aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری خواہش

منزہ احتشام گوندل

آخری خواہش

منزہ احتشام گوندل

MORE BYمنزہ احتشام گوندل

    پھانسی سے قبل اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے ایک عجیب و غریب خواہش کا اظہار کر کے سب کو چونکا دیا۔ میں گاؤں کی بڑی والی مسجد کے احاطے میں اسی منبر پہ کھڑا ہو کے تقریر کرنا چاہتا ہوں۔ جس منبر پر کھڑے ہو کر مولوی عبد الکریم نے خطبہ دیا تھا، آخری خطبہ۔

    سو پھانسی لگنے والے کی آخری خواہش کا احترام کیا گیا۔ بات مارچ، اپریل کے طوفان کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔ اس دن سارے کا سارا گاؤں اس کی تقریر کے لیے امڈ پڑا تھا۔ گاؤں کی بڑ والی مسجد جس کے احاطے میں معمول کے طور پر جمعہ کے روز بھی چند نمازی ہوا کرتے تھے اس روز بھری ہوئی تھی۔ لوگ مسجد کے احاطے سے باہر بھی امڈ آئے تھے وہ یہ جاننے کے سخت مشتاق تھے کہ وہ اپنی تقریر میں کیا کہنے والا ہے۔ اس کو پولیس کی نگرانی میں لایا گیا۔ بڑے خصوع و خشوع کے ساتھ اس نے وضو کیا اور اس منبر کے سامنے کھڑا ہو گیا جس پر کھڑے ہوکر مولوی عبدالکریم گاؤں کے نمازیوں کو خطبہ دیا کرتا تھا۔ مولوی عبدالکریم اس کا مقتول۔

    اس دن سے عین ایک سال قبل اپریل کے مہینے میں گندم کی کٹائی کے بعد وہ گاؤں کی طرف لوٹ رہا تھا۔ جمعہ کا دن تھا غضب کی گرمی پڑ رہی تھی مگر بدن سہتا تھا۔ وہ گاؤں کی مسجد والی گلی میں داخل ہوا تو مولوی عبدالکریم منبر پر کھڑا خطبہ دے رہا تھا۔ مسجد کے احاطے کی کوتاہ چار دیواری اندر باہر کے بھیدوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام تھی کہ مولوی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی’’عورت فتنہ ہے۔ یہ آدم کو جنت سے نکلوانے والی ہے۔ خدا کا وعدہ ہے کہ روزِ قیامت جہنم کے اندر سب سے زیادہ عورتیں جائیں گی۔ کیونکہ عورت ناقص العقل اور ناقص الدین ہے۔ ایمان والے مردو! جس قدر ہو سکے عورت سے بچو۔ اس سے گریز کرو۔ یہ اپنی طرف مائل کرتی ہے اور مائل ہونے والوں کو گھائل کرتی ہے۔ اس پہ نظر پڑ جائے تو فوراً استغفر اللہ کا وِرد کرو تا کہ تمہاری نِگاہ پاک رہے۔ یہ پاکباز مردوں کی شان ہے۔۔۔‘‘ اس سے آگے معلوم نہیں مولوی عبدالکریم کیا کیا کہتا رہا۔ اس نے نہیں سنا۔ اس کی آنکھیں دھندلا گئی تھیں اور کانوں کے اندر طوفانوں کا شور سما گیا تھا۔ نہ جانے کیسے اس کا دایاں ہاتھ نیچے کی طرف جھکا۔ کچی پکی اینٹوں کی دیوار کے ساتھ نالی کے پاس اینٹ روڑوں کا ڈھیر لگا تھا۔ اس نے ایک اینٹ روڑہ اٹھایا اور گھما کر پورے زور کے ساتھ مولوی عبدالکریم کے منہ پر دے مارا۔

    اینٹ روڑہ شاید مولوی عبدالکریم کی کنپٹی پر لگا تھا کہ پہلے تو مولوی سمجھ ہی نہ سکا کہ ہوا کیا ہے۔ اس کے بعد وہ سر پکڑ کر وہیں دوہرا ہو گیا نمازیوں نے فوراً مڑکر دیوار کی اس طرف دیکھا جدھر سے وہ روڑہ آیا تھا۔ وہاں وہ کھڑا تھا۔ بےحس و حرکت۔

    مولوی عبدالکریم کی ہلاکت ہو گئی تھی۔ وہ چپ چاپ جا کر تھانے میں پیش ہو گیا تفتیش سے لے کر جیل اور پھانسی کی سزا کے فیصلے تک اس نے زبان نہیں کھولی۔ زبان کھولی تو اس دن جس دن اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔

    آخری خواہش وہ بھی کیسی عجیب و غریب۔

    وہ منبر پہ کھڑا تھا۔ لوگ بےتابی سے چپ سادھے ہوئے تھے اور وہ اضطراب سے چپ تھا۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ اس نے اتنے شریف النفس مولوی کو کیوں مارا۔ ہر طرف سنّاٹا تھا۔ آج بھی اس دن کی طرح گرمی تھی لوگ اپنے اپنے پسینے کے اندر تربتر دم سادھے بیٹھے تھے کہ اچانک اس کی آواز ابھری۔

    حاصل پور کی گندم پکی کھڑی ہے اور تم سارے اس کو چھوڑ کے یہاں بیٹھے ہو۔ ان دور دور تک پھیلے کھیتوں کے درمیان کہیں میرابھی کھیت ہے اور ان کھیتوں کے پار ایک قبرستان ہے جس میں میرا فضل حسین دفن ہے۔ اس کی دادی اور چاچے دفن ہیں اور اب باپ بھی دفن ہو جائےگا۔ ان کھیتوں کے اندر ہمارے پسینے دفن ہیں۔ ہمارے خون ہماری ہڈیاں دفن ہیں۔ ہماری محبتیں، ہماری محبتوں کے سجیلے موسم بھی ان کھیتوں کے اندر دفن ہو گئے۔ اس سنہری جھپک کی خاطرہم نے وہ موسم بھی گنوا دیے جو اپنی کوکھ میں ملن اور ملاپ کی سوغاتیں اور پیغام لے کر آتے تھے۔ اس پر بھی خدا نظریں گاڑے بیٹھا رہتا۔ خدا جو مسجد میں رہتا ہے۔ مسجد خدا کا گھر جو ہے۔ خدا اپنے نمائندوں کی زبان سے باتیں کرتا عورت اور محبوبہ سے نفرت کرنا سکھاتا۔ خدا محبت کے خلاف کیوں ہوتا ہے؟ وہ چیخ پڑا اس کی آواز پھٹ رہی تھی ایک نوجوان دوڑ کے اس کے لیے پانی لے آیا۔ پانی کو اس نے غٹا غٹ پی لیا۔ کچھ دیر تک ہانپنے کے انداز میں لمبے لمبے سانس لیتا رہا پھر بول پڑا۔

    اس نے ہمارے سارے حسین موسم غارت کر دیے۔ سردیوں کی طویل راتیں، گیدڑوں کی ہونکار، گنے کا رس اور گرم بستر کی حرارت ہمیں دعوتیں دیتی۔ مگر ہم نے یہ ساری دعوتیں ٹھکرا دیں ہم کھیتوں کی مینڈھیں ٹھیک کرتے رہے۔ ہم نکے سے لے کر کھیت تک نہری پانی کی کھالیوں اور کاریزوں کے پھیرے لگاتے رہے۔ تاکہ وہ سارا پانی سیدھا ان کھیتوں تک جائے جنہوں نے ہمیں زندگی دینی تھی اور جو ہماری جنت کی ضمانت تھے۔ اور جن کے غلے کا ایک حصہ ہم نے مسجد کو دان کر کے خدا کو راضی کرنا تھا۔ خدا مگر اس پر بھی خوش نہ تھا۔

    خدا کس بات پر خوش تھا ہم کبھی نہ جان سکے۔ ہم درانتیاں پکڑے کھیت کاٹ رہے ہوتے تو وہ ہمیں دنیا داری کی غلاظت میں جکڑے ہوئے لوگ کہا کرتا۔ اور پکارتا۔ نماز کی طرف آؤ! فلاح کی طرف آؤ!ہم درانتیاں رکھتے اور چل پڑتے۔ ہم خدا کے لیے جی رہے تھے اور اسی کے لیے مر رہے تھے کہ لوگو میرا، فضل حسین، مر گیا۔۔۔ اس نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ مسجد کی کوتاہ دیوار کے پار عورتوں کے درمیان سہارا لے کر کھڑی اس کی بیوی نے بھی چیخیں مارنی شروع کر دیں۔

    لوگوں میں چہ میگویاں شروع ہو گئیں۔ ایک نوجوان اٹھا اور بھاگ کر پانی کا کٹورہ لے آیا مگر اس نے اب کی بار پانی قبول نہیں کیا۔ وہ اپنے ہی آنسوؤں کے ہڑ میں ڈوبا ہوا تھا۔ اب اس کی آواز سرگوشیوں میں بدل گئی تھی۔ وہ بھی گرمیوں کی کھٹی میٹھی دوپہر تھی جب میرا فضل حسین مسجد سِپارہ پڑھنے گیا تھا اور جب دیر تک نہیں لوٹا تو میں خود لینے گیا۔ لوگو جانتے ہو جب میں اپنے آٹھ سال کے فضل حسین کو لے کر مسجد سے نکلا تو وہ میری انگلی پکڑے چل نہیں رہا تھا۔ اس کی لاش میرے بازوؤں میں تھی۔ وہ مولوی عبدالکریم کے پاس صبح کا سپارہ پڑھنے گیا تھا۔

    لوگو! جانتے ہو ناں جس دن مولوی عبدالکریم کا جنازہ اٹھا اس دن میرے فضل حسین کو مرے ہوئے بیالیسواں دن تھا۔ وہ میرے، فضل حسین، کے مرنے کے صرف بیالیس دن بعد جمعہ کے خطبے میں تم سارے گاؤں والوں کو عورتوں کے خلاف بھڑکا رہا تھا۔

    صرف بیالیس دن بعد

    صرف بیالیس دن بعد

    سر گوشیوں کا بھی دم ٹوٹ گیا تھا۔ لوگوں کی آنکھوں کے آگے سے سارے پردے اٹھ گئے تھے۔ سب دم بخود تھے کہ اچانک جنوب سے سرخ طوفان اٹھا اور آناً فاناً ہر طرف پھیلتا چلا گیا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے