aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تین عورتیں

خواجہ احمد عباس

تین عورتیں

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو زندگی کی دشواریوں سے تنگ آکر خودکشی کرنے کے لیے نکل پڑتی ہے۔ وہ ریلوے لائن پر چلی جا رہی ہے اور اس کے پیچھے پیچھے دو عورتیں اسے سمجھا رہی ہیں، وہ ان کی ہر دلیل کو اپنے منطق سے کاٹ دیتی ہے اور آخر میں ٹرین کے نیچے آکر اپنی زندگی ختم کر لیتی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ مرنے والی ایک نہیں تین عورتیں تھیں۔

    تین عورتیں ایک ریلوے لائن کے کنارے چلی جا رہی تھیں۔ کس مقام پر؟ کس ریلوے لائن کے کنارے؟ ان کا مذہب کیا تھا؟ ان کی ذات کیا تھی؟ یہ سب تفصیل غیرضروری ہے۔

    تین عورتیں!

    ایک نوجوان سندری تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ اس کے سینہ میں ابھار، اس کی چال میں والہانہ پن۔

    ایک ماں تھی۔ اس کی گود میں ایک بچہ تھا۔ لال لال بوٹی سا سات دن کا بچہ۔ بار بار ماں اپنے لال کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھتی تھی اور اس کو بھینچ کر کلیجے سے لگا لیتی تھی، گویا کسی آنے والے خطرے سے بچا رہی ہے۔

    ایک بھکارن تھی۔ اس کی ساڑھی کا رنگ کسی زمانے میں سفید رہا ہوگا۔ اب مٹی اور پسینہ سے اتنی میلی ہوگئی تھی جیسے مدتوں کیچڑ میں پڑی رہی ہو۔ اس کی ساڑھی کسی زمانے میں ساڑھے پانچ گز کی ہوگی۔ اب تو پلو پھٹتے پھٹتے وہ مشکل سے تین گز رہ گئی تھی۔ اور تن ڈھانکنے کے لیے بھی کافی نہ تھی۔ اس کے بال گرد سے اَٹے ہوئے تھے اور نکیلے پتھروں نے اس کے پاؤں زخمی کر دیے تھے۔

    تین عورتیں ایک ریلوے لائن کے کنارے چلی جا رہی تھیں۔

    تین عورتیں!

    دور جہاں ریلوے لائن کی دونوں چمکتی ہوئی پٹڑیاں ایک لمبی لکیر بن کر آسمان میں گم ہو گئی تھیں۔ ایک چھوٹا سا کالا نقطہ نظر آیا۔ ہوا کے جھونکے کے ساتھ ریلوے انجن کی سیٹی کی دھیمی آواز آئی۔

    سیٹی کی آواز سنتے ہی بھکارن چوکنی ہو گئی۔ وحشت اور پریشانی کے بجائے اس کے چہرے پر ایک خوفناک ارادے کی جھلک نظر آئی۔ ایک سیکنڈ وہ ٹکٹکی لگائے سامنے آسمان کی طرف دیکھتی رہی۔ جہاں چھوٹا سا کالا نقطہ نظر آرہا تھا، پھر وہ جلدی سے ایک پٹڑی پھلانگ کر دونوں پٹڑیوں کے درمیان چلنے لگی۔

    نوجوان سندری اور بچے کی ماں اپنی ساتھن کے چہرے پر ایک خوفناک ارادے کی جھلک دیکھ کر پریشان ہو گئیں، جیسے ہی بھکارن چھلانگ مار کر پٹڑیوں کے درمیان آئی اس کے ساتھ ہی یہ دونوں بھی آ گئیں۔

    ’’آخر تیرا ارادہ کیا ہے؟‘‘ ماں نے بھکارن سے پوچھا۔ مگر اس کے لہجے سے معلوم ہوتا کہ یہ سوال غیرضروری ہے۔

    ’’تو خوب جانتی ہے۔‘‘ بھکارن نے لاپرواہی سے جواب دیا اور برابر سامنے آسمان کی طرف نظرجمائے دیکھتی رہی۔ اب وہ چھوٹا سا کالا نقطہ اتنا چھوٹا نہ رہا تھا۔

    ’’کیا پاگل ہوگئی ہے تو؟‘‘ نوجوان سندری نے ایسے لہجے میں کہا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ دفعتاً اس کو ایک بہت بڑے خطرے کا احساس ہوا ہے۔

    بھکارن بڑے بڑے قدم بڑھائے چلی جارہی تھی اور دوسری دونوں عورتوں کو اتنا تیز چلنا مشکل معلوم ہو رہا تھا مگر وہ بھی کسی نہ کسی طرح اس کا ساتھ دیے جا رہی تھیں۔

    ’’پاگل! اور میں؟‘‘ بھکارن قہقہہ مار کر اس بری طرح سے ہنسی کہ نوجوان سندری اور ماں دونوں ڈر گئیں۔ ’’پاگل میں ہوں یا تم جو اب تک زندگی سے انصاف کی آس لگائے بیٹھی ہوئی ہو؟ آخر ہمیں زندہ رہنے کی کوئی وجہ ہی کیا ہے؟ میں تو سمجھتی ہوں کہ اس زندگی سے موت ہزار درجہ بہتر ہوگی۔‘‘

    نوجوان سندری اتنی آسانی سے بازی ہارنے والی نہ تھی۔ ’’مگر سوچو تو میری جوانی کا تو خیال کرو۔ عورت عمر میں ایک بار ہی تو جوان ہوتی ہے۔ جب بھی زندگی کا لطف نہ اٹھایا تو۔۔۔‘‘

    ’’جوانی!‘‘ بھکارن نے حیرت سے بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’جوانی! وہی جوانی جس کی قیمت چار آنے ہے۔ وہی جوانی جس کو ایک خود غرض مرد نے اپنی میٹھی باتوں سے لوٹ کر تمہیں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا! وہی جوانی جس کو تم روز بازار میں بیچنے پر مجبور ہو! ہر پولیس کے سپاہی کے ہاتھ! ہر ریل کے بابو کے ہاتھ! ہر آوارہ شرابی کے ہاتھ جو چونی تمہارے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے! آخ تھو ہے ایسی جوانی پر۔‘‘

    اب ماں کی باری تھی۔ اس نے اپنے بچے کی طرف دیکھا اور گویا اس کا سہارا پاکر بھکارن سے بحث کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔ ’’مگر میرا بچہ۔ آخر اس غریب نے کیا قصور کیا ہے کہ اس کو موت کے حوالے کر دوں۔ اس کی خاطر تو مجھے زندہ رہنا ہی ہوگا۔ خواہ کتنی ہی مصیبت کیوں نہ جھیلنی پڑے۔‘‘ اور پھر بے اختیار بچے کو چھاتی سے لگاکر، ’’میرا بچہ!‘‘

    ’’میرا بچہ!‘‘ بھکارن کی آواز میں اس قدر طنز اور حقارت تھی کہ ماں بے زبان ہو گئی۔ ’’ارے یہ گوشت کا لوتھڑا جس کو تو گلے سے چمٹائے پھرتی ہے۔ یہ دنیا کی بے انصافی سماج کے ظلم کا جیتا جاگتا اشتہار۔ تیری تباہی اور بربادی کا ذمہ دار۔ آخر یہ بڑا ہوکر کیا کرےگا۔ لاٹ صاحب بنےگا یا لکھ پتی۔ اس ملک میں بھک منگوں کی کمی نہیں ہے! آخر کیوں نہ پھینک دیا اس کو اس کے باپ کے دروازے پر۔ پالتا وہ بزدل کمینہ اپنے گناہ کی یادگار کو۔‘‘

    ماں جلدی سے بولی، ’’نہیں۔ نہیں۔ ان کو کچھ مت کہو۔‘‘ اس ایک لفظ ’’ان‘‘ میں عجیب پریم، عجیب لگاوٹ کی چاشنی تھی اور اس کو زبان سے نکالتے وقت ماں کی نگاہ نویلی دلہن کی طرح شرم سے جھک گئی۔ ’’ان کو کچھ مت کہو۔ وہ اپنے ماں باپ کے خیال سے مجبور تھے۔‘‘

    بھکارن غصے کے مارے آپے سے باہر ہو گئی۔ چھوٹا سا کالا نقطہ اب کافی بڑا ہو گیا تھا اور ہر لمحہ قریب ہوتا جا رہا تھا۔ ریل کی گڑگڑاہٹ سے بھی بلند اس کی آواز سنائی دی۔ ’’ماں باپ کے خیال سے یا جائداد کے خیال سے! اور تمہارے ماں باپ کی مامتا کہاں گئی تھی۔ جب انہوں نے مہاوٹوں کی کالی رات میں تمہیں گھر سے نکال دیا اس ڈر سے کہ تمہاری حالت ظاہر ہونے پر سماج کیا کہےگی۔‘‘

    یہ کہہ کر بھکارن سامنے آنے والی ریل کی طرف بے تحاشا لپکی اور نوجوان سندری اور ماں دونوں اس کو روکنے کے لیے ساتھ دوڑیں۔

    ایک کالے دیو کی طرح ریل کا انجن پچاس میل کی رفتار سے چلا آ رہا تھا۔ ایک ڈراؤنی سیٹی کی آواز گونجی۔ مگر بھکارن ذرا نہ جھجکی۔

    انجن کے پہیے اس کی طرف لپک رہے تھے۔

    ریل کے ایک درجے میں دو بڑی توند والے بیوپاری لاکھوں کی لین دین کا سودا کر رہے تھے۔ ان کے سامنے شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں اور وہ گلاس پر گلاس چڑھا رہے تھے۔ نشہ میں دھت! اور دنیا کے دکھوں سے بے خبر۔ تیسرے درجے میں بھیڑ بکریوں کی طرح غریب اور کسان اور مزدور بھرے ہوئے تھے۔ ایک اندھا فقیر تنبورہ ہاتھ میں لیے ان کو بھجن سنا رہا تھا۔ یہ سب بھی نشہ میں دھت! اور خود اپنے دکھوں سے بے خبر! ایک پگلا کھڑکی کے قریب بیٹھا ہوا بڑبڑا رہا تھا، ’’رام رام ست ہے۔ دھت تیرے کی! رام رام ست ہے۔ دھت تیرے کی!‘‘

    انجن کی سیٹی خوفناک طریقے سے کئی بار گونجی۔ اس کی گونج میں خطرے کا اعلان تھا۔

    ’’رُک جاؤ۔ رک جاؤ۔‘‘ نوجوان سندری اور ماں نے آخری بار کوشش کرتے ہوئے بھکارن سے التجا کی۔

    میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر تمہیں جان پیاری ہے تو تم ہٹ جاؤ۔ اس نے ان کو جھڑک دیا۔

    ’’مگر تم جان دے دوگی تو ہم کب زندہ رہ سکتے ہیں؟‘‘ ان دونوں نے جواب دیا۔

    انجن کی بھیانک سیٹی ایک بار پھر گونجی۔ بالکل قریب۔

    نوجوان سندری بھاگتے بھاگتے بے دم ہو گئی تھی۔ مگر اس نے لپک کر بھکارن کا دامن پکڑ لیا اور اس کو خطرے کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ ماں نے ایک ہاتھ سے اپنے گود کے بچے کو سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے بھکارن کو ریل کی پٹڑی سے دھکا دے کر ہٹانا چاہا۔

    مگر ان کی کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ انجن اب اتنا قریب آ گیا تھا کہ بھکارن ڈرائیور کا وحشت زدہ چہرہ دیکھ سکتی تھی۔ اس نے پورا زور لگاکر نوجوان سندری اور بچے کی ماں سے اپنا دامن چھڑا لیا۔

    دفعتاً ریل کے ٹھیر جانے کے جھٹکے سے بیوپاریوں کانشہ ہرن ہو گیا۔ ان کی شراب کی بوتلیں اور گلاس جھن جھن کر کے فرش پر آ رہے۔ تیسرے درجے میں اندھے فقیر کے ہاتھ سے تنبورہ گر گیا۔ اور بھجن گانا بھول گیا۔ ایک لمحے کے لیے اِس جھٹکے نے غریبوں اور کسانوں او رمزدوروں کا نشہ اتار دیا۔ مسافر اپنے اپنے درجوں سے اتر آئے اور انجن کی طرف چلے۔

    ’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟‘‘

    ’’کوئی ریل کے نیچے آ گیا ہے۔‘‘

    ’’ارے یہ تو کوئی بھکارن ہے۔‘‘

    ’’مگر سندر اور نوجوان۔‘‘

    ’’اور بیچاری کا بچہ بھی تو مر گیا۔‘‘

    ’’کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ کون مر گیا۔‘‘

    ’’ایک عورت ریل کے نیچے آ گئی ہے۔‘‘

    پگلا جو اب تک خاموش کھڑا تھا چیخ کر بولا، ’’ارے پگلو۔ ایک عورت نہیں۔ تین عورتیں تین۔‘‘ اور پھر بڑبڑانے لگا۔ ’’رام رام ست ہے! دھت تیرے کی!‘‘

    مأخذ:

    ایک لڑکی اور دوسری کہانیاں (Pg. 106)

    • مصنف: خواجہ احمد عباس
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے