Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سویا ہوا محل

ابن منیب

سویا ہوا محل

ابن منیب

MORE BYابن منیب

    گاؤں والے سخت تنگ آ چکے تھے۔ ڈاکو دن دیہاڑے آتے اور کسی کو بھی لوٹ کر لے جاتے۔ مریض کلینک کے باہر ‘بند ہے’ کا بورڈ دیکھ کر واپس چلے آتے۔ بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ سرکاری اہلکار کٹائی کے وقت گاؤں آتے اور شاہی حکمنامہ دکھا کر دو تہائی فصلیں قبضے میں کر لیتے۔ اگر کبھی کچھ لوگ ہمت کر کے ان سے مشکل حالات کی شکایت کرتے تو یہ اہلکار انہیں شاہی حکمنامہ دوبارہ دکھا کر کہتے کہ وہ صرف لگان اکھٹی کرنے پر مامور ہے۔ ان اہلکاروں کی نقل و حرکت اور اِن کا کام بھی عجیب تھے۔ نہ جانے کہاں سے عین کٹائی کے وقت یہ گاؤں پہنچ جاتے اور پھر اگلی کٹائی تک دوبارہ نظر نہ آتے۔ لگان میں لی ہوئی فصلوں کو بَیل گاڑیوں پر لاد کر گاؤں کے قریبی دریا تک لے جاتے اور وہاں بڑے بڑے لکڑی کے جڑے ہوئے تختوں پر رکھ کر دریا کے بہاؤ پر روانہ کر دیتے۔ یہ دریا آگے کہاں تک جاتا تھا، گاؤں والوں کو ٹھیک طرح سے معلوم نہیں تھا۔ کچھ بوڑھوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی جوانی میں اس دریا کے ساتھ ساتھ کئی دن تک سفر کیا ہے اور یہ کہ گاؤں سے کم از کم پانچ دن کی مسافت پر یہ دریا چار چھوٹے دریاؤں میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ دریا کہاں جاتے ہیں؟ یہ جاننے کی کوشش کسی نے کبھی نہیں کی تھی۔ صرف اتنا کہا جاتا تھا کہ ان چار دریاؤں پر ایک طلسماتی اور قدرے خوفناک سی دھُند چھائی رہتی ہے۔ چوپال میں جب کبھی اِن دریاؤں کا ذکر آتا تو گاؤں کا دیوانہ اچانک ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ناچنے لگتا۔ طرح طرح کے منہ بناتا اور انگوٹھا بند کر کے ہاتھ کی چار اُنگلیاں ہوا میں لہراتا۔ پھر ایک ایک انگلی بند کرتا اور کچھ عجیب سے الفاظ بکتا، جیسے دریاؤں کے نام گنوا رہا ہو۔

    “سوئٹزرلینڈ، لندن، دبی، ڈیفینس”

    گاؤں والوں کو یقین تھا کہ یہ نام اس کے مفلوج ذہن کی پیداوار ہیں اور بالکل بےمعنی ہیں۔ دیوانہ تو خیر دیوانہ تھا، مگر اب حالات کے ہاتھوں گاؤں والے بھی پاگل ہوتے جا رہے تھے۔ بالآخر پنچائت نے طے کیا کہ گاؤں کے پانچ نوجوانوں کو بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائےگا۔ مگر یہ کام اِتنا آسان نہیں تھا۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ تو یہ تھا کہ ان میں سے کسی نے بھی دارالحکومت اور بادشاہ کا محل نہیں دیکھے تھے۔ پھر انہیں اس بات کا بھی ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ دربار میں اپنی شکایات کیسے پیش کی جاتی ہیں، یا پیش کی بھی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ (گاؤں میں رعایا کے حقوق کے بارے میں کبھی بات ہوئی ہی نہیں تھی۔ اور جس دور میں کچھ عرصے تک گاؤں کا اسکول چلتا رہا تھا وہاں بچوں کو طوطا مینا کی کہانیاں ہی پڑھائی جاتی تھیں، جنہیں بچے لفظ بہ لفظ یاد کر لیتے اور بغیر توجہ دیئے لفظ بہ لفظ سنا دیتے)۔ چار و ناچار انہوں نے گاؤں کے نجومی سے راستے کا اندازہ لگوایا اور نوجوانوں کو اس راستے پر روانہ کر دیا۔ نجومی نے انہیں دو اہم نشانیاں بتائی تھیں، چار دریا اور دو رنگا پہاڑ۔ سفر کے پہلے حصے میں اُنہیں دریا کے ساتھ ساتھ گاؤں سے مغرب کی طرف چلتے جانا تھا۔

    جب چار یا پانچ دن کی مسافت کے بعد دریا چھوٹے چھوٹے چار دریاؤں میں تقسیم ہوتا نظر آئے تو انہیں عین بائیں یعنی جنوب کی جانب مڑکر ناک کی سیدھ میں سفر کرنا تھا، یہاں تک کہ انہیں دو رنگا پہاڑ نظر آ جائے۔ نجومی کا دعوی تھا کہ پہاڑ سے آگے انہیں محل کا راستہ خود مل جائےگا اور ہوا بھی ایسا ہی۔ چار دریاؤں کے پھوٹنے کے مقام پر نوجوان بائیں مڑے اور مزید تین دن کے سفر کے بعد دو رنگے پہاڑ تک پہنچ گئے۔ یہ وسیع و عریض پہاڑ بھی ایک عجیب معمہ تھا۔ جس جانب سے وہ اِس تک پہنچے تھے وہ بالکل بنجر اور ویران تھی۔ جبکہ اس کا عقبی رُخ (جو پوری طرح چوٹی پر چڑھ کر نظر آتا تھا) کسی عظیم الشان باغ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پہاڑکے اِس رخ پر موجود خوبصورت درخت اور بوٹے پہاڑ کے دامن پر ختم نہیں ہوتے تھے بلکہ تا حدنگاہ ایک جنت نظیر میدان میں پھیلے ہوئے تھے۔ اِسی سرسبز میدان میں پہاڑ سے بہت دور بادلوں اور دھُند میں گھرے ہوئے بلند و بالا میناروں کی ہلکی سی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ یہی بادشاہ کا محل تھا۔ نوجوان ان میناروں کی جانب سفر کرتے ہوئے بالآخر محل کے قریب پہنچ گئے۔ اب انہیں پورا محل اپنی مکمل شان و شوکت میں نظر آ رہا تھا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں ایک مشکل درپیش تھی۔ محل کے چاروں طرف ایک گہری خندق کھدی ہوئی تھی جس میں نصف گہرائی تک پانی چل رہا تھا۔ اس خندق پر ایک ہی پل تھا جو محل کے بڑے دروازے تک جاتا تھا۔ پل کا داخلی کنارہ ایک بھاری زنجیر سے بند کر دیا گیا تھا اور اس کی ایک جانب ایستادہ ایک قدرے چوڑی اور قد آدم سے اونچی سنگ مرمر کی سِل پر شاہی حکمنامہ درج تھا

    “یہاں سے آگے جانا منع ہے۔ بادشاہ سلامت اور ان کے وزراء پانچ سال کے لئے سو رہے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی مشکل درپیش ہے تو بالکل فکر نہ کریں، پانچ سال بعد بادشاہ سلامت خود آپ کے گھر پر حاضر ہو کر آپ کی داد رسی کریں گے۔”

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے