aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تریاق

MORE BYشاہین کاظمی

    پربتوں سے رات اتری تو راستوں پر اندھیرا بچھنے لگا خنکی بڑھ رہی تھی وہ قدرے پریشان ہو گیا۔ ’’شاید میں راستہ بھول گیا ہوں، ورنہ ابھی تک تو مجھے وہاں پہنچ جانا چاہئے تھا’’ اس نے بیلوں کو ہشکارا لیکن دن بھر کے ناہموار راستے نے انھیں بھی تھکا دیا تھا، ہشکارنے کے باوجود ان کی چال میں سست روی رہی وہ چاہتا تھا رات کے پوری طرح جاگنے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائے اس کی بیوی بُری طرح کراہ رہی تھی کمبل درست کرتے ہوئے وہ بیلوں کو پھر سے ہُشکارنے لگا کہ اچانک وہ سیاہ سنگی عمارت جیسے زمین سے اگ آئی اس کی آنکھوں میں حیرت بھر گئی لیکن اس نے بیل گاڑی کا رخ عمارت کی طرف موڑ دیا۔

    ‘’سنو کیا یہ قدیمی معبد ہے؟’’ عمارت کے باہر سفید کپڑوں میں ملبوس وہ بوڑھا شخص پتھریلا صحن صاف کر رہا تھا۔

    ‘’کیا تم اونچا سنتے ہو؟’’، وہ بیل گاڑی سے اتر آیا۔

    ’’تم مجھ سے مخاطب ہو؟’’ بوڑھا ہلکے سے مسکرایا تو اُس کے دودھیا دانت نمایاں ہو گئے۔

    ’’ہاں۔۔۔ اِسے قدیمی معبد ہی کہا جاتا ہے’’

    ‘’میں اس سے ملنا چاہتا ہوں’’

    ’’کیا میں پو چھ سکتا ہوں تم اس سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟’’ بوڑ ھے کی آواز میں نرمی تھی۔

    ‘’نہیں، میں اسی سے بات کرنا چاہوں گا’’

    ’’مجھے بتاؤ، شاید میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں’’

    ‘’میں اپنی اذیتوں کا اشتہار نہیں لگانا چاہتا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے میرا اس سے ملنا نہایت ضروری ہے’’

    ’’تمہیں کیوں لگتا ہے کہ وہ تم سے ملنا چاہےگا؟’’

    ‘’ اس لیے کہ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں

    ’’تم اسے اچھی طرح جانتے ہو؟’’

    ‘’ہاں میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں’’

    ’’معذرت مگر میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں اگر تم اسے اچھی طرح جانتے ہوتے تو آسمان سے اترنے والا پانی روک نہ دیا جاتا تم نے دیکھا اب آسمان سے بارش نہیں ہوتی’’

    ‘’جانتا ہوں بارش نہیں ہوتی لیکن اس بات کا اِس ملاقات سے کیا تعلق؟ دیکھو مجھے الجھاؤ مت میں بہت لمبے سفر سے آیا ہوں میری بیوی شدید تکلیف میں ہے میں اس سے ملے بغیر نہیں جاؤں گا’’

    ’’کیا ہوا ہے تمہاری بیوی کو؟’’

    ‘’وہ تخلیق کے مراحل سے گزر رہی ہے’’

    تخلیق کا مرحلہ تکلیف دہ ہوتا ہی ہے اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں’’

    ‘’ جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں وہ تم نہیں دیکھ سکتے اس لیے بہتر ہوگا تم جو کام کر رہے ہو اس پر دھیان دو’’

    ’’تم جانتے ہو تم کتنے منہ پھٹ ہو؟’’

    ’’کیا میرے جاننے سے حقیقت بدل جائےگی؟’’

    خاموشی کا ایک طویل وقفہ۔۔۔

    ‘’میں معذرت چاہتا ہوں کچھ سخت الفاظ بول گیامیں ایسا نہیں تھا لیکن جانے کیوں ایسا ہو گیا ہوں تم نہیں جانتے آبادیاں نابود ہو رہی ہیں چھتنار پیڑوں کے بڑھتے ہوئے سایوں نے دوسروں کے حصے کی دھوپ بھی چاٹنا شروع کر دی ہے خوابوں کا رنگ بدل رہا ہے قدم تھمنے لگے ہیں اور میر ا خوف بڑھ رہا ہے’’

    ’’تمہار ا خوف بے بنیاد ہے مسافر کچھ نہیں ہونے والا جو گھڑی اٹل ہے سو ہے۔۔۔ بارشوں کا رکنا کیا اس گھڑی کی منادی نہیں ہے؟’’

    ‘’میں مسافر ہوں جو گھڑی مسافت کی لکھی گئی ہے اس گھڑی پاؤں رکاب سے باہر نہیں ہوگا، لیکن۔۔۔’’

    ’’لیکن کیا؟’’

    ‘’بستی میں اترتے اندھیروں نے سب کو بےچین کر دیا ہے وہاں کے باسیوں کی ہیئت بدل رہی ہے’’

    ’’ہیئت بدلنے سے تمہاری کیا مراد ہے؟’’

    ‘’ تم شاید نہیں سمجھ رہے میں کیا بات کر رہا ہوں پیروں سے سکوت اور جسم سے رعشہ کا لپٹ جانا۔۔۔ میں اس کی وجہ جاننا چاہتا ہوں مجھے یہ بھی خبر ہے کہ موعود گھڑی کی ایک ساعت مقرر ہے اس نے اسی ساعت میں ظہور پذیر ہونا ہے’’

    ’’تم کہاں سے آئے ہو؟’’

    ‘’میں شمال کا رہنے والا ہوں ہم ابدی زندگی کے چشمے کے وارث اور ستاروں کے ورثے کے امین کہلاتے تھے’’

    ’’وہاں سے کوچ کرنے کی وجہ؟’’

    ‘’جب سے ہمیں سیاہ دھبوں کی وبا نے چاٹنا شروع کیا ہمارے قدم منجمد ہونا شروع گئے ہاتھوں میں رعشہ اترا تو وقت ہمیں پچھاڑ کر آگے بڑھنا شروع ہو گیا چاروں طرف سے ہونے والی یلغار سے ہمارے چہرے مسخ ہوتے گئے’’

    ’’مسخ؟ کیا ہوا؟ مسخ کیسے ہونا شروع ہو گئے؟’’

    ‘’ہمارے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ صدیوں پہلے ہمارا ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک خاص قسم کے نور کے ساتھ پیدا ہوتا تھا پورے وجود سے روشنی پھوٹتی نظر آتی تھی زیبائی کا یہ تحفہ ہمیں قدرت کی طرف سے ودیعت کیا گیا تھا لیکن ایک دن اچانک ہم میں سے چند ایک نے اِسے فروخت کر دیا حاصل ہونے والا فائدہ اتنا زیادہ تھا کہ دوسرے لوگ بھی خود کو روک نہ سکے پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہماری گریس دوسروں کے پاس گویا رہن رکھی ہوئی تھی

    ’’پھر کیا ہوا؟’’

    ‘’کیا مجھے ایک گلاس پانی مل سکتا ہے؟ بول بول کر میرا حلق خشک ہو رہا ہے۔۔۔ آہ۔۔۔ میں پانی کے حیات بخش ذائقے کو ترس گیا ہوں

    ’’ تم اپنی بات مکمل کرو میں دیکھتا ہوں’’

    ‘’ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ ہم نے تجارت شروع کر دی۔۔۔ ہم جو سنہری چشمے کے وارث اور ستاروں کے امین تھے’’

    ’’ یہ بات میں سن چکا ہوں کیا بہترنہ ہو گا تم مختصر الفاظ میں اپنی کہانی بیان کرو’’

    ‘’میرے پاس بتانے کو کچھ زیادہ نہیں ہے صدیوں تک ایسا ہی ہوتا آیا ہماری سنہری رنگت دھیرے دھیرے ماند پڑنے لگی ہمارے چہروں پر عجیب طرز کے سیاہ دھبے نمودار ہوئے اور بڑھتے گئے ہر کوئی اِن سے خوفزدہ تھا لیکن ان کے ظاہر ہونے کے سبب سے ناواقف’’

    ’’کیا اسے لاعلمی سے تعبیر کیا جائےگا؟’’

    ’’ہاں تم شاید ٹھیک کہتے ہو’’

    ’’ہم اس تحفے کی اصل قدرو قیمت سے آگاہ نہ تھے ہوتے بھی تو کیسے ہمارے لیے تو یہ بالکل عام سی بات تھی لیکن جب پتہ چلا بہت دیر ہو چکی تھی ہمارے ہاتھوں پاؤں میں رعشہ اتر آیا نسیان کا مرض ہماری یاداشتوں کو کھا گیا طبیبوں کا کہنا تھا یہ مرض معتدی ہے اڑ کر آن لگتا ہے‘’

    ‘’میں نے پہلی بار جب ایک مریض کو دیکھا تو بہت خوفزدہ ہو گیا تھا وہ شفا خانے میں ایک جگہ کھڑا تھا اس کے قدم لگتا تھا جیسے زمین نے جکڑ لئے تھے بدن میں شدید قسم کا ہیجان اور بیقراری تھی وہ اپنے روزمرہ کے افعال بھی مناسب انداز میں سرانجام نہیں دے پاتا تھا تیمارداری کرنے والی خاتون اس مریض کے پیچھے کھڑی تھی۔

    ’’یک، دو، تین۔۔۔ ایک بڑا سا قدم’’

    وہ اسے قدم اٹھانے پر مائل کر رہی تھی۔

    ‘’لیکن اس کے’’ بڑا سا قدم ’’کہنے کے باوجود مریض کے پاؤں بمشکل زمین سے اٹھتے اور پھر وہیں جم جاتے وہ بےدم سا ہو کر آگے کی طرف جھکتا جاتا یہاں تک کہ اپنا توازن کھو دیتا تیماردار خاتون کی آواز میرے اعصاب پر ہتھوڑے برسا رہی تھی میں تیزی سے گھر کی طرف بھاگا، لیکن راستے میں ہر جگہ لوگ اِسی طرح قدم اٹھانے کی کوشش میں نڈھال نظر آئے آہستہ آہستہ پوری بستی منجمد ہونے لگی

    خاموشی کا ایک اور لمبا وقفہ۔۔۔

    ’’کیا ہوا خاموش کیوں ہو؟’’

    ‘’میں سوچ رہا ہوں ہم نے کتنی بڑی بھول کی۔۔۔ ہماری زیبائی سے ایسی ادویات تیار ہونے لگیں جو کسی بھی نئے پیدا ہونے والے بچے کو سنہری جلد کا تحفہ عطا کر سکتی تھیں شمالی نہ ہونے کے باوجود نسل در نسل بچے اُسی گریس کے ساتھ پیدا ہوتے گئے مکمل طور پر نہ سہی مگر ان میں ہماری زیبائی کا پرتو جھلکتا تھا تم کیا کہتے ہو اس بارے میں؟’’

    ’’دیکھو میں اپنی رائے دینے کا مجاز نہیں ہوں اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بات طے ہے عطا کو صرف قدر ہی دوام بخش سکتی ہے’’

    ایک طویل سرد سانس۔۔۔ اور خاموشی کا ایک اور وقفہ۔۔۔

    ’’میں تمہاری بقیہ کہانی سننا چاہوں گا بتاؤ پھر کیا ہوا؟’’

    ‘’پھر کیا ہونا تھا ہماری بدلتی ہیئت سے دوسرے خوفزدہ رہنے لگے تو کچھ شمالیوں نے اپنے بدن ایک خاص قسم کی مٹی سے رنگنے شروع کر دیئے یہ ہماری تباہی پر آخری مہر تھی یہ مٹی ہر ایک پر الگ الگ اثر کرتی تھی ہماری یک رنگی اور پہچان کھو گئی تو باہر سے در آنے والوں نے ہماری زیبائی کی فریبی رداء اوڑھ کر ہماری زندگیوں میں انتشار بونا شروع کر دیا اور ہم۔۔۔ کیا کیا بتاؤں تمہیں اب’’

    ’’کیا تمہارے ہاں کو ئی ایسا طبیب نہ تھا جو اس بیماری کا علاج کر پاتا؟’’

    ‘’طبیب بہت تھے اور اعلیٰ پائے کے بھی لیکن شاید ہم سے ہماری گریس ہی نہیں چھنی تھی شعورو وجدان بھی رخصت ہو گیا تھا ہم ہواؤں کے رُخ نہیں پہچان پائے اور آند ھیوں نے اپنے دوش پر رکھی آگ سے ہمارے گھر پھونک دئیے’’

    ’’جب آگہی کا نور ڈھانپ دیا جائے تو اندھیرا مدتوں ٹھہرا رہتا ہے لیکن اس چشمے کاکیا ہوا،؟ میں نے تو سنا تھا اس کاپانی آبِ شفا کہلاتا تھا’’

    ‘’تم نے ٹھیک سنا۔۔۔ اس چشمے کا پانی واقعی آب شفا ہے لیکن وقت نے ہم سے عجیب سی چال چلی ہمارے عقل و شعور سلب ہوئے تو ہم نے اس چشمے کو محض برکات تک محدود کر دیا اسے کاروبار اور طاقت کا ذریعہ بنا لیا‘’

    ‘’ہمارے گلے سڑے بدن تعفن پھیلا رہے تھے ہم بینائی رکھتے ہوئے بھی اندھے شنوائی کے باوجود بہرے اور نا طق ہوتے ہوئے بھی گونگے ہو گئے آنے والے بے مہر وقت کی چاپ ہمیں ڈرانے لگی لیکن واپسی کا کوئی راستہ نہ تھاہم کسی ریوڑ کی طرح بے جہت بھاگ رہے تھے۔۔۔ میری بیوی امید سے تھی اور میں چاہتا تھا کہ ہمارا بچہ اپنی اصلیت کے ساتھ پیدا ہو اسی سنہری رنگت کے ساتھ جو فطرت کی عطا تھی’’

    ’’تم جانتے ہو مسافر عطا روٹھ جائے تو کیا ہوتا ہے؟’’

    ‘’ہاں۔۔۔ عطا روٹھ جائے تو وقت کے ترازو میں رکھا ہر عمل خفیف اور ارزاں ہو جاتا ہے آوازیں بانجھ اور حروف تاثیر سے عاری۔ بارشیں روک دی جاتی ہیں اور زمین عفریت بن کر اپنے اوپر رہنے کا تاوان لاشوں کی صورت میں وصول کرتی ہے’’

    تو تم نے اسی ڈر سے وہ بستی چھوڑ دی؟’’

    ‘’میں بھاگا نہیں ہوں مجھے اپنے لوگوں کی چیخیں سونے نہیں دیتیں نوحے رلاتے ہیں کر لاہٹیں بے دم کر دیتی ہیں میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں’’

    ’’تمہیں یہاں کا پتہ کس نے بتایا؟’’

    ‘’بستی کے دوسرے کنارے پر رہنے والے عبادت گزار بوڑھے نے وہ بستی کا واحد شخص ہے جو اِس بیماری سے محفوظ ہے لوگ اسے جادوگر سمجھتے ہیں اِس لیے وہ بستی کے دوسرے کنارے پر جا بسا’’

    ’’اب تم کیا چاہتے ہو؟’’

    ’’میں اس سے ملنا چاہتا ہوں مجھے تریاق کا پتہ جاننا ہے، لیکن اِس سے پہلے مجھے اپنی بیوی کے لئے کوئی دوا چاہیے وہ سخت تکلیف میں ہے’’

    ’’او.......... تم نے بتایا کہ وہ تخلیق کے مراحل سے گزر رہی ہے’’

    ‘’ہاں تکلیف، بھوک اور کئی دنوں کے سفرکی تکان نے اُسے نڈھال کر دیا ہے’’

    تم پاک طنیت اور پاک دل معلوم ہوتے ہو میں تمہارے باطن میں روشنی محسوس کر سکتا ہوں’’

    ‘’کیا مجھے ایک گلاس پانی مل سکتا ہے اور نہیں تو وہ کم از کم اپنے ہونٹ ہی تر کر لے’’

    ’’ہر طالب عطا کاسزاوار ہے، تم بھی محروم نہیں رکھے جاؤ گے لیکن ایک بات یاد رکھنا اگر اندر کی آنکھ بند ہو تو ظاہری آنکھ بھی اندھیرا اوڑھ لیتی ہے’’

    ‘’ہاں سمجھ گیا بس ایک گلاس کافی ہوگا’’

    ’’یہ لو’’

    شفاف سیال سے بھرا سنہری کانچ کا گلاس اس کی طرف بڑھا دیا جاتا ہے۔

    ’’اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے’’

    ’’یہ پانی ہی ہے نا؟ اس کی رنگت قدرے مختلف ہے’’

    اس نے بوڑھے کی بات پر دھیان دئیے بغیر گلاس سے چند بڑے گھونٹ بھرے۔

    ‘’سپاس گزار ہوں میں یہ بقیہ پانی اپنی بیوی کو دے کر آتا ہوں’’

    ’’بار دیگر اظہار تشکر قبول ہوچند گھونٹ پانی نے ہمارے مردہ تنوں میں جیسے نئی زندگی پھونک دی ہو لگتا تھا جیسے یہ آبِ شفا ہو’’

    بوڑھے کے چہرے پر زیرِ لب تبسم نمودار ہوا۔

    جز کو کل پر فوقیت دینے سے آفاقی دکھوں کی میعاد بڑھ جاتی ہے’’

    ‘’میں سمجھا نہیں؟’’

    ’’جلد سمجھ جاؤگے’’

    ‘’خیر یہ بتاؤ کیا اب میں اس سے مل سکتا ہوں؟’’

    ’’تمہاری طلب کو نوازا جا چکا ہے’’

    دودھیا دانت پھر سے دکھائی دینے لگے بوڑھے کا چہرہ ایک دم لَو دینے لگا تھا۔

    یکایک مسافر نے دیکھا وہ خالی گلاس کے ساتھ کچے راستے پر تنہا کھڑا ہے بیل گاڑی میں پڑے پرانے کمبل سے سنہری لو چھن رہی تھی اس کی بیوی پرسکون ہو چکی تھی

    دور اس شمالی بستی کے ایک کچے مکان میں جھلنگا سی چارپائی پر لیٹے بوڑھے عبادت گزارکا سینہ جانے کیوں ایک بار پھر دکھ سے بھر گیا۔

    ’’ایک، دو، تین، بڑا سا قدم’’

    قریبی مطب سے آتی آوازیں تیز ہونے لگیں.

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے