Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سرخ اپارٹمنٹ

شوکت حیات

سرخ اپارٹمنٹ

شوکت حیات

MORE BYشوکت حیات

    کہانی کی کہانی

    ’’دو دوستوں کی کہانی، جو کسی زمانہ میں ایک ساتھ ایک ہی فیکٹری میں ملازم ہوا کرتے تھے۔ مگر ان میں سے ایک شارٹ کٹ مارکر جلدی ہی امیر بن جاتا ہے اور دوسرا اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھاتا بھٹکتا پھرتا ہے۔‘‘

    ابھی ابھی اس کی نظر دور سے آتی ہوئی کار کے شیشے سے جھانکتے ہوئے دیرینہ رفیق عامر کے چہرے پر پڑی تھی۔ مسکراتے ہوئے چہرے پر عجیب اپنائیت تھی۔

    اس کے پاؤں ڈگمگائے تھے۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا۔ لیکن اس نے جسم کی ساری قوت صرف کر کے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا۔ وہ احتجاجی مظاہرے کی قیادت کر رہا تھا۔ جسے کامیاب کرنا ضروری تھا۔ اپنے آپ کو سنبھالنے میں اس کے ذہن اور دل میں کافی ٹوٹ پھوٹ مچی۔ شریانوں اور اعصاب کے نسیجی نظام میں گہما گہمی اور اتھل پتھل ہوئی۔ لیکن بانہوں پر کالی پٹیاں باندھے نپے تلے قدموں سے وہ آگے بڑھتا رہا۔ اس کے پیچھے پیچھے بہت سارے لوگ اس جلوس میں اس کے ہم قدم تھے۔

    کچھ ہی دنوں پہلے اونچی سرخ عمارت منہدم ہوئی تھی۔

    مکینوں کی ناعاقبت اندیشی نے اسے اس حال تک پہنچایا تھا۔

    کچھ لوگ تھے جنہیں گھٹن کا احساس ہوتا تھا۔

    کھلی ہواؤں کے لئے جگہ جگہ روشن دان اور کھڑکیاں بنائی جارہی تھیں۔

    رنگ برنگی روشنی کے لئے اونچی سرخ عمارت کی دودھیا روشنی جس میں سب کچھ نرم نرم اور چکنا چکنا لگتا تھا، صاف و شفاف آر پار دکھائی دیتا تھا، گل کی جاچکی تھی۔

    دودھیا روشنی کی عادی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی رنگ برنگی روشنی قطعی پسند نہ تھی۔ تکرار اور بحث لازمی تھی۔

    اس جھگڑے کے تدارک کے لئے یا شرارت سے کسی نے مین سوئچ ہی آف کردیا۔ ہرطرف اندھیرا پھیل گیا۔ نہ اب دودھیا روشنی تھی۔ نہ رنگ برنگا اجالا۔ یہاں سے وہاں تک صرف سیاہی ہی سیاہی۔

    دروازے کھولے جانے لگے کھڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ ایسی گھٹن تھی کہ جینا محال ہورہا تھا۔

    نت نئے دروازوں اور متعدد کھڑکیوں کی تشکیل کے درمیان عمارت کی دیواروں پر بھرپور ضرب پڑی۔ بنیادیں ہلنے لگیں۔۔۔انجامِ کار ساری عمارت، عمارت کے تمام فلیٹ زمین پر آرہے ۔

    کتنے لوگ زخمی ہوئے۔۔۔ کچھ لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹیں۔۔۔ کتنے جاں بحق ہوگئے۔۔۔ لیکن جو زندہ سلامت تھے ان میں سے زیادہ تر بڑے شگفتہ موڈ میں تھے۔

    شروع شروع میں کھلی سڑک، میدان اور کھلی فضا میں سانس لینے میں بڑی راحت اور نئے ذائقے کا احساس ہوا۔ لیکن جلد ہی انہیں اندازہ ہوا کہ برسوں کی محنت سے تعمیر کی گئی عمارت کے انہدام کے بعد وہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی کفالت سے محروم ہوگئے ہیں۔

    کچھ تھے جو سرخ عمارت کے انہدام کا ماتم منارہے تھے۔ ان کی نظر میں وہ ایک آئیڈیل عمارت تھی، جس کے نین و نقش والی دوسری عمارت کھڑی کرنا آسان نہ تھا۔ ان کی نظر میں دودھیا روشنی کی اہمیت مسلم تھی کہ اس میں راہ ِنجات کا آئندہ سفر جاری رکھا جاسکتا تھا۔

    کچھ ایسے بھی تھے جو اب بھولے سے بھی اس سرخ عمارت کے تذکرے کو پسند نہیں کرتے تھے ان کی نظر میں اس عمارت کی سرخی میں ان کے اجداد کا خون شامل تھا اور اب وہ لال رنگ سے پناہ مانگتے تھے۔

    انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب سے روشنیوں کے معدوم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ روشنی اچانک گل نہیں ہوئی تھی۔ سب کچھ پلک جھپکتے میں وقوع پذیر نہیں ہوا تھا جو کچھ آج نظر آرہا تھا وہ تو بہت دھیمے دھیمے بہت ہی آہستگی کے ساتھ دبے پاؤں بہت پہلے سے ہورہا تھا۔ شاید شروع سے تاریکی اور انہدام کا کھیل ایک مدت سے اتنی مدھم رفتار سے ہورہا تھا کہ لوگوں کو محسوس ہی نہیں ہوا کہ ان کی تدبیروں کے ساتھ فریب ہورہا ہے۔ تقدیریوں کے آگے انہیں پہلے ہی کی طرح گھٹنا ٹیکنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

    کیسی عجیب و غریب اور لطیف سازش تھی کہ وہ خود جانتے بوجھتے اسی ڈال کو کاٹ رہے تھے، جس پر ان کا آشیانہ تھا اور اسی میں فرطِ انبساط محسوس کر رہے تھے۔

    ہم خواب ِغفلت میں پڑے رہے اور اپنی شکست کو فتح تسلیم کرتے رہے۔۔۔ انہوں نے سوچا۔

    عامر تو ایسا حواس باختہ ہوا کہ اس نے خندق میں چھلانگ لگادی۔ مضبوطی سے جماکر رکھے ہوئے پاؤں ڈھیلے پڑ گئے اور وہ ڈھلان پر پھسلتا چلا گیا۔ اس پستی تک پہنچ گیا جہاں پہلے والا عامر مر چکا تھا۔ ایک نیا عامر جنم لے چکا تھا۔۔۔ عام سا لالچی عامر۔۔۔ ہوس کا مارا ہوا ۔۔۔ عمارتیں اور زمینیں خریدتا ہوا۔۔۔ فرضی فنانس کمپنیز قائم کرتا ہوا۔۔۔ روپ بدل بدل کر اس نے مختلف کمپنیاں قائم کیں۔۔۔ مختلف اداروں کی بنیاد رکھی اور راتوں رات اپنا بریف کیس بھاری کر کے روپوش ہوگیا۔

    ایک مدت تک روپوش رہنے کے بعد وہ پھر نمودار ہوا۔۔۔ بدلے ہوئے میک اپ میں ۔۔۔ نئے رنگ و روغن کے ساتھ۔۔۔ نئے روپ میں۔۔۔ اس کا پرانا دوست بھی اسے دیکھتا تو پہچان نہیں پاتا۔۔۔ پھر وہی کاروبار۔۔۔ چار برس میں رقم دگنی۔۔۔ ۷ برس میں چوگنی۔۔۔ دولت کا انبار۔۔۔ مالدار بننے کے آسان راستے۔۔۔ مختلف کمپنیاں۔۔۔ شیئرز۔۔۔ پیڑ اور جنگلات اگانے کا سلسلہ۔۔۔

    سرخ عمارت جب نئی نئی بنی تھی تو چیزیں کیا اسی طرح عمل و تعامل سے دوچار تھیں۔ عامر کیا اس وقت بھی ڈھلوان پر پھسلنے کے لئے اپنے پرتول رہا تھا۔ سب کچھ اس کی مرضی اور چاہت کے مطابق ہوا تھا۔ یا یہ ایک رد ِعمل جو پندرہ سال تک پیٹ پر پتھر باندھ کر پھول بانٹنے اور چٹائی پر شب باشی کی صعوبتوں کو ہنستے ہنستے جھیلنے کی خوکی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔۔۔ اتنے دن کے خالی پن کو وہ سارے جہاں کی دولت سمیٹ کر بھر دینا چاہتا تھا۔

    لیکن منان تو اپنی جگہ ابھی ابھی قائم و دائم تھا۔ تیسری دنیا کے قلاش مکینوں کے لئے اسی سرخ عمارت کو اپنا ماڈل مانتا تھا، جہاں کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ بے گھروں کی رہائش کا انتظام ہوسکتا تھا۔ کڑے سورج کی تمازت، جاڑے کی جان لیوا ٹھنڈک اور برسات کی موسلا دھار بارش کی قہر سامانیوں سے محفوظ رہنے کا آسرا مل سکتا تھا۔

    منان ڈھلان کی سنگلاخ اونچائی کی طرف اپنے پاؤں جماکر چڑھائی چڑھنے میں پوری لگن کے ساتھ مصروف تھا۔ سانسیں تیز چلنے لگی تھیں۔ جسم پر نقاہت طاری تھی۔ پاؤں لہو لہان ہوگئے تھے۔ لیکن ارادے متزلزل نہیں ہوئے تھے۔ آنکھیں ایک ذرا بجھ سی گئی تھی، پہلی والی چمک نہیں رہی تھی لیکن ڈھلتی عمر کے بھی تو کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔

    لوگوں کے دکھ مصیبت دور کرنا، سنگلاخ زمین پر پودے لگانے اور پھول کھلانے کا منان کا عمل جاری و ساری رہا۔ بیوی بچے سب اس ہجوم کا حصہ بن چکے تھے، جن کی تقدیر کے ساتھ اس نے انہیں نتھی کردیا تھا۔ سب کچھ بدلے گا تو یہ بھی اس تبدیلی کا مزہ چکھ لیں گے۔۔۔ ورنہ قہر ِدرویش برجانِ درویش۔

    لیکن کچھ تو نہیں بدلا۔۔۔ بیوی کا چڑچڑا پن بڑھتا گیا۔۔۔ بات بات پر تکرار۔۔۔ گھر جہنم بن گیا۔۔۔ بچوں کا بے ہنگم پن ناقابل برداشت۔۔۔ ان کی بیماریاں۔۔۔ پسلیاں چلتیں تو سرخ تیل کی مالش۔۔۔ اوپری علاج سے عارضی طور پر ٹھیک ہوجاتا۔۔۔ اندر جسم و جان کو کھوکھلا کرنے والی کلبلاہٹ جاری رہتی۔

    پھر چیزیں چھوٹتی چلی گئیں۔ ہاتھ میں آئے ہوئے لمحے پھسلنے لگے۔

    لیکن منان کی ہتھیلیوں کی گرفت اپنی جگہ زور آزمائی کرتی رہی۔ شکستہ خاطری اس کی سرشت میں نہیں تھی۔

    میلے کچیلے کھانستے ہوئے بچے گولیاں کھیلنا کب چھوڑیں گے۔۔۔؟

    گندے رہنے کی حالت سے اگر نجات پاسکیں۔۔۔ لڑنے جھگڑنے سے باز آجائیں۔۔۔ ناک سے رستے ہوئے بلغم کو پونچھنا تو سیکھیں۔۔۔ گلیوں، نکڑوں اور نالیوں کی غلاظتوں کو کون ٹھکانے لگائے۔۔۔

    گندے، گھناؤنے اور محبوس منظر ناموں کے درمیان وہ سرخ عمارت کی دودھیا روشنی کو ترس رہا ہے۔۔۔ اب کوئی امید نہیں رہی ہے۔۔۔؟

    منان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ تاریکی میں وہ ٹامک ٹویے مارتا۔ زخمیوں کی چیخ و پکار اور ان کی مزاج پرسی میں اندھیرا کہیں اڑے آتا ہے۔ہاں دودھیا روشنی ہوتی تو زخموں کو صاف دیکھا جاسکتا تھا۔۔۔ مرہم لگایا جاسکتا تھا۔۔۔ اندمال کے خوش نما نظارے کتنے سہانے لگتے ہیں۔

    چائے کے ڈھابے میں شور تھا۔ جلوس کی وجہ سے کافی لو گ اکٹھا ہوگئے تھے۔ ابھی جلوس نکلنے میں دیر تھی۔ لوگ چائے کے ڈھابے پر آبیٹھے۔ خوش گپی کے لئے اس چائے کے ڈھابے سے بہتر جگہ کوئی نہیں تھی۔

    کچھ بڑی بڑی چٹانیں کرسی کا کام کرتی تھیں۔۔۔ وہ بنچ تھی۔۔۔ لمبی لیکن شکستہ۔۔۔ اینٹوں کے پائے کے سہارے ٹکی ہوئی۔۔۔ آدمیوں کی تعداد بڑھنے لگی۔۔۔ پتھر پر جس کو بیٹھنے کا موقع نہ ملا وہ بنچ پر آگیا۔۔۔ آج تک اتنی تعداد میں اس بنچ پر لوگ نہیں بیٹھے تھے۔ شکستہ حالت سے گزرتی اور اینٹوں کی مدد سے اپنی ایک ٹانگ کی تکمیل کرتی ہوئی بنچ اتنے آدمیوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکی۔ چرمرا کرنیچے آرہی۔

    انگلیوں سے پیالے اور گلاس چھوٹ گئے۔۔۔ گرما گرم چائے سے ہاتھ جل گئے۔۔۔ کپڑوں پر اپنا نہ مٹنے والا نشان چھوڑ گئے۔۔۔ کپڑے زمین کی دھول چاٹنے لگے۔۔۔ پتھروں پر بیٹھے ہوئے لوگ سلامتی کے ساتھ بیٹھے رہے۔۔۔ پتھر تو پتھر ہوتے ہیں۔۔۔ اپنی جگہ مصمم رہتے ہیں۔۔۔ لکڑیاں لکڑیاں ٹھہریں۔۔۔ زیادہ بوجھ کی تاب نہ لا سکیں۔

    منان پتھر تھا۔ اپنی جگہ صامت رہا۔ عامر لکڑی تھا چرمرا کر ٹوٹ گیا۔

    سرخ عمارت کی دودھیا روشنی دراصل منان کے اندر سے پھوٹ رہی تھی جو اسے تاریکی میں بھی اپنا کام کرتے چلے جانے کی بصیرت عطا کر رہی تھی۔ اس کے نزدیک جو بھی آیا، اندھیرے کا اسیر ہوتے ہوئے بھی اس کی دودھیا روشنی میں سچ مچ سب کچھ کیسا دودھ دودھ اور مکھن مکھن سا لگتا تھا۔

    بنچ کے بغل میں ایستادہ گھنے پیپل کے درخت پر بیٹھے ہوئے پرندے بنچ کے ٹوٹنے کی زور دار آواز سے اڑکر آسمان میں غائب ہوچکے تھے۔

    جلوس کے لئے لوگ اکٹھا ہوچکے تھے۔ عبد المنان نے لوگوں کو قطار بند کیا وہ آگے آگے چل رہا تھا۔ ناگاہ اس کی نظر سابق کامریڈ عامر پر پڑی جو شاندار گاڑی میں بیٹھا ہوا مخالف سمت سے چلا آرہا تھا۔

    عبد المنان کےپاؤں ڈگمگائے۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔ لیکن اس نے خود کو جیسے تیسے سنبھالا۔ بیڑی مزدور یونین کی سرگرمیوں کے پرانے دن اسے یاد آگئے جب دونوں کے دن فاقہ مستی میں گزرتے تھے۔۔۔ کچھ ہی دنوں قبل انہیں زمین دوز ہونے سے نجات ملی تھی۔۔۔ ان دنوں ڈھنگ سے دو وقت کھانے اور اخبار و رسائل پڑھنے کے لئے وہ ترس گئے تھے۔ کامریڈ عامر اس کا ہم قدم تھا۔۔۔ ان دنوں رات میں احتیاط کے مطابق مختلف پناہ گاہیں اختیار کرنا پڑی تھیں۔۔۔ زندگی عذاب بن گئی تھی۔۔۔ ہر پل خوف اور وسوسے میں گزر رہا تھا۔۔۔ کب کوئی گولی آئے اور ان کے وجود کا خاتمہ کردے۔ زندہ رہنے کی صورت میں کب وہ سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائیں۔

    ان اذیتوں کے باوجود ان کی آنکھوں میں ایک گہرا سپنا تھا جو ان کی تمام صعوبتوں اور زخموں کے لئے مرہم کی حیثیت رکھتا تھا۔ عجب نشہ تھا جو دنیا کے تضادات ختم کر کے ہر طرف سکھ شانتی اور خوشحالی لانے میں یقین رکھتا تھا۔

    وہ دونوں بیڑی مزدور یونین کی میٹنگیں ختم ہونے کے بعد اسی ڈھابے میں چائے پی رہے تھے۔عامر چائے کے گھونٹ حلق کے نیچے انڈیلتے ہوئے آسمان پر رنگ برنگ بادلوں کو گھور رہا تھا۔ آزاد نہ ہوا کے دوش پر ابر کے ٹکڑے تیزی سے اڑے جارہے تھے۔ عامر نے اچانک ڈھابے والے کی طرف مڑ کر دیکھا اور کچھ سوچتے اور روہانسا ہوتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’یار۔۔۔ اس غریب ڈھابے والے کی بھی اپنی ایک نجی زندگی ہے۔۔۔ اپنا چولہا ہے۔۔۔ چائے کی کیتلی ہے۔۔۔ پیالیاں اور طشتریاں ہیں۔۔۔ اپنی آمدنی ہے۔۔۔ جب من کرتا ہے دکان کھولتا ہے اور ہم لوگ۔۔۔ ہم لوگ تو بس ایندھن سے پیدا ہونے والا اجالا ہمارے مقدر میں نہیں۔۔۔‘‘

    عبد المنان اس کی یہ بات سن کر چونک اٹھا تھا۔۔۔ اس کے دل کو دھچکا لگا۔۔۔ اس کی ذہانت اوردور بینی نے آنے والے دنوں کی جھلک دیکھ لی تھی۔ اداس ہوکر بولا، ’’بھاری چٹان لڑھکتی ہےتو پستی میں جاکر ہی دم لیتی ہے۔۔۔ اپنا محاسبہ کرو۔۔۔ موہ مایا چھوڑو۔۔۔ تم لڑکھڑانے لگے ہو۔۔۔‘‘

    اس کا اندیشہ سچ نکلا تھا۔ عامر کے لئے فکر اور فلسفے کی چادر چھوٹی پڑنے لگی تھی۔ اس کے سوچ اور زندگی کے پاؤں اس چادر سے باہر جھانکنے لگے۔ بعد ازاں اس کے بزنس میگنیٹ بن جانے کے بعد بھی اس نے پرانے دنوں کی رفاقت فراموش نہیں کی تھی۔۔۔ ایک دن اس کی بغل میں گاڑی روک کر زبردستی اس نے اسے اپنی گاڑی میں بیٹھا لیا تھا۔

    ’’کب تک بھوکوں مروگے۔۔۔ ہول ٹائمری چھوڑو۔۔۔ اور میرے نئے کارخانے میں منیجر کا عہدہ سنبھالو۔۔۔ بہت ہوئی خدمت۔۔۔ اپنے آپ کو دیکھو۔۔۔ کیا اب تک کچھ کرپائے تم ۔۔۔ آسان نہیں ہے سب کچھ بھابی اور بچوں کی حالت دیکھتا ہوں تو کلیجہ منھ کو آتا ہے۔۔۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ اپنی طرح اسے بھی لڑھکی ہوئی چٹان سمجھا تھا۔۔۔ فاقہ مستی کا بھی اپناا یک سرور ہوتا ہے۔۔۔ اگر وہ ایک ذرا سی لچک پیدا کر کے زندگی جینے کا ہنر سیکھ لیتا تو آسائشوں کی کیا کمی تھی۔۔۔ عامر کی مدد کے بغیر اس سے بہت پہلے کوٹھی کار اور وہ سب کچھ حاصل کرلیتا جنہیں تعیش کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔۔۔ لیکن اس نے اپنا مستقبل قلاشوں کے مقدر سے وابستہ کردیا تھا۔ اگر ان کے لئے کچھ ہوسکا تو اس کے بال بچوں کی بھی گلو خلاصی ہوجائے گی۔۔۔ اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے چہرے پر نرمی پیدا کی۔۔۔ وہ سمجھتا تھا کہ عامر کی اس دوستانہ پیشکش میں اس کی تضحیک کا مقصد پوشیدہ نہ تھا بلکہ واقعی اس کے دل میں اس کی بیوی بچوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ کار فرما تھا۔

    لیکن جس طہارت اور ایمانداری کے ساتھ زندگی کا بیشتر حصہ وہ بنجر زمین میں ہریالی اگانے میں صرف کرچکا تھا۔۔۔ اس سفر میں جتنا آگے بڑھ چکا تھا، اس میں آگے ہی آگے بڑھنا تھا۔۔۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا کوئی سوال نہیں تھا۔۔۔ اس سفر میں اتنا آگے پہنچ کر پیچھے مڑکر دیکھنے والا بے جان مجسموں میں تبدیل ہوجاتا تھا۔

    زندگی کی ضرورتیں مختلف آوازیں اختیار کر کے اپنی طرف متوجہ کرتیں۔۔۔ پرکشش لہجے میں اپنی طرف بلاتیں۔۔۔ ذرا سی غفلت ہوئی۔۔۔ آگے بڑھنے والے نے پیچھے مڑکر دیکھا اور ۔۔۔ لیکن اس نے سفر کے پہلے ہی دن یہ نکتہ گرہ میں باندھ لیا تھا کہ خسارے کے اس صعوبتوں بھرے سفر میں مسلسل آگے بڑھتے چلے جانا تھا۔۔۔ سورج کی تمازت اور ہواؤں کے سرد و گرم جھیلتے ہوئے بھربھراتی ہوئی مٹی میں تبدیل ہوجانا تھا۔۔۔ تبھی تو مٹی زر خیز ہوگی۔۔۔ اور چہار طرف ہریالی اگے گی۔۔۔

    کیا وہ سچ مچ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے میں کامیاب ہورہا تھا اور اب آگے بڑھتے چلے جانے کی صورت میں مٹی مٹی ہوجانے کے مقدر سے ہم کنار ہونے والا تھا۔۔۔ لیکن سرخ اپارٹمنٹ کے مکیں۔۔۔ پرکشش آوازوں پر لبیک کہتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہی سب کے سب پتھروں میں تبدیل ہوگئے تھے۔

    عامر کی موٹر سے وہ اترا تو اس کا جی بھاری تھا۔۔۔ پرانی دوستی کے تقاضوں کو وہ سمجھتا تھا۔ حالانکہ اس کا دوست اس سفر میں اب اس کے دشمنوں کی قطار میں تھا۔ اس نے عامر کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس خلوص کے لئے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کرنے سے قبل اداس آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا، ’’برامت ماننا۔۔۔ جب کبھی اپنی ان سرگرمیوں سے اوب جاؤ۔۔۔ میری ضرورت محسوس ہو۔۔۔ مجھے یاد کرنا۔۔۔‘‘

    جب تک عامر کی کار آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئی، وہ ایک ٹک اس کی کار کو دیکھتا رہا تھا۔ اس روز تھکا ماندہ منان پا پیادہ گھرپہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی غیر موجودگی میں عامر گھر میں آیا تھا اور زبردستی اس نے بیوی کے ہاتھوں میں دس ہزار کا بنڈل رکھ دیا تھا۔۔۔ بیٹے کے علاج میں کوتاہی نہ کرنے کی تنبیہ کی تھی۔۔۔ اور عبد المنان کی گھریلو ذمہ داریوں کی طرف سے غفلت کی صورت میں خود کو چاق و چوبند رکھنے کی تاکید کی تھی۔

    اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔ آخر کو دوست ہے۔۔۔ روپے کو بکس کے کونے میں رکھتے ہوئے بیوی کو اسے ہاتھ لگانے سےاحتراز کرنے کی اس نے ہدایت کی اور جب کبھی وہ آئے، اسے واپس کرنے کی تلیقن کی۔۔۔ لیکن اس کے بعد مدتوں وہ نہیں آیا۔

    اس کی بیوی نے اسے آگاہ کئے بغیر مختلف گاڑھے وقتوں پر رقم خرچ کر ڈالی۔۔۔ اور اگلی بار وہ پھر آیا تو مزید دس ہزار روپے دے گیا۔ بیٹے کے علاج میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنے کی گزارش کی۔۔۔ عبد المنان کے سخت اصول کو جانتے ہوئے اسے اس رقم کے بارے میں بتانے سے منع کیا۔ بیوی نے اسے نہیں بتایا۔۔۔ اور آج۔۔۔ آج جب اس کی نظر عامر پر پڑی تو پہلا خیال اس کے دل میں یہی آیا کہ وہ اس سے کہے کہ وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے اور پتھر بننے پر آمادہ نہیں ہے۔۔۔ برائے مہربانی اپنی رقم واپس لے جائے۔۔۔

    لیکن اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا رہا تھا۔۔۔ سینے کا آزار اس کے چہرے کی شکنوں سے ظاہر ہورہا تھا۔۔۔ سارا خون آنکھوں کے راستے بہہ جانا چاہتا تھا۔۔۔ اسے یاد آیا کہ وہ جلوس کے ساتھ چل رہا ہے۔۔۔ اپنے آپ پر اس نے قابو حاصل کیا۔۔۔ اس کام کو کبھی اور پر اٹھا رکھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔

    اور جب عبد المنان لڑکھڑاتے قدموں سے سر جھکائے چل رہا تھا، اس کے سینے کے اندر سرخ اپارٹمنٹ میں خون کا دریا سر پٹک رہا تھا۔

    اس عمارت کے ٹوٹتے ہوئے زنگ آلودہ دروازوں پر اس کی بیوی اور بچے دعائیں مانگتے ہوئے سر بہ زانو تھے۔۔۔ بہت سہا ہے تو نے عبد المنان۔۔۔ اے نامراد۔۔۔ نہ معلوم یہ آواز اس کی بیوی کی تھی یا بیوہ ماں کی۔۔۔ جو اس یتیم بچے کو بچپن میں ہی ڈراؤنی دنیا میں دھکے کھانے کے لئے تنہا چھوڑ گئی تھی۔۔۔ کہیں اس کا پرانا دوست عامر۔۔۔ یا بہت دور جاتے ہوئے خود اس نے اپنے آپ کو ڈوبنے سے پہلے پکارا ہو۔

    پکارنے والے کی آ واز میں بلا کا درد و اضطراب تھا لیکن اس نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ بے جان پتھر کے مجسمے میں تبدیل ہونے کے لئے وہ کسی قیمت پر تیار نہ تھا۔۔۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں ، جسم پر لرزہ طاری تھا۔

    سرخ۔۔۔ نہیں مٹیالی عمارت۔۔۔ مٹی۔۔۔ صرف مٹی۔۔۔ خون کا متلاطم دریا بے قابو ہوگیا۔

    غڑپ ۔۔۔ غڑپ۔۔۔ مٹی نگلتے ہوئے دریا میں عجیب طغیانی تھی۔

    سڑک پر مخالف سمت سے آتے ہوئے جلوس کے قائد عبد المنان کو گرتے ہوئے دیکھ کر سابق کامریڈ عامر نے ڈرائیور سے کہہ کر اپنی گاڑی رکوالی۔

    احتجاجی جلوس تعزیتی جلسے میں تبدیل ہوچکا تھا۔

    کامریڈ منان کو لال سلام کے فلک شگاف نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔

    ان کی بے وقت موت نے سب کو ملول کر رکھا تھا۔

    عامر نے سرد آہ بھری۔

    اے نامراد۔۔۔ تو نے سرخ اپارٹمنٹ اور دل دونوں سے غچے کھائے۔

    مأخذ:

    گنبد کے کبوتر (Pg. 198)

    • مصنف: شوکت حیات
      • ناشر: شوکت حیات
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے