aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاہ محمد کا ٹانگہ

علی اکبر ناطق

شاہ محمد کا ٹانگہ

علی اکبر ناطق

MORE BYعلی اکبر ناطق

    میں دیر تک بوسیدہ دیوار سے لگا، تانگے کے ڈھانچے کو دیکھتا رہا، جس کا ایک حصہ زمین میں دھنس چکا تھا اور دوسرا ایک سوکھے پیڑ کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا، جس کی ٹُنڈ مُنڈ شاخوں پر بیٹھا کوا کائیں کائیں کر رہا تھا۔ کچھ راہ گیر سلام دعا کے لیے رُکے لیکن میری توجہ نہ پا کر آگے بڑھ گئے۔ مجھے اُس لکڑی کے پہیے اور بمبو کے ڈھانچے نے کھینچ کراچانک تیس سال پیچھے لے جا پھینکا۔

    لَے بھئی جوان! شاہ محمد نے چھانٹے کی لکڑی تانگے کے پہیے سے ٹکراتے ہوئے بات شروع کی، اُن دنوں مَیں ممبئی میں تھا اور جوانی مجھ پر پھوٹی پڑتی تھی اور خون تازہ تھا۔ بس وہ کار جاپان سے بن کر نئی نئی ہندوستان پہنچی تھی کہ مَیں نے خرید لی، اس بات کے دوران اُس نے چھانٹا پھر گھومتے ہوئے پہیے کے ساتھ لگا دیا، جس کی رگڑ سے گڑررر گڑررر کی آواز پیدا ہوئی اور گھوڑا مزید تیز ہو گیا، اور لگا ممبئی کی سڑکوں پر دوڑانے۔ میاں جوانی اندھا خون ہوتا ہے، ٹیلے، گڑھے نہیں دیکھتا، رگوں میں شراب کی طرح دوڑتا ہے، اور میری کوئی جوانی تھی؟ شہابی رنگ تھا، پھر گاڑی کا ہاتھ آ جانا قیامت ہو گیا، سوار ہو کر سڑک پر آتا تو لوگ کناروں سے جا لگتے، کہتے بھائی! اوٹیں لے لو اوٹیں، شاہ محمد قضا پر سوار چلا آتا ہے۔ اُن دنوں کار پرسواری بٹھانا شرم کی بات تھی اِس لیے اکیلا ہی گھومتا۔ ممبئی کے رش کا تو آپ کو پتا ہی ہے، لیکن میں نے کہا، شاہ محمد بات جب ہے، جب تُو گاڑی بھری سڑک پرہوا کی طرح چلائے۔ پھر تھوڑے ہی دنوں میں سرکس والوں کو پچھاڑنے لگا۔

    تو کیا چا چا آپ گاڑی لے کر سرکس میں کام کرنے لگے تھے؟ مَیں نے حیران ہوکر سوال کیا۔

    او میر ے بھتیجے! شاہ محمد نے گھوڑے کو چھانٹا مار کر مزید تیز کر دیا، سر کس والی بات تو میں مثا ل دینے کے لیے کر رہا ہوں۔ میرا اُن مداریوں سے کیا تعلق؟ وہ بچارے تو پیٹ بھرنے کے لیے یہ دھندا کرتے تھے، روزی روٹی کی تھوڑ اُن کو موت کے رسوں پر چلاتی ہے۔ اِدھر تجھے تو پتا نہیں، پر اللہ بخشے تیرا دادا میرے باپ کو جانتا تھا۔ ہم پُرکھوں سے نواب تھے۔ لاکھوں ہی روپے اِن ہاتھوں سے کھیل تماشوں میں جھونک دیے۔ خیر چھوڑ اِن باتوں کو، بات جاپانی کار کی ہو رہی تھی۔ ممبئی کی سڑکوں پر دوڑاتے دوڑاتے پورا سپرٹ ہو گیا اور حد یہ ہوئی کہ چلتے ہوئے بڑے ٹرالروں کے نیچے سے گزارنے لگا۔ یوں ایک چھپا کے سے چلتے ٹرالر کے درمیان سے نکل جاتا، جیسے بھوت اُڑ جائے۔ ممبئی میں میری مثالیں بن گئیں۔

    اب میرے کان کھڑے ہوئے۔ میں نے شدید حیرانی سے پوچھا، وہ کیسے چاچا شاہ محمد؟

    ہاہاہا، شاہ محمد نے مونچھ پر ہاتھ پھیر کر گھوڑے کو برابر تھپکی دی اور بولا، جوان یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آسکتی، بس تُو چپ کر کے سنتا جا۔ ایک دن عجیب قصہ ہُوا، مَیں کار میں جا رہا تھا، قدرت خدا کی دیکھو، و ہ واحد دن تھا جب میری رفتار ہلکی تھی۔ کیا دیکھتا ہوں، سڑک کنارے ایک آدمی نڈھال اور بُرے حال میں زخمی بھاگا جا رہا ہے۔ محسوس ہوتا تھا، ابھی گِرا۔ اُس کے پیچھے پولیس ہُوٹر مارتی چڑھی آ رہی تھی۔ مَیں نے سوچا، بچارا مارا جائے گا، کچھ خدا ترسی کر دے۔ اُسی لمحے مَیں نے کار اُس کے پاس لے جا کر کھڑی کی اور کہا بھئی جلد بیٹھ جا۔ لَو جی، اِدھر وہ کار میں بیٹھا، اُدھر مَیں نے ریس دبا دی، گھوڑے کو ایک اور چھانٹا، اب پیچھے پولیس اور اُس کی ہوٹریں اور آگے مَیں۔ وہ بندہ بہت گھبرایا کہ ابھی پکڑے جائیں گے۔ اب اُس بھڑبھوسیے کو کون بتائے کہ وہ کس کے ساتھ بیٹھا ہے؟ پھر میری طرف دیکھ کر مسکرایا، مَیں تو جانتا تھا، بیچاری ممبئی پولیس کی کیا اوقات ہے، سو سال ٹریننگیں لے پھر بھی میری ہوا کو نہ پہنچے۔ ٹکے ٹکے کے سپاہی روٹی روزی کی مصیبتوں میں پھنسے، مقابلہ کرنے تھوڑی بھرتی ہوتے ہیں۔ بچاروں نے رزق کا پھندا لگایا ہوتا ہے، ہمارا کیا مقابلہ کریں گے۔ اب ممبئی کی سڑکیں تھیں، ہماری کار تھی اور پولیس کی دس گاڑیاں۔ مَیں نے چلتے ہوئے پوچھا، بھائی کیا لفڑاکر کے بھاگے ہو، کہِ اتنے غنڈے پیچھے لگا لیے؟ تحمل سے بولا، سیٹھ بھیم داس کھتری کی تجوری لوٹی ہے، کھتری کے چاقو بھی لگ گیا، اب بُرا پھنسا ہوں، پکڑا گیا تو سیدھا پھانسی گھاٹ فلائی ہو گی۔ میرے تو ہوش کی ایسی تیسی پھِر گئی۔ او تیرے مُردوں کی خیر۔

    بھیم داس کھتری کروڑوں کا مالک۔ پورے ممبئی میں اُسی کے اُدھار سود کا سکہ چلتا تھا۔ اُس کی تجوری لوٹنے کا مطلب تھا راتوں رات سیٹھ بن جانا۔ مَیں نے پوچھا، مگرتم تو خالی ہاتھ ہو؟ بولا، ابھی چندرا کھیم کے پُل نیچے پھینک آیا ہوں، بس ایک دفعہ اِن لفنگوں سے جان چھڑا دو، تمھیں مالامال کردوں گا۔ مجھے غصہ تو بہت آیا کہ یہ کون ہوتا ہے ہم نوابوں کو مالا مال کرنے والا؟ مگر اُس کی ناسمجھی دیکھ کرغصہ پی گیا، البتہ ریس پر پاؤں کا دباو مزید بڑھ گیا، جس کی وجہ سے کار اب چلتی نہ تھی گویا اُڑتی تھی۔

    اتنے میں ایک بکریوں کا ریوڑ سڑک سے گزرنے لگا اور شاہ محمد کو گھوڑے کی لگام کھینچنا پڑی، اس کے ساتھ اُس کی داستان بھی رُک گئی، وہ بدمزگی سے بولا، یار یہ اَیالی لوگ بھی خدا جانتا ہے زلزلے کی گھڑی پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں سے گزرتے ہیں ہر چیز کا ناس پھیر دیتے ہیں۔ سڑکیں تو اِن کے باپ کی ہوتی ہیں، جو اپنے نام لکھوا لیتے ہیں۔ دیکھ، کس سکون سے کاپا کاندھے پر رکھے اکڑتا جا رہا ہے، جیسے نادر شاہ کا سالا ہو۔

    ایالی کو آواز دیتے ہوئے، او بھائی جلدی کر، گھوڑا بدکتا ہے، بھیڑوں کو جلدی ہانک لے، اُف خدا وندا کیسا شیطانی آنت کا ریوڑہے؟ ایالی نے گویا شاہ محمد کی آواز سُنی ہی نہیں، اُسی بُردباری سے سڑک کے درمیان چلتا رہا۔

    شاہ محمد پریہ دورانیہ صدیوں پہ محیط ہو گیا مگر انتظار کے سوا کیا کرسکتا تھا؟ قصہ سننے کی بے چینی مجھے بھی تھی لیکن میری طبیعت میں ذرا اطمینان تھا۔ خدا خدا کر کے تانگے کے گزرنے کا رستا بنا تو شاہ محمد نے شکر کا کلمہ پڑھا اور دوبارہ گھوڑے کو چابک دکھایا۔ گھوڑے نے چال پکڑی تو مَیں نے کہا، چاچا پھر آگے کیا ہوا؟

    یار اِس ایالی نے بات کا مزا ہی ہوَاکر دیا۔ خیر، تو بھائی مَیں کہہ رہا تھا، مجھے اُس دمڑی گیر کی بات پربہت غصہ آیا لیکن یہ سمجھ کر پی گیا کہ نا سمجھ ہے، جانے دو۔ گاڑی، پتا نہیں کتنے میل کی سپیڈ پر تھی، میٹر کی سوئی پر تو مَیں نے نظر نہ کی، البتہ پہیے کبھی زمین پر لگتے تھے، کبھی نہیں، عین اُسی لمحے ہمارے سامنے بہترانچ کے پہیوں والے دو ٹرک آگئے۔ ایک دائیں سے، ایک بائیں سے۔ اب کیا تھا، پیچھے پولیس، آگے دو ٹرک اور سڑک تنگ۔ مَیں نے کہا، لے بھئی شاہ محمد یہی وقت ہے عزت بچانے کا، اب پرائی مصیبت سر پر لی ہے تو اُسے بھُگت اور کھیل جا جان پر۔ لو جی، مَیں نے فوراً ہی فیصلہ کیا۔ اُسے کہا، کاکا مضبوط ہوجا اور پھُرتی سے کار کو ایک ٹرک کے نیچے سے گزار کر سڑک کے دوسری طرف ہو گیا۔

    ٹرک کے نیچے سے؟ چلتے ٹرک کے نیچے سے؟ اُف میرے اللہ، مجھ پر گویا حیرانی کا دورہ پڑ گیا۔ اگر کُچلے جاتے تو پھر؟

    ہاہاہاہاہا، بیٹا اِسی کا نام تو ہشیاری اور کاریگری ہے، شاہ محمد نے سینہ فخر سے پھلاتے ہوئے کہا، اِن کاموں میں پلک جھپکنے کا حساب رکھنا پڑتا ہے، لمحے بھر کی غلطی ہوئی نہیں کہ بندہ اللہ ہُو ہو جاتا ہے۔

    بہر حال آگے سُن، دیکھا تو آگے سڑک ہی نہیں تھی، لمبی اور گہری کھائی تھی۔ بیلیا! یہاں بھی مری حاضر دماغی کام آئی، مَیں نے ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں ہینڈل کو دوسری طرف گھما دیا۔ بس یہ سمجھ لو، اُس وقت میری پھُرتی سلیمان پیغمبر کے وزیر سے بھی زیادہ تھی، جو آنکھ جھپکنے سے پہلے یمن سے بلقیس کا تخت اُٹھا لایا تھا۔ میری اِس تیزی سے یہ ہوا کہ کار دائیں جانب کے دو پہیوں پر ہو گئی۔ اب وہ کھائی سے تو بچ گئی لیکن سکوٹر کی طرح ایک طرف کے پہیوں پر ہی دوڑتی گئی، قہقہہ مارتے ہوئے، بھائی وہاں تو اچھا خاصا تماشا بن گیا۔ ممبئی کی خلقت بھاگ کر سڑک کے کنارے جمع ہوگئی، گھوڑے کو چھانٹا ہوا میں لہراکر تیز دوڑایا، مَیں نے سوچا، ہماری تو جان پر بنی ہے اور اِنہیں دیکھنے کو کھیل مل گیا۔ اب گاڑی کی رفتار اتنی تھی کہ بچارے میٹر کی سوئی کے بس سے باہر ہو گئی، اگر اُسی وقت چار پہیوں پر کرتا تو اُلٹ جاتی۔ مَیں نے سوچا، اِسے اِسی طرح جانے دو۔ وہ بھڑوا ایک دفعہ بولا، بھائی اِسے سیدھی کر لوورنہ مر جائیں گے۔ مَیں نے فوراً ڈانٹ دیا، نالائق چپ رہ، جس کام کا پتہ نہیں، درمیان میں نہیں بولتے، کار کو تین میل تک اسی طرح دو پہیوں پر رکھا اور بھوتن کی طرح نکل گیا۔ جوان، کیا زمانے تھے اور ایک یہ دن ہیں، ایالی رستہ نہیں دیتے۔ شاہ محمد کی بات جاری تھی کہ گاؤں آگیا۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر بولا، لے بئی جوان باقی قصہ کل پر۔ مَیں چھلانگ مار کر تانگے سے نیچے اُتر گیا۔

    یہ میرا مقامی شہر تھا۔ مَیں اسلامیہ ہائی سکول میں چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی بھاگتا ہوا گیٹ سے با ہر نکل آتا۔ یہاں سے پچاس قدم پر وینس چوک تھا، اُس سے گزر کر تانگوں والے اڈے پر آ جاتا اور شاہ محمد کے تانگے کی اگلی سیٹ پر جم کر بیٹھ جاتا۔ بعض دفعہ سواریاں کم ہونے کی وجہ سے مجھے اڈے پر کافی دیر بیٹھنا پڑتا۔ تانگوں والا اڈا چار کنال رقبے پر محیط تھا اور سارا کا سارا مسقف تھا۔ چھت، جو لکڑی کے شہتیروں اور آنکڑوں پر سر کنڈوں کی پر تلیں بچھا کر تیار کی گئی تھی، سر سے ذرا ہی اُونچی تھی۔ یعنی تانگے پر بیٹھا آدمی آسانی سے ہاتھ بلند کر کے اُسے چھو سکتا تھا۔

    گرمیوں میں ستونوں کے ساتھ سُوتی بوریاں لٹکا کر اُن پر پانی چھڑک دیا جاتا کہ ہوا ٹھنڈی ہو کر گھوڑوں کو لگے اور لوُ پیدا نہ ہو۔ اِس کیفیت میں یہ ایک نہایت خاموش اور پُرسکون سرا معلوم ہوتی تھی، جس میں کبھی گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز آ جاتی یا چڑیوں کے پھڑ پھڑانے کی سرسراہٹ، جب وہ گھونسلے سے نکل کر دوسرے شہتیر پر بیٹھتی۔ وہاں تین چار ہوٹلیں بھی تھیں۔ ہوٹل مالکان نے وی سی آر رکھے ہوئے تھے، جن پر انڈین اردو اور پاکستانی پنجابی فلمیں چلتیں۔ کوچوان فرصت کے وقت یہیں پر تیز پتی کی چائے پیتے اور ایک روپے کے ٹکٹ کے عوض فلمیں دیکھتے۔

    یوں تو صفائی کا خیال رکھا جاتا لیکن لید کی ہلکی بو اس طرح اُن میں بسی تھی کہ عام آدمی کے فوراً ناک کو چڑھ جاتی مگرکوچوانوں، ہوٹل والوں اور پڑوس کے رہائشیوں کے لیے اِسی لید کی بُومیں ذہنی آسودگی تھی۔ وہ چائے یا کھانا کھانے کے ساتھ اُس بُو کی کیفیت کو بھی محسوس کرتے۔ چنانچہ اُنہیں دوسری جگہ چائے پینے کا لطف نہ آتا۔ ہوٹلیں نیم اندھیرے میں ڈوبی ہوئی، نہایت تنگ، نیچی چھتوں والی تھیں۔ فرش اڈے کی زمینی سطح سے دو دو فٹ نیچے اُتر چکے تھے۔ اُن کی دیواروں اور چھتوں پر دھویں کا گاڑھا پلستر اِس طرح چڑھا تھا کہ اب وہاں جیسی بھی تیز روشی کی جاتی وہ اندھی اندھی محسوس ہوتی۔ مٹی کے تیل سے جلنے والے چولہوں کا دھواں ہر نئے دن اُس اندھیرے اور کالک میں اضافہ کر رہا تھا۔ دیواروں پر ہیمامالنی، نور جہاں، دلیپ کماراور پتا نہیں کن کن اداکاروں کی تصویریں تھیں، جن کے اُوپر ذرا بلندی پر قرآنی آیتیں، عبد القادر جیلانی اور دیگر ولیوں کے پوسٹر بھی آویزاں تھے۔ اِن سب کو دھویں نے بغیر کسی تمیز کے کالا کر دیا تھا۔ ہوٹل کا مالک اُنہیں لگا کر بھول چکا تھا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ کم از کم مسلمان پوسٹروں سے دھویں کی تہیں ہٹا دے۔ سب کوچوان مضافاتی گاؤوں سے سواریاں لا کر شہر میں چھوڑ دیتے اور تانگہ بھرنے تک یہیں رہتے۔ اڈے میں بیس پچیس تانگے ہر وقت کھڑے رہتے اور گھوڑے تھان سے بندھے ہرا لوسرن یا دانہ کھانے میں مگن۔ کچھ سائیں لوک گھوڑے سر نیچا کیے مراقبے میں رہتے حتیٰ کہ کوچوان اُنہیں دوبارہ تانگے میں جوت دیتے۔ تھان کے ساتھ بیس فٹ لمبا اور تین فٹ چوڑا پانی کا حوض بھی تھا۔ جس طرح کوچوان آپس میں واقف تھے، اِسی طرح گھوڑے بھی ایک دوسرے سے جان پہچان رکھتے تھے۔ جب ایک گھوڑا سواریاں لے کر رخصت ہوتا تو ساتھ والا کنوتیاں اُٹھا کر مدھم سا ہنہناتا، جیسے الوداع کہہ رہا ہو۔ شاہ محمد ہمارے گاؤں کا تھا۔

    میرا اُس سے تعارف تب ہوا جب چھٹی جماعت کے لیے مجھے مقامی شہر کے اسکول میں داخل کرایا گیا اوراُسی کے تانگے پر میرا آنا جانا ٹھہر گیا۔ سکول جاتے اور وہاں سے شاہ محمد کے ساتھ واپس آتے کئی مہینے ہوگئے تھے۔ اِس دوران اُس نے اپنی زندگی کے کئی ایسے واقعات سنا ئے جو حیران کن تھے۔ ہر واقعہ کسی بڑے شہر میں اُس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ وہ کب ان شہروں میں پھرتا رہا؟ اس بات سے سب نہ واقف تھے۔ پچھلے پندرہ سال سے تو وہ اسی اڈے پر تانگہ چلا رہا تھا۔ البتہ واقعات ایسی دلاویزی سے سناتا کہ اُس کی بات پر یقین کرتے ہی بنتی۔ شاہ محمد بمبو کے ساتھ لگی اُس تختی پر بیٹھتا جو ہر تانگے میں اسی مقصد کے لیے لگائی جاتی ہے۔ سیٹ پر اُسے کبھی کبھار ہی بیٹھنا نصیب ہوتا لیکن مجھے اُس وقت شدید غصہ آتا جب سواریوں کے زیادہ ہوجانے کی وجہ وہ مجھے بچہ سمجھ کر ہودے میں بٹھا دیتا مگر چند ہی لمحوں میں، جب وہ کہانی شروع کرتا تو مجھے بے عزتی کا احساس نہ رہتا۔ یہ میرا شہر میں پہلا سال تھا، جو دوسرے سال کے آخر تک اسی دل فریب یکسانیت سے چلا۔

    اس عرصے میں مَیں نے سکول سے بہت کم ناغے کیے۔ ایسا نہیں کہ پڑھائی کا بہت شوق تھا، بلکہ شاہ محمد کی زبان سے قصہ سننے کا ایسا لپکا پڑ ا کہ مَیں اگلی صبح کا بے چینی سے انتظار کرتا اور گھر والے سمجھتے مَیں پڑھاکو ہو چکا ہوں۔ یہ قصے کتابی نہیں تھے بلکہ ایسی ہڈ بیتیاں تھیں، جو مختلف شہروں اور ملکوں ملکوں کی سیر کے دوران اُسی پر گزری تھیں۔

    موقعے کا نقشہ ایسے کھینچتا کہ میری آنکھیں وہ منظر گویا سامنے دیکھ لیتیں۔ یوں اپنے بچپن ہی میں شہر شہر سے واقف ہو گیا اور شاہ محمد پر رشک کرتا جو ایسے ایسے کرتب کر کے آج یہاں ٹانگہ چلا رہا تھا مگر تیسرے سال میرے پَر نکل گئے اور مَیں نے گھر میں سیاپا ڈال کے ایک سائیکل خرید لی، پھر میٹرک تک اُسی سائیکل پر رہا، جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ سارے شہر کی گلیاں ناپتا۔ خاص کر بہار کے دنوں میں سائیکل پر سوار ہو کر سڑک کے کنارے، درختوں کے سائے سائے پھرنا مجھے جنت کی سیر کے برابر لگتا۔ کمپنی باغ، پہلوانوں کا باغ، اسٹیڈیم اوردوآبہ نہرسے لے کر ہیرا منڈی کی سیر تک، سب کا کریڈٹ میری سائیکل ہی کو جاتا ہے۔ اس لیے اب میرا رُخ کبھی کبھار ہی ٹانگوں کے اڈے کی طرف ہوتا۔ ایک دفعہ گھروالوں نے کہا، چارپائیوں کا بان لیتے آنا چنانچہ بان خریدنے کے لیے مجھے اسی طرف آنا پڑا، ایک با ر اپنے دادا کی حقے کی چلم بھی یہیں سے خریدی۔ اگلے سال یعنی میٹرک پاس کرتے ہی مَیں نے گاؤں کو خیر باد کہہ دیا اور شہر میں دوستوں کے ساتھ رہنے لگا۔ اِس صورت میں تانگے کے ساتھ وہ تعلق بھی ختم ہو گیا، جو گاؤں سے شہر آتے جاتے سائیکل کی دوڑ تانگے سے باندھ لیتا تھا۔ یوں اگلے دو سال میں ایک دو دفعہ ہی شاہ محمد سے آمنا سامنا ہوا۔

    نئے دوستوں کی محفلوں میں یہ سال اتنی تیزی سے نکل گئے کہ مجھے خبر ہی نہ ہوئی حتیٰ کہ مَیں نے ایف اے کرلیااور گریجو یشن کے لیے لاہور چلا آیا۔ اب دو دو مہینے بعد گھر جاتا لیکن اس سفر میں شاہ محمد کے تانگے کو کوئی دخل نہیں تھا کیونکہ گاؤں رابطہ سڑک سے تین میل ہٹ کے تھااور اس رابطہ سڑک پر بہت زیادہ بسیں چلنا شروع ہو گئیں، جو پہلے دو تین ہی چلتیں تھیں۔ یہاں بھی گاؤں کے کچھ تانگے کھڑے ہوتے، جو بس سے اُترنے والی سواریوں کو گاؤں لے جاتے۔ مَیں بھی اِنہی تانگوں کے ذریعے گاؤں جانے لگا۔ شاہ محمد اس عرصے میرے منظر سے دور رہا اوردو سال مزید گزر گئے۔ اگلی دفعہ گاؤں گیا تو بہار کے دن تھے۔ درختوں کی شاخوں پر ہری ہری کونپلیں تازگی بھر رہی تھیں۔ اس بار دل میں خواہش جاگی، کیوں نہ آج شاہ محمد کے ساتھ سفر کیا جائے۔ مَیں اپنے مقامی شہر سے گاؤں جانے کے لیے سیدھا ٹانگوں کے اڈے کی طرف چلا گیا لیکن اڈے میں داخل ہوتے ہی مجھے ایک دھچکا سالگا۔ وہاں چار چھ تانگوں کے علاوہ باقی سب رکشے تھے اور شور اتنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ پھٹے سائیلنسروں اور گڑ گڑ اتے انجنوں کے سبب اڈے کی چھت اُڑی جاتی تھی۔ اِس بد ہنگم مخلوق کے درمیان گھوڑے سہمے ہوئے تھے۔ ہر چیز جلدی سے بدل رہی تھی۔

    یہ منظر دیکھ کر دل بیٹھ سا گیا۔ مَیں کچھ دیر بدحواس کھڑا رہا پھر ہمت کر کے آگے بڑھا، مجھے یقین تھا، شاہ محمد ابھی یہاں ہو گا۔ مَیں اڈے کا جائزہ لینے لگا اور چند ثانیوں بعد ہی شاہ محمد کے ٹانگے پر نظر جا ٹھہری، جس کی ایک ایک پتری مجھے یادتھی۔ اُس کی حالت کافی خراب ہو چکی تھی، پھر بھی پہچاننے میں دقت نہیں ہوئی البتہ گھوڑا وہ نہیں تھا۔ ٹانگے کو دیکھ کر ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ میں سیدھا اُس ہوٹل کی طرف بڑھا جہاں میرے خیال میں اُسے ہونا چاہیے تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی شاہ محمد کی نظر مجھ پرپڑ گئی اور وہ ایک دم اُٹھ کر مجھ سے لپٹ گیا۔ زور زور سے گلے ملنے لگا جیسے مدتوں کا بچھڑا ہوا ساتھی ہو۔

    بھتیجے دور ہی نکل گئے ہو، کیا تم نے سمجھ لیا تھا، شاہ محمد مر گیا؟ مان لیا شہری بابو بن گئے ہو پر بندہ حال چال ہی پوچھنے کو آ جائے، آدمی کو اپنے زندہ ہونے کا احساس رہتا ہے۔ ہم بھی بڑے بڑے شہروں میں رہے ہیں پر تُو تو پُتر منہ دکھانے سے بھی گیا۔ کئی بارسنا کہ تُو گاؤں آیا اور بغیر ملے چلا گیا۔ مَیں سوچتا تھا بھتیجا ایسا تو نہیں پھر نہ جانے کیا بات ہے؟

    شاہ محمد بول رہا تھااور میں شرمندگی سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ مَیں نے جان چھڑانے کے لیے کہا، چاچا باقی باتیں بعد میں کر لینا اور جو چاہے کہہ لینا پہلے باہر نکل کے گھوڑے کے ساز کَس، تا کہ گاؤں چلیں۔ گلے شکوے تانگے میں کریں گے۔

    چائے تو پی لے، شاہ محمد نے چائے والے کو للکارا، بھائی ایک کڑک دودھ پتی بنادے، آج بڑی مدت بعد بھتیجا اڈے پر آیا ہے۔

    نہیں، چائے تجھے پتا ہے، میں پیتا نہیں، مَیں نے منع کرتے ہوئے کہا،

    او بیٹھ جا پُتر، شاہ محمد نے اس ملگجی روشنی میں مجھے زبردستی لکڑی کے بنچ پر بٹھاتے ہوئے ہوٹل والے کو دوبارہ للکارا۔

    ہوٹل کی حالت دیکھ کر مجھے ڈر ہوا، کہیں اِسے بھی گرا کر برابر نہ کر دیا جائے، اور سب چھوٹی ہوٹلوں کی جگہ ایک بڑا کنکریٹ کا پلازہ کھڑا کر دیا جائے، جس میں چائے کی جگہ کولڈ ڈرنک اور پِزا بکنے لگے، اور اِن کچی پکی دھواں زدہ اساطیری دیواروں پر مذہبی اور فلمی پوسٹروں کی جگہ جدید پینا فلیکس لے لیں۔ یہ خیال آتے ہی میرا سر چکرانے لگا مگر جلد ہی چائے کی نئی پیالی دیکھ کر اُس میں سے چسکی لی اور سب خیالوں کو ایک دم جھٹک دیا۔

    اڈے سے باہر نکلتے ہی شاہ محمد نے دوبارہ شکایتیں شروع کر دیں جنھیں مَیں کچھ دیر سنتا رہا آخر بولا، چاچا، دنیا کے دھندوں میں وقت کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ بہت دفعہ آپ کی طرف آنے کا ارادہ باندھا مگر وقت نہیں ملا۔ آج سوچا، کچھ بھی ہو جائے، چاچے شاہ محمد کے ساتھ ہی جاؤں گا۔ بہر حال تانگے کی بتا، کیسا چل رہا ہے؟ مَیں تو اڈے کی حالت دیکھ کر پریشان سا ہو گیا ہوں۔

    بیٹے کیا پوچھتے ہو اڈے کا؟ شاہ محمد کا لہجہ اچانک ا فسردہ ہو گیا، خدا غارت کرے اِن پھٹ پھٹیوں کو۔ اڈا تو ایک طرف، اِنھوں نے پورے شہر کا ناس مار دیا۔ اللہ جانے کس شیطان نے پہلے پہل سکوٹر کے پیچھے لوہے کا پیپا باندھ کراِس چڑیل کو بنا یا تھا۔ اب جدھر دیکھو، یہی شیطانی ڈبہ دڑ دڑاتا پھرتا ہے۔ اس کی وجہ سے قسم لے لو، میرے کان اب بالکل بہرے ہو گئے، کچھ سنائی نہیں دیتا۔ تیل اور دھویں کی بدبو ایک طرف، تِلی اور کلیجے پر بھی کالک کی تہیں چڑھ گئیں۔ ان کی وجہ سے پورے شہر پر، وہ جو کالی دیوی کے بارے میں سنتے تھے، اُس کا سایا پھرگیا ہے۔ صفائی اور سکون تو غارت ہوا سو ہوا، جان کا خطرہ الگ سے ہے۔

    جان کا اِس میں کیا خطرہ ہے؟ مَیں نے شاہ محمد کو مزید ہلایا۔

    لو بھئی تم جیسے انجانے ہو، شاہ محمد نے اب کے مزا لیتے ہوئے بات شروع کی، روز اِن کے ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ بندہ اچھا بھلا گھر سے نکلا لیکن ملا ہسپتال سے۔ سبب پوچھو تو سکوٹر رکشے کا نام لے کر چپ ہو جاتا ہے۔ ابھی جا کے دیکھو، بڑے ہسپتال میں آدھے اسی بلا کے مارے پڑے ہیں۔ حکومت کے ہاں پٹیاں کم پڑ گئی اور ہڈی جوڑ ڈاکڑوں کی چاندی ہو گئی۔

    اتنے ایکسیڈنٹ کیسے ہوتے ہیں؟ میں نے شاہ محمد کی بات کو ہنسی میں اُڑانا چاہا۔

    شاہ محمد اب پورے تضحیک آمیز لہجے میں بولا، وجہ اِس کی یہ ہے کہ جس کو ڈھنگ سے سائیکل نہیں چلانی آتی، اُسی نے یہ بیماری خرید ی اور لگا سواریوں کی قسمت جلانے۔ کسی کا ٹائر کھل گیا، کسی کا زنجیر ٹوٹا اور پڑاسڑک کے بیچ بکھر کے۔ بھئی بعض دفعہ تو اللہ معاف کرے، دیکھ کے مزا ہی آجاتا ہے۔ اس طرح لڑھکتے ہیں جیسے اٹھا ہو ا جنازہ گرپڑے۔ اکثر تو ان کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے میرا اپنا گھوڑا بدک گیا۔ اب تو کم بخت سکول سے بھاگے ہوئے بارہ تیرہ سال کے چھوکروں نے بھی، جن کے ابھی منہ چٹانے کے دن ہیں، یہ پھٹ پھٹیے جوت لیے۔ ایک وہ دن تھے جب ہم لاہور میں ہوتے تھے اور ہمارے پاس ہونڈا سکوٹر تھا، جسے جہاز سے شرط باندھ کر چلاتے تھے تو دس دس کاروں کے اُوپر سے نکال لے جاتے تھے۔ یوں جیسے ہوائی مزائل اُڑتا جا رہا ہو۔

    شاہ محمد نے پُرانی عادت کے موافق داستان کا پہلو نکال ہی لیا۔

    وہ کیسے؟ میں نے تجسس ظاہر کیا۔

    تانگہ اب شہر سے نکل کر کھلی سڑک پر رواں ہو چکا تھا۔ شاہ محمد نے گھوڑے کو ایک چھانٹا دکھا یا اور بات شروع کردی، ایک دن میں سکوٹر پر ہی تھا۔ سکوٹر بھی نیا نکور، زیرو میٹر تھا۔ بس ہاتھ کے اشارے سے اُڑتا تھا۔ مَیں روا روی میں جارہا تھا کہ سامنے سے دس بارہ لڑکے سکوٹر دوڑاتے آئے اور اگلے پہیے ہوا میں اُٹھاتے ہوئے زنا زن کر کے پاس سے نکل گئے۔ مجھے لگا، لڑکے مجھے چھیڑ کے نکلے ہیں۔ بس اُسی وقت میرا بھی میٹر گھوم گیا اور میں نے کہا، لے بئی شاہ محمد تُو بھی دکھا دے اِن کو اپنے جلوے۔ میں نے اُسی وقت سکوٹر واپس پھیرا اور پل کی پل میں لڑکوں کو جا لیا اور للکارا، لو بھئی اگر تم میں کوئی اپنے باپ کا صحیح نطفہ ہے تو آئے میرے برابر۔ بس پھر اُسی وقت دوڑیں لگ گئیں اورسکوٹر ہوا سے کھیلنے لگے۔ ہنستے ہوئے، حرامی وہ بھی پورے دنوں کے تھے، مجھے اِدھر اُدھر سے کٹیں مارنے لگے۔ کوئی آگے سے کوئی پیچھے سے۔

    وہ تو چاہتے تھے اپنی بے عزتی کا بدلہ لیں۔ اِدھر میں بھی اُن سے بچتا ہوا تیزی سے کٹیں مارتا جاتا تھا۔ بس یہ سمجھو ہم اُس وقت عزرائیل کے چاچے بنے ہوئے تھے۔ راہ گیر کی کیا حیثیت، ہمارے آگے بیل آ جاتا تو مارا جاتا۔ اِس شیطانی دوڑ کی وجہ سے ایک ہی دفعہ پورے فیروز پور روڈ کی ٹریفک کناروں سے لگ گئی اور لوگ سُکڑے سہمے فٹ پاتھوں پر چڑھ گئے، کچھ دیواروں سے چپک گئے، مجھے اُن کی حالت پر ہنسی بھی آرہی تھی، مَیں کبھی اگلا پہیہ ہوا میں اُٹھا دیتا اور کبھی پچھلا پہیہ اُٹھا کر دوڑتا، عجب مداری پن پر اُتر آیا تھا۔ اِسی بھاگم بھاگ میں اچانک مسلم ٹاؤن کی نہر آگئی۔ اب خدا کا کرنا ایسا کہ اُس کا پُل بن رہا تھا، جس کی وجہ سے کئی مشینیں اور مزدور سڑک روکے کھڑے تھے۔ مزدور تو ہمیں دیکھ کر بھاگ نکلے، پر مشینیں کدھر جاتیں؟ اُنہیں دیکھ کر سب لڑکوں نے اپنے سکوٹر روک لیے لیکن میں نے دل میں کہا، شاہ محمد تیرا یہاں رُکنا توہین ہے۔ بس پھر میں نے ایک ہی دم سکوٹر کو دائیں ہاتھ پھیر کے جو ریس دبا ئی، سکوٹر نہر کے اُوپر سے اُڑتا ہوا نکل گیا۔ اُڑتے ہوئے مَیں ہاتھ ہلا کرانہیں اشارے کرتا گیا کہ بیٹا اب آؤ اگر تم میں جرات ہے۔ بس مَیں نکل گیا اور وہ بچارے اپنا منہ بغلوں میں چھپا کر وہیں رہ گئے اور اب ایک یہ رکشے والے ہیں، جو گدھی ریڑھی چلانے کے لائق بھی نہیں لیکن میرے گھوڑے کو بدکانے سے باز نہیں آتے۔ بس میاں، قیامت کے دن قریب آگئے۔

    اگران کے اتنے ہی ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں تو سواریاں ان کے ساتھ بیٹھتی کیوں ہیں؟ مَیں نے پوچھا،

    میاں نئے زمانے کو عقل ہوتی تو یہ سکوٹر کے پیچھے ڈبا باندھتی؟ شاہ محمد نے کہا، بھائی اگر جاپان والے آکر دیکھیں کہ اِن لفنگوں نے اُن کے سکوٹروں کا کیا حال کیاہے تو وہ خدا کی قسم اِن کو ضرور عدالت میں گھسیٹیں اور عمر قید کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی کرائیں۔ اب بتاؤ، یہ کوئی انصاف ہے؟ جو چیز ایک بندے کے لیے بنائی گئی تھی اُس پر بیس لوگ چڑھا دو۔ بس اِس ملک کی ہوا ہی اُلٹی ہے اور لوگ بس گھاس کھاتے ہیں، اسی وجہ سے دماغ میں گوبر جمع ہو گیا ہے۔

    یہ تو چاچا بڑی خطرناک بات ہے۔ کیا تم سب کوچوانوں نے احتجاج نہیں کیا اِن رکشو ں کے خلاف؟ مَیں نے تشویش ظاہر کی، ایسا نہ ہو، کل کلاں یہ سارے اڈے پر ہی قابض ہو جائیں۔ اِن کو چاہیے تھا، اپنے پھٹ پھٹیوں کے لیے دوسری جگہ اڈا بناتے۔

    لو، جوان کیسی باتیں کرتے ہو؟ اول تو کئی کوچوانوں نے گھوڑے بیچ کر یہی خرید لیے۔ اب وہ اپنے ہی خلاف احتجاج کیسے کریں۔ دوم، جو رہی سہاگن اُسی کا پاؤں بھاری۔ سواریاں اب تانگوں کی طرف منہ پھیر کر بھی نہیں دیکھتیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا زور ٹوٹتا جا رہا ہے اور نوبت یہ آ گئی کہ ہفتہ پہلے کمیٹی والوں نے کوچوانوں کو اُلٹا دو مہینے کا نوٹس بھیج دیا ہے کہ تانگے اڈے میں زیادہ جگہ گھیرتے ہیں اور لید کی بوُ بھی آتی ہے۔ اڈا رکشوں کو الاٹ کر دیا گیا ہے اس لیے اپنا ٹھکانا ڈھونڈو۔ گھوڑوں کے پانی کا حوض چھ مہینے ہوئے، پاٹ دیا تھا۔ اب یہا ں تانگے والے تو چھ آٹھ ہی رہ گئے۔ ہم اِس نوٹس کو لے کے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادرکے پاس گئے تھے مگر انھوں نے صاف دھو کر جواب دیا، کہا، مَیں کمیٹی کے کام میں دخل اندازی نہیں کر تا۔ اب بندہ پوچھے، تُو دخل نہیں دے گا پھر تیری اماں دے گی، جس نے تجھے جَن کر ہماری قسمت میں لکھ دیا۔ مَیں نے تو وہیں کہہ دیا تھا، کمشنر صاحب، اگر تیرے ابا ٹانگہ چلاتا ہوتا، پھر مَیں دیکھتا تُو ہمارے خلاف کیسے فیصلہ دیتا ہے۔ ہمیں پکی خبر ہے اُس نے کمیٹی والوں سے حرام کھا لیا ہو گا۔

    پھر؟ میں نے پوچھا،

    پھر ہم اللہ کو سونپ کر آ گئے اور اللہ کو سونپے ہوئے کاموں کا جو حشر ہوتا ہے، اُس کا تمھیں پتا ہی ہے۔

    تو اب کیا ہو گا؟ مَیں نے تاسف سے پوچھا۔

    ہونا کیا ہے، مَیں نے تو سوچا ہے، دو مہینے کے بعد تانگہ شہر لانے کی بجائے، بتی موڑ، پر ہی چلاؤں گا۔ وہاں ابھی تانگوں کا راج ہے۔

    لیکن وہاں بھی دو سکوٹر رکشے آ گئے ہیں، میں نے کہا،

    آ تو گئے ہیں لیکن دیکھی جائے گی، شاہ محمد نے گویا ایک حل نکال لیا تھا۔

    اس کے بعد میں پھر لاہور آگیا اور تین چار مہینوں کے بعد گاؤں جانے لگا۔ اِس عرصے میں میری ہر دفعہ شاہ محمد سے ملاقات ہوجاتی۔ وہ اپنا تانگہ شہر سے اُٹھا کر بتی موڑ کے اڈے پر لے آیا تھا۔ اِس اڈے پر کمائی کم تھی لیکن شاہ محمد کو سواریاں بہر حال مل جاتیں اور دو سال تک حالات پُر سکون رہے لیکن کب تک؟ آہستہ آہستہ یہاں بھی سکوٹر رکشوں کا چلن عام ہو گیا اور شاہ محمدکا تانگہ بے کار رہنے لگا۔ مَیں جب بھی گاؤں جاتا اُسی کا تانگہ سالم کرا لیتا لیکن میرے اکیلے سے اُس کی کیا کمائی ہوتی۔

    دو سال اس طرح مزید چلے، پھر جو ایک دن میں، بتی موڑ، پہنچا تو دیکھا، شاہ محمد بھی ایک رکشے پر بیٹھا سواریوں کا انتظار کر رہا تھا۔ مَیں دیکھ کر دنگ رہ گیا اور ایک گونا سکون بھی ہوا کہ چلو اچھا ہوا، اِسے سواریاں تو ملیں گی۔ سیدھا اُسی کے رکشے کی طرف بڑھا۔ اُس نے بھی مجھے دیکھ سکوٹر رکشا اسٹارت کر دیا۔ ایک دو رکشے والوں نے مجھے ہلکی سی تنبیہ کی، بھائی جان، ہمارے ساتھ آ جائیں، اِسے رکشہ چلانا نہیں آتا لیکن مَیں اُن کو نظر انداز کر کے شاہ محمد کے رکشے پر بیٹھ گیا اور رکشہ چل پڑا۔ شاہ محمد کا دل باتیں کرنے کو بہت کرتا تھا مگر رکشے کا شور اتنا تھا کہ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی خموشی سے سفر کرنا پڑا۔ اس سفر میں مَیں نے یہ بھی اندازہ لگا لیا کہ رکشے والے ٹھیک ہی کہتے تھے۔ شاہ محمد کے ہاتھوں سے رکشہ ایک طرف کو نکل نکل جاتا اور کئی دفعہ سڑک سے گہری کھڈ میں گرتے گرتے بچا۔ مَیں پورے رستے دعائیں پڑھتا رہا اور دل میں آیندہ کے لیے اُس کے ساتھ بیٹھنے سے توبہ کر لی۔

    اِس کے بعد مَیں نے سنا کہ اُس کا رکشہ دو مہینے کے دوران ہی پورا ہو گیا۔ اتنے ایکسیڈنٹ ہوئے کہ پہیے، گراریاں، چین، ہینڈل غرض ہر چیز کی ستیاناس پھر گئی۔ اِس عرصے میں کئی سواریاں بھی پھٹڑ کیں، جس کی وجہ سے انھوں نے جلد ہی اس کے رکشے پر بیٹھنے سے توبہ پکڑ لی۔ ویسے بھی یہ سکوٹر رکشہ کسی کام کا نہیں رہ گیا تھا اور نہ ہی اب اُس کی عمر سکوٹر رکشہ چلانے کی تھی۔ مَیں اگلی دفعہ گاؤں آیا تو شاہ محمد گاؤں میں داخل ہوتے ہی، جو پہلا ہو ٹل پڑتا ہے، وہاں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ مَیں کچھ دیر کے لیے اُس کے پاس بیٹھ گیا۔ مجھے لگا، وہ بہت بوڑھا ہو گیا ہے۔ عمر تو کچھ ساٹھ سے تھوڑی اُوپر تھی لیکن اتنا کمزور پہلے نہیں لگتا تھا۔ رنگ زرد اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، چائے کا کپ اُٹھاتے ہوئے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔ یقین نہیں آ رہا تھا، یہ وہی شاہ محمد ہے، جو کچھ عرصہ پہلے ہٹا کٹا اور زندگی سے بھرپور تھا۔ ایسی گری ہوئی صحت دیکھ کر مَیں نے پوچھا، چاچا شاہ محمد آپ کی صحت کو کیا ہو گیا؟

    شاہ محمد نے چائے کے کپ سے نظریں ہٹائیں اور بولا، مجھے پتاتھا تُو یہی پوچھے گا، پر کچھ باتوں کا جواب نہ بھی دیا جائے، تو یار بیلی سمجھ لیتے ہیں۔

    پھر بھی کچھ تو پتا چلے، حالات کی ٹوہ لیتے ہوئے دوبارہ پوچھ لیا۔

    بھتیجے چھوڑ اِن باتوں کو، شاہ محمد ٹھنڈی آہ لے کر بولا، ہمارے روگ تیری سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ یہ صحت تو اُسی دن خراب ہو گئی تھی، جس دن گھوڑا بیچ کے لوہے کا جہنمی پھٹ پھٹیا خرید ا تھا۔ وہ تو خیر ہوئی تانگے کا کوئی خریدنے والا نہیں تھا۔ اگر یہ نشانی بھی بِک جاتی تو شاہ محمد اتنی دیر نہ چلتا۔ خیر تُو اپنی سنا تیرا نوکری کا دھندا تو ٹھیک چل رہا ہے؟

    جب رکشہ لے ہی لیا تھا تو بیچا کیوں؟ اچھی بھلی روزی روٹی چل رہی تھی۔ مَیں نے دوبارہ پوچھا۔

    کہنے لگا، بیٹے کیا بولوں، تجھے تو پتا ہے ساری عمر ٹھاٹ سے رہے۔ تانگے پر بیٹھتا تھا تو اُس کا ساڑھے پانچ فٹ کا پہیہ زمین سے اِتنا اُونچا ہو تا کہ پیدل لوگ چھوٹے چھوٹے لگتے۔ تانگے کے بمبو پر بیٹھتے ہی قد بڑھ جاتا۔ تانگہ نوابوں کی سواری اور عزت کی نشانی ہے۔ لوگوں کے اصرار پر میں نے سکوٹر رکشہ خرید تو لیا لیکن جب اِس ڈیڑھ فٹ کے پہیے والی پھٹ پھٹی پر بیٹھتا تو ایسے لگتا، زمین کے ساتھ گھسٹتا جا رہا ہوں۔ شرم کے مارے ڈوبنے کو جگہ نہ ملتی اور سوچتا، شاہ محمد ایسے رزق سے تو موت اچھی ہے۔ آخر میں نے اونے پونے بیچ کر اس ذلت پر لعنت بھیجی۔

    مجھے شاہ محمد کی بات پر ہنسی آئی لیکن ضبط سے کام لے کر اُس کو دبا گیا۔ سچ تو یہ تھا کہ اب اُس کی عمر رکشہ چلانے کی رہی نہیں تھی اور نہ عمر بھر اُس نے ان چیزوں کو چھوا تھا مگر شاہ محمد کا یہ عذر مجھے اچھا لگا۔ آہستہ سے کچھ پیسے نکال کر شاہ محمد کے نہ نہ کرتے اُس کی جیب میں ڈال دیے اور گھر چلا آیا۔ یہ میری اُس سے آ خری ملا قات تھی۔ اس کے بعد میں کافی عرصہ کے لیے ملک ہی سے باہر چلا گیا اور جب آیا، وہ دنیا سے جا چکا تھا۔

    گاؤں میں داخل ہونے کے بعد میر ے قدم خود بخود اُس کے گھر کی طرف اُٹھ گئے اور جلد ہی وہاں جا کھڑا ہوا۔ آج اُسے فوت ہوئے پندرہ سال ہو چکے ہیں۔ میں اُس کے زمین بوس ہوئے کچے گھر کے سامنے سوکھے کیکر سے لگے اُس تانگے کو دیکھ رہا ہوں، جس کے بمبو آدھے رہ گئے ہیں، پہیوں کو دیمک کھا چکی ہے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کر زمین میں دھنس چکے ہیں۔ سیٹیں اور لکڑی کی تختیاں کوئی نکال کے لے گیاہے۔ وہ ٹانگہ اب ایک ایسا بد حال ڈھانچا ہے، جس کا نہ کوچوان موجود ہے اور نہ اُسے کھینچنے والا گھوڑا۔

    مَیں نے آنکھیں بند کرلیں، سکول سے نکل کر سیدھا اڈے کی طرف بھاگا اور شاہ محمد کے ٹانگے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد شاہ محمد نے گھوڑے کو چابک لگائی، تانگے کو گاؤں جانے والی سڑک پر چڑھایا اورایک نئی کہانی شروع کر دی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے