Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹوٹی شاخ کا پتہ

صادقہ نواب سحر

ٹوٹی شاخ کا پتہ

صادقہ نواب سحر

MORE BYصادقہ نواب سحر

    کار تیزی سے بورگھاٹ کی پہاڑیوں سے گزرتی جا رہی تھی۔ رئیسہ کار کی پچھلی سیٹ پر لیٹی ہچکولے کھا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کسی اندرونی درد کا اظہار کر رہی تھیں۔ آگے ڈرائیور کی سیٹ پر شہزاد بیٹھا تھا۔

    ’’شیزو!‘‘ اس نے بےاختیار آواز دی، ’’اور کتنا راستہ باقی ہے؟‘‘

    شہزاد نے شاید اس کی بات سنی ہی نہیں تھی۔ سیٹی پر کسی تازہ فلم کی دھن بجاتا رہا۔

    ’’ذرا تیز چلاؤ۔‘‘

    ’’او کے‘‘، شہزاد نے کہااور دوبارہ سیٹی بجاتے ہوئے کار کو موڑ پر گھمانے لگا۔

    کھنڈالہ پہنچتے پہنچتے دھوپ چڑھ چکی تھی۔ شہزاد بھوک سے بے حال تھا مگر رئیسہ کو بالکل بھوک نہیں تھی۔ اس کی بھوک کسی کی بےوفائی کی یاد نے ختم کر دی تھی۔ آخر شہزاد کی ضد پر اس نے کھانا کھا ہی لیا۔

    دو وسیع کمروں کی مشرقی اور مغربی کھڑکیوں کے قریب صاف ستھرے پلنگ لگوا دیئے گئے تھے۔ سامنے کشادہ گیلری، ایک جانب کچن، دوسری طرف بڑا سا ہال، سونے کے کمرے سے ملحق باتھ روم، ہلکا پھلکا فرنیچر، کچن میں گیس کی سہولت، بہر حال ہر طرح کا آرام تھا۔

    ’’شیزو! بنگلہ تو بڑا پیارا ہے۔ رئیسہ نے خوش دلی سے کہا۔

    ’’بہت خوبصورت‘‘ شہزاد نے بھی خوشی کا اظہار کیا۔

    سامان اندر رکھواکر بنگلے کے باہر بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے رئیسہ اور شہزاد چائے کا انتظار کرنے لگے کہ منیرنظر آ گیا۔ اس کے ساتھ تین لوگ تھے۔ سبھی سیاہ سوٹ اور نیلی ٹائیوں میں ملبوس تھے۔ شاید وہ اپنے کلائنٹس کے ساتھ تھا۔ حیران حیران سا ان دونوں کو دیکھنے لگا۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں سے کچھ کہہ کر رئیسہ کے قریب آیا۔ وہ تینوں کانفرنس ہال کی طرف بڑھ گئے۔

    ’’جناب منیر صاحب! ان سے ملئے۔ یہ ہیں شہزاد میرے۔۔۔‘‘

    ’’نئے ڈرائیور!‘‘

    ’’دوست ہیں۔‘‘ رئیسہ نے منیر کے لہجے کی کاٹ اپنی مسکراہٹ سے دبا دی۔’’ کل ہماراپنچ گنی کا پروگرام ہے۔ کیا آپ ہمارا ساتھ دینا پسند کریں گے؟‘‘ رئیسہ نے پوچھا اور آگے بڑھ گئی۔

    ’’ڈرائیورکی ضرورت ہو تو ساتھ لے چلو۔‘‘ منیر کے لہجے کی کاٹ کو انجان بن کر اڑن چھو کرتے ہوئے رئیسہ مسکراکر بولی،’’صبح نو بجے نکلیں گے۔‘‘

    شہزاد آزاد خیال، امیر والدین کی اکلوتی اولاد۔ زندگی کے پل پل سے لطف اندوز ہونے کا خواہشمند، چوبیس سالہ نوجوان کسرتی جسم کا مالک تھا اور رئیسہ چھتیس برس کی حسین عورت، کمر کو چھوتے گھنگھرالے بال اس کے حسن میں اضافہ کر رہے تھے۔

    ’’تم اتنی دکھی کیوں ہو؟‘‘ شہزاد نے سوال کیا تو وہ ہنس دی۔

    ’’بھائی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اسی لیے نا؟‘‘ وہ جان بوجھ کر انجان بننے لگا۔

    ’’ارے بھئی شہزاد تم بھی کہاں کی کہانی لے بیٹھے۔‘‘ کہنے کو تو اس نے کہہ دیا لیکن اس کا بے چین دل کہہ رہا تھا، ’’شہزاد! تمہارے بھائی صاحب تو میرے لیے اسی دن مر چکے، جب انھوں نے شادی کی پیشکش رکھی۔‘‘

    رئیسہ نو سال کی تھی جب نوشابہ بیاہ کر ان کے پڑوس میں آئی تھیں۔ اس منی سی بچی سے انھیں بےحد پیار تھا۔ ’’رئیسہ رئیسہ‘‘ کہتے نہ تھکتی تھیں۔ نوشابہ کی سسرال میں کوئی نہیں تھا۔ وہ جلدی جلدی نوکروں سے کام کروا کر اس کے لئے فرصت بنا لیتیں۔ شام کور ئیسہ اسکول سے ان کے یہاں آ جاتی اور پھر اپنی ماں کو بھی یاد نہ کرتی۔ ان کے شوہر مظہر بھی اکثر اسے پاس بٹھا کر کہانیاں سناتے۔ بھوتوں کی ڈراؤنی کہانیاں۔۔۔ اور وہ رات میں ڈر کر اپنی ماں سے لپٹ جاتی۔

    دن ہمیشہ ایک جیسے کہاں رہتے ہیں! وقت ایک جگہ پر کہاں ٹھہرتا ہے! رئیسہ بڑی ہو چکی تھی۔ باجی اب بھی اسے گھر بلاتیں مگر وہ ماں کا چہرہ دیکھ کر انکار کر دیتی، البتہ صبح کے وقت اپنے گھر کے صحن میں لگی گلابوں کی کیاریوں کو پانی دیتے ہوئے مظہر بھائی سے گفتگو ہو جاتی۔ شام کے وقت وہ اپنے لان میں چائے کا انتظار کرتے ہوئے ملتے۔ باجی اکثر اندر باورچی خانے میں تلن میں مصروف ہوتیں۔ مظہر بھائی جانے کہاں کہاں سے لطیفے اور مزے مزے کے واقعات یاد رکھ کر اسے سناتے۔ وہ بھی میٹھی میٹھی باتیں کرتی۔ خوب ہنستی۔ باجی چائے لے آتیں تو وہ بھی محظوظ ہوتیں۔

    ’’آؤ رئیسہ بی! ساتھ چائے پئیں۔‘‘، وہ پیار سے آواز دیتیں، دیکھو تمہارے پسندیدہ سموسے بنائے ہیں قیمے کے۔‘‘

    ’’باجی! وہ مجھے ذرا کام ہے۔‘‘ وہ جھجھکتے ہوئے کہتی۔ یہیں دے دیں تو اور بات ہے۔ آپ کا دل رکھنے کے لیے کھا لوں گی۔‘‘ پھر تینوں بڑے مزے سے ہنسنے لگتے۔

    ’’اور آپ باجی۔‘‘ رئیسہ سموسے کا بڑا سا ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ لیتی۔

    ’’وہ تو پکاتے پکاتے کھاتی رہتی ہیں۔ دیکھو نا کیسی موٹی تازی ہو گئی ہیں۔‘‘ مظہر ایک طویل قہقہہ لگانے کا لطف لیتے۔

    نوشابہ رئیسہ کے دکھ کو سمجھتی تھی۔ اس کی دونوں بڑی بہنیں سولہ اور اٹھارہ سال کی ہو چکی تھیں۔ باپ کمپاؤنڈری کرتے کرتے چار پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔ امی کی خواہش تھی کہ اپنی بچیوں کو اچھی تعلیم دیں لیکن ممبئی کے مضافات میں تھانے ضلع کے وسئی شہر میں ہتی محلہ ‘میں نانا میاں کی درگاہ کے قریب اپنے خاندانی مکان میں ایک حصے کو کرائے پر اٹھا دینے سے صرف پانچ ہزار روپے ہاتھ آتے تھے۔ چنانچہ لڑکیوں کی پڑھائی روک دی گئی اور رئیسہ تیسری جماعت میں ہی گھر بٹھالی گئی۔ ویسے بھی اسے پڑھائی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اسے تونئی نئی دوست بنانے، کھیلنے کودنے اور گانے بجانے کا شوق تھا۔ اس وقت تو اسے باجی پر بہت غصہ آیا جب انھوں نے رئیسہ کی پڑھائی کا ذمہ اپنے سر لینا چاہا۔ رئیسہ نے انکار کر دیا لیکن امی نے اشاروں اشاروں میں اکبر کی پڑھائی کی طرف دھیان دلا دیا اور باجی بات گول کر گئیں۔

    اکبر امی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ آوارہ گرددوستوں کی صحبت نے اسے نکمہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ اپنے گھر کے پچھواڑے کے گھروں کی قطار سے گزر کر تکیہ محلہ سے نکل کروہ سمندر کے ساحلوں پر دوستوں کے ساتھ خرمستیوں میں مگن رہتا۔ کبھی تیرتا ہوا سمندر میں بنے وسئی قلعے تک پہنچ جاتا۔ کبھی درگاہ کی پشت سے کولی واڑا، ہولی اور بندر محلہ میں دھوم مچاتے ہوئے اس طرف کے قلعے پر شرارتوں کے جھنڈے گاڑتا۔ ناریل اور تاڑ کے پیڑوں پر چڑھ جانا اس کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کبھی پاپلیٹ، گھول، سرمئی، حلوہ مچھلیاں شکار کر لاتا۔ کبھی دوستوں سے سوکھے جھینگے مانگ کر گھر لے آتا اور پکانے کی فرمائش کرتا۔ اس کے ساتھی بگڑے ہوئے امیر عیسائی کولی تھے۔

    سب قابل برداشت تھا لیکن جب اکبر بہنوں کی شادی کے لیے رکھے ہوئے زیور سمیت ایک دوست کی بہن کو لے کر فرار ہو گیا تو امی کی کمر ٹوٹ گئی۔وہ دیوانی سی ہو گئیں۔جوان بیٹیاں پہاڑ معلوم ہونے لگیں۔ اب ایسے کی بہنوں کو کون شریف بیاہےگا!

    دن اپنے سارے بکھیڑے ختم کرکے کوچ کر چکا تھا۔ بارش کی آمد آمد تھی۔ بادل مہیب دیو کی طرح بانہیں پسارے گویا کسی شکار کی تلاش میں سرگرداں نظر آ رہے تھے۔ امی ٹین میں بچے کھچے چاول صاف کر رہی تھیں۔ تینوں بیٹیاں خاکی کاغذوں سے لفافے بنا رہی تھیں کہ یہی ان کی روٹی روزی کا ذریعہ رہ گیا تھا۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔ رئیسہ اٹھی۔ دروازہ کھلا۔

    ’’السلام علیکم‘‘، مردانہ آواز آئی۔بڑی دونوں نے کاغذ ، لفافے سمیٹے اور اندر کو دوڑیں۔

    ’’وعلیکم السلام مظہر بھائی!‘‘ رئیسہ نے بڑھ کران کے سلام کا جواب دیا۔ اس نے دو ہفتوں بعد انھیں دیکھا۔ مظہر کام کاج کے سلسلے میں گوا گئے ہوئے تھے۔ نوشابہ کا مائیکہ وہیں کا تھا۔ گوا کے شہر ’ماپسا‘ میں انہوں نے ایک بنگلہ بھی خرید رکھا تھا، جس کی دیکھ بھال بھی ہو جاتی تھی، اسی لیے وہ بھی ساتھ گئی تھیں۔

    ’’باجی آ گئیں؟‘‘ رئیسہ نے چہک کر پوچھا۔

    ’’آج وہ کرن پانی گاؤں اپنی ایک دوست کے گھرگئی ہیں۔‘‘

    ’’کِرن پانی! گاؤں کانام!!؟‘‘ وہ ہنس دی۔

    ’’کہا جاتا ہے کہ یہاں سمندر میں ویتال کی مورتی ملی تھی۔ سورج کی پہلی کرن اسی مورتی پر پڑی تھی۔ اس مورتی کو پانی سے نکال کر مندر میں رکھ دیا گیا اسی سے اس کا نام کرن پانی پڑ گیا۔ ‘‘

    ’’راجہ وکرمادتیہ اور اور بےتال والے ویتال؟؟ ہم نے بچپن میں ٹی وی پر ان کی کہانیاں دیکھی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں ہاں وہی۔ گوا میں سبھی جگہ ویتال کی مورتیاں ہیں۔ کرن پانی ،ماپسا سے بس آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔‘‘

    ’’باجی بتا رہی تھیں کہ گوا بہت خوبصورت ہے۔ہمیں بھی لے چلئے نا کبھی گوا!‘‘

    اور اس سے پہلے کہ مظہر کچھ جواب دیتے امی نے رئیسہ کو حکم دیا، ’’رئیسہ چائے لے آؤ۔‘‘ اور وہ خاموشی سے اندر چلی گئی۔ بڑی آپا سے چائے کا کہہ کر وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ہوکر ان دونوں کی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگی۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے اس نے بچپن میں بارہا امی کی مار بھی کھائی تھی مگر کمبخت چھوٹتی ہی نہیں تھی اور پھر مظہر بھائی کی باتیں۔ میٹھی میٹھی اور پیاری! اس نے کسی ایسے ہی صحتمند مہذب نوجوان کا خواب دیکھا تھا۔ وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔

    ’’پھر نوشابہ کا کیا ہوگا؟‘‘ امی کی دھیمی آواز آئی۔

    ’’آپ جانتی ہی ہیں میں اولاد کا خواہشمند ہوں۔ دس سال ہو چکے ہیں۔ اب تو ڈاکٹروں نے بھی کہہ دیا ہے۔ سب کچھ ہے پھر بھی کسی چیز کی کمی ہے۔ اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ اسے الگ رکھوں گا۔ ‘‘

    ’’رئیسہ میری سب سے چھوٹی اور نازوں کی پلی بیٹی ہے۔ پھر ابھی بڑی دو بھی تو بیٹھی ہیں۔‘‘ امی نے دوسرا رخ پیش کیا۔

    ’’میں رئیسہ کو زیادہ بہتر جانتا ہوں۔‘‘ مظہر نے ذرا مستحکم لہجے میں کہا۔

    ’’جیسی آپ کی مرضی۔‘‘ امی کی نڈھال آواز آئی، ’’آج نہیں تو کل اس کی بھی تو شادی ہونی ہی ہے۔‘‘

    ’’آپ لوگ میرے لئے غیر تو نہیں۔ میں اکبر کو دوکان میں لگوا دوں گا۔ آپ اسے بلوا لیجئے، ورنہ میں اپنی چوک کی دوکان کا کرایہ آپ کے نام لکھ دیتاہوں۔‘‘ بڑے کاروباری انداز میں کہا گیا۔ رئیسہ کو نتھو بنئے کا خیال آیا۔ وہ بھی تو کچھ اسی انداز میں سودا کرتا ہے۔

    پھر جاتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔

    ’’چائے لے جاؤنا!‘‘، بڑی آپا رئیسہ کو جھنجھوڑ رہی تھیں لیکن جیسے وہ سن ہی نہیں پا رہی تھی۔ اس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ مظہر بھائی اب عظیم نہیں رہے تھے۔ کانچ کے گُڈّے کی طرح نیچے آ رہے تھے..

    ’کیا میں اپنی پیاری نوشابہ باجی کا گھر اجاڑ دوں گی!۔۔۔‘‘ رئیسہ نے اپنے آپ سے پوچھا۔

    ’’ہرگز نہیں۔‘‘ رئیسہ نے نہایت جذباتی ہوکر سوچا۔

    رات دسترخوان پر کئی قسم کی مٹھائیاں رکھی ہوئی تھیں لیکن کسی نے انھیں ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ بہنیں سخت ناراض تھیں مگر امی کے چہرے پر اطمینان بخش کش مکش کی لہریں ابھر اور مٹ رہی تھیں۔

    ’’امی میں شادی نہیں کروں گی۔ بڑی آپا اور چھوٹی آپا دونوں کی کر دیں۔ میں آپ کے پاس ہی رہوں گی۔‘‘رئیسہ نے شکایتی لہجے میں کہا۔

    ’’ان دونوں کی شادی مظہر میاں کروا دیں گے۔‘‘ امی نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔

    ’’رئیسہ تو پندرہ سال کی بھی نہیں ۔اور وہ پینتیس۔۔۔ چالیس۔۔۔‘‘

    ’’چپ کر بڑی! اس کے نصیب کھلے ہیں تو تجھے کیا!‘‘وہ سختی سے بولیں اور بڑی گنگ رہ گئی۔ یہ تو مطلب نہ تھا اس کا!

    ’’امی مجھے نوشابہ باجی بہت پیاری ہیں۔‘‘ رئیسہ دھیرے سے بولی۔

    ’’اسی لئے تو تجھے اس کی پناہ میں دے رہی ہوں۔‘‘

    پھر کوئی کچھ نہ بولا۔

    رئیسہ اور مظہر کی شادی ہو گئی۔ نوشابہ پھر گوا سے نہیں لوٹی۔ اس نے کبھی رئیسہ سے رابطہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ اسے محبت راس نہیں آئی تھی۔ رئیسہ اس کے بسائے ہوئے گھرمیں رہنے لگی۔ اس کی زندگی میں ایک غیر متوقع انقلاب آ چکا تھا اور رئیسہ کے دل میں اٹھی نفرت کی چنگاری سونے کے ڈھیر تلے دبا دی گئی۔ حسن سنور کر اور نکھر گیا۔ اس کی دونوں بہنیں کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ دی گئیں۔ امی اکیلی اپنے مکان کے ایک کونے میں پڑی رہتیں لیکن رئیسہ کا دل نہ چاہتا کہ ان کے گھر جائے۔ وہ بیچاری تڑپتی رہتیں۔ بیٹے کی آس تو کب کی چھوڑ چکی تھیں۔ عید برات کے روز تینوں بہنیں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ ماں کے گھر یکجا ہوتیں۔ خوب ہنسی مذاق ہوتا۔ بڑی اور منجھلی کے شوہر اپنی بیویوں سے خوب چھیڑچھاڑ کرتے۔ گپیں ہوتیں لیکن مظہر صرف مسکراتے رہتے۔ شاید ان کے سامنے وہ اپنے کو بزرگ محسوس کرتے تھے۔ بہنوں کے بچوں کو دیکھ کر رئیسہ کو رشک سا محسوس ہوتا۔ وہ بہنوں کے سامنے جان بوجھ کر زیوروں سے لدی پھندی جاتی۔ لیکن ان کے گلوں میں جھولتے بچوں کو دیکھ کر اسے اپنے زیور بوجھ لگنے لگتے۔

    پھر رئیسہ نے بناؤ سنگھار کرنا چھوڑ دیا۔ سادگی اختیار کر لی۔ مظہرجب بھی گھر میں رہتے، رئیسہ انھیں زیادہ تر قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف دکھائی دیتی۔ مظہر بھی شاید اس کے جذبات کو سمجھتے تھے۔انھوں نے اس کی اپنی طرف سے بے پروائی کی کبھی شکایت نہیں کی لیکن اس سرد مہری نے انھیں گھلاکر رکھ دیا۔ کارو بار میں زیادہ دھیان دینے لگے۔ وہ اکثر گھر سے باہر ہی رہتے۔

    شام کے پانچ بج رہے ہوں گے۔ رئیسہ ٹہلتے ٹہلتے اپنی امی کے گھر کے پچھواڑے نکل آئی۔ برآمدے میں منیر بیٹھا کینوس میں قید برفانی منظر میں رنگ بھر رہا تھا۔

    ’’تصویر بناؤگے میری بھی؟‘‘ وہ منڈیر پر بے تکلفی سے بیٹھ گئی۔

    ’’ہاں کیوں نہیں!‘‘ منیرکی محویت ٹوٹی، ’’مصوری میں ایم اے کس لیے کر رہا ہوں!!‘‘ اس نے اپنی ڈگری جتا دی۔

    ’’لیکن معاوضہ کتنا ہوگا؟‘‘

    ’’جتنا تم چاہوگی۔‘‘ وہ مسکراکر تصویر مکمل کرنے لگا۔ رئیسہ کی خاموشی سیپلٹ کر بولا، ’’ارے نہیں، میں تو یونہی کہہ رہا تھا۔‘‘

    ’’میں اپنے بچپن کی دوست سے معاوضہ لوں گا!!‘‘

    وہ چونکی۔ ’’مگر محنت تو تم کروگے ہی۔۔۔اور پھر سامان کا خرچ۔۔۔!!‘‘

    ’’پھر!!‘‘

    ’’معاوضہ بھی لینا ہوگا۔‘‘

    ’’مغرور‘‘، منیرنے زیرِ لب کہا تو وہ گنگ رہ گئی،’’ پھر کل سے یہاں آ جایا کروگی؟‘‘

    ’’اگر مغرور نہ سمجھو تو میرے یہاں آ جاؤ۔‘‘

    ’’بچے ڈسٹرب کریں گے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    تمہارے بچے نہیں؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ کہتے ہوئے وہ منڈیر سے اٹھی اور گھر چلی آئی۔

    تصویر پر رنگ بکھیرتے بکھیرتے منیرنے رئیسہ کی زندگی کی بے رنگی کو بھی جان لیا۔ بےرنگ اداس زندگی میں اس نے شوخ چٹکیلے رنگ بھرنے شروع کر دیئے۔ وہ اپنے پینٹنگ جگت کے تجربے بلکہ دنیا بھر کی دلچسپ خبریں اسے سناتا اور رئیسہ کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر خوش ہوتا۔ رئیسہ نے بھی اپنی ہنسی کی آواز سولہ سال بعد پہلی بار سنی تھی۔ اسے مظہرکا خیال آ جاتا۔ وہ بیچارے تو اتنے سالوں میں اس کی پہلی سی کھلی مسکراہٹ کو ترستے رہے تھے۔ وہ منیر کے ساتھ خوش تھی۔

    مظہر سنگاپور کے سفر سے لوٹ آئے تھے۔ لان میں مظہر، رئیسہ اور منیر کے ساتھ چائے پی رہے تھے۔ رئیسہ نے اپنے ہاتھوں سے ان کے پسندیدہ قیمے کے سموسے اور پڈنگ تیار کیے تھے۔

    ’’اس بار آپ کی کمی بہت محسوس ہوئی۔‘‘ رئیسہ نے چہک کر مظہر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

    ’’کیوں؟ ‘‘

    ’’کیونکہ۔۔۔ کیونکہ‘‘ وہ بوکھلا گئی۔’’بہت اکیلی ہو گئی ہوں نا!‘‘

    ’’وہ تو پہلے بھی تھیں۔‘‘ مظہر نے بے پروائی سے کہا۔

    منیرکا ہاتھ پڈنگ کی طشتری پر رک گیا۔

    ’’اس بار آپ کچھ دنوں کے لیے میرے پاس رہیں۔ ہم شاہ بابا کی درگاہ پر جائیں گے۔‘‘

    ’’کوئی خاص بات؟‘‘

    ’’ہاں منت مانی ہے۔‘‘

    ’’کیسی منت؟‘‘

    ’’ایسے ہی۔ کہتے ہیں، شاہ بابا کے دربار سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔‘‘

    ’’کیا مانگوگی؟‘‘

    ’’ہماری زندگی۔‘‘

    ’’پینٹر صاحب کے ساتھ چلی جاؤ۔‘‘ انہوں نے سادگی سے کہا۔ رئیسہ اور منیر دو نوں ہی کے دل کانپ گئے۔

    ’’آپ سنگاپور تھے، تب میں منیر کے ساتھ دو بار شاپنگ کے لئے چلی گئی تھی۔ ڈرائیور نہیں آیا تھا نا!‘‘ رئیسہ نے اطلاع دی۔

    ’’پتہ ہے۔‘‘ مظہر نے معمولی لہجے میں کہا۔

    ’’کیا!!‘‘ رئیسہ کے منہ سے نکلا۔

    ’’مظہر بھائی صاحب! مجھے اجازت دیں۔‘‘ منیر چائے کا آخری گھونٹ حلق میں انڈیل کر اٹھ کھڑا ہوا بولا، ’’ایک ضروری میٹنگ کے لیے پونا جانا ہے۔ ‘‘

    ’’بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ آپ کے لوٹنے سے پہلے میرا ٹور طے ہے۔ اگلی بار جب لوٹوں تب تک شاید آپ کی کئی تصویریں بن جائیں!‘‘

    ’’خدا حافظ‘‘ منیرنے کہا اور جلدی سے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

    ’’اچھا منیر صاحب خدا حافظ!‘‘مظہر نے ذرا زور سے آواز لگائی۔

    ’’چلوگے نا میرے ساتھ؟‘‘ اپنی شادی شدہ زندگی میں وہ پہلی باروہ مظہر سے اس طرح لبھاؤنے انداز میں بولی تھی۔

    ’’کل جمعرات بھی ہے۔‘‘

    ’’کہا تو منیر کے ساتھ چلی جاؤ۔‘‘

    ’’مگر وہ تو پونا جا رہا ہے۔‘‘

    ’’اس سے کہہ دو کہ پونا پرسوں چلا جائے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘وہ منہ پھلا کر بولی،’’ آپ کے رہتے میں کسی کے ساتھ کیوں جاؤں؟‘‘ آج وہ اپنی تمام ادائیں ان پر صرف کر رہی تھی۔ پچھلے کچھ برسوں میں مظہر ذیابیطیس سے پوری طرح ڈھل گئے تھے۔ آنکھوں کی روشنی کم ہو چلی تھی۔ آج وہ اپنے بڑھاپے کو شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ اپنی جوان بیوی کی نازبرداری ان سے نہ کی گئی۔ زندگی کے پچپن سال انہیں بوجھ لگنے لگے۔

    ’’ٹھیک ہے، مجھے پرسوں ٹور پر جانا ہے۔ کل درگاہ لے چلوں گا۔‘‘

    ’’کچھ دن نہیں رہوگے میرے ساتھ؟‘‘

    ’’میرا کتنا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ رہوں۔‘‘

    ’’مظہر نے تعجب سے اسے دیکھا۔ اتنے سالوں کے انتظار کے بعد رئیسہ کی زبان شہد ٹپکا رہی تھی۔ انھوں نے بھرپور نظروں سے جائزہ لیا۔ گلابی شلوار قمیص، سچی موتیوں کی مالا، کانوں کیہیروں کے جھمجھماتے بوندے، سونے میں گندھے ہوئے ہیروں کے کڑوں والی بانہیں دراز تھیں۔ ان کا جی چاہا، زندگی کے وسیع میدان میں پیچھے کی طرف دوڑتے چلے جائیں اور پھر تھک کرپھولوں کے بستر پر سو جائیں لیکن طبیعت میں جو سنجیدگی آ چکی تھی اسے وہ پل بھر میں دور نہ کر سکے۔ اڑتی اڑتی خبروں کو وہ رئیسہ کے کچھ میٹھے بولوں میں بھلا بیٹھے۔ سال کے آخری مہینے تھے۔ اس سال رئیسہ نے انھیں کہیں جانے نہیں دیا۔ اس دوران منیر کبھی کبھی اس طرف آنکلتا۔ رئیسہ نے اسے پھر کبھی اہمیت نہیں دی۔ تصویر بن چکی تھی۔ منیر بہت خوشدلی کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا۔ مظہر بڑے کھلے دل سے اس سے ملتے۔

    نعیمہ کی پیدائش پر مظہر نے خوشی کا اظہار کیا۔ مٹھائیاں بنٹیں۔ خوشیاں منائی گئیں۔ نعیمہ ننھے ننھے گہنوں کپڑوں سے لد گئی۔

    رئیسہ نے شاہ بابا کے مزار کے لیے گلابوں کی پھولوں کی چادر بھجوائی۔

    ’’سب شاہ بابا کی دعاؤں کا پھل ہے۔‘‘ رئیسہ بار بار کہتیاور مظہر فوراََ بچی کو گود میں اٹھا لیتے۔ وہ جھٹ اپنی جیب سے نرم برش نکال کر پیار سے اس کے بال سنوارنے لگتے۔

    نعیمہ سال بھر ہی کی تھی جب مظہر عمرہ کے ارادے سے مکہ مکرمہ گئے۔ وہاں ایک صبح نماز پڑھتے پڑھتے جانماز پر انھوں نے دم توڑ دیا۔ وہ وہیں تدفین پا گئے۔

    بہنیں پرسہ دینے آئیں۔ اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔ امی نے رئیسہ کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن اس کی خاموشی دیکھ کر چپ ہو رہیں۔شاید اسے اپنی آزادی عزیز تھی۔

    دوپہر کا وقت تھا۔ نعیمہ دودھ پی کر جھولے میں سو رہی تھی۔ عدت کے چار مہینے، دس دن گزر چکے تھے۔ رئیسہ کی نئی پڑوسن اتفاق سے اس کی اسکول کی دوست بھی تھی۔یہ نئے نئے انداز کے جوڑے بنانے میں ماہر تھی۔ رئیسہ نے کل ہی اس سے ایک نئی طرز کا جوڑا بنانا سیکھا تھا۔ اسی کی مشق کر رہی تھی۔ بالوں کودونوں ہاتھوں سے تھام کر اوپر اٹھایا ہی تھا کہ اچانک منیر کی آواز آئی۔

    ’’ارے!!‘‘ اُس نے تو آیا کے لئے گیٹ کھلا رکھ چھوڑا تھا۔

    ’’کتنی پیاری بچی ہے۔‘‘ رئیسہ نے لجاکر ہاتھ چھوڑ دیے۔ بال کھل کر بکھر گئے۔

    ’’ بہت پیاری! بالکل اپنے ابا سی، ہے نا!‘‘ منیرنے نعیمہ کو بانہوں میں اٹھا لیا۔

    ’’تم بیٹھو میں تمہارے لیے کچھ لے آؤں۔‘‘ رئیسہ نے کہا۔

    ’’نہیں بھئی میں تو یونہی۔ پرسہ دینے چلا آیا۔ کہو کیسی ہو؟‘‘

    ’’پرسہ۔۔۔ ہوں۔۔۔‘‘ حقارت سے بھری رئیسہ کی آواز حلق میں پھنسی رہ گئی۔

    ’’کہو کیسی ہو؟ کبھی ہماری بھی یاد آئی؟‘‘ وہ بھی ہلکے سے طنز سے بولا۔

    ’’جناب تو بذات خود ہمارے دل میں رہتے ہیں۔‘‘ رئیسہ نے اپنے لہجے میں نرمی پیدا کی۔

    ’’اچھا !‘‘ طنز سے کہا گیا۔

    ’’اچھا بتاؤ کب سے آ رہے ہو تصویر بنانے۔‘‘ رئیسہ نے طنز کی پروا نہیں کی۔

    ’’اگلے مہینے شادی ہے ایں جناب کی!‘‘

    ’’منیر، میں تمہارے لیے...!‘‘

    ’’نہیں رئیسہ، میں نے تمہارا بہت انتظار کیا۔ کہا بھی تھا، طلاق لے کر میرے پاس چلی آؤ مگر تم نہیں مانیں۔‘‘

    ’’تم جانتے ہو تمہارے گھر والے میرا منہ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ تمہاری ماں تو میری دشمن ہی ہو چلی تھیں۔ مجھے کس طرح بدنام کر رہی تھیں!‘‘

    ’’سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ان کو کون سا ہمارے یہاں رہنا تھا۔ گاؤں میں ہی رہتی آئی ہیں مگر تمہیں تو شوہر کی دولت چاہئے تھی۔ اولاد کی کمی تھی سو پوری ہو گئی۔‘‘

    ’’نہیں منیریہ بات نہیں۔ میں۔۔۔ کیا رکھا ہے اب ان باتوں میں!۔۔۔ چلو بےبی کے ساتھ میری ایک تصویر بنا دو۔‘‘

    ’’نہیں رئیسہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب میں نے مصوری کا پیشہ چھوڑ دیا ہے۔‘‘، وہ دیوار کی پینٹنگ کریدنے لگا۔ کبھی اس نے بڑے پیار سے وہاں گل بوٹے بنائے تھے، ’’اور شادی کر رہا ہوں۔‘‘

    ’’ایک دولتمند گریجوئیٹ لڑکی سے؟؟‘‘

    منیر خاموش تھا۔

    ’’میری ساری دولت تمہاری ہی تو ہے۔‘‘ وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔

    ’’مایوس کیوں ہوتی ہو جان! تم اب نعیمہ کو سنبھالو گی یا مجھے!‘‘

    ’’مگر وہ تو..!‘‘

    ’’اب ان باتوں میں کچھ مزا نہیں رئیسہ ! چھوڑو، کچھ اچھی باتیں سناؤ۔‘‘

    اس واقعے نے رئیسہ کی امنگوں کا خاتمہ کر دیا۔ وہ محل اچانک کھنڈر میں تبدیل ہو گیا جو اس نے مظہر کی بےپناہ جائیداد، منیر کے پیار اور مظہر کی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کی بنیادوں پر تعمیر کیا تھا۔ اس پر ایک عجیب سی دیوانگی بھری جھنجھلاہٹ طاری ہو گئی۔ نعیمہ کا وجوداب ایک ایسا پنجرہ بن گیا تھا، جس میں وہ بری طرح محبوس کر دی تھی۔

    اور نعیمہ اپنی نانی کے پاس بھیج دی گئی۔

    رئیسہ کی زندگی میں انقلاب آ گیا۔ وہ اونچی سوسائٹی کے تقاضوں کو پورا کرنے لگی۔ بال ترش گئے۔ کلبوں میں شامیں گزرنے لگیں۔ کینوس پر بے شمار رنگ ایک دوسرے میں گڈمڈ ہونے لگے اور اس کی زندگی کی گاڑی بڑی تیزی سے راستے بدلنے لگی۔

    ایسی ہی ایک پارٹی تھی۔ اپنی نئی دوست مسز فرنانڈیس کے دیورولیم کی سالگرہ کی پارٹی۔ وہیں رئیسہ کو شہزاد مل گیا۔ اتفاق ہی تھا۔ مسز فرنانڈیس اسی ٹیبل پر بیٹھی تھیں جس پر شہزاد بیٹھاولیم کے ڈانس کے ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔

    ’’ان سے ملورئیسہ، دہلی سے بی کام ایم بی اے کرکے لوٹے ہیں۔ نام شہزاددیکھنے میں شہزادہ، ہمارے ایڈورٹائزنگ بزنس کی جان۔ ماڈلنگ کی دنیا میں بھی دھوم نہ مچائی تو جو کہو وہ ہار دوں!!‘‘ مسز فرنانڈیس نے جوش کے ساتھ متعارف کروایا۔

    اور اب چوبیس سالہ شہزاد رئیسہ کا دوست، بہت گہرا دوست اور غم گسار تھا۔

    کھنڈالہ میں’سمر پیلیس‘، ایک خوبصورت بنگلہ کرائے پر لے لیا گیا تھا۔ چوکیدار نے بہت اچھا کھانا بنا یا تھا۔ دونوں اپنے اپنے کمروں میں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔

    شہزاد خود سے بری طرح پریشان تھا۔ منیر کی ملاقات اور زہریلی معنیٰ خیز باتوں سے شہزاد کا موڈ بری طرح خراب تھا۔

    ’’ماں سے جھوٹ بول کر کیوں آیا تھا یہاں؟۔۔۔ منیر کا رویہ کتنا عجیب سا تھا۔۔۔ کس بھنور میں پھنس رہا ہے ہوں میں!!‘‘

    شام تک شہزاد کا موڈ ٹھیک ہوتا نہ دیکھ کر رئیسہ نے لوناولہ کے ’نیل کمل‘ تھیٹر میں آن لائن دو ٹکٹیں بک کر لیں۔لیکن کار کا انجن الیکٹریکل خرابی کی وجہ سے اسٹارٹ ہونے سے انکار کر کر رہا تھا۔ شہزاد کا موڈاور خراب ہونے لگا۔

    ’’ٹیکسی لے لیتے ہیں۔ موڈ کا ستیاناس کیوں کریں۔‘‘ رئیسہ نے کہا تو وہ راضی ہو گیا لیکن دستوری گاؤں تک پہنچے ہی تھے کہ ٹیکسی جھٹکا کھا کر رک گئی۔

    ’’ ٹائر پنکچر ہو گیا ہے۔ میں ابھی ٹائر بدل دیتا ہوں میم صاحب!..صرف پانچ منٹ لگیں گے۔‘‘ ڈرائیور تیزی سے ٹیکسی سے اترتے ہوئے بولا۔

    ’’افوہ!‘‘رئیسہ کے منہ سے نکلا۔

    ’’لگتا ہے اپنی قسمت میں آج کے روز فلم نہیں!‘‘ شہزاد بیزاری سے ہنسا، ’’چلئے واپس چلتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں شیزو!‘‘ رئیسہ نے عجیب سے فیصلہ کن لہجے میں کہا،’’ میں ٹیکسی بدلنا پسند کروں گی۔‘‘

    اور کرایہ ادا کرنے کے لئے اپنا پرس کھولا۔ اسی وقت موبائل کی گھنٹی بجی۔چند لمحوں بعد رئیسہ سڑک کنارے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔

    ’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟ پانی لاؤں؟‘‘شہزاد پاس کھڑا پوچھ رہا تھا۔

    ’’شیزو مجھے گھر جانا ہوگا۔‘‘

    شہزاد اس پارہ صفت خاتون کا چہرہ حیرت سے دیکھنے لگا۔

    ’’امی نہیں رہیں۔‘‘

    ’’آپ کی بچی آپ کے حوالے کرنے آئی ہوں۔‘‘ چند روز بعد رئیسہ نوشابہ کے گھر میں تھی۔ اس کی گود میں نعیمہ تھی۔ نوشابہ نے درد کے ساتھ رئیسہ کو دیکھا۔

    ’’شاہ بابا کی دعاؤں کا پھل ہے۔‘‘ رئیسہ نے اپنے سر پر پلو ٹھیک کیا۔

    ’’یہ لو وہ خط جو انتقال سے پہلے مظہر نے تمہارے لیے لکھا تھا۔ غلطی سے مکہ سے ان کے سامان کے ساتھ مجھے بھیج دیا گیا۔‘‘

    ’’رئیسہ جان!

    جانتی ہو، اللہ تعالیٰ نے دنیا سے معجزے اٹھا لئے ہیں۔ میں تمہیں شاہ بابا کے مزار پر لے گیا۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ شوگر کی زیادتی سے آنکھوں کے ساتھ ساتھ میری فرٹیلٹی ختم ہو چکی تھی۔پتہ کر لیا تھا مگرمیں نے یہ بات بھی تم سے چھپا لی تھی تاکہ تمہیں شرمندگی محسوس کرنے سے بچا لوں۔ اب بھی نہیں چاہتا لیکن آج دل بھاری سا ہے۔ تم سے کچھ کہنے کا جی ہے۔ ابھی خط پھاڑ کر پھینک دوں گا۔ سنو! میں نے تمہیں معاف کیا۔ تم اللہ سے معافی مانگ لینا۔

    تمہارا بہت چاہنے والا شوہر

    مظہر ‘‘

    خط پڑھ کر رئیسہ نے اسے خاموشی کے ساتھ اپنے پرس میں رکھ لیا۔ کچھ دیر دونوں سوکنیں گم سم سی بیٹھی رہیں پھر رئیسہ نے نوشابہ سے نظر ملا کر کہا:

    ’’جانتی تھی، فرٹیلٹی کلینک بھی تو ہیں۔۔۔ ایک بچے کی خواہش تھی۔۔۔ کیا تھا؟ یا نفرت؟ میں کس سے بھاگتی رہی؟ نفرت کرتی رہی؟ کس سے؟ آپ سے؟اپنے آپ سے ؟ اپنی امی سے؟مظہر سے؟ کون سا عدم تحفظ کا احساس تھا؟ کیوں خود کو ذلیل کیا؟۔۔۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں، پیاری نوشابہ باجی ؟؟‘‘

    وہ نوشابہ کے گھٹنے سے لگی ہوئی تھی۔نعیمہ زمین پر رینگتے رینگتے اندرونی دروازے کی دہلیز تک پہنچ گئی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے