Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تریا چرتر

پریم چند

تریا چرتر

پریم چند

MORE BYپریم چند

    سیٹھ لگن داس جی کا نخلِ حیات بے ثمرتھا۔ کوئی ایسی انسانی روحانی یاطبی کوشش نہ تھی جوانہوں نے نہ کی ہو۔ یوں شادی میں مسئلہ توحید کے قائل تھے۔ مگرضرورت اوراصرار سے مجبورہوکر ایک دونہیں پانچ شادیاں کیں۔ یہاں تک کہ عمرِعزیزکے چالیس سال گزرگئے اورخانہ تاریک روشن نہ ہوا۔ بے چارے بہت رنجیدہ رہتے۔ یہ مال وزر، یہ کروفر، یہ امیرانہ اہتمام، یہ تزک واحتشام کیاہوں گے۔ میرے بعدان کا کیاحشرہوگا۔ کون ان سے خط اٹھائےگا۔ یہ خیال بہت افسوس ناک تھا۔

    آخریہ صلاح ہوئی کہ کسی لڑکے کوگودلیناچاہئے۔ مگریہ مسئلہ خاندانی نزاعات کے باعث کئی سالوں تک موردِالتوارہا۔ جب سیٹھ جی نے دیکھا کہ بیویوں میں ابھی تک بدستورکشمکش ہورہی ہے توانہوں نے اخلاقی جرأت سے کام لیا۔ اورایک ہونہار یتیم لڑکے کوگود لے لیا۔ اس کا نام رکھا گیا مگن داس۔ اس کا سن پانچ چھ سال سے زائد نہ تھا۔ بلاکاذہین اورباتمیز۔ مگرعورتیں سب کچھ کرسکتی ہیں۔ دوسرے کے بچے کواپنانہیں سمجھ سکتیں۔ یہاں توپانچ عورتوں کاساجھا تھا۔ اگرایک اسے پیارکرتی توباقی چارعورتوں کافرض تھا کہ اس سے نفرت کریں۔ ہاں سیٹھ جی اس کے ساتھ بالکل اپنے لڑکے کی سی محبت کرتے۔ پڑھانے کوماسٹررکھے۔ سواری کے لئے گھوڑے۔ رئیسانہ خیال کے آدمی تھے۔ راگ رنگ کاسامان بھی مہیاتھا۔ گاناسیکھنے کالڑکے نے شوق کیا تو اس کا بھی انتظام ہوگیا۔ غرض جب مگن داس سن شباب کوپہنچا تو رئیسانہ مشاغل میں اسے درجہ کمال حاصل تھا۔ اس کا گانا سنکر استادلوگ کانوں پرہاتھ رکھتے۔ شہسوارایساکہ دوڑتے ہوئے گھوڑے پرسوار ہوجاتا۔ قدو قامت میں شکل وشباہت میں اس کاساالبیلا جوان دہلی میں کم ہوگا۔

    شادی کامسئلہ درپیش ہوا۔ ناگپور کے کروپٹی سیٹھ مکھن لال بہت لہرائے ہوئےتھے۔ ان کی لڑکی سے شادی ہوگئی۔ دھوم دھام کاذکرکیا جائے توقصہ شبِ ہجر سے بھی طویل ہوجائے۔ مکھن لال کاتواسی شادی میں دیوالہ نکل گیا۔ اس وقت مگن داس سے زیادہ قابلِ رشک آدمی اورکون ہوگا۔ اس کی زندگی کی بہار امنگوں پرتھی اور مرادوں کے پھول اپنی شبنمی تازگی میں کھل کھل کر حسن اور شگفتگی کاسماں دکھارہےتھے۔ مگرتقدیر کی دیوی کچھ اورہی سامان کر رہی تھی۔ وہ سیروسیاحت کے ارادہ سے جاپان گیا ہوا تھا کہ دہلی سے خبرآئی کہ ’’ایشور نے تمہیں ایک بھائی دیاہے۔ مجھے اتنی خوشی ہے کہ شاید زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ سکوں۔ تم بہت جلدلوٹ آؤ۔‘‘

    مگن داس کےہاتھ سے تارکا کاغذچھوٹ گیا۔ اورسرمیں ایسا چکر آیاکہ گویا کسی بلندی سے گرپڑاہے۔

    مگن داس کی کتابی واقفیت بہت کم تھی، مگر طبعی شرافت سے وہ خالی نہ تھا۔ ہاتھوں کی فیاضی نے جوفراغت کی برکت ہے، دل کوبھی فیاض بنادیاتھا۔ اسے اتفاقات کی اس کایاپلٹ سے صدمہ توضرورہوا آخرانسان ہی تھا۔ مگر اس نے استقلال سے کام لیااور ایک امیدوبیم کی حالت میں وطن کوروانہ ہوا۔

    رات کاوقت تھا جب اپنے دروازے پرپہنچا تو بزمِ نشاط آراستہ دیکھی۔ اس کے قدم آگے نہ بڑھے۔ لوٹ پڑا اورایک دکان کے چبوترے پربیٹھ کر سوچنے لگا کہ اب کیاکرناچاہئے۔ اتنا تو اسے یقین تھاکہ سیٹھ جی اس کے ساتھ اسی اخلاق اورمحبت سے پیش آئیں گے۔ بلکہ شاید اب اوربھی عنایت کرنے لگیں۔ سیٹھانیاں بھی اب اس کے ساتھ مغائرت کا برتاؤ نہ کریں گی۔ ممکن ہے منجھلی بہوجو اس بچے کی خوش نصیب ماں تھیں۔ ان کے حسد سے وہ فائدہ اٹھاسکتاتھا۔ تاہم اس کی غیرت نے گوارا نہ کیاکہ جس گھرمیں آقا کی حیثیت سے رہتا تھا۔ اسی گھرمیں اب ایک دست نگر کی حیثیت سے زندگی بسرکرے۔ اس نے فیصلہ کرلیاکہ اب یہاں رہنانہ مناسب ہے، نہ مصلحت۔ مگرجاؤں کہاں؟ نہ کوئی ایسافن سیکھا۔ نہ کوئی ایسا علم حاصل کیا جس سے کسب ِمعاش کی صورت پیدا ہوتی۔ رئیسانہ مشاغل اسی وقت تک قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جب تک وہ رئیسوں کے زیورِکمال رہیں۔ ذریعہ معاش بن کروہ پایہ عزت سے گرجاتے ہیں۔ اپنی روزی حاصل کرناتواس کے لئے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ کسی سیٹھ ساہوکار کے یہاں منیب بن سکتا تھا۔ کسی کارخانہ کی طرف سے ایجنٹ ہوسکتا تھا۔ مگراس کے کندھے پرایک بھاری جوا رکھا ہوا تھا اسے کیا کرے۔ ایک بڑے سیٹھ کی لڑکی جس نے نازونعمت میں پرورش پائی اس سے یہ بے نوائی کی تکلیفیں کیوں کرجھیلی جائیں گی۔ کیامکھن لال کی لاڈلی بیٹی ایک ایسے شخص کے ساتھ رہناپسند کرے گی جسے نانِ شبینہ کابھی ٹھکانا نہیں! مگر میں اس فکر میں اپنی جان کیوں کھپاؤں۔

    میں نے اپنی مرضی سے شادی نہیں کی۔ میں برابر انکارکرتارہا۔ سیٹھ جی نے زبردستی میرے پیروں میں یہ بیڑی ڈالی ہے۔ اب وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن جب اس نے دوبارہ ٹھنڈے دل سے اس مسئلہ پر غورکیا تومفرکی کوئی صورت نظرنہ آئی۔ بالآخر اس نےیہ فیصلہ کیاکہ پہلے ناگپور چلوں۔ ذرا ان مہارانی کے طوروطریق کودیکھوں۔ باہرہی باہر ان کے مزاج اور خواص کی جانچ کروں۔ اس وقت طے کروں گا کہ مجھے کیا کرناچاہئے۔ اگرریاست کی بو ان کے دماغ سے نکل گئی ہے۔ اورمیرے ساتھ روکھی روٹیاں انہیں کھانا منظورہیں توازیں چہ بہتر۔ لیکن اگروہ امیرانہ تکلفات کی دلدادہ ہیں تو میرے لئے راستہ صاف ہے۔ پھر میں ہوں اورغم ِدنیا۔ ایسی جگہ جاؤں جہاں کسی آشنا کی صورت خواب میں بھی نہ دکھائی دے۔ افلاس کی ذلت ذلت نہیں رہتی، اگراجنبیوں میں زندگی بسرکی جائے، یہ ہم چشموں کی کنکھیاں اورسرگوشیاں ہیں جوافلاس کو عذاب بنادیتی ہیں۔ یوں دل میں زندگی کا نقشہ بناکر مگن داس اپنی ہمتِ مردانہ کے بھروسہ پرناگپور کی طرف چلا۔ اس ملاح کی طرح جوبغیر کشتی وبادبان کے دریا کی امڈتی ہوئی لہروں میں اپنے تئیں ڈال دے۔

    شام کے وقت سیٹھ مکھن لال کے پرفضا باغ میں سورج کی زردکرنیں مرجھائے ہوئے پھولوں سے گلے مل کررخصت ہورہی تھیں۔ باغ کے وسط میں ایک پختہ کنواں تھا۔ اورایک مولسری کا درخت۔ کنویں کے منہ پر تاریکی کی نیلگوں نقاب تھی۔ درخت کے سرپرروشنی کی سنہری چادر۔ اسی درخت کے نیچے ایک بوڑھی مالن بیٹھی ہوئی پھولوں کے ہاراور گجرے گوندھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک نوجوان تھکاماندہ کنویں پرآیا اورلوٹے سے پانی بھرکرپینے کے بعد جگت پربیٹھ گیا۔ مالن نے پوچھا، ’’کہاں جاؤگے؟‘‘

    مگن داس نے جواب دیا کہ ’’جاناتوتھا بہت دورمگر یہیں رات ہوگئی۔ یہاں کہیں ٹھہرنے کا ٹھکانہ مل جائے گا؟‘‘

    مالن: ’’چلے جاؤ سیٹھ جی کے دھرم سالے میں۔ بڑے آرام کی جگہ ہے۔‘‘

    مگن داس: ’’دھرم سالے میں تومجھے ٹھہرنے کاکبھی اتفاق نہیں ہوا۔ کوئی ہرج نہ ہوتویہیں پررہوں یہاں کوئی رات کورہتاہے؟‘‘

    مالن: ’’بھائی میں یہاں ٹھہرنے کونہ کہوں گی۔ یہ ملی ہوئی بائی جی کی بیٹھک ہے۔ جھروکے میں بیٹھ کر سیر کیاکرتی ہیں۔ کہیں دیکھ داکھ لیں تومیرے سرمیں ایک بال بھی نہ رہے۔‘‘

    مگن داس: ’’بائی جی کون؟‘‘

    مالن: ’’یہی سیٹھ جی کی بیٹی اندرابائی۔‘‘

    مگن داس: ’’یہ گجرے انہیں کے لئے بنارہی ہوکیا؟‘‘

    مالن: ’’ہاں۔ اورسیٹھ جی کے یہاں ہے ہی کون؟ پھولوں کے گہنے بہت پسندکرتی ہیں۔‘‘

    مگن داس: ’’شوقین عورت معلوم ہوتی ہیں۔‘‘

    مالن: ’’بھائی یہی توبڑے آدمیوں کی باتیں ہیں۔ وہ شوق نہ کریں توہمارا تمہارا نباہ کیسے ہو؟ اوردھن ہے کس لئے۔ اکیلی جان پردس لونڈیاں ہیں۔ سناکرتی تھی کہ بھاگوان آدمی کاہل بھوت جوتتا ہے۔ وہ آنکھوں دیکھا۔ وہ آنکھوں دیکھا۔ آپ ہی آپ پنکھاچلنے لگے۔ آپ ہی سارے گھرمیں دن کاسااجالاہوجائے تم جھوٹ سمجھتے ہوگے۔ مگرمیں آنکھوں کی دیکھی بات کہتی ہوں۔‘‘

    اس احساسِ فضیلت کے ساتھ جو کسی بے علم آدمی کے سامنے اپنی معلومات کے بیان کرنے میں ہوتا ہے بوڑھی مالن اپنی ہمہ دانی کااظہار کرنے لگی۔ مگن داس نے اکسایا، ’’ہوگابھائی۔ بڑے آدمیوں کی باتیں نرالی ہوتی ہیں لکشمی کے بس میں سب کچھ ہے۔ مگراکیلی جان پردس لونڈیاں! سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

    مالن نے پیرانہ چڑچڑے پن کے ساتھ جواب دیا، ’’تمہاری سمجھ موٹی ہوتو کوئی کیاکرے۔ کوئی پان لگاتی ہے، کوئی پنکھا جھلتی ہے۔ کوئی کپڑےپہناتی ہے۔ دوہزار روپیہ میں توسیج گاڑی آئی تھی۔ چاہو تو منہ دیکھ لواس پر ہوا کھانے جاتی ہیں۔ ایک بنگالن گانابجانا سکھاتی ہے۔ میم پڑھانے آتی ہے۔ شاستری جی سنسکرت پڑھاتے ہیں۔ کاگدپر ایسی مورت بناتی ہیں کہ اب بولی اوراب بولی۔ دل کی رانی ہے۔ بے چاری کے بھاگ پھوٹ گئے۔ دلی کے سیٹھ مگن داس کے پالک لڑکے سے بیاہ ہوا تھا۔ مگررام جی کی لیلا۔ ستربرس کے مردے کولڑکادیا۔ کون پتیائے گا۔ جب سے یہ سناونی آئی ہے تب سے بہت اداس رہتی ہیں۔ ایک دن روتی تھیں۔ میرے سامنے کی بات ہے۔ باپ نے دیکھ لیا۔ سمجھانے لگے۔ لڑکی کو بہت چاہتے ہیں۔ سنتی ہوں داماد کو یہیں بلاکررکھیں گے۔ نارائن کرے میری رانی دودھوں نہائے پوتوں پھلے۔؟؟؟ مرگیاتھا۔ انہوں نے آڑنہ دی ہوتی توگھرگھر کے ٹکڑے مانگتی۔‘‘

    مگن داس نے ایک لمبی سانس لی، ’’بہتر ہےاب یہاں سے اپنی عزت آبرولئے ہوئے چل دوں۔ یہاں میرا نباہ نہ ہوگا۔ اندرارئیس زادی ہے۔ تم اس قابل نہیں ہوکہ اس کے شوہر بن سکو۔‘‘ مالن سے بولا، ’’تودھرم سالے میں جاتا ہوں جانے وہاں کھاٹ واٹ مل جاتی ہے کہ نہیں، مگر رات توکاٹنی ہے کسی طرح کٹ ہی جائے گی۔ رئیسوں کے لئے مخملی گدے چاہئے۔ ہم مزدوروں کے لئے پوال ہی بہت ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے لٹیااٹھائی۔ ڈنڈاسنبھالا۔ اوربادلِ پردرد ایک طرف کوچل دیا۔

    اس وقت اندراپنے جھروکے پربیٹھی ہوئی ان لوگوں کی باتیں سن رہی تھی۔ کیا اتفاق کی خوبی ہے کہ عورت کوجنت کی نعمتیں حاصل اوراس کا شوہر آوارہ وطن۔ جسے رات کاٹنے کا ٹھکانہ نہیں۔

    مگن داس مایوسانہ خیالات میں ڈوباہوا شہر سےباہرنکل آیا اور ایک سرائے میں ٹھہرا جو صرف اس لئے مشہورتھی کہ وہاں شرا ب کی ایک دکان تھی۔ یہاں قرب وجوار سے مزدور لوگ آ آکر غم غلط کیا کرتے تھے، جوبھولے بھٹکے مسافریہاں ٹھہرتے انہیں ہوشیاری اور چوکسی کاعملی سبق مل جاتاتھا۔ مگن داس تھکاماندہ تھاہی۔ ایک پیڑ کے نیچے چادربچھاکر سورہا۔ اورجب صبح کونیند کھلی توکسی پیرومرشد کی زندہ تلقینِ معفرت کاکرشمہ نظرآیا جس کی پہلی منزل ترکِ دنیاہے۔ اس کی مختصر بقچی جس میں دوایک کڑے اور زادِراہ اورلٹیاڈوربندھی ہوئی تھی غائب ہوگئی تھی۔ بجزان کپڑوں کے جو اس کے بدن پر تھے، اب اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ اوربھوک جو افلاس میں اوربھی تیزہوجاتی ہے اسے بے چین کررہی تھی۔ مگرمستقل مزاج آدمی تھا۔ اس نے قسمت کارونا نہیں رویا۔ گزران کی تدبیریں سوچنے لگا۔ سیاق وسباق میں اسے اچھی دستگاہ تھی مگراس حیثیت میں اس سے فائدہ اٹھانا غیر ممکن تھا وہ بہت ہی خوش گلوتھا اس فن میں بہت ریاض کی تھی۔ کسی رنگین مزاج رئیس کے دربار میں اس کی قدرہوسکتی تھی، مگراس کی مردانہ غیرت نے اس پیشہ کواختیارکرنے کی اجازت نہ دی۔ ہاں وہ اعلیٰ درجہ کا شہسوارتھا اوریہ فن شانِ وضعداری کے ساتھ اس کی معاش کاوسیلہ بن سکتاتھا۔ یہ مصمم ارادہ کرکے اس نے قدم بہت آگے بڑھائے۔ بظاہر یہ قرین قیاس نہیں معلوم پڑتا۔ مگروہ اپنا بوجھ ہلکا ہوجانے سے اس وقت بہت رنجیدہ خاطرنہیں تھا۔ مردانہ ہمت کا آدمی ایسی افتادوں کواسی نگاہ سے دیکھتا ہے جس سے ایک ہوشیار طالب علم امتحان کے سوالات کودیکھتاہے۔ اسے اپنی ہمت آزمانے کا ایک مشکل سے عہدہ برآ ہونے کاموقع مل جاتاہے۔ اس کی ہمت نادانستہ طورپر مضبوط ہوجاتی ہے۔ فی الواقعہ ایسے معرکے مردانہ حوصلہ کے لئے تحریک کاکام دیتے ہیں۔

    مگن داس اس جوش سے قدم بڑھاتا چلاجاتاتھا گویا کامیابی کی منزل سامنےنظرآرہی ہے۔ مگرشاید وہاں کے گھوڑوں نے شرارت اورسرکشی سے توبہ کرلی تھی۔ یا وہ خلقی طورپر خوشگام و سبک خرام واقع ہوئے تھے۔ وہ جس گاؤں میں جاتا ہمتِ یاس کواکسانے والا جواب پاتا۔ بالآخر شام کے وقت جب آفتاب اپنی منزلِ مقصود پرجاپہنچا تھا۔ اس کی منزلِ دشوارتمام ہوئی۔

    ناگرگھاٹ کے ٹھاکر اٹل سنگھ نے اس کی فکرِمعاش کاخاتمہ کیا۔ یہ ایک بڑا گاؤں تھا۔ پختہ مکانات بہت تھے۔ مگران میں آسمانی روحیں آباد تھیں۔ کئی سال پہلے پلیگ نے آبادی کے بڑے حصے کوعالم ِسفلی سے اٹھاکر عالم ِعلوی میں پہنچادیاتھا۔ اس وقت پلیگ کے موجودہ اورخانہ براندازجانشیں، گاؤں کے نوجوان اور شوقین زمیندارصاحب اورحلقہ کے کارگزار اورذی رعب تھانہ دار صاحب تھے۔ ان کی متفقہ سرگرمیوں سے گاؤں میں ستجگ کاراج تھا۔ مال ودولت کولوگ عذابِ جان سمجھتے تھے۔ اسے گناہ کی طرح چھپاتے تھے۔ گھرمیں روپیہ رہتے ہوئے لوگ قرض لے لے کرکھاتے۔ اورپھٹے حالوں میں رہتے تھے، اسی میں نباہ تھا۔ کاجل کی کوٹھری تھی۔ سفید کپڑے پہناان پردھبہ لگاناتھا۔ حکومت اور جبر کابازارگرم تھا۔ اہیروں کے یہاں انجن کے لئے بھی دودھ نہ تھا۔ اورتھانہ میں دودھ کی ندی بہتی تھی۔ مویشی خانہ کے محرر دودھ کی کلیان کرتے تھے۔ اسی اندھیر نگری کوگمن داس نے اپنامسکن بنایا۔ ٹھاکرصاحب نے غیرمعمولی فیاضی سے کام لے کراسے رہنے کے لئے ایک مکان بھی دے دیا جوصرف بہت وسیع معنوں میں مکان کہا جاسکتاتھا۔ اسی گوشہ قناعت میں وہ ایک ہفتہ سے زندگی کے دن کاٹ رہا ہے۔ اس کاچہرہ زرد ہے۔ اورکپڑے میلے ہورہے ہیں، مگر ایسا معلوم ہوتا ہےکہ اسے اب ان باتوں کاحس ہی نہیں رہا۔ زندہ ہے مگرزندگی رخصت ہوگئی ہے۔ ہمت اورحوصلہ مشکل کوآسان کرسکتے ہیں۔ آندھی اورطوفان سے بچاسکتے ہیں۔ مگربشاشت ان کے حیطہ امکان سے باہر ہے۔ ٹوٹی ہوئی ناؤ پر بیٹھ کر ملار گانا ہمت کاکام نہیں۔ حماقت کاکام ہے۔

    ایک روزجب شام کے وقت وہ اندھیرے میں کھاٹ پرپڑا ہوا تھا۔ ایک عورت اس کے دروازہ پرآکربھیک مانگنے لگی۔ مگن داس کوآوازمانوس معلوم ہوئی، باہرآکر دیکھا تووہی چمیامالن تھی، کپڑے تارتار مصیبت کی روتی ہوئی تصویر۔ بولا، ’’تمہاری یہ کیاحال ہے؟ مجھے پہچانتی ہو؟‘‘

    مالن نے چونک کردیکھا اورپہچان گئی۔ روکربولی، ’’بیٹا اب بتاؤ میرا کہاں ٹھکانالگے۔ تم نے میرا بنابنایاگھر اجاڑدیا۔ نہ اس دن تم سے باتیں کرتی نہ مجھ پر یہ بپت پڑتی۔ بائی نے تمہیں بیٹھے دیکھ لیا۔ باتیں بھی سنیں۔ صبح ہوتے ہی مجھے بلایا اور برس پڑیں، ’’ناک کٹوالوں گی۔ منہ میں کالکھ لگوادوں گی۔ چڑیل۔ کٹنی تومیری بات کسی غیرآدمی سے کیوں چلائے۔ تودوسروں سے میراچرچا کیوں کرے؟ وہ کیا تیراداماد تھا جو تو اس سے میرا دکھڑا روتی تھی۔ جوکچھ منہ میں آیابکتی ہیں۔ مجھ سے بھی نہ سہاگیا۔ رانی روٹھیں گی اپناسہاگ لیں گی۔ بولی بائی جی مجھ سے قصور ہوا لیجئے اب جاتی ہوں۔ چھینکتے ناک کٹتی ہے تومیرا نباہ یہاں نہ ہوگا۔ ایشور نے منہ دیا ہے تواہاربھی دے گا۔ چارگھر سے مانگوں گی تو میرا پیٹ بھر جائے گا۔ اس چھوکری نے مجھے کھڑے کھڑے نکلوادیا۔ بتاؤ میں نے تم سے اس کی کون سی شکایت کی تھی۔ اس کی کیاچرچا کی تھی۔ میں تو اس کا بکھان کررہی تھی، مگر بڑے آدمیوں کاغصہ بھی بڑا ہوتاہے۔ اب یہ بتاؤمیں کس کی ہوکررہوں۔ آٹھ دن اسی طرح ٹکرے مانگتے ہوگئے۔ ایک بھتیجی انہیں کے یہاں لونڈیوں میں نوکرتھی۔ اسی دن اسے بھی نکال دیا۔ تمہاری بدولت جو کبھی نہ کیاتھا وہ کرناپڑا۔ تمہیں کاہے کو دوش لگاؤں۔ قسمت میں جولکھا تھا وہ دیکھنا پڑا۔‘‘

    مگن داس سناٹے میں آگیا۔ افوہ مزاج کایہ عالم ہے۔ یہ غرور، یہ شان ِتحکم۔ مالن کو تشفی دی۔ اس کے پاس اگردولت ہوتی تواس نے مالا مال کردیتا۔ سیٹھ مکھن لال کی صاحبزادی کوبھی معلوم ہوجاتا کہ رزق کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ بولا، ’’تم فکرنہ کرومیرے گھرمیں آرام سے رہو۔ اکیلے میرا جی بھی نہیں لگتا۔ سچ کہو تو مجھے تمہاری طرح ایک عورت کی تلاش تھی۔ اچھا ہواتم آگئیں۔‘‘

    مالن نے دامن پھیلاکر دعائیں دیں، ’’بیٹاتم جگ جگ جیو۔ بڑی امّر(عمر) ہو۔ یہاں کوئی گھرملے تو مجھے دلوادو۔ میں یہاں رہوں گی تومیری بھتیجی کہاں جائے گی وہ بے چاری شہرمیں کس کے آسرے ہوگی۔‘‘

    مگن داس کا خونِ حمیت جوش میں آیا۔ ان پریہ آفت میری لائی ہوئی ہے۔ ان کی اس آوارہ گردی کا ذمہ دار میں ہوں۔ بولا، ’’کوئی ہرج نہ ہوتو اسے بھی یہیں لے آؤ۔ میں دن کویہاں بہت کم رہتا ہوں۔ صرف ایک بار کھانے آیا کرتا ہوں۔ رات کوباہرچارپائی ڈال کر پڑرہاکروں گا۔ میری وجہ سے تم لوگوں کوکوئی تکلیف نہ ہوگی۔ یہاں دوسرا مکان ملنامشکل ہے۔ یہی جھونپڑا بڑی مشکلوں سے ملا ہے۔ یہ اندھیرنگری ہے۔ جب تمہارا ٹھکانا کہیں لگ جائے تو چلی جانا۔‘‘

    مگن داس کو کیا معلوم تھا کہ حضرت عشق اس کی زبان پر بیٹھے ہوئے اس سے یہ باتیں کہلارہے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے کہ عشق پہلے معشوق کے دل میں پیدا ہوتاہے۔

    ناگپوراس گاؤں سے بیس میل کے فاصلے پرتھا۔ چمپااسی دن چلی گئی۔ اورتیسرے دن رمبھاکے سات لوٹ آئی۔ یہ اس کی بھتیجی کانام تھا۔ اس کے آنے سے جھونپرے میں جان سی پڑگئی۔ مگن داس کے ذہن میں مالن کی لڑکی کی جوتصویرتھی، اس کورمبھا سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ وہ جنسِ حسن کامشاق جوہری تھا مگر ایسی صورت جس پر شباب کی مستانہ اورفتنہ خیز دل آویزیاں نثارہورہی ہوں، اس کی نظر سے کبھی نہیں گزری تھی، اس کی جوانی کا چانداپنی سنہری اورمتین شان کے ساتھ چمک رہا تھا۔

    صبح کاوقت تھا۔ مگن داس دروازہ پرپڑاٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کالطف اٹھارہا تھا۔ رمبھا سرپرگھڑا رکھے پانی بھرنے کونکلی۔ مگن داس نے اسے دیکھا اورایک لمبی سانس کھینچ کر اٹھ بیٹھا۔ خط و خال بہت ہی دلفریب۔ تازہ پھول کی طرح شگفتہ چہرہ۔ آنکھوں میں متین سادگی کاجلوہ۔ مگن داس کو اس نے بھی دیکھا۔ چہرہ پرحیا کی سرخی نمودار ہوگئی۔ عشق نے پہلاوارکیا۔

    مگن داس سوچنے لگاکیاتقدیر یہاں کوئی اورگل کھلانے والی ہے۔ کیادل مجھے یہاں بھی چین نہ لینے دے گا۔ رمبھا تویہاں ناحق آئی۔ ناحق ایک غریب کا خون تیرے سرپرہوگا۔ میں تواب تیرے ہاتھوں بک چکا۔ مگرکیا توبھی میری ہوسکتی ہے! لیکن نہیں اتنی عجلت نہیں۔ دل کا سودا سوچ سمجھ کرکرناچاہئے۔ تم کو ابھی ضبط کرنا ہوگا۔ رمبھا حسین ہے مگرجھوٹے موتی کی آب وتاب اسے سچا نہیں بناسکتی ہے۔ تمہیں کیا خبرکہ اس بھولی نازنیں کے کان حرفِ محبت سے آشنانہیں ہوچکے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کا باغِ حسن کسی گلچیں کی دست درازیوں سے آلودہ نہیں ہوچکا۔ اگرچنددنوں کی دل بستگی کے لئے ایک مشعلہ کی ضرورت ہے تو تم آزاد ہو۔ مگریہ نازک معاملہ ہے۔ ذرا سنبھلے ہوئے قدم رکھنا، پیشہ ور ذاتوں میں حسنِ ظاہری اکثراخلاقی پابندیوں سے آزادہوتا ہے۔

    تین مہینہ گزرگئے۔ مگن داس رمبھا کوجوں جوں موشگافانہ نگاہوں سے دیکھتا، توں توں اس پرپریم کارنگ گاڑھا ہوتا جاتاتھا۔ وہ روز اسے کنویں سے پانی نکالتے دیکھتا۔ وہ روزگھرمیں جھاڑو دیتی اورکھانا پکاتی۔ آہ! مگن داس کو ان جوارکی روٹیوں میں جومزہ آتا تھا وہ کبھی نعمتوں کے خوانِ لطیف میں بھی نہ آیاتھا۔ اسے اپنی کوٹھری ہمیشہ صاف اور ستھری ملتی۔ نہ جانے کون اس کا بستر بچھادیتا۔ کیایہ رمبھا کی عنایت تھی۔ اس کی نگاہیں کیسی شرمیلی تھی۔ اس نے کبھی اپنی طرف شوخ نگاہوں سے تاکتے نہیں دیکھا۔ آواز کیسی میٹھی اس کی ہنسی کی آواز کبھی اس کے کان میں نہیں آئی۔ اگرمگن داس اس کے پریم میں متوالاہورہا تھا توکوئی تعجب کی بات نہیں تھی اس کی نگاہیں اضطراب اور اشتیاق میں ڈوبی ہوئی ہمیشہ رمبھا کوڈھونڈھاکرتیں۔ وہ جب کسی دوسرے گاؤں کوجاتا تومیلوں تک اس کی پربضداوربیتاب آنکھیں مڑمڑکر جھونپڑے کے دروازے کی طرف آتیں۔ اس کی شہرت قرب وجوار میں پھیل گئی تھی۔ مگراس کی خلقی مروت اورکشادہ ظرفی سے اکثر لوگ بے جافائدہ اٹھاتے۔ انصاف پسند حضرات تو خاطرومدارات سے کام نکال لیتے۔

    اورجو لوگ زیادہ دانشمندتھے وہ متواتر تقاضوں کے منتظر رہتے اورمگن داس اس فن سے بیگانہ محض تھا اسلئے باوجود شب وروز کی دوادوش کے افلاس سے اس کا گلا نہ چھوتٹا۔ جب وہ رمبھا کوچکی پیستے ہوئے دیکھتا توگیہوں کے ساتھ اس کا دل بھی پس جاتاتھا۔ وہ کنویں سے پانی نکالتی تو اس کا کلیجہ نکل آتا۔ جب وہ پڑوس کی عورتوں کے کپڑے سیتی تو کپڑوں کے ساتھ مگن داس کادل چھدجاتا۔ مگر کچھ بس تھا نہ قابو۔

    مگن داس کی رمزشناس نگاہوں کواس میں توکوئی شک نہیں تھا کہ اسکی کششِ محبت بالکل بے اثرنہیں ہے۔ ورنہ رمبھا کی وفادارانہ خاطر داریوں کو کس خیال سے منسوب کرتا۔ وفاہی وہ جادوہے جوغرورِحسن کا سربھی نیچاکرسکتی ہے۔ مگرعاشقانہ رسائی پیدا کرنے کامادہ اس میں بہت کم تھا۔ کوئی دوسرا منچلا عاشق اب تک اپنے عملِ تسخیر میں کامیاب ہوچکا ہوتا، لیکن مگن داس نے دلِ عاشق کاپایاتھا اورزبان معشوق کی۔

    ایک روز شام کے وقت چمپاکسی کام سے بازارگئی ہوئی تھی اورمگن داس حسبِ معمول چارپائی پرپڑاخواب دیکھ رہا تھا کہ رمبھا ایک شانِ رعنائی کے ساتھ آکر اس کے سامنے کھڑی ہوگئی اس کا بھولا چہرہ کنول کی طرح کھلا ہواتھا اورآنکھوں سے ہمدردی کاپاک جنبہ جھلک رہا تھا۔ مگن داس نے اس کی طرف پہلے حیرت اورپھر محبت کی نگاہوں سے دیکھا اوردل پر زورڈال کر بولا، ’’اورمبھا! تمہیں دیکھنے کوبہت دن سے آنکھیں ترس رہی تھیں۔‘‘

    رمبھا نے بھولے پن سے کہا، ’’میں یہاں نہ آتی تو تم مجھ سے کبھی نہ بولتے۔‘‘

    مگن داس کاحوصلہ بڑھا۔ بولا، ’’بلامرضی پائے توکتابھی نہیں آتا۔‘‘

    رمبھا مسکرائی۔ کلی کھل گئی، ’’میں توآپ ہی چلی آئی۔‘‘

    مگن داس کاکلیجہ اچھل پڑا۔ اس نے جرأت کرکے رمبھا کا ہاتھ پکڑااورجذبہ سے کانپتی ہوئی آواز سے بولا، ’’نہیں رمبھاایسا نہیں ہے۔ یہ میری مہینوں کی کڑی تپسیا کاپھل ہے۔‘‘

    مگن داس نے بیتاب ہوکرگلے سے لگالیا۔ جب وہ چلنے لگی تو اپنے عاشق کی طرف التجا آمیزنگاہوں سے دیکھ کربولی، ’’اب یہ پریت تم کونباہنی ہوگی۔‘‘

    پوپھٹنے کے وقت جب سورج دیوتاکے آمدکی تیاریاں ہورہی تھیں۔ مگن داس کی آنکھ کھلی، رمبھا آٹاپیس رہی تھیں۔ اس پرسکون سناٹے میں چکی کی گھمرگھمر بہت سہانی معلوم ہوتی تھی اوراس سے سرملاکررمبھا اپنے دلکش انداز سے گاتی تھی،

    ’’جھلنیاموری پانی میں گری۔

    میں جاؤں پیا مجھ کومنہیں۔

    الٹی مناؤں مجھ کوپڑی۔

    جھلنیاموری پانی میں گری۔‘‘

    سال بھر گزرگیا مگن داس کی محبت اوررمبھا کے سلیقہ نے مل کراس ویران جھونپڑے کوکنجِ باغ بنادیا۔ اب وہاں گائیں تھیں۔ پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ اورکئی دیہاتی وضع کے مونڈھے تھے۔ فراغت اور آسائش کی برکتیں نمودار تھیں۔

    ایک روزصبح کے وقت مگن داس کہیں جانے کے لئے تیارہورہا تھا کہ ایک معززآدمی انگریزی لباس پہنے اسے ڈھونڈھتا ہوا آپہنچا اوراسے دیکھتے ہی دوڑکرگلے سے لپٹ گیا۔ مگن داس اوروہ دونوں ایک ساتھ پڑھا کئےتھے۔ وہ اب وکیل ہوگیاتھا۔ مگن داس نے بھی اب اسے پہچانا۔ اورکچھ جھیتپااورکچھ جھجکھتا، اس سے بغل گیرہوگیا۔ بڑی دیر تک دونوں دوست باتیں کرتے رہے۔ باتیں کیاتھیں، واقعات اوراتفاقات کی ایک ضخیم داستان تھی۔

    کئی مہینے ہوئے سیٹھ مگن داس کاچھوٹا بچہ چیچک کی نذرہوگیا۔ سیٹھ جی نے فرط ِملال سے خودکشی کرلی۔ اوراب مگن داس ساری جائیداد، کوٹھی علاقہ اور مکانات کابلاشرکتِ غیرے مالک ومختارتھا۔ سیٹھانیوں میں خانہ جنگیاں ہورہی تھیں۔ ملازموں نے غبن و خیانت کواپناوطیرہ بنارکھا تھا۔ بڑی سیٹھانی اسے بلانےکےلئے خودآنے پرآمادہ تھیں۔ مگروکیل صاحب نے انہیں روکا تھا۔ جب مگن داس نے مسکراکرپوچھا، ’’تمہیں کیوں کر معلوم ہوا کہ میں یہاں ہوں تووکیل صاحب نے فرمایا، ’’مہینہ بھر سے تمہارے ہی سراغ میں ہوں۔ سیٹھ مکھن لال نے پتہ بتلایاتم وہاں پہنچے اورمیں نے اپنا مہینہ بھر کابل پیش کیا۔‘‘

    رمبھابے قرار تھی کہ یہ کون ہے اوران میں کیا باتیں ہورہی ہیں۔ دس بجتے بجتے وکیل صاحب مگن داس سے ایک ہفتہ کے اندرآنے کا وعدہ لے کر رخصت ہوئے۔ اسی وقت رمبھا آپہنچی۔ اورپوچھنے لگی، ’’یہ کون تھا ان کا تم سے کیا کام تھا۔‘‘

    مگن داس نے جواب دیا، ’’جمراج کا دوت۔‘‘

    رمبھا: ’’کیااشگون بکتے ہو۔‘‘

    مگن: ’’نہیں رمبھا یہ اشگون نہیں ہے۔ یہ سچ مچ میری موت کا فرشتہ تھا۔ میری خوشیوں کے باغ کو رونددینے والا۔ میری ہری بھری کھیتی کواجاڑنے والا۔ رمبھا! میں نے تمہارے ساتھ دغا کی ہے۔ میں نے تمہیں اپنے فریب کے جال میں پھنسایاہے۔ مجھے معاف کردو۔ محبت نے مجھ سے یہ سب کروایا۔ میں مگن داس ٹھاکر نہیں ہوں۔ میں سیٹھ مگن داس کابیٹا اورسیٹھ مکھن لال کاداماد ہوں۔‘‘

    مگن داس کوخوف تھا کہ رمبھا یہ سنتے ہی چونک پڑیگی اورشاید اسے ظالم دغابازکہنے لگے۔ مگراس کا خیال غلط نکلا۔ رمبھا نے آنکھوں میں آنسوبھر کر صرف اتنا کہا، ’’تو کیا تم مجھے چھوڑکرچلے جاؤگے۔‘‘

    مگن داس نے اسے گلے لگاکرکہا، ’’ہاں۔‘‘

    رمبھا: ’’کیوں؟‘‘

    مگن: ’’اس لئے کہ اندربہت ہوشیار، حسین اوردولت مند ہے۔‘‘

    رمبھا: ’’میں تمہیں نہ چھوڑوں گی۔ کبھی اندرا کی لونڈی تھی۔ اب اس کی سوت بنوں گی۔ تم جتنی میری محبت کروگے اتنی اندرا کی تو نہ کروگے۔ کیوں؟‘‘

    مگن داس اس بھولے پن پرمتوالاہوگیا۔ مسکراکربولا، ’’اب اندراتمہاری لونڈی بنے گی مگرسنتاہوں وہ بہت سندرہیں۔ کہیں میں ان کی صورت پرلبھا نہ جاؤں۔ مردوں کا حال تم نہیں جانتیں۔ مجھے اپنے ہی سے ڈرلگتاہے۔‘‘

    رمبھا نے پریقین نگاہوں سے دیکھ کرکہا، ’’کیا تم بھی ایسا کروگے؟ انہہ! جو جی میں آئے کرنامیں تمہیں نہ چھوڑوں گی۔ اندرارانی بنے میں لونڈی بنوں گی۔ کیا اتنے پربھی مجھے چھوڑدوگے؟‘‘

    مگن داس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں۔ بولا، ’’پیاری! میں نے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ دہلی نہ جاؤں گایہ تومیں کہنے ہی نہ پایاکہ سیٹھ جی کا سرگباس ہوگیا۔ بچہ ان سے پہلے ہی چل بساتھا۔ افسوس سیٹھ جی کے آخری درشن بھی نہ کرسکا۔ اپناباپ بھی اتنی محبت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مجھے اپناوارث بنایاہے۔ وکیل صاحب کہتےتھے کہ سیٹھانیوں میں ان بن ہے۔ نوکرچاکرلوٹ مچارہے ہیں۔ وہاں کا یہ حال ہے اورمیرا دل وہاں جانے پرراضی نہیں ہوتا۔ دل تویہاں ہے۔ وہاں کون جائے۔‘‘

    رمبھا، (ذرادیر تک سوچتی رہی) ’’تومیں تمہیں چھوڑدوں گی۔ اتنے دن تمہارے ساتھ رہی۔ زندگی کاسکھ لوٹا۔ اب جب تک جیوں گی اس سکھ کا دھیان کرتی رہوں گی۔ مگرتم مجھے بھول تو نہ جاؤگے؟ سال میں ایک باردیکھ لیا کرنااور اسی جھونپڑے میں۔‘‘

    مگن داس نے بہت ضبط کیا مگرآنسونہ تھم سکے۔ بولے، ’’رمبھا یہ باتیں نہ کرو۔ کلیجہ پھٹاجاتاہے۔‘‘

    ’’میں تمہیں چھوڑکرنہیں جاسکتا۔ اس لئے نہیں کہ تمہارے اوپرکوئی احسان ہے۔ تمہاری خاطر نہیں۔ اپنی خاطر وہ راحت وہ محبت وہ آنند جومجھے یہاں میسرہے اورکہیں نہیں مل سکتا۔ خوشی کے ساتھ زندگی بسرہو۔ یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ مجھے ایشور نے وہ خوشی یہاں دے رکھی ہے تومیں اسے کیوں چھوڑوں۔ مال ودولت کومیراسلام ہے مجھے اس کی ہوس نہیں ہے۔‘‘

    رمبھا، پھرمتین لہجہ میں بولی، ’’میں تمہارے پاؤں کی بیڑی نہ بنوں گی۔ چاہے تم ابھی مجھے نہ چھوڑو۔ لیکن تھوڑے دنوں میں تمہاری یہ محبت نہ رہےگی۔‘‘

    مگن داس کوتازیانہ لگا۔ جوش سے بولا، ’’تمہارے سوا اس دل میں اب کوئی اور جگہ نہیں پاسکتا۔‘‘

    رات زیادہ آگئی تھی۔ اشٹمی کاچاندخواب گاہ میں جاچکا تھا۔ دوپہر کے کنول کی طرح صاف وشفاف آسمان میں ستارے کھلے ہوئے تھے۔ کسی کھیت کے رکھوالے کے بانسری کی آواز جسے دوری نے تاثیر، سناٹے نے سریلاپن اورتاریکی نے روحانیت کی دلکشی بخشی تھی۔ کانوں میں آرہی تھی۔ گویا کوئی مبارک روح ندی کے کنارے بیٹھی ہوئی پانی کی لہروں سے یادوسرے ساحل کے خاموش وپرکشش درختوں سے اپنی زندگی کی داستانِ غم سنارہی ہے۔

    مگن داس سوگیا۔ مگررمبھا کی آنکھوں میں نیند نہ آئی۔

    صبح ہوئی تومگن داس اٹھا اوررمبھا! رمبھا! پکارنے لگا۔ مگررمبھا رات ہی کواپنی چچی کے ساتھ وہاں سےکہیں چلی گئی تھی۔ مگن داس کواس مکان کے درودیوار پرایک حسرت سی چھائی ہوئی معلوم ہوئی۔ گویاگھر کی جان نکل گئی تھی۔ وہ گھبراکر اس کوٹھری میں گیا جہاں رمبھا روزچکی پیستی تھی۔ مگرافسوس! آج چکی بے حسن وحرکت تھی۔ پھر وہ کنویں کی طرف دوڑاگیا۔ لیکن ایسامعلوم ہواکہ کنویں نے اسے نگل جانے کے لئے اپنامنہ کھول دیاہے۔ تب وہ بچوں کی طرح چیخ اٹھا اورروتا ہواپھراسی جھونپڑی میں آیاجہاں کل رات تک محبت کا باس تھا۔ مگرآہ! اس وقت وہ ماتم کدہ بنی ہوئی تھی۔ جب ذرآنسو تھمے تو اس نے گھر میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ رمبھا کی ساڑی الگنی پرپڑی ہوئی تھی۔ ایک پٹاری میں وہ کنگن رکھاہوا تھا جومگن داس نے اسے دیاتھا۔ برتن سب رکھے ہوئے صاف اورستھرے۔ مگن داس سوچنے لگا، رمبھاتونے رات کوکہاتھا میں تمہیں چھوڑدوں گی۔ کیاتونے وہ بات دل سے کہی تھی۔ میں نے توسمجھا تھاتودل لگی کررہی ہے۔ نہیں تومیں تجھے کلیجے میں چھپالیتا۔ میں توتیرے لئے سب کچھ چھوڑے بیٹھاتھا۔ تیری محبت میرے لئے سب کچھ تھی۔ آہ میں یوں بے چین ہوں۔ کیا توبے چین نہیں ہے؟ ہائے تورورہی ہے مجھے یقین ہے کہ تواب یہیں لوٹ آئے گی۔ پھرمجسم تصویر کا ایک جمگھٹ اس کے سامنے آیا۔ وہ نازک ادائیاں وہ متوالی نگاہیں وہ بھولی بھالی باتیں، وہ خودفراموشانہ مہرانگیزیاں، وہ جان بخش تبسم، وہ عاشقانہ دلجوئیاں، وہ پریم کانشہ، وہ دائمی شگفتہ مزاجی، وہ لچک لچک کرکنویں سے پانی لانا، وہ صورتِ انتظار، وہ پرمحبت اضطراب۔ یہ سب تصویریں اس کے نگاہوں کے سامنے حسرت ناک بے تابی کے ساتھ پھرنے لگیں۔ مگن داس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ اوررقت ودرد کے امڈے ہوئے دریا کو مردانہ ضبط سے روک کراٹھ کھڑا ہوا۔ ناگپور جانے کا قطعی فیصلہ ہوگیا۔ تکیہ کے نیچے سے صندوق کی کنجی اٹھائی توکاغذکاایک ٹکڑا نل آیا۔ یہ رمبھا کاالوداعی خط تھا۔

    ’’پیارے! میں بہت رورہی ہوں۔ میرے پیرنہیں اٹھتے۔ مگرمیرا جانا ضروری ہے تمہیں جگاؤں گی توتم جانے نہ دوگے۔ آہ! کیسے جاؤں! اپنےپیارے پتی کو کیسے چھوڑوں۔ قسمت مجھ سے یہ آنند کاگھرچھوڑارہی ہے۔ مجھے بے وفامت کہنا۔ میں تم سے پھرکبھی ملوں گی۔ میں جانتی ہوں کہ تم نے میرے لئے سب کچھ تیاگ دیاہے۔ مگرتمہارے لئے زندگی میں بہت کچھ امیدیں ہیں۔ میں اپنی محبت کی دھن میں تمہیں ان امیدوں سے کیوں دوررکھوں۔ اب تم سے بداہوتی ہوں۔ میری سدھ مت بھولنا۔ میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ یہ آنند کے دن کبھی نہ بھولیں گے۔ کیا تم مجھے بھول سکوگے؟‘‘

    تمہاری پیاری رمبھا

    مگن داس کودہلی آئے تین مہینے گزرچکے ہیں۔ اس اثنامیں اسے سب سے بڑا ذاتی تجربہ ہوا وہ یہ تھا کہ فکرِروزگار اورکثرتِ مشاغل سے جذباتِ سرکش کازور کم کیاجاسکتاہے۔ ڈیڑھ سال قبل کابے فکرنوجوان اب ایک معاملہ فہم اورآل اندیش انسان بن گیاتھا۔ ساگرگھاٹ کے چندروزہ قیام سے اسے رعایا کی ان تکالیف کاذاتی علم ہوگیاتھا جو کارندوں اورمختاروں کی سخت گیریوں کی بدولت انہیں اٹھاناپڑتی ہیں۔ اس نے اسے ریاست کے انصرام میں بہت مدددی اورگوملازمین دبی زبان سے اس کی شکایت کرتے تھے اوراپنی قسمتوں اورزمانے کی نیرنگیوں کوکوستے تھے۔ مگررعایا آسودہ حال تھی۔ ہاں جب وہ سب دھندوں سے فرصت پاتاتو ایک بھولی بھالی صورت والی نازنین اس کے پہلو ئے خیال میں آبیٹھی اورتھوڑی دیر کے لئے ساگرگھاٹ کاوہ ہرا بھرا جھونپڑا اوراس کی دلفریبیاں آنکھوں کے سامنے آجاتیں۔ ساری باتیں ایک دلکش خواب کی طرح یادآکراس کے دل کومسوسنے لگتیں۔ لیکن کبھی کبھی خودبخود اس کاخیال اندرا کی طرف بھی جاپہنچتا۔ گو اس کے دل میں رمبھا کی وہی جگہ تھی، مگر کسی طرح اس میں اندرا کے لئے بھی ایک گوشہ نکل آیاتھا جن حالتوں اورآفتوں نے اسے اندرا سے بیزار کردیاتھا وہ اب رخصت ہوگئی تھیں۔ اب اسے اندرا سے کچھ ہمدردی ہوگئی تھی۔ اگراس کے مزاج میں غرور ہے۔ حکومت ہے۔ تکلف ہے۔ شان ہے تو یہ اس کاقصورنہیں۔ یہ رئیس زادوں کی عام کمزوریاں ہیں، یہی ان کی تعلیم ہے۔ وہ بالکل معذور ومجبورہیں۔ انہیں متغیراورمعتدل جذبات کے ساتھ جہاں وہ بے چینی کے ساتھ رمبھا کی یادوکوتازہ کیاکرتاتھا۔ وہاں اندرا کاخیرمقدم کرنے اوراسے اپنے دل میں جگہ دینے کےلئے تیار تھا۔ وہ دن بھی دورنہیں تھا جب اسے اس آزمائش کاسامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے کئی عزیز امیرانہ شان وشکوہ کے ساتھ اندرا کورخصت کرانے کےلئے ناگپور گئے ہوئے تھے۔

    مگن داس کی طبیعت آج گوناگوں جذبات کے باعث جن میں انتظار اوراشتیاق کی حیثیت نمایاں تھی اچاٹ سی ہورہی تھی۔ جب کوئی ملازم آتاتووہ سنبھل بیٹھتا کہ شاید اندرا آپہنچی۔ آخرشام کے وقت جب دن اور رات گلے مل رہےتھے۔ زنان خانہ میں نغمہ پرشور کی صداؤں نے بہوکے پہنچنے کی اطلاع دی۔ سہاگ کی سہانی رات تھی۔ دس بج گئے تھے۔ پرفضاصحن میں چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ وہ چاندنی جس میں نشہ ہے، آرزو ہے اورکشش ہے۔ گملوں میں کھلے ہوئے گلاب اورچمپے کے پھول۔ چاندکی سنہری روشنی میں زیادہ متین اورخاموش نظرآتے تھے۔ مگن داس اندازسے ملنےکےلئےچلا۔ اس کے دل میں آرزوئیں ضرورتھیں، مگرحسرتناک، شوق ِدیدارتھا، مگرتشنگی سے خالی۔ محبت نہیں نفیس کی کشش تھی۔ جو اسے کھینچے لئے جاتی تھی۔ اس کے دل میں بیٹھی ہوئی رمبھا شاید باربار باہرنکلنے کی کوشش کررہی تھی۔ اسی لئے دل میں دھڑکن ہورہی تھی۔ وہ خواب گاہ کے دروازہ پرپہنچا۔ ریشمی پردہ پڑا ہوا تھا۔ اس نے پردہ اٹھادیا۔ اندرا ایک سفیدساڑی پہنے کھڑی تھی، ہاتھ میں چندخوشنما چوڑیوں کے سوااس کے بدن پرایک زیوربھی نہ تھا۔ جوں ہی پردہ اٹھا اور مگن داس نے اندرقدم رکھا وہ مسکراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔ مگن داس نے اسے دیکھا اورمتحیر ہوکربولا، ’’رمبھا!‘‘ اوردونوں بے تابانہ جوش سے باہم لپٹ گئے۔ دل میں بیٹھی ہوئی ابھی باہرنکل آئی تھی۔

    سال بھرگزرنے کے بعد ایک دن اندرا نے اپنے شوہر سے کہا، ’’کیا رمبھا کو بالکل بھول گئے۔ کیسے بے وفاہو۔ کچھ یادہے اس نے چلتے وقت تم سے کیا التجا کی تھی۔ مگن داس نے کہا، ’’خوب یادہیں۔ وہ آواز ابھی کانوں میں گونج رہی ہے۔ میں رمبھا کو بھولی بھالی لڑکی سمجھتا تھا یہ نہیں جانتاتھا کہ یہ تریاچرتر کاطلسم ہے۔ میں اپنی رمبھا کو اب بھی اندرا سے زیادہ پیار کرتاہوں۔ تمہیں رشک تونہیں ہوتا؟‘‘ اندرا نے ہنس کرجواب دیا، ’’رشک کیوں ہو۔ تمہاری رمبھا ہے توکیا میرامگن سنگھ نہیں ہے۔ میں اب بھی اس پرمرتی ہوں۔‘‘

    دوسرے دن دونوں دہلی سے ایک قومی جلسے میں شریک ہونے کابہانہ کرکے روانہ ہوگئے اورساگرگھاٹ جاپہنچے۔ وہ جھونپڑا وہ محبت کامندر، وہ پریم بھون، پھول اور سبزہ سے لہرارہاتھا۔ چمپا پالن انہیں وہاں ملی۔ گاؤں کے زمیندارملنے کےلئےآئے۔ کئی دن تک پھرمگن داس کو گھوڑے نکالناپڑے۔ رمبھاکنویں سے پانی لائی۔ کھانا پکاتی۔ پھر چکی پیستی۔ اور گاتی۔ گاؤں کی عورتیں پھراس سے اپنے کرتے اور بچوں کی لیس دارٹوپیاں سلاتیں۔ ہاں اتنا ضرور کہتیں کہ اس کارنگ کیسانکھر آیاہے۔ ہاتھ پاؤں کیسے ملائم پڑگئے ہیں۔ کسی بڑے گھرکی رانی معلوم ہوتی ہے مگرمزاج وہی ہے، وہی میٹھی بولی ہے، وہی مروت، وہی ہنس مکھ چہرہ۔ اس طرح ایک ہفتہ تک اس سادہ اورپاکیزہ زندگی کا لطف اٹھانے کے بعد دونوں دہلی واپس آئے۔ اوراب دس سال گزرنے پربھی سال میں ایک بار اس جھونپڑے کے نصیب جاگتے ہیں۔ وہ محبت کی دیوار ابھی تک ان دونوں پریمیوں کواپنے سایہ میں آرام دینے کےلئے کھڑی ہے۔

    مأخذ:

    پریم چند : افسانے (Pg. 166)

      • ناشر: خدا بخش لائبریری،پٹنہ
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے