Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سید کی حویلی

شفیع مشہدی

سید کی حویلی

شفیع مشہدی

MORE BYشفیع مشہدی

    ’’بہو، اری او بہو‘‘۔ آواز تیز تھی۔

    ’’جی بیگم صاحب‘‘! آواز کمزور تھی۔

    ’’میں پوچھتی ہوں تمھاری بکریاں آنگن میں کیوں آئیں‘‘۔ آواز میں بے پناہ خفگی تھی۔

    ’’کیا کریں بیگم صاحب گلتی ہو گئی‘‘۔ آواز میں معذرت تھی۔

    ’’مگر غلطی ہوئی کیوں؟ دیکھو تمھاری بکریوں نے گل داؤدی کا کیا حشر کیا ہے۔ اتنی محنت سے میں نے پودے لگائے تھے۔ سب کتر گئیں کمبخت‘‘۔

    ’’کیا کریں بیگم صاحب جناور تو جناور ہی ہے نا‘‘۔ بہو نے معذرت کے انداز میں کہا۔

    بکریاں تو جانور ہیں مگر تم کیا ہو؟ تم تو جانور نہیں ہو، بکریوں کو باندھ کر کیوں نہیں رکھتیں‘‘؟

    ’’باندھتی ہوں بیگم صاحب۔ گلتی سے کھل گئیں‘‘۔

    ’’بکریاں نہیں سنبھال سکتیں تو کمرہ خالی کر دو۔ میں تمھاری بکریوں کے لیے گل داؤدی برباد نہیں کر سکتی‘‘۔ بیگم صاحب کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔بیگم صاحب اور بہو کی یہ نوک جھونک نئی نہیں تھی۔ ہفتے میں دو ایک بار ضرور بکریوں کو لے کر تنازعہ کھڑا ہوتا تھا اور اس کا اختتام عموماً ’’کمرہ خالی کر دو‘‘ پر ہوتا مگر بہو بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ اس دھمکی میں کوئی دم نہ تھا اور اس کا بہترین علاج خاموشی تھا اور واقعتا چند گھنٹوں بعد ہی بیگم صا حبہ بہو کو آواز دے کر رات کا بچا ہوا سالن، بچی ہوئی روٹیاں اور بچوں کے لیے، مٹھائیاں دیتی ہوئی بڑی محبت سے باتیں کرتی نظر آتی تھیں۔ دراصل ان کا مزاج ہی ایسا تھا، اوپر سے ناریل کی طرح سخت اور اندر میٹھا میٹھا پانی۔

    پرانی دہلی کے کوچہ چیلان اور تراہا بہرام خاں سے آتی سڑک کے تراہے پر کھڑی یہ پرانی حویلی سید کی حویلی کے نام سے جانی جاتی تھی جو بیگم صا حبہ اور بہو کی آوازوں سے بےحد مانوس تھی۔ ان آوازوں کو اس کی بوسیدہ دیواریں اس طرح جذب کر لیتی تھیں کہ باہر آواز تک نہیں جاتی تھی۔ اور جاتی بھی کیسے کہ وسیع راہداری کے باہر لکڑی کا بلند پھاٹک ہمیشہ بند رہتا تھا جس نے اندر کی بچی کھچی رونقوں کو باہر جانے سے روک رکھا تھا۔ پھاٹک میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا جس سے جھک کر اندر داخل ہونا پڑتا تھا۔ گویا ہر شخص یہیں سے بیگم صا حبہ کو کورنش بجانے کی شروعات کرتا تھا۔ جھکے ہوئے اندر داخل ہو کر سر اٹھائیے تو منظر عجیب تھا۔ دو رویہ کمروں میں بہو کا خاندان آباد تھا۔ یہ لوگ پیشے سے بھنگی تھے اس لیے کوڑے کا ٹوکرا، بکریاں، بچے بلکہ کبھی کبھی تو بیل بھی دکھائی دیتے تھے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کوڑے کے ٹوکرے اور بچوں میں زیادہ گندا کون تھا۔ تقریباً روز ہی بیگم صا حبہ اور بہو کے مکالمے گونجتے تھے مگر بہو نے کبھی بیگم صا حبہ کے آگے زبان نہیں کھولی تھی ورنہ دلّی کی بھنگن جسے عرفِ عام میں جمعدارن کے لقب سے مخاطب کیا جاتا ہے، اتنی تیز ہوتی ہے کہ کوئی کچھ بول دے تو لکھنؤ کی بھنگن کی طرح اتنا کہہ کر اکتفا نہیں کرتیں کہ ’’اتنی کمچیاں ماروں گی کہ چہرے پر سہرے اگ آئیں گے‘‘ بلکہ واقعتا سہرے اگا دیتی تھیں۔ مگر بیگم صا حبہ کی یہ اُمت دیگر امتوں سے زیادہ وفادار تھی۔

    راہداری سے گزر کر آگے بڑھیں تو حویلی کا دروازہ تھا جس پر حویلی جتنی ہی پرانی تختی لگی تھی جس پر ’’بیگم جے خوا جہ‘‘ لکھا تھا اور اسے وہی لوگ پڑھ سکتے تھے جنھیں معلوم تھا کہ بیگم صا حبہ یہیں رہتی تھیں۔ تختی پر لکھا ’’بیگم‘‘ تقریباً مٹ چکا تھا مگر ’’خوا جہ‘‘ کے آثار خاصے واضح تھے۔ ان کا نام جو بھی رہا ہو مگر سارا شہر اور اہل زبان بھی انھیں بیگم صاحب ہی کہتے تھے بلکہ ’’صاحب‘‘ بھی ’’بیگم صاب‘‘ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ حویلی کے اندر داخل ہوتے ہی بڑا سا آنگن دکھائی دیتا تھا جس میں خوشنما پھولوں کے گملوں کی قطاریں تھیں۔ آنگن کے تین جانب کمروں اور برآمدوں کا سلسلہ تھا۔ شمالی حصے میں برآمدے سے معلق ایک بڑا سا سہ درا تھا جسے خوبصورت ستونوں اور منقش محرابوں نے سنبھال رکھا تھا۔ بیگم صاحب بتاتی تھیں کہ یہ سید صاحب کی بیٹھک تھی جہاں وہ لوگوں سے ملتے تھے اور اس سے متصل کمروں میں ان کا آفس اور بیڈ روم تھا۔ یہی حصہ بیگم صاحب کا مسکن تھا۔ بقیہ حصوں میں لکھنؤ کے محمود صاحب، بدایوں کے ضیا صاحب مغربی یوپی کے رئیس اور رشیدصاحب اور بہار کے بدیع صاحب بحیثیت کرایہ دار مقیم تھے۔ اس حویلی کی آبادی انھیں دانشوروں، بیگم صاحب، جگدیش بھنگی کے خاندان، اس کی بکریوں اور مرغیوں پر مشتمل تھی۔ اچھا خاصہ چھوٹا موٹا ہندوستان تھا جو سیکولر ضرور تھا مگر جمہوریت نہیں تھی۔ بیگم صاحب اس ملک کی مطلق العنان حاکم تھیں اور ان کا ہر فیصلہ حرفِ آخر تھا جس کے آگے سارے مکین سر تسلیم خم کرتے تھے۔ بکریوں اور مرغیوں کو چھوڑ کر باقی سارے مکین بےحد سعادت مند تھے اور بیگم صاحب کے نیازمند تھے اس لیے ماحول بھی خوشگوار تھا۔ بیگم صاحب تنہا تھیں۔ ڈاکٹری پڑھتے پڑھتے خدا جانے کیا سانحہ ہوا کہ انھوں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی اور ساری زندگی مجرد رہ گئیں۔ ان کے سارے عزیز و اقارب سرحد پار کر چکے تھے مگر حویلی کے آنگن نے ان کے پاؤں تھام رکھے تھے۔ وہ واقعتا تنہا تھیں، ان کے خاندان کا کوئی فرد دلی میں نہیں تھا، اس لیے انھوں نے کرایہ داروں کو ہی اپنا خاندان بنا رکھا تھا اور خود اس کی سربراہ بن بیٹھی تھیں۔ نتیجہ یہ تھا کہ وہ ہر کسی کے معاملے میں دخیل تھیں۔ کس سے ملنے کون آیا، کھانا پکنے میں دیر کیوں ہوئی، برآمدے کا بلب دس بجے رات کے بعد جلتا کیوں رہ گیا، بچہ کیوں رویا وغیرہ وغیرہ۔ سویرے اٹھتے ہی وہ ہاتھ میں نوٹ بک لیے بجلی کا میٹر نوٹ کرتیں پھر اسے سارے کرایہ داروں میں منصفانہ انداز میں تقسیم کرتیں اور اکثر پکار کر کہتیں۔ ’’محمود صاحب! آپ کا ایک بلب ۲ بجے رات تک جل رہا تھا اس لیے ایک یونٹ زیادہ ہوا‘‘۔ اور لکھنوی تہذیب کے مرقع محمود صاحب ’’جی بیگم صاحب‘‘ سے زیادہ کچھ کہہ نہیں پاتے تھے۔ حالانکہ آواز میں مظلوم کے احتجاج کی دھمک ضرور ہوتی تھی۔ البتہ جب بیگم صاحب اپنی دوست طاہرہ بیگم کے یہاں گئی ہوتیں تو حویلی میں چہل پہل ہو جاتی تھی۔ بچے دوڑتے، کھلکھلاتے ہنستے اور محمود صاحب وغیرہ بھی آنگن میں مونڈھے ڈال کر آزادی سے خوش گپیاں کرتے اور قہقہے لگاتے جیسے ساری حویلی اُن ہی کی تھی۔ موضوع سخن زیادہ تر بیگم صاحب کی زیادتیاں ہوتیں اور محمود صاحب تو یہاں تک کہہ جاتے کہ بیگم صاحب کا خاندانی تعلق نادرشاہ سے رہا ہوگا۔ حالانکہ یہ الزام تھا۔ ان کا تعلق تو پرانی دلّی کے شرفاء سے تھا۔ مزاج میں سلطانیت ضرور تھی مگر شرافت میں کوئی کمی نہیں تھی۔

    ’’یار ان بیگم صاحب نے تو جینا دوبھر کر دیا ہے۔ کل شام کو میرے دوست موہن سنگھ آئے تھے۔ جانے لگے تو بیگم صاحب کے گملے سے ٹھوکر لگی اور بےچارے گرتے پڑتے بچے اور جانتے ہیں بیگم صاحب کیا فرماتی ہیں۔ ’’آپ کے دوست نشے میں تھے۔ کیسے کیسے لوگوں سے دوستی کر رکھی ہے آپ نے۔ میں فاخرہ بیگم سے کہوں گی‘‘۔ ’’یار جی تو چاہا کہ کھری کھری سناؤں کہ قصور تو راستے میں رکھے گملوں کا تھا اور آپ نے ایک شریف آدمی پر الزام لگا دیا مگر...‘‘۔

    ’’مگر کیا! آپ کو کہنا چاہیے تھا‘‘۔ رشید خاں صاحب نے پوری متانت سے کہا۔

    ’’آپ ڈر کیوں گئے؟ کہہ دینا چاہیے تھا‘‘۔ ضیا صاحب نے اپنی حسرتوں کا اظہار کیا۔ محمود صاحب کو غصہ آ گیا۔

    ’’میں کیوں ڈروں گا۔ قسم خدا کی ایک دن جنگ ہو جائےگی۔ آپ مجھے نہیں جانتے۔ میں نے اچھے اچھوں کی بولتی بند کر دی ہے۔ میں کوئی بدایوں کا للّا ہوں کیا‘‘۔ محمود صاحب نے ضیا صاحب کے وطن پر وار کیا تھا۔

    ’’نہیں بھائی آپ تو لکھنؤ کے بانکے ہیں مگر ذرا بانکپن دکھائیے تو ہم جانیں‘‘۔ ضیا صاحب کب چپ رہنے والے تھے۔ مگر سب لوگ جانتے تھے کہ بیگم صاحب کے آتے ہی منظر بدل جائےگا اور لوگ کمروں میں چلے جائیں گے۔ کس کی مجال تھی کہ بیگم صاحب کے سامنے منہ کھولتا۔

    بظاہر سخت گیر بیگم صاحب کے اندر بے حد دردمند دل تھا۔ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا اور اس کے درد کو اپنا درد بنا لینا ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ آزادی کے وقت جو فسادات ہوئے تھے اس کے ریلیف کیمپ میں مہینوں بغیر کھائے پےئے وہ لوگوں کی خدمت کرتی رہتی تھیں اور جن بزرگوں نے دیکھا تھا وہ آج بھی ان کے قدردان تھے۔ ویسے سارا محلہ ہی ان کا نیازمند تھا۔ جگدیش بھنگی سے لے کر ڈیرہ اسمٰعیل خاں سے آئے ہوئے رائے بہادر صاحب تک۔ سرحد پار سے لٹے لٹائے ریفیوجی بن کر آئے لوگوں سے محلہ آباد تھا۔ شرفا، محلہ چھوڑ کر جا چکے تھے اور ان کے مکانات کسٹوڈین نے انھیں الاٹ کر دئیے تھے۔ بس یہی ایک پرانی حویلی بچی تھی جسے بیگم صاحب کے والد نے سید احمد کے وارثوں سے خرید کر آباد کر رکھا تھا۔ راولپنڈی کے سردار جوگا سنگھ ہوں یا جھنگ کے کشمیری لال سہگل، کوہلی صاحب ہوں یا لکڑی کی ٹال والا نارائن، سبھی بیگم صاحب کو دیکھتے ہی کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ جوڑ دیتے اور بیگم صاحب ان سے ایسے خیریت پوچھتیں جیسے ان کا اپنا کنبہ ہو۔ ایک دن میں ان کے ساتھ حکیم مومن خاں کی گلی سے گذر رہا تھا تو سردار جواہر سنگھ مل گئے۔ وہ آگے بڑھے تو بیگم صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ تم ان کے گھر گئے ہو‘‘۔

    ’’جی ہاں! سردار جی بیمار تھے تو انھیں دیکھنے گیا تھا۔ سردارنی مجھے اندر لے گئیں جہاں ایک بڑے کمرے میں سردار جی لیٹے ہوئے تھے۔ سامنے منقش دیوار پربابا نانک کی تصویر لگی تھی جس پر پھول کے ہار تھے اور اس کے اوپر کمرے کے چاروں طرف قرآنی طغرے کے ٹائلس لگے ہوئے تھے۔ میں تو حیران تھا۔ سردار جی نے میری حیرت کو محسوس کیا۔ بولے:’’ جانتے ہو بیٹے یہ کس کا مکان تھا؟ یہ علامہ راشد الخیری کا مکان تھا۔ میں نے سب کچھ ویسے ہی رہنے دیا ہے۔ بڑی برکت والا مکان ہے۔ واہگورو کی کِرپا اور علامہ کی دعا بھی ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے سردار جواہر سنگھ کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ اسّی سال کے بوڑھے سردار کو شاید اپنا گاؤں یاد آ گیا تھا۔ نہ جانے اس کے مکان میں ٹنگے بابا نانک کی فوٹو کا کیا ہوا ہوگا۔ مگر اس نے اپنے زخموں پر قرآنی آیات کا مرہم لگا رکھا تھا۔

    حویلی میں رہنے والے تمام لوگوں کی گارجین بیگم صاحب تھیں۔ کوئی بیمار پڑے تو ڈاکٹر سِکّا کو بلا کر دکھانا، دوا لانا، پابندی سے کھلانا اور تیمارداری کرنا، بیگم صاحب کے خود اختیاری فرائض میں تھے۔ اس قدر شفقت اور محبت تھی کہ زبان کی سخت کلامی کو لوگ کڑوی دوا سمجھ کر پی جاتے تھے۔

    سید کی حویلی کافی پرانی ہو چکی تھی اور اس کا ایک حصہ جس میں ضیا صاحب رہتے تھے، خاصہ خستہ حال بھی تھا مگر پھر بھی اس کی ایک شان تھی۔ بھائی جان اور رشید صاحب کو میں نے حویلی کی داستان سناتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاریخی مکان ہے مگر بیگم صاحب کے بعد نہ جانے اس کا کیا حشر ہوگا۔ ایک دن بڑی حسرت سے بھائی جان نے محرابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’جانتے ہو محرابوں کے نیچے بیٹھ کر قوم کی قسمت پر فیصلے کیے گئے تھے اور وہ تاریخی اقدام ہوئے تھے جنھوں نے مسلمانوں کی تقدیر بدل دی تھی مگر...‘‘ اتنا کہہ کر وہ چپ ہو گئے اور تب میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ میں نے اتنا ضرور دیکھا تھا کہ شیروانی پہنے ہوئے کچھ لوگ کئی بار بیگم صاحب سے باتیں کرنے آئے تھے۔ اس حویلی کو سید کی یادگار بنانا چاہتے تھے۔ بیگم صاحب راضی بھی تھیں مگر پھر شیروانی والے لوگ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔ شاید ان کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔

    میں حویلی میں رہنے والوں میں تنہا طالب علم تھا اور سب سے چھوٹا بھی اس لیے بیگم صاحب کی خاص شفقت مجھ پر تھی۔ وہ مجھے بے حد مانتی تھیں۔ بھائی جان کو بھی وہ بیحد مانتی تھیں اور ہمیشہ انھیں کھانے کی ترغیب دیتیں۔ پھر نزلہ بھابھی پر اترتا۔ ’’بھئی دلہن تم میرے بھائی کا خیال نہیں رکھتی ہو۔ دیکھو کتنے دبلے ہو گئے ہیں‘‘۔ اور میں لقمہ دیتا۔ ’’بھابھی کب موٹی ہیں‘‘۔ تو وہ ہنسنے لگتیں۔ ’’میں کب کہہ رہی ہوں کہ وہ موٹی ہیں۔ خود بھی کھائیں اور میاں کو بھی کھلائیں‘‘۔ بیگم صاحب کی بے پناہ محبت و شفقت سے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پچھلے جنم میں یقیناً ان سے قریبی رشتہ رہا ہوگا۔ بلکہ محمود صاحب تو اکثر مجھ کو چھیڑتے بھی تھے۔ ’’میاں لگے رہو یہ حویلی تمھیں ہی ملے گی اور تو کوئی ہے نہیں‘‘۔ اور میں ہنس کر جواب دیتا، ’’آپ جو ہیں‘‘۔

    میاں! مجھے تو بیگم صاحب وہ بھنگی والا کمرہ بھی نہیں دیں گی۔ تمھاری چاندی ہے۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب ملازمت کے سلسلے میں مجھے دلّی چھوڑنی تھی تو سب سے زیادہ مغموم بیگم صاحب ہی تھیں۔ وہ بے چین تھیں۔ میرے جانے کے ایک دن پہلے وہ آبدیدہ ہو کر مجھ سے کہنے لگیں:

    ’’میاں تم چلے جاؤگے تو میں تنہا ہو جاؤں گی۔ جلد واپس آجانا۔ میں یہ حویلی تمھارے نام کر دوں گی‘‘۔ مجھے جھٹکا سا لگا۔

    ’’بیگم صاحب میں اگر واپس آ سکا تو آپ کی محبت کے لیے آؤں گا نہ کہ حویلی کے لیے‘‘۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔

    ’’نہیں نہیں۔ میرامطلب یہ نہیں تھا۔ میرا اپناکوئی بھی نہیں۔ لوگ گِدھ کی طرح میرے مرنے کے منتظر ہیں۔ ان کا بس چلے تو ابھی قبضہ کر لیں۔ تم تھے تو مجھے تقویت تھی مگر میں تمھیں روک بھی نہیں سکتی۔ تمھارے کیرئر کا سوال ہے۔ جاؤ مگر آ جانا۔ انھوں نے بڑی لجاجت سے کہا تھا اور آنسو کا ایک قطرہ ان کے جھری دار گالوں پر ٹھہر سا گیا تھا۔ میں بھی ان گدھوں کو جانتا تھا، جو منڈلا رہے تھے۔ چونکہ بیگم صاحب خود اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جہاں دیدہ تھیں اور دلی کے ممتاز لوگوں سے ان کے ذاتی مراسم بھی تھے اس لیے کسی کی ہمت نہ تھی کہ حویلی پر قبضہ کر لے مگر لوگ للچائی نظروں سے حویلی کو دیکھ ضرور رہے تھے۔

    ملازمت کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ برس دو برس پر میں بیگم صاحب سے ملا ضرور مگر ہر بار مجھے ا یسا محسوس ہوا کہ حویلی اور بیگم صاحب دونوں ہی کافی پرانی اور خستہ ہوتی جا رہی ہیں۔ بھائی جان، ضیا صاحب اور رئیس صاحب سب حویلی سے جا چکے تھے اور ان کی جگہ جو لوگ آئے تھے وہ مخلص نہیں نظر آتے تھے۔ تقریباً پانچ برسوں کے بعدمیں حویلی پہنچا تونقشہ بدلا ہوا تھا۔ آنگن میں چاروں طرف کباڑ پھیلا تھا اور کباڑیوں کی موٹی موٹی عورتیں آنگن میں گھوم رہی تھیں۔ کباڑیوں نے حویلی پر قبضہ کر لیا تھا۔ آنگن میں بڑے بڑے بکرے پیپل کے پتے چبا رہے تھے اور گل داؤدی کے گملے ٹوٹ چکے تھے۔ بیگم صاحب کی کل حویلی برآمدے میں پڑے اس تخت پر سمٹ آئی تھی جس پر نیم مردہ سی بیگم صاحب پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے قبضے میں اس تخت کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ وہ بیمار تھیں اور ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی تھیں۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ میری آنکھوں میں وہ منظر گھومنے لگا جہاں پیازی رنگ کا غرارہ پہنے بیگم صاحب حویلی پر راج کر رہی ہوتی تھیں اور گل داؤدی کے پھول سے آنگن بھرا ہوتا تھا۔ مگر اب تو آنگن میں بکرے پیپل کے پتے چبا رہے تھے اور موٹے موٹے اَدھ ننگے بچے شور مچا رہے تھے۔مجھے دیکھ کر بیگم صاحب کی آنکھیں نم ہو گئیں مگر وہ خاموش رہیں۔ آنسو تھمے تو پتہ چلا کہ ان کے ایک عزیز نے جو اُن کے وکیل تھے، دھوکا دے کر حویلی کباڑیوں کے نام لکھوا دی تھی اور کباڑیوں نے آدھی رات کو حویلی پر قبضہ کر لیا تھا۔ بیگم صاحب تنہا اور بیمار تھیں۔ حویلی کو اُجڑتے دیکھتی رہیں۔ حویلی کی جو تھوڑی سی قیمت ملی تھی وہ طاہرہ بیگم یہ کہہ کر لے گئیں کہ ’’اتنے روپے تم کہاں رکھو گی غائب ہو جائیں گے‘‘ اور واقعی وہ غائب بھی ہو گئے۔ مجھے سکتہ سا لگ گیا تھا۔ مجھے شدید گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب میں نے اجازت چاہی تو وہ بلک بلک کر رونے لگیں۔ میں بیگم صاحب کی یہ حالت دیکھ نہیں پا رہا تھا اور بھاگ جانا چاہتا تھا۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا: ’’میاں میں نہ کہتی تھی کہ تم مت جاؤ۔ یہ گدھ...‘‘۔ انھوں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور بڑی حسرت کے ساتھ آنگن میں شور مچاتے اَدھ ننگے بچوں اور پیپل کا پتہ چباتے موٹے موٹے بکروں کو دیکھتی رہیں... ایسا لگ رہا تھا جیسے پتوں کو نہیں بلکہ پوری حویلی کو چبا رہے تھے اور ساتھ میں بیگم صاحب کو بھی۔

    چند مہینوں بعد میں پھر بیگم صاحب سے ملنے آیا مگر گدھ کا انتظار ختم ہو چکا تھا۔ سید کی حویلی کباڑ خانے میں تبدیل ہو چکی تھی۔ سہ درے کے محراب مرثیہ خواں تھے کہ جس حویلی میں دوسروں کی قسمت سنوارنے کے فیصلے ہوئے تھے وہ خود اپنی تقدیر نہیں سنوار سکی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے