Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیدو

MORE BYخاقان ساجد

    وہ کہنے لگا: ’’بھیرہ انکلیو تو ایک پرچھائیں ہے اس سندر شہر کی۔ رہی روپاتو اس حقیقت کے باوجود کہ وہ شادی سے پہلے ’’مس کلکتہ‘‘ کا ٹائٹل جیت چکی تھی، میرے خیالوں کے ایرینا میں منعقد ہونے والے ہر مقابلۂ حسن میں وہ ہمیشہ رنر اپ ہی رہی۔ ملکۂ حسن کا تاج شیدو ہی کے سر پر سجتا رہا۔‘‘

    بوڑھا ڈاکٹر منگل سین شاندار شخصیت کا مالک تھا۔ چھ فٹ سے بھی اونچا قد، قدرے بھاری تن و نوش اور آریائی خط وخال۔ زندگی کی لگ بھگ اسی بہاریں دیکھ چکا تھا، مگر اس کے باوجود قابل رشک صحت کا مالک تھا۔میں نے ایسا متحرک اور باتونی شخص کبھی نہیں دیکھا۔ سیاست، ادب، مذہب، نفسیات‘ معاشیات غرضیکہ ہر موضوع پرشستہ اردو اور خوبصورت انگریزی میں بے تکان بولتا اور ہمہ وقت کچھ کرتا دکھائی دیتا۔ نئی دلی میں منعقدہ سہ روزہ ادبی کانفرنس میں وہ ہماری میزبان ٹیم کا حصہ تھا۔ جب اسے علم ہوا کہ میرا تعلق اس کے آبائی قصبہ بھیرہ سے ہے تو اس کا جوش دیدنی تھا۔ ’’آپ آج رات کا کھانا میرے گھر کھائیں تو مجھے بہت مسرت ہو گی۔ آپ میرے شہر سے آئے ہیں۔ اس حوالے سے ہم دونوں کے بیچ ایک انمٹ رشتہ ہے۔ دیکھئے آپ انکارنہ کیجئےگا۔ ورنہ میرا دل ٹوٹ جائےگا۔‘‘

    یہ چند جملے اس نے اتنے خلوص اور بے تابی سے کہے کہ مجھے اس کی دعوت رد کرنا پرلے درجے کی بداخلاقی محسوس ہوئی۔

    ’’بھیرہ انکلیو‘‘ تقسیم ہند کے وقت نئی دہلی میں جا بسنے والے بھیروچیوں کی ایک معیاری اور صاف ستھری ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جو انہوں نے اپنے شہر کی یاد میں آباد کی ہے۔ یہ بھیرہ سے ان کے قلبی لگاؤ اور محبت کی علامت ہے۔ ڈاکٹر منگل سین نے وہاں ایک خوبصورت بنگلہ تعمیر کروایا تھا جس میں وہ اپنے اکلوتے بیٹے پرکاش، بہو سادھنا اور دو پوتیوں انجلی اور مایا کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی دھرم پتنی روپا کچھ عرصہ پہلے اسے داغِ مفارقت دے گئی تھی۔ لاؤنج کی دیوار پر سنہری فریم میں اس کا جوانی کا پورٹریٹ آویزاں تھا۔ وہ بلا شبہ ایک حسین و جمیل عورت تھی۔

    کھانے کی میز پر اس نے مجھے اپنی ساری فیملی سے ملوایا۔ سب لوگ نہایت تپاک سے ملے۔ میرے ساتھ ان کا برتاؤ ایسا تھا جیسے میں ان کا کوئی قریبی رشتہ دار ہوں۔ جب ڈنر اختتام پذیر ہوا تو باقیوں نے تو مجھ سے رخصت چاہی جبکہ میں اور ڈاکٹر صاحب آتش دان کے پاس بچھی کرسیوں پر جا بیٹھے۔ جنوری کا مہینہ تھا اور دہلی میں کڑاکے دار سردی پڑ رہی تھی ۔گرما گرم چائے پیتے ہوئے ہم بھیرہ کی باتیں کرنے لگے۔ وہ اپنے شہر کے گلی کوچوں، بازاروں، لوگوں اور سوغاتوں کا ذکر بہت چاہت اور مزے سے کر رہا تھا، بالکل اس عاشق کی طرح جسے اپنے محبوب کے چہرے کے ایک ایک خال اور زلفوں کے ایک ایک خم سے واقفیت اور انوکھا پیار ہوتا ہے۔

    ’’آپ کسی شیدو کا تذکرہ کر رہے تھے۔یہ ذات شریف کون تھی؟‘‘ میں نے اثنائے گفتگو میں سوال کیا۔

    اس نے قہقہہ لگایا۔ زندگی سے بھرپور ایک جوان قہقہہ جو صرف وہ بوڑھا لگا سکتا ہے جس کے دل میں عہد شباب کی محبتوں کا کوئی شعلہ اب بھی فروزاں ہو۔

    ’’وہ ایک کلال تھی۔۔۔‘‘

    ’’کلال؟‘‘

    ’’کیسے بھیروچی ہو۔ کلالوں کو نہیں جانتے! ‘‘ اس نے عار دلائی ۔

    ’’شادی بیاہ، ماتم اور محرم کے دنوں میں بھیرہ میں کچھ عورتیں خصوصی طور پر گانے بجانے، بین ڈالنے اور مرثیہ خوانی کے لیے بلائی جاتی تھیں۔ بڑی ترقی یافتہ اوربہت بولڈ (BOLD) عورتیں ہوتی تھیں وہ۔ جوانی کی رعنائی اور ترنگ سے بھرپور۔ کسّے ہوئے جسموں، تیکھے نقوش اور سانولی مگر دلکش رنگت والی عورتیں۔ ان کے گلے بہت پردرد ہوتے اور آواز میں گھائل کر دینے والا سوز بھرا ہوتا۔ شیدو عورتوں کی اسی قبیل سے تعلق رکھتی تھی۔ ماتمی سوز خوانی میں بڑی شہرت تھی اس کی۔ پچیس چھبیس برس کی نہایت پرکشش اور خوبصورت عورت تھی۔ دیگر کلالنوں کی نسبت اس کی رنگت صاف تھی۔ آنکھیں بڑی بڑی اور ایسی نشیلی کہ جو کوئی ان میں جھانکنے کی غلطی کرتا ہپناٹائز ہو جاتا۔ یوں تو شادی شدہ مگر اس بندھن کو خاص اہمیت نہ دیتی ۔اس کی شادی تھی بھی بے جوڑ اور ناکام ۔ اس کے نشئی اور جوئے باز باپ نے چند سو روپے کا قرض چکانے کے لیے اسے دگنی عمر کے ایک نہایت بدصورت اور بھدے ڈوم کے ساتھ بیاہ دیا تھا۔ وہ شوکت میراثی کے نام سے مشہور تھا۔ برٹش انڈین آرمی کی کسی انفنٹری یونٹ کا بینڈ ماسٹر۔ میرٹھ چھاؤنی میں رہتا اور چار پانچ مہینے کے بعد چند دن کی رخصت لے کر بھیرہ آتا۔ سائیں ناچو کے اکھاڑے کے قریب اس کا چھوٹا سا مکان تھا۔شیدو وہاں اس کی ایک اندھی معذور بہن کے ساتھ رہتی تھی۔‘‘

    ’’آپ بتا رہے تھے کہ آپ کی رہائش بھی شیخاں والے محلے میں تھی۔ پھر تو روزانہ آمنا سامنا ہوتا ہوگا؟‘‘

    ’’نہیں۔ صرف چھٹیوں میں اس کے درشن ہوتے۔‘‘ وہ مسکرایا۔

    ’’جب وہ ہمارے محلے میں بیاہ کر آئی تو میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی کا سٹوڈنٹ تھا اور کالج ہوسٹل میں مقیم تھا۔ بعد میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔۔۔‘‘

    ’’شیدو سے راہ و رسم کیسے ہوئی؟‘‘

    ’’موسم گرما کے آخری دن تھے۔ کھیتوں میں مہندی کی فصل اپنی بہار دکھانے لگی تھی۔ فضا میں اس کی مخصوص جادو بھری خوشبو یوں رچی ہوئی تھی، جیسے الھڑ مٹیاروں کی کوئی ٹولی اپنے حنائی ہاتھ لہراتی ہوئی وہاں سے گزری ہو۔ خلافِ معمول اس روز میں بہت سویرے جاگ گیا اور سیر کی غرض سے کھیتوں کی طرف نکل گیا۔ میں نے ان گنت مردوں اور عورتوں کو رفع حاجت کی غرض سے فصلوں میں پھرتے دیکھا۔ چلتے چلتے وہ اچانک ہی کسی جھاڑی، منڈیر یا فصل کی اوٹ میں بیٹھ جاتے۔۔۔‘‘

    ’’میں اپنے دھیان چلا جا رہا تھا کہ اچانک وہ قتالہ کہیں سے نمودار ہوئی اور دو کھیتوں کے بیچ بنی ہوئی تنگ منڈیر پر چلتی ہوئی میرے عین مقابل آ گئی۔ اب ایک طرف فصل اور کھالا، دوسری طرف پانی سے تر بہ ترکھیت جس میں اترنا محال۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ کیا کروں؟ ہم دو گز کے فاصلے پر آمنے سامنے رک گئے۔ میں اتنے قریب سے بنا کسی آڑ کے اسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ کیا روپ اور سندرتا تھی اس کی۔ وہ میلے کچیلے شکن آلود کپڑوں میں تھی۔ سمجھو جس لباس میں رات کو سوئی، اسی میں نور کے تڑکے گھر سے باہر نکل آئی۔ مگر اپنی نسوانی کشش اور جوبن کے سبب مائیکل اینجلو کا مجسمہ لگ رہی تھی۔ میں اس کے حسن و جمال اور نسائیت کے رعب میں ایسا آیا کہ میرے بدن پر ہلکی ہلکی کپکپی طاری ہو گئی، رویں کھڑے ہو گئے اور رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اچانک مجھے تاپ چڑھ گئی ہو۔

    ’’کیا حال ہے ڈاکٹر صاب؟‘‘

    میری کیفیت بھانپ کر وہ اپنے رسیلے ہونٹوں پر بڑی دل آویز مسکان سجا کر بڑی بےتکلفی سے پوچھنے لگی۔

    ’’مم۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔ کرپا ہے اوپر والے کی۔‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’نہیں۔ آپ ٹھیک نہیں ہیں!‘‘ اس نے شریر لہجے میں ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاب! آپ ٹھیک رہا کریں، ورنہ مریضوں کو کیسے ٹھیک کریں گے؟ میرا مطلب ہے، ہمارے جیسے بیماروں کو۔۔۔؟‘‘

    ’’آ۔آپ بیمار ہیں؟ ‘میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے سوال کیا۔ خاصا بدھو تھا میں ان دنوں۔’’کیا بیماری ہے آپ کو؟‘‘

    ’’اکیلے میں میرے گھر آنا، پھر بتاؤں گی۔۔۔‘‘

    اس نے نگاہ غلط انداز سے میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے معنی خیز لہجے میں کہا۔ پھر وہ دو قدم آگے بڑھی، مجھے دونوں بازوؤں سے تھام کر ایک طرف ہٹایا اور قلانچیں بھرتی ہوئی یہ جا وہ جا۔ میں کھالے میں گرتے گرتے بچا۔۔‘‘

    ’’کمال ہے! بڑی نڈر اور بےباک عورت تھی!‘‘

    ’’حد درجہ بےباک !‘‘ ڈاکٹر منگل سین نے بےخیالی میں اپنے دونوں بازو دباتے ہوئے کہا، جیسے اب بھی اپنے بازوؤں پر اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کر رہا ہو۔

    پھر وہ روانی سے بتانے لگا کہ اس کے بعد دونوں کے درمیان ملاقاتوں کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا۔ وہ اس کی خاطر ہر دوسرے ویک اینڈ پر بھیرہ آنے لگا۔ وہ کسی بھی نوجوان کنوارے کی طرح محبت کا بھوکا اور درد عشق کا متمنی تھا اور وہ ایک بیاہتا مگر ناآسودہ جوان عورت کی طرح اس پیاس کو بجھانے کی تمنائی، جو بھڑکے تو کسی ڈر اور دھڑکے کو خاطر میں نہیں لاتی۔۔۔

    ’’اس کی چاہت میں چار پانچ سال پلک جھپکتے میں گزر گئے، حتیٰ کہ وہ دن آ گئے جب دیش کے بٹوارے کا حتمی فیصلہ ہو گیا۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر کے لہجے میں یاسیت در آئی۔

    ’’شروع میں بھیرہ میں مقیم سبھی ہندوؤں کا یہ خیال تھا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے، یہیں رہیں گے۔ بہت سے معتبر مسلمانوں نے جو شہر میں سیاسی اور سماجی اثر و رسوخ رکھتے تھے انہیں باور کروایا تھا کہ ان کے جان و مال اور کاروبار کو پورا تحفظ حاصل ہوگا۔ جیسے صدیوں سے ہندو، مسلمان اور سکھ بھائی چارے کی فضا میں زندگی بسر کر رہے تھے، اسی طرح مل جل کر رہتے رہیں گے۔ مگر جب پنجاب کے دیگر شہروں سے فسادات کی خبریں بھیرہ پہنچیں تو یہاں کی فضا بھی بدلنے لگی۔ چوپڑا منڈی میں ایک روز بلوائیوں نے چار ہندوؤں کو گھائل کر دیا۔ حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے فوج طلب کر لی گئی۔ ملتانی دروازے سمیت بعض سرکاری عمارتوں پر بلوائیوں سے نمٹنے کے لیے توپیں اور مشین گنیں نصب کر دی گئیں۔ تب بھیرہ کی ہندو اور سکھ آبادی نے بھی شہر چھوڑنے کے لیے ذہن بنا لیا۔ جلد ہی وہ دن آ گیا جب ریلوے اسٹیشن پر انخلائی ریل گاڑی آن کھڑی ہوئی۔۔۔

    ’’بھیرہ چھوڑنے پر دل تو دکھا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بھیرہ چھوڑنے کے خیال سے سبھی دکھی تھے۔ جس مٹی میں انسان نے جنم لیا ہو اس سے جدائی کا کرب وہی جان سکتا ہے جو اس آزار سے گزرا ہو۔ میں سمجھتا ہوں سب سے زیادہ دکھی شخص تو میں تھا۔ باقیوں کو صرف ایک غم

    لاحق تھا، جبکہ مجھے گھر اور آبائی شہرکے ساتھ اپنی محبت کو بھی تیاگنا تھا۔ محبوب سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہونا آسان نہیں ہوتا!‘‘

    ’’آپ سچ کہتے ہیں!‘‘ میں نے تائید کی۔’’ دونوں کی جدائی کے لمحات بھی یقیناً بہت کرب انگیز ہوں گے؟‘‘

    ’’نا صرف کرب ناک بلکہ نہایت پرخطر۔ اب سوچتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ میں نے کیسے اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا؟ جوانی واقعی دیوانی ہوتی ہے۔۔۔ ہمیں بہت ایمرجنسی میں محلے سے نکلنا پڑا۔ میرے پتاجی فوڈ انسپکٹر تھے۔ بلوچ رجمنٹ کا ایک صوبیدار ان کا دوست تھا۔ اس کے توسط سے ایک فوجی ٹرک پتاجی نے منگوایا اور ہمارا پورا پریوار ضروری اسباب سمیت دن کے بارہ ایک بجے ٹرک میں لد کر ریلوے اسٹیشن پر قائم کیمپ میں پہنچ گیا۔ ٹرین نے رات کے وقت روانہ ہونا تھا۔ اب مجھے یہ ملال کہ چلتے ہوئے اپنی محبوبہ سے الوداعی ملاقات نہیں ہوئی۔ بلکہ کئی دنوں سے اس کا دیدارنصیب نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس چک رام داس گئی ہوئی تھی اور میری اطلاع کے مطابق اسی روز سہ پہر کے وقت اس کی واپسی تھی۔ کیمپ پر فوج کا حفاظتی پہرہ تھا۔ سیکورٹی کے پیش نظر ملٹری والے کسی کو دوبارہ شہر کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ میں غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے صوبیدارسے اجازت لے کر باہر آیا اور ریلوے لائن پار کر کے، ایک لمبا چکر کاٹ کر، چھپتا چھپاتا محلہ شیخاں کے سامنے جا نکلا۔ سامنے سائیں ناچو کا اکھاڑہ نظر آ رہا تھا۔ سورج ڈوب چکا تھا اور روشنی کم ہوتی جا رہی تھی۔ میں کھیت سے نکل کر تقریباً دوڑتا ہوا شیدو کی گلی میں داخل ہوا۔

    بغلی گلی میں واقع لالہ نتھو رام کے مکان سے اچانک ایک آدمی نمودار ہوا جس کے سر پر ایک بھاری صندوق تھا۔ بدحواسی میں وہ مجھ سے ٹکرایا تو صندوق سر سے پھسل کر نیچے گرا اور کھل گیا۔ گلی کے فرش پر قیمتی پارچات بکھر گئے۔ ہم دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو میں نے اسے اور اس نے مجھے پہچان لیا۔ وہ حافظ عنایت اللہ تھا جسے محلے والے حافظ بکری کہہ کر چھیڑتے بڑا عجیب آدمی تھا۔ نہایت بدشکل، ایک آنکھ پتھر کی، پہاڑی بکرے جیسی داڑھی، منہ سے ہر وقت رال بہتی رہتی۔ پرلے درجے کا بدکردار اور بددیانت آدمی تھا۔ ہلدی، مرچ، مصالحے اور مہندی پیس کر بیچتا اور ان میں بے دریغ ملاوٹ کرتا۔ پتاجی نے ایک دفعہ اسے بھاری جرمانہ کیا اور حوالات کی سیر کروائی تھی۔ اس کے سبب ہمارے گھرانے سے بڑی پرخاش رکھتا تھا۔ اسے حافظ بکری کیوں کہا جاتا تھا، یہ واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔۔۔ اس نے ایک آدمی کے ساتھ شراکت پر مہندی کا کاروبار کیا تو گھاٹا پڑ گیا۔ دونوں کے درمیان نزاعی معاملے نے طول پکڑا تو محلے کے ایک بزرگ ماسٹر انور بیگ کے پاس اپنے شراکت دار کو لے گیا:

    ’’مرزا صاحب! ہم نے مل کر دو بوریاں مہندی کے پتے لیے۔ خدا آپ کا بھلا کرے اس میں دو بوریاں ٹاہلی کے پتے ملائے اور دو بوریاں بکری کی مینگنیاں ملائیں۔ رلا ملا کے کتنی بوریاں بنیں؟ پوری چھ۔ وہ میں نے اسے بیچنے کے لیے دی تھیں۔ نامراد پھر بھی کہتا ہے کہ گھاٹا پڑ گیا ہے۔۔۔ انصاف سے بتائیں کیا گھاٹا پڑ سکتا ہے۔۔۔؟‘‘

    ماسٹر جی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’پھر تو ہرگز گھاٹا نہیں پڑ سکتا، حافظ بکری صاحب!‘‘

    ڈاکٹر منگل سین نے اس انداز میں یہ بات سنائی کہ ہنس ہنس کر میرے پیٹ میں بل پڑ گئے۔

    ’’اچھا! خیر۔۔۔ میں نے حافظ بکری کو پہچان لیا اور اس نے مجھے۔‘‘

    ڈاکٹر نے سلسلہ کلام جوڑا۔

    ’’قدرے خفیف سا ہو کر پارچے صندوق میں ڈالتے ہوئے ڈپٹ کربولا۔ اوئے کنجرو! تم لوگ ابھی تک دفعان نہیں ہوئے یہاں سے؟‘‘

    عام حالات میں وہ مجھ سے ایسے لب و لہجے میں بات کرنے کی جرأت کبھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر اب میں غریب الوطن تھا۔ بدلے ہوئے حالات میں مجھے ضبط کا مظاہرہ کرنا پڑا۔

    ’’ہم جا رہے ہیں۔۔ ضروری کام سے واپس آیا ہوں اسٹیشن سے۔‘‘

    ’’مجھے پتا ہے تمہیں کیا ضروری کام پڑ سکتا ہے۔‘‘ اس نے دیدے گھمائے۔ ’’اس گشتی ۔۔شیدو سے ملنے آئے ہوگے؟‘‘

    اس کے لہجے سے چھلکتی رقابت میں نے صاف محسوس کی۔وہ بھی شیدو پر بُری طرح فریفتہ تھا مگر وہ اسے بالکل گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ بلکہ اس سے شدید نفرت کرتی تھی۔۔۔

    ’’میں ماسٹر انوربیگ کی ایک امانت لوٹانے آیا تھا اب واپس جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے بات بنائی اور پھر اس کا شک رفع کرنے کے لیے میں شیدو کے گھر سے آگے نکل کر دوسری گلی میں مڑ گیا۔ پانچ دس منٹ کے بعد میں واپس پلٹا تو حافظ بکری صندوق سمیت غائب ہو چکا تھا۔ میں نے محتاط نظروں سے اِدھرادھر دیکھتے ہوئے شیدو کے دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر بعد اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔

    ’’کون؟‘‘ اس نے اندر سے پوچھا۔

    ’’میں ہوں منگل سین۔‘‘

    اس نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر کھینچ کر فوراً کنڈی لگا دی۔

    ’’تم! آج تم لوگوں کی روانگی نہیں تھی؟ مجھے معلوم ہوا تھا سب چلے گئے ہیں۔‘‘

    ’’آج رات جائیں گے۔ ٹرین اسٹیشن پر کھڑی ہے۔ سب گھر والے وہاں کیمپ میں بیٹھے ہیں۔ میں صرف تم سے ملنے کے لیے آیا ہوں، چھپتا چھپاتا۔‘‘

    میں نے اسے بانہوں میں بھرتے ہوئے جذبات سے تمتماتی ہوئی آواز میں کہا۔

    ’’مجھے خوشی ہے تمہارے آنے کی۔‘‘ وہ اپنے ہونٹ میرے رخسار پر رکھتے ہوئے بولی۔ ’’لیکن میرا خیال ہے تمہیں اپنے آپ کو یوں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ مجھے تمہاری زندگی بہت عزیز ہے۔ تم نئے نئے ڈاکٹر بنے ہو۔ تمہاری ماتا جی کی زبانی پتا چلا تھا کہ تمہاری منگنی ہونے والی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی تھی سن کر۔ انہوں نے بتایا تھا کہ بڑی خوبصورت لڑکی ہے۔۔۔‘‘

    ’’ہوگی خوبصورت۔ مگر مجھے تو تم صرف تم اچھی لگتی ہو۔ میرے بس میں ہوتا تو تمہی سے بیاہ رچاتا۔‘‘

    میں نے اس کی آنکھیں چومتے ہوئے رندھی ہوئی آوازمیں کہا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں بھی بھیگ رہی ہیں۔

    ’’یہ بات کبھی بھی ممکن نہیں تھی۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔ ’’اگر مجھ سے پیار کرتے ہو تم خوشی خوشی اس لڑکی سے شادی کرنا اور اسے بہت پیار دینا۔ اسے کبھی نہ ستانا۔ تمہاری شادی اگر یہاں میرے سامنے ہوتی تو میں خوب ناچتی، خوب ڈھولک بجاتی اور لہک لہک کر گاتی۔

    گوری میری وینی کالیاں کفاں قمیص دیاں

    ماڑے ناہسے ساریاں گلاں نصیب دیاں

    (میری گوری کلائی تو بہت خوبصورت ہے اور اس پر کالی قمیص کے کالے کف بڑا غضب ڈھا رہے ہیں لیکن ساری باتیں نصیب کی ہیں۔) یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی۔

    اسی لمحے دروازے پر کسی نے زور سے دستک دی۔ پھر گلی میں سے دو تین آدمیوں کے تیز تیز قدموں اور باتوں کی آوازیں آنے لگیں۔

    ’’کون ہے؟‘‘ اس نے مجھے خود سے الگ کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’’میں ہوں حافظ عنایت اللہ۔ کدھر ہے تمہارا ہندو یار۔ اسے ہمارے حوالے کرو۔‘‘ وہ غضب ناک لہجے میں بول رہا تھا۔

    ’’یہاں تو کوئی نہیں۔‘‘

    ’’جھوٹ مت بولو۔ میں نے اسے خود دیکھا ہے ادھر آتے ہوئے۔ تم کس سے باتیں کر رہی تھیں؟‘‘

    ’’اپنی نند سے اور کس سے؟‘‘

    ’’بکواس کر رہی ہو۔ نند سے عشقیہ باتیں کرتا ہے کوئی۔ اوئے رمضو دیوار ٹاپ اور اندر دھرک (چھلانگ) مار۔ ذرا کنڈی کھول اندر ہی ہوگا۔ ایک کمرے کا تو مکان ہے۔ ابھی پتا چل جائےگا۔ غضب خدا کا وہاں سے آنے والے ہمارے مسلمان بھائیوں کا تو قتل عام ہو اور ہندو لونڈے یہاں سے جاتے ہوئے عیاشی کر کے زندہ سلامت بھارت چلے جائیں۔۔۔‘‘

    شیدونے مجھے جلدی سے صحن کے کونے کی طرف کھینچا جہاں دستی پمپ لگا تھا۔ اس کے اردگرد چند فٹ اونچی دیوار ڈال کر اوپن ایئر غسل خانہ بنایا گیا تھا۔ وہ مجھے اندر لے جاتے ہوئے اونچی آواز میں حافظ بکری سے مخاطب ہوئی۔

    ’’حافظا! انسان بن۔ خبردار میری اجازت کے بغیر کوئی اندر آیا تو۔ میں بھی عزت دار عورت ہوں۔ میرا خاوند یہاں نہیں ہے‘‘ ورنہ تمہیں اس حرکت کا مزا چکھاتا۔ میں اس وقت نہا رہی ہوں، غسل خانے میں ہوں۔ خبردار کوئی اندر کودا تو۔۔۔‘‘ اگلے ہی لمحے اس نے آناً فاناً اپنے سارے کپڑے اتار کر غسل خانے کی دیوار پر ڈالے اور تیز تیز نلکا گیڑتے ہوئے اپنے سر پر پانی گرانے لگی۔ میں غسل خانے کے ایک کونے میں دبکا بیٹھا پانی کے چھینٹوں سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ اسی اثناء میں ایک لڑکا بیرونی دیوار پھاند کر اندر کودا اور صحن کے دروازے کی کنڈی کھول دی۔ حافظ عنایت اللہ اندر آ گیا۔

    ’’میں نے بکواس کی تھی کہ میں کتی نہا رہی ہوں۔ اب دیکھ لیا۔ تسلی ہو گئی؟‘‘ اس نے پورے قد کے ساتھ غسل خانے کی دیوار کے اوپر سے جھانکتے ہوئے اسے لعن طعن شروع کر دی۔

    حافظ کو لمحہ بھر کے لیے سانپ سونگھ گیا۔ خجل سی آواز میں کہنے لگا۔

    ’’میں اندر کمرے کی تلاشی ضرور لوں گا۔ تیرا کیا پتا تو نے اسے اندر چھپا دیا ہو۔‘‘

    پھر وہ لڑکے سے مخاطب ہوا۔

    ’’رمضو! میرے بچے تو جا، میں خود تلاشی لے لوں گا۔‘‘

    وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا کمرے کی طرف لپکا۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا شیدو نے مجھے جلدی سے کہا:

    ’’منگل! نکل بھاگو۔ اس کے ہاتھ میں خنجر ہے تمہیں مار ڈالےگا!‘‘

    میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہ ناصرف میرا رقیب تھا بلکہ میرے پتاجی نے اسے حوالات کی سیر بھی کروائی تھی۔ تب وہ اپنی کمزور اور میرے پتاجی کی طاقتور حیثیت کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکا تھا، مگر اب وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں آ گیا تھا۔

    میں نے نکل بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی۔ اِدھر میں نے غسل خانے سے باہر قدم رکھا، ادھر وہ کمرے سے یہ کہتا ہوا باہر آیا: ’’تیری نند تو گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے تو کس سے باتیں کر رہی تھی؟‘‘

    پھر جونہی اس نے مجھے دیکھا خنجر لہراتا ہوا میرے پیچھے لپکا۔ میں نے کسی شے سے ٹھوکر کھائی اور منہ کے بل کچے فرش پر گر گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے مار ڈالتا، شیدو ہم دونوں کے درمیان حائل ہو گئی۔

    ’’اللہ رسول کے واسطے اسے کچھ نہ کہہ حافظ عنایت۔‘‘

    وہ اس کا خنجر والا ہاتھ پکڑ کر لجاجت سے بولی۔

    ’’میں تمہاری منت کرتی ہوں۔‘‘

    ’’میری خواہش پوری کر دے تو میں اس کی جان بخش دوں گا۔۔۔‘‘

    حافظ نے خباثت سے آنکھ ماری۔

    ’’بھلا اس میں وہ کیا خاص بات ہے جو مجھ میں نہیں، بول؟‘‘

    شیدو نے لمحہ بھر کے لیے سوچا، پھر آہستگی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    ’’ٹھیک ہے۔ تمہاری خواہش پوری ہو جائےگی۔ مگر پہلے تو اسے جانے دے۔‘‘

    ’’دفع ہو جا، کافر کے بچے!‘‘ حافظ بکری نے نفرت سے مجھے ٹھوکر ماری۔

    میں اٹھا ‘لمحہ بھر کے لیے رکا کہ اس سے بھِڑ جاؤں، مگرشیدو نے میری نیت بھانپ لی۔ تحکم بھرے لہجے میں ڈپٹ کر بولی۔

    ’’منگل! چلے جاؤ۔ میں جو کہہ رہی ہوں۔ میری بات نہیں مانو گے؟‘‘

    اور میں دروازہ کھول کر اندھیری گلی میں گم ہو گیا۔۔۔!

    یہ کہہ کر ڈاکٹر منگل سین چپ ہو گیا اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ میں نے دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

    آتش دان میں لکڑیاں چٹخ رہی تھیں۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے