aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاخ جبر کا انوکھا پھل

سیمیں کرن

شاخ جبر کا انوکھا پھل

سیمیں کرن

MORE BYسیمیں کرن

    اور پھر بہت جنگ ہوئی، بہت خون خرابہ ہوا، یہ کوئی آسان ہدف نہ تھا، یہ جنگ بھی آج۔ کی جنگ نہ تھی یہ تو نظریات کا بھیانک ٹکراؤ تھا، اس کی تاریخ بنی آد جتنی ہی قدیم تھی یہ مقابلہ روشنی اور اندھیرے کے درمیان تھا!

    یہ مقابلہ دو قوتوں کے درمیاں تھا۔۔

    اک قوت بنی آدم کو اس کرے کا نفس مضمون اور فاعل سمجھی تھی۔۔۔

    اور دوسری قوت مصر تھی کہ وہ مفعول ہے!

    یہ دونوں قوتیں اب سے نہیں ہمیشہ سے اک دوسرے سے برسر پیکار ہیں!

    کیسے نہ ہوتیں، دونوں پوری قوت سے دوڑ رہی تھیں مگر متضاد سمت میں! سو ٹکراؤ تو لازمی تھا!

    یہ قوتیں ہر دور میں اپنے چولے، اپنے لبادے بدل بدل برسرپیکار رہیں!!

    مگر بنیاد پر ستی ہمیشہ سے اک کا شعار تھا، ہمیشہ سے ان کا ہتھیار تھا۔

    یہ جنگ قدیم اور جدید سوچ کی تھی!

    تصادم ناگزیر تھا! خون تو بہنا ہی تھا۔

    اب بھی یہی ہوا، اک طویل مدت سے یہ دو متصادم قوتیں متقابل تھیں!.

    اک طرف وہ لوگ تھے جو انسان کو فاعل دیکھنا چاہتے تھے، مذہب سے الگ اس کی بطور انسان شناخت پہ مصر تھے، احترام آدمیت کے دعویدار تھے!

    ان کا کہنا تھا کہ آرٹ اور فنون لطیفہ کا رازق وخالق وہ خدا خود ہے جو مصور کہلاتا ہے پھر کیوں اس کو مذہب کے نام پہ حرام کر دیا جائے!

    وہ کہتے تھے مذہب، عقیدہ ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے اِسکی تصدیق الہامی کتابیں بھی کرتی ہیں جو آپ کے غیرمذہب کو زندگی کرنے کا حق دیتی ہیں تو کیوں انسان سے جینے کا حق چھینا جائے!

    کیوں ریاست کو مذہب چلائے؟

    وہ یہ بھی دعویٰ کرتے تھے اِنساں تو ریاست سے بھی ماورا ہے!

    اس کا خون ناحق بہے تو اس کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے!

    وہ عورت کو برابر انسان قرار دیے جانے پہ بھی مصر تھے!

    مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ کسی بھی ایک سطح پہ ایک گروہ کی طرح متشکل نہیں تھے۔

    وہ مختلف النوع اور مزاج کے منتشرافراد تھے!

    متشر المزاجی کے باعث اپنی قوت کھو بیٹھے تھے!

    ان کے اپنے درمیان بہت سے اختلافات و تنازعات تھے!

    یہ تنازعات بغض و نفرت کی دیواریں کھڑی کر دیتے!

    وہ کسی احمق شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن دھنسائے کھڑے تھے!

    وہ جانتے ہی کب تھے کہ خطرہ ان کے سروں پہ منڈلا رہا ہے!

    ان میں سے کچھ مذہب کے بغض میں اس حد تک چلے گئے تھے کہ کفر و الحاد کو چھونے لگے تھے، اس آفاقی سچائی سے ہی منہ موڑ لیا تھا!

    اور اپنے اسی بغض میں خدا پرستوں کو قدامت پسند کے استہزاء کا نشانہ بناتے تھے!

    کچھ سچے، مخلص لوگ تھے جو بس خیال کو روشن رکھنا چاہتے تھے، انسان کو تعین کی موت کی بجائے تعبیروں میں زندگی ڈو ھنڈونا ان کا شعار تھا!

    اور کچھ نیم دروں، نیم بروں روشن خیال کہلانے کے شوق میں ان سے آن ملے تھے مگر اِک و حشی و قدیم انسان ان کے جبوں میں چھپا ہوا تھا!

    غرض یہ روشن خیال زندگی سے، انسان سے، ادب، موسیقی، فطرت، رنگ، تصویر سے محبت کرنے والا قبیلہ، کسی قبلے پہ مرتکز نہ تھا!

    بدقسمتی تو یہ تھی کہ انسان کی اور ان کے نظریے کی غارت گری بھی ان کو متحد نہ کر سکی تھی!

    اور دوسری طرف وہ تھے جو سر پر پگڑیاں، ڈھاٹے لپیٹے سخ آنکھوں میں وحشت، خشونت، نفرت وتکبر کے ڈورے کھینچے ،حلقوم سے بناوٹی آوازیں بلند کرتے جو محض خالی آوازیں ہوتیں، دیواروں سے ٹکراکر واپس آ جاتیں جو کسی دِل کو متاثر کرنے کی ہیبت سے خالی ہوتیں!

    ہاں وہ اس بات سے باخبر تھے کہ یہ آوازیں محض اِک شور ہیں، دلیل سے خالی ہیں، سو کسی پر مغز و برہان بھرے شخص پہ اثر انداز نہیں ہوں گی، سو وہ دلیل سے خالی مجمعے کو اکھٹا کرنا اور ہنکانا جانتے تھے، جذبات و اشتعال سے بھرے نوجوان اور بچے ان کا ہدف تھے، ان کے دماغوں کو اپنے بس میں کر کے وہ انہیں ریموٹ کنٹرول سے چلانے کا ہنر جانتے تھے اور جہاں دل چاہتا اس ریموٹ کنٹرول کا بٹن دب جاتا اور دور دور تک چیتھڑے، خون، گوشت، بارود کی بو پھیل جاتی!

    انہیں خیال کی روشنی سے نفرت تھی!

    انہیں ترقی کی ہر سوچ سے وحشت تھی!

    انہیں عورت کے ابھرتے انسانی خدوخال سے بھی چڑتھی!

    یہ چڑ غم و غصے اشتعال کے لامحدود جذبے میں ڈھل جاتی یہ محسوس کرکے کہ ان کی محکوم، ان کی خادم، ان کی جایئداد جس کو مذہب رسم و رواج کی بھاری بیٹریوں میں جکڑا تھا وہ کیسے آج جدید تعلیم کے سر پر آزاد ہو کر ان کے قد کے برابر کھڑی ہو گئی۔۔۔ سو وہ جدید تعلیم سے بھی نفرت کرتے تھے!

    انہیں ہر اس شے سے نفرت تھی جو جدت اور تجریت کی حامل تھی!

    وہ خود جدید علوم وٹیکنالوجی سے نہ صرف مستفید ہوتے بلکہ ہر طرح سے اس پہ انحصار کرتے تھے۔۔۔

    جدید ترین اسلحہ، جیپ، جہاز، لیپ ٹاپ، انٹیر نیٹ یہ سب ان کے بےعیب جاسوسی نظام کے معاون و مددگار ہتھیار تھے!

    یہ دو رخی ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیتی کہ کیا واقعی جہالت اور تعصب ان کا خدا تھا؟ ورنہ وہ کو نسا خدا تھا جس کے نام پہ وہ جنگ کرنے کے دعوے دار تھے؟

    بھلا جو کسی تاریک غار میں چھپا بیٹھا ہو اور انسان کو اسی غار میں پہنچا نے کی زمہ داری لے وہ خدا ئے واحد و لا شریک کیسے ہو سکتا تھا!!!!

    یہ وہ لوگ تھے جو ہر دور کے بغداد کو اجاڑنے لے لیے بھیجے گئے تھے۔۔۔

    ان تاریک غاروالوں کی روشن خیالوں سے بہت جنگ ہوئی طویل جنگ، وہی جنگ جو شروع سے چلی آ رہی ہے!

    اتحاد دونوں کی صفوں میں نہیں تھا!

    تاریک غار پسند بھی اپنے مفاد و نظریے کی نباء پہ آپس میں نفرت وعنا د کا شکار تھے، پس پردہ وہ ایک دوسرے کو غلط اور کافر کہتے تھے!

    مگر ان کے اوپر جن نادیدہ قوتوں کا سایہ تھا وہ معیشت کے خدا کا استعمال جانتے تھے!

    معیشت کا خدا ان کو جنگ کے نام پہ اک صف پہ لے ہی آیا!

    اور پھر اک خونریز جنگ کا آغاز ہوا!

    اک طویل دور جیسے کسی سرنگ میں داخل ہو گیا!!!

    ابتدا میں اس جنگ نے مقدس چولا پہن کر عام و خاص کے دل جیت لیے تھے!

    مگر پھر خون، بارود، لاشوں کے قیمہ بدنوں کی سڑاند معاشروں کو نگلنے لگی!

    تب روشن خیالوں کو کچھ ہوش آیا مگر بہت دیر ہو چکی تھی!

    انسان کو دوبا رہ تاریک غار میں دھکیلنے والے غالب آنے لگے تھے!!!!

    وہ ہر مقام جہاں اِنسانیت پناہ لے سکتی تھی انہوں نے اسے تاراج کر دیا!

    ہر وہ مقام جہاں انسانیت پنپ سکتی تھی، روشنی لے سکتی تھی ڈھا دیا گیا!!

    گرجے، مندر، مسجد، امام بارگاہیں، مزار اڑا دیے گیے!!!

    سکول اپنے ملبوں سمیت ننھی کلیوں کے مزار بن گئے!

    ہسپتال بیماروں کی جگہ مردہ خانوں میں بدل گئے!

    آرٹ کو بت کہکر بُت شکن پیدا کئے گئے!

    یہ بت شکن غرور و زعم کے نئے بت، نیئے خدا بن گئے

    ان نئے خداؤں نے آرٹ، فن، ادب کوسزائے موت سنا دی!

    انسان کو زندگی کے جرم میں موسیقی، رنگ، خوشبو، فن و ادب کی ہر صنف سے محروم کر نے کا سزا وار ٹھہرا دیا گیا!!!

    عورتوں کی اِک جماعت دعوی کرتی تھی کہ صرف عورت پہ پردے کا دعوی انسان کی فطرت سے انحراف ہے، پردہ دار عورت اپنی نظر سے مرد کو دیکھنے میں آزاد ہے، مرد کو دیکھ کر عورت کا دل بھی بدی پر مائل ہو سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے زلیخا کا یوسفؑ کو دیکھکر ہوا تھا تو یہ دعویٰ کیا اپنی بنیادوں میں متصادم نہیں کہ اِک جانب ہر بدی کی زمہ دار عورت، دوسری جانب اِس قدر اطمینان، اعتماد ولا پروا ہی کہ عورت کو پا بندی میں جکڑ کر گناہ کے خاتمہ کا دعوی؟؟؟؟!

    سو ان مردوں کو بھی لازم ٹھہرایا جائے کہ وہ خود پہ نقاب ڈالیں!

    جنگ کے زمانے میں یہ دعوی اک بہت بڑا دھماکہ تھا، نظام و نظریے کے خلاف عظیم سازش تھی!

    سو سزا کے طور پر ایسی عورتوں کو سرعام کوڑے مارے گئے!

    پھانسیاں دیی گئی اور جو باقی بچ گیئں ان پہ کڑے پہرے بیٹھا دیے گئے اور بیڑیاں ڈال دی گئیں!!!

    اہتمام کیا گیا کہ کہیں سے روشنی، تعلیم ان کو چھو نہ سکے!!!

    ان کو اخلاقیات کی گھسی پٹی چکی پہ گہیوں پیسنے کا حکم ملا!

    زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا حکم!

    اتنے حکم کہ وہ آزادی کا مفہوم بھول جائے، لفظ حق کوفراموش کر دے!

    ان تاریک خیالوں نے پورا اہتمام کیا کہ جدت وروشن خیالی کی تصویر مٹا دی جائے

    چن چن کر ادیبوں، مصوروں، لکھاریوں اور دانشوروں کو تہہ تیغ کر دیا گیا!

    جو بچ گئے وہ ہجرت کر گئے خوف کے مارے!

    عجائب گھروں کو مسمار کر دیا گیا تاکہ روشن خیالی اور اِنسانی تاریخی عظمت و سفر کا ہر نشان مٹا دیا جائے!

    وہ چاہتے تھے کہ لوگ بس ایک ان دیکھے خدا سے اتنا ڈر جائیں کہ دنیا کی ہر رغبت چھوڑ کر صرف گردان کرنا سیکھ جائیں! وہ طوعاوکر ہا کی تفسیر بن جائیں!

    انہوں نے اک عہد کی ہر نشانی، ہر استعارہ، ہر علامت مٹا دی!

    ہر چہرے، ہر عمارت، ہر ادارے کو ایک ہی شناخت دیکر سب کچھ بے شناخت کر دیا!!!

    ہر باغی آواز کا گلہ گھونٹ دیا گیا!

    ہر وہ کو کھ بانجھ کر دی گئی جہاں سے کسی نئے خیال، سوچ اور روشنی کا جنم ہو سکتا تھا!

    بہت خون ریزی کے بعد۔۔۔

    اک طویل تاریکی کے سفر کے بعد۔۔۔ وہ اپنی مرضی کے تابع خوف و جبر میں ڈھلا اک نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے!

    اک ایسا نظام جسکے خلاف اک ہلکی سی سرگوشی بھی بغاوت ٹھہرتی اور ایک درد ناک موت کا اعلامیہ ہو سکتی تھی!!!

    ایک ایسا نظام جسکا صرف قصیدہ و مدح سرائی ہی گوارا تھی!!!

    اک ایسا نظام جہاں کسی بھی تہذیبی رچاؤ یا تصادم کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی!!!

    اپنے تیئیں اب وہ مطمئن تھے کہ اک نسل ہجرت کر چکی تھی اور ایک نسل اِس جبر کے درخت پہ اپنا پھل دے چکی تھی۔۔۔

    آنے والی نئی نسل جس نے روشنی و آزادی کا چہرہ کبھی نہیں دیکھا تھا!!!!

    وہ ایسے اداروں میں تعلیم پاتے تھے جہاں کسی بھی شے کی شناخت یاچہرہ رکھنا اک گناہ سمجھا جاتا تھا۔۔۔

    سو ان بچوں کی کتاب سے لیکر قلم تراش تک ہر شے بے چہرہ و تصویر و تصور سے خالی تھی!!!!

    مگر پھر بھی انہونی ہو گئی!!!

    ایک ایسا واقعہ جس نے خوف وجبر کے نظام پہ لرزہ طاری کردیا۱

    معلم اعلیٰ شہر اور صوبے کے منتظم اعلیٰ کے ساتھ مدرسوں کے معمول کے دورے پہ تھا۔ یہ دورے نہ صرف معمول تھے بلکہ ان کو اتنا خفیہ رکھا جاتا کہ اساتذہ اور طلباء و طالبات کو بھنک بھی نہ پڑتی اور ان کے معمولات کی معمولی سے معمولی خبر بھی منصوبہ سازوں تک پہنچ جاتی۔۔۔

    اپنے اسی بےعیب اور کڑے نظام کے تحت وہ مطمئن تھے کہ اس سے انحراف و بغاوت ممکن ہی نہیں!

    مگر اس دن انہونی ہو گئی!!!

    دورے کے وقت منتظمین اعلیٰ اور معلم اعلیٰ نے دیکھا کہ بچوں کی ایک ٹولی مل کر ایک قدیم لوک گیت گا رہی تھی اور ایک بچہ پنسل سے اک بڑے سے سفید کاغذ پہ ایک ایسے بچے کی تصویر بنا رہا تھا جس کے سر پہ فاختہ چونچ میں زیتون لیے آرام سے گھونسلہ کیے بیٹھی تھی اور وہ بچہ ہاتھ میں اک مشعل تھامے پوری قوت سے دوڑ رہا تھا!

    جبر، خوف اور ظلم حیرت سے منجمد ظلمت کی جانب بڑھتی اس روشنی کو دیکھ ریا تھا!!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے