aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سورج ابھی جاگ رہا ہے

خورشید حیات

سورج ابھی جاگ رہا ہے

خورشید حیات

MORE BYخورشید حیات

    اکتوبر کی ایک شام تھی۔ میں دفتر سے چھوٹتے ہی گھر جانے کے لئے باہر نکلا ہی تھا کہ تیز آندھی چلنے لگی۔

    آندھی کیوں آتی ہے نغمہ؟

    آندھی کا اس زمین سے کیا رشتہ ہے؟

    تم بھی کیسے آدمی ہو؟ زندگی کی اتنی منزلیں طے کر چکے اور اس طرح کا سوال پوچھتے ہو۔ اس طرح کا سوال تمہاری زبان سے اچھا نہیں لگتا۔ یہ سوال بشریٰ اور عائشہ نے پوچھا ہوتا تو سننے میں بھی چھا لگتا اور جواب دینے میں بھی۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جب میں یونیورسٹی سے واپس لوٹی تھی اور گھر میں داخل ہوتے ہی بشریٰ سوال پوچھ بیٹھی تھی۔

    ’’اماں! سورج گرہن کیسے لگتا ہے؟‘‘

    ’’بیٹی تھوڑا آرام تو کر لینے دو، ابھی تو میں۔۔۔‘‘

    ’’آرام، آرام تو حرام ہے ماں‘‘ بشریٰ بول پڑی تھی۔

    ’’اچھا بابا سنو! جب سورج اور زمین کے بیچ میں چاند آ جاتا ہے تو سورج گرہن لگتا ہے۔‘‘

    ’’اماں جب سورج اور چاند کے بیچ میں زمین آ جائے تو؟‘‘

    تب چاند گرہن لگےگا، کیونکہ زمین، سورج کا چکر لگاتے لگاتے، سورج اور چاند کے بیچ آ جاتی ہے۔

    بشریٰ کے سوالوں کا جواب دیتے وقت مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا تھا، آفتاب! جب ہم دونوں کالج کے دوستوں کے ساتھ Excursion میں آگرہ گئے ہوئے تھے۔ہمارے ساتھی تاج محل کے سامنے الگ الگ پوز میں تصویر کھنچوانے میں لگے تھے اور ہم دونوں کبھی تاج محل کو دیکھتے تو کبھی جمنا کی لہروں کو اور پھر لہروں کے بیچ مجھے ایک آواز سنائی پڑی تھی۔

    ’’نغمہ تم چاند جیسی ہو‘‘

    اور آفتاب تم؟ میری زبان سے اچانک یہ جملے نکل پڑے تھے۔ یہ جانے بغیر کہ ابھی جو آواز میرے کانوں میں سنائی پڑی تھی، وہ آفتاب کی تھی یا پھر جمنا کی لہروں کی۔ مگر آفتاب کی آوازیں بھی تو جمنا جیسی ہیں۔

    لہر لہر/بہتا پانی/پاک پانی/ ناپاک لوگ

    لہر لہر بہتاپانی/اونچی عمارت/بونے لوگ

    میرے اندر شاید تم بول رہے تھے، یا پھر میرے اند ربیٹھے ’’میں‘‘ نے لفظوں کو نئی زبان دے ڈالی تھی۔ سارے کے سارے لفظ بول رہے تھے۔ میرے وجود کے اندردل کی گہرائیوں میں کہ میرے ہونٹ نہیں ہلے تھے۔ مگر تم نے میرے اندر کی آواز سن لی تھی۔تبھی تم نے کہا تھا۔

    ’’وہ کوئی عمارت ہے یابیٹھا ہے کوئی فرشتہ۔ سنا رہا ہے وہ کہانی کریم خاں کی۔‘‘

    ’’نغمہ، کریم خاں تو تاریخ کے صفحات سے گم ہو گیا ہے، آؤ جمنا کے تٹ پر، ان کے کٹے ہوئے ہاتھوں کو تلاش کریں۔‘‘

    ’’کٹے ہوئے ہاتھ۔۔۔‘‘

    میں تمہاری فلاسفی کچھ کچھ سمجھ پائی تھی اور کچھ کچھ نہیں اور جو نہیں سمجھ پائی تھی وہ مدتوں بعد حقیقت بن کر سامنے آئی۔ پتا نہیں وہ لمحہ بھی تمہیں یاد ہے کہ نہیں کھانے پینے کی ملاوٹ نے تمہاری یاد داشت کو کمزور بنا دیا ہے۔ جس طرح بد رنگ ہو گیا ہے تاج محل فضائی آلودگی سے۔

    ’’اماں! اماں!! تم کہاں کھو گئیں؟‘‘

    ’’زمین سورج کا چکر کیوں لگاتی ہے، اماں!؟‘‘ بشریٰ اماں کو کھویا دیکھ کر سوال پوچھ بیٹھی۔ اچانک بشریٰ کے اس سوال نے میرے خیالات کا تسلسل توڑ دیا۔ ماضی کا سفر طے کرتے ہوئے میں نے حال میں قدم رکھا اور پھر جواب دینے لگی۔

    دیکھ بیٹی! اگر زمین سورج کا چکر نہیں لگائے گی تو دن اور رات نہیں ہوں گے۔یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اس کائنات کی ہر تخلیق کسی کے اشارے پر چل رہی ہے۔ یہ تم ابھی نہیں سمجھوگی۔ تھوڑا بڑا ہونے کا انتظار کرو۔ ویسے تم اور تمہاری نسل اس عمر میں ہم سے زیادہ باشعور ہے۔ ہم سے آگے ہے کہ ہم تمہاری عمر میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ بڑے معصوم تھے ہم!

    بشریٰ سوال پر سوال پوچھے جا رہی تھی اور میں اس کے سوالوں کا جواب دیتی جا رہی تھی۔ تبھی عائشہ جو پڑوس میں شیاملا میڈم سے پڑھنے گئی تھی واپس لوٹ آئی تھی۔بشریٰ کو میرے پاس بیٹھا دیکھ کر وہ بول پڑی۔

    کیوں بشریٰ؟ اماں کے پاس کیا کر رہی ہے؟

    اس سے پہلے کہ بشریٰ بولتی میں بول پڑی تھی۔

    پہلے اپنی کتابوں کاتھیلا تو رکھ آؤ بیٹی!

    کتابوں کا بوجھ جیسے مہنگائی کا بوجھ، اف! میں دھیرے سے بڑبڑائی تھی۔ عائشہ بھی تو اب بڑی ہو رہی تھی۔کتابوں کے تھیلے کو پیٹھ سے الگ کرتے وقت ایسا لگا جیسے اس نے خود کو خود سے الگ کر دیا ہو۔ اس نے سوچا اس کا وزن تو صرف پندرہ کیلو ہے۔ مگر ان کتابوں کا وزن۔ کلا س میں دیے گئے، ٹیچر کے لکچر کا وزن، ہوم ورک کاپیوں کا وزن۔

    عائشہ اپنے تھیلے کو ٹیبل پر رکھ کر بشریٰ کے پاس آ گئی۔

    ’’آپا! تم اماں کو کیوں تنگ کر رہی ہو۔ اسکول سے آنے کے بعد تمہارے پاس اور کوئی کام نہیں ہے کیا؟‘‘

    ’’بس ایک سوال رہ گیا ہے۔ اسے پوچھ لینے دو۔‘‘ بشریٰ بول پڑی۔

    اچھا تو پوچھو جلدی سے عائشہ بولی۔

    ’’آندھی کیوں آتی ہے اماں!‘‘

    ’’بش بیٹے!‘‘

    میں نے ابھی جواب دینا ہی چاہا تھا کہ بش بول پڑی۔

    ’’اماں تم ناموں کو توڑ مروڑ کر انہیں گھریلو روپ میں ڈھالنے کی کوشش کیوں کرتی ہو؟ بشریٰ جیسے اچھے نام کا تو تم نے قتل کر دیا۔ میری سہیلیوں کی مائیں بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔ اندرا کو اندو۔ فاطمہ کو فاطو اور لڑکے دوستوں کی مائیں رحیم کو رحیمو، اسلام کو اسلمو۔۔۔ ایسا کیوں کرتی ہیں مائیں؟؟‘‘

    بیٹی ناموں سے کیا لینا دینا۔ نام تو صرف پہچان کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ چھوڑو ان باتوں کو، اپنے سوال کا جواب سنو۔

    زمین جب گرم ہو جاتی ہے تو ہوا بھی گرم ہو جاتی ہے اور ہوا گرم ہوجانے کے بعد ہلکی ہو کر اوپر اٹھنے لگتی ہے، جس سے خالی جگہ ہو جاتی ہے۔ اس خالی جگہ کو بھرنے کے لئے آندھی آتی ہے۔

    ’’اور کچھ۔۔۔؟‘‘

    اب کچھ نہیں پوچھنا ہے۔ تھوڑا کھیلنے کے بعد ہوم ورک بھی کرنا ہے۔ہم بچے تو کتابوں کے بوجھ تلے اپنی معصومیت کھوتے جا رہے ہیں۔

    وہ تو اکتوبر ۱۹۸۸ء کی شام تھی اور آج اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شام ہے۔بشریٰ نے جب یہ سوالات پوچھے تھے تو اس کا وزن صرف بیس کیلو تھا اور اس کی کتابوں کا، لفظوں کا، سوالوں کے اننت سلسلوں کا۔ یہ بھی ایک سنجوگ ہے آفتاب کہ تمہاری زبان سے بھی آج وہی سوال نکلا جو بشریٰ نے پوچھا تھا۔

    دس سال پیچھے کا سفر طے کر کے میرے اندر واپس لوٹ آئی تھی، نغمہ!

    ’’آفتاب، کیا تم بشریٰ جیسے ہو گئے ؟‘‘

    نہیں، نہیں! میں تو آفتاب ہوں اور میری عمر تو۔۔۔چھوڑو عمر سے کیا لینا دینا کہ اپنی عمر تو ہر شخص چھپاتا ہے کہ شاید اسے خود کو بوڑھا ہوتا ہوا دیکھنا پسند نہیں، کہ شاید ڈر لگتاہے موت کے قریب جاتے دیکھ کر۔

    میرے اندر یہ کون بول رہا ہے۔ میں تو آفس کے باہر اسکوٹر اسٹینڈ میں کھڑا ہوں اور آندھی تیز تیز چل رہی ہے۔میں آندھی کا مقابلہ نہیں کر پا رہا ہوں۔میں شعور کی رو میں بہہ رہا ہوں۔ حال کا مقابلہ کرنے میں تو خود کو معذور محسوس کر رہا ہوں مگر ماضی اور مستقبل میرے اندر ضرور ہچکولے لے رہے ہیں۔ میرے اندر کبھی بشریٰ اور کبھی عائشہ الگ الگ شکل میں ابھر رہی ہیں اور ڈوب رہی ہیں۔

    میں حیرت زدہ کھڑا ہوں۔ نئے سرے سے آندھی اور تاریکی کی کش مکش کا سلسلہ جاری ہو گیا ہے۔ ہوا کی سنسناہٹ بڑی بھیانک لگ رہی ہے۔

    اسکوٹر اسٹینڈ لوگوں سے بھرا پڑا ہے کہ سارے لوگ گھر جائیں تو کیسے، آندھی کا مقابلہ کون کرے کنٹرول آفس کے باہر یوکلپٹس کا پیڑ بھی آندھی کا مقابلہ کرتے کرتے گر پڑا تھا۔اس کی شاخیں الگ الگ خانوں میں بٹ چکی تھیں، زمین سے آ لگی تھیں۔ ان کے بازوؤں کو آدمی کے بازوؤں کی طرح نہیں جوڑا جا سکتا تھا کہ آدمی کے کٹے ہوئے بازو تو جوڑے بھی جا سکتے ہیں مگر اس پیڑ کے؟

    ’’گھور جھاڑ طوفان کے بے بند ہیبا‘‘ بارپنڈا جی بول پڑے۔

    ’’اے طوفان سمستو لوپاٹ کورے دیبو‘‘ شوکانتو گھوش زور زور سے بڑبڑا رہے تھے۔ آفس کے بڑے بابو اس آندھی اور طوفان کے آگے خود کو بونا محسوس کر رہے تھے۔اپنے ہونٹ سے بیڑی دبائے دھواں چھوڑتے ادھر ادھر اسکوٹر اسٹینڈ میں ٹہل رہے تھے۔

    سچائی بیڑی کا دھواں ہے جو فضا میں تحلیل ہوتا جا رہا ہے۔

    دھواں دھواں سچائی

    دھواں دھواں زندگی

    ہونٹوں سے دبی بیڑی

    زندگی کے بوجھ تلے دبی سچائی/ایمانداری/خلوص/اپنا پن۔۔۔۔۔۔

    انسان، انسان کہاں رہ گیا ہے ؟

    وہ تو بھاگا جا رہا ہے تیز دھوپ میں، بارش میں، ہانپتا ہوا کانپتا ہوا منزل کا کوئی پتا نہیں ہم کون ہیں؟

    ہماری پہچان/ہمیں اس دھرتی پر کیوں بھیجا گیا/ہم سب کدھر جا رہے ہیں/ہم کچھ ہیں، تبھی تو ہیں کچھ نہ ہوتے تو بنائے کیوں جاتے؟؟

    ۔۔۔۔۔۔؟؟

    ہوائیں ہمارے لئے رحمت

    ہوائیں ہمارے لئے ہلاکت کا سبب/ہوائیں ہماری زندگی کی علامت

    ان ہواؤں پر کس کا اقتدار ہے ؟

    ہوائیں، کبھی سرد،کبھی گرم۔ کبھی نہایت خوش گوار، کبھی تباہ کن

    آندھی/ طوفان/ہوائیں ہمیں جلاسکتی ہیں/ہوائیں ہمیں مٹا سکتی ہیں۔

    ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہر آنے والا کل ہماری ترقی کی علامت ہے۔

    ساری دنیا انٹرنیٹ میں سمٹ گئی ہے۔ مگر آندھی کا راستہ ہم روک نہیں سکتے۔ فطرت سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔

    فطرت کہانی کہہ رہی تھی۔ فطرت کہانی سن رہی تھی اور ہم اس کی کہانی میں مختلف رول ادا کر رہے تھے۔

    ’’قسم ہے ان ہواؤں کی جو پے درپے بھیجی جاتی ہیں

    پھر طوفانی رفتار سے چلتی ہیں

    اور بادلوں کو اٹھا کر پھیلاتی ہیں

    پھر ان کو پھاڑ کر جدا کرتی ہیں‘‘

    میرے اندر یہ کون بول رہا ہے۔ میں شعور کی رو میں کیوں بہہ رہا ہوں۔ میرے اندر الگ الگ چہرے کیوں ابھر رہے ہیں۔ کیوں ڈوب رہے ہیں؟

    ڈوبتی، ابھرتی زندگی

    لہر، لہر، زندگی

    لہریں زندگی کی علامت

    ہوائیں ہماری تہذیب کی نشانی

    مٹتی ہوئی ہماری تہذیب/ہماری ثقافت/ہمارا کلچر

    تیز اٹھتی ہوئی ہوائیں

    سر۔۔۔ سر۔۔۔ سر بہتی ہوا

    سائیں سائیں کرتی ہوا

    حیوانی اور نباتی زندگی بخشتی ہوا

    انسان اور جانور کو اکھاڑ پھینکتی ہوا

    سارے کے سارے لوگ دہشت زدہ اور مبہوت ہیں۔ خوف، دہشت، گھبراہٹ،اضطراب ہر ایک کے چہروں پر عیاں ہو رہا ہے۔ اس ہوا کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ ہوا تو ہماری زندگی کی علامت تھی۔ مگر آج یہ سب کچھ ختم کئے جا رہی تھی۔

    میں پانچ سیڑھیاں نیچے اتر کر اسٹینڈ سے باہر آ گیا۔ آندھی اب بھی چل رہی تھی۔ آندھی کے رکنے کا انتظار کب تک کیا جا سکتا تھا۔ گھر میں بیوی، بچے بھی انتظار کر رہے ہوں گے۔ پریشان ہو رہے ہوں گے۔بیوی، بچوں کا خیال آتے ہی میں باہر نکل پڑا۔ مجھے باہر نکلتے دیکھ گھوش بابو، بار پنڈاجی اور اسکوٹر اسٹینڈ میں کھڑے سارے کے سارے لوگ میرے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ آندھی کے تیز تھپیڑوں نے ہم سب کو میٹرو ریلوے تک پہنچا دیا۔ ہم سب اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر رہے تھے کہ ہم سب زمین کے نیچے بنے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ لوگوں کا ہجوم لوکل ٹرین کے انتظار میں کھڑا تھا۔

    پلیٹ فارم پر جمع ہوتی ہوئی بھیڑ۔ سیڑھیوں سے اترتی گھبراہٹ، بےچینی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھی کہ زمین کے اوپر آندھی اب بھی چل رہی ہے۔

    میں بھی اور لوگوں کی طرح کمزور ہو چکا تھا آندھی کا مقابلہ نہیں کر سکا اور زمین کے اندر بچھی ریلوے لائن پر چلنے والی ٹرین میں سور ہو گیا۔ چلتی گاڑی کے تجربے بھی عجب ہوتے ہیں۔ بغل والی سیٹ پر بیٹھے فادر ورگیس بول رہے تھے انگریزی میں کہ شاید انہیں اپنی زبان اور اپنے سفید لباس سے بڑی محبت تھی۔ٹرین میں سوار باقی لوگوں کو اپنی، اپنی تہذیب/زبان سے محبت ہے کہ نہیں معلوم نہ ہو سکا کہ فادر کے ساتھ سبھی لوگ انگریزی میں باتیں کرنے لگے۔ فادر بول رہے تھے۔

    A PERSON TRAVELLING BY PASSENGER TRAIN CONSCIOUSLY OR UNCONSCIOUSLY EXPERIENCES MANY THINGS, WHICH ARE THOUGHT PROVOCATING AND LEAVES NUMBER OF LESSONS FO US. A VERY COMMON EXPERIENCE IS THA T WHEN THE TRAIN MOVES FAST THE PASSENGERS SITTING INSIDE ITS COMPARTMENT FEEL THEMSELVES STATIC, WHILE EVERYTHING OUTSIDE THE WINDOW LOOKS TO BE FAST RUNNING IN TH EOPPOSITE DIRECTION. THIS GIVES US BITTER EPERIENCE OF LIFE ALSO.

    میں نے فادر ورگیس کی باتوں کا جواب اپنی مادری زبان میں دیا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ لوکل ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں ہمارے ملک کی الگ الگ زبان میں الگ تہذیب سمٹ کر بیٹھ گئی ہو۔

    ٹرین تیز رفتاری سے آگے کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ شیشے کی کھڑکیاں اور دروازے سبھی بند تھے۔کش مکش۔ معنی کی تلاش۔ افسردگی اور میں!

    ہر پلیٹ فارم پر ٹرین رکتی ہے اور ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ لوگ تیزی سے اندر داخل ہوتے ہیں۔ افراتفری سی مچ جاتی ہے اور پھر ٹرین چلنے لگتی ہے کہ شاید رفتار کا مسئلہ حل ہو رہا ہے۔ زندگی ایک سفر ہے اور سفر زندگی کی علامت۔مجھے مسلسل سفر میں رہنا چاہئے۔ مگر یہ میرے اختیار میں نہیں۔ ٹرین آخری اسٹیشن پر رک چکی تھی۔ میں باہر نکل آتا ہوں زمین کے اندر بنے پلیٹ فارم سے باہر کے فٹ پاتھ پر!

    آندھی تھم چکی تھی اور انسان حرکت میں آ چکے تھے۔ سبھوں کے قدم اپنے اپنے گھروں کی طرف بڑھ رہے تھے۔

    سوکھے پتے آندھی اور طوفان کا مقابلہ کیوں نہیں کر پاتے؟

    درختوں کی شاخیں الگ کیوں ہو جاتی ہیں

    صنوبر کا پیڑ اپنی جڑوں سے الگ کیوں ہو جاتا ہے/ہری، ہری نرم گھانسیں سجدہ میں کیوں چلی جاتی ہیں؟

    کچے مکانوں کی چھتیں کیوں اڑ جاتی ہیں؟

    کمزور عمارتیں کیوں گر جاتی ہیں

    ملا بخش سبھوں کی مرادیں پوری کرنے والا کیوں بن جاتا ہے۔

    ہرے بھرے درخت جو زہریلی گیس کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں، فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں، وہ درخت جو آکسیجن ہمیں مفت بانٹا کرتے ہیں۔ آندھی، ان کے بازوؤں اور ان کی جڑوں کو تلوار کی تیز دھار بن کر کیوں کاٹ ڈالتی ہے۔ طوفانی ہوا تھم چکی تھی۔ مگر مجھے اپنے پاؤں زمین سے اکھڑتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں اپنی بنیاد سے جدا ہو کر ایک طرف جھک گیا ہوں۔ لمبی چوڑی سڑک کے کنارے کھڑی ان اونچی عمارتوں کی طرح جو اپنی بنیاد سے الگ ہو کر دائیں جانب جھک گئی تھیں۔ ٹیلی فون کے ان کھمبوں کی طرح جنہیں طوفانی ہوا نے ایک طرف جھکا دیا تھا۔ فٹ پاتھ کے کنارے روتی ہوئی انسانیت کی طرح جو تڑ پ تڑپ کر دم توڑ چکی تھی۔ آندھی آئی اور چھوڑ کر چلی گئی۔ روتی دم توڑتی انسانیت کی تاریخ! زندگی دھیرے دھیرے معمول پر آنے لگی تھی۔ سفید پڑ چکے چہرے پھر سے رنگین ہوتے جا رہے تھے۔ لوگوں کے دلوں سے آندھی کا خوف نکل چکا تھا۔ بچے ہوئے درخت پھر سے تن کر کھڑے تھے۔جیسے یہ آندھی پھر کبھی لوٹ کر نہ آئےگی۔

    مگر طوفانی ہوا تو چلتی رہےگی۔ آندھی تو آتی رہےگی۔ زمین زلزلوں سے ہلائی جاتی رہےگی کہ سورج ابھی جاگ رہا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے