aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹھنڈا میٹھا پانی

خدیجہ مستور

ٹھنڈا میٹھا پانی

خدیجہ مستور

MORE BYخدیجہ مستور

    کہانی کی کہانی

    یہ افسانہ جنگ کے ماحول میں زندگی گزارتی ایک عورت کی روداد بیان کرتا ہے۔ جنگ ختم ہو چکی ہے، لیکن اسے ایسا لگتا ہے کہ جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ وہ مسلسل بندوق کی گولیوں کے چلنے اور بموں کے پھٹنے کی آوازیں سنتی رہتی ہے۔ اس کا شوہر بیوی بچوں کی حفاظت کے لیے انہیں لاہور سے ملتان بھیج دیتا ہے۔ ملتان میں بھی وہی جنگ کا ماحول ہے۔ رات میں کہیں قریب میں ہی بم پھٹتا ہے۔ صبح وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اس جگہ کو دیکھنےجاتی ہے جہاں رات کو بم گرا تھا ۔وہ دیکھتی ہے کہ بم گرنے سے اس جگہ ایک بہت گہرا گڈھا بن گیا ہے، جس کے پاس بیٹھا ایک بوڑھا چندہ جمع کر رہا ہے کہ اس گڈھے میں ٹھنڈے میٹھے پانی کا ایک کنواں بنایا جا سکے۔

    اب جنگ ختم ہو چکی ہے، جگہ جگہ پر کھدی ہوئی حفاظتی خندقیں پٹ چکی ہیں، جن لوگوں کے گھر توپ کے گولوں سے ملبے میں تبدیلی ہو چکے تھے، ان گھروں کو پھر سے آباد کیا جا رہا ہے، فائر بندی ہوئے بھی عرصہ گزر گیا، جب جنگ شروع ہوئی تھی تو خزاں کا موسم تھا، پھر سردی پڑی اور اب بہار آئی ہوئی ہے، اب لوگ اسی طرح مصروف اور خوش نظر آتے ہیں جیسے جنگ سے پہلے تھے، مندے کاروبار پھر سے چمک اٹھے ہیں۔

    پتہ نہیں کہ چھ سات مہینے گزرنے کے بعد لوگوں کو اب وہ جنگ کے زمانے کی اذیتیں یاد بھی ہوں گی کہ نہیں، دنیا کی ہما ہمی بڑی جلدی سب کچھ بھلا دیتی ہے، مگر میں دوسروں کی بات کیا کروں، اپنی کہتی ہوں کہ اب بھی جب کبھی کبھار رات کو میں چاندنی کو زمین پر لوٹتی دیکھتی ہوں تو مجھے پھیکی معلوم ہوتی ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ چاند آج بھی اپنے پڑوسی ملک کی شکایت کر رہا ہے، اب اگر کوئی کہے کہ چاند نہ کچھ کہتا ہے نہ سنتا ہے، یہ سب شاعروں اور ادیبوں کی باتیں ہیں تو ٹھیک ہے، ایسی باتیں سوچنے ہی سے تعلق رکھتی ہیں، میں افسانہ نگار ہوں، چاند کے لیے میرے عجیب سے احساسات ہیں، جب میں نے سنا تھا کہ روسی لونا نمبر ۹ چاند پر اتر گیا تو انسانی ذہن کی رسائی نے میرے دل میں انسان کی اور بھی عزت پیدا کر دی تھی مگر میرے دل کے ایک گوشے سے ہوک بھی اٹھی تھی، میں نے ایک بار چاند کو غور سے دیکھا تھا تو یقین جانیے کہ میری ان اتنی کمزور آنکھوں نے چاند پر روسی جھنڈا گڑا دیکھ لیا تھا، میں نے چاند پر چرخا کاتتی ہوئی بڑھیا کی لاش تک دیکھ لی تھی، لونا نے اس کا چرخا توڑ دیا تھا۔

    پتہ نہیں چاند پر انسان کی فتح کے بعد کیا ہوگا، کتنا فائدہ پہنچے گا اور کتنا نقصان، مگر ابھی تو مجھے صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان زمین کے باسیوں سے کچھ چھن گیا ہے، مجھے تو اب چاند کو دیکھ کر کسی حسین تصور کو ذہن میں لاتے بھی بوکھلاہٹ ہوتی ہے، میرے تصور کی دنیا میں اب عشق و محبت کے اس سنہرے گولے سے چھنتی ہوئی چاندنی میں کوئی اپنے محبوب کی یاد میں روتا نظر نہیں آتا، جب میں یہ سب کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو مجھے خیال آنے لگتا ہے کہ جانے چاند پر کون کون سی دھاتیں ہوں گی اور جانے ان دھاتوں سے انسان کی آبادی اور بربادی کے کون کون سے باب لکھے جائیں گے، جانے کب یہ چاند بھی جنگ کا میدان بن جائے۔

    ابھی ابھی چاند کے تصور پر چھائے ہوئے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی کہ سرشام چمکنے والے تارے زہرہ پر بھی روسی جھنڈا گڑ گیا، اب میں کسی کی چمکتی ہوئی روشن آنکھیں دیکھ کر کیسے کہوں گی کہ ان میں تارے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں، اب میں کیسے کہوں کہ لوگو! جب تم دنیا کی مصیبتیں جھیل جھیل کر تھک جاؤگے تو تمہارے لیے کوئی حسین تصور باقی نہیں رہ جائےگا، تم چاندنی میں بیٹھ کر ذکر محبوب کے بجائے چاند پر پائی جانے والی دھاتوں کی بات کروگے اور راتوں کو جب تمہیں اپنے محبوب کا فراق ستائےگا تو تم تارے گننے کے بجائے زہرہ پر بنگلہ بنانے کی سوچوگے۔

    ہاں تو میں کیا کہہ رہی تھی اور بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، میں کہہ رہی تھی کہ مجھے آج تک چاند شاکی نظر آتا ہے، آج بھی جب کسی آس پاس کے گھر میں شادی پر گولے چھوڑے جاتے ہیں تو مجھے توپوں کی گرج اور بموں کے دھماکے یاد آ جاتے ہیں، آج بھی جب میں کسی وقت باورچی خانے میں جا نکلتی ہوں تو کھونٹی پر لٹکی ہوئی لالٹین کو دیکھ کر مجھے سترہ راتوں کے اندھیرے یاد آ جاتے ہیں، اسی لالٹین کی مدھم لو کے سہارے ہم ایک دوسرے کو دیکھنے کی کوشش کرتے، چلتے پھرتے ہوئے، میزوں، کرسیوں اور پلنگوں سے ٹکراتے، کئی دفعہ گھٹنے پھوٹے، انگلیوں سے خون بہا، اس لالٹین کی چمنی آج تک کسی نے صاف نہیں کی، میں چاہتی ہوں کہ اسے کبھی صاف نہ کیا جائے تاکہ میں یاد رکھوں کہ جنگ کے دنوں کی راتیں سیاہ ہوتی ہیں۔ مجھے امن سے محبت ہے، مجھے جنگ سے نفرت ہے، مگر مجھے اس جنگ سے بھی امن کی طرح محبت ہے جو انسان اپنی آزادی، اپنی عزت اور ملک کی بقا کے لیے لڑتا ہے۔

    ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ جنگ ختم ہوگئی ہے مگر میں جب تک زندہ ہوں میری یادیں ختم نہ ہوں گی، اب میں آٹھ دس سال کے بچے کو کیسے بھولوں جو جنگ کے زمانے میں میرے قریب کے گھر کی چھت پر کھڑا پتنگ اڑا رہا تھا، اس دن اتنے جہاز اڑ رہے تھے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ یہ اپنے جہاز ہیں میرا دل خوف و دہشت سے لرز رہا تھا، میں نے چیخ کر لڑکے سے کہا کہ ’’چھت سے اتر جاؤ۔‘‘ وہ کہنے لگا، ’’دشمن کے جہاز آئے تو اس پتنگ سے گرا لوں گا، میں آپ کی طرح ڈرتا نہیں۔‘‘

    ایک لمحے کو میں نے اپنے دھڑکتے اور لرزتے دل کو ٹھہرا ہوا پایا، مگر دوسرے ہی لمحے جب ایک اور طیارہ گزرنے لگا اور سائرن کی خوفناک آواز گونجی تو میں دہشت کے مارے چیخ چیخ کر پرویز، اپنے بیٹے کو پکارنے لگی، وہ جانے کدھر چلا گیا تھا، اسے پکارتے پکارتے میں گھر میں رہی کہ کہیں کرن نہ ڈر رہی ہو، شکر ہے کہ پرویز دوسرے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، وہ کتابیں چھوڑ کر آپ ہی میرے پاس آگیا تھا، ان دنوں جانے مجھے کیا ہو گیا تھا کہ ہر وقت بچوں کو نظروں میں رکھتی، میرا بس نہیں چلتا تھاکہ سینہ چیر کر انہیں چھپا لوں، جنگ کی کوئی پرچھائیں ان پر نہ پڑنے پائے، ایک فلم میں دیکھا ہوا وہ سین بار بار میری نظروں میں گھوم جاتا جس میں بمباری کے بعد بکھری ہوئی لاشیں دکھائی گئی تھیں اور ان لاشوں کے بیچ میں ایک ننھا سا بچہ رو رو کر جانے کسے تلاش کرتا پھر رہا تھا۔

    مگر اس وقت جب میں کرن اور پرویز کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھی، تو جانے کیوں مجھے ان کی حفاظت کرنے کا کوئی جذبہ ستا رہا تھا، مجھے برابر وہ پتنگ اڑانے والا بچہ یاد آ رہا تھا، کیا وہ اب بھی پتنگ اڑا رہا ہوگا، اللہ یہ آزادی کا جذبہ کیا چیز ہے جسے آج تک کوئی طاقت فتح نہیں کر سکی اور کیا یہ جذبہ اتنی ننھی ننھی جانوں کی روحوں میں بھی حلول کر جاتا ہے! پتہ نہیں بڑے بڑے ملکوں کے حکمران بھی کبھی اسی طرح سوچتے ہوں گے کہ نہیں، وہ تو یہی سمجھتے ہوں گے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو نگل سکتی ہے، انسانوں اور مچھلیوں میں بھلا انہیں کیا فرق لگتا ہوگا، حالانکہ ویت نام نے ساری دنیا میں ڈھنڈورا پٹوا دیا ہے کہ یہ تالابوں اور سمندروں سے نکلی ہوئی ضرب المثل کام نہ آئےگی۔

    جنگ کو صرف چند ہی دن گزرے تھے تو ظہیر نے فیصلہ کیا کہ بچوں کو لاہور سے ہٹا دیا جائے تاکہ وہ رات دن کے خوفناک دھماکوں سے خائف نہ ہوں، میں نے سخت احتجاج کیا کیونکہ میں اپنے سارے پیاروں کو چھوڑ کر دور نہیں جانا چاہتی تھی مگر کرن، میری بیٹی کی سہمی ہوئی آنکھوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ اس ننھی سی جان کو یہاں سے لے جانا ضروری ہے، دوسرے دن میں اور دونوں بچے بذریعہ کار ملتان روانہ ہو گئے، لاہور کی سرزمین کو میں نےکس طرح کلیجے سے لگاکر رخصت کیا، یہ صرف میں جانتی ہوں، میں اس وقت کتنی جذباتی ہو رہی تھی، شاید میں روئی بھی تھی، راستہ کس خرابی سے گزر رہا تھا، میں ساری کے پلو میں منہ چھپائے نڈھال سی پڑی تھی، ایک جگہ کار جھٹکے کے ساتھ رک گئی اور جب دیر تک نہ چلی تو میں نے سر اٹھاکر باہر دیکھا، فوجیوں سے بھری ہوئی گاڑیاں قطار سے کھڑی تھیں اور سڑک کی خرابی کی وجہ سے ایک ایک کر کے آہستہ آہستہ گزر رہی تھیں۔

    میں نے سوچا کہ جانے یہ سب کس محاذ پر جا رہے ہوں گے اور ان میں کتنے واپس آئیں گے، میں نے دل ہی دل میں انہیں الوداع کہی اور پھر منہ چھپا لیا لیکن دوسرے ہی لمحے تالیوں کی آواز نے مجھے ان کی طرف متوجہ کر دیا، سب سے پچھلی گاڑی میں کھڑے ہوئے فوجی بھنگڑا ناچ رہے تھے، پھر میرے دیکھتے دیکھتے ساری گاڑیوں میں بھنگڑا شروع ہو گیا، وہ زور زور سے ہنس رہے تھے، کچھ کے ہونٹوں میں سگریٹیں دبی ہوئی تھیں، ان کی تالیوں میں اتنا جوش تھا کہ خدا کی پناہ! میں انہیں دیکھ رہی تھی مگر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا تھا، یا اللہ کیا سچ مچ یہ توپوں اور گولیوں کا مقابلہ کرنے جا رہے ہیں! میں آنکھیں پھاڑ پھاڑکر ان کے چہرے تک رہی تھی، سچ کہتی ہوں ان چہروں پر فکر کی ذرا سی دھول نہ تھی، ان چہروں پر پھول کھل رہے تھے۔

    میں نے محسوس کیا کہ لاہور اور میرے اپنے مجھ سے جدا نہیں ہوئے، میرا جی چاہ رہا تھا کہ کود کر کار سے نکل بھاگوں اور ان کے ساتھ ناچنے لگوں اور اگر ناچ بھی نہ سکوں تو چیخ چیخ کر ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچا دوں کہ یہ ناچ بہت ہی خطرناک ہوتا ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پھر وہ فوجیوں سے بھری ہوئی گاڑیاں آگے بڑھ گئیں مگر میں انہیں حد نظر تک دیکھتی رہی، ان کی تالیوں کی آواز سنتی رہی، اپنے آپ سے پوچھتی رہی کہ کیا میں موت سے ڈرتی ہوں، زندگی میں پہلی بارمجھے موت شہد کا گھونٹ محسوس ہو رہی تھی۔

    جنگ کے دنوں میں کیسی اچاٹ سی نیند آتی تھی، ملتان کی دوسری رات تھی، ہمارے میزبان اور سب بچے سو رہے تھے تو میری آنکھ کھل گئی، مجھے ہوائی جہازوں کی تیز گڑگڑاہٹ سنائی دے رہی تھی، میں نے اٹھ کر کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو دور آسمان پر سرخ روشنی نظر آ رہی تھی، میں نے سوچا کہ میزبان کو جگا دوں اور ان سے پوچھوں کہ یہ سب کیا ہے کہ اتنے میں ایک زور کا دھماکہ ہوا، کھڑکیوں کے شیشے جھنجھنائے اور در و دیوار اس طرح ہلے جیسے سر پر آ گریں گے، اب کچھ معلوم کرنا بےکار تھا، سب لوگ جاکر ادھر ادھر پھر رہے تھے، میرے بچے پکار رہے تھے، میں نے جلدی سے سب کو مشورہ دیا کہ بیچ کی گیلری میں میزوں کے نیچے بیٹھ جاؤ۔

    پھر ایک اور دھماکہ ہوا جو پہلے سے شدید تھا، میزوں کے نیچے بیٹھے ہوئے بچےایک دوسرے سے ٹکرا گئے، میں نے کرن کو اپنےقریب کر کے لپٹا لیا اور پرویز کے کان میں چپکے سے کہا کہ ’’موت سے نہیں ڈرتے، تمہیں تو وہ بھنگڑا ناچتے فوجی یاد ہیں نا؟‘‘ وہ ہنسا اور ڈٹ کر بیٹھ گیا، مگرمیں نے محسوس کیا کہ وہ کانپ رہا ہے، چند لمحوں بعد پھر لگاتار دو دھماکے ہوئے مگر وہ شدید نہیں تھے، دور کی آواز تھی، پھر فوراً ہی ایک جہاز مکان کی چھت سے گزرتا ہوا معلوم ہوا، مجھے ایک لمحے کو سارے بچھڑے ہوئے عزیز یاد آ گئے، مجھ پر سخت مایوسی کا غلبہ ہوا، اپنوں سے دور پردیس میں مر جانا کتنا حسرت ناک ہوتا ہے، میں نے تصور کی دنیا میں سب کو ایک بار دیکھا مگر پلک جھپکتے وہ سب غائب ہو گئے، دو جہاز ایک ساتھ چھت پر سے گزر رہے تھے، میں نے خدا کو یاد کیا، اس کٹھن وقت کے گزر جانے کی دعا کی اور مجھے بڑا سکون ملا۔

    جہازوں کی آواز لمحوں کے اندر دور ہوتے ہوتے غائب ہو گئی، پھر دیر تک نہ کوئی دھماکہ ہوا اور نہ کوئی جہاز گزرا، مکمل خاموشی طاری تھی، بس کسی کسی وقت ساتھ کے مکان سے کتے کے بھونکنے کی اور رونے کی آواز آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد کلیئر کا سائرن ہوا تو ہم سب اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہوئے، میری میزبان خاتون جو پورے وقت اپنے تین سالہ بچے پر جھکی بیٹھی رہی تھیں، پہلی بار بولیں، ’’آپا جی، بچے کتنے پیارے ہوتے ہیں اگر دھماکے سے چھت گرتی تو پہلے مجھ پر آتی، منا تو میرے نیچے چھپ کر بالکل محفوظ رہتا نا۔‘‘ اور پھر وہ میرا جواب سنے بغیر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔

    بچے جلد ہی سو گئے مگر میں ساری رات جاگتی رہی، مجھے برابر یہ خیال آ رہا تھا کہ جس جگہ بم پھٹے ہوں گے وہاں کا کیا نقشہ ہوگا، وہاں معصوم بچوں اور عورتوں پر کیا گزری ہوگی، میں نے یہ سوچ کر کتنی ہی بار اپنے سوئے ہوئے بچوں کو زور زور سے لپٹایا، مجھے اندھیرے میں بےشمار بچوں کی لاشیں نظر آ رہی تھیں، مجھے زخمی بچے تڑپتے دکھائی دے رہے تھے۔ رات تڑپا کر گزر گئی، صبح تڑکے میں اپنے میزبان کے ساتھ ان جگہوں پر جانے کے لیے تیار ہو گئی جہاں بم گرے تھے۔ ملتان سے دو تین میل دور جب رکے تو وہاں لوگوں کا ہجوم لگا ہوا تھا، اس چھوٹے سے گاؤں میں بہت سے کچے مکان اور جھونپڑے بکھرے پڑے تھے، عورتیں جھونپڑوں تلے دبے ہوئے سامان کو نکال رہی تھیں، ہر طرف برتن لڑھک رہے تھے۔

    بچے بےحد سہمے نظر آ رہے تھے، کئی بچوں کے سروں اور پیروں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں، کچھ عورتیں یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی گرے ہوئے جھونپڑے کو دیکھ رہی تھیں جیسے سب کچھ لٹ گیا ہو، ان کے یہ جھونپڑے نہیں محل تھے جو ڈھے گئے، مرد آئے ہوئے لوگوں کو بتا رہے تھے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ میں بے چینی کے ساتھ کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی، اس اتنے بڑے ہجوم کے باوجود مجھے ویرانی لگ رہی تھی، پھر بھی یہ سن کر کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، مجھے بڑا اطمینان ہو گیا۔ میں جہاں کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی، اس سے کوئی ساٹھ ستر گز کے فاصلے پر بہت سے آدمی کھڑے تھے اور جھک جھک کر نہ جانے کیا دیکھ رہے تھے، چپراسی نے پوچھنے کے بعد بتایا کہ اس جگہ بم گرا تھا۔

    تھوڑی دیر بعد جب لوگ وہاں سے ہٹ گئے تو میں بھی وہاں تک پہنچ گئی، بم گرنے کی جگہ پر ایک چھوٹا سا کنواں بن گیا تھا اور اس کنوئیں کے قریب ایک بوڑھا شخص سفید چادر بچھائے ہوئے بیٹھا تھا، چادر پر بے شمار سکے پڑے ہوئے تھے، مجھے دیکھتے ہی بوڑھے نے آواز لگائی، ’’چندہ دو بیگم صاحب، اس جگہ کنواں کھدےگا اور یہاں سے ٹھنڈا میٹھا پانی نکلے گا۔‘‘ میرے پرس میں جو کچھ تھا وہ چادر پر ڈال دیا تو بوڑھا جیسے ترنگ میں آکر زور زور سے آوازیں دینے لگا، ’’ٹھنڈا میٹھا پانی سائیں ٹھنڈا میٹھا پانی!‘‘

    مأخذ:

    ٹھنڈا میٹھا پانی (Pg. 129)

    • مصنف: خدیجہ مستور
      • ناشر: خالد احمد
      • سن اشاعت: 1981

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے