Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تھکے پاؤں

ذکیہ مشہدی

تھکے پاؤں

ذکیہ مشہدی

MORE BYذکیہ مشہدی

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے، جسکی شادی بوجوہ وقت سے نہیں ہو سکی اور اب اس کی شادی کی عمر نکل چکی ہے۔ اب کسی سماجی تقریب میں جاتے ہوئے اسے جھجک محسوس ہوتی ہے۔ شادیوں، پارٹیوں یا پھر ایسی ہی کسی تقریب میں شادی شدہ خواتین کی گفتگو اور دوسری گہما گہمی سے وہ اوب چکی ہے۔ اسی درمیان اس کی زندگی میں ایک ایسا شخص داخل ہوتا ہے، جس کی بیوی کی موت ہو چکی ہے اور وہ دو بیٹیوں کا باپ ہے۔ وہ شخص اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ پہلے تو وہ اسے ٹالتی رہتی ہے۔ ایک روز اپنی ایک سہیلی سے ملاقات کے بعد اس نے اس شخص کی شادی کی تجویز کو قبول کر لیا۔‘‘

    رتنا کو جانکی کٹیر ڈھونڈنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ تقریب کا گھر ویسے بھی دور سے پہچانا جاتا ہے۔ بڑی ہی سادہ لیکن قیمتی آرائش تھی۔ اس نے دل ہی دل میں میناکشی کے گھر والوں کے ذوق کی داد دی۔ گیٹ پراستقبال کرنے والوں کا ہجوم بھی اتنا ہی تھا جتنا مہمانوں کا۔ لیکن وہ صرف میناکشی کی بڑی بہن کو پہچانتی تھی جو ایک مرتبہ کالج کے کسی فنکشن میں آئی تھیں۔ رتنا کو دیکھ کر وہ آگے بڑھیں اور بڑے خلوص سے اس کو اندر لے گئیں۔ سہیلیوں میں گھری میناکشی نے دور سے نعرہ لگایا ، ’’ہلو مس! آپ گئیں۔ سوویری سوئیٹ آف یو۔‘‘ اس کے چہرے پر حقیقی خوشی کی جھلک نظر آئی۔ میناکشی کی بہن اسے وہاں چھوڑ کر مڑ رہی تھیں کہ اس نےانہیں مخاطب کیا:’’نیلو دیدی آپ مس کو لےجاکر دوچار لوگوں سے انٹروڈیوس کرادیجیے ورنہ یہاں ہم لوگوں کے بیچ میں تو یہ بور ہی ہوجائیں گی۔‘‘ اور وہ اپنی ایک سہیلی کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ننھے سے آئینے میں دیکھ کر اپنا ٹیکہ درست کرنے لگی۔

    برات اپنی جگہ سے میناکشی کے گھر کے لیے روانہ ہوچکی تھی اس لیے اس کا سنگار تقریبا مکمل تھا بس فائنل ٹیچز دیے جارہے تھے۔ اس کی ہم عمر لڑکیوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔ خوش رنگ قیمتی کپڑے پہنے وہ اس کےگرد تتلیوں کی طرح تھرک رہی تھیں۔ باہر لان او رگیٹ کو چھوڑ کر باقی ساری جگہوں کی روشنیاں پوشیدہ تھیں۔ روشنی کا سرچشمہ نظر نہیں آرہاتھا لیکن بڑی راحت انگیز روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ روشنی کے کسی ایسے ہی پوشیدہ ذریعے نے میناکشی کا چہرہ بھی روشن کر رکھا تھا۔ رتنا نے ٹھنڈی سانس لی۔ ٹھیک تو ہے۔ وہ اپنے سے تقریباً پندرہ بیس برس چھوٹی ان لڑکیوں کے درمیان رہ کر نہ صرف خود بور ہوگی بلکہ انہیں بھی بور کرے گی۔ اس نے اپنے ساتھ لایا ہوا تحفہ میناکشی کے ہاتھ پر رکھا اور اپنی میزبان کے پیچھے ہولی۔ وہ اسے لے کر لان پر آگئیں جہاں قناطیں لگاکر مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیاگیا تھا اور دولہا کے لیے خوب اونچا پھولوں بھرا پلیٹ فارم اور منڈپ بنے ہوئے تھے۔

    ’’معاف کیجیے گا مس کشور میں ذرا جلدی میں ہوں۔‘‘ انہوں نے تیزی کےساتھ دوچار نام دوہرائے یہ ہیں مسز کھنہ، یہ مسز ماتھر، یہ مسز درانی، یہ مسز جھا۔۔۔ اور یہ رہیں مینا کی سب سے فیورٹ ٹیچر مس کشور۔۔۔ وہ تعارف کچھ ادھورا سا چھوڑ کر آگے بڑھ گئیں۔ مہمانوں کا تانتا تھا کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

    ’’تو مسز کشور، آپ میناکشی کے کالج میں کون سا سبجکٹ پڑھاتی ہیں؟‘‘ زیوروں سے لدی ایک قدرے حسین خاتون نے سوال کیا۔

    ’’پولیٹیکل سائنس۔ اور معاف کیجیے گا میں مس کشور ہوں۔ مس رتنا کشور۔‘‘اس نےہولے سے کہا۔۔۔ دوسری تینوں خواتین جو اس جھرمٹ میں تھیں ، لمحے بھر کو اس کی طرف نگاہ اٹھائی۔ شادی شدہ عورتوں کی آنکھوں کے اس لمحاتی، بے حد لمحاتی مگر برچھی کی طرح چبھ جانے والے ردعمل کی وہ عادی ہوچکی تھی لیکن پھر بھی کبھی کبھار وہ اس کو ذرا سا ہلادیتا تھا۔ اس وقت بھی وہ سٹپٹاکر ادھرادھر دیکھنے لگی۔ رتنا کے آجانے سے باتوں کاجو سلسلہ ٹوٹا تھا، اس کا سرا انھوں نے پھر پکڑا۔

    ’’مسٹر کھنہ باہر گئے ہوئے ہیں، ورنہ وہ ضرور آتے۔ آفییشل ٹرپ تھا۔ ملتوی کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔‘‘

    ’’چچ چچ۔‘‘دوسری خاتون بولیں۔ ’’تو یہ روپ سنگھار آج بیکار ہی گیا۔ آج تو آپ دلہن سے ٹکر لے رہی ہیں۔‘‘ اور انہوں نے بڑا پھوہڑ ساقہقہہ لگایا۔

    ’’ہاں میرا بنٹی بھی کہہ رہا تھا کہ کھنہ آنٹی آج بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ بائی دی وے، آج بنٹی کو حرارت تھی مگر زبردستی کرکے ساتھ آگیا۔ بارہ برس کا ہوگیا مگر اس قدر شریر ہے۔۔۔‘‘

    رتنا نے ذرا چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ بات کرنے والی خاتون کی عمر اس سے کافی کم نظر آرہی تھی، مگر وہ اپنے بارہ برس کے بیٹے کا ذکر کر رہی تھیں۔ ٹھیک تو ہے اگر اگلے سال میناکشی کے یہاں بیٹا ہوجائے تو بارہ برس بعد میناکشی صرف اکتیس بتیس برس کی ہوگی جب کہ وہ خود اب اڑتیس کی پوری ہوچکی ہے۔ اگر اس کی اپنی شادی وقت سے ہوئی ہوتی تو۔۔۔ اسے یوں گم صم دیکھ کر ایک خاتون نے درمیان سے شوہر اور بچوں کی بات کاٹ دی اور جیسے ترس کھاکر اسے بھی گفتگو میں شریک کرنا چاہا۔

    ’’تو میناکشی نے پولیٹکل سائنس لیا تھا۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔‘‘ سوال بڑا بے تکا اور غیراہم تھا اور قطعی آؤٹ آف کانٹٹیکسٹ۔

    ’’جی ہاں!‘‘اس نے مختصر سا جواب دیا اور ازراہِ اخلاق گفتگو جاری رکھنے کے لیے ان کے جڑاؤ نیکلس کی تعریف کردی۔۔۔ وہ کھل اٹھیں۔ ’’یہ میرے شوہر بمبئی سے لائے تھے۔ ان کا ہیڈ آفس بمبئی میں ہی ہے۔ جب جاتے ہیں میرے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لےآتے ہیں۔‘‘

    رتنا کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب اس کے جواب میں کیا کہے۔ باقی تینوں خواتین زیورات پر گفتگو کرنے لگیں جو ان کے شوہروں کو پسند تھے یا ناپسند۔ مسٹر کھنہ کو بھاری زیورات ناپسند تھے، ماتھر صاحب کو پسند۔ مسٹر درانی بیوی کے لیے زیورات کا انتخاب خود کرتے تھے جب کہ مسٹر جھا نےیہ معاملہ مکمل طور پر مسزجھا پر چھوڑ رکھا تھا، ویسے ان کا کہنا تو تھا کہ مسز جھا کو زیوروں کی قطعی ضرورت نہیں ہے، وہ ویسے ہی حسین لگتی ہیں۔ رتنا احمقوں کی طرح کھڑی سب سن رہی تھی۔ کتنی یکساں ہوتی ہیں یہ عورتیں۔ چہرے اس کے لیے اجنبی تھے لیکن باتیں اجنبی نہیں تھیں۔ یہ باتیں وہ ہرجگہ سنتی آئی تھی۔ اسٹاف روم میں، گھر پر، شادی، بیاہ، منگنی، سالگرہ، ہرتقریب میں عورتیں بس یہی باتیں کرتی نظر آتی تھیں۔ میرا گھر، میرے بچے، اچار کی ترکیبیں، مٹھائیوں کے نسخے، شوہر کی محبت یا بے اعتنائی۔

    اچانک مسز درانی کو رتنا کا خیال آگیا اورانہوں نے گفتگو کا دھارا اس کی طرف موڑ دیا، ’’توآپ میناکشی سےملیں؟‘‘ وقفے وقفے سے یہ خواتین اپنے انتہائی مہذب ہونے کا ثبوت دیتی ہیں اور اپنی دنیا سے باہر نکل کر اپنی دانست میں ایسے سوالات کرلیتی ہیں جو اس کی دلچسپی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ وہ شادی شدہ عورتوں کی ان مہربانیوں کی بھی عادی ہوچکی تھی۔

    ’’جی ہاں مل لی۔‘‘اس نے اکتایا ہوا سا جواب دیا اور گردن اونچی کرکے گیٹ کی طرف دیکھنےلگی جہاں اچانک برات کے آنے کا غلغلہ بلند ہوا تھااور دلہن کو جے مالا کے لیے باہر لایاجارہا تھا۔ رسم ختم ہوئی تو وہ خواتین جانے کدھر کھوچکی تھیں۔ میناکشی کو دولہا کے ساتھ بٹھادیا گیا تھا۔ رتنا کھوئی کھوئی سی کھڑی تھی۔ اتھاہ سمندر کے درمیان ایک تنہا بوند۔

    شادیوں میں جانا اسے سخت ناپسند تھا۔ وہ ان میں شرکت کرتے کرتے اکتا چکی تھی۔ پہلےاس نے ہم عمر سہیلیوں کی شادیوں میں شرکت کی۔ پھر اس نے ان لڑکیوں کی شادیوں میں شرکت کی جو اس سے چھوٹی تھیں اور اب ان کی باری تھی جو اس کے سامنے پیدا ہوئی تھیں۔ مثلاً اس کے وطن میں اس کی پڑوسی سیتا چاچی کی چھوٹی بیٹی روپا۔ بابا کے پرانے دوست ریاست حسین ایڈووکیٹ کی بیٹی زرینہ اور چھوٹے ماماکی بیٹی ودیا۔ ان سب کی پیدائش اسے اچھی طرح یاد تھی۔ روپا کی پیدائش میں سیتا چاچی مرتے مرتے بچی تھیں۔ زرینہ پیدا ہوئی تو بڑی کالی سی تھی جس پر ریاست چچا نے کہا تھا، ’’ایک تو بیٹی اس پر کالی۔‘‘ (لو جی! ان کی کالی کلوٹی بھی نمٹ گئی) رہی ودیا تو دائی نے نہلا دھلاکر اسے سب سے پہلے رتنا کی گود میں ہی دیا تھا۔ مامی ڈلیوری کے لیے اسی کے یہاں آئی ہوئی تھیں۔

    اب کسی شادی میں شریک ہونے کو اس کا جی نہیں چاہتا تھا۔ کم سن لڑکیاں اس کی ساتھی نہیں تھیں (وہ رتنا کہیں کھو گئی تھی جو ان کا ساتھ دے سکتی تھی۔ چنچل، خوش و خرم، بات بے بات قہقہہ لگانے والی، دانتوں تلے انگلی دباکر فلمی ہیروؤں کا ذکر کرنے والی، کسی بھی عام لڑکی جیسی رتنا)۔ اور شادی شدہ عورتوں میں وہ مدفاضل بن جاتی تھی مگر میناکشی اس کو بہت عزیز تھی اس لیے وہ جی کڑاکرکے اس کی شادی میں آگئی تھی اور اب کرب کے ان لمحات سے گزر رہی تھی جو ہر محفل ہر ہنگامے میں اس کا مقدر بن جاتے تھے۔

    کالج میں بھی یہی حال تھا۔ اسٹاف میں ویسے تو کئی کنواریاں تھیں لیکن ایک کو چھوڑ کر باقی سب بہت کم عمر تھیں۔ کسی کی منگنی ہوچکی تھی، کسی کا ’’اسٹیڈی‘‘ بوائے فرینڈ موجود تھا اور جس کا یہ سب نہیں تھا اس کی کم از کم امیدیں برقرار تھیں۔ اس لیے کہ خواب دیکھنے کی عمر ابھی باقی تھی۔ رہیں مس اسٹیفن تو وہ بہت بوڑھی تھیں اور اب تمام پچھتاؤں اور احساسات سے اوپر اٹھ چکی تھیں ۔ ان کی پھیکی آنکھوں میں گہری بے نیازی کا تاثر تھا۔ صرف وہ تھی جو ترشنکو کی طرح نہ آکاش میں تھی نہ دھرتی پر۔ بس بیچ میں لٹک رہی تھی۔ شادی شدہ لکچررز، کنواری لڑکیوں کو چھیڑتیں۔ پہلے اسے بھی چھیڑا جاتا تھا لیکن اب کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ چھیڑنے سے کب گدگدی ہوتی ہے اور کب تکلیف، یہ ان جہاں دیدہ عورتوں کو معلوم تھا۔

    مہمانوں کو ڈنر کے لیے کہا جارہا تھا۔ میناکشی کی بہن اسے ڈھونڈتی ہوئی آئیں اور اسی ٹیبل پر بیٹھا گئیں جہاں دولہا دلہن بیٹھے تھے۔ ابھی پھیرے نہیں ہوئے تھے۔ دولہا بڑا ہنس مکھ، گورا چٹا سا نوجوان تھا۔ میناکشی کی طرف بڑی میٹھی نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ اس کے لیے کھانا نکال رہا تھا۔ میناکشی کانٹے میں تلی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا پھنسا کر بڑی نفاست سے کتررہی تھی اور کنکھیوں سے دولہا کو دیکھتی جارہی تھی۔ رتنا کودھکا سا لگا۔ وہ میناکشی کی بے نیازی کی عادی نہیں تھی۔ مگر یہ بالکل فطری ہے۔ اس نےدل کو سمجھایا۔ اگر وہ اس وقت مجھ کو توجہ دے تو یہ بڑی غیرفطری بات ہوگی۔ قطعی ابنارمل اور میناکشی کے اور اس کے تعلقات میں ابنارملٹی کا کہیں شائبہ بھی نہ تھا۔ وہ ایک ذہین اور محنتی طالبہ تھی اور رتنا ایک ذہین، محنتی اور مخلص ٹیچر۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے بے حد قریب تھیں۔

    خاموشی سےکھانا ختم کرکے رتنا اٹھنے لگی۔

    ’’بس کھا چکیں آپ؟ یہ مٹر پلاؤ اور لیجیے گرم گرم۔‘‘میناکشی نے یکایک چونک کر بڑا رسمی سا جملہ کہا، تو اس نے بھی چند لمحے اس کے لیے وقف کیے۔ آخر وہ اس کی چہیتی ٹیچر جو تھی۔ رتنا کو ایسا لگا کہ اب میناکشی کا رویہ بھی ان مہربان شادی شدہ عورتوں جیسا ہوگیا ہے جو اپنی گفتگو میں اس کے لیے زبردستی جگہ بناتی ہیں تاکہ وہ اجنبی نہ بنی رہے۔ وہ کھڑی ہوگئی۔

    ’’نہیں مینا۔‘‘اس کا لہجہ خاصہ خشک تھا۔ ’’اب میں چلوں گی۔ گاڈ بلیس یو ٹو۔‘‘ دولہا کی طرف ایک روکھی سی مشفقانہ مسکراہٹ پھینک کر وہ آگے بڑھ گئی۔ میناکشی کو یہ سوچنے کی فرصت نہیں تھی کہ اس وقت رتنا نے پہلی مرتبہ اس سے اتنی بے رخی سے بات کی ہے۔ وہ پھر اس جادو میں گم ہوگئی جو کسی نوجوان کی بھرپور توجہ ملنے پر ایک لڑکی کے سرپر چڑھ کر بولتا ہے۔

    ہوسٹل آکر رتنا نے کمرے کی لائٹ آن کی۔ کپڑے بدلے اور بستر میں گھس گئی۔ ہلکی سی خنکی شروع ہوچکی تھی۔ اس نے پائنتی پڑی دلائی سرہانے کھینچ لی اور سائڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے خطوط کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ کئی روز کی چھٹیوں کے بعد ڈاک آئی تھی اس لیے اکٹھے چار خط تھے جو چپراسی عین اس وقت دے گیا تھا جب وہ میناکشی کے یہاں جانے کو تیار ہورہی تھی۔

    پہلا خط اماں کا تھا۔ وہی پرانا مضمون۔ بابوجی کی بیماری۔ بھیا کی گھٹتی آمدنی اور بڑھتے خرچ۔ ان کی اپنی گٹھیا کی شکایت۔ نئی خبر صرف یہ تھی کہ بھیا کے یہاں پھر بیٹی ہوئی تھی۔ یہ ان کی تیسری بیٹی تھی اور بھیا بابوجی کی طرح ہی تھے۔ قانع، کاہل، بغیر کسی جدوجہد کے حالات کے دھارے پر پہنے والے۔ اس نے خط تپائی پر رکھ دیا۔ دوسرا خط انشورنس کمپنی کی طرف سے تھا اور تیسرا صوفیہ کا تھا۔ صوفیہ اس کی رازدار سہیلی تھی اور پابندی سے خط لکھا کرتی تھی۔ وہ واحد ہستی تھی جس کے ساتھ بیٹھ کر اسے مکمل رفاقت کا احساس ہوتا تھا۔ دونوں میں طالب علمی کے زمانے سے ہی اس قدر دوستی تھی کہ ایک مرتبہ پرنسپل چڑیل نے کہا تھا کہ بڑھتی عمر کی دو کنواریوں کے درمیان اس قدر دوستی مناسب نہیں ہے۔ ’’اس کے دماغ میں سوا گندگی کے کچھ نہیں، نفسیات پڑھ رکھی ہے نا۔‘‘ صوفیہ نے دانت کچکچاکر کہا تھا۔

    صوفیہ کو سروس بھی رتنا کے ہی کالج میں ملی تھی لیکن پھر اسے بمبئی کے کسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے بڑا اچھا آفر ملا تھا او روہ وہاں چلی گئی تھی۔ وہ بھی مڈل کلاس فیملی لڑکی تھی اور پیسہ اس کے لیے اہم تھا۔ اس کے جانے کے بعد رتنا کو شدید تنہائی کا احساس ہوتا تھا۔ وہ تھی تو پتھر جیسے بھاری وقت میں کچھ روزن بن جاتے تھے۔ شام کو کسی ریستوران میں چائے پی لی۔ ساتھ ساتھ شاپنگ کرلی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ دل کی بھڑاس نکل جاتی تھی۔ دونوں ساتھ بیٹھتیں تو نہ جانے کس کس کے قصے نکلتے۔ موٹی مسز واڈیا کے جوہر وقت جمشید، جمشید، کرتی رہتی تھیں جیسے جمشید شوہر نہ ہو چھوٹا بھائی ہو۔ مسز خان کے قصے جو تھیں تو چھپکلی جیسی مگر خود کو مس انڈیا سمجھنے پرمصر تھیں۔ مس اندرا ٹکو کے قصے جو ابھی نئی نئی پرائمری سیکشن میں آئی تھی اور بڑے دھڑلے سے ایک مہاراشٹرین لڑکے سے رومانس لڑا رہی تھیں۔

    ’’آج کل کی لڑکیوں کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے۔‘‘رتنا کہتی۔ ’’میں ایسا کرتی تو بابوجی اپنا وزنی جوتا اتارکر اتنی مرمت کرتے کہ عشق کا بھوت میرے سرسے ہی نہیں شاید پورے قصبے سے بھاگ نکلتا۔‘‘ مگر کئی بار رتنا نے رات میں خواب دیکھا تھا کہ وہ خود کمسن، گوری، نازک اندرا ہے اور وہ مہاراشٹرین لڑکا اس کے آگے پیچھے گھوم رہا ہے۔ کئی بار رتنا نے یہ بھی سوچا کہ اگر بابوجی کم عمری میں اس قدر پابندیاں نہ لگاتے تو وہ شاید آج ایسی بدطنیت اولڈ میڈ نہ بن گئی ہوتی۔ صوفیہ کا معاملہ کچھ دوسرا تھا۔ اس کی شادی جس لڑکے سے بچپن میں طے تھی وہ صوفیہ کی بدقسمتی سے پڑھنے میں بہت اچھا نکلا۔ آئی، پی، ایس میں منتخب ہوگیا اور یوں پھر سے اڑا کہ صوفیہ اور اس کے والدین کو حیرت کرنے کی بھی مہلت نہ ملی۔ یہ پورے مڈل کلاس کی بدقسمتی ہے کہ جہاں کوئی لڑکا اچھا نکلتا ہے اَپر کلاس والے اس کو بھاری قیمت لگاکر اچک لیتے ہیں۔ اب آپ منہ تاکتے رہیے۔

    چچا ریاست حسین جیسے جوڑ توڑ والے انسان تو کم ہی ہوتے ہیں۔ زرینہ اٹھارہ کی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ انہوں نے اسے بیاہ دیا۔ رتنا نے کہا، ’’کیوں چچا بی۔ اےتو کرنے دیتے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا تھا ’’بیٹا ایک الو پھنس گیا ہے۔ کھاتا پیتا، پلا ہوا، پھر ملے نہ ملے۔ اور ملے تو ہوسکتا ہے یہ زرینہ ہی انکار کردے۔ پڑھ لکھ کر بیٹا کالی کلوٹیوں کے دماغ بھی ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ اور اب شادی اور پھر بچے کے بعد اسی کلوٹی زرینہ پرکیسا روپ چڑھا تھا۔ چچا واقعی گرگِ باراں دیدہ تھے۔

    ’’پوجا کی چھٹیوں میں گھر جارہی ہوں۔ ایک زمانہ ہوا گھر گئے۔ پھر تم سے ملنے کو بھی بڑا جی چاہتا ہے۔ اگر تمہارا کوئی پروگرام نہ ہو تو تم بھی آجاؤ۔‘‘ صوفیہ نے لکھا تھا۔

    ’’پروگرام‘‘ یہ لفظ رتنا کے لیے اپنے معنی کھو چکا تھا۔ یہاں تو وہی حال تھا کہ نہ ساون ہرے نہ بھادوں سوکھے۔ سال میں اکا دکا پکچر دیکھ لی۔ کوئی اچھا سا ناول پڑھ لیا۔ بھیا کی بچیوں کے لیے کسی نئے ڈیزائن کا سوئٹر تیار کردیا۔ پھر اللہ اللہ خیرصلا۔ ٹھیک ہے صوفیہ بیگم آجاؤں گی گھر تمہاری خاطر۔ اس نے زیر لب کہا اور چوتھا خط اٹھایا۔ اٹھایا۔ پھر رکھا۔ پھر اٹھایا۔ اسے چھوتے ہوئے رتنا کو کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر بچھو بند ہوں یا پھر وہ پنڈورا کا بکس ہو جس کے کھلتے ہی آفتیں نازل ہوجائیں گی۔ وہ جانتی تھی کہ اس خط کے اندر کیا ہے۔ وہ چند منٹ آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی۔

    خط مانک چند کا تھا۔ مانک سے اس کی ملاقات کوئی دوبرس پہلے کسی کی معرفت ایک تقریب میں ہوئی تھی اور تب سے وہ اس کے پیچھے پڑگیا تھا۔ وہ ادھیڑ عمر کا رنڈوا تھا۔ دوجوان لڑکیاں تھیں۔ دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ رتنا کو نہ اس کی ادھیڑ عمر پر اعتراض تھا نہ گنجے پن پر اور نہ دوجوان لڑکیوں کا باپ ہونے پر۔ اب اس عمر میں کنوارا اچھوتا پری زادہ تو ملنے سے رہا۔ مگر رتنا ہتھے سے اس لیے اکھڑ گئی تھی کہ مانک اس سے خفیہ شادی کرنا چاہتا تھا اور اس کی دوسری شرط یہ تھی کہ ان کے یہاں بچے نہیں ہوں گے۔ ’’لوگ کیا کہیں گے۔ لڑکیاں بڑی ہوگئی ہیں۔‘‘ ایک مرتبہ اس نے بڑی کھسیانی صورت بناکر کہا تھا۔ ان کے رشتے بھی آرہے ہیں۔ سال دوبرس میں دونوں کو ساتھ ہی بیاہ دوں گا۔ پھر اب باقاعدہ بیوی کا جھنجھٹ کی عادت بھی نہیں رہی۔‘‘ وہ اور زیادہ چغد نظر آنے لگا تھا۔ ’’تم کان پور میں رہنا نوکری کی ضرورت نہیں ہے۔ گزارہ پورا دوں گا۔‘‘

    رتنا سرخ ہوکر اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔ ’’آج سے آپ یہاں دکھائی نہ دیں۔‘‘ اس نےمضبوطی سے کہا تھا تب سے مانک دکھائی تو نہیں دیا تھا مگر خط ضرور لکھتا رہتا تھا۔ ہر مرتبہ اس کے خط میں ایک نیا جھانسہ ہوتا تھا۔ ’’ہنی مون کے بہانے پورا ہندوستان گھمالاؤں گا۔ کان پور والا مکان تمہارے نام کردوں گا۔ کسی کو کانوں کان پتہ بھی نہیں لگے گا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ رتنا سوکھی لکڑی کی طرح جل اٹھی۔ پہلے تو اتنی شرطیں لگاتا ہے گنجا جیسےمیں اس سے شادی کرنے کو مری جارہی ہوں پھر جھانسے دیتا ہے۔ کبھی کبھی اسے مانک کا خط دیکھ کر رونا آجاتا۔ اتنی بڑی دھرتی، اتنے سارے بھانت بھانت کے لوگ۔ ان میں سے بھگوان نے یہی الو اتارا تھا اس کے نام پر۔ تیسرے خط کے بعد سے اس نے اس کے خط بغیر پڑھے پھاڑنے شروع کردیے تھے مگر آج نہ جانے کیوں من گھونسلے سے بھٹکے ہوئے پنچھی جیسا ہو رہا تھا۔ شاید میناکشی کے رویے نے کہیں خراش ڈالی تھی۔

    جی کڑاکرکے اس نےخط کھول لیا۔ ’’یہ میرا آخری خط ہے۔ اس کا جواب پندرہ دن کے اندر مل جانا چاہیے۔ ورنہ میں کوئی دوسرا ٹھکانا ڈھونڈنا شروع کردوں گا۔ دنیا میں عورتوں کی کمی نہیں ہے۔ دو ہفتے میں فیصلہ کرلو۔ پھر چاہے خط لکھ دینا چاہے فون کردینا۔ ایک بار پھر دوہرا دوں کہ کان پور کا مکان۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    رتنا کو جیسے دھکا سا لگا۔ اسے مانک سے اس مضبوط لہجے کی توقع نہیں تھی۔ شاید مانک کے خطوط اس کو چڑانے کے ساتھ ساتھ کہیں اندر اندر ایک ہلکی سی طمانیت بھی بیدار کرتے تھے حالانکہ اسےاس کا احساس نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں مانک کے لیے ایک خالص مردانہ گالی ابھری۔ مگر اس بار اس نے خط پھاڑا نہیں۔ بے پروائی سے اٹھاکر تپائی پر ڈال دیا۔

    رتنا گھر پہنچی تو اماں نے پان کی پیک دیوار پر تھوکتے ہوئے بتایا کہ صوفیہ کل آنےوالی ہے۔ اس کے بھائی سے بابوجی کی ملاقات ہوئی تھی۔ رتنا خاموشی سے سامان کھولنے لگی۔۔۔

    ’’کیوں بولتی کیوں نہیں؟ چار پیسے کماتی ہے تو اس ماں سے بھی اکڑتی ہے جس نے پیدا کیا ہے۔‘‘ اماں ہمیشہ سے کڑوا کریلا تھیں۔ بوڑھی ہوکر اور نیم پر چڑھ گئیں۔

    ’’کیا بولوں اماں۔ سن تو لیا کہ صوفیہ آرہی ہے۔‘‘ وہ رسان سے بولی۔ اگر کہیں وہ کہتی کہ وہ محض صوفیہ کی خاطر ہی یہ دھول بھرا سفر کرکے آئی ہے تو اماں جانے کتنی آفت بنتیں۔ وہ منہ ہی منہ میں بدبداتی رہیں۔

    بھیا کی دوسالہ لڑکی لونی لگی دیواروں سے مٹی کھرچ رہی تھی۔ آنگن میں گائے کا چارا بکھرا پڑا تھا۔ برآمدے کے کچے فرش پر جگہ جگہ گڈھے پڑے ہوئے تھے۔ دروازوں کو دیمک چاٹ رہی تھی۔ کھڑکیوں کی سلاخیں زنگ سے سرخ ہو رہی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح رتنا کا جی چاہا کہ وہ اس گھر کو بہت بڑے پھاوڑے کی ایک ہی ضرب سے اکھاڑ کر ہتھیلی پر رکھ لے اور پھونک مار کر اڑادے۔ پھر کہیں سے اللہ دین کا چراغ مل جائے۔ وہ اس کور گڑے۔ دھواں اٹھے، دیو برآمد ہو اور پوچھے! مانگ کیا مانگتی ہے اور رتنا کہے! بس ایک ڈھنگ کامکان، محل دو محلہ نہیں لیکن۔۔۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ باورچی خانے سے دھویں کا بادل اٹھ کر سیدھا اس کی آنکھوں میں گھسا تھا۔ بھابھی انگیٹھی سلگا رہی تھیں۔

    دوسرے دن صوفیہ آگئی اور اس کے سامنے رکھے ہوئے اسٹول پر پاؤں پسارے بیٹھی جانے کہاں کہاں کی گپیں ہانکنے لگی۔ وہ ہمیشہ سے باتونی تھی۔ باتونی اور ہنس مکھ۔ فرسٹریشن نے اسے اتنا ڈاؤن نہیں کیا تھا جتنا رتنا کو۔ مگر اس بار رتنا نے دیکھا کہ اس کی ہنسی میں کچھ زیادہ جان تھی۔ بڑھتی عمر سے چہرے پر آجانے والی کرختگی میں واضح کمی تھی اور خلاف عادت اس نے لپ اسٹک لگا رکھی تھی۔

    ’’کیوں رتن بائی پوچھا نہیں کہ بھلا میں نے لپ اسٹک کیوں لگا رکھی ہے؟‘‘اس نے اچانک کہا۔

    ’’پوچھنے ہی والی تھی۔‘‘

    ’’اسے بہت پسند ہے۔‘‘اس نے رتنا کو آنکھ ماری۔

    ’’کسے؟‘‘رتنا کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی اچانک زور زور سے بجنے لگی۔

    ’’آصف کو۔‘‘

    ’’یہ کون بزرگوار ہیں؟‘‘

    ’’کون ہیں یہ نہ پوچھو۔ بس ہیں۔‘‘ اور اس کے بعد صوفیہ کی گفتگو آصف کے گرد تیز رفتاری کے ساتھ گھومنے لگی۔ آصف کسی فرم میں کام کرتا تھا۔ عمر میں صوفیہ سے چارپانچ برس چھوٹا تھا مگر بری طرح عاشق ہوگیا تھا۔ دونوں پابندی سےملتے تھے۔ آصف کو لپ اسٹک بہت پسند تھی۔ کھانے میں تلی ہوئی مچھلی مرغوب تھی۔ وہ ہمیشہ سفیدکپڑے پہنتا تھا۔ اس کی پانچ بہنیں تھیں۔

    ’’شادی کب کر رہی ہو؟‘‘رتنا کو یہ سوال پوچھتے ہوئے اپنا دل ڈوبتا سا محسوس ہوا۔

    ’’شادی؟ اس پر تو میں نے غور نہیں کیا۔ وہ بھی ہوجائے گی۔ شاید نہ ہو۔ نہ ہوئی تو کیا فرق پڑے گا۔ زندگی جینے کے لیے ہے۔ میں اچھی طرح جی رہی ہوں۔ آصف نے برش لے کر خالی کینوس پر ست رنگی دھنک بنائی ہے۔‘‘

    آصف آصف۔ آصف۔ اکتوبر کی اس اداس دوپہر کو صوفیہ کی آواز کسی مشین کی گھوں گھوں کی طرح اور اداس بناگئی۔ رتنا کو اچانک محسوس ہوا وہ ایک درخت کی نصف کٹی ہوئی شاخ ہے جو دھم سے نیچے آنے ہی والی ہے، یا وہ ایک ایسا پرندہ ہے جس کا نشیمن جل جانےکا خطرہ پیدا ہوگیا ہے یا کچھ نہیں تو ایک ایسی پجارن ہے جس کا آخری بت بھی ٹوٹ چکا ہے۔

    چھٹیاں گزار کر رتنا ہوسٹل واپس جارہی تھی تو بس میں راستے بھر اس کو ڈر لگتا رہا کہ کہیں مانک کا خط ادھر ادھر نہ ہوگیا ہو۔ اس میں اس کا پوسٹل ایڈریس تھا اور فون نمبر بھی۔ دھڑکتے دل سے اس نے کمرہ کھولا اور ڈرتے ڈرتے کمرے پر نظریں دوڑائیں۔ خط اپنی جگہ موجود تھا۔ اس نے کھول کر اسے دوبارہ پڑھا۔ مانک کا دیا ہوا وقت ابھی گزرا نہیں تھا۔ فون نمبر ایک پرچے پر لکھ کر وہ کالج کے آفس میں آئی۔ اس کے ہاتھوں میں لرزش تھی اور آواز میں نمی۔ بڑے بابو کی طرف جھک کر بولی، ’’میں ایک فون کرلوں ذرا؟‘‘

    مأخذ:

    پرائے چہرے (Pg. 19)

    • مصنف: ذکیہ مشہدی
      • ناشر: بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے