Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شمائلہ

MORE BYمشتاق احمد نوری

    آخر شمائلہ نے جانے کا ارادہ کر ہی لیا۔

    جس نے بھی سنا حیران رہ گیا۔ آخر اتنی جلدی بھی کیا تھی۔ سب سے زیادہ پریشانی تو ہم سب کو تھی۔ بیگم بالکل گم صم تھیں، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ وہ کہیں تو کیا کہیں؟

    شمائلہ سے پہلی ملاقات آج بھی یاد ہے۔

    ایک عرصہ بعد گھر گیا تھا، کافی بڑا سا آنگن اور چاروں جانب چاروں چچا کے مکانات۔ چچا تو سب کے سب اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے۔ ہاں چچیرے بھائی موجود تھے۔ محسن بھائی تو ارریا ہی میں بس گئے تھے۔ گاؤں سے انھیں لینا دینا نہیں رہا تھا۔

    میرے گھر کے سامنے حسن کا آنگن تھا، سامنے اتر کی جانب اس کا مکان تھا جس کے وارنڈے میں ایک ننگی چوکی پڑی رہتی تھی۔ ایک صبح میں اپنے وارنڈے پر بیٹھا تھا کہ اچانک سامنے سے ایک بچی کے رونے کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا حسن کے اُسارے پر رکھی چوکی پر ایک دو ڈھائی سال کی بچی قرأت کے انداز میں رو رہی ہے۔ میں اسے غور سے دیکھتا رہا پھر آفاق سے دریافت کیا:

    ’’یہ بچی کون ہے اور کیوں رو رہی ہے؟‘‘

    ’’یہ حسن کی بچی ننیا ہے‘‘ پھر ہنستے ہوئے بولا:

    ’’رونے کی وجہ تو اس بچی کو بھی نہیں معلوم۔‘‘

    میری دلچسپی اس میں بڑھ گئی۔ میں نے یہیں سے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا:

    ’’اے ننی کیوں رو رہی ہے؟‘‘ اچانک اس کے رونے میں بریک لگ گیا۔ میں نے سوچا بڑی فرماں بردار بچی ہے، فوراً چپ ہو گئی۔میری توجہ دوسری جانب ہوئی ہی تھی کہ وہ پوری رفتار سے پھر شروع ہو گئی۔ میں نے پھر ڈانٹا وہ پھر چپ ہو گئی اور یہ تماشا بہت دیرتک ہوتا رہا۔ اس کے رونے کی وجہ مجھے کوئی نہیں بتا پایا۔ ایک دن میں نے حسن ہی سے دریافت کیا:

    ’’تمہاری بیٹی روزانہ صبح بلاناغہ کس وجہ سے روتی ہے؟‘‘ وہ بھی ہنسنے لگا۔

    ’’ننی!‘‘ میرے اثبات میں سر ہلانے پر وہ گویا ہوا۔

    ’’وجہ تو خود مجھے بھی نہیں معلوم۔ وہ روزانہ سب سے قبل بیدار ہوتی ہے اور اس چوکی پر بیٹھ کر روتی ہے۔ شروع میں تو ہم لوگوں نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی، کھانے کو دیا لیکن اس کا رونا بند نہیں ہوا۔ اب کوئی دھیان بھی نہیں دیتا۔ خود ہی روتی ہے اور پھر چپ بھی ہو جاتی ہے۔‘‘

    مجھے حیرت ہوئی کہ اس بچی کے والدین بھی اس کے رونے پر فکرمند نہیں ہیں بلکہ اسے ایک روٹین ورک مان کر نظرانداز کر رہے ہیں۔

    بات آئی گئی ہو گئی۔۔۔ ایک بار جب گھر گیا تو وہ چوکی خالی نظر آئی۔ دریافت کرنے پر میرے بھائی آفاق نے بتایا۔

    ’’ننیا نے اب روزانہ رونا چھوڑ دیا ہے۔‘‘

    نہ تو اس کے رونے کی وجہ کسی کو معلوم ہو سکی اور نہ ہی چپ ہونے کی۔ اسے دیکھنے کی خواہش جاگی۔ دیکھا آنگن میں ایک تین چار سال کی بچی کھیلنے میں مست ہے۔ میں نے اسے بلاکر پوچھا:

    ’’تم نے اب رونا کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

    وہ حیرت سے میری طرف دیکھتی رہی، پھر کھلکھلاکر ہنستی ہوئی چلی گئی۔

    دیکھتے ہی دیکھتے حسن آٹھ بچوں کا باپ بن گیا۔ میں نے ایک دن اسے تاکید کی:

    ’’اس طرح بچوں کی لائین کیوں لگاتے جا رہے ہو؟‘‘

    ’’میں کہاں لگا رہا ہوں۔ یہ تو خدا کی دین ہے۔ میں کر ہی کیا سکتا ہوں۔‘‘

    ’’اتنے بچوں کی پرورش مشکل ہے۔ تمہارے وسائل محدود ہیں اور بچے لامحدود، بعد میں بہت دشواری ہوگی۔‘‘ اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا:

    ’’بھائی صاحب آپ پڑھے لکھے ہیں اس لیے اتنی دور کی بات سوچتے ہیں۔ میں تو بس اتنا ہی جانتا ہوں کہ جس نے منھ بنایا ہے رزق کا انتظام بھی وہی کرےگا۔ میں مالک کی مرضی میں دخل کیسے دے سکتا ہوں۔‘‘

    میں اس کی معصومیت اور یقین کے سامنے لاجواب ہو گیا۔

    حسن کی آمدنی بہت کم تھی۔ وہ گاؤں میں پٹوے اور دیگر اجناس کی خریدوفروخت کا کام کرتا تھا۔ اس کی بہت سی زمین رہن پڑی ہوئی تھی جس کو اس نے دوبارہ حاصل کیا۔ وہ محنتی تھا، کھیتی باڑی کرتا، لیکن اس کی غیرت نے کبھی یہ گوارا نہیں کیاکہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ میں واپسی میں اس سے دریافت کرتا:

    ’’حسن کوئی ضرورت ہے تو بتاؤ۔‘‘ وہ مسکرا دیتا۔

    ’’نہیں بھائی صاحب، سب اﷲ کا کرم ہے۔‘‘

    پھر اچانک معلوم ہوا کہ وہ دہلی چلا گیا ہے اور وہاں کسی کپڑے کی دکان میں کام کرنے لگا ہے۔ گھر سے اتنی دور رہ کر وہ بچوں کے لیے فکرمند رہنے لگا۔ اسی درمیان اسے والد کی موت کی اطلاع ملی، لیکن وہ جنازے میں شامل نہ ہو سکا۔ اس بار گھر آیا تو پھر واپس ہی نہ گیا۔

    وہ مجھ سے بہت کھل کر گفتگو نہیں کر پاتا تھا، ہاں بیگم سے اس کی خوب پٹتی تھی۔ بھابھی سے کبھی کبھی وہ اپنا دکھ بھی شیئر کر لیتا تھا، لیکن اپنے دکھ کا رونا نہیں روتا تھا۔

    گزشتہ سال رمضان سے قبل بیگم گاؤں سے لوٹیں تو ایک دس گیارہ سال کی بچی ان کے ساتھ تھی۔ میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا:

    ’’یہ حسن کی بچی شمائلہ ہے۔ ایک بچی کی بھی ذمہ داری ہم لوگ لے لیں تو اسے آسانی ہوگی۔‘‘

    حسن کی بچی کا سن کر مجھے ننیا کی یاد آ گئی۔ میں نے شمائلہ سے دریافت کیا۔

    ’’ارے وہ ننیا کیسی ہے جو بچپن میں بلاناغہ رویا کرتی تھی۔‘‘ شمائلہ نے مسکراتے ہوئے بتایا:

    ’’میرا ہی نام ننیا ہے۔‘‘

    میں نے اسے غور سے دیکھا۔ مجھے ننیا اور شمائلہ میں کوئی مماثلت نظر نہ آئی۔ کہیں سے دیکھ کر یہ احساس نہیں ہوتا تھاکہ یہ بچی روزانہ رویا کرتی تھی۔ شمائلہ اس کے برعکس ہمیشہ مسکرانے والی لڑکی۔ بدن میں پھرتی اتنی گویا بجلی بھری ہو۔

    شمائلہ پر سب سے پہلے قبضہ میری بیٹی زین نے جمایا اور اس نے اعلان کر دیا:

    ’’شمائلہ صرف میرے ساتھ رہےگی اور صرف میری بات سنےگی اور کسی کی نہیں۔‘‘

    وجہ یہ تھی زین تنہا تھی۔ کوئی لڑکی اس کی سہیلی نہ تھی جو اس کے ساتھ کھیلتی۔ وہ عمر میں زین سے سال بھر بڑی رہی ہوگی، لیکن دیکھنے میں دونوں ہم عمر ہی لگتی تھیں۔ اب دونوں کا اٹھنا بیٹھنا، لکھنا پڑھنا، کھیلنا کودنا سب ساتھ ہونے لگا۔

    پڑھنے میں شمائلہ ذہین تھی، لیکن انگریزی اور حساب میں کمزور ہونے پر داخلہ میں دشواری ہونے لگی۔ حساب کا ذمہ شانو نے لیا اور انگریزی کی ذمہ داری زین نے لی۔ زین کا یہ حال کہ پوری کتاب ایک دن میں ہی پڑھانے پر اتاولی اور شمائلہ پریشان کہ وہ کیا کرے۔ بےچاری کو روزانہ اپنی ٹیچر زین سے ڈانٹ سننی پڑتی۔ ایک دو دن تو میں شاگرد اور ٹیچر کی بےبسی سے لطف اندوز ہوا پھر زین کو سمجھایا:

    ’’بیٹا اس طرح نہیں پڑھایا جاتا۔‘‘ زین نے کھسیاکر کہا۔

    ’’ابو میں تو ٹھیک پڑھاتی ہوں، لیکن یہ شمائلہ تو کچھ سمجھتی ہی نہیں۔‘‘

    تب میں نے اسے سمجھایا کہ ایک ہی دن میں پوری کتاب نہیں پڑھائی جاتی۔ تھوڑا تھوڑا سبق دینے سے ہی سبق یاد ہوگا۔

    شمائلہ اور زین میں اکثر لڑائی ہوتی۔ لڑائی کی وجہ بھی عجیب ہوتی۔ زین کو جب بھی کوئی کام جیسے پانی لانے یا چائے بنانے کہا جاتا شمائلہ دوڑکر خود یہ کام انجام دینے کی کوشش کرتی، تب زین ناراض ہوتی کہ شمائلہ اسے کام ہی نہیں کرنے دیتی۔

    دھیرے دھیرے شمائلہ پورے گھر کی مجبوری بن گئی اور اچانک گھر کی سب سے اہم فرد۔

    ’’میری گنجی کہاں ہے؟‘‘ وہ جھٹ گنجی حاضر کر دیتی۔ بچے اپنی ٹائی تلاش کر رہے ہیں اور شمائلہ ٹائی لے کر حاضر۔ حد تو یہ ہے کہ زین کے اسکول کی کتابیں اور کاپیاں بھی شمائلہ سنبھال کر رکھتی۔ بیگم کالج سے آکر بستر پر دراز ہوتیں اور بن کہے شمائلہ پاؤں دابنا شروع کر دیتی، منع کرنے پر کہتی:

    ’’چچی کالج میں تھک گئی ہوں گی، دابنے سے آرام ملےگا۔‘‘ اور پھر دوسرا پاؤں زین پکڑ لیتی اور دونوں میں مقابلہ ہوتاکہ کون بہتر پاؤں دابتی ہے۔ ہربار شمائلہ ہی بازی مار جاتی۔ میں دفتر سے آکر تھکا ماندہ دراز ہوتا اور شمائلہ حاضر۔

    ’’چچا تھک گئے ہوں گے، لائیے پاؤں دبا دوں۔‘‘

    میں حیرت زدہ رہ جاتا کہ یہ بچی دلوں کے بھید جانتی ہے کیا؟ اپنی بیٹی تو تین بار بلانے پر ایک بار آتی ہے اور یہ بھتیجی ہوکر بن بلائے حاضر۔ میرے دیگر لڑکے بھی اپنی بہت سی ضرورتوں کے لیے اس ننھی سی جان پر منحصر کرنے لگے۔ شیبو نے تو اسے اپنی پسند کا نام دے دیا۔ ’’روبی‘‘

    ایک دن میں نے دیکھا روبی پکارنے پر شمائلہ دوڑی جا رہی ہے۔ اس نے بغیر کسی تکلف کے بھائی کا دیا ہوا نام قبول کر لیا تھا۔

    اب پورے گھر میں اس گیارہ سالہ بچی کا راج قائم ہو گیا۔ لنچ میں آکر ابھی ظہر کی نماز ختم بھی نہ کی کہ شمائلہ کی آواز آئی:

    ’’چچا کھانا نکال دیا ہے آ جائیے۔‘‘

    اب میری ساری ضرورت شمائلہ نے اوڑھ لی۔ مجھے کب پانی چاہیے، کب چائے؟ کب گنجی کی تلاش ہے کب جانگھیے کی۔ کب موزا تلاش کر رہا ہوں کب جوتا۔ کب مجھے تھکان ہو رہی ہے، کب میں سونا چاہتا ہوں اور کب مجھے دوا لینی ہے۔ ان سب پر شمائلہ حاوی ہو گئی۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرے اندر شمائلہ داخل ہو گئی ہے اور میری ساری ضرورتوں کا خیال رکھنے لگی ہے۔

    حیرت تو تب ہوئی جب پی۔ ایم۔ سی۔ ایچ۔ کے ایمرجنسی وارڈ میں بیڈ پر پڑی شمائلہ نے اچانک دو بجے رات میں مجھ سے پوچھا:

    ’’چچا آپ نے تو رات کا کھانا نہیں کھایا ہوگا؟‘‘ پھر خود ہی بولی:

    ’’کھانا تو آج بنا ہی نہ تھا۔ آپ سب تو مجھے لے کر یہاں آ گئے۔‘‘

    میں دوسری طرف منھ کرکے مشکل سے اپنی سسکی روک سکا، لیکن آنکھ سے آنسوؤں کی بے قابو دھار کو روکنا میرے بس میں نہ تھا، میں حیرت زدہ ہوں کہ یہ بچی کس مٹی کی بنی ہے۔ اس کا پورا بدن پٹیوں سے لدا پڑا ہے۔ سلائن کی بوتل جاری ہے۔ ڈاکٹرنے حرکت کرنے سے روک دیا ہے اور اس حال میں بھی اس بچی کو میری فکر ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا۔ اس کی جگہ اگر میری بیٹی بھی ہوتی تو مجھے سامنے دیکھ کر صرف رو رہی ہوتی کہ ابو میری جان بچا لیجیے۔

    اس رات ایک پل کے لیے بھی میں، میری بیگم اور میرا چھوٹا لڑکا عرفان نہیں سو سکے۔ کبھی شمائلہ کو دیکھتے، کبھی بے بسی سے ٹہلتے اور کبھی اسے تاکید کرتے۔

    ’’بیٹی اس طرح تم اپنے پاؤں مت ہلاؤ۔‘‘

    آخر اس نے پوچھ ہی لیا:

    ’’چچا آپ مجھے پاؤں ہلانے سے منع کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میں نے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹی تمہارے پاؤں میں سوئی لگی ہے جس سے پانی اندر جا رہا ہے۔ پاؤں ہلانے سے سوئی نکل جائےگی۔‘‘ اس نے سر اٹھاکر پانی کی بوتل اور پاؤں اٹھاکر نڈل دیکھی پھر کہا:

    ’’اب دیکھ لیا۔ اب نہیں ہلائیں گے۔‘‘

    مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے اپنی بےچینی پر قابو پاتے ہوئے پاؤں اٹھا پٹخ کرنا بند کر دیا۔ اس کی بےبسی دیکھ کر میں اندر ہی اندر ٹوٹ رہا تھا۔ بیگم منھ چھپاکر بار بار اپنے آنسوؤں کو دوپٹہ میں جذب کر رہی تھیں اور عرفان اس کے پاس کھڑا اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا۔

    یہ سب اچانک نہ جانے کیسے ہو گیا۔۔۔

    ۲۹؍ اپریل کی شام ساڑھے پانچ بجے دفتر سے آیا۔ بریف کیس رکھ کر میں پودوں کو پانی دینے لگا گارڈن میں، زین، شمائلہ اور عرفان کبڈی کھیل رہے تھے۔ عرفان اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں بہنوں سے بازی جیت رہا تھا۔ میں نے بچیوں کو جیت کے گر سکھاتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی عرفان کبڈی بولتے ہوئے تم لوگوں کی جانب آئے، دونوں بہن اس کے پاؤں پکڑ لو اور اسے جانے ہی نہ دو۔ دونوں بہنوں نے اس پر عمل کیا، جیسے ہی عرفان کبڈی کہتا ہوا اس کی جانب آیا جھٹ شمائلہ نے لپک کر اس کے پاؤں پکڑ لیے۔ عرفان اسے گھسیٹنے لگا اتنے میں زین نے بھی دوڑ کر عرفان کو دبوچ لیا۔ اس طرح دونوں بہنوں نے مل کر بازی جیت لی۔ میں دیرتک ریفری کے فرائض انجام دیتا رہا۔ کھیل ختم ہونے پر دونوں کی فراکیں گندی ہو گئیں، دونوں نے فراک بدل لی۔ زین نے اپنا ایک کئی تہوں والا فراک شمائلہ کو پہنایا۔ مغرب بعد درمیانی کمرے میں ہم سب گفتگو کرتے رہے۔ اتنے میں ڈرائنگ روم میں گڈنائٹ کی ٹکیہ جلتی رہی تاکہ مچھر سے نجات مل سکے۔ جب مچھر سے نجات کی خبر عرفان نے دی تو سارے بچے ڈرائنگ روم میں آکر پڑھنے بیٹھ گئے۔ بیگم اپنی تھیسس کی ورق گردانی کرنے لگیں اور میں اپنے ٹیبل پر بیٹھ کر خطوط کے جواب لکھنے لگا، ساڑھے سات کا عمل ہو رہا ہوگا۔

    اچانک باہر سے کسی بچی کی عجیب سی چیخ سنائی دی۔ چوں کہ مچھروں کی وجہ کر کھڑکی اور دروازے بند تھے، اس لیے آواز واضح نہیں تھی۔ میں نے شیبو سے کہا۔

    ’’بیٹا ذرا دروازہ کھول کر دیکھو تو یہ چیخ پکار کیسی ہے؟‘‘

    اس نے دروازہ کھولا تو میں بھی باہر لپکا، باہر کا نظارہ دیکھ کر حلق میں کانٹے اگ آئے۔ وارنڈے سے نیچے کھڑی ایک بچی شعلوں میں گھری چیخ رہی تھی۔ مجھے تو پتہ بھی نہ چلا کہ شعلوں میں گھری یہ بچی کون ہے۔ میں بےتحاشا دوڑا اور بچی کو خود سے لپٹا لیا یہ سوچے بغیرکہ میرے کپڑوں میں بھی آگ لگ سکتی ہے۔ سامنے سے تو آگ بجھ گئی پیچھے سے لپٹیں قائم تھیں جسے میں نے اپنے ہاتھ سے بجھانے کی کوشش میں اپنی ہتھیلی اور انگلیاں جلالیں، پھر جلدی سے اس کے بدن کو چادر میں لپیٹ لیا۔ آگ بجھ گئی تو دیکھا سامنے گم صم شمائلہ کھڑی تھی۔

    میرے بدن میں خون منجمد ہو گیا پورا لمبا چوڑا کئی تہوں والا سنتھیٹک فراک جوگھٹنے سے نیچے تک تھا جل چکا تھا، صرف کاٹن کی چڈی بچی ہوئی تھی جلدی سے دوچار ٹھنڈے بوتل کی پانی اس پر انڈیلی اور اسے لے کر پی۔ ایم۔ سی۔ ایچ۔ دوڑا۔ رات بھر جس عذاب میں مبتلا رہا، بیان سے باہر ہے۔ صبح ہوئی جو بھی ڈاکٹر سامنے آتا اس سے التجا کرتا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب ذرا میری بچی کو ایک نظر دیکھ لیں۔‘‘ جواب ملتا۔ ’’برن (Burn) کیس ہے، میں تو سرجری کا ہوں، کوئی کہتا میں مڈیسن کا ہوں۔ آپ دس بجے ڈاکٹر سنہا سے کنسلٹ کریں، وہی برن کیس کے انچارج ہیں۔‘‘

    آٹھ بجے صبح ایک سنیئر ڈاکٹر پر نظر پڑی جو ایک بے حد خوب صورت لیڈی ڈاکٹر یا اسٹوڈنٹ سے محو گفتگو تھے۔ میں نے ان سے سراپا التماس بن کر کہا۔

    ’’سر میری بچی جلی پڑی ہے۔ آپ ایک نظر دیکھ لیتے تو میری تسلی ہو جاتی۔‘‘ جواب ملا۔

    ’’کتنا دیکھوں جناب۔ یہاں تو دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ آپ کو پرابلم کیا ہے؟‘‘

    ’’شاید بینڈیج کی ضرورت پھر سے ہے۔‘‘ میری التجا پر انھوں نے چارٹ میں کچھ لکھا اور کہا۔ ’’جائیے او۔ٹی میں بینڈیج کروا لیجیے۔‘‘

    میں اوٹی میں گیا تو وہاں ایک کمپاؤنڈر نے سمجھایا۔

    ’’آپ کس چکر میں پڑے ہیں جناب! یہاں کوئی آپ کی مدد نہیں کرےگا۔ آپ اسے اپولو برن ہاسپیٹل لے جائیے وہاں ڈاکٹر تیواری سب کچھ اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔‘‘

    میں نوبجے صبح شمائلہ کو لے کر اپولو برن ہاسپیٹل آ جاتا ہوں۔ سارے بیڈپر برن کیس کے ہی مریض ہیں۔ بہت سے شفایاب ہو رہے ہیں، بہت سے شفا پاکر جا چکے ہیں۔ اﷲ کی ذات سے امید لگائے میں بچی کو ڈاکٹر تیواری کو سونپتے ہوئے کہتا ہوں:

    ’’ڈاکٹرٹچ دس لائف وِتھ اے ہوپ‘‘ ڈاکٹر مجھے مطمئن کرتے ہیں اور میں اب پُرامید ہو جاتا ہوں کہ اب شمائلہ بچ جائےگی۔

    رات دس بجے میں شمائلہ سے دریافت کرتا ہوں:

    ’’بیٹی اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ وہ اپنی طبیعت بتانے سے قبل دریافت کرتی ہے:

    ’’چچا آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا؟‘‘ میں دل پر قابو پاتے ہوئے جواب دیتا ہوں:

    ’’نہیں بیٹا آپ سے بھلا میں کیوں ناراض ہوں گا۔‘‘ پھر وہ دریافت کرتی ہے:

    ’’چچی تو ناراض نہیں ہیں؟‘‘ بیگم کے آنسو رواں ہو جاتے ہیں، میں ہی جواب دیتا ہوں:

    ’’نہیں بیٹا چچی بھی ناراض نہیں ہیں۔‘‘ پھر میں پوچھتا ہوں:

    ’’بیٹی! تم اب اچھا محسوس کر رہی ہو؟‘‘

    ’’ہاں چچا اب ٹھیک لگ رہا ہے۔‘‘ پھر وہ سوالیہ لہجہ میں دریافت کرتی ہے:

    ’’امی ابو کو خبر دی گئی ہے؟ وہ لوگ آ رہے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا وہ کل صبح پٹنہ پہنچ رہے ہیں۔‘‘ پھر وہ مجھ سے پانی مانگتی ہے۔ میں اسے دوچار گھونٹ پانی پلاکر تاکید کرتا ہوں:

    ’’بیٹی تم سے کوئی ناراض نہیں ہے، تم اب آرام سے سو جاؤ۔‘‘

    شمائلہ تو نام ہے اسی بچی کا جو بےحد فرماں بردار ہے۔ وہ تھوڑی دیر تک میری جانب دیکھتی رہتی ہے پھر میری انگلی پکڑکر آنکھ بند کر لیتی ہے۔ میں سوچنے لگتا ہوں کہ ایک چھوٹی سی غلطی جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے، اس کا احساس اسے اندر ہی اندر کس طرح سال رہا ہے۔

    دراصل جب سارے بچے پڑھ رہے تھے تو وہ بھی کتاب لینے گئی تو اسے خیال آ گیا کہ اس کے کچھ کپڑے پیچھے پڑے رہ گئے ہیں جسے اس نے غسل کے بعد سوکھنے کے لیے دیا تھا اور شام میں اٹھانا بھول گئی تھی۔ پیچھے اندھیرا تھا اس لیے اس نے موم بتی جلائی اور اسے ہوا کی زد سے بچاتی ہوئی پیچھے کی جانب گئی۔ گلی میں ہوا کی زد میں موم بتی بھڑک اٹھی تو اس نے اسے خودسے قریب کر لیا تاکہ وہ بجھنے نہ پائے، اسے یہ احساس بھی نہیں رہاکہ سنتھیٹک فراک میں آگ بھی پکڑ سکتی ہے۔ موم بتی کی لَو فراک سے سٹی تو آن کی آن میں پوری فراک شعلے سے بھر گئی وہ چلاتی ہوئی دوڑی اور جب تک ہم سب باہر آئے پوری فراک راکھ ہو چکی تھی اور اس کے بدن کا ستر فی صد سے زائد حصہ جھلس چکا تھا۔

    اس حالت میں بھی اسے اس بات کا احساس ہے کہ چچا چچی ناراض تو نہیں اور جب اسے اطمینان ہو جاتا ہے تو وہ بےحد پرسکون ہو جاتی ہے۔ اچانک وہ انگڑائی لے کر پورے بدن کو کھینچتی ہے۔ ڈاکٹر تیواری فوراً آتے ہیں۔ لائف سیونگ ڈرگس دیے جاتے ہیں، دھیرے دھیرے وہ بےحد پرسکون ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر بےبسی سے میری جانب دیکھ کر نگاہیں جھکا لیتے ہیں۔ بیگم کی بے ساختہ سسکی پھوٹ پڑتی ہے اور میں بیگم کی چنری کا دوپٹہ لے کر شمائلہ کو سر سے پاؤں تک ڈھانپ دیتا ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے