Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹکٹ چیکر

محمد جمیل اختر

ٹکٹ چیکر

محمد جمیل اختر

MORE BYمحمد جمیل اختر

    پینتیس سال ٹرین میں سفر کر کرکے وہ تھک گیا تھا وہ جب مڑ کر اپنی زندگی کے گزرے سالوں کی جانب دیکھتا تو اسے سوائے سفر کے کچھ دکھائی نہ دیتا حالانکہ ان گزرے سالوں میں اس کی زندگی میں کیا کیا نہ ہوا تھا۔ شادی ہوئی، پانچ بچے ہوئے پھر وہ وقت بھی آیا کہ بچوں کی شادیاں بھی ہو گئیں لیکن وہ مڑکر دیکھتا تھا تو سوائے سفر کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا وہ گزشتہ پینتیس سال سے ریلوے میں ٹکٹ چیکر کی نوکری کر رہا تھا اوریہ سال اس کی نوکری کا آخری سال تھا اگلے سال اس نے ساٹھ سال کا ہوکر ریٹائر ہو جانا تھا۔

    بچپن میں اسے ٹرین کی آواز سے محبت سی ہو گئی تھی وہ مسجد میں سپارہ پڑھنے کے بعد شیشم کے بڑے درخت کے نیچے بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرتا اور جب وہ پاس سے گزرتی تو وہ مسافروں کو ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہتا تھا وہ سوچتا کہ کاش وہ بھی ان مسافروں کے ساتھ سفر کر سکے۔

    بچپن کی یہ محبت وقت کے ساتھ پروان چڑھتی رہی اس نے بہت شوق سے ریلوے میں نوکری کی تھی اور ٹرین سے یہ عشق بھی برقرار تھاجن مسافروں کو وہ بچپن میں ہاتھ ہلاہلا کر خدا حافظ کہتا تھا اب و ہ ان کے ساتھ سفر کرنے لگا تھا۔

    زندگی ایک سفر ہے لیکن اس نے تو سچ میں اس سفر کو سفر میں کاٹ دیا تھا اسے پہلے تو کبھی ایسا احساس نہیں ہوا تھا لیکن کچھ مہینے پہلے جب اس کی بیوی نے اسے ملتان بیٹی کے ہاں جانے کا کہا تو اس نے بتایا کہ اس کی تو لاہور سے کوئٹہ جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی ہے سو وہ نہیں جا سکتا تو اس کی بیوی نے اسے کہا کہ تم نے ساری زندگی سفر میں گزاردی ہے اس نے بیوی کی اس بات کو نظرانداز کیا اور ڈیوٹی پرچلا گیا لیکن وہ بات اس کے لاشعور میں کہیں چِپک کر رہ گئی، معلوم نہیں کیوں بعض اوقات بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کے دل ودماغ پر بہت گہرے اثرات چھوڑ جاتی ہیں، ٹرین میں بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے گزشتہ پینتیس سال کی نوکری پر نظردوڑائی تو وہاں سفر ہی سفر تھا جہاں مسافروں کی طرف سے یہ جملے تواتر سے سننے کو مل رہے تھے۔

    ’’ بابو یہ ملتان جنکشن کب آئےگا؟‘‘

    ’’ یہ ٹرین کیوں رک گئی ہے کیا کوئی کراس ہے یا سگنل ڈاون ہے؟‘‘

    ’’بابومیرے پاس ٹکٹ نہیں ہے میں دراصل بھاگتے ہوئے ٹرین میں سوار ہوا ہوں سو ٹکٹ نہیں خرید سکا مجھے ٹکٹ بنا دیں پر جرمانہ نہ کریں‘‘ اور وہ جرمانہ نہ کرتا بس مسافر کو سمجھا دیتا کہ آئیندہ احتیاط کرے۔

    واقعی یہ جملے اس کی زندگی میں کتنے زیادہ استعمال ہوئے تھے اس اب احسا س ہوا۔

    اب وہ ہر روز نہ چاہتے ہوئے بھی یہی سوچتا رہتا کہ اس کی ساری زندگی ٹرین میں گزر گئی ہے اور وہ زندگی کا اس طرح لطف نہیں لے سکا کہ جیسا وہ اپنے ارد گرد لوگوں کو لطف اندوز ہوتے دیکھتا تھا۔ وہ کبھی بھی اپنی ڈیوٹی سے جی نہیں چراتا تھا کیونکہ اسے اپنے کام اور ٹرین سے محبت تھی، وہ اب بھی عمر کے اس حصے میں ٹرین کی آواز سنتا تو اس کے اندر خوشی کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ،لیکن اب اس کا اپنے کام میں دل نہیں لگتا تھا وہ چاہتا تھا جلد ازجلد کام ختم ہو اور وہ گھر جائے کراچی اور کوئٹہ کی وہ طویل مسافتیں جو پچھلے پینتیس سال سے بلا کسی حیل و حجت کے آرام سے کٹ رہی تھیں اب ایک بوجھ بن گئی تھیں وہ کوشش کرتا کہ وہ اب ان طویل راستوں پر سفر نہ کرے اس نے دو ایک بار اپنے افسر سے بات بھی کی کہ اب اس کی صحت اتنے طویل سفر کی اجازت نہیں دیتی اگر ممکن ہوتو اسے اتنے طویل سفر پر نہ بھیجا جائے۔

    اب وہ مسافروں سے پہلے کی طرح مسکراتے ہوئے نہیں ملتا تھااور بغیر ٹکٹ کے ہر مسافر کو وہ جرمانہ ضرور کرتا۔

    ’’یہ کیا زندگی ہوئی کہ ٹرین ہی میں کٹ گئی‘‘ دن رات یہ سوال اس کے دل ودماغ پر دستک دیتا رہتا تھااور وہ ٹرین میں بیٹھے بیٹھے وہ واقعات یاد کرتا کہ جب زندگی نے اسے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا لیکن وہ منہ موڑ کر ٹرین میں آ بیٹھا۔ اسے یاد آیا کہ جب اس کے بڑے بیٹے کی پہلی سالگرہ تھی تو اس کی بیوی نے کتنے مہمانوں کی دعوت کی تھی اس نے جلد ی جلدی کیک اور کھانے پینے کی دوسری اشیا بازار سے خرید کر بیوی کے حوالے کی تھیں کیونکہ اسے دوپہر دو بجے ملتان جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی دینا تھی اس کی بیوی کتنا ناراض ہوئی تھی کہ وہ چھٹی کیوں نہیں کر لیتا لیکن اس نے چھٹی نہیں کی اور ملتان چلا گیا۔۔۔ اسے ٹرین میں بیٹھے بیٹھے ایک اداسی نے آن گھیرا کاش وہ اس دن اتنا اداس ہوتا اور گھر پر رک جاتا۔

    معلوم نہیں وہ کون سے سال کی اکتیس مارچ تھی جب بچوں کا نتیجہ آنا تھا اس روز بھی وہ ٹرین میں کسی شہر جا رہا تھا جب وہ اگلے دن واپس آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے تین بچوں نے اپنی اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن لی ہے اوراس کی بیوی نے اسے بتایا کہ سکول کی ہیڈمسٹریس نے اسے سٹیج پر بلاکر بچوں کی بہت تعریف کی آپ کے بارے بھی پوچھا کہ آپ کیوں نہیں آئے، میں نے انہیں بتایا کہ آپ ڈیوٹی پر ہیں تو ہیڈمسٹریس نے کہا کہ آج کے دن بھی ڈیوٹی؟

    بیوی کی زبانی سے سنے ہیڈمسٹریس کے ان الفاظ نے اتنے سالوں بعد اسے پریشان کر دیا کاش وہ اس دن ڈیوٹی پر نہ جاتا اور بچوں کی خوشی میں خوش ہو لیتا۔

    اس نے بچوں کی شادی کے دنوں کو یاد کیا جو اس نے بھاگتے دوڑتے کی تھیں اس نے ساری زندگی کتنی محنت کی تھی اور ایک ایک روپیہ بچاکر رکھا تھا اپنے بچوں کے لیے اور جب اس روپے کو خرچ کرنے کا وقت آیا تو اس نے خوب روپے لٹائے لیکن خود معلوم نہیں وہ کہاں تھاہر بچے کی شادی میں اس نے چھٹی کی لیکن اس کے لاشعور میں یہی چلتا رہا کہ ۱۳ اپ اور ۴۱ ڈاون معلوم نہیں اس وقت کہاں ہونگی۔

    اس نے اور بہت سے واقعات یاد کیے جب وہ اس موقع پر تھا لیکن وہ وہاں نہیں تھا یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ بعض اوقات انسان جہاں ہوتا ہے حقیقت میں وہاں نہیں ہوتا۔۔۔اسے اب یقین ہو گیا کہ گزشتہ پینتیس سال ا س نے کہیں بھی گزارے تھے وہ دراصل ٹرین ہی میں تھا اسے لگا کہ وہ ٹرین سے باہر کبھی گیا ہی نہیں اصل زندگی ٹرین ہے اور ٹرین سے باہر ایک خیال۔۔۔یہ خیالات اس کے لیے وحشت ناک تھے لیکن وہ خوش تھا کہ بس چھ مہینے بعد ہی وہ ریٹائر ہو جائےگا اور پھر وہ خوش وخرم زندگی گزارے گااس نے سوچ رکھا تھا کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے بڑے بیٹے کے پاس مری چلا جائےگا اور وہاں پہاڑوں پر حسین موسم کا اور نظاروں کا لطف لے گابہت سی کتابیں جو وقت نہ ملنے کی وجہ سے وہ نہ پڑھ سکا وہ پڑھےگا، اس کا چھوٹا بیٹا ملتان میں رہتا تھا وہ کچھ روز کے لیے وہاں چلے جائےگا، روز صبح سیر کو جائےگا اور اس طرح کے لاتعداد پروگرامز جو اب وہ دن رات سوچتا رہتا تھا۔

    پھر وہ دن آ گیا جب وہ ریٹائرڈ ہو گیا اسے ایسا لگا کہ اس کے کندھوں سے کوئی بھاری بوجھ اتر گیا ہے وہ جب آخری بار سٹیشن سے واپس گھر جانے لگا اور اس نے مڑکر ٹرین کی جانب دیکھا تو معلوم نہیں اسے کیا ہوا کہ وہ رونے لگا جیسے کوئی برسوں پرانے محبوب سے بچھڑ رہا ہو وہ یہ سوچ کر بے انتہا افسردہ ہو گیا کہ اب وہ کبھی بھی ٹرین کی آواز نہ سن سکےگا وہ آواز کہ جس کے ساتھ وہ بچپن سے محبت کرتا آیا تھا اور ٹرین سے جڑی ساری باتیں اب خیال بن کر بکھر جائیں گی۔ لیکن اس نے خود کو سمجھایا کہ اب یہ اس کی آزادی کی دن ہیں اور اسے خوش ہونا چاہیے۔

    گھر آکر اس نے باری باری اپنے سب بچوں کوفون کیا کہ اب اسے فرصت ہی فرصت ہے سو وہ بہت جلد ان کے پاس آئیگا اس نے بیوی سے کہا کہ وہ آج خوب گھوڑے بیچ کر سوئےگا کہ اسے اب کوئی رات کی ڈیوٹی نہیں کرنی بلاشبہ یہ تبدیلی اس کے لیے ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔

    وہ اب رات کو چین سے سویا کرتا تھا لیکن ہفتے میں ایک دو بار وہ رات کو اٹھتا اور یونیفارم پہن کر ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار ہوجاتا بیوی کے جگاتا اور کہتا ’’ دروازہ بند کر دو میں جا رہا ہوں‘‘ اس کی بیوی حیران ہوکر اسے بتاتی کہ وہ تواب ریٹائرڈ ہو چکا ہے تو تب وہ بہت شرمندہ ہوتا اور کہتا ’’ اوہ ہو مجھے تو یاد ہی نہیں رہا ‘‘ ایسا کئی بار ہوا تو اس کی بیوی نے اس کہا کہ وہ کچھ دن کے لیے چھوٹے بیٹے کے ہاں ملتان چلا جائے سو وہ ملتان چلا گیا پہلی ہی رات وہ دو بجے نیند سے جاگ گیا اور کچھ ڈھونڈنے لگا جب اسے کچھ نہ ملا تو اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا.

    ’’ میرا یونیفارم اور جوتے کہاں ہیں؟‘‘

    شور سن کر اس کا بیٹا اور بہو اپنے کمرے سے باہر آئے تو انہیں سمجھ نہ آئی کہ مسئلہ کیا ہے جب انہوں نے اسے بتایا کہ وہ اب نوکری نہیں کرتاتو وہ بہت دکھی ہو گیا ’’ آخر یہ مجھے یاد کیوں نہیں رہتا کہ میں نوکری نہیں کرتا؟‘‘ اور اس طرح کے واقعات اب مسلسل بڑھتے جا رہے تھے۔

    وہ روز صبح گھر سے نکلتا اور ملتان سٹیشن جاکر ایک بنچ پر بیٹھ جاتا اور گاڑیوں کو آتا جاتا دیکھتا رہتا ہر ٹرین کے گزرتے مسافروں کو وہ ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہتا اور اسے ایسا لگتا کہ جیسے وہ اپنے گاوں کا وہ چھوٹا سا لڑکا ہے جو سپارہ پڑھنے کے بعد درخت کے نیچے ٹرین کا انتظار کر رہا ہے تاکہ وہ مسافروں کو ہاتھ ہلا ہلاکر خدا حافظ کہہ سکے۔

    انہی دنوں کی ایک گرم دوپہر کا قصہ ہے کہ اسٹیشن پر بیٹھے بیٹھے معلوم نہیں اسے کیا سوجھی کہ وہ ایک ٹرین میں داخل ہو گیا اور مسافروں سے ٹکٹ کے بارے پوچھنے لگا لوگ اسے حیرت سے دیکھنے لگے اور کچھ ہنسنے لگے.

    ’’کون سا ٹکٹ؟‘‘ ایک مسافر نے پوچھا

    ’’ریل میں کوئی بھی بغیر ٹکٹ کے سفر نہیں کر سکتا، بغیر ٹکٹ سفر کرنا جرم ہے سو ٹکٹ دکھایئے‘‘

    ’’تو تمہیں کیوں دکھائیں‘‘ مسافر نے کہا

    ’’مجھے نہیں دکھاو گے تو کسے دکھاؤگے میں ہی تو ٹکٹ چیکر ہوں‘‘ لوگ ہنسنے لگے اسی دوران گاڑی میں موجود ٹکٹ چیکر آ گیا۔

    ’’ہاں بھئی کیا مسئلہ ہے‘‘

    ’’یہ میرا یونیفارم آپ کے پاس کیسے؟‘‘ اس نے ٹکٹ چیکر سے سوال کیا

    ’’کیا ہو گیا ہے پاگل ہو گئے ہو، اپنا ٹکٹ دکھاو‘‘

    ’’میرا ٹکٹ؟ میرا کون سا ٹکٹ؟ میں تو خود ٹکٹ چیکر ہوں‘‘

    اور انہوں نے اسے پاگل سمجھ کر ایک سٹیشن پر اتار دیا معلوم نہیں وہ کونسا شہر تھا کہ جس کے گلیوں میں وہ ’’ٹکٹ، ٹکٹ‘‘ پکارتا ہوا دوڑ رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے