Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

محبت کی یادگار

اعظم کریوی

محبت کی یادگار

اعظم کریوی

MORE BYاعظم کریوی

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جسے گاؤں کے زمیندار کے بیٹے سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکا جب بنارس میں پڑھنے جاتا ہے تو وہ وہاں سے اس کے لیے ایک تحفہ لاتا ہے، جسے وہ اپنے گلے میں پہن لیتی ہے۔ جب لڑکی کی شادی کسی اور کے ساتھ ہو جاتی ہے تب بھی وہ اس یادگار کو اپنے گلے سے نہیں اتارتی۔ اس یادگار نشان کی حسد میں اس کے شوہر کی موت ہو جاتی ہے۔‘‘

    کشوری بڑی ہنس مکھ اور نیک خصلت لڑکی تھی۔ گو وہ یوں بہت مالدا نہ تھی مگر حسن کی دولت سے مالا مال تھی، سب اسے گاؤں کی رانی کہتے تھے۔ اب اس نے بارہویں سال میں قدم رکھا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت وہ اپنے گھر کے سامنے نیم کے پیڑ کے نیچے چبوترہ پر بیٹھی بڑی خوش الحانی سے رامائن پاٹ کر رہی تھی کہ ادھر سے گاؤں کے زمیندار کا لڑکا جسونت گزرا، آج بہت دنوں کے بعد کشوری نے جسونت کو دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ دونوں لڑکپن کے ساتھی تھے، گاؤں کے پاٹ شالہ میں دونوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ پاٹ شالہ کی تعلیم ختم کرکے جسونت بنارس انگریزی پڑھنے چلا گیا اور کشوری اپنی تعلیم کا اور سلسلہ قائم نہ رکھ سکی، جب جسونت گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں آتا تو کشوری کے لیے بنارس سے کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لاتا۔ اس مرتبہ جب وہ کشوری سے ملا تو اس نے ایک چاندی کا تعویذ پیش کیا۔ یہ کوئی بڑی چیز نہ تھی مگر کشوری انکار نہ کر سکی۔ وہ جسونت کو ’’بھائی‘‘ کہتی تھی، وہ اسے دنیا میں سب سے زیادہ لائق عقلمند اور قابل عزت سمجھتی تھی۔ اس کے لیے جسونت ایک ’’دیوتا‘‘ تھا اور دیوتا ہی سمجھ کر اپنے دل میں اس کی پوجا کرتی تھی۔ گلے میں تعویذ پہن کر اس نے اس پر ایک اچٹتی نظر ڈالی ’’دیوتا‘‘ کا تحفہ پاکر کشوری کے دل کی خوشی اس کی آنکھوں سے جھلکنے لگی۔ وہ فوراً اپنی ماں کے پاس دوڑی گئی اور کہا،

    ’’ماں! دیکھ تو سہی۔ جسونت بھائی میرے لیے کیسا خوبصورت تعویذ بنارس سے لائے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں! ہاں بہت خوبصورت ہے‘‘ ۔ ماں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’ہاں، بہت خوبصورت ہے۔ مگر جسونت نے تو تجھ ایسی بدصورت لڑکی کو ایسا خوبصورت تعویذ لاکر دیا اور تونے اس کے بدلہ میں ان کو کچھ بھوجن بھی نہ کرایا۔‘‘

    اس عرصہ میں جسونت بھی کشوری کی ماں کو پرنام کرنے گھر کے اندر پہنچ گیا اور اس نے کہا، ’’نہیں ماں! میں ناشتہ کرآیا ہوں پھر کسی دن آکر کھالوں گا۔‘‘

    یہ سن کر کشوری کی بھوئیں تن گئیں، اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اور اس نے کہا، ’’کیوں نہ کھاؤگے؟ تم کو ضرور کھانا پڑے گا ورنہ یہ لو، اپنا تعویذ واپس لے جاؤ‘‘ یہ کہہ کر کشوری نے اپنے گلے سے تعویذ اتارنے کی کوشش کی جسونت نے اس کا ہاتھ تھام لیا، ’’بس بس زیادہ غصہ کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ لو! آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے، بڑی پگلی ہے۔ اس میں رونے کی کون بات ہے خوشی کے وقت آنسو بہانا منحوس ہوتا ہے۔ اچھا لے آ، کیا کھلاتی ہے میں ضرور کھاؤں گا۔‘‘

    برستا ہوا بادل چھٹ گیا اور آفتاب چمکنے لگا کشوری کے ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ کا راج ہو گیا۔ جب ایک گلاس دودھ پی کر جسونت رخصت ہونے لگا تو کشوری نے پوچھا، ’’کب آؤگے۔‘‘ جسونت نے کہا۔ ’’جب تم بلاؤگی۔‘‘

    ’’اور اگر میں نہ بلاؤں تو۔‘‘ کشوری نے منہ بناکر کہا۔

    جسونت نے مسکراکر جواب دیا، ’’تو میں نہ آؤں گا۔‘‘

    کشوری کا چہرہ اداس ہو گیا۔ اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا اچھی بات ہے جیسی تمہاری خوشی۔ میں غریب تم کو مجبور نہیں کر سکتی۔

    جسونت نے دیکھا کہ ہنسی ہنسی میں کشوری پھر روٹھنا چاہتی ہے اس نے خوشامدانہ لہجہ میں کہا، ’’میں نے تو یوں ہی ہنسی میں تم کو چھیڑنے کے لیے کہہ دیا تھا تم بلاؤ چاہے نہ بلاؤ مگر جب کبھی میں بنارس سے چھٹیوں میں یہاں آؤں گا تو تم سے ضرور ملوں گا۔‘‘ یہ کہتا ہوا کشوری سے جسونت رحصت ہو گیا۔

    جسونت اور کشوری کے ایسے تعلقات دیکھ کر گاؤں والوں کا خیال تھا کہ جب کشوری جوان ہوگی تو اس کی شادی جسونت ہی کے ساتھ ہوگی لیکن ان کے والدین کے خیالات اور ہی قسم کے تھے۔ کشوری کے ماں باپ غریب تھے وہ سوچتے تھے کہ غریب لڑکی کے ساتھ زمیندار اپنے لڑکے کی شادی کبھی نہ کرےگا لیکن اس کے ساتھ ہی ان کو جسونت سے بہت سی امیدیں تھیں وہ سمجھتے تھے کہ ممکن ہے۔ جسونت کی کوشش سے زمیندار شادی کرنے کے لیے تیار ہو جائے، ہم غریب ہیں تو کیا لیکن ہمارا خاندان تو معزز و شریف ہے۔ ادھر جسونت کے والدین نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی کہ وہ اپنے لڑکے کی شادی ایک غریب گھر میں کریں گے۔ مغرور زمیندار تو جسونت کے لیے کشوری کے بجائے کسی راجکماری کی تلاش میں تھا۔

    کشوری ان تمام حالات سے بے خبر اپنے ’’جسونت‘‘ کی محبت میں مگن تھی۔ جس دن جسونت نے اس کو تعویذ دیا اس رات کو کشوری خوشی کے مارے اچھی طرح سے سو بھی نہ سکی۔ وہ سوچتی تھی کہ کب سویرا ہو اور وہ اپنی سہیلیوں کو تعویذ دکھائے۔

    کشوری نے آہستہ آہستہ اس سہانے سبزہ زار میں قدم رکھا جسے دنیا ’’جوانی‘‘ کہتی ہے۔ اس کا حسن و شباب دیکھ دیکھ کر اس کے والدین دل ہی دل کڑھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کشوری کسی غریب جاہل مرد کے پالے پڑے جواس کی قدر نہ کر سکے۔ جسونت سے وہ ناامید ہو چکے تھے۔ اس وقت جسونت بی۔ اے۔ میں پڑھ رہا تھا لیکن وہ گاؤں میں آتا تو حسب معمول کشوری سے ملنے ضرور آتا تھا اور کشوری بھی جوں جوں بڑھتی گئی اس کے دل میں جسونت کی محبت بڑھتی گئی۔ وہ اب جسونت کو خط بھی لکھنے لگی تھی۔ ان دونوں لڑکپن کی بے لوث سادی محبت والوں میں خط و کتابت کا سلسلہ دیکھ کر گاؤں والوں نے جھوٹی افواہیں بھی اڑانی شروع کردیں اور اس کی خبر ان کے والدین کو بھی ہو گئی۔ کشوری کے گھر والوں کے لیے یہ بڑی شرم اور بےعزتی کی بات تھی۔ لیکن جسونت کے والدین کے لیے کوئی فکر کی ضرورت نہ تھی۔ اول تو جس افواہ سے غریب کی عزت خاک میں مل جاتی ہے اسی افواہ سے دولتمند کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ دوسرے یوں بھی لڑکے والوں کی بدنامی ہوتے ہوئے بھی سماج میں رہنا مشکل نہیں ہوتا لیکن لڑکی والوں کے لیے تھوڑی سی کانا پھوسی بھی قیامت ہو جاتی ہے۔ سماج میں پھر ان کو بڑی مشکل سے جگہ ملتی ہے۔ انھیں تمام وجوہ سے کشوری کے والدین نے اپنی لڑکی کا بیاہ اساڑھ میں کرنے کا انتظام کیا۔

    جب کشوری کو معلوم ہوا کہ اس کا بیاہ ہونے والا ہے تو اس کے دل میں اسی قسم کے خیالات آنے لگے جو اس کی ہم عمر لڑکیوں کے دلوں میں شادی ہونے سے کچھ پہلے پیدا ہونے لگتی ہیں۔ وہ بہت خوش ہوئی اور وہ سوچنے لگی، ’’کچھ دنوں کے بعد اسے کسی کو خوش کرنا پڑے گا وہ گھر کی ملکہ بنےگی۔ گرہستی کا انتظام کرنا پڑے گا۔ وہ اپنے شوہر کا کمرہ سجائےگی۔ وہ سینے پرونے سے اس کی آمدنی بڑھانے کی کوشش کرےگی اور ہاں بچوں کو کس طرح خوش کرےگی۔‘‘ اسی قسم کے خیالات سے کنواری لڑکیاں اپنے مستقبل کی دنیا بناتی ہیں۔ یہی ان کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ انھیں ارمانوں اور امیدوں کے ساتھ وہ گرہستی کے آشرم میں قدم رکھتی ہیں۔ اسی قسم کے خیالات کے ساتھ کشوری نے اپنے جسونت کو بھی یاد کیا۔ اوہو وہ اس خوشی کے موقع پر اس کو ضرور کوئی قیمتی تحفہ نذر کریں گے اور وہ اس تحفہ کو اپنے ’’پتی دیوتا‘‘ کو دکھائےگی۔ آہا وہ کتنا اچھا نظارہ ہوگا۔ ان تمام خیالات کے آتے ہی اس نے ’جسونت‘ کو لکھا کہ ’’میرا جلدی بیاہ ہونے والا ہے‘‘ اس نے سوچھا تھا کہ خط کے جواب میں جسونت اس کو مبارک باد کا خط لکھیں گے اور آشیرباد دیں گے لیکن خلاف توقع وہ جسونت کے جواب سے خوش نہ ہو سکی۔ اس نے ایک بار، دوبار اور پھر بار بار خط کو پڑھا جس سے اس کے دل پر چوٹ لگی۔ اس نے سوچا کہ جسونت اب اس کو پیار نہیں کرتے۔ اس نے اپنی ماں سے بھی شکایت کی کہ معلوم نہیں کیوں جسونت اب اس سے پہلی سی محبت نہیں کرتے۔

    یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ شادی کا دن نہ بھولی۔ ایک ہفتہ پہلے اس نے پھر جسونت کو لکھا، ’’بھیا آپ کالج سے کچھ دنوں کی چھٹی لے کر آئیں اور میری شادی میں ضرور شریک ہوں۔‘‘ وہ سوچتی تھی کہ اس مرتبہ جسونت ضرور آئیں گے اور جب وہ آئیں گے تو وہ ان کے چرنوں کی خاک اپنی پیشانی سے لگائےگی اور وہ اسے آشیرواد دیں گے۔ وہ اس کے لیے بنارس سے ضرور کوئی تحفہ لائیں گے۔ آہ اب بھیا سے جدا ہونا پڑےگا۔ معلوم نہیں کتنے دنوں کے لیے؟‘‘ وہ یہ سب کچھ سوچ کر روئی بھی مگر وہ خوشی کا رونا تھا۔ واہ ری شادی کی خوشی۔

    آخرکار زندگی کا وہ قیمتی دن آہی گیا، صبح سے شام تک اگر کشوری کو کس کی فکر تھی کسی کاخیال تھا تو وہ جسونت تھا۔ شوہر کا زیادہ انتظار نہ تھا کیونکہ اس کو تو آنا ہی تھا۔ اسے جسونت بھیا کی یاد ستارہی تھی جن سے جدا ہوکر وہ نئی زندگی گزارنے کے لیے جا رہی تھی۔

    وہ جسونت کا انتظار کر رہی تھی۔ دولہاسج کر آیا۔ گاؤں والے بھی اپنے اپنے تحفے لائے، اس کی سہیلیاں بھی ہنسی مذاق کرنے کے لیے آ گئیں، مگر جسونت کا اب تک پتہ نہ تھا۔ شبھ مہورت بھی آ پہنچی، ’’بھونر‘‘ کا وقت بھی آ گیا لیکن جسونت نہ آیا۔ کشوری گھونگھٹ کاڑھے مہاور لگائے زیوروں سے لدی ہوئی بیاہ کے ’’منڈپ‘‘ کی طرف چلی۔ اس موقع پر بھی اس کی آنکھیں جسونت بھیا کو تلاش کر رہی تھیں لیکن اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ یکایک اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، لیکن اس کو جسونت کا کہنا یاد آ گیا کہ ’’خوشی کے وقت آنسو بہانا منحوس ہوتا ہے، یہ سوچتے ہی اس نے اپنے دل کو سنبھال لیا۔ وہ منڈپ میں پہنچ گئی۔ منتر کا جاپ ہوا، سنکھ پھونکے گئے اور کچھ دیر کے لیے کشوری بھی اپنا رنج بھول گئی۔

    شادی ہو گئی اور کشوری اپنی سہیلیوں، لڑکپن کے ساتھیوں اور اپنے والدین سے رخصت ہوکر اپنے پتی دیوتا کے گھر پہنچ گئی۔

    کشوری کا شوہر سکریٹریٹ میں کلرک تھا، تھوڑی تنخواہ میں اسے نو دس آدمیوں کا خرچ اٹھانا پڑ رہا تھا۔ کشوری کالڑکپن کچھ آرام سے نہ گزرا تھا، شہر میں آکر بھی اس کا وہی حال رہا مگر وہ ایک ہوشیا ر لڑکی تھی وہ اپنے شوہر کو جان سے بھی زیادہ پیار کرتی تھی۔ ساس سسر کی خدمت گزار اور گھر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لیے شفیق ماں تھی۔ اس نے اپنی کفایت شعاری سے دو سال تک گھر کا خرچ آمدنی سے زیادہ بڑھنے نہ دیا۔

    دیوالی کی چھٹیوں میں سکریٹریٹ بند ہوا۔ جب وہ دفتر سے آج اپنے گھر واپس ہوا تو کشوری نے اپنے شوہر کے چہرہ پر خلاف معمول اداسی دیکھی جب وہ رات کو اپنے شوہر کے پاس پان لیے ہوئی پہنچی تو اس کے شوہر نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے سرپر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’ہردیشوری! تمھیں میرے لیے کتنی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، اگر تم اس جھونپڑی کے بجائے کسی راج محل کی رونق بڑھاتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔‘‘

    کشوری نے جلدی سے اپنا ہاتھ اپنے پتی کے منہ پر رکھ دیا اور کہا، ’’پران ناتھ! آپ بار بار ایسا کیوں کہتے ہیں اگر آپ جھونپڑی میں رہتے ہیں تو وہ میرے لیے سورگ ہے۔ آپ ہی میرے لیے سب کچھ ہیں۔ آپ میرے دیوتا ہیں آپ کی سیوا کرنا ہی میرا دھرم ہے۔ آپ مجھے تو کہتے ہیں لیکن خود اپنی صحت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ آپ رنج و فکر میں کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ اگر میں آپ کو آرام نہ پہنچا سکوں تو میرا مر جانا ہی بہتر ہے۔‘‘

    ’’کیا تم سچ مچ مرنا چاہتی ہو؟ لیکن یہ تو بتاؤ کہ مجھے کس پر چھوڑ جاؤگی۔ خیر تم پہلے مرو یا میں یہ تو ایشور جانے لیکن دیوالی قریب ہے۔ اس موقع پر مرد اپنی عورتوں کو سونے چاندی کے تحفے دیتے ہیں سچ بتاؤ کہ تم اپنے غریب شوہر سے دیوالی کے دن کیا لینا چاہتی ہو؟‘‘

    ’’میرا شوہر ممکن ہے کہ غریب ہو لیکن محبت میں وہ امیر ہے تو میں اس سے پریم چاہتی ہوں۔ سونے چاندی کی مجھے ضرورت نہیں۔‘‘

    مگر ایسا نہیں ہو سکتا تم کو کچھ نہ کچھ ضرور قبول کرنا پڑےگا۔ ذرا سوچو تو سہی شادی ہوئے دو سال ہو گئے مگر میں نے اب تک تم کو کچھ بھی نہ دیا اس سال میں تم ضرور کوئی زیور بنوا دوں گا۔

    کشوری محبت کے آنسوؤں کو نہ روک سکی وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کے شوہر کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلتا ہے اس لیے اس کی صحت جواب دے رہی ہے۔ زیور بنوانے میں اسے اور کتنی محنت کرنی پڑےگی۔ اس کے شوہر گوپال نے کشوری کو کھینچ کر اپنے کلیجہ سے لگا لیا۔ کشوری کی آنکھوں میں آنسو کیوں آئے یہ وہ اچھی طرح سے سمجھ گیا۔ اس کی آنکھیں بھی بھر آئیں، گوپال نے پھر کہا، ’’میں تمہارے لیے قیمتی زیور نہ بنوا سکوں گا کیونکہ میرے پاس روپے کم ہیں پھر بھی میں آج تم کو بتاتا ہوں کہ میں نے کچھ روپے جمع کر لیے ہیں تم اپنا وہ چاندی کا تعویذ دے دو، میں اس پر سونے کا خول چڑھا دوں گا۔ اس میں خرچ بھی زیادہ نہ لگے گا۔ تم اس کو کل ضرور اتار دینا۔‘‘

    کشوری نے آہستہ سے جواب دیا، ’’میرے سرتاج! آپ ضد کیوں کرتے ہیں آپ نے جو کچھ جمع کیا ہے اس سے اپنا علاج کرائیے۔‘‘

    گوپال نے کچھ دیر خاموش رہ کر کہا، ’’میں اور علاج کراؤں، نہیں کل میں تم کو ضرور تحفہ دوں گا۔‘‘

    ’’پران ناتھ! کیا یہ آپ کی انتہائی ضد نہیں ہے۔‘‘

    ’’ہرگز نہیں۔ تم ابھی اپنے گلے سے تعویذ اتارو۔‘‘ یہ کہہ کر تعویذ اتارنے لگا۔

    پہلے تو کشونی نے اسے روکنا چاہا مگر جب گوپال نہ مانا تو اس نے کہا، ’’کئی سال ہو چکے جسونت بھیا نے مجھے یہ تحفہ دیا تھا میں ان کی یادگار کو جدا نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

    ’’میں تو اسے سونے سے مڑھوادوں گا۔‘‘

    ’’لیکن اس سے اس کی اصلیت چھپ جائےگی۔ اس کا رنگ بدل جائےگا۔ آپ ایسے کام میں کیوں فضول خرچ کرنا چاہتے ہیں جس کو میں ناپسند کرتی ہوں۔‘‘

    ’’کیا وہ اتنا قیمتی ہے کہ تم میری خواہش کو پورا نہ ہونے دوگی۔‘‘

    ’’میرے مالک! میں آپ کے حکم کے خلاف نہیں چلنا چاہتی پھر بھی میں بتانا چاہتی ہوں کہ یہ تعویذ میرے جسونت بھیا کے محبت کی یادگار ہے اس لیے میں آپ کی بات نہیں مانتی۔‘‘

    گوپال خاموش ہو گیا، اس کا چہرہ پھیکا پڑ گیا۔ کشوری نے یہ سب کچھ دیکھا مگر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی۔ گوپال نے تھوڑی دیر کے بعد کشوری کو آہستہ سے ڈھکیل دیا۔ کشوری پھر بھی اس کے پاس تھوڑی دیر تک بیٹھی رہی۔ اس کی آنکھوں سے کچھ آنسو نکل پڑے اس نے گہری سانس لی اور دھیرے سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ رنگ میں بھنگ ہوتے دیر نہیں لگی۔

    گوپال نے بڑی مشکل سے کچھ روپے جمع کیے تھے۔ وہ اس سے کشوری کے لیے کوئی تحفہ خریدنا چاہتا تھا لیکن کشوری نے انکار کردیا۔ کشوری کو کیا معلوم تھا کہ وہ اپنے انکار سے گوپال کے دل کو کتنا صدمہ پہنچائےگی۔ آج کشوری نے اپنے شوہر کی مدت کی آرزو پر اپنے انکار سے پانی پھیر دیا۔ گوپال نے کشوری اور جسونت کے تعلقات کے متعلق کچھ باتیں سنی تھیں لیکن اس کے دل پر پہلے اس کا کچھ اثر نہ ہوا تھا کیونکہ کشوری کی محبت کی وجہ سے گوپال کے دل میں کسی قسم کی بدگمانی پیدا ہی نہ ہوسکی لیکن جب گوپال محبت کی نیند سے چونکا تو محبت کا وہ شوخ رنگ پھیکا نظر آیا۔ جس کو وہ پہلے پری حور او ردیوی سمجھ رہا تھا اب وہ کسی اور رنگ میں نظر آنے لگی۔ محبت کی ترنگ میں عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا نشہ اترتے ہی ہنر بھی عیب معلوم ہونے لگتا ہے۔ محبت والے ایک دوسرے کی غلطیان تلاش کرنے لگتے ہیں اگر ایسی حالت میں اس کے دل میں بدگمانی اپنا گھر بنا لیتی ہے تو ساری زندگی برباد ہو جاتی ہے ساری خوشیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

    گوپال نے گاؤں والوں سے کشوری کے متعلق بہت سی افواہیں سنی تھیں لیکن وہ ان افواہوں کو بھول گیا تھا، اس کی کچھ کچھ یاد اس کے دل کے کسی گوشہ میں باقی تھی۔ شادی ہونے کے بعد بھی کشوری جسونت کو خط لکھا کرتی تھی بعد میں گوپال کو کسی قسم کی غلط فہمی یا بدگمانی نہ ہوسکی اب جب کہ جسونت کا پھر نام لیا گیا اور کشوری نے جسونت کے تحفہ کو جدا کرنے سے انکار کیا تو گوپال کے دل میں بدگمانی نے اپنی جگہ بنالی اور اس کو پورا یقین ہو گیا کہ کشوری شادی سے پہلے ہی جسونت کو پیار نہیں کرتی تھی بلکہ اب بھی وہ اسی طرح سے جسونت سے محبت رکھتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ وہ اس کے سامنے اپنے شوہر کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتی۔ ’’آہ وہ کتنی بے شرم ہے کہ جسونت کا نام لے کر مجھ سے کہتی ہے کہ یہ تعویذ ان کی محبت کی یادگار ہے۔ اف یہ ناقابل برداشت بات ہے اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔‘‘ تمام رات گوپال کو اسی فکر میں نیند نہ آئی صبح ہوتے ہی اس کی طبیعت خراب ہو گئی وہ دن بھر بستر ہی پر پڑا رہا رفتہ رفتہ اس کی حالت ایسی خراب ہوئی کہ وہ ایک ہفتہ پلنگ سے نہ اٹھ سکا۔

    اب تک کشوری نہ سمجھ سکی کہ گوپال کی بیماری کی اصل وجہ کیا تھی وہ سمجھتی تھی کہ اس کا شوہر بہت محنت کرتا ہے اسی سے اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اسی خیال سے تعویذ مڑھانے کے بدلے اس نے دوا لانے کے لیے گوپال سے کہا تھا۔ وہ اس سے بے خبر تھی کہ اس کا شوہر غیرت اور بدگمانی کی آگ میں جل رہا ہے۔ جب وہ گوپال کے پاس جاتی تو گوپال اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا۔ کشوری اپنے شوہر کا یہ حال دیکھ کر دل میں کڑھتی آخر کار اس نے سوچا کہ ان کی خفگی کی اصل وجہ یہ تعویذ ہے اس کو یہ پتہ نہ تھا کہ گوپال کے کانوں میں گاؤں کی کچھ افواہیں پہنچ چکی تھیں۔ اس نے اب تعویذ کو پارسل کے ذریعے سے جسونت کے پاس واپس کرنے کا ارادہ کیا مگر یہ سوچتے ہی کہ یہ تحفہ ان ’’جسونت بھیا‘‘ کا ہے جن کو وہ جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے لیکن ہندوستانی عورتوں کے لیے شوہر کی خوشی ہی دنیا کی سب چیزوں سے پیاری ہوتی ہے۔ اس لیے کشوری نے تعویذ کو واپس کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا لیکن یہ سوچ کر ڈاک کے ذریعے سے بھیجنے میں ’’جسونت بھیا‘‘ کو برا لگے گا اس نے ان کو خط لکھ کر اپنے یہاں بلانے اور سب باتیں اچھی طرح سے سمجھاکر تعویذ واپس کرنے کا ارادہ کیا۔

    گوپال کی حالت روز بروز خراب ہونے لگی۔ جب وہ دفتر میں کام کرنے بیٹھتا تو کشوری اور جسونت کی باتیں سوچ سوچ کر وہ ایسا پریشان ہوتا کہ سرکاری کام میں غلطیاں ہو جاتیں۔ ایک دن جب وہ دفتر سے گھر واپس ہوا تو اس نے کشوری کو اپنے پاس بلایا اور پیار سے اس کی طرف دیکھنے لگا وہ سوچنے لگا، ’’آہ ایسی معصوم عورت کیا کوئی پاپ کر سکتی ہے، نہیں میری بدگمانی فضول ہے۔‘‘

    عرصہ کے بعد کشوری نے جو شوہر کی محبت بھری نگاہیں دیکھیں تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ گوپال نے اس کی تھوڑی پکڑ کر اس کا منہ اوپر اٹھایا اور کلیجہ سے لگاکر اس سے پوچھا، ’’ہردیشوری! کیوں روتی ہو‘‘ بہت دنوں کے بعد کشوری نے اپنے شوہر کی زبان سے محبت بھری باتیں سنیں، عرصہ کے بعد گوپال نے اس کو اپنے سینہ سے لگایا تھا، رکے ہوئے آنسو اک دم امنڈ پڑے، اس سے جتنا رویا گیا وہ روئی، گوپال کا بھی دل بھر آیا۔ مگر واہ رے شکی مزاج مرد، گوپال نے بہت نرمی سے کشوری سے دریافت کیا، ’’سچ بتاؤ کیا تم میں اور جسونت میں کوئی خراب تعلق تھا۔‘‘ آسمان سے گویا بجلی گر پڑی یکایک کشوری کے آنسو خشک ہو گئے، وہ حیرت سے اپنے شوہر کی طرف دیکھنے لگی اور وہ یہ نہ سوچ سکی کہ اسے ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے اس کا سر چکرانے لگا اس کی قسمت میں شوہر کی زبان سے ایسے شرمناک الفاظ کا سننا لکھا تھا جب کہ شادی ہوئے تین سال ہو چکے تھے، کیا کوئی بہن اپنے بڑے بھائی سے ناجائز تعلق رکھ سکتی ہے۔ شدت سے رنج و غم سے وہ اپنے شوہر کے قدموں پر گر پڑی اس کادل پھٹا جاتا تھا اس نے اپنے شوہر کے قدموں کو زور سے اپنی چھاتی سے چپکالیا، وہ ایک لفظ بھی نہ بول سکی۔

    لیکن کشوری کی اس حالت سے گوپال کی بدگمانی بڑھ گئی، وہ کشوری کی صداقت اور سچائی کا اندازہ ہی نہ لگا سکا، اس نے سوچا کہ ’’کشوری شرم اور ڈر کے مارے سرنگوں ہے کیونکہ اس کا راز کھل گیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ میرے قدموں پر کیوں گرتی۔‘‘ گوپال کی بدگمانی بڑھتی ہی گئی پھر بھی اس وقت اس نے کشوری پر رحم ہی کیا۔ واہ ری انسان کی عقل! اس دنیا میں عورت اور مرد ایک دوسرے کو کبھی اچھی طرح سے نہ پہچان سکیں گے۔

    کشوری کو اب معلوم ہو گیا کہ اس کا شوہر اس سے کیوں بدگمان ہے۔ اس کو اب اپنے شوہر کو اپنا منہ دکھانا بھی اچھا نہ معلوم ہوتا تھا، وہ جب کبھی اپنے شوہر کے کمرہ میں جاتی تو سوچتی کہ اس کا شوہر اس کے بارے میں ایسی باتیں سوچتا ہوگا جن کا خواب میں اسے خیال نہ تھا۔ وہ شرم اور غیرت کے مارے زمین میں گڑی جاتی تھی اس نے اپنے شوہر سے ایک لفظ بھی نہ کہا، وہ ہر وقت یہی سوچا کرتی تھی کہ اس کے شوہر نے ایسی ذلیل بات کیوں سوچی، اسے اب ہر چیز سے نفرت ہو گئی۔ اس کی تندرستی بھی خراب رہنے لگی۔ آخرکار اس نے کچھ سوچ کر جسونت بھیا کو لکھا، ’’میں بڑی مصیبت میں ہوں، آپ فوراً میری سسرال میں تشریف لائیے۔‘‘ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ اس بار وہ ضرور آئیں گے۔

    اس دن خلاف معمول گوپال دفتر سے جلدی آ گیا اور بہت تھکا ہوا تھا۔ کشوری سے کھانا لانے کو کہا اور خود پلنگ پر لیٹ گیا۔ کشوری نے جو خط جسونت کو لکھا تھا وہ تکیہ کے نیچے پڑا تھا، گوپال کی نظر اس خط پر پڑ گئی، پتہ لگا ہوا تھا مگر خط بند نہ تھا۔ اس کو دیکھتے ہی گوپال کا نازک جسم غصہ کے مارے پیپل کے پتہ کی طرح کانپنے لگا۔ کانپتی ہوئی انگلیوں سے اس نے خط کھولا اور پڑھنے لگا۔

    ’’پیارے جسونت بھیا! میں بڑی مصیبت میں ہوں، مہربانی کرکے جلدی آکر میری مدد کیجیے۔‘‘

    آپ کی کشوری

    آج گوپال نے چوری پکڑی اس نے سوچا، ’’وہ جسونت کو بلانا چاہتی ہے، مصیبت سے چھڑانے کے لیے یعنی اس کو بھگالے جانے کے لیے اور وہ بھی جلدی۔ وہ اس کے ساتھ جائےگی نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اب معلوم ہو گیا وہ ہمیشہ اسی طرح خط لکھتی رہی ہوگی اور یہ آخری خط ہے جسے میں نے پکڑ لیا۔ بے ایمان۔ بےوفا لڑکی! آہ میں نے اپنے دل کا خون پلاکر اس ناگن کی کیوں پرورش کی۔ کیا اس لیے کہ وہ مجھی کو ڈسےگی۔‘‘ یہ سوچتے ہی گوپال کو اپنی قسمت پر بے اختیار رونا آ گیا وہ سوچنے لگا، ’’اس فاحشہ سے میں نے شادی ہی کیوں کی۔ اگر اس وقت جسونت مل جائے تو میں اس کا خون پی لوں، ہاں میں اس وقت تک انتظار کروں گا جب تک یہ چھٹی اس کے پاس پہنچے اور وہ یہاں آئے۔ اب مجھے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ کمرہ سے نکل کر باہر ہو گیا۔

    گوپال کے جانے کے کچھ دیر بعد جب کشوری کھانا لے کر آئی تو اسے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ اس کا شوہر کمرہ میں نہیں ہے۔ وہ اداس ہوکر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ ایک گھنٹہ گزر گیا لیکن وہ واپس نہ آیا۔ اس کو اب اپنے اس خط کی یاد آئی جو اس نے جسونت کے نام لکھا تھا۔ تکیہ اٹھاکر اس نے دیکھا تو جس طرح سے وہ رکھ گئی تھی وہ اسی طرح سے رکھا تھا، اس نے اس خط کو فوراً ڈاک خانہ میں بھجوا دیا۔

    کافی رات گزرنے کے بعد گوپال گھر واپس ہوا، انسان کب تک ایسے صدمے برداشت کر سکتا ہے، گوپال کا دل جل رہا تھا۔ نہ اسے گھر میں چین تھا نہ باہر اس لیے اب وہ موت کی راہ دیکھ رہا تھا۔ وہ ایسا معلوم ہونے لگا گویا وہ برسوں کا بیمار ہے۔ کشوری نے بھی اسے دیکھا اور آنسو بہائے لیکن پرماتما کی لیلا کو کون جان سکتا ہے۔ اس دفعہ گوپال پلنگ پر ایسا گرا کہ وہ پھر اٹھ ہی نہ سکا، تیسرے دن ’’کشوری! کشوری!‘‘ کہتا ہوا وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

    چوتھے دن جسونت آ گیا۔ کشوری اپنے سب زیور اتار چکی تھی، جب جسونت آیا تو کشوری نے اپنا سر اس کے چرنوں میں جھکایا اور اس کا تعویذ لے کر کہا، بھائی صاحب! کیا آپ کو اپنے اس تحفہ کا دھیان ہے جب آپ نے اسے میرے گلے میں پہنایا تھا تو میں رونے لگی تھی اور آپ نے کہا تھا کہ یہ اچھی بات نہیں۔ بھیا آپ کا کہنا سچ ہوا۔ اس لیے اب اسے واپس لے لیں۔‘‘

    جسونت رونے لگا وہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا اور کہتا بھی کس سے کیونکہ تعویذ کو جسونت کے ہاتھ میں دینے کے ساتھ ہی کشوری کی روح بھی اس قید ہستی سے آزاد ہو گئی تھی۔

    مأخذ:

    کنول (Pg. 175)

    • مصنف: اعظم کریوی
      • ناشر: عبدالحق اکیڈمی، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1944

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے