Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

نزہت عباسی

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

نزہت عباسی

MORE BYنزہت عباسی

    اس کی آنکھیں مکمل طور پر نیلی ہو چکی تھیں۔ مجھے خوف محسوس ہوا یہ اس کی آنکھوں کا رنگ کیسے بدل گیا؟ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا میں نے اسے تھام لیا سرد برفاب ہاتھ جس کی نیلی رگیں تن گئی تھیں۔ ایک سرد لہر میرے پورے وجود میں دوڑ گئی۔ میں نے گھبرا کر اس سے ہاتھ چھڑایا اور پوچھا، تمہیں کیا ہوا ہے؟ تمہاری حالت ایسی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے؟

    ’’آنکھیں؟‘‘وہ زہر خند انداز میں مسکرائی، میرا پورا وجود نیلا پڑ چکا ہے۔ میرے اندر کا زہر باہر آ گیا ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ نیلے نیلے آنسو۔ پتہ نہیں وہ ہنس رہی تھی یا رو رہی تھی۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا۔ میں نے اس سے کہا! خدا کے لیے گل چپ ہو جاؤ۔ وہ یکدم چپ ہو گئی اور ساکت نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ ایک گہری خاموشی ہمارے درمیان حائل ہو گئی۔ آؤ باہر بیٹھتے ہیں۔ اس نے کہا اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ باہر درخت کے نیچے کھڑے ہو کر وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔ سرد یخ بستہ ہوائیں جسم میں اترتی چلی گئیں مگر اس پر جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا۔ اس کاچہرہ بالکل سفید پڑ چکا تھا۔ اس کا رویہ میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ کچھ بتاتی ہی نہیں تھی۔ میں پچھلے دو سال سے اسے جانتی تھی وہ ایسی ہی تھی خاموش اپنی آگ میں جلتی ہوئی۔ مگر آج یہ اسے کیا ہو رہا ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر تھی۔

    وہ خاموش کھڑی تھی مجھے ایسا لگا جیسے میں برف کی بن جاؤں گی۔ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لاتی ہوں۔ وہ بےدم ہوکر بیٹھ جاتی ہے۔ اس کی حالت دیکھ کر مجھے دکھ بھی ہوتا ہے اورڈر بھی لگتا ہے۔ ہم سب یہاں دکھی ، تنہا اور اداس ہیں۔ مگر اس کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی، وہ پھر رونے لگتی ہے اس کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح دہکنے لگیں۔ سرخ رنگ کے آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ ’’یہ دیکھو دیکھو یہ میرے دل کاخون میری آنکھوں سے بہہ رہا ہے۔ میں خود کو لمحہ لمحہ مرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ یہ دیکھو میری بلڈ رپورٹ۔۔۔‘‘میں اس کی بلڈرپورٹ دیکھنے لگتی ہوں۔ بلڈ کینسر۔۔۔ ہاں نازیہ بلڈ کینسر آخری سٹیج پر۔۔۔ میں خود پہ ہنس نہیں رورہی نازیہ۔۔خون کے رشتے خون کا سرطان بن کر میری رگوں میں اترگئے ہیں۔مجھے ایسا لگ رہاہے جیسے میں کسی گہری قبر میں اترتی جارہی ہوں اور میرے اوپر ملبہ گرتا جا رہا ہے۔ میری سانس رک رہی ہے، میرا دم گھٹتا جا رہا ہے۔

    وہ سرگھٹنوں میں دے کر مسلسل رو رہی تھی۔ میں اسے تسلی دینا چاہتی ہوں مگر جیسے جیسے سارے الفاظ کہیں کھو گئے۔ بھلا اس کے دکھ کامداوا کیسے ہو۔ یہ تو ناسور بنکر اس کے خون میں شامل ہو گئے۔ میں بھی اس کے ساتھ آنسوؤں کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔ اس کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔ نازیہ ! سن رہی ہو نا؟

    میرے اردگرد ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے، ہنستے مسکراتے، کام کرتے، چلتے پھرتے باتیں کرتے اورمیں اس ہجوم میں تنہا کھڑی اپنی آواز کی بازگشت سنتی رہتی ہوں۔ دن تو کاموں میں گزر ہی جاتا ہے اور میں خود کو بہت مصروف رکھتی ہوں بلاوجہ۔ آفس میں ایک لمحہ فارغ نہیں بیٹھتی اور پھر واپس آکر اپنے کمرے میں بھی کچھ نہ کچھ لکھتی پڑھتی رہتی ہوں۔ مگر جیسے جیسے رات آتی ہے میری اذیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ رات، یہ رات نہیں گزرتی۔ بے پناہ تھکن کے باوجود یہ نہیں ہوتا کہ نیند کی پناہ مل سکے۔ یہ رات اتنی طویل کیوں ہوتی ہے۔ ایک ایک لمحہ جیسے صدیوں کے برابر۔ رات کی تنہائی روح کی تنہائی کے ساتھ مل کر اتنی اذیت ناک کیوں ہو جاتی ہے۔ میں آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرتی ہوں۔ نیند کی گولیوں کا بھی سہارا لیتی ہوں مگر اب تو یہ بھی اثر نہیں کرتیں۔ سب بےسود ہے۔ ہزاروں تصویریں ماضی کی یادیں، چہروں کی پرچھائیاں ایک ایک کر کے میرے سامنے آ جاتی ہیں۔ کبھی اتفاق سے آنکھ لگ جائے تو بھیانک خواب سے کھل جاتی ہے اور میں چیخ کر اٹھ جاتی ہوں۔ اپنے آس پاس دیکھتی ہوں۔ آوازوں کا لامتناہی سلسلہ میرے کان پھاڑ دیتا ہے۔ میں آیۃ الکرسی کا ورد کرتی ہوں۔ دل کو ذرا قرار آتا ہے۔ رشتے اور ان سے وابستہ کئی ہیولے میرے سامنے آجاتے ہیں۔ ہزاروں دائرے ہیں اور میں ان دائروں میں الجھتی رہتی ہوں۔ کبھی کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ جتنا سلجھانے کی کوشش کرتی ہوں اتناہی سب الجھتا جاتا ہے اورمیری ذات بھی ان کے درمیان گم ہو جاتی ہے۔ یہ سب کیوں ہوا؟ کیا یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے؟ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ ان گنت سوالات میرے سامنے ناچتے رہتے ہیں۔ میری حساسیت میرے زخموں کی شدت کو ان کی اذیت کو اور بڑھا دیتی ہے یا شاید میں خود ہی اذیت پسند ہو گئی ہوں۔ اپنے زخموں کوخود ہی کریدتی ہوں، ان سے خون رستا ہے تومجھے تسکین ہوتی ہے۔

    ماضی کا ورق ایک ایک کرکے کھلتا ہے۔ بوسیدہ اوراق ہواؤں میں اڑتے بکھرتے ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ کیا میں حرف غلط تھی جسے وقت نے تحریر کردیا۔ ماضی کی دھندلی یادیں ابھی تک ذہن کے صفحے پر محفوظ ہیں۔ وہ گھروہ چھوٹا سا گھر جہاں ہوااور روشنی رک رک کر آتی تھی۔ سخت دھوپ میں تپتی ہوئی چھت اور دیواریں بوسیدہ دروازے اور کھڑکیاں غربت جس گھر میں برستی تھی۔ اس گھر میں میرا وجود کسی دعا کا نتیجہ نہ تھا۔ ایک ان چاہی خواہش، ایک بن مانگی دعا۔ ایک طویل قطار تھی جس کے سب سے آخری سرے پر میں کھڑی تھی۔ مجھ تک آتے آتے ہر چیز ختم ہو جاتی تھی۔ یہاں تک کہ پیار میں بھی میرا حصہ نہ تھا۔ میں خالی خالی آنکھوں سے سب کے چہروں کو دیکھتی تھی مگر وہ سب میرے اپنے ہوکر بھی بےگانے تھے۔ شاید غربت چاہت کے احساس کو بھی ختم کردیتی ہے۔ ابھی شعور بے شعور تھا۔ مگر اپنی کم مائیگی کا احساس تو بچپن سے ہی میرے ساتھ بڑا ہوا تھا۔ میری سانسوں میں کرچیوں کی طرح اتر گیا تھا۔ جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی ۔ اپنی ناکردہ گناہی کی اس سزا کو بھگتتی رہی ۔ میرا کیا قصور تھا؟ مجھے معلوم نہ تھا۔ سب کچھ اگر اسی طرح رہتا تو بھی ٹھیک تھا مگر بےگناہی کی سزا بہت طویل بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔ ابا کی ایک دور کی بہن بے اولاد تھیں۔ ایک دن جب وہ ہمارے گھر آئیں تو میں نہ جانے کیوں ان کو اچھی لگی اور انہوں نے ابا سے کہا فیاض اسے مجھے دے دو۔ میں اسے اپنے ساتھ ملتان لے جاؤں گی۔ میں ان کی یہ بات سن کر ماں کے پیچھے چھپ گئی۔ نہیں۔ ارے کیوں نہیں مریم؟ بالکل لے جاؤ اپنی ہی بیٹی سمجھو۔ ماں نے کچھ کہنا چاہا مگر اباکے تیور دیکھ کر خاموش رہی۔ مریم پھوپھی نے ابا کے ہاتھ پر کچھ نوٹ رکھے۔ ابا بہت خوش تھے۔ انہوں نے مجھے پہلی بارگود میں اٹھاکر پیار کیا۔ وہ فیصلہ میرے باپ کاتھا۔ مجھے یاد ہے آج تک جب رخصت ہوتے ہوئے میری ماں نے مجھے گلے لگایا تھا اس کے آنسوؤں کا ذائقہ آج بھی مجھے اپنے ہونٹوں پر محسوس ہوتا ہے۔ مگر کیسی مجبوریاں تھیں جو خون کے رشتوں کو اتنا خود غرض بنا دیتی ہیں۔ میری مرضی کی اہمیت ہی کیا تھی۔ میں خالی ہاتھ خالی دل اس گھر سے بہت پہلے ہی رخصت کر دی گئی۔ نیا گھر جہاں کوئی رشتہ میرا اپنا نہ تھا۔ وہ خالی گھر جس میں میرے دم سے رونق آ گئی تھی۔ مریم پھوپھی بیوہ تھیں۔ انہوں نے میرا خیال رکھا۔ میں ان کے ساتھ جیتی رہی بےروح جسم کے ساتھ۔ میرا ماضی خوشگوار نہ تھا کہ اس کی یادیں مجھے بےچین رکھتیں۔ مگر ایک کسک ایک خلش ہمیشہ چبھتی رہتی۔ وقت یونہی گزرتا رہا۔ میں نے میٹرک کر لیا۔ میں پڑھائی میں اچھی تھی اور پڑھنا چاہتی تھی مگر ایک حادثے نے مریم پھوپھی کو مجھ سے چھین لیا۔ سب کچھ ختم ہو گیا اور میں تنہارہ گئی۔ ابا نے سنا تو مجھے لینے آئے۔ میں ان کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی مگرمجھے مجبوراً جانا پڑا۔ گھر آکر میں اجنبیوں کی طرح رہنے لگی۔ وقت گھات لگائے بیٹھا تھا۔ گھر آنے کے کچھ ہی دن بعد میری شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ میں نے اماں سے پوچھا تو انہوں نے صرف اتنا کہا ’’تیرے باپ کے سامنے کون بول سکتا ہے؟ ساجد اچھا لڑکا ہے تیرا خیال رکھےگا‘‘۔

    میں نے تو ساجد کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا وہ کون ہے؟ کیسا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ مجھے کچھ پتانہ تھا۔

    اپنی شادی کے دن مجھے اپنا وجود بالکل غیر ضروری لگ رہا تھا۔ وہ شادی میری کب تھی وہ تو میرے باپ اور بھائیوں کا فیصلہ تھا۔ جس سے انکار کرنا میرے اختیار میں نہ تھا۔ بغاوت میری سرشت میں نہ تھی۔ میں مجبور تھی یا مجبور کر دی گئی تھی اس فیصلے کو ماننے پر۔ میں بولنا چاہتی تھی مگر بول نہ سکی۔ مرنا چاہتی تھی مگر مر نہ سکی۔ سارے الفاظ جیسے آنسوؤں میں بہہ گئے اور پھر آنسو بھی خشک ہو گئے۔ شادی کے دن میں پتھر کے بت کی طرح ساکت تھی ۔ کب نکاح ہوا؟ کب میں نے دستخط کیے مجھے کچھ یاد نہیں۔ ذہن بالکل خالی ہو چکا تھا۔ رخصتی کے وقت ماں اور بہنیں مجھے گلے لگا کر خوب روتی رہیں مگر میں چپ رہی۔ ایک آنسو بھی میری آنکھ سے نہ نکلا۔

    بھلا مرنے والے بھی اپنی موت پر روتے ہیں؟

    ایک زندہ لاش کو اس کے مرقد پر پہنچا دیا گیا۔ تو جیسے سناٹے دور تک پھیل گئے۔یہاں دو بچے میرے استقبال کے لیے موجود تھے، مجھے ان دونوں ہی کے لیے تو لایا گیا تھا۔ وہ دونوں بچے سجاد کی پہلی بیوی سے تھے جسے وہ طلاق دے چکا تھا۔ مجھے اب ان ہی کے ساتھ زندہ رہنا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ۔ میں نے کئی بار سوچا کہ میں زندہ کیو ں ہوں؟ جس طرح موت کے ہزاروں بہانے ہیں اسی طرح جینے کی بھی کوئی نہ کوئی صورت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ان بچوں میں مصروف کر لیا۔ ماں باپ سے محبت کی محرومی کا دکھ میں جانتی تھی۔ اس لیے میں نے اپنی تمام محبتیں ان دونوں بچوں پر نچھاور کر دیں۔ بچوں کے باپ سے میرا رشتہ صرف رسمی تھا۔ ہم دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہ تھا۔ کئی کئی دن بات نہ ہوتی۔ ہوتی بھی تو کوئی ایسی ہی سرسری سی۔ میں نے اپنی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا۔ یاشاید فرار کا کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔ مگر میری زندگی میں چین کہاں؟ وقت ایک اور وار کرنے کے لیے تیار تھا۔ ایک دن یہ سب بھی ختم ہو گیا۔ عدالت نے ان دونوں بچوں کو ان کی ماں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ وہ دونوں بچے مجھ سے جدا ہو گئے۔ میرا اس گھر میں مصرف ہی کیا تھا۔ ساجد نے مجھے طلاق دے دی او ر امریکہ چلا گیا اور میں دارالامان چلی آئی۔۔۔ تہی دامن، خالی، اپنے ماضی کی اذیتوں سے چور چور۔ میں اپنے ماں باپ کے گھر نہیں گئی۔ کبھی ان کی صورت پھر نہیں دیکھی نہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ نازیہ نازیہ سن رہی ہونا۔ اب میں سوچتی ہوں کہ اپنی زندگی میں میرا کب کیا تھا؟ کیا میری زندگی پر میرا کوئی حق نہ تھا؟ میں اپنی اور پرائی محبتوں کے گرداب میں ایسی پھنسی کہ میری ذات کہیں گم ہو گئی۔ اب صرف سناٹے میرے ساتھ ہیں۔ میں اپنے ریزہ ریزہ کرچی کرچی وجود کو نہیں سنبھال سکتی۔ کائنات کی وسعتوں میں کوئی ایسا نہیں جسے میں اپنا کہہ سکوں۔ تم نے میری بلڈرپورٹ دیکھی ہے نا۔ دیکھو میرا وجود سرخ بیل سے آکاس بیل سے ڈھک گیا ہے جو مجھے چوس رہی ہے۔۔۔

    موتی ہو کہ شیشہ، جام کہ در

    جو ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا

    کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے

    جو ٹوٹ گیا، سو چھوٹ گیا

    تم ناحق ٹکڑے چن چن کر

    دامن میں چھپائے بیٹھے ہو

    شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

    کیا آس لگائے بیٹھے ہو

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے