Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آن بان

طارق چھتاری

آن بان

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    ’’کیا؟ ہری سنگھ کی شادی ہو رہی ہے؟ ارے کسی نے یوں ہی اڑا دی ہوگی۔‘‘

    ’’اجی نہ چودھری صاحب، بات سولہو آنہ پکی ہے۔‘‘سندر نے کہا۔

    ’’مگر بھئی، یہ ہوا کیسے؟‘‘

    ’’کان میں اڑتی اڑتی پڑی ہے کہ گھٹیا والے ننوانے بات لگائی ہے۔‘‘ سندر گردن کا میل چھڑاتے ہوئے بولا۔

    ’’کس کے ہاں؟‘‘

    رام نگر والے ٹھاکر نیک سنگھ کے ہاں‘‘

    ’’مگریہ تو دھوکا ہے۔‘‘ چودھری صاحب نے فرشی حقہ اپنی طرف کھینچا جسے سندر ابھی ابھی تازہ کرکے لایا تھا۔ شہزاد خاں گلیارے سے گزر رہے تھے، چودھری صاحب کو حقہ پیتے دیکھا تو وہ بھی چوپال پر دھوپ میں آن بیٹھے۔

    ’’سنا آپ نے، ہری سنگھ کی شادی ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’ہاں چودھری صاحب سناتو ہے۔ معلوم نہیں ٹھاکر صاحب نے کیا سوچا ہے۔ جب اس کی ماں مری تھی تو بےچارے کی عمر ہی کیا تھی۔ تبھی سے اس کی یہ حالت ہو گئی ہے، جہاں جھلستی گرمیاں آئیں اور لگے دورے پڑنے۔‘‘

    شہزاد خاں نے حقے کی چلم اٹھائی اور کش لگانے لگے۔

    ’’مگر خاں صاحب، اس حالت میں شادی؟ وہ تو عورت کو لال جوڑے میں دیکھ کر بالکل ہی پاگل۔۔۔‘‘

    شہزاد خاں نے چلم پھر نیچے پر جمادی اور بولے۔‘‘ بھئی دل میں ڈربیٹھ گیا ہے لال رنگ سے، شادی کے بعد شاید نکل جائے۔‘‘

    چودھری صاحب نے حقے کی نے کو مٹھی میں بھرکر منہ سے لگا لیا، آج انھیں تمباکو بہت کڑوا محسوس ہوا، کھانستے ہوئے سندرسے بولے۔ ’’کیا شیرہ کم ڈالا ہے؟ دھانس بہت ہے۔‘‘ سندر نے جواب تو دیا مگر چودھری صاحب کچھ نہ سن پائے اور کھانستے ہی رہے۔ سنتے بھی کیسے، ٹھاکر تیج بہادرسے ان کا پرانا بیر تھا۔

    سورج سر پر آ چکا تھا مگر اب بھی اس کی کرنیں سردی سے کانپ رہی تھیں۔ ہری سنگھ کے پتا ٹھاکر تیج بہادر مہمانوں سے کہہ رہے تھے۔ ’’شادی بیاہ کا مزہ تو سردیوں میں ہی ہے۔‘‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ٹھاکر تیج بہادر اپنے بیٹے کی شادی سردیوں میں کیوں کر رہے ہیں، ہر آدمی انجان بنا ہوا تھا۔ ہری سنگھ کی بوانے اسے نہلا دھلاکر دولھا بنا دیا۔ محلے کی عورتوں نے کھونٹی پر ٹنگی ڈھولک کو ڈرتے ڈرتے اتارا، ڈوریاں کسیں اور پھر ڈھولک کی تھاپ اور گیتوں کی آواز نے سبھی کے دل سے ڈر نکال دیا۔ برات چلی گئی، پورے ٹولے میں رت جگا ہوا، محلے بھر کی عورتیں ناچتی گاتی رہیں۔ گلی کے نکڑ پر رات بھر دیسی گھی کے دو چراغ جلتے رہے اور دوسرے دن بہو گھر میں آ گئی۔ محلے کی کچھ بڑی بوڑھیوں کا کہنا ہے کہ رات ایک دیابجھ گیا تھا، چپکے سے ہری سنگھ کی بوانے جلادیا۔ بوامارے خوشی کے بہوکے پیروں میں بچھی پڑرہی تھیںاوراتنی بار لجّا کی بلائیں لی تھیںکہ اب ان کی انگلیوں نے چٹخنا بند کر دیا تھا۔ بوانے دودھ سے بھرا دھنو کمہار کے ہاں کا بنا مٹی کا نقشیں پیالہ بہو کے ہونٹوں سے لگا دیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولیں۔’’پی لے بہو۔۔۔بہت تھک گئی ہوگی۔‘‘

    چوبارے کے سامنے والا اٹا۔ جس میں پیاز پڑے پڑے کلے دینے لگی تھی، جھاڑ پونچھ کرصاف کر دیا گیا۔ جب رات اونگھنے لگی توہری سنگھ کو اوپر اٹے میں لجا کے پاس بھیج دیا گیا۔ لجا گھٹنوں میں سردیے لال شینیل کی چادر اوڑھے مسہری پر بیٹھی تھی۔ ہری سنگھ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے مگر اتنا جانتا تھا کہ اسے کچھ کہنا ہے، آخر بول پڑا۔ ’’وید جی کہہ رہے تھے اب میری طبیعت خراب نہیں ہوگی۔ گرمیوں میں بھی نہیں۔‘‘

    پھر تھوڑی دیر رک کربولا۔ ’’تم وید جی کو نہیں جانتیں، وہ پتا جی کے متر ہیں۔ جب مجھے دورے پڑنے شروع ہوئے تو پتاجی نے اسکول سے اٹھوا لیا، مگر وید جی نے پڑھانا نہ چھوڑا۔ میں نے ان سے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ میرے گروہیں۔‘‘

    لجا نے گھونگھٹ کے اندرسے جھانکا اورپھر گردن جھکا لی، کچھ دیر وہ خاموش بیٹھا رہا، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح بات آگے بڑھائے۔ پھر اس کی نظریں اٹھیں اور اٹے کے چاروں کونوں میں گھومتی ہوئی لجا کے گھونگھٹ پر آکر ٹھہر گئیں۔

    سرخ کپڑوں میں دہکتی ایک عورت۔ لجّا۔ اس کی ماں، چتا اور جھلستا ہوا اس کا بدن، نہیں۔۔۔ چیخ اس کے اندرگھٹ کر رہ گئی۔ مڑکر دیکھا تو پرات میں انگارے دہک رہے تھے۔ سردی بہت تھی، بوانے پرات میں انگارے رکھ دیے تھے۔ کونے میں لالٹین جل رہی تھی۔ جلتی ہوئی لالٹین لجا کے سرخ کپڑے، پرات میں دہکتے انگارے۔۔۔ اسے اپنے جسم سے چنگاریاں سی اٹھتی محسوس ہوئیں، چنگاریاں آگ کی لپٹیں بن گئیں۔ اونچی اونچی لپٹوں کے درمیان اس کی ماں کا بدن جھلس رہا ہے۔ وہ سب سے چھپ کر بہت آگے جا کھڑا ہوا ہے۔

    ’’ماں ۔‘‘

    ’’آجا ہری۔۔۔‘‘

    ماں نے دونوں بانہیں پھیلا دیں۔ ہری سنگھ بانہوں میں جاکر جھول گیا۔

    ’’ارے نگوڑے تنک دیکھ کے ۔چولھے پر توا چڑھا ہے۔ چل ادھر بیٹھ۔‘‘

    ماں نے اس کے آگے بیسن کے چیلے پروس دیے۔ اس نے تھالی ایک طرف کو ہٹائی اور ہمک کرماں کے پاس آن کھسکا۔ ماں نے چولھے میں ایک لکڑی اور رکھ دی۔ آگ بھڑک اٹھی۔ ماں کا بدن جھلسنے لگا۔ چتا کی لپٹیں تیز ہوگئی تھیں۔ ’’ماں‘‘۔ وہ چیخا اور چتا میں جلتی ماں کی بانہوں میں جاکر جھول گیا۔ سبھی کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ بھولا نے بڑھ کر اسے کھینچا مگر اس کا داہنا ہاتھ بالکل جھلس چکا تھا۔ کئی دن بے ہوش رہا اور جب ہوش آیا تو ایک زوردار چیخ ٹھاکر تیج بہاد رکے آنگن میں گونجی۔

    ’’کیا ہوا؟‘‘ لجا اس کی چیخ سن کر گھبرا گئی۔

    ’’کچھ نہیں۔ وید جی کہہ رہے تھے، اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘

    سرخ چادر کا گھونگھٹ لجا کے سر سے کھسک کر کندھوں پر ڈھلک آیا تھا اور وہ گم صم ہری سنگھ کو تکے جا رہی تھی۔ ہری سنگھ نے دیکھا کہ اس کے ماتھے کی سرخ ٹکیا پھیلتی جا رہی ہے۔ کونے میں جلتی لالٹین، دہکتے انگاروں سے بھری رات، سرخ چادر اور ماں کی چتا، سب کچھ لجا کی سرخ بندیا میں سمٹ آیا تھا۔ وہ آگ کے گولے میں لجا کو ڈھونڈنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگا۔ پیروں میں کپکپاہٹ ہوئی۔ لڑکھڑایا، گرا، سنبھلا اور پھر اس نے خود کو اٹے کے باہر چوبارے کے اس طرف کھلی اور ویران چھت کی منڈیر پر اکیلا بیٹھا پایا۔

    لجا رات گئے تک انتظار کرتی رہی مگرجب ہری سنگھ نہیں آیا تو وہ اٹھی، بھڑے ہوئے کواڑ دھیرے سے کھولے اور باہر جھانکنے لگی۔ اس نے دیکھا کہ ہری سنگھ دونوں ہاتھ بغلوں میں دبائے چھجے پر پیر لٹکا کر منڈیر پر بیٹھا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ ننگے پائوں چلتی ہوئی اس کے پیچھے جاکر کھڑی ہو گئی۔ تھوڑی دیر کھڑی رہی پھر چپکے سے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ ہری سنگھ نے مڑکر دیکھا اور کچھ کہنا چاہا مگر آواز جھلسے ہوئے کاغذ کی طرح بھربھراکر رہ گئی اور وہ صرف اٹے کی طرف اشارہ ہی کر سکا۔ لجا گردن جھکائے کھڑی رہی۔ تھوڑی دیر بعد ہری سنگھ بھی اٹھ کھڑا ہو گیا۔ لجا اسی طرح کھڑی رہی۔ ہری سنگھ نے ڈھینچے کی لکڑیوں کے گٹھر سے ایک لکڑی کھینچی اور وہ کچی چھت کی مٹی کو کرید نے لگا۔ تھوڑی دیر تک مٹی کو کریدا، کچھ ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں، پھر لکڑی کو توڑا اور باہر گلی میں پھینک دیا۔ لجانے بڑھ کر ہری سنگھ کا بازو پکڑ لیا۔ ہری سنگھ نے اس کی طرف دیکھا وہ خشک آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔ اب اس نے لجا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبا لیا تھا۔ لجا کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں اور کاجل رخساروں پر اتر آیا تھا۔ نہ ہری سنگھ نے کچھ کہا اور نہ ہی لجا کچھ بولی، بس دونوں اٹے میں ایک ساتھ داخل ہوئے اور ہری سنگھ نے دروازہ بندکر لیا۔ لجا سمٹ کر مسہری پر بیٹھ گئی۔ لالٹین انھیں گھور رہی تھی۔ ہری سنگ نے اٹھ کر لالٹین کے مہرے کو گھمایا اور جب بتی اتنی گر گئی کہ چمنی کے احاطے سے باہر نکلنا روشنی کے بس میں نہ رہا تو اس نے لجا کے بدن سے پھوٹتی روشنی میں پناہ لی۔ یہ روشنی سرخ نہیں تھی، سبز بھی نہیں تھی، اس کا کوئی رنگ نہیں تھا، یا پھر اس میں سارے رنگ موجود تھے۔ زندگی اور موت کے سارے رنگ۔ وہ رات بھراسی روشنی کی نرم آگ کے ایک نئے احساس کو اپنے وجود میں اتارتا رہا اوریہ آگ پانی بن کر اس پر برستی رہی اور پھردھیرے دھیرے اس کے جسم کی تمام چنگاریاں بجھ گئیں۔

    صبح ہوئی تو ہری سنگھ کی بوانے دیکھا کہ لجا شرمائی لجائی اٹے سے نکل رہی ہے، وہ پھولے نہیں سمائیں۔ ٹھاکر صاحب نے سنا تو سیدھے وید جی کے ہاں دوڑ پڑے۔ ’’وید جی بھگوان کی دیا ہوئی۔ لجاخوش ہے، ایشور آپ کا بھلا کرے۔‘‘ پھر گھر لوٹے اور کئی برس سے بکسے میں بند پڑی بسنتی پگڑی کو نکالا، سر پر سجایا اور لٹھ ہاتھ میں لے کر بازار کی طرف چل پڑے۔ بوانے کئی طرح کے پکوان تیار کرنے شروع کر دیے۔ لجا کے پتا ٹھاکر نیک سنگھ کے آنے کا سمے ہو گیا تھا۔

    ہری سنگھ پوکھروالے موڑ پر ٹھاکر نیک سنگھ کی بس کے انتظارمیں صبح سے ہی کھڑا تھا۔ بسیں گزرتی رہیں اور شام ہو گئی۔ وہ مایوس ہوکر لوٹنے ہی والا تھا کہ ایک بس آکر رکی اور اس میں سے ٹھاکر نیک سنگھ اترے۔ ہری سنگھ بڑھ کر ان کے پیر چھونے کو جھکا۔ ٹھاکر نیک سنگھ نے تعجب سے ہری سنگھ کو دیکھا اور دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ ہری سنگھ کے ہاتھ دگڑے کی دھول میں جا دھنسے، دھول اڑکر پتا نہیں کیسے ٹھاکر نیک سنگھ کی آنکھوں میں بھر گئی۔ ہری سنگھ کے سامنے فضا شفاف تھی اور ٹھاکر نیک سنگھ کے سامنے غبار آلود۔

    جب ہری سنگھ ٹھاکر نیک سنگھ کو لے کر گھر پہنچا تو بوا دروازے کے باہر چھپرکے نیچے کھڑی ان کا انتظار کر رہی تھیں، جلدی سے اندر گئیں اور دالان میں کھاٹ بچھانے لگیں۔ ہری سنگھ بھاگتا ہوا کوٹھے میں گیا اور ایک نئی دری لاکر کھاٹ پر بچھا دی۔ ٹھاکر نیک سنگھ بیٹھ گئے اور اپناصافہ اتارکر سرہانے رکھ دیا۔ لجاپیتل کا بڑا گلاس بھرکر دودھ لے آئی۔ ٹھاکر نیک سنگھ نے آہستہ سے پوچھا۔’’ بٹیا۔۔۔ راضی خوشی ہو۔ ‘‘اور لجا نے شرما کر گردن جھکا لی‘‘۔

    ٹھاکر تیج بہادر بازار میں دن مندے تک ٹہلتے رہے۔ پورے پھڑکے کئی چکر لگائے اورجب گھر لوٹے توانھوں نے دیکھا کہ آسمان پر چاند اور کھاٹ پر ٹھاکر نیک سنگھ براجمان ہیں۔ دونوں نے وہیں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ہری سنگھ نے پیتل کی لٹیا میں پانی بھرکر ان کے پاس رکھ دیا۔ بوانے دری کا کونا ہٹایا اور کھاٹ کی ادوائن میں دو گلاس اڑس دیے۔ ٹھاکر نیک سنگھ پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے رہے مگر جیسے ہی وہ ہری سنگھ کو دیکھنے کی کوشش کرتے، دگڑے کی دھول ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرابن کر چھا جاتی۔

    جب رات بولنے لگی تو ہری سنگھ لجا کے پتا کی پائینتی آکر بیٹھ گیا اور اپنے مضبوط ہاتھ رضائی کے اندران کی پنڈلیوں پر رکھ دیے۔ ’’پتاجی، آپ تھک گئے ہوں گے۔‘‘

    ٹھاکر نیک سنگھ جیسے اچھل پڑے، پھر کروٹ لی، ٹانگیں سمیٹیں اور بغیر کچھ کہے منہ موڑ کر سو گئے۔ ہری سنگھ حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔ دوسرے دن لجا کو ٹھاکر نیک سنگھ کے ساتھ جانا تھا۔ وہ چلی گئی اور ہری سنگھ کو لگا جیسے اس کے جسم سے کوئی چیز نکال لی گئی ہو۔

    کئی مہینے بیت گئے لجا واپس نہیں آئی۔ ہری سنگھ نے دو چار چٹھیاں لکھیں مگر کوئی جواب نہیں۔ ہری سنگھ کے پتا بلانے گئے مگراکیلے لوٹ آئے، پوچھے جانے پر کچھ بھی نہیں بتایا۔ پھر اچانک ایک لجا کی چٹھی ملی، بس اتنا لکھا تھا ’’پتاجی سے کہو مجھے آکر لے جائیں۔‘‘ جب ہری سنگھ نے ٹھاکر تیج بہادر کو چٹھی دکھائی تو وہ آگ بگولا ہو گئے۔ ’’میں ایک بار جاکر لوٹ آیا ہوں اور پھر ریت تو یہ ہے کہ ٹھاکر نیک سنگھ خود بہو کو یہاں چھوڑنے آئیں۔‘‘

    ایسی کسی ریت کے بارے میں ہری سنگھ نے پہلے کبھی نہیں سناتھا۔ اسے ویدجی کی بات یاد آئی۔ ’’ہمارے اہنکار ہی ریت رواجوں کو جنم دیتے ہیں۔‘‘

    سردیاں بیتیں، گرمی کی رت آ گئی۔ وقت گزرتا رہا اورایک روز ٹھاکر تیج بہادر نے دیکھا کہ ہری سنگھ دن بھر چلچلاتی دھوپ میں پوکھروالے موڑکی پلیا پر بیٹھے بیٹھے بےہوش گیا ہے اور کئی لوگ اسے اٹھاکر لا رہے ہیں۔ گرمی بہت تھی، منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، ہوش تو آ گیا مگر پھر ایسی چپی سادھی کہ بولنے کا نام نہیں لیا۔ کئی ہفتے بعد وہ چپکے سے گھرسے نکلا اور دوڑتا ہوا وید جی کی بیٹھک کے پاس جا پہنچا۔ شہزاد خاں وہاں سے گزر رہے تھے۔ ’’کیا بات ہے ہری سنگھ؟ کہاں بھاگے جا رہے ہو؟‘‘

    ہری سنگھ نے ہانپتے ہوئے وید جی کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ ویدجی کے دروازے پر تالا لٹکا ہوا تھا۔ شہزاد خاں نے تالے پر جمی دھول کو دیکھا اور وہ ٹھنڈی سانس بھرکر اس طرف بڑھ گئے جدھر سے ٹھاکر تیج بہادر گھبرائے ہوئے ہری سنگھ کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے۔ ٹھاکر تیج بہادر کے قریب پہنچ کر رکے ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال کر ان کی گردن اونچی کی اور بولے۔ ’’ٹھاکر صاحب ہری سنگھ۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں خاں صاحب۔۔۔ ویسے تو وہ ٹھیک ہے، بس گھر میں بند رہتا ہے۔‘‘ ٹھاکر تیج بہادر کی آواز اکھڑی اکھڑی سانسوں کے سہارے نکلی۔ ‘‘وید جی کے دیہانت کی خبرسن کر بھی وہ گھر سے نہیں نکلا تھا، آج بہت دنوں بعداچانک۔۔۔‘‘

    پھر ان دونوں نے دیکھا کہ ہری سنگھ نے گلی سے ایک اینٹ کا ادھا اٹھا لیا ہے۔ ٹھاکر تیج بہادر اس کی طرف لپکنے ہی والے تھے کہ اینٹ کا ادھا ویدجی کی بیٹھک کے بند کواڑوں سے ٹکراکر چکناچور ہو گیا۔ پھر اس نے دوسرا ادھا اٹھایا پھر تیسرا اور بہت دیر تک ویدجی کے دروزاے پر اینٹیں برساتا رہا۔

    وید جی کو گزرے مہینوں ہو گئے ہیں، ان کے گھر پر تالا پڑا ہے۔ مگر ہری سنگھ اکثر وہاں جاتا ہے، دروازے پر دوچار اینٹیں مارتا ہے اور واپس چلاآتا ہے۔ یوں تو وہ ٹھیک ہے لیکن گھر میں جب بھی لجا کی بات نکل آتی ہے تو اس سے رہا نہیں جاتا اور سیدھا ویدجی کے دروازے پر جا پہنچتا ہے۔ ٹھاکر تیج بہادر یہ تو نہیں سمجھ سکے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے مگر اس کی یہ حالت دیکھ کر انھوں نے اپنی بسنتی پگڑی پھر بکسے میں رکھ دی اور سفید صافہ باندھ کر وہ لجا کے گائوں رام نگر جا پہنچے۔

    دونوں ٹھاکر ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑکر کھڑے تھے۔ دونوں کچھ کہنا چاہتے تھے مگر خاموش تھے۔ ہری سنگھ کے پتا کی آواز کپکپائی۔ ’’ٹھاکر صاحب کیا انجانے میں کوئی بھول ہو گئی ہم سے۔‘‘

    ’’نہیں ٹھاکر صاحب بھول تو ہم سے ہوئی ہے، اب ہمیں چھما کرو۔‘‘

    ہری سنگھ کے پتا کچھ نہیں سمجھ سکے اور بول پڑے۔’’لجا۔۔۔‘‘

    ’’لجا؟ ٹھاکر صاحب لجا کی ماں اسے میری گود میں چھوڑ کر پر لوک سدھار گئی تھی۔ بہت لاڈ سے پالا ہے میں نے اسے، ہنڈولا گھر میں ہوتا تھا اور جھولا باغ میں ۔مجھے کیا پتا تھا کہ ایک دن ان ہی ہاتھوں سے نرک میں جھونک دوں گا اسے۔‘‘

    ’’نرک میں؟ ٹھاکر صاحب یہ کیسی باتیں۔۔۔‘‘

    ’’اور کیا اسے سؤرگ کہوں؟ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ اس پاگل کو ہماری بیٹی کے پلے باندھ دیا۔ وہ تو بھلا ہو سندر اور چودھری صاحب کا کہ دوسرے دن ہی یہاں آکر سب بتا گئے اور میں چپ چاپ اس نرک سے اسے نکال لایا ورنہ وہ تو گھٹ گھٹ کر مر جاتی۔‘‘

    ’’مگر ٹھاکر صاحب وہ تو بچپن کی بات ہے۔ اب تو ہری سنگھ ٹھیک ہے۔ بس لجا کو۔۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے! اور بیاہ کے دوسرے دن جب لجا کو لینے گیا تو وہ پاگلوں کی طرح پورے دن پوکھر والی پلیا پر بیٹھا رہا، اس پر کہتے ہو کہ اب وہ بالکل ٹھیک ہے اور جب میں بس سے اترا تواس نے پتا ہے کیا کیا؟ میرے پیر چھوئے۔ ٹھاکر کیا تم نہیں جانتے کہ ٹھاکروں میں داماد نہیں سسر پیر چھوتے ہیں داماد کے۔ کس طرح میرے آگے پیچھے لگا گھوم رہا تھا۔ کبھی پانی لا کبھی چلم۔ کبھی ہاتھ پائوں دھلانے کو لوٹا لیے براجمان اور تو اور رات میں پائوں دبانے بیٹھ گیا۔ یہی ٹھاکروں کے ریت رواج ہیں کیا؟ کہتے ہو ٹھیک ہو گیا ہے وہ۔۔۔ یہی ٹھیک ہوا ہے۔ چٹھی پرچٹھی لکھتا ہے لجا کو، گڑگڑاتا ہے مہرارو کے آگے۔ لکھتا ہے میں پاگل ہو جائوں گا۔ ٹھاکر کہتے ہیں اپنے آپ کو ٹھاکر۔ آن ہے نہ بان۔ بہو کو لینے آئے ہیں۔ خود آن پہنچے ناک رگڑتے ہوئے۔‘‘

    لجا اوٹے کے پیچھے کھڑی سب کچھ سن رہی تھی۔ رہا نہیں گیا، سسکتے ہوئے بولی۔ ’’پتاجی۔۔۔‘‘ اتناہی کہہ پائی تھی کہ ٹھاکر نیک سنگھ دہاڑے۔ ’’تو جا اندر خبردار جو باہر نکلی۔ منا کو چھوڑے یہاں کھڑی ہے۔ وہ کوٹھری میں اکیلا پڑا ہے۔ ‘‘

    ’’منا؟ آپ نے خبر نہیں دی۔‘‘

    ’’ٹھاکر صاحب جب آپ سے کوئی ناتاہی نہیں رہا تو خبر کیسی۔ میں نہیں چاہتا کہ منا پر اس پاگل کا سایہ بھی پڑے۔‘‘

    ’’وہ پاگل نہیں ہے ٹھاکر صاحب۔۔۔ اس نے جوکچھ کیا، وہ ویدجی کے سکھائے ہوئے سنسکار تھے۔ ان ہی کی سنگت کا اثر ہے۔ انھوں نے ہی اپنے بڑوں کی عزت کرنا اور جھوٹی آن بان سے بچنا سکھایا ہے۔‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ بڑوں کی عزت؟ اور اپنی عزت۔۔۔؟ اپنی عزت مٹی میں ملانا بھی ویدجی نے ہی سکھایا ہوگا۔ ویدجی کے سنسکار سیکھ لیے اور اپنے سنسکار بھول گیا۔ میں کہہ چکا ہوں، ٹھاکر صاحب آپ سے ہمارا اب کوئی ناتا نہیں۔‘‘ ٹھاکر تیج بہادر کی کنپٹی پر جیسے کسی نے اینٹ کا ادھا دے مارا ہو۔۔۔ ’’اینٹ کاادھا‘‘۔ ’’ویدجی کابنددروازہ‘‘۔ ہری سنگھ ایک کے بعد ایک اینٹ کے ادّھے چلا رہا ہے۔ اب کچھ کچھ ٹھاکر تیج بہادر کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ ہری سنگھ وید جی کے دروازے پر اینٹیں کیوں مارتا ہے۔ وہ مڑے اور بھاری بھاری قدموں سے رام نگر کی سرحد پار کر کرتے ہوئے واپس اپنے قصبے کی طرف لوٹنے لگے۔

    لوٹ کر جب ٹھاکر تیج بہادرنے ساری بات ہری سنگھ کی بوا کو بتائی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔ ہری سنگھ نے سنا تو بھاگ کر کوٹھری میں بند ہو گیا۔ بہت دیر دروازہ پیٹنے کے بعد جب کواڑ کھولے تو ٹھاکر تیج بہادرنے دیکھا کہ ہری سنگھ پاجامے کا ایک پائینچا پھاڑ کر اپنے گلے میں لپیٹے ہوئے ہے۔ کواڑ کھلتے ہی وہ کوٹھری سے باہر آ گیا۔

    ’’بوا، لجا کے پتاجی کو پجامہ پہنا دو۔۔۔‘‘ پھر چاروں اور دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’لجا کہاں ہے؟ ارے ہاں وہ تو اپنے پتا جی کے ساتھ گنگا نہانے گئی ہے‘‘ پھر اس نے ایک چھلانگ ماری اور تیزی سے گلی میں دوڑ پڑا۔ اب وہ صبح سے شام تک پوکھروالے موڑکی پلیا پر بیٹھا رہتا ہے اور ہر راہ گیر سے پوچھتا رہتا ہے۔

    ’’بھیا گنگا نہاکے آ رہے ہو؟ لجاملی تھی؟‘‘

    جواب نہ پاکر وہ بڑبڑاتے ہوئے اس طرف دیکھنے لگتا جہاںسے بس آتی دکھائی پڑتی۔ بس آتی اور اس کا منہ چڑاتی ہوئی گزر جاتی۔ اگر کوئی بس رکتی اور اس میں سے کوئی زنانی سواری اترتی تو وہ دوڑکر اس سے لپٹ جاتا۔ ’’لجا۔‘‘ ایک بار تو اس کی بری طرح پٹائی شروع ہو گئی۔ وہ تو کہیے کسی بھلے مانس نے پہچان لیا۔ ’’ارے یہ تو ہری سنگھ ہے۔۔۔پگلا۔۔۔‘‘

    ٹھاکر تیج بہادر کئی بار رام نگر جاکر لوٹ آئے مگر لجا کونہ لا سکے، ہاں اتنی خبر ضرور لے آئے کہ لجا کا بیٹا منا اب پاٹھ شالا جانے لگا ہے۔ دن مہینے اور برس آتے جاتے رہے۔ موسم بدلے مگر اب کیا گرمیاں اور کیا سردیاں، ہری سنگھ کی حالت ایک جیسی رہنے لگی۔۔۔ منا۔۔۔ نہیں لجا۔۔۔ ہاں لجا اب ایک چھوٹے سے بچے کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس بچے کی شکل جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے لگتا کہ وہ اس کے انگنے میں ادھر ادھر ٹھمکتی گھوم رہی ہے۔ وہ ننھی سی بچی ہے یا سلونا سابچہ۔۔۔۔پتانہیں۔ مگر جب وہ اس کے قریب پہنچتا تو وہ کسی کونے میں دبک جاتی، بس وہ اپنا سراسی کونے کی بھیت پر پٹکنے لگتا اور نڈھال ہوکر دھرتی پر چاروں خانے چت پڑ جاتا۔ اب کی گرمیوں میں وہ کسی بچے کا کچھا اٹھا لایا تھا۔ رات بھر چبوترے پر بیٹھا بیڑیاں پیتا رہا۔ کبھی کچھے کو جھاڑ پونچھ کر تہہ کرکے پاجامے کی انٹی میں اڑس لیتا اور کبھی چھپاکر بنیان کی جیب میں رکھ لیتا۔ رات بھر یہی کرتا رہا، صبح ٹھاکر تیج بہادر نے دیکھاکہ وہ چبوترے پر نہیں ہے۔ وہ گائوں بھر میں نہیں تھا۔ بوانے رو روکر گھر بھر دیا۔ باپ نے آس پاس کے تمام گائوں کھنگال ڈالے مگر اس کا کہیں پتا نہ چلا۔ ہفتوں گزر گئے۔ ٹھاکر تیج بہادر کی امیدیں ٹوٹنے لگیں کہ اچانک انھیں رام نگر کا خیال آیا۔

    ٹھاکر تیج بہادر اسٹیشن پر اتر کر کھیتوں کو پار کرتے ہوئے رام نگر کی طرف جا رہے تھے کہ دو آدمی آتے دکھائی پڑے۔ ’’بھیا کیا رام نگر سے آ رہے ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    تیج بہادر نے گھبراکر پوچھا۔’’رام نگر میں ہری سنگھ۔۔۔ میرا مطلب ہے کوئی پاگل۔۔۔‘‘

    ’’پاگل۔۔۔؟‘‘دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

    ٹھاکر تیج بہادر نے کہا۔ ’’تم رام نگر والے ٹھاکر نیک سنگھ کو جانتے ہو؟‘‘

    ایک شخص کچھ سوچتے ہوئے اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔ ’’ارے یہ اس بائولے کی بات کر رہے ہیں جس کا دایاں ہاتھ جلا ہوا تھا۔‘‘

    ’’ہاں ہاں وہی۔‘‘

    ’’ارے وہ۔ پہلے تووہ کئی دن تک گائوں کی دھرم شالا میں پڑا رہا پھر کچھ بچے۔۔۔‘‘ راہ گیر بولتا رہا، ٹھاکر تیج بہادر بت بنے کھڑے رہے۔ ان کی خشک آنکھیں کھلی تھیں اور وہ سوچ رہے تھے بلکہ دیکھ رہے تھے کہ ہری سنگھ دھرم شالا میں پڑا ہے۔ اس کے گرد بہت سے بچے جمع ہیں۔ منا ایک کونے میں سہما سمٹا کھڑا اسے تکے جا رہا ہے۔ ’’منا۔۔۔؟ ہاں یہ منا ہی ہے۔ میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تو کیا ہوا۔۔۔؟ کیا میں ہری سنگھ کو نہیں پہنچانتا؟ ہری سنگھ کو پہچانتا ہوں تو منا کو بھی پہچان سکتا ہوں۔‘‘ ہری سنگھ رک رک کر کہہ رہا ہے۔ ’’سدا بڑوں کا آدر کرو۔ جھوٹی آن بان اور جھوٹے ریت رواجوں سے بچنا سیکھو۔ ہمارے اہنکار ہی ریت رواجوں کوجنم دیتے ہیں۔‘‘ منا اس کی گود میں آن بیٹھا ہے۔ سامنے راہ گیر کھڑا کچھ بولے جا رہا تھا۔ اس کے شبد اینٹ کے ادھوں کی طرح ان کی کنپٹیوں پر پڑ رہے تھے۔

    ’’پھر کہاں گیا وہ؟‘‘ ٹھاکر تیج بہادر کے منہ سے نکلا۔

    راہ گیر نے ٹھنڈی سانس لی۔ وہ بچوں سے ان کی مائوں کے نام پوچھتا رہتا تھا اورکسی وید جی کی کہانی سنایا کرتا تھا۔ لگتاہی نہیں کہ وہ پاگل ہے۔ مگرایک دن تو اس نے انرتھ ہی کر ڈالا ۔ٹھاکر نیک سنگھ کی بٹیا۔۔۔‘‘

    ٹھاکر تیج بہادر بولے۔’’لجا۔۔۔؟‘‘

    ’’نام تو ہمیں پتا نہیں۔۔۔ ہم توگائوں کے اسکول میں پڑھانے آتے ہیں‘‘۔ وہ لمحے بھر کے لیے رکا، لیکن وہ لمحہ ٹھاکر تیج بہادر کوبہت طویل ہوتا محسوس ہوا اور پھرجب اس لمحے کا بلبلہ پھوٹا تو ان کے کانوں میں آواز آئی۔’’ وہ باولا ٹھاکر صاحب کے ناتی کو لے کر بھاگ نکلا۔ وہ تو کہو کچھ لوگوں نے دیکھ لیا۔ بڑا ہو ہلا ہوا مگر اس نے بچے کو نہ چھوڑا۔ لوگوں نے پیچھے سے اینٹیں اور ڈھیلے مارنے شروع کیے۔ پیٹھ سے خون نکلنے لگا مگر رکنے کانام ہی نہی لیتا تھا۔ بھگوان کا کرنا تھا ادھر سے سرپنج آ رہے تھے۔ یہ ماجرا دیکھا تو گھما کر لاٹھی اس کے سرپر دے ماری تب جاکر وہ گرا۔‘‘

    ٹھاکر تیج بہادر نے آنکھیں موند لیں اور بند آنکھوں سے دیکھا کہ ہری سنگھ کے سر سے خون بہہ رہا، ناک سے پھوار پھوٹ پڑی ہے اور وہ بچے کوگود میں چھپائے زمین پر پڑا تڑپ رہا ہے ۔

    ٹھاکر تیج بہادر کے پیروں کے نیچے زمین کانپنے لگی، آنکھیں کھولیں اور گھبراکر بولے۔ ’’تو کیا وہ مر گیا؟‘‘

    ’’ہاں وہ تو وہیں مر گیا تھا۔ اگر نہ مرتا تو بچے کا جانے کیاحال کرتا۔ چھوڑنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ بڑی مشکل سے لوگوں نے اس کے ہاتھ سے بچے کو چھڑایا۔‘‘

    ٹھاکر تیج بہادر کادل دھک سے رہ گیا جیسے وید جی کے دروازے پر کسی نے اینٹ کا ادھا دے مارا ہو۔ انھیں لگا کہ ویدجی کی بیٹھک کا دروازہ اکھڑکر دور جا گرا ہے اور اندر ویدجی کی لاش پڑی سڑر ہی ہے۔ وہ شخص بولے جا رہا تھا ’’اس کا کریا کرم بھی ٹھاکر نیک سنگھ نے ہی کیا تھا۔ بڑی آن بان کے ساتھ کیا تھا اس کا انتم سنسکار۔ بڑے ہی نیک آدمی ہیں بےچارے۔‘‘

    دوسرا شخص جو دیر سے خاموش تھا بول پڑا۔۔۔ ’’ارے بھئی وہ پاگل تھوڑی تھا وہ تو جادوگر تھا۔ مرنے کے بعد بھی اس کا جادو چل رہا تھا۔ ‘‘

    ٹھاکر تیج بہادر نے اس کے چہرے پر نظریں گڑا دیں۔

    ’’پتا ہے کیا ہوا؟‘‘

    ’’کیا؟‘‘ ٹھاکر تیج بہادر کے منہ سے نہیں پورے وجود سے آواز نکلی۔

    ’’ٹھاکر جی کا ناتی اس کی جلتی چتا۔۔۔‘‘

    ’’جلتی چتا میں کود پڑا؟‘‘

    ’’نہیں، کودا تو نہیں مگر اسے جلتا دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگا اور پھر بےہوش ہو گیا۔‘‘

    ’’بےہوش ہو گیا؟ ہری سنگھ کابچہ بے ہوش ہو گیا۔ مطلب ہری سنگھ مرا نہیں، وہ زندہ ہے۔ عجب لوگ ہیں کہتے ہیں مر گیا۔ ویدجی کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مر گئے ۔‘‘

    ٹھاکر تیج بہادر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا انھیں محسوس ہوا کہ وید جی کی بیٹھک کا دروازہ پوری طرح سلامت ہے اور اس کا ایک پٹ جس پر ابھی اینٹ کے ادھے کے سرخ نشان موجود ہیں کھلا ہوا ہے اور ہری سنگھ کا بچہ بیٹھک سے باہر نکل کر اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ان نشانوں کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’’بچہ بے ہوش ہو گیا یعنی ویدجی زند ہ ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑا رہے تھے۔ دونوں راہ گیروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کچھ سمجھے بغیر وہاں سے چل دیے۔

    ’’ہری سنگھ زندہ ہے۔۔۔‘‘ ٹھاکر تیج بہادر پھر بڑبڑائے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی پگڑی اتاری، اس سے منہ کا پسینا پونچھ کر اطمینان کی سانس لی اور واپس اسٹیشن کی طرف لوٹ پڑے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے