Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شب انتظار

جمیلہ ہاشمی

شب انتظار

جمیلہ ہاشمی

MORE BYجمیلہ ہاشمی

    کہانی کی کہانی

    مذہبی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ جانے والے ایک عاشق جوڑے کی کہانی ہے۔ امام علی رادھا سے شادی کر لیتا ہے، جس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ فساد ہوتے ہیں اور پھر امام علی پر مقدمہ چلتا ہے اور سزا پاتا ہے، سزا کاٹنے کے بعد بھی اس کے والد اسے گھر میں آنے کی اجازت نہیں دیتے پھر وہ کہیں غائب ہو جاتا ہے اور رادھا اس کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے۔

    جس رات کی میں بات کہنے جارہی ہوں اس کی صبح مجھ پر زیادہ اور بھائی پر کم مار پڑی تھی۔ ماں آتی سردیوں کی گرم دھوپ میں آنگن میں لحاف پھیلائے اس میں ڈورے ڈال رہی تھی۔ لڑکیاں سیپاروں پر جھکی نانی کا پڑھایا ہوا سبق دہرا رہی تھیں اور جھوم جھوم کر ایک دوسری سے زیادہ کرخت آوازیں نکال رہی تھیں۔ میں تاگے الجھا رہی تھی، حالاں کہ میں ماں کو سوئی میں لمبا دھاگا پروکر دینا چاہتی تھی۔ پھر تھک کر میں نے جھاڑو کی سینک پر دھاگے باندھے اور بوتل کے ڈھکنے سے ترازو بنانے لگی۔

    نانی نے لمبی ہوں کی تو ہم خوف زدہ ہوگئے۔ ماں نے ڈانٹا کہ ہم جھاڑو برباد کر رہے تھے۔ ڈر کر ہم سیڑھی پر چڑھ گئے جہاں دیوار کے پارسے مامے دلاور کا صحن نظر آتا تھا، جس میں چڑیاں گوبر کے ڈھیروں سےدانے چن کر اڑ اڑ جاتی تھیں اور کتے گھڑی گھڑی بھونکتے تھے۔ پھر بطخیں ماں برکتے کی طرف سے بڑی محراب والی نالی کے راستے قائیں قائیں کرتی چونچیں پانی میں مارتی دھوپ کو دھنکتی سر کوبار بار ڈبکی دیتیں چھوٹی کشتیوں کی طرح تیرتی ہوئی اوپر آتیں۔ کوے خالی گھر کے دالان میں گھس کر کائیں کائیں شور مچا رہے تھے، کیوں کہ مامی خورشید اور ماسی شادو کھیتوں پر گئی ہوئی تھیں۔ یہ کپاس کی چنائی کے دن تھے۔

    ہم دیوار پر ہاتھوں پاؤں سے چلتےدوسری سیڑھیوں سے خالی صحن میں اتر گئے۔کتا زور سے بھونکا، بطخیں کو اں کواں کرتیں ہمارے پیچھے بھاگیں۔ ہم دوڑ کر دالان کے ساتھ بنے ہوئے چھپر تلے چولہوں کی قطار پر چڑھ گئے اور چھپ کر بیٹھ گئے، جھانک کر دیکھا تو بطخیں زرد پانی میں گھلی آسمان کی نیلاہٹ اور دھوپ سے پار جاچکی تھیں، کوے دالان کو بھول کر منڈیر پر بیٹھے چونچوں سےپروں کو صاف کر رہے تھے اور چپ تھے۔ ہم دونوں بھی اپنے ترازو سے کھیلنے لگے۔ ہم چولہوں میں پڑی راکھ کو تولنے لگے۔اب کچھ اور تولتے ہیں۔ مجھے یاد آیا شہر میں دکان دار اجلے دہی کو کیسے کھٹاکھٹ برتنوں میں ڈالتے ہیں۔ دیکھنے سے ہی کتنا مزہ آتا ہے۔

    ایک چھوٹی سی کھڑکی کے پیچھے سلگتے اپلوں کا دھواں ذرا ذرا باہر آ رہا تھا۔ کاڑھنی میں دودھ گرم ہو رہاتھا، چلو دودھ تولتے ہیں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔ چولہے پر لڑھکے ہوئے گلاس سے ہم نے دودھ نکالا، میں دکان دار تھی اور آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ بھائی گاہک تھا اور ایک ایک پیسے کا سودا گھڑی گھڑی لے رہا تھا۔ گرم دودھ اس کے حساب میں میں زمین پر ڈال رہی تھی۔ ہم بہت ہی مگن تھے بہت ہی خوش۔ چھوٹی چھوٹی دودھیا ندیاں سی ہمارے چاروں طرف بہہ رہی تھیں۔

    ’’ہائے میں مرگئی۔‘‘ماسی شادو کی آواز سنائی دی۔ میں نے اوپر دیکھا اور ترازو میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔ شادو نےماں کو آواز دی، ’’بہن نشا، بہن نشا۔ دیکھ اپنے لاڈلوں کے کام۔‘‘ ماں کی خوف زدہ آواز سیڑھیوں پر سےآئی۔ شادو میرے بچے تو خیریت سے ہیں اور وہ بھاگتی ہوئی دیوار پر سے ڈولتی ہوئی گرنے سے بچتی ہوئی سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی پھولے ہوئے سانس سے جیسےاڑتی ہوئی آئی ہو، مامے دلاور کی طرف آئی۔

    ’’یہ دیکھ یہ دیکھ۔‘‘ شادو نے چیختے ہی کہا، ’’سارا دودھ غارت کردیا ہے۔‘‘ ماں کا دھواں دھواں چہرہ ایک دم چمکا اور وہ چمک اس کے ہاتھو ں میں اتری۔ اس نےمجھے گھسیٹا اور روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔ بھائی کو بھی دوچار طمانچے پڑے۔ ماں بر کتےننگے پاؤں دھوتی سنبھالتی اپنے دالان سے آئی اور مجھے پکڑ کر ایک طرف کیا۔

    ’’ہوش کرنشا بچے ہی تو ہیں۔‘‘ پھر دودھ کو دیکھ کر کہنے لگی، ’’اگر سمجھ دار ہوتے تو نقصان کیوں کرتے۔‘‘

    ماں نے ہانپتے ہوئے کہا، ’’شادو کو چیختے سنا تو میں نے سوچا خدا نخواستہ بچوں کو کچھ ہو نہ گیا ہو۔ مگر اب ان کو نصیحت ہوگئی، کبھی پھر ایسا نہیں کریں گے۔ ماسی تم ہٹ جاؤ آج مجھے اس کی ہڈیاں سینک لینے دو، سمجھ دار ہے، بڑی ہےدودھ کا حشر کردیا ہے۔ شادو ٹھیک ہی کہتی ہے اور ماں میری طرف پھر لپکی۔ نانی کی سیڑھیوں پر آتے آتے ہمسائے میں ماں فضلاں کی بہو کو ماں کا جھانکتا چہرہ سب آنسوؤں کی جلن اور کانوں کی سائیں سائیں میں گڈ مڈ ہوگئے۔

    ماں برکتے مجھے اپنے گھر لے آئی۔ دالان میں بچھی کھاٹ پر بٹھاکر زبردستی گرم دودھ پلایا، پھر جب آنسو اور شرمندگی کا زور ذراکم ہوا تو میرا تپتا ہوا چہرہ ٹھنڈے پانی سے دھلایا۔ اس کی پوتی مودی نے اپنی گڑیاں اور ان کے پوتے لاکر وہیں ڈھیر کردیے۔ تھوڑی دیر میں تو روتی ہوئی چپ چاپ بیٹھی رہی، پھر رنگ برنگ کپڑوں، ننھے منے پوتوں اور موتیوں کی نتھ پہنے گڑیا نے مجھ پر جادو کردیا۔ ہم نے لکڑی کے ستونوں کے پیچھے اپنے اپنے گھر سجائے اور جہیز سینے لگے۔ پوتے بنانا بہت آسان تھا۔ ذرا ذرا سی کترنوں کو ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر زور سے پھیلاؤ تو ڈوری سی بٹ جاتی تھی اور ٹانگوں کے سرے پرایسے ہی بازو لگا کر ایک گولی سی بناکر لگا دیا جاتا۔ مودی ان کی آنکھیں اور منہ توے کی سیاہی سے بناتی جاتی۔ ہم نے ایک بھیڑ بناڈالی۔ حالاں کہ مودی کہتی تھی زیادہ پوتے سنبھالنا بہت مشکل ہوجائے گا پھر یہ آپس میں لڑیں گے تو گڑیا مصیبت میں پڑجائے گی۔

    تھک کر ہم نے لق و دق آنگن کے دوسرے سرے تک بطخوں کو بھگایا، کچے امرود کھائے، پینگ پر لمبے لمبے جھوٹنٹے لیے، دیوار پر چڑھ کر پچھلی طرف سارنگی بجانے والے فقیروں کے گھر جھانکا۔ مودی نے مجھے اپنی گڑیا کے بیاہ کا قصہ سنایا۔ آئندہ وہ گڑیا کی شادی نوری کے گڈے سے کرنے والی تھی۔ کیوں کہ پہلا گڈا کانا تھا اور اس کا سر ہلتا تھا۔ بارات جو آئی تھی تو باجا بجانے والے لڑکے نہیں تھے۔ وہ گڑیا کے بغیر ہی چلے گئےتھے، کیوں کہ مودی نے اتنے میلے گڈے کے ساتھ اپنی گڑیا بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر شمو کی اور اس کی لڑائی ہوگئی تھی۔ دونوں نےایک دوسرے کے بال نوچے تھے اور بڑا ہنگامہ ہوا تھا۔ دونوں کی ماؤں کو درمیان میں آنا پڑا تھا۔

    شام ہوگئی تو گائیں بھینسیں گھر لوٹ آئیں۔ وہ بے صبری سے چارے کی ناندوں میں سردیے تھیں اور ان کے گلے میں پڑی گھنٹیاں ٹناٹن بولتی تھیں اور تیز تیز اڑتی اپنے گھروں کو جاتی چڑیاں اور کوے اور تیز اڑتے تھے۔ مودی کی ماں اور ماسیاں کھیتوں سے واپس آگئیں۔ گھر چمکتے چہروں باتوں اور جوان لڑکیوں سے بھرگیا۔ مودی نے گڑیا سمیٹ کر ایک ڈبے میں بھریں اور کوٹھری میں اناج اور گڑ کی بوریوں کی اوٹ میں چھپا کر رکھ دیں۔

    ’’آج نشا کی طرف جانا ہے چرخے تو ٹھیک ہیں نا۔ میرے چرخے کی مال پرانی ہے اور تکلے کو بھی کسی نے ٹیڑھا کردیا ہے۔‘‘ اس نے پھر کرمودی کی طرف دیکھا۔ ’’کیوں مودی، تونے آج میرے چرخے کو چھیڑا تھا؟‘‘

    ’’نہیں ہم دونوں تو آج گڑیاں کھیلتی رہی ہیں۔ اس سے پوچھ لو۔‘‘ اس نےمیری طرف اشارہ کیا۔مودی کی ماں نےمیرے سر پر پیار کیا۔پھر وہ آٹا گوندھنے لگ گئی۔ ماں برکتے نے دال کو بگھار لگایا تو مہک سے آنگن بھر گیا۔ ملائی بناکر اس نے دودھ کو بڑی چاٹی میں پلٹا۔ اس کارنگ پک پک کر ہلکا سرخ ہو رہاتھا یا شام کے بڑھتے ہوئے سایوں میں سورج کی لالی منڈیر پر سےاس میں جھلک رہی تھی۔ تنور میں شعلے اونچے اور روشن تھے۔ رات ہونے سے پہلے مودی اور میں ماں برکتے کے بستر میں گھس گئے۔ وہ کہتی میری ماں کو بڑی کہانیاں آتی ہیں۔ چڑیا اور کوے کی کہانی تو بہت ہی مزیدار ہے۔ کہانیاں تو میری ماں کو بھی بہت آتی تھیں مگر مجھے یاد آیا کہ صبح میری پٹائی ہوچکی ہے اور ماں مجھ سے سخت خفا تھی۔ گھر سے مجھے لینےبھی کوئی نہیں آیا تھا۔ مجھے راج ہنس کی بہت عمدہ کہانی یاد تھی مگر میں نےکچھ نہ کہا اور چڑیا کی کہانی سنتی رہی سنتی ہی رہی۔

    آنکھ کھلی تو میں ماں کے کندھے سے لگی تھی اور میری ناک اس کی موٹی چوٹی سے رگڑ کھاتی تھی۔ بالوں میں سے کھٹی لسی کی مہک اس کی خوشبو سے ملی بڑی میٹھی اور تلخ تھی۔ پھلکاری میں سے ہوا میری ٹانگوں کو لگ رہی تھی۔ مامے دلاور کے صحن میں کتے بھونک رہے تھے۔ لڑکیاں بےپرواہ کچر کچر باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا۔

    پھر اناج کی کوٹھیوں کے ساتھ بنے اوسارے پر جب ماں نے اور بچوں کے درمیان مجھے لٹایا تو میں نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ اس نےجھک کر میرے ماتھے کو چوما اور میرے گرد رضائی لپیٹ دی۔ کوٹھری آوازوں اور چرخوں کی گھوں گھوں ہنسی کےشور سے دہکی ہوئی تھی۔ تیل کے دیے جلنے کی بو، مہندی لگے ہاتھوں کے پسینے میں ملی گیتوں کی تانوں میں اڑتی تھی۔ قہقہے چھن چھن بولتے تھے۔ آنکھیں گنگناتی اور چمکتی تھیں۔ ناک کے کیل مجھے چاند لگ رہے تھے اور ان کی انگلیاں دھاگے پر یوں تیزی سے جمی ہاتھوں کے ساتھ اٹھ اور گر رہی تھیں جیسے مولے وال کے ٹیلے پر وہ ناچ رہی ہوں۔ عجیب جادو تھا۔ ہلکا نیلا دھواں کوٹھری میں بھر گیا تھا اور پھر وہ غبار بن کر میری آنکھوں میں اترآیا۔

    کسی بچے نے اوسارے پر خواب میں زور سے ٹانگ چلائی، جو میرے سر پر لگی اور میری آنکھ کھل گئی۔

    ’’آج کرم نہیں آئی نا، اس کا بہنوئی پچیس سال کے بعد واپس آیا ہے سارے خوش ہیں۔‘‘ کسی نے کہا۔

    ’’جانے والے کبھی لوٹ کر تو نہیں آیا کرتے۔‘‘ ماں کی آواز آئی۔

    ’’تیرا چاچا واپس نہیں آیا نا۔‘‘ مودی کی ماں نےکہا۔

    ’’اب چاچا آ بھی جائے تو کیا فائدہ، دادی تو رہی نہیں جسے اس کاانتظار تھا۔ میں کوٹھری میں دادی کے ساتھ ہی سویا کرتی تھی۔ سردی میں جب بھی آنکھ کھلتی میں جاگ جاتی تو اسے بیٹھے ہوئے ہی دیکھتی۔ گھٹی گھٹی آواز میں جسے وہ خود ہی سن سکتی تھی، کہتی امام علی آوے امام علی۔ ان دنوں میں سوچتی وہ زور سے کیوں نہیں پکارتی کسے بلاتی ہے۔ دم گھونٹ کر کیوں روتی ہے کسی سے کچھ کہتی کیوں نہیں۔ دن کے وقت چپ چاپ سائے کی طرح پھرتی رہتی ہے۔ رات کو کیوں جاگتی ہے۔ یہ امام علی کون ہے؟ اس کا کون ہے؟ کیوں کہ گھر میں اور کسی کو میں نے یہ نام پکارتے کبھی نہیں سنا۔بڑے ہوکر دادی کے مرنے کے بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ وہ میرا چاچا تھا۔

    گاؤں کے سرے پر ایک مسجد ہے دالان در دالان اور مغرب کی طرف حجروں کی قطاریں، بڑا سا پختہ کنواں جو ڈھاب کے بڑھنے کی وجہ سے تقریباً منھ تک بھرا رہتا اور مسجد کے باہر کھلی زمین پر سایہ کیے ایک تناور بڑ ہے، جس کے تنے کے گرد چبوترے پر مسافر آکر دم لیتے اور گرمیوں کی دوپہروں میں لوگ سوتے ہیں۔ بچے کھیلتے ہیں اور رونق رہتی ہے مگر مسجد میں میرے نانا دوچار شاگردوں کے ساتھ درس دیتے ہیں۔ پتہ نہیں لوگ زیادہ درس میں شریک کیوں نہیں ہوتے تھے۔ نانا کو کھانا دینے کے بہانے میں اس بڑکی چھاؤں میں خوب کھیلتی۔ پھر جب چھٹیوں میں ہم شہر سےگاؤں آتے تو خالی حجروں میں گری ہوئی چھتوں تلے چمگادڑوں کے ڈر سے میں صرف جھانک لیتی یا ستونوں کے گرد بازو ڈال کر خوب چکر پھیریاں لیتی، کبھی محرابوں تلےبیٹھ کر منقش چھت کو تکتی اور لکیروں کو دور تک گنتی چلی جاتی یہاں تک کہ میری نظر گھبراکر لوٹ آتی۔

    نانا اکثر مراقبے میں ہوتے۔ پھر شمو میں اور مودی کنوئیں کے ٹھیرے ہوئے پانی میں اپنے اپنے چہرے دیکھتے اور ڈھاب سے کنول نکال کر ان کے ہار پروتے۔ شام پرندوں کے شور میں ڈوبی ہوتی یہاں تک کہ اذان کی آواز بھی دب جاتی۔ اندھیرا بڑا ڈراؤنا ہوتا، لوگ کہتے تھے یہاں ایک دیو رہتا ہے مگر مسجدوں میں رہنے والے اس سے کیوں ڈریں۔ لوگ گاؤں کی طرف جانے کے لیے شام کے بعد دوسرے راستے سے جاتے جو ٹھنڈے کنوئیں کی طرف سے ذرا لمبا تھا مگر آباد تھا۔

    ’’امام علی تم کو مؤطا پڑھے بنا اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے اتنی دور آنےکی کیا ضرورت تھی۔ میں نے ایک بار کہہ دیا تھا کہ یہ رویت کامسئلہ ہے اوراس کاسمجھنا بغیر فضل خداوندی کے محال ہے اور بغیر مطالعہ کے جنون ہے۔ تم لوگ اکتساب علم کے ساتھ اکتساب فیض کی بھی دعا کیا کرو۔‘‘ میرے ذہن میں ایک دم چھن سے ہوا۔ برسوں پہلے کی بھولی ہوئی وہ رات یاد آئی۔ اپنی دادی کی آواز امام علی آوے امام علی۔

    ’’اچھا تو یہ ماں کے چاچا ہیں جونانا کے پاس آگئے ہیں۔‘‘میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی گلیوں میں سے دیوانہ وار دوڑتی ہوئی۔ لوگوں سے ٹکراتی گلی کے پتھروں پر ٹھوکریں کھاتی۔ کھیتوں سے پلٹتےہوئےلوگوں کے ہلوں تلے روندےجانے سے بمشکل اپنے آپ کو بچاتی اڑتی ہوئی۔ ہوا میرے کانوں میں سیٹیاں بجا رہی تھی۔ آس پاس سے گزرتی ماسیاں اور مامیاں مجھے پکارتی ہی رہ گئیں، ’’نشا کی بیٹی کیسے بھاگی جاتی ہے۔‘‘ سانس میرے سینے میں سما نہیں رہاتھا۔ باہر کادروازہ دھڑسے کھول کر میں جاکر ماں سے لپٹ گئی۔

    ’’ماں۔ ماں۔‘‘ اس کے سوا میرے منھ سےاور کچھ نکل نہیں رہا تھا۔

    ’’ارے خیر تو ہے لڑکی کیا ہوا ہے؟‘‘ ماں نے مجھے لپٹا لیا۔ ’’کسی نے مارا ہے؟ کسی شے نے کاٹا ہے؟‘‘

    ’’نہیں نہیں۔‘‘ میں نے سر کو دائیں بائیں پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’وہ آئے ہیں۔‘‘ میں نےاٹک اٹک کر کہا۔

    ’’ارے کون آئے ہیں بول تو سہی۔‘‘ ماں نے مجھے بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا۔

    ’’امام علی تمہارے چاچا امام علی۔ وہ ادھر مسجد میں نانا کے پاس بیٹھے ہیں۔‘‘

    ’’ماں کا رنگ ایک دم زرد ہوگیا، اس کے ہاتھ میرے بازؤں سے پھسل کر بے جان سے اس کے پہلو میں گر گئے جیسے اس کے اندر خوشی کا سناٹا ہوگیا ہو، جیسے یہ سب سے بڑا بوجھ ہو جو میں نے اس کے کندھوں پر ایک دم الٹ دیا ہو۔نانی نے زور سے ہنکارا بھرا، ’’بھئی کون آیا ہے۔‘‘ اس نے حقے کی نے منھ سے نکالی۔ ماں ہولے ہولے قدم اٹھاتی نانی کی طرف چلی۔ اب میں سانس سنبھال چکی تھی۔

    ’’وہ امام علی آئے ہیں ماں کے چاچا۔‘‘ میں نے دور کھڑے ہوکر کہا۔

    ’’تجھ سے کس نے کہا ہے۔ کیا بکتی ہے۔‘‘ نانی نے زور سے کہا۔

    ’’نانا کے پاس مسجد میں بیٹھے ہیں، باتیں کر رہے ہیں امام علی۔‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔

    نانی نے سردائیں بائیں گھماتے ہوئے کہا، ’’وہ امام علی ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ پھر میری طرف مڑ کر کہا، ’’تجھے کیا پتہ امام علی تیری ماں کا چاچا ہے۔ کون یہ قصے کہتا ہے تجھ سے۔‘‘

    ’’ماں کی دادی راتوں کو روتی اور پکارتی تھیں امام علی آوے امام علی۔‘‘میں نے سر اٹھا کر بڑے حوصلے اور دلیری سےماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے سر جھکا لیا۔ وہ اپلوں کو توڑ رہی تھی تاکہ اُن پر دال کی ہنڈیا سہج سہج پکے۔ نانی نے کہا، ’’چل بھاگ یہاں سےجانے کہاں سے اتنی باتیں آگئی ہیں اسے۔ نشا اسے کریما یاد کراؤ، یہ سارا دن ٹک کر نہیں بیٹھتی۔ کھیتوں اور باغوں میں گھومتی ہے۔ باتیں سننے اور ٹوہ لینے کی عادت پڑگئی تو جائےگی نہیں۔ چل جاتختی لے کرآ اور لکھ۔‘‘

    میں مرےمرے قدموں سے اندر گئی۔ کافی دیر کھڑی رہی پھر تختی کو ڈھونڈا اور باہر لاکر اسے ملتانی مٹی سے چمکایا پھر ہل ہل کراسےسکھاتی رہی۔ کلک سے اس پر الف بے لکھتی رہی مگر سارا وقت میرا جی اس بات میں پڑا تھاکہ آخر امام علی جو ماں کا چاچا تھا کیوں واپس نہیں آسکتا۔ وہ آگیا ہے مسجدمیں نانا کے پاس ہے۔ مگر نانی کیوں خفا ہو رہی ہےآخر؟ پھر شام کی نرم ہوائیں کھیتوں پر سے دھان کی خوشبولائیں، ستاروں کے دیے تیزی سے ایک کے بعد ایک جلنے لگے۔ کام سمیٹ کر ماں اور اس کی سہیلیاں، ماں برکتے کی بہوئیں شادو اور اس کی بہنیں مولے والی کی طرف چلیں۔ جہاں ٹیلوں پر روز شام کو مٹیاروں کا ہجوم ہوتا تھا۔ بوڑھی عورتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں اور بہوؤں کے قصے کہتی تھیں۔

    میں نے مودی کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس سے کہا، ’’میں نے تجھے ایک بات بتاتی ہوں بڑے راز کی۔ ماں کا چاچا امام علی آگیا ہے اور مسجد میں نانا کے پاس بیٹھا ہے مگر نانی کہتی ہے وہ آ ہی نہیں سکتا۔ اور وہ بھوت نہیں تھا نہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ وہ باتیں کر رہاتھااور ان کے پاؤں چھو رہا تھا۔‘‘ مودی نے کہا، ’’ ہوسکتا ہے وہ بھوت ہی ہو تمہارےنانا کے پاس سنا ہے جن قابو ہیں۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا، ’’بڑے مزے کی بات ہے نانا کے پاس بھوت آتے ہیں۔‘‘

    ’’اور کیا میری دادی کہتی ہے، مامی خورشید کہتی ہے، پھوپھی شادو کہتی ہے سب کو پتہ ہے۔‘‘مودی نے کانپ کر کہا۔

    ’’نہیں مودی وہ سچ مچ کا امام علی تھا۔‘‘ میرے دل میں عجیب پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی۔

    ’’تم یہاں ٹھہرو میں اپنی دادی سے پوچھ کر آتی ہوں۔‘‘ وہ ٹیلے پر ناچتی ہوئی عورتوں کے گھیرے سے پرے دوسرے گھیرے کی طرف چلی گئی۔ ستاروں کی مدہم روشنی میں گیت اور پاؤں کے لہرئیے غبار کی طرح مولے والی کی مٹی پر گھوم رہے تھے اور مودی کی چھوٹی سی ڈری ہوئی دادی کو پکارتی آواز اسی میلے میں گم ہوئی لگتی تھی۔ میں نے تھوڑی دیر مودی کا انتظار کیا اور پھر دوسری، کی ناچنے والی لڑکیوں کی ٹولی میں رل مل کر گیت گانے کی کوشش کرنے لگی، جن کے بول مجھے نہیں آتے تھے مگر جو مجھے اپنی جھنکاروں کی وجہ سے اچھے لگتے تھے۔ میٹھے رسیلے جیسے گنے کا رس ہو جو ہاتھوں میں اور منہ پر لگ جاتا ہے جس کی بوخواب کی طرح ہوتی ہے، بھلائے نہیں بھولتی۔ ساتھ ساتھ چلتی ہے یا پکتے گڑ کی مہک کی طرح دل میں اتر جاتی ہے اور جان کو مٹھاس سے بھر دیتی ہے۔

    واپس جاتے ہوئے عورتیں ماں سے پوچھ رہی تھیں، ’’نشا تیرا چاچا امام علی سنا ہے آ گیا ہے اور مسجد میں ہے۔‘‘

    ’’اگر چاچا ہوتا تو گھر پیغام آتا۔‘‘ ماں نے ہولے سے کہا۔

    ’’میں نئی نئی بیاہ کر آئی تھی جب امام علی گیا ہے۔‘‘ ماں برکتے نے کہا تو تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی نشا۔

    اندھیرے اور بھیڑ اور غبار میں جو ستاروں کی روشنی میں کم دھندلا تھا، میں نے ماں کی طرف دیکھا جو بہت دکھی لگ رہی تھی۔ اس کے قدم آہستہ اٹھ رہے تھے اور وہ باتوں کے شور میں گم سم ہوگئی تھی۔ ماں کو اپنی دادی کا گھٹی گھٹی آواز میں رونا اور پکارنا اور امام علی آوے امام علی کہنا یاد آرہا ہوگا۔ آدمی اکثر کسی قصور کے بنا بھی بہت دکھی ہو جاتا ہے بہت ہی دکھی۔

    ’’ماں نانا کے پاس جن قابو ہیں۔‘‘ کریما کاسبق سنا کر میں نے پوچھا۔

    ’’تجھے کون یہ سب سناتا ہے۔ تیری نانی ٹھیک ہی کہتی ہیں سارا دن کھیتوں اور باغوں میں گھومتی اور بڑتلے اکیلی کھیلتی ہے۔ یہ کیا قصے تو نے بنارکھے ہیں۔ ‘‘ماں خفا نہیں تھی مگر خفا لگتی تھی۔

    ’’پھر وہ امام علی جو نانا کے پاس آئے کون تھے، کیا جن تھے تیرے چاچا نہ تھے، جن کے لیے روتے روتے تیری دادی مرگئی۔‘‘

    ’’کس نے تجھ سے یہ سب کہا۔‘‘ ماں نے میرے کندھے پکڑ کرمجھے اپنے سامنے کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’’اس رات جب تم سب چرخے کات رہی تھیں اور اسارے میں بچے سورہے تھے تو میں جاگ رہی تھی۔ میں نے تمہاری سب باتیں سن لی تھیں۔ماں نےماتھے پر ہاتھ مار کر کہا، ’’تو تم نے میری بات سن لی تھی۔‘‘ پھر سوچ سوچ کر کہنے لگی، ’’پتہ تو مجھے بھی ٹھیک سے نہیں کہ کیا ہوا مگر سنا ہے کہ تمہارے نانا اپنے چھوٹے بھائی سے کسی بات پر ناراض ہوگئے تھے اور انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔ کہا تھا اس گھر میں اب کبھی نہ آنا اور چاچا نہیں آئے۔‘‘

    ’’کہیں تو ہوں گے وہ کبھی تو واپس آسکتے ہیں۔‘‘ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں منی کبھی نہیں جو ایک بار لکیر سے نکل گیا تو وہ بس گیا۔ پھر وہ واپس نہیں آسکتا۔‘‘ ماں مجھ سے زیادہ اپنے سے بات کر رہی تھی۔ ’’تمہارے نانا بہت غصہ ور اور بات کے پکے ہیں اور یہ سب امام علی چاچا بھی جانتے ہوں گے ان کے واپس آنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔‘‘

    ’’مگر وہ کہیں تو ہوں گے؟‘‘ میں نے پھر ہٹ دھرمی سےکہا۔ ماں نےمجھے کھینچ کر اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا، ’’دادی انہیں پکارتی ہوئی مرگئی۔ روتی روتی چلی گئی۔ سانس بند کرکے وہ گھٹی گھٹی آوازیں دیتی جو اس کے سوا کوئی سن نہ سکتا۔ اب تو لوگ سب بھول گئے ہیں، اس گھر میں کوئی یہ نام نہیں لیتا، کہیں تو کسی دن نانا کے سامنے یہ نام نہ لے دینا۔‘‘

    ’’تمہارے چاچا نے کیا کیا تھا ماں، جو انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔‘‘ میں نے ماں کے گلے میں جھولتے ہوئے کہا۔

    ’’اس کا نصیب ہی ایسا تھا کہ وہ گاؤں کا سب سے سجیلا آدمی سب سےجوان اور باہمت آدمی اس میں سما نہیں سکا۔ کبھی جگہیں سکڑ جاتی ہیں اور آدمی بڑا ہوجاتا ہے۔ پر تو اپنے سبق میں دھیان لگا بھول گزری باتوں کی ٹوہ لگانے کا فائدہ۔ ٹوہ لگانے والے کو تیرے نانا اچھا نہیں سمجھتے۔‘‘ عجیب تھے نانا بھی مگر میں نے ماں سے کچھ نہ کہا اور کریما یاد کرنےلگی۔

    شہر کی اس بستی میں پانی بھرنے پر موہن سنگھ نوکر تھا۔ پرانی بستیوں سے دور اور کارخانوں کے قریب یہ دس بارہ گھر تھے اور درمیان میں بنے پکے کنوئیں کے ساتھ کوٹھری میں موہن سنگھ سارا وقت گنگناتا اور اپنی دکنی بولی میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا۔ محنتی اور نرم خو مضبوط کندھوں پر بڑی بڑی بالٹیاں لٹکائے وہ ساری بہوؤں اور بوڑھیوں کے دکھ سکھ میں بھی شریک رہتا۔ ہر ڈیوڑھی میں اس کے جوتے کی چرچر سنی جاتی۔جن سردیوں کی یہ بات ہے اس سال موہن سنگھ کے کنوئیں کی جگت پر ایک انوکھی سی رسیلی آواز چوڑیوں کی جھنکار کے ساتھ سنائی دیتی تھی۔

    ’’کون ہے وہ تیری؟‘‘ بڑی بوڑھیوں نے اور یہاں تک کہ کسی بات کی بھی ٹوہ نہ لینے والی ماں نے موہن سنگھ سے پوچھا۔

    ’’میری کون ہوتی، جانے کہاں سے آئی ہے بس ایک دن آن کر بیٹھ گئی۔ جگت پر ہی سوتی ہے اور سارا وقت بھجن گاتی ہے۔ کہتی ہے میرا اس جگ میں کوئی نہیں اور میرا جی نہیں پڑتا کہ اسے دھکادوں۔‘‘

    ’’اسے کہیں کسی گھر میں نوکر رکھوا دو۔‘‘ جیوتی بہو نے کہا۔

    ’’نئیں بہوماں میرا اس پر اب اتنا زور بھی نہیں کہ میں اسے نوکری کرنے کا کہوں اور وہ کرلے اپنا کھاتی ہے اور دھرتی تو بھگوان کی ہے۔‘‘

    ’’کیا وہ پاگل ہے۔‘‘ بھابی نے پھر پوچھا۔

    کانوں کی لوئیں چھو کر موہن سنگھ نے کہا، ’’وہ باتیں ہی کب کرتی ہے کہ اس سے پوچھوں، ہاں آواز کوئل کی سی ہے وہ تو آپ نے سنی ہوگی؟ جو کچھ کہتی ہے تو کہتی ہے میں اپنے مرلی منوہر کو کھوجتی ہوں کنہیا مجھے چھوڑ گئے جانے کہاں نکل گئے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں جانے کیا کھوجتی اور کیا دیکھتی ہیں وہ پاگل نہیں ہے بالکل نہیں ہے۔‘‘

    جب میں نے اسے دیکھا تو سفید بالوں کے باوجود وہ نہایت خوبصورت تھی مگر اس کے جسم میں سے لگتا تھا آگ کی لپٹیں نکل رہی ہیں۔ شعلوں سے بنی ہوئی لگتی تھی۔ نازک سے ہاتھ رنگ میں ڈوبے سفید پاؤں، وہ ایسی تصویر تھی جس پر سے وقت گزر گیا ہو۔ پھر اس نے ہماری باہری چوکھٹ پر آکر بیٹھنا شروع کردیا۔ وہ رنگوں سے لکیریں کھینچتی ان کو مٹاتی اور بناتی رہتی مگر پاگل وہ نہیں تھی۔ کبھی گھر کے اندر چلی آتی، ہر طرف دیکھتی، آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہتی اور پھر آپ ہی آپ باہر نکل جاتی۔ ہم اس کے یوں آنے اور چلے جانے اور بیٹھے رہنے کے عادی ہوگئے تھے۔

    برسات اس سال بہت گھن گرج سے آئی تھی۔ طوفان اور جھکی ہوئی سیاہ گھٹائیں جو گھروں کے اندر گھسی چلی آئیں۔ گاؤں کی طرف جانے والے سارے راستے بند ہوگئے اور ماں بولائی بولائی پھرتی اب کیا ہوگا، ارے ان دو بوڑھے آدمیوں کا کیا ہوگا جن کا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ ماں بادلوں کو دیکھ کر ہاتھ ملتی۔

    ’’ماں اگر چاچا امام علی ہوتے تو نانا کا کوئی تو ہوتا، انہوں نے یونہی انہیں گھر سے نکال دیا۔‘‘ میں نے ایک دن بڑی ڈھٹائی سے کہا۔

    ’’تجھے کیا پتہ لڑکی! عزت کی خاطر اصولوں کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ محبت کی ایک انتہا ہوتی ہے کہ آدمی بھول نہیں سکتا، معاف نہیں کرسکتا بھلا نہیں سکتا۔‘‘ ماں بہت ہی دکھی ہوگئی تھیں اور میں نے سوچا اب میں ہرگز چاچا امام علی کا نام نہیں لوں گی۔ مگر ایسی برسات میں کون مسجد تک ان کا کھانا لے کر جاتا ہوگا؟ کوئی ہو تو سہارا رہتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے یونہی میں نے باہر کادروازہ کھولا تو دروازے کے ساتھ لپٹی بیل کی طرح وہ کنہیا کی رادھا کواڑ کے ساتھ ساتھ اندر جھک گئی۔

    ’’آؤ رادھے آؤ کئی دن سے تم دکھائی نہیں پڑیں۔‘‘

    ’’برسات میں کون گیت گا سکتا ہے بی بی، بڑا دم گھوٹنے والا وقت ہوتا ہے، گاؤں کے راستے بند ہوجاتے ہیں کہیں کوئی آجا نہیں سکتا، سانس مشکل سے آتا جاتا ہے۔‘‘

    ’’تمہارا کون سا گاؤں ہے؟‘‘ میں نے فرش پر اس کے برابر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’تھا ایک جو میرا ہوسکتا تھا مگر نہیں ہوا۔‘‘ اس نے بڑے دکھ سے کہا۔

    ’’کیوں نہیں ہوسکا تمہارا؟ عجیب بات کہتی ہو گاؤں میں جاکر رہو تو گاؤں اپنا ہو ورنہ نہیں۔‘‘ میں نے جوش سے کہا۔ میرا جی چاہتا تھا وہ مجھ سے باتیں کرے، مجھے بتائے وہ کون تھی اور ایسی بہت سی باتیں جو کہانیوں کی طرح اس کے گرد پھیلی تھیں۔ نانی نے ٹھیک کہا تھا ٹوہ لینے کی میری عادت اب پکی ہوگئی تھی۔

    ’’گاؤں نے مجھے قبول ہی نہیں کیا۔ باہر پھینک دیا جیسے میں کوڑے کا ڈھیر تھی۔ اور اس میں کسی کابھی کوئی قصور نہ تھا نہ اس کا اور نہ میرا۔‘‘ اس نے اپنے رنگے ہوئے ہاتھوں کی طرف غور سے دیکھا۔

    ’’وہ دوسرا کون تھا؟‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا۔

    ’’دوسرا وہی جو دوسرا نہیں تھا۔ جو کبھی دوسرا نہیں تھا۔‘‘ اس نے سر گھٹنوں پر رکھ لیا۔ سیندور کی دھار بالوں میں گہری تھی۔ماں نے پوچھا، ’’یہ یوں کیوں بیٹھی ہے۔‘‘

    ’’کہتی ہے اس کا کوئی گاؤں تھا۔ پتہ نہیں کون گاؤں تھا۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔

    ’’بی بی جب گاؤں نے مجھے پھیر ہی دیا تو اس کا کیا نام ہوگا، دنیا کا کوئی کونا۔‘‘ اس نے سر اٹھایا تو آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ وہ جانے کے لیے اٹھی۔

    ’’بیٹھو رادھا۔‘‘ ماں نے کہا،’’چلو اور باتیں کریں۔‘‘

    وہ ہنسی تو اس کے دانتوں کی لڑیاں چمکیں، باریک گلابی ہونٹ ہنسے، ساراچہرہ ایک دم کھلا جیسے چاندنی میں شبنم بھرا پھول۔

    ’’بھلا کیا باتیں کروگی؟ کیا کوئی بات مجھے خوش کر سکتی ہے، وہ زندگی لوٹا سکتی ہے۔ جب وہ دن پھیرے نہیں جاسکتے تو بے فکری کے اس کے ساتھ گزارے دن تو پرماتما بھی نہیں لوٹا سکتا۔ نہیں پرماتما بھی نہیں سمجھیں۔‘‘ اور اس نے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کے گرد گھیرا باندھ لیا جیسے سخت غصے میں ہو اور لڑنےکی تیاری کر رہی ہو۔

    ’’صرف تم ہی دکھیا نہیں؟ رادھا دنیا میں اور لوگ بھی ہیں پریشان اور غموں میں ڈوبے۔‘‘ ماں نے کہا۔پھر ہم تینوں نے طوفان کی گرج کو سنا۔ ہوا اپنی بھیگی اوڑھنی کو جھٹکاتی تیزی سے اندر آئی اور سب کو گیلا کرگئی۔

    ’’میں چلوں گی۔‘‘ رادھا نے اٹھتے ہوئے کہا۔

    ’’ایسے میں تو کوئی کسی دشمن کو بھی گھر سے جانے کا نہیں کہتا۔ طوفان غصہ وردیو کی طرح پھنکار رہاہے۔ موہن سنگھ کے کنوئیں تک جاتے جاتے کہیں تم اڑ ہی نہ جاؤ اتنی دھان پان ہو تم۔‘‘ رادھا منہ کھولے، آنکھیں کھولے حیرت سے ماں کو دیکھ رہی تھی اور لگتا تھا سانس اس کے گلے میں اٹک جائے گی۔ پھر وہ دھم سے فرش پر یوں بیٹھی جیسے اپنے آپ کو بکھیرنے سے بچانا چاہتی ہو۔

    ’’تم کون ہو۔‘‘ اس نے ماں سے پوچھا۔ اور موہن سنگھ کہتا تھا وہ پاگل نہ تھی۔ وہ کیا تھی، کیوں اتنی بے چین تھی۔ پھر اس نے اپنے بالوں پر پلو کو کھینچ کر ہٹایا۔ ’’یہ دیکھتی ہو، یہ سہاگ رنگ میں اب بھی اس کی راہ دیکھتی ہوں، پتہ نہیں اسے میں یاد ہوں کہ نہیں مگر مجھے لمحہ لمحہ رتی رتی سب یاد ہے۔ اس کی نگاہوں کے لہریے اس کی سجیلی آواز، وردی میں اس کا دمکتا ہوا چہرہ، چنچل، ہنسوڑ، مدھ بھری آنکھوں والا۔ میں اس سے ملنے سے پہلے چمپا تھی بے فکر آزاد باپو کی پان کی دکان کو چلانے والی۔ سگرٹ کی پنی میں لپیٹ کر جب پہلے پہل میں نے پان اسے دیا تو وہ ہنسا تھا اور مجھے اچھا لگا تھا۔‘‘

    ’’یہ تو کوئی بڑی بات نہ تھی۔‘‘ ماں نے کچھ کہنے کے لیے کہا۔

    ’’ارے یہ بڑی بات ہی نہ تھی۔‘‘وہ بہت خفا ہوگئی۔ ’’کوئی کسی کے جی کو اچھا لگے تو بہت بڑا ہوتا ہے۔ بی بی اچھا لگنا بہت بڑا ہوتا ہے مگر اس میں اس کا کیا دوش تھا۔ میں نے اس سے کہا تھا تم روز آیا کرو تم مجھے اچھے لگتے ہو۔ پھر اس نے وہ راستہ چھوڑ دیا۔ میں پاگلوں کی طرح ہر آنے والے کی طرف دیکھتی۔ میرا رنگ زرد ہوگیا۔ ایک آگ تھی جس سے میرے دن اور رات جلتے تھے۔ میں باتیں بھولنے لگی، گاہکوں کی بات دھیان سے نہ سنتی جیسے میرا سارا جسم چتا بن گیا ہو، نیند اور بھوک مجھ سے بھاگ گئیں۔ میرے ماں نہیں تھی گھر پر میرے اور باپو کے سوا کوئی نہ تھا، میرا سننے والا کوئی نہ تھا کس سے اپنے دکھ کہتی۔ ہائے میں تو کہیں کی نہ رہی تھی کچھ کر نہ سکتی تھی!

    پھر ایک دن میں نے اسے دیکھا۔ میں نے کہا، ’’میں تمہارے ساتھ جاؤں گی میرا من تمہارے بنا نہیں لگتا۔ میرا من کہیں بھی نہیں لگتا۔ تم مجھے نہیں لے گئے تو میں جان دے دوں گی، تمہیں نہیں دیکھتی تو جیوں گی کیسے۔ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔‘‘ اس نے کہا، ’’رادھا تمہارے اورمیرے درمیان یہ سب اتنا آسان نہیں۔ میرے بھائی ہیں، ماں ہے اور بہت سی گھاٹیاں ہیں۔ اڑچنیں ہیں۔ تم میرا پیچھا مت کرو سکھی رہو گی۔ وقت تمہاری مدد کرے گا، مجھے بھول جاؤگی، کوئی کسی کو ایک سی شدت سے نہیں چاہا کرتا۔ تم میری زندگی میں مت آؤ۔ کوشش کرو اور بھول جاؤ اسی میں سکھ ہے۔‘‘ مجھے سکھ نہیں چاہیے تھا۔ مجھے سکھ کی کب تلاش تھی۔ میں تو بس اسے دیکھتے رہنا چاہتی تھی۔ اس کے قدموں کی دھول بن کر جینا چاہتی تھی۔

    ’’رادھا مجھے بھی تو جینے کا حق ہے اور تمہارے ساتھ زندگی ناممکن ہے بہت ہی ناممکن۔‘‘ اس نے کہا تھامگر میں اس کے پاؤں سے لپٹی رہی۔ میں سمجھنے اور سوچنے کی منزلوں سے آگے نکل گئی تھی۔ مجھے اس جلن سے بچنا تھا، جو اس کے بنا میرے جی کو لپیٹ لیتی تھی۔ میں اس کے پیچھے چلی آئی۔ ہائے اب یاد آتا ہے وہ کتنا دکھی تھا مگر میں تو دیوانی تھی۔ میں نے اسے دیکھا ہی کب تھا۔ میرا اپنا آپ ہی میرے لیے سب کچھ تھا۔ راستے میں اس نے مجھے ایک چادر خرید کر دی اور مسجد میں لےگیا۔ پھر ہم اسٹیشن آئے اور گاڑی میں بٹھا کر وہ بولایا بولا یا بڑا گھبرایا ہوا سا جیسے ڈھے گیا ہو۔ پلیٹ فارم پر پھرتا رہا۔ اور اس گھڑی خوف سے میں کانپ رہی تھی۔ ہائے میں نے اسے کتنا دکھی کردیا تھا۔ گاؤں کارستہ لمبا تھا۔ وہ خیالوں میں گم تھا۔ نہ ہنستا تھا نہ بولتا تھا، نہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تھا، پتہ نہیں وہ کتنا خفا تھا جانے وہ کیوں اتنا خفا تھا؟

    جب ہم نہر کے ساتھ گاؤں کی طرف اترے ہیں تو پہلی بار اس نے کہا، ’’رادھا اب تم میری بیوی ہو، میری عزت ہو۔ اس چادر کو اچھی طرح لپیٹ لو تم کسی سے کچھ نہیں کہو گی سارے سوالوں کے جواب میں دوں گا۔ تم چپ رہو گی مگر گھبرانا نہیں میں نمٹ لوں گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں مصیبتیں آئیں گی تو خود ہی لوٹ جائیں گی۔‘‘ میرے جی کو بہت ڈھارس ہوئی۔ وہ کتنا نرم مزاج تھا اور اجنبی ہونے پر بھی مجھے تکلیف سے بچانا چاہتا تھا۔ میرا دل ٹھہرے ہوئے پانی پر تیرتے کنول کی طرح لگا کھلا ہوا اور دھوپ میں ڈولتا ہوا پیار کے سمندروں پر بہتا ہوا۔

    گاؤں کے جس آنگن میں مجھے لے جایا گیا وہ خوب بڑاتھا۔ گھر میں ساس اور بہو کے سوا کوئی نہ تھا۔ ساس نے مجھے ایک کوٹھری میں بٹھایا۔ تو میرے بیٹے کے لیے آئی ہے نا مجھے سدا پیاری رہے گی۔ مگر دیکھ ابھی باہر مت نکلنا۔کسی سے کچھ مت کہنا۔ جو بہوئیں اور بیٹیاں تم سے ملنے آئیں ان سے زیادہ باتیں نہ کرنا۔ پھر اس نے مجھے گہنے لاکر پہنائے ساڑھی اترواکر گھاگرا پہنایا، بالوں میں سونے کے پھول پروئے ماتھے پر ٹیکا لٹکایا۔ میں چمپا سے رادھا اور رادھا سے دلہن بن گئی۔

    دس دن جو میں نے اس گھر میں کاٹے میری زندگی کے درخت پر پھول ہیں۔ ساس مجھے کتنا چاہتی تھی اس کی بھابی مجھے کتنا چاہتی تھی۔ گاؤں کی بہوئیں مجھے کتنا چاہتی تھیں اور وہ مجھ سے بندھا تھا۔ میں اس کی حفاظت میں تھی۔ اپنا بوجھ اس کے کندھوں پر رکھ کر میں کتنی سکھی ہوگئی تھی اور خوشی میں مکمل۔ ہائے وہ چاہتوں سے بھرا گھر خواب میں بنے محل کی طرح آنکھ کھلنے پر مجھے سے چھن گیا۔ جب آنکھ کھلی تو کچھ نہ تھا۔ وہ اسے اور مجھے سپاہیوں کے گھیرے میں شہر لے آئے۔ باپو نے میرے آگے ہاتھ جوڑے، میرے پاؤں پر پگڑی رکھی، انجانے لوگوں نے مجھے سمجھایا۔ مگر عدالت میں میں نے بیان دیا کہ وہ مجھے اچھا لگتا تھا۔ میں اس کی بیوی تھی۔ باپو سے میرا کوئی ناتہ نہ تھا۔

    میں اس گھر کی بہو تھی اورخوش تھی۔ میں خود اس کے پیچھے گئی تھی میں اس کے بناجی نہیں سکتی تھی۔ مگر میرے اس بیان سے شہر میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں زبردست دنگا ہوا۔ کئی لوگ مارے گئے، کئی جگہ آگ لگی۔ پوری زندگی الٹ پلٹ ہوگئی۔ میں جو ایک معمولی پنواڑن تھی کہانیوں کی راج کماری بن گئی۔ مقدمہ چلا اور اسے سزا ہوگئی۔ مجھے ایک دھرم شالہ میں رہنے کے لیے بھجوایا گیا۔ مگر میں وہاں سے بھاگ آگئی۔ جیل کے گرد اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے میں نے چکر لگائے۔ دروازوں کے ساتھ سر کو ٹکرایا۔ میرا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ ان دنوں میں سچ مچ دیوانی ہوگئی اور پھر میں گاؤں گئی۔

    ایسی ہی برسات تھی۔ ایسے ہی دن تھے۔ سارے راستے بند تھے۔ مجھے اس آنگن تک پہنچنا تھا جس میں اس کے پیچھے چاہت ہی چاہت ملی تھی۔ اس کواڑ کو پکڑ کر میں بھکارن کی طرح کھڑی رہی، کھڑی ہی رہی۔ اس کی ماں نے میری طرف دیکھا تک نہیں جیسے میں وہاں تھی ہی نہیں۔ میرا اس گھر سے کیا ناتا تھا؟ بارش میں بھیگتے دیکھ کر اس کی بھابی نے کہا جو تونے کرنا تھا سو کردیا یہ گھر برباد ہوگیا۔ وہ اب کبھی لوٹ کر یہاں نہیں آسکتا۔ بھلا تو کیوں اپنا وقت برباد کر رہی ہے۔ جہاں سے آئی ہے وہیں لوٹ جا۔ اس گاؤں میں جب اس کے لیےجگہ نہیں تو تو کہاں رہ سکتی ہے۔

    وہ شام میری زندگی کی آخری شام تھی۔ جب میں نے بادلوں کی سرخی میں اس آنگن سے اٹھتا اپلوں کا نیلا دھواں دیکھا اور چڑیوں کو اولوں کی طرح برس کر بیٹھتے اور ہوا کے جھونکوں کی طرح اٹھتے دیکھا۔ وہی ایک آنگن جو میرا دل تھا، وہ ایک آنگن پھر اندھیرے میں ڈوب گیا اورمیں گم ہوگئی، گم ہی ہو گئی۔ جب وہ جیل سے چھٹا ہے تو جانے کہاں گیا۔ میں نے ساری عمر ایک ایک چہرے کو تکتے گزاری ہے۔ غور سے دیکھتے اسے کھوجتے مگر وہ تو دنیا کی بھیڑ میں رل مل گیا۔ مجھے کہیں دکھائی نہیں پڑا۔ اور میں نہ پنواڑن چمپار ہی نہ اس کی رادھا، نہ ساس کی پیاری۔ میں کون ہوں بھلا میں کون ہوں۔ اس نے چوڑیوں سے بھری بانہوں کو پھیلایا اور چاروں طرف دیکھا۔ ماں نے اٹھ کررادھاکے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور دونوں چیخ چیخ کر رونےلگیں۔

    گاؤں سے جو پہلی خبر آئی وہ اسی برسات میں مکمل تباہی کی تھی۔ نانا کا مکان ڈھے گیا تھا۔ نانی مامے دلاور کے گھر میں تھیں، نانا مسجد میں بیمار تھے۔ ماں تڑپ تڑپ کر روئی اور جب راہ ذرا خشک ہوئی پانی اترا تو ہم گاؤں آئے۔ ہر طرف ویرانی اور اداسی تھی۔ لوگ اپنےگھر بڑے اَن منے دل سے اٹھارہے تھے اور تھکے ہوئے ہارے ہوئے لگتے تھے۔ ناناکا گھر بنانے والا کوئی نہ تھا۔ ماں مٹی کے ڈھیروں کے پاس کھڑی آنسو بہاتی رہی۔ نانی نے کہا، ’’نشا مقدر سے کون لڑسکتا ہے مگر کوئی صورت نکل آئے گی پریشان نہ ہو۔‘‘ مامے دلاور کا گھر مجھے پرایا پرایا سا لگا، گھٹا گھٹا سا۔ میں سونے کے لیے مودی کی طر ف چلی گئی جہاں رات میں نے انہیں چاچا امام علی کی بیوی کی باتیں بتائیں۔ ماں برکتے اور مودی کی ماں بھی ہمارے پاس بیٹھی رہیں۔

    ’’بڑی بدقسمت لڑکی تھی وہ، ساری زندگی اس پر چھائیں کےلیے گزاردی۔ مانگ میں رنگ سجائے پھرتی ہے اور وہ اس کی راہ دیکھتی ہے، جو کبھی اس کی راہوں سے نہیں گزرے گا۔‘‘

    ’’مگر آخر وہ کیوں نہیں آسکتا۔ میری ماں کا چاچا امام علی۔‘‘ میں نے بڑے دکھ سے پوچھا۔

    ’’تمہارے نانا کا مزاج بالکل دوسرا ہے وہ قرآن پاک تو سمجھ سکتے ہیں مگر دل کی بات نہیں سمجھ سکتے۔ امام علی بڑے دل گردے کا جوان تھا۔ ایک لڑکی کی بات پر اس نےاپنی زندگی برباد کردی۔ مقدمےکے بعد تمہارے نانا نے اسے گھر آنے سے منع کردیا۔ جانے اب کہاں ہوگا۔ اتنی بڑی دنیا میں کہیں نہ کہیں تو ہوگا ہی۔‘‘ ماں برکتے بڑے افسوس سے یہ سب کہہ رہی تھی۔ ہم چپ چاپ بیٹھی رہیں، یہاں تک کہ گلی میں ہل لے کر جانے والے لوگوں کے قدموں کی چاپیں ابھریں، پھر مرغ اذانیں دینے لگے، چڑیاں چوں چوں کرکے درختوں پر جاگیں کتے بھونکے اور سویرا ہونےلگا۔

    پتہ نہیں دل کی بات کبھی کسی کی سمجھ میں آتی بھی ہے کہ نہیں اور مقدر بنانے والا جانے کیا بناتا اور کیوں بناتا ہے۔ دیوانگی اور فرزانگی میں کیا باریک فرق ہے۔ نانا ان باتوں کا جواب دے سکتے ہیں۔ وہ مسائل کا حل جانتے ہیں مگر دل کی بات کیا سمجھیں گے کیا جانیں گے؟

    مأخذ:

    نیا دور، کراچی (Pg. 76)

      • ناشر: ثناء اللہ
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے