Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شکوہ

MORE BYنوشابہ خاتون

    ”اے خدا تو کہاں ہے؟ جاگتا ہے یا سوتا ہے؟ کیا تو اپنے بندوں کے شر سے عاجز آ گیا ہے؟؟؟ ذرا آنکھیں کھول اور اس ناچیز پر ایک نظر کرم ڈال۔ تو نے مجھے کیوں بھلا دیا؟ کیوں نظر انداز کر دیا؟ یہ نہ سوچا کہ تونے جسے نظروں سے گرایا اس کا تو بیڑا ہی غرق ہو گیا۔ آخر میری خطا کیا تھی؟ میں نے تجھے دیکھے بغیر تجھ پر یقین کر لیا۔ میں نے تجھے محسوس کیا، کائنات کے ذرے ذرے میں، پتے پتے میں، پیڑپودوں میں، چشمے سے ابلتے ہوئے آبشاروں میں، سمندر کی بپھرتی ہوئی لہروں میں، پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں پر، ہواؤں میں فضاؤں میں ہر جگہ تجھے خود سے قریب پایا۔ پھر بھلا میں کیوں کر تیری ذات سے منکر ہو سکتی تھی؟

    مجھے یہ شکوہ نہیں کہ تو نے مجھے ایک غریب گھرانے میں کیوں پیدا کیا۔ امیری غریبی کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں۔ سب سے بڑی دولت تو سچی خوشی ہے۔ اگر ہر انسان دولت مند ہو جائے تو پھر دنیا کا کارو بار کیسے چلے؟ تیرا کوئی کام خالی از مصلحت نہیں ہوتا۔ لیکن مجھے ایک ظالم اور جابر شخص کے حوالے کر نے میں تیری کون سی مصلحت پوشیدہ تھی؟ مجھے تیری کرم فرمائیوں سے انکار نہیں۔ میری صورت میں تو نے ایک خوبصورت نمونہ پیش کیا۔ میں تیر ی قدرت کا شاہکار ہوں۔ تیرا یہ احسان کیا مجھ پر کم ہے کہ تو نے مجھے صحیح سالم بنایا۔ اگر میںلنگڑی لولی ہوتی، اندھی کانی ہوتی تو تجھے کیا فرق پڑتا؟ میں تیرا کیا بگاڑ لیتی؟ تو میرا مقروض تو نہ تھا؟؟؟

    تیری انھی نوازشوں نے میرے باپ کی مشکل آسان کر دی۔ ایک شخص مجھ پر مرمٹا۔ میری صورت کا دیوانہ ہو گیا اور بڑی آسانی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ یہ اچھی صورت بھی کیا عجب شے ہے، کبھی رحمت بن جاتی ہے اورکبھی زحمت۔ بظاہر وہ ایک معقول اور خوش اخلاق شخص ہے مگر اندر کا حال سوائے تیرے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ تو پھر، اگر میں پوچھوں کہ تو نے مجھ پر یہ ظلم کیوں کیا تو میں احسان فراموش، ناشکر گزار اور نافرمان گردانی جاؤں گی۔ لیکن تیرے سوا اورکس سے کہوں؟ ایک توہی توہے جو بغیر کسی سفارش کے اپنے بندوں کی سنتاہے۔ تجھ تک پہنچنے کے لیے کسی سیڑھی کی ضرورت نہیں۔ تیرے اور تیرے بندوں کے درمیان کوئی تیسرا حائل نہیں، کوئی پردہ نہیں۔ تو تو سب کی سنتاہے۔ اپنے بندوں کے دکھوں کو دور کرنے والا ہے۔ تو سزا بھی دیتا ہے، اورجزا بھی۔ اب صرف اتنا بتا دے کہ میری سزا کی معیاد کیا ہے۔ اس میں کسی ترمیم کی گنجائش ہے یا نہیں؟ میں تیری رحمت کی منتظر ہوں۔ تو تو دلوں کا حال جاننے والا ہے۔ تجھے ضرور یہ علم ہوگا کہ مجھے دولتِ دنیا کی ہوس نہیں۔ میں نے کبھی محلوں کے خواب نہیں دیکھے۔ عیش و عشرت کی کبھی مجھے خواہش نہیں رہی۔ میں تو صرف خلوص و محبت کی خواہاں ہوں۔ لیکن تیری یہ دنیا فریبی، دھوکے باز، مکار، چالاک، دغاباز اور لالچی لوگوں سے بھری پڑی ہے جو دن رات زمین پر فساد پھیلاتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی نظروں میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہر طرف دہشت گردی کی حکمرانی ہے اور تو تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ آخر یہ چھوٹ کیوں؟ میں مسلسل ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہی ہوں۔ مکروفریب کا شکار ہو رہی ہوں۔ اپنے سسرال والوں کی ہوس کی بھٹی میں جل رہی ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں خالی ہاتھ آئی ہوں۔ اگر خالص ہڈی ہے تو کیا ہوا۔ خالی ہڈی کو تو کتا بھی نہیں پوچھتا۔ میرے میکے والوں کا کہنا ہے کہ شریف لڑکیوں کا ڈولہ جس گھر میں جاتا ہے وہیں سے اس کا جنازہ بھی اٹھتا ہے۔ میر اشوہر رات کے جانے کس حصے میں نشے میں چور ایک نئے مطالبے کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے اور مجھے تشدد کا نشانہ بنا نا شروع کر دیتا ہے۔ میں تھرا جاتی ہوں۔ مجھے اپنے آس پاس موت کے سائے رقص کر تے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب میں اس کے ظلم کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاؤں گی۔ اڑوس پڑوس والے تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں۔ حق کا ساتھ دینے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہے۔ وہ دنیا وی زندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھے بیٹھے ہیں۔ اب تو ہی بتامیں کیا کروں؟ توہی مجھے کوئی راستہ دکھا۔ تیری مہر بانیوں سے میں اب بھی مایوس نہیںکہ مایوسی کفر ہے۔ آخر میں پھر اپنا سوال دہراتی ہوں۔۔۔ مجھ غریب پر یہ ظلم کیوں؟“

    اچانک دل سے ایک آواز آئی۔۔۔

    ”میں یہاں ہوں۔ مجھ سے شکوہ کر نے والے، پہلے تو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ۔ تیرے ہر سوال کا جواب تجھے مل جائےگا۔“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے