Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ستی

MORE BYپریم چند

    دو صدیوں سے زیادہ زمانہ گزرچکا ہے۔ مگر چنتا دیوی کا نام برابر قائم ہے۔ بندیل کھنڈ کے ایک اجاڑ مقام پر آج بھی منگل کے روز ہزاروں عورت مرد چنتا دیوی کی پرستش کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اس دن یہ اجاڑ فضا سہانے نغموں سے گونج اٹھتی ہے۔ وہاں کے ٹیلے اور ٹھیکرے عورتوں کے رنگ والی پوشاکوں سے سج جاتے ہیں۔ دیوی کا مندر ایک بہت اونچے ٹیلے پر بنا ہواہے۔ اس کے کلس پر لہراتی ہوئی سرخ جھنڈی بہت دور سے نظر آتی ہے۔ مندر اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں دو آدمی ایک ساتھ مشکل سے سما سکتے ہیں۔ اس کے اندر کوئی صورت نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سی بیدی بنی ہوئی ہے۔ نیچے سے مندر تک ایک سنگین زینہ ہے۔ جس کے دونوں طرف دیوار بنی ہوئی ہے کہ بھیڑ میں دھکے سے کوئی نیچے نہ گر پڑے۔ یہیں چنتا دیوی ستی ہوئی تھی۔ مگر دستورِ زمانہ کے مطابق وہ اپنے مردہ شوہر کے ساتھ چتا پر نہیں بیٹھی تھی۔ اس کا شوہر دست بستہ سامنے کھڑا تھا۔ مگر وہ اس کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھتی تھی۔ وہ شوہر کے جسم کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی روح کے ساتھ ستی ہوئی تھی۔ اس چتا پر شوہر کا جسم نہ تھا۔ اس کی آبرو جل کر خاکِ سیاہ ہورہی تھی۔

    جمنا کے کنارے پر کالپی ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ چنتا اس مقام کے ایک بہادر بندیلے کی لڑکی تھی۔ اس کی ماں اس کے بچپن ہی میں مرچکی تھی۔ اس کی پرورش پرداخت کا بار اس کے باپ پر پڑا تھا۔ وہ لڑائیوں کا زمانہ تھا۔ سپاہیوں کو کمر کھولنے کی بھی فرصت نہ تھی۔ وہ گھوڑے کے پشت پر کھانا کھاتے اور وہیں زمان پر جھپکیاں لے لیتے تھے۔ چنتا کا بچپن باپ کے ساتھ میدان ِجنگ میں گزرا۔ اس کا باپ اسے کسی غار میں یاکسی درخت کی آڑ میں چھپا کر میدان میں چلا جاتا بلا کسی خوف کے اطمینان سے بیٹھی ہوئی مٹی کے قلعے بناتی اور بگاڑتی۔ اس کے گھروندے قلعے ہوتے تھے۔اس کی گڑیاں اوڑھنی نہ اوڑھتی تھیں۔ وہ سپاہیوں کے گڈے بناتی اور انہیں لڑائی کے میدان میں کھڑا کرتی تھی۔کبھی کبھی اس کا باپ شام کو بھی نہ واپس آتا۔ مگر چنتا کو خوف چھو تک نہ گیا تھا۔ ویران جنگلوں میں بھوکی پیاسی رات بھر بیٹھی رہ جاتی۔ اس نے نیولے اور گیدڑ کی کہانیاں کبھی نہ سنی تھیں۔ بہادروں کی جاں بازی کے افسانے سپاہیوں کی زبان سے سن سن کر وہ معیار پرست بن گئی تھی۔

    ایک مرتبہ تین روز تک چنتا کو اپنے باپ کی کچھ خبر نہ ملی۔ وہ ایک پہاڑ کی غار میں بیٹھی ہوئی دل ہی دل میں ایک ایسا قلعہ تیار کر رہی تھی۔ جس کو دشمن کسی طرح بھی فتح نہ کرسکتے۔ تمام دن وہ اسی قلعہ کا نقشہ سوچتی اور تمام رات اسی قلعہ کا خواب دیکھتی۔ تیسرے روز شام کو اس کے باپ کے کئی ساتھیوں نے آکر اس کے پاس رونا شروع کیا۔ چنتا نے متعجب ہوکر پوچھا، ’’دادا جی کہاں ہیں؟ تم لوگ کیوں روتے ہو؟‘‘

    کسی نے اس با ت کا جواب نہ دیا۔ وہ زور سے ڈھاریں مار مار رونے لگے۔ چنتا سمجھ گئی کہ اس کا باپ میدانِ جنگ میں مارا گیا۔ اس تیرہ سال والی لڑکی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ ٹپکا۔ چہرہ ذرا بھی اداس نہ ہوا۔ ایک آہ بھی نہ نکلی۔ ہنس کر بولی، ’’اگر وہ لڑائی میں کام آئے۔ تو تم لوگ روتے کیوں ہو؟ سپاہیوں کے لئے اس سے بڑھ کر اور کون سی موت ہوسکتی ہے؟ اس سے بڑھ کر ان کی بہادری کا اور کون سا صلہ مل سکتا ہے؟ یہ رونے کا نہیں۔ بلکہ خوشی منانے کا موقع ہے۔‘‘

    ایک سپاہی نے متفکرانہ لہجہ میں کہا۔ہمیں تمہاری فکر ہے۔ تم اب کہاں رہوگی چنتا، ”اس کی تم کچھ فکر نہ کرو دادا۔ میں اپنے باپ کی بیٹی ہوں۔ جو کچھ ا نہوں نے کیا۔ وہی میں بھی کروں گی۔ اپنے وطن کی سرزمین کو دشمن کے پنجہ سےچھڑانے میں انہوں نے اپنی جان دے دی۔ میرے سامنے بھی وہی کام ہے۔ جاکر اپنے آدمیوں کو سنبھالیے۔ میرے لئے ایک گھوڑے اور ہتھیاروں کا بندوبست کر دیجئے۔ ایشور نے چاہا تو آپ لوگ مجھ کو کسی سے پیچھے نہ پاویں گے۔ لیکن اگر مجھے قدم پیچھے ہٹاتے دیکھنا تو تلوار کے ایک وار سے میری زندگی کا خاتمہ کردینا۔ یہی آپ سے میری التجا ہے۔ جائیے۔ اب دیر نہ کیجئے۔‘‘

    سپاہیوں کو چنتا کے یہ بہادرانہ الفاظ سن کر کچھ بھی تعجب نہیں ہوا۔ ہاں انہیں یہ انداشہ ضرور ہوا کہ کیا یہ نازک اندام لڑکی اپنے اس ارادہ پر قائم رہ سکے گی؟

    پانچ سال گزر گئے۔ سارے صوبہ میں چنتا دیوی کی دھاک بیٹھ گئی۔ دشمنوں کے پیر اکھڑ گئے۔ وہ فتح کا زندہ مجسمہ تھی۔ اسے تیروں اور تفنگوں کے سامنے بے خوف کھڑے دیکھ کر سپاہیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہتی۔ اس کی موجودگی میں وہ کیسے پیچھے قدم ہٹاتے۔ جب نازک اندام عورت آگے بڑھے تو کون مرد قدم پیچھے ہٹائے گا؟ حسن کی دیویوں کے سامنے سپاہیوں کی شجاعت ناقابلِ فتح ہوجاتی ہے۔ عورت کے لفظی تیر بہادروں کے لئے جانبازی کے خفیہ پیغام ہیں۔ اس کی ایک چتون بزدلوں میں بھی مردانگی پیدا کردیتی ہے۔

    چنتا کی خوبصورتی اور شہرت نے منچلے سورماؤں کو چاروں جانب سے کھینچ کھینچ کر اس کی فوج کو سجا دیا۔ جان پر کھیلنے والے بھونرے ہر سمت سے آآکر اس پھول پر منڈلانے لگے۔ انہی بہادروں میں رتن سنگھ نامی ایک نوجوان راجپوت بھی تھا۔

    یوں تو چنتا کے سپاہیوں میں سبھی تلوار کے دھنی تھے۔ بات پر جان دینے والے اس کے اشاروں پر آگ میں کودنے والے، اس کا حکم پاکر آسمان کے تارے توڑلانے پر بھی آمادہ ہوجاتے۔ لیکن رتن سنگھ سب سے بڑھا ہوا تھا۔ چنتا بھی اس کو دل سے چاہتی تھی۔ رتن سنگھ دوسرے سپاہیوں کی طرح اکھڑ، منہ پھٹ یا گھمنڈی نہ تھا۔ اور لوگ اپنی اپنی جوانمردی کا خوف بڑھابڑھاکر بکھان کرتے۔ خود ستائی کرتے ہوئے ان کی زبان نہ رکتی تھی۔ وہ جو کچھ کرتے، چنتا کو دکھانے کے لئے۔ ان کا مقصد ِاولیٰ ان کا فرض نہ تھا۔ بلکہ چنتا تھی۔ رتن سنگھ جو کچھ کرتا۔ خاموشی طریقہ۔ اپنی تعریف کرنی تو دور رہی، وہ خواہ کسی شیر کو ہی مار کر کیوں نہ آئے۔ اس کا تذکرہ تک نہ کرتا تھا۔ اس کی عاجزی اور انکساری تامل کی حد سے بھی متجاوز کر گئی تھی۔ دوسروں کی محبت میں عیش پسندی تھی۔ مگر رتن سنگھ کی محبت میں غنا اور ایثار اور لوگ میٹھی نیند سوتے تھے۔ مگر سنگھ تارے گن گن کر رات کاٹتا تھا اور سبھی اپنے اپنے دلو ں میں سمجھتے تھے کہ چنتا میری ہوگی۔ صرف رتن سنگھ ناامید تھا۔ اوراس لئے اس کو نہ کسی سے رغبت نہ نفرت۔ دوسروں کو چنتا کے سامنے چہکتے دیکھ کر اسے ان کی گویائی پر تعجب ہوتا۔

    ہر لمحہ اس کی یاس انگیز تاریکی اور بھی زیادہ گہری ہوجاتی تھی۔ کبھی کبھی وہ اپنی بے وقوفی پر جھنجھلا اٹھتا۔ کیوں ایشور نے اسے ان اوصاف سے بے بہرہ رکھا جو عورتوں کے دل کو فریفتہ کرتے ہیں۔ اس کو کون پوچھے گا؟ اس کے دردِ دل سے کون واقف ہے۔ مگر وہ دل میں جھنجھلاکر رہ جاتا تھا۔ اس کی دکھاوے کی سکت ہی نہ تھی۔

    نصف سے زیادہ رات جاچکی تھی۔ چنتا اپنے خیمہ میں آرام کر رہی تھی۔ سپاہی بھی سخت منزل طے کرنے کے بعد کچھ کھاپی کر غافل پڑے ہوئے تھے۔ آگے ایک گھنا جنگل تھا۔ جنگل کے دوسری طرف دشمنوں کا ایک دستہ پڑاؤ ڈالے پڑا تھا۔ چنتا اس کی آمد کی خبر پاکر رواں رواں چلی آرہی تھی۔ اس نے علی الصباح دشمنوں پر حملہ کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔اسے یقین تھا کہ دشمنوں کو میرے آنے کی خبر نہ ہوگی۔لیکن یہ اس کا محض خیال تھا۔ اس کی فوج کا ایک آدمی دشمنوں سے ملا ہوا تھا۔یہاں کی خبریں وہاں روزانہ پہنچتی رہتی تھیں۔ انہوں نے چنتا سے نجات پانے کے لئے ایک سازش کر رکھی تھی۔ اس کو چپ چاپ قتل کردینے کے لئے تین شخصوں کو مقرر کردیا تھا۔ ہر سہ اشخاص درندوں کی طرح دبے پاؤں جنگل کو پار کر کے آئے اور درختوں کی آڑ میں کھڑے ہوکرسوچنے لگے کہ چنتا کا خیمہ کون سا ہے؟ کل فوج بے خبر سورہی تھی۔ اس سے انہیں اپنی کامیابی میں ذرا بھی شبہ نہ تھا۔ وہ درختوں کی آڑ سے نکلے اور زمین پر لگر کی طرح رینگتے ہوئے چنتا کے خیمے کی طرف چلے۔

    ساری فوج بے خبر سوتی تھی۔ پہرہ والے سپاہی بھی تھک کر چور ہوجانے کے سبب نیند میں غافل پڑے تھے۔ صرف ایک شخص خیمہ کے پیچھے سردی کی وجہ سے سکڑا ہوا بیٹھا تھا۔ یہ رتن سنگھ تھا۔ آج اس نے یہ کوئی نئی بات نہیں کی تھی۔ پڑاؤں میں اس کی راتیں اسی طرح چنتا کے خیمے کے پیچھے بیٹھے بیٹھے بسر ہوتی تھیں۔ حملہ آوروں کی آہٹ پاکر اس نے تلوار نکالی۔ اور چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ دیکھا کہ تین آدمی جھُکے ہوئےآرہے ہیں۔ اب کیا کرے؟ اگر شور مچادے تو فوج میں ہلچل مچ جاوے۔ اور اندھیرے میں لوگ ایک دوسرے پروار کر کے آپس میں کٹ مریں۔ ادھر تنہا تین جوانوں سے مقابلہ کرنے میں جان کا اندیشہ۔ زیادہ سوچنے کا موقعہ نہ تھا اس میں بہادروں کے فوری ارادہ کرنے کی قوت تھی۔ اس نے فوراً تلوار کھینچ لی۔ اور ان پر یک بارگی ٹوٹ پڑا۔ کئی منٹ تک تلواریں تیزی سے چلتی رہیں۔ پھر سناٹا ہوگیا۔ ادھر وہ تینوں زخمی ہوکر گرپڑے۔ ادھر یہ بھی زخموں سے چور ہوکر بے ہوش ہوگیا۔

    علی الصباح چنتا اٹھی۔ تو چاروں جوانوں کو زمین پر پڑا دیکھا۔ اس کا کلیجہ دھک سے ہوگیا۔ قریب جاکر دیکھا تو تینوں حملہ آوروں کی جان نکل چکی تھی۔ مگر رتن سنگھ کی سانس چل رہی تھی۔ سارا واقعہ معاً سمجھ میں آگیا۔ نسائیت نے مردانگی پر فتح پائی۔ جن آنکھوں سے باپ کی موت پر آنسو کا ایک قطرہ بھی نہ گرا تھا۔ انہی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ اس نے رتن سنگھ کے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیا۔ اور اپنے دل کے صحن میں رچے ہوئے سوئمبر میں اس کے گلے میں جے مالا ڈال دی۔

    ایک مہینہ تک نہ رتن سنگھ کی آنکھیں کھلیں اور نہ چنتا کی آنکھیں بند ہوئیں۔ چنتا اس کے پاس سے ایک لمحہ کے لئے بھی جدا نہ ہوتی۔ اسے نہ اپنے علاقہ کی پروا تھی۔ نہ دشمنوں کے بڑھے چلے آنے کی فکر۔ وہ رتن سنگھ پر اپنے سارے لوازمات کو نچھاور کرچکی تھی۔ پورا مہینہ گزر جانے کے بعد رتن سنگھ کی آنکھ کھلی۔ دیکھا کہ خود چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ اور چنتا سامنے پنکھا لئے کھڑی ہے۔ کمزور لہجہ میں بولا، ’’چنتا! پنکھا مجھے دے دو۔ تمہیں تکلیف ہورہی ہے۔‘‘

    چنتا کا دل مسرت سے نغمہ ریز ہوگیا۔ ایک ماہ قبل جس خستہ و نحیف شخص کے سرہانے بیٹھ کر وہ مایوسی سے رویا کرتی تھی۔ اسے آج بولتے دیکھ کر اس کی خوشی کی حد نہ رہی۔ اس نے محبت آمیز لہجہ میں کہا، ’’سوامی! اگر یہ تکلیف ہے تو آرام کیا ہے۔ میں نہیں جانتی۔‘‘

    اس ’سوامی‘ کے لفظ میں عجب منتر کی سی تاثیر تھی۔ رتن سنگھ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ بجھا ہوا چہرہ روشن ہوگیا۔ رگوں میں ایک نئی زندگی کی لہر پیدا ہوگئی۔ اور وہ زندگی کتنی جذبہ خیز تھی۔ اس میں کتنا حوصلہ، کتنی حلاوت، کتنی مسرت، کتنی رقت تھی۔ رتن سنگھ کا ہر عضو بھڑک اٹھا۔ اسے اپنے بازوؤں میں غیر معمولی قوت کا احساس ہونے لگا۔ ایسا معلوم ہوا کہ گویا وہ کل دنیا کو فتح کرسکتا ہے۔ اڑ کر آسمان پر پہنچ سکتا ہے۔ پہاڑوں کو پھاڑ سکتا ہے۔ ایک لمحہ کے لئے اسے ایسی آسودگی ہوئی۔ گویا اس کی ساری مرادیں پوری ہوگئی ہیں۔ گویا وہ اب کسی سے کچھ نہیں چاہتا تھا۔ شاید مہادیو جی کو بھی سامنے کھڑے ہوئے دیکھ کر منہ پھیر لے گا۔ کوئی بردان نہ مانگے گا۔ اسے اب کسی چیز کی بھی خواہش نہ تھی۔ اسے ایسا غرور ہورہا تھا۔گویا اس سے زیادہ فارغ البال، اس سے زیادہ خوش نصیب شخص دنیا میں اور کوئی نہ ہوگا۔

    چنتا ابھی اپنی بات پوری نہ کرنے پائی تھی۔ اسی سلسلہ میں بولی، ’’ہاں آپ کو میرے سبب ناقابلِ برداشت تکلیف اٹھانی پڑی۔‘‘

    رتن سنگھ نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’بلا تپسیا کے پھل نہیں ملتا۔‘‘

    چنتا نے رتن سنگھ کو نازک ہاتھوں سے لٹاتے ہوئے کہا، ’’اس پھل کے لئے تم نے تپسیا نہیں کی تھی۔ جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ تم صرف ایک کمزور عورت کی حفاظت کر رہے تھے۔ اگر میرے بجائے کوئی دوسری عورت ہوتی تو بھی تم اتنی ہی تن دہی سے اس کی حفاظت کرتے۔ مجھے اس کا یقین ہے۔ میں تم سے سچ کہتی ہوں کہ میں نے تمام عمر کے لئے برہم چریہ (مجرد) کا عہد کرلیا تھا۔ مگر تمہاری جان نثاری نے میرے اس عہد کو توڑ ڈالا۔ میری پرورش بہادروں کی گود میں ہوئی ہے۔ میرا دل اسی شیر دل شخص کے قدموں پر نچھاور ہوسکتا ہے۔ جو جان کی بازی لگاسکتا ہو۔ شوقینوں کی تیر اندازیوں، اوباشوں کی نظر بازیوں اور چالاکوں کی چالاکیوں کی میرے دل میں ذرا بھی وقعت نہیں۔ ان کی ظاہر داریوں کو میں صرف تماشے کی طرح دیکھتی ہوں۔ تمہارے ہی دل میں نے سچا ایثار پایا اور تمہاری کنیز ہوگئی۔ آج نہیں بلکہ بہت دنوں سے۔‘‘

    وصال کی شبِ اولین تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف دونوں محبت بھرے دلوں میں تمناؤں کا طوفان اٹھ رہا تھا۔ چاروں طرف عشق افروز چاندنی پھیلی ہوئی تھی اور اس کے تبسم آگیں منظر میں دولھا دلہن اظہارِ عشق کر رہے تھے۔

    دفعۃً خبر ملی۔کہ دشمنوں کی فوج قلعہ کی طرف بڑھتی چلی ا ٓتی ہے۔ چنتا چونک پڑی۔ رتن سنگھ کھڑا ہوگیا اور اس نے کھونٹی سے لٹکتی ہوئی تلوار اتار لی۔

    چنتا نے ا س کی طرف بزدلانہ محبت کی نظر سے دیکھ کر کہا، ’’کچھ آدمیوں کو ادھر بھیج دو۔ تمہارے جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    رتن سنگھ نےبندوق کو کندھے پر رکھتے ہوئے کہا، ’’مجھے خوف ہے کہ اب کےوہ لوگ بہت بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔‘‘

    چنتا، ’’تو میں بھی چلوں گی۔‘‘

    رتن، ’’نہیں مجھے امید ہے کہ وہ لوگ نہ ٹھہر سکیں گے۔ میں ایک ہی حملہ میں ان کے قدم اکھاڑ دوں گا۔ ایشور کی مرضی ہے کہ ہماری سہاگ رات فتح کی رات ہو۔‘‘

    چنتا،’’نہ جانے میرا دل کیوں ڈر رہا ہے۔ جانے دینے کو جی نہیں چاہتا۔‘‘

    رتن سنگھ نے اس سادا اور محبت آمیز گفتار سے بے قرار ہوکر چنتا کو گلے سے لگا ل یا۔ اور کہا، ’’میں صبح تک واپس آجاؤں گا پیاری۔‘‘

    چنتا شوہر کے گلے میں ہاتھ ڈال کر باچشم ِنم بولی، ’’مجھے اندیشہ ہے کہ تم بہت دنوں میں واپس آؤگے۔ میرا دل تمہارے ساتھ رہے گا۔ جاؤ۔ مگر روزانہ خبربھیجتے رہنا۔ تمہارے پیروں پڑتی ہوں۔ موقع و محل کا خیال کر کے حملہ کرنا تمہاری عادت ہے کہ دشمن کو دیکھتے ہی بے قرار ہوجاتے ہو۔ اور جان پر کھیل کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہو۔ تم سے میری یہی التجا ہے کہ موقع دیکھ کر کام کرنا۔ جاؤ جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو۔ اسی طرح منہ دکھاؤ۔‘‘

    چنتا کا دل افسردہ ہوگیا۔ اس سے پہلے صرف فتح کی تمنا تھی۔ اب عافیتِ تمنا اس پر غالب تھی۔ وہی بہادر لڑکی جو شیرنی کی طرح گرج کر دشمنوں کے کلیجے ہلا دیتی تھی۔ آج اتنی کمزور ہورہی تھی کہ جب رتن سنگھ گھوڑے پر سوار ہوا تو خود دل ہی دل میں دیوی سے اس کی جان کی خیر منارہی تھی۔ جب تک وہ درختوں کی آڑ میں چھپ نہ گیا۔وہ کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ وہاں سونا تھا۔ پہاڑیوں نے رتن سنگھ کو پہلے ہی اپنی گود میں چھپا لیا تھا۔ مگر چنتا کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سامنے چلے جارہے ہیں۔ جب صبح کا سرخ منظر درختوں کے درمیان سے نظر آنے لگا۔ تو اس کی محویت دور ہوئی۔ معلوم ہوا۔ چاروں طرف سونا ہے۔ وہ روتی ہوئی برج سے اتری اور پلنگ پر منہ ڈھانپ کر رونے لگی۔

    رتن سنگھ کے ساتھ مشکل سے سو آدمی تھے۔ مگر سبھی مشاق۔ موقع اور تعداد کو خیال میں نہ لانے والےاورخود اپنی جان کے دشمن جو بہادرانہ جوش سے بھرے ہوئے اور اسی قسم کا ایک متحرک گیت گاتے ہوئے گھوڑوں کو بڑھاتے چلے جاتے تھے۔

    بانکی تیری پاگ سپاہی، اس کی رکھنا لاج

    تیغ تیر کچھ کام نہ آوے

    بکتر ڈھال یونہی رہ جاوے

    رکھیو من میں لاگ

    سپاہی بانکی تیری پاگ، اس کی رکھنا لاج

    پہاڑیاں ان جنگی نغموں سے گونج رہی تھیں۔ گھوڑوں کے سموں کی آواز تال کا کام دے رہی تھی۔ حتی کہ رات گزر گئی۔ آفتاب نے اپنی سرخ آنکھیں کھول دیں اور ان جانبازوں پر زر افشانی کرنے لگے۔

    وہیں خونیں اجالے میں دشمنوں کی فوج ایک پہاڑی پر خیمے ڈالے ہوئے نظر آئی۔

    رتن سنگھ سر جھکائے اور فرقت زدہ دل کو تھامے ہوئے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ قدم آگے پڑتا تھا۔ مگر دل پیچھے ہٹتا تھا۔ آج زندگی میں اول مرتبہ خیالاتِ پریشان نے اسے مشوش بنا رکھا تھا۔ کون جانتا ہے کہ جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ جس بہشت کی راحت کو چھوڑ کروہ آیا تھا۔ اس کی یاد رہ رہ کر دل کو مسوس رہی تھی۔ چنتا کی آنسوبھری آنکھیں یاد آتی تھیں۔ جی چاہتا تھا کہ گھوڑے کی باگ ڈور موڑ دے۔ ہر لمحہ جنگ کا حوصلہ کم ہوتا جاتا تھا۔ دفعتاً ایک سردار نے قریب آکر کہا، ‘‘بھیا! وہ دیکھو اونچی پہاڑی پر دشمن ڈیرے ڈالا پڑا ہے۔ تمہاری اب کیا رائے ہے؟، ہم تو چاہتے ہیں کہ فوراً ان پر حملہ کردیں۔ غافل پڑے ہوئے ہیں۔ بھاگ کھڑے ہوں گے۔ دیر کرنے سے وہ بھی سنبھل جائیں گے۔ اور تب معاملہ نازک ہوجائے گا۔ ایک ہزار سے کم نہ ہوں گے۔

    رتن سنگھ نے متفکرانہ نگاہوں سے دشمن کی فوج کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ہاں معلوم تو ہوتا ہے۔‘‘

    سردار، ’’تو پھر دھاوا بول دیا جائے نا؟‘‘

    رتن سنگھ، ’’جیسی تمہاری مرضی ہو۔ تعداد زیادہ ہے۔ یہ سوچ لو۔‘‘

    سردار، ’’اس کی پروا نہیں۔ ہم اس سے بڑی فوجوں کو شکست دے چکے ہیں۔‘‘

    رتن، ’’یہ سچ ہے مگر آگ میں کودنامصلحت نہیں۔‘‘

    سردار، ’’ھیا۔ تم کہتے کیا ہو؟ سپاہی کی تو زندگی ہی آگ میں کودنے کے لئے ہے۔ تمہارے حکم کی دیر ہے۔ پھر ہمارا جیوٹ دیکھنا۔‘‘

    رتن، ’’ابھی ہم لوگ بہت تھکے ہوئے ہیں۔ ذرا آرام کرلینا بہتر ہے۔‘‘

    سردار، ’’نہیں بھیا! ان سبھوں کو ہماری آہٹ مل گئی۔ تو غضب ہوجائے گا۔‘‘

    رتن، ’’تو پھر دھاوا بول ہی دو۔‘‘

    ایک لمحہ میں بہادروں نےگھوڑوں کی باگیں اٹھادیں اور نیزے سنبھالے ہوئے دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوئے۔ مگرپہاڑی پر جاتے ہی ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ دشمن غافل نہیں ہے۔ ان لوگوں نے ان کے بارے میں جو قیاس کیا تھا وہ غلط تھا۔ ہ کافی ہوشیار ہی نہیں تھے بلکہ خود قلعہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ان لوگوں نےجب انہیں سامنے آتے دیکھا تو سمجھ گئے کہ غلطی ہوئی۔ لیکن اب مقابلہ کرنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا؟ پھر بھی وہ مایوس نہ تھے۔ رتن سنگھ جیسے باکمال افسر کے ساتھ انہیں کسی قسم کا اندیشہ نہ تھا وہ اس سے بھی زیادہ مشکل موقعہ پر اپنے جنگی کمال کی بدولت فتحیاب ہوچکا تھا کہ آج وہ اپنا کمال نہ دکھائے گا؟ ساری آنکھیں رتن سنگھ کو کھوج رہی تھیں۔ مگر اس کاوہاں کہیں پتہ نہ تھا۔ وہ کہاں چلا گیا؟ یہ کوئی نہ جانتا تھا۔

    مگر وہ کہیں نہیں جاسکتا۔ اپنے ساتھیوں کو ایسی نازک حالت میں چھوڑ کر وہ کہیں نہیں جاسکتا۔ ایسا تو ممکن نہیں۔ وہ ضرور یہیں ہے اورہاری ہوئی بازی کے جیتنے کی کوئی تدبیر سوچ رہا ہے۔

    ایک لمحہ میں دشمن ان کے مقابل آپہنچے۔ اتنی کثیر التعدادافواج کے آگے یہ مٹھی بھر آدمی کیا کرسکتے تھے؟ چاروں طرف سے رتن سنگھ کی پکارہونے لگی، ’’بھیا! تم کہاں ہو۔ ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ دیکھتے ہو۔ وہ لوگ سامنے آپہنچے۔ مگر تم ابھی تک خاموش کھڑے ہو۔ سامنے آکر ہمیں راستہ دکھلاؤ۔ ہمارا حوصلہ بڑھاؤ۔‘‘

    مگر اب بھی رتن سنگھ نہ دکھائی دیا۔ یہاں تک کہ دشمن کی فوج سر پر آپہنچی۔ اور دونوں فوجوں میں تلواریں چلنے لگیں۔ بندیلوں نے سربکف ہوکر لڑنا شروع کیا۔ مگرایک کو ایک بہت ہوتا ہے۔ ایک اور دس کا مقابلہ کیا؟ یہ لڑائی نہ تھی۔ جان کی بازی تھی۔ بندیلوں میں پاس کی غیر معمولی طاقت تھی۔ خوب لڑے۔ مگر کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹے۔ ان میں اب ذرا بھی جماعت بندی نہ تھی۔ جس سے جس قدر آگے بڑھتے بنا۔ بڑھا۔ انجام کیا ہوگا، اس کی کسی کو فکر نہ تھی۔ کوئی تو دشمنوں کی صفیں چیرتا ہوا افسر کے قریب پہنچ گیا۔ کوئی اس کے ہاتھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہوا ماراگیا۔ اس کی غیر معمولی ہمت دیکھ کر دشمنوں کے منہ سےبھی صدائے آفرین نکلتی تھی۔ لیکن ایسے جانبازوں نے نام پایا ہے۔ فتح نہیں پائی۔

    ایک گھنٹہ میں ا سٹیج کا پردہ گر گیا۔ تماشہ ختم ہوگیا۔ ایک آندھی تھی جو آئی اور درختوں کو اکھاڑتی ہوئی چلی گئی۔ متحد رہ کر یہی مٹھی بھر آدمی دشمنوں کے دانت کھٹے کرسکتے تھے۔ مگر جس پر جماعت بندی کا بار تھا۔ اس کاکہیں پتہ نہ تھا۔ فتح مند مرہٹوں نے ایک ایک نعش کو بغور دیکھا۔ رتن سنگھ ان کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔ اسی پر ان کے دانت لگے تھے۔ رتن سنگھ کے جیتے جی انہیں نیند حرام تھی۔ لوگوں نے پہاڑی کی ایک ایک چٹان دیکھ ڈالی۔ مگر رتن سنگھ ہاتھ نہ آیا۔ جیت ہوئی پر ادھوری۔

    چنتا کے دل میں آج نہ جانے کیوں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہورہے تھے۔ وہ کبھی اتنی کمزور نہ تھی۔ بندیلوں کی ہار ہی کیوں ہوگی؟ اس کاکوئی سبب تو وہ نہ بتا سکتی تھی۔ مگر یہ خیال اس کے دل سے کسی طرح دور نہ ہوتا تھا۔ اس بدنصیب کی قسمت میں محبت کاسکھ بھوگنا لکھا ہوتا۔ توکیا بچپن ہی میں ماں مرجاتی؟ باپ کے ساتھ جنگل جنگل گھومنا پڑتا؟ گڑھوں اور غاروں میں رہنا پڑتا؟ اور وہ سہارا بھی تو بہت دن نہ رہا۔ باپ بھی منہ موڑ کر چل دیے۔ جب سے اس کو ایک روز بھی تو چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ بدقسمتی کیا اب اپنا مکروہ تماشہ چھوڑدے گی؟ آہ اس کے کمزور دل میں اس وقت ایک عجیب خیال پیدا ہوا۔ ایشور ا س کے پیار ے شوہر کو آج بخیریت واپس لادے تو وہ اسے لے کر کسی دور کے گاؤں میں جا بسے گی اور اپنے شوہر کی خدمت اور پرستش میں اپنی زندگی وقف کردے گی۔ اس لڑائی سے ہمیشہ کے لئے منھ موڑ لے گی۔ آج اول مرتبہ نسائیت کا جذبہ اس کے دل میں پیدا ہوا۔

    شام ہوگئی تھی۔ آفتاب کسی ہارے ہوئے سپاہی کی طرح سر جھکائے کوئی چھپنے کی جگہ تلاش کر رہا تھا۔ دفعۃً ایک سپاہی برہنہ سر، برہنہ پا، بلا کسی ہتھیار کے اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ چنتا پر گویا بجلی گر پڑی۔ ایک لمحہ تک وہ مبہوت سی بیٹھی رہی۔ پھر اٹھ کر گھبرائی ہوئی سپاہی کے پاس گئی۔ اور مضطربانہ لہجہ میں پوچھا، ’’کون کون بچا؟‘‘

    سپاہی نے کہا، ’’کوئی نہیں۔‘‘

    ’’کوئی نہیں! کوئی نہیں!‘‘چنتا سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گئی۔

    سپاہی نے پھر کہا، ’’مرہٹے قریب آپہنچے۔‘‘

    ’’قریب آپہنچے؟‘‘

    ’’بہت قریب۔‘‘

    ’’تو فوراً چتا تیار کرا۔ وقت نہیں ہے۔‘‘

    ’’ابھی ہم لوگ تو سرفروشی کے لئے حاضر ہی ہیں۔‘‘

    ’’تمہاری جو مرضی۔ میرے فرض کاتو یہیں خاتمہ ہے۔‘‘

    ’’قلعہ بند کر کے ہم مہینوں لڑسکتے ہیں۔‘‘

    ’’تو جاکر لڑو۔ میری لڑائی اب کسی سے نہیں۔‘‘

    ایک طرف تاریکی روشنی کو پیروں تلے کچلناچاہتی تھی۔ دوسری طرف فاتح مرہٹے لہراتے ہوئے کھیتوں کو۔ اور قلعہ میں چتا بن رہی تھی۔ جیوں ہی چراغ جلے کو چتا میں بھی آگ لگی۔ ستی چنتا سولھوں سنگار کئے اپنے حسنِ بے نظیر کانظارہ پیش کرتی ہوئی خوشی خوشی آگ کی راہ سے اپنے سوامی کے ‘لوک’ کی جاترا کرنے جارہی تھی۔

    چنتا کے چاروں طرف عورت مرد جمع تھے۔ حریفوں نے قلعہ کو محصور کرلیا ہے۔ اس کی کسی کو فکر نہ تھی۔ رنج و غم سے سب کے چہرے اداس اور سر جھکے ہوئے تھے۔ ابھی کل اسی صحن میں شادی کا منڈپ سجایا گیا تھا۔ جہاں اس وقت چِتا سلگ رہی ہے۔ وہیں کل ‘ہون کنڈ’ تھا۔ کل بھی اسی طرح آگ کے شعلے اٹھ رہے تھے۔ اسی طرح لوگ جمع تھے۔ مگر آج کل کے مناظرمیں کتنا فرق ہے۔ ہاں! مادی آنکھوں کے لئے فرق ہوسکتا تھا۔ مگر دراصل یہ اسی یگیہ کی آخری آہوتی اور اسی عہد کایفاء ہے۔

    دفعتاً گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنائی پڑنے لگیں۔ معلوم ہوتا تھا۔ کوئی سپاہی گھوڑے کو سرپٹ بھگاتا ہوا چلا آرہا ہے۔ ایک لمحہ میں ٹاپوں کی آواز بند ہوگئی۔ اور ایک سپاہی دوڑتا ہوا آپہنچا۔ لوگوں نے متحیر ہوکر دیکھا وہ رتن سنگھ تھا۔ رتن سنگھ چتا کے قریب جاکر ہانپتا ہوا بولا، ’’پیاری! میں تو ابھی زندہ ہوں یہ تم نے کیا کرڈالا؟‘‘

    چتا میں آگ لگ چکی تھی۔ چنتا کی ساڑھی سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ رتن سنگھ پاگلوں کی طرح چتا میں گھس گیا اور چنتا کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے لگا۔ لوگو ں نے چاروں طرف سے لپک لپک کر چتا کی لکڑیاں ہٹانی شروع کیں۔ مگر چنتا نے شوہر کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا۔ صرف ہاتھوں سے اس کو ہٹ جانے کا اشارہ کیا۔

    رتن سنگھ سرپیٹ کر بولا، ’’ہائے پیاری! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ میری طرف دیکھتی کیوں نہیں؟ میں تو زندہ ہوں۔‘‘

    چتا سے آواز آئی، ’’تمہارا نام رتن سنگھ ہے۔ مگر تم میرے رتن سنگھ نہیں ہو۔‘‘

    ’’تم میری طرف دیکھو تو۔ میں ہی تمہارا خادم، تمہارا عقیدتمند، تمہارا شوہر ہوں۔‘‘

    ’’میرا شوہر بہادرو ں کی موت مرچکا۔‘‘

    ’’ہائے کیسے بجھاؤں۔ ارے لوگو! کسی طرح آگ ٹھنڈا کرو۔ میں رتن سنگھ ہی ہوں پیاری! کیا تم مجھے پہچانتی نہیں ہو؟‘‘

    آگ کی لپٹ چنتا کے چہرے تک پہنچ گئی۔ آگ میں کنول کھل گیا۔ چنتا صاف لہجہ میں بولی، ’’خوب پہچانتی ہوں۔ تم میرے رتن سنگھ نہیں۔ میرا رتن سنگھ سچا سورما تھا۔ وہ اپنی حفاظت کے لئے اپنے اس نکمے جسم کو بچانے کے لئے اپنے چھتری دھرم کو ترک نہ کرسکتا تھا۔ میں جس جواں مرد کے قدموں پر نثار ہوچکی تھی وہ دیوتاؤں کے بہشت میں رونق افروز ہے۔ رتن سنگھ کو بدنام مت کرو۔ وہ بہادر راجپوت تھا۔ میدانِ جنگ سے بھاگنے والا بزدل نہیں۔‘‘

    آخری الفاظ نکلے ہی تھے کہ آگ کی لپٹ چنتا کے سر کے اوپر جاپہنچی۔ پھر ایک لمحہ میں وہ حسن کی مورت، وہ اعلیٰ بہادری کی پجارن، وہ سچی ستی آگ میں جل کر بھسم ہوگئی۔

    رتن سنگھ خاموشی سے مبہوت سا کھڑا ہوا۔ یہ دردناک نظاہرہ دیکھتا رہا۔ پھر یکایک ایک آہ سرد بھرکر اسی چتا میں کود پڑا۔

    مأخذ:

    میرے بہترین افسانے (Pg. 134)

    • مصنف: پریم چند
      • ناشر: کتاب منزل، لاہور

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے