Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تھکی ہوئی ناری

سلمی صنم

تھکی ہوئی ناری

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    پھر وہی صبح تھی۔۔۔ ایک اور دن اور اس دن کے وہی تقا ضے وہی بوجھل کثیف لمحات اور وہی دو مختلف جہانوں کا بوجھ، جس کو ریزہ ریزہ ڈھوتے ہوئے نغمہ نے بے اختیار سوچا کہ اس کی دنیا میں سب کچھ بخیر کیوں نہیں؟

    وہ Low cost Housing پراجکٹ کو لے کر بہت دنوں سے ٹینشن میں تھی کل رات بھی وہ پوری طرح سونہیں پائی تھی، اس وقت بھی سر بھاری سا ہو رہاتھا، آنکھیں جل رہی تھیں، جی متلا رہاتھا اور وہ چپ ،چاپ، گم سم، اپنے آپ میں ڈوبی، ٹوٹتی بکھرتی میڈسرونٹ کے ساتھ کچن میں جھلس رہی تھی کہ دفعتاً ناظر چلایا۔

    ’’ممی میری میاتھس بک کہاں ہے‘‘

    ’’آں‘‘ وہ بری طرح چونکی۔

    ’’ تمہاری چیز ہے ناظر‘‘ اس نے سنبھل کر آواز لگائی۔

    ’’تمہیں پتہ ہونی چاہئے‘‘

    مگر وہ دس سالہ لڑکا کچھ اتنا غیرذمہ دار، لاابالی اور نکھٹو تھا کہ اس سے کچھ بھی نہ سنبھلتا تھا۔۔۔ اف! بچوں کو لے کر ہر لمحہ ایک مسئلہ تھا، ہر پل ایک ٹینشن۔

    ’’پاپا سے کہوکہ بیگ ڈھونڈ دیں‘‘

    ’’پاپا نہیں ممی آپ ‘‘وہ اڑ گیا۔

    ’’تم کسی دن میری جان لے کر رہوگے ناظر‘‘

    وہ بری طرح جھلائی اور پھر جیسے ساری ٹینشن اس نے بیٹے پر اتاری، اس کو کچھ اتنا ڈانٹا، برا بھلا کہا کہ وہ خود پشیماں ہو گئی۔ اس کی بک تومل گئی مگر وہ اپنے وجود کے تاریک کھنڈر میں بھٹکنے لگی۔

    وہ شہر کی ایک نامور Architecture firm میں دیزائین انجینئر تھی، اس کا ایک شاندار کرئیر تھا بھرپور گھر بھی تھا، لیکن وہ کبھی کریئر اور فیملی لائف میں Balance نہیں کر پائی تھی، ابتدا میں فقط کریئر ہی کرئیر تھا اور فیملی لائف میں اس کی ممی اور عباد نے بہت ساتھ دیا تھا مگر بچے جیسے جیسے بڑے ہونے لگے ان کوماں کی غیر حاضری کھلنے لگی۔ اس کی کمی محسوس ہونے لگی اوروہ اس سے کچھ زیادہ ہی Expect کرنے لگے، اب تو یہ عالم تھا کہ انہیں کچھ نہیں صرف ماں چاہئے تھی، وہ بہت کوشش کرتی تھی کہ ان کی امیدوں پر کھرا اترے، مگر کریئر کے تقاضے اس کی راہ میں حائل ہوجاتے تھے اور بار بار اپنا دامن بچاتے ہوئے یا ان کو بہلاتے ہوئے۔ یا ان کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ بہت زیادہ دکھی ہو جاتی تھی۔ وہ ان کو زیادہ وقت نہیں دے سکتی تھی، Job بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی، پوزیشن، دولت، روشن مستقبل سب کچھ اتنی آسانی سے تو وہ ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھی۔ مگربچے بھی نہیں سمجھ رہے تھے، بار بار ضد پر اڑ جاتے تھے۔ چوبیس گھنٹے اس کے دامن سے بندھے رہنا چاہتے تھے۔ اپنے فرینڈ س کی ماؤں کو دیکھ دیکھ کروہ خود بھی اپنی ماں کی قربت چاہتے تھے، جانے وہ اتنے باؤلے کیوں ہو رہے تھے۔

    سرونٹ نے ناشتہ لگایا مگر دو نوالے انہوں نے کھائے نہیں کہ زویا چلائی۔

    ’’ممی چپاتی سخت ہے‘‘

    ’’کری بھی ٹھیک نہیں‘‘ ناظرنے بھی برا سا منھ بنایا، نغمہ کو پتہ تھاکہ ایسا ہوگا وہ ریڈی میڈ اشیاء کی عادی اپنے پکوان میں ذائقہ اورصحت کہاں سے لاتی اور بچے تھے کہ ہمیشہ مصر رہتے کہ کھانا ممی بنائیں گی۔

    ’’ممی‘‘ ناظرمنمنانے لگا، ’’رینا آنٹی کتنا چٹپٹا کھانا بناتی ہیں‘‘ چھن سے نغمہ کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا، پندار کو ٹھیس سی لگی، بچے جب دیکھو، اس کا موازنہ اپنے فرینڈس کی ماؤں سے کرتے تھے جیسے کہ اس کو احساس دلانا چاہتے ہو کہ وہ ایک اچھی ماں نہیں ہے۔

    ’’ناظر‘‘ وہ چلائی۔

    ’’کتنی بار تمہیں سمجھایا ہے کہ تمہاری ممی ایک ورکنگ لیڈی ہے۔ جسے آفس بھی جانا ہے وہاں کی ذمہ داریاں بھی نبھانی ہیں اور تمہاری رینا آنٹی تو بس ایک ہاؤس وائف ہے۔‘‘

    ’’آپ کیوں ہاؤس وائف نہیں ممی‘‘ بس، ایک ہی سوال۔ ایک چھوٹا ساسوال، بار بار، بچوں کے لبوں پر مسلسل، پیہم لگاتار اور وہ انہیں کیا بتاتی، کسے سمجھاتی، اسے خود پتا نہ تھا کہ وہ ایک ہاؤس وائف کیوں نہیں ہے؟ شاید انا کا ادراک ہو، یا خود مختاری کانشہ، آزادی کا احساس یا انفردیت کی تلاش، یااپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لانے کا جذبہ، یا شخصی اور معاشی آزادی، یافقط روپیہ، پیسہ، عیش و آرام۔

    ’’بکواس بند کرو‘‘ اس نے دونوں کو ڈانٹا۔

    ’’ممی کو تنگ نہیں کرتے بیٹا‘‘عباد بولا۔

    ’’وی آر فیملی ہمیں انہیں سپورٹ کرنا چاہئے، آؤ چلو میں تمہیں کھلا دوں‘‘

    ادھر زویا بھی کچھ نہیں کھا رہی تھی۔

    ’’عباد اسے بھی کھلادیں‘‘وہ جھٹ پٹ اپنے بال سمیٹتے ہوئے بولی اف! کس قدر تنگ کرتے تھے یہ بچے، وہ آفس کو لیٹ ہو رہی تھی، مگروہ سمجھتے کب تھے۔ بےبس سی نغمہ نے عجلت میں اس کے منھ میں نوالے ٹھونسنے شروع کئے کہ وہ الٹی کرنے لگی، پتہ نہیں اس کی غیرموجودگی میں وہ کیا الم غم کھا لیتی تھی کہ اکثر بدہضمی کا شکار رہتی تھی، قصوروار وہ خود تھی کہ بچوں کا خیال نہ رکھ پاتی تھی مگر ڈانٹا اس نے زویا کو اور جھٹ سے کوئی Antacid سیرپ پلایا۔ بچوں کو لے کر ہر لمحہ ایک مسئلہ تھا ہر پل ایک ٹنیشن عباد دونوں کوڈراپ کرنے کو تیار کھڑا تھا، اس نے جھٹ پٹ زویا کو لمبی لمبی ہدایتیں دیں مگر اسے خوب پتہ تھا کہ وہ کسی بات پر عمل نہ کرےگی۔ بھلا آٹھ سالہ بچی کو کیا پتہ کہ زندگی ہے کیا؟ وہ خو دکو کیا سنبھالتی؟ کیسے اپنا دھیان رکھ پاتی۔

    اندرا نوئی کی آواز۔۔۔ ہر نازک دل کی گونج بنی ہوئی تھی، Women Can't have it all کیا واقعی ایسا ہے نغمہ اپنے کیبن تک چلتے ہوئے ان عورتوں کو دیکھتی رہی جو اس کی فرم میں ملازمت کر رہی تھیں، ان میں کئی ایک کی فیملیس بھی تھیں، کیاان میں موجود ہر عورت کے اندر یہی کشمکش ہے جواس کے اندر ہے؟

    اگر واقعی ایسا ہے تو ایسا کیوں ہے؟ وہ الجھ سی گئی کیبن پہنچ کر وہ اپنے چیئرپر ڈھیر ہو گئی، کام کرنے کو دل بالکل نہ چاہا۔ رہ رہ کرا س کو اپنی وہ کوتاہیاں یا دآنے لگیں جو اس سے سرزد ہوتی تھیں۔ ابھی کل رات ہی کو ناظر آیا تھا اس کے پاس ’’ممی مجھے یہ پرابلم نہیں آتی‘‘ اس نے کہا تھا تو وہ بگڑ گئی۔

    ’’ اپنے مسئلے کا حل تم خود تلاش کرو ناظر‘‘

    اب دس سالہ لڑکا اپنے مسئلے کا حل کیسے تلاش کرتا ایسے کئی واقعات تھے، جہاں وہ ایک ماں بنے میں بری طرح ناکام رہی تھی ایسے میں بچوں کی مکمل تربیت اور صحیح پرورش ہو تو کیسے؟ اور وہ ایک نیک انسان بنے تو کیونکر؟ شاید اس دن کی خاطر جب وہ ڈیوٹی جوائن کر رہی تھی تواس کی ساس نے کہا تھا۔

    ’’عورت گھر کی زینت ہے نغمہ اس پر باہر کی ذمہ داری ڈالنا ظلم ہے۔ عباد کماتا تو ہے تم گھر پر رہو اور بچوں کی صحیح پرورش کرو، یاد رکھو عورت سب سے پہلے ایک ماں ہے جس کی گود میں ایک پوری نسل پروان چڑھتی ہے‘‘۔

    اور Aggressive نغمہ کو لگا تھا کہ وہ ایک روایتی ساس ہیں جو اس کو گھر میں مقید کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس کی حیثیت ہی کسی کونے میں پڑی میز یا کرسی سے زیادہ نہ ہو، مگر آج اس کو لگ رہا تھا کہ وہ کتنی سچ تھیں۔

    اف!! اس کی الجھن صدیوں کی تھکی ہوئی ویرانی پر محیط ہو گئی۔

    ’’کیا بات ہے میڈم، خیریت‘‘ وہ سریتا تھی اس کی ماتحت۔

    آں ہاں۔۔۔ وہ سنبھل گئی اور غور سے سریتا کو دیکھا۔

    ’’ ایک بات بتاؤ سریتا کیا تم اپنے کریئر اور فیملی لائف میں صحیح بیلنس کرتی ہو‘‘

    ’’واٹ‘‘ سریتا حیران ہوئی اسے میڈم سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔

    ’’ Just پوچھ رہی ہوں، بتاؤ‘‘۔

    ’’نو میڈم، بہت مشکل ہے، میرا بیٹا ہمیشہ میری راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے، کریئر اور فیملی۔۔۔ میں تو تھک جاتی ہوں‘‘

    ’’اچھا‘‘ نغمہ جیسے اپنے آپ سے بولی۔

    ’’میری ساس کہتی ہے کہ آج کی ماں تو تھکی ہوئی ناری ہے جس کو ملک اور قوم کے معماربنانے ہیں بلکہ میں اپنے آپ کو منواناہے‘‘ سریتا بولی۔

    تھکی ہوئی ناری۔ نغمہ کا دل بری طرح دھڑک گیا۔ کیا واقعی؟ لیکن آفس میں اس کے پاس اتنی فرصت کہاں تھی کہ بیٹھ کر سو چتی۔

    Low cost housing ملک میں ایک بہت بڑا Trend تھا اور اس پراجکٹ میں ان کے فرم کو یہ اعزاز حاصل تھاکہ وہ شہر کے ایک نامور Slum میں اس پر تجربہ کر رہے تھے جس کی وجہ سے وہ اکثر میڈیا میں رہنے لگے تھے، وہ تو اپنے کریئر میں کہیں کا کہیں پہنچ چکی تھی مگر اپنا گھر، کیا وہ اس محاذ پر ناکام رہی تھی۔

    شام کے گہرے ہوتے ہوئے سایوں میں گھر لوٹتے ہوئے وہ ہچکچا رہی تھی۔ آج ناظرکی اسکول میں پیرنٹ ٹیچر میٹ تھی اور وہ ناظر سے وعدہ کرنے کے باوجود بھی اس میں جانہ سکی تھی اور اسے پتہ تھا کہ ناظر اس بات کولے کر ناراض ہوگا اور زویا بھی اس کا ساتھ دےگی۔

    گھر پہنچتے ہی اس نے دیکھا، چاروں طرف سناٹا تھا اس نے جھٹ سے خود کو آنے والے واقعات کے لئے تیار کیا اور فوراً ہی کچن کی راہ لی کہ جلدی سے کوئی ڈش بنا دےگی اور ناظر کو منا لےگی، مگر یہ کیا؟ کچن پہنچتے ہی ان دونوں کو عباد کے ساتھ وہاں موجود دیکھ کر سٹپٹا گئی، اسے اپنے آنکھوں پر یقین نہ آیا خلاف توقع ممی کا نعرہ لگاکر زویا اس سے آ لپٹی تو وہ اور بھی حیران رہ گئی، ناظر کا موڈ بھی اچھا لگ رہا تھا۔

    ’’کک کیا ہو رہا ہے، ناظر آئی یم سوری بیٹے‘‘

    ’’نیور مائنڈ۔۔۔ وہ مسکرایا تو اس کی ڈھارس بندھی۔

    ’’ تھینکس بیٹا۔ میں جھٹ پٹ تمہارے لئے کچھ بناتی ہوں‘‘ وہ بولی ’’چٹپٹاہی بناؤں گی‘‘

    ’’نو ممی آپ کی پسند یدہ ڈش آج ہم نے بنائی ہے، چلئے آپ فریش ہو جائیے‘‘

    اپنے گھرکے بدلے ہوئے ماحول کو دیکھ کر وہ حیران بھی تھی اور خوش بھی، اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور اس کو پسندیدہ ڈش کھلا تے ہوے نا ظر بو لا‘‘

    ’’ممی ہماری ٹیچر کہہ رہی تھی کہ سبھی عورتیں گھر بناتی ہیں مگر آپ جیسی عورتیں Nation بناتی ہیں۔ آپ میری نہیں پورے دیش کی ماں ہیں‘‘

    اور نغمہ کو لگا جیسے اس کے اچانک پنکھ نکل آے ہوں اور وہ اڑ کر آسمان پر جا بیٹھی ہو۔

    ’’وی آر فیملی ہم آپ کو سپورٹ کریں گے‘‘ وہ دونوں اس کے گلے لگا لیا۔

    کون کہتا ہے کہ آج کی ماں ایک تھکی ہوئی ناری ہے، نغمہ نے بےاختیار سوچا۔ نہیں وہ تو ایک ایسی ناری ہے جو خود ملک اور قوم کی معمار ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے