کہ اس کی پلکیں بھیگ رہی ہیں۔

    اس نے اندر نظر دوڑائی۔ وہ شاید سو رہا تھا۔ آنکھیں بند کیے اسی طرح بیڈریسٹ کے سہارے قدرے اونچا اٹھا ہوا۔

    کھیلنے کودے دوں میں تیروکمان

    سواری کولے دوں میں دلدل سا گھوڑا

    گھوڑے پر نکلے گاجب چھوٹا سا بیر

    کوئی کہے آیا مغل یا پٹھان

    ’’کنور صاحب کی رانی جی کی حالت بہت غیر ہے۔‘‘ جب ڈپٹی صاحب کے اردلی نے آم کے تلے بچھی ہوئی بانس کی کھٹیا پر دراز ہوتے ہوئے کہا تھا تو اس کی بیوی نے اپنے سینے پر ہاتھ مار لیا۔

    ’’ہائے میا! غضب، ارے ابھی تو اس کا جاپا ہوا تھا۔‘‘ اور پھر آموں کے بورکی میٹھی میٹھی مہک میں بسے کئی گہرے گہرے سانس لے ڈالے۔

    ’’ہاں تو اور کیا۔ اندر سے باہر تک الٹ پلٹ ہو رہی ہے اور بچے کا تو کسی کو ہوش بھی نہیں۔ ان کی کہاری کہہ رہی تھی، ایک طرف کو پڑا ہے۔‘‘

    ’’ہے ہے ننھی سی جان، بھوکوں مر جائےگی۔‘‘ اس نے اپنی گود میں لیٹے عظمو کو باپ کے پاس پلنگ پر ڈالا اور نہرکے ساتھ والی پگڈنڈی پر ہوتی ہوئی سامنے بغیا میں جا گھسی۔ رات گئے جب رانی جی کو آکسیجن ٹینٹ میں لیٹا چھوڑ کر کنور بلیر سنگھ واپس آئے تو معلوم ہواکہ بیرو کو پٹھانی لے گئی ہے۔

    ڈپٹیائن نے ان کو اطمینان دلا دیا۔ ’’بھیا، تم بےفکر رہو۔ اس کا بچہ کاہے کو بھوکا رہےگا۔ اس موئی کا تو یہ ہے کہ پلاتی ہے، پلاتی ہے اور پھر دھاریاں بہتی ہیں۔ وہ اپنی خوشی سے لائی ہے اور یہیں ہمارے یہاں کمرے میں دونوں بچوں کو لیے لیٹی ہے۔‘‘

    اور کنور صاحب اتنے بےفکر ہوئے کہ پھررانی جی گھر آ بھی گئیں، توبھی بیرو، میا کی گود میں چڑھ کر آتا اور جو وہ ذرا کی ذرا ان کی گود میں دیتی، تو ہمک ہمک کر اسی طرف لوٹتا۔ پہلے ایک دو مہینے تو پٹھانی نے کوئی حساب کتاب یوں نہ کیا کہ رانی جی ہسپتال سے آئیں تو ان ہی سے بات ہوگی۔ وہ آئیں، تو وہ بکھر گئی کہ میرا اور بیرو کا معاملہ ہے، میں جانوں اور وہ جانے۔ بیرو بڑا ہوتا گیا، کنور صاحب کے نہ بچوں کی کمی پہلے تھی اور نہ اب، بیروکے بعد تین اور ہو لیے تھے۔ البتہ میا کے تین بچے تلے اوپر جاکر ایک عظمو ہی بچا تھا اور یوں بیرو اور عظمو اور بھی میا کی جان بن کر رہ گئے تھے۔ رات گئے جب وہ اور عظمو کہانی سنتے سنتے پٹھانی کے اہلو پہلو لیٹ کر سو جاتے تو کہاری بڑبڑ کرتی سوتے بیرو کو لے جاتی کہ اس کاوزن کنورصاحب کے ہر بچے سے زیادہ تھا۔

    ’’اے واہ کلموہی، خبردار ہے جو میرے والے کو ٹوکا، کلے چیر دوں گی۔ معلوم ہے شاہ جہاں پور کی بنروال پٹھاننی ہوں۔‘‘

    اور دوسرے دن وہ بیرو پر سے لہسن پیاز کے چھلکے اور سرخ مرچیں اتارکر چولہے میں جھونک دیتی، توخاں صاحب دھانس کے مارے کھانس کھانس کر دہرے ہو جاتے۔

    ’’اری نیک بخت، کہاں کے ٹوٹکے ٹامنے کرتی رہتی ہے۔‘‘

    بیرو اتنا بےسرا اور ادھمی اٹھ رہا تھا کہ کتنی بار رانی جی اس پر جوتی لے کر پل پڑتیں۔ ’’بیرو ہتھیارے نہیں مانتا، چل جا دور ہو اپنی میا پاس۔‘‘

    ابھی وہ سات سال ہی کا ہوا تھا کہ اس کے لچھنوں سے ڈر کر کنور صاحب نے اس کو نینی تال بھجوا دیا اور جس دن وہ جانے کے لیے میا سے مل کر چلا تھا، تو میا روتی ہوئی دور تک اس کو چھوڑنے آئی تھی۔

    پھر جب وہ چھٹیوں میں آتا، تو اس کی اور میا کی بن آتی۔ گڑ کی گجک، میٹھے سیو اور لیا رام دانے کی ہر وقت اس کی جیبوں میں ٹھسی رہتی اور وہ گلے میں میا کا ڈالا چاندی میں منڈھا تعویذ کرتے کے اوپر مٹکائے پھرتا رہتا۔ سال بہ سال عید بقرعید پر میا اس کا جوڑا لاتی اور محرم میں وہ باقاعدہ فقیر بنتا۔

    ’’اے ہے نگوڑا، صورت سے بھی تو مسلمنٹا لگنے لگا ہے۔‘‘ اس کی پھوپھی نے کتنی بار چل کر کہا تھا۔ ویسے تو جو بھی رانی جی، میا کے ساتھ سلوک کر دیتیں، مگر وہ دودھ پلانے کا حساب کبھی بھی نہ چک پایا کہ میا اٹھلا اٹھلا کر بڑے غمزے سے کہتی، ’’کیوں یہ کیسی رہی میری ہنڈی۔‘‘ پھر وہ بیرو کو کلیجے سے لگا لیتی۔ ’’ذرا اس کو کمانے قابل ہو لینے دو۔ ذرا آ لینے دواس کی بہو کو۔‘‘ پھر وہ بڑے مان اور تحکم سے پوچھتی، ’’تیری بہو آکر کس کے پیر پوجےگی۔ میرے یا تیری ممی کے۔‘‘

    تو وہ اٹھلاکر جواب دیتا، ’’میا کے۔‘‘

    پھر اس مرتبہ چھٹیوں میں اور حسب دستور ڈپٹی صاحب والی بغیا میں تووہاں ڈپٹی صاحب تھے نہ میا تھی اور نہ عظمو اور خاں صاحب اور عظمو گدھا تو اس کی امانتوں لٹو اور چائے دانی کی ٹونٹی سمیت غائب تھا۔

    جب ممی اس کے گھڑی گھڑی کے سوالوں سے تنگ آئیں، تو آخر انہوں نے اس کو جھڑکا، ’’چلی گئی تیری میا، اب نہیں آئےگی۔ بس کہہ جو دیا۔ سمجھتا کیوں نہیں پاکستان چلی گئی۔ چل میرا دماغ مت چاٹ۔‘‘

    مگر جونہی حالات ذرا ٹھیک ہوئے، میا کے خط کبھی کبھار آنے لگے۔

    پھر جب اس کی بیماری کی خبر ملی، تو میا نے اس کی ممی کو سخت الفاظ میں لکھا تھا،

    ’’تم نے اس کو محرم میں فقیر کیوں نہیں بنایا۔ میں نے تو اس کی منت اٹھائی تھی۔‘‘

    یوں تو ممی اس کی کوئی خاص پروا نہیں کرتی تھیں۔ شاید وہ اس کی لمبی بیماری سے اکتا گئی تھیں کہ انہوں نے اس کو لیٹے لیٹے ہرا کرتا اور کلا وہ پہنا دیا تھا۔

    پھریوں بھی ہوا کہ میا ویزا پر آنے جانے لگی۔ پر اس کا ویزا شاہ جہان پور کا ہوتا تھا۔ وہاں تو بس اپنی نند سے ملنے کے بہانے دوچار دن کو آتی۔ بیرو سے اس کی ملاقات کم ہی ہوتی۔ وہ کبھی کالج میں ہوتا اور پھر ائیر فورس کی ٹریننگ پر۔ البتہ میا کے لائے تحفے اس کو مل جاتے، وہی اونگی بونگی سی چیزیں، چنے کی دال کا حلوہ، سونف والی روٹی، باجرے کی ٹکیاں اور کھسے۔

    اس مرتبہ وہ آئی، تو وہ اس سے ملا تھا۔ وہ ان دنوں چھٹی پر آیا ہوا تھا۔ ائیر فورس کی وردی میں اسے دیکھ کر پھولی نہ سما رہی تھی۔ اس نے اس کی چٹ چٹ بلائیں لی تھیں اور اٹھ کر اس کی پیشانی چوم لی تھی۔

    ’’میا، عظمو کہاں ہے؟‘‘

    ’’اے بھیا، کرانچی میں رکشا چلاوے ہے۔ بڑا خوش حال ہے۔ دو لونڈے ہیں، لونڈیا گود میں ہے۔‘‘ میا نے قناعت اور طمانیت سے کہا۔

    ’’میا تم کراچی نہیں رہتیں؟‘‘

    ’’نہ بھیا میراجی گھبراوے ہے۔ بس چندا مجھے تو اپنا لاہور بھاوے ہے۔ میں تو جس دنا سے گئی، وہیں رہی۔‘‘ پھر وہ چمک کر بولی، ’’بیرو، تو کدی آناں لاہور، گنے کا رس پلاؤں گی۔ سچ یونیورسٹی کے کول بڑا بدبھیا رس ملتا ہے۔‘‘

    ’’میا اب پنجابن ہو چلی۔‘‘ وہ ہنسا۔

    وہ بھی ہنسی۔ ’’رانی جی اب کر دو نا اس کا بیاہ۔ اب کے سے آؤں، تو بہو میری پاؤں پجی کرے۔‘‘

    ’’بس میا بہت رہ لی لاہور، اب آ جا ادھر ہی۔‘‘

    ’’نہ میاں میں پاٹ فوس پہ آئی ہوں۔‘‘

    ’’چل لا ادھر اپنا پاٹ فوس، میں پھاڑ دیتا ہوں۔‘‘

    جو تیری حکومت نے مجھے پکڑا تب؟‘‘

    ’’تب کہہ دوں گا، میری میا ہے مَیں نہیں جانے دیتا۔‘‘

    ’’ارے تو جگ جگ جیے، تو آنا میری بہو کو لے کر لاہور۔ بیرو تو تو ہوائی جہازوں کا افسر ہے۔ اپنے جہاز میں بیٹھ کر آنا۔‘‘

    ’’چل ہٹ تیرے لاہور میں کیا رکھا ہے، سڑا ہوا تو تیرا لاہور ہے، نہ بھئی۔‘‘

    ’’بیرو دیکھ میری تیری لڑائی ہوگی۔ تو میرے لاہور کو کچھ نہ کہیو، تو کیا جانے اس مٹی پہ تو ہم نے سجدے کیے ہیں۔ اس مٹی میں تو ہماری مٹی مل کر سوارت ہو جائےگی۔‘‘

    میا کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے۔

    بیرو کا دل کٹ کے رہ گیا۔

    ’’میا۔‘‘

    ’’ہاں چندا۔‘‘ اس کی آواز اب تک گلوگیر تھی۔

    ’’مجھے اپنے گلاس میں پانی پلائےگی؟‘‘

    ’’پھر کان لا ادھر، ایک بات بتا؟‘‘

    میا نے پھس پھس کرکے اس سے کچھ پوچھا تھا۔

    اور ممی اس راز و نیاز پر پیٹ ہلا ہلاکر ہنس رہی تھی۔

    ’’تیری قسم، میں نے کبھی نہیں، وعدہ جوہے تیرا میرا، پھر تو مجھے دودھ جو نہیں بخشےگی۔‘‘

    جس صبح میا کو واپس جانا تھا، اس رات وہ اس کے سر میں تیل دبانے بیٹھی تو بیرو نے بڑے مان سے فرمائش کی، ’’میا وہ لوری سنا دو ایک بار۔‘‘

    ’’کیا ننھا بچہ ہے جو لوری سن کر سوئےگا۔ اب تو تیرے بیٹے کو سناؤں گی۔‘‘

    ’’تو میری میا نہیں ہے۔۔۔ سچ میا اتنا دل چاہتا ہے۔‘‘

    ’’ارے اب کہاں ہے گلے میں آواز۔‘‘

    دھیرے دھیرے بند ہوتی آنکھیں کھول کر اس نے اس بوڑھے اور جھریائے چہرے اور اس کے کانوں میں ہلتی چاندی کی بالیوں کو دیکھا تھا۔

    گھوڑے پہ نکلے گا جب چھوٹا سا بیر

    کوئی کہے آیا مغل یا پٹھان

    اور یہی تووہ آواز تھی جو اس کے ہنٹر میں ہر طرف چلی آ رہی تھی۔ اس کا ہنٹر اڑن گھوڑا ہی تو تھا جو میا کے لاہور پر منڈ لا رہا تھا۔ اس کو بار بار وہم سا ہو رہا تھا، جیسے میا اسے آواز دے رہی ہو،

    بیرو میں نے تیرے لیے یونیورسٹی کے کول سے گنے کا رس لا کر رکھا ہے۔

    اس کے جھریائے ہوئے چہرے پر چاندی کی بالیاں جھول رہی تھیں۔

    گھوڑے پر نکلے گا جب چھوٹا سا بیر

    چھوٹا سا بیر۔۔۔ چھوٹا سا بیر۔۔۔

    اب میرے جہاز کا پرجل رہا ہے اور میں وہ نہیں کر پا رہا ہوں جو مجھے کرنا ہے۔

    یہ مجھے کیا ہوا ہے جو اس کی مخصوص دواؤں کی ٹرے لے کر اس سائیڈ روم کی طرف چلی آتی ہوں۔ مَیں کیوں بھول بھول جاتی ہوں کہ اب یہاں وہ لال ڈوروں والی موٹی موٹی آنکھیں موجود نہیں ہیں۔ اب کوئی اس کھڑکی کے باہر چلتے پھرتے انسانوں کو شک کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اب یہاں کوئی ہذیانی بڑ نہیں سنائی دیتی۔

    بیرو سنگھ، تم نے کتنا شور مچا رکھا تھا۔

    پریہ ہوا کیا، تم اچھے بھلے ہو چلے تھے۔ پھر ایک دن اور ایک رات مسلسل بولتے رہنے کے بعد تم نے چپ سادھ لی۔ چلو یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔ اب تو یہ اقرار کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ میں اس چھوٹے سے سائیڈ روم کو خالی پا کر چونک پڑتی ہوں، تب مجھے اس مڑے تڑے کاغذ کی یاد آتی ہے جو تمہارے تکیے کے نیچے سے نکلا تھا جس پر تم نے سرخ پنسل سے شکستہ تحریر میں لکھ رکھا تھا،

    عمل، سوچ اور دانائی سے بہر طور افضل ہے اور اسی کا نام کرما یوگ ہے کہ یہ پگ مہا آنند کی اور جاتی ہے۔

    یہ بات سری بھگوان نے بھی کہی تھی اور اسی بات کو دوسرے لفظوں میں ایئر فورس میں بھی بار بار جتایا گیا تھا اور یہ سب مَیں خوب جانتا تھا اور جانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے دیس اور پرلوک دونوں ہی جگہ سوال کیا جائےگا کہ مَیں نے وہ کیوں نہ کیا جو مجھے کرنا تھا۔

    پر یہ میں کسی کو کیسے سمجھاؤں، میں کرنا تو وہی چاہتا تھا جو مجھے کرنا تھا اور میں اپنے ہنٹر میں سوار ہوکر ا س شہر میں وہی کرنے آیا تھا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ پر کون یقین کرےگا کہ یہ شہر تو میا کا شہر تھا جس کی مٹّی کو سوارت ہونا تھا۔۔۔ اور پھر یہ بھی تو نہیں پتا چلتا تھا کہ میّا نے اپنی جھگی کہاں ڈا ل رکھی ہے اور جو مجھے نقشہ دیتے وقت اور سارے نشانوں کے ساتھ یہ نشان بھی دکھا دیتے تو۔۔۔ خیر مگر اب کیا ہوسکتا ہے، دھیان نے کرما پر فتح پائی۔ میں نے عمل پر سوچ کو ترجیح دی اور مَیں سانکھیا یوگی ہوا۔۔۔ اور میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ سری بھگوان کی بات غلط ہے، لیکن مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مَیں نے مہا آنند کو پا لیا ہے۔

    اور سانکھیا یوگی، ہم تمہاری راکھ ایک برتن میں محفوظ کر چکے ہیں جو وقت آنے پر بحفاظت تمہارے وطن پہنچا دی جائےگی، مگر شاید یہ تم کو کبھی نہ معلوم ہو سکےگا کہ تمہارے ہاتھ کا وہ نوشتہ ہمیشہ ہمیشہ میرے پاس محفوظ رہےگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے