aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

الجھے رشتے

ظہیر عباس

الجھے رشتے

ظہیر عباس

MORE BYظہیر عباس

    اگرچہ اب میرے لیے بستر سے اٹھ کر رفع حاجت کے لیے جانا بھی بہت کٹھن ہے لیکن زمین ناپنے کا جنون اب بھی اسی طرح جوان ہے جیسا کبھی اس زمانے میں تھا ‘جب وقت کی لگام ہمارے ہاتھ میں تھی۔ گھر میں روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی‘ اوپر سے میں اکلوتی اولاد ‘کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا۔پورب سے پچھم‘ اترسے دکھن کون سی ایسی جگہ ہے جہا ں سے ہمارا گزر نہیں ہوا۔ دریاؤں کے قرب میں بسنے والے فراغ دل لوگوں سے ملے ‘صحرائی علاقوں کے خشک مزاج خانہ بدوشوں سے واسطہ رہا ’نیلگوں آسماں کے گالوں پہ بوس و کنار کرتے پہاڑی باشندوں کے ساتھ ہڈیوں کو منجمد کرتی راتوں میں وقت گزرا۔ رنگ رنگ کے لو گوں سے ملے‘طرح طرح کی کہا نیاں سنیں اور کبھی کبھی تو خود کہانی کا اک کرداربن کر رہ گئے۔ موت سے آنکھیں چار کرتے‘ کبھی آنکھیں چراتے عمر گزر گئی۔کچھ باتیں یادداشت میں کہیں گم ہو گئیں تو چند واقعا ت یادبھی رہ گئے۔ جس واقعے کا ذکر میں ادھر کرنا چاہ رہا ہوں اسے بیان کرنے کے لیے مجھے ماضی کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سننے والے کے لئے تو محض یہ ایک واقعہ ہے لیکن میرے لیے یہ ایک معمہ ہے ‘جسے پچھلے پچاس سال سے میں سلجھا نے کی کوشش میں پاگل ہو رہا ہوں۔ شروع میں تو محض شوق تھا جو لئے پھرتا تھالیکن اس واقعے کے بعد تو جتنے بھی سفر کیے اس الجھن سے نکلنے کے لیے کیے۔ یہ اور بات ہے کہ عمر گزر گئی لیکن معمہ وہیں کا وہیں رہا۔

    میں زندگی کی تقریباً اسی بہاریں دیکھ چکا ہوں اور عزرائیلؑ کے قدموں کی دھمک اپنے قریب تر محسوس کررہا ہوں ‘اگرکوئی سننے والا ہو توکہانیاں تو میرے پاس اور بھی بہت سی ہیں‘ لیکن سننے والا کہاں ہے؟ اب میں اصل بات کی طرف آتا ہوں۔ پچاس برس ادھر کی بات ہے۔ گھومنے کا شوق مجھے ہمالیہ کے دامن میں ایک ایسے گاؤں میں لے گیا جہاں کوئی بھٹکنے والا ہی جا سکتا تھا۔ پہاڑی پتھروں اور درختوں میں گھرایہ خوبصورت چھوٹا سا گاؤں فطرت کا ایک حصہ ہی تو تھا۔ عام طور پر میں کسی جگہ دو تین روز سے زیادہ پڑاؤ نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس گا ؤں کا زمانوں پرانا اصول تھا کہ جو بھی اجنبی مسافر یہاں آ جاتا اس کے لئے لازم تھاکہ وہ کم ازکم چالیس دن گاؤں والوں کو مہما ن نوازی کا موقع دے۔ چنانچہ مجھے بھی گاؤں کے اس آئین کی پاسداری کرنا پڑی۔ غالباًیہ کوئی پختون قبیلہ تھا جو ٹوٹی پھوٹی ہی سہی لیکن مجھ سے میری زمان میں مکالمہ کر سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے ابلاغ کا زیادہ مسئلہ نہیں رہا۔ اخلاقی روایات پوری آب وتاب سے اس گاؤں میں نافذالعمل تھیں۔ راہ چلتی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا تصور بھی نہیں تھا اور ویسے بھی عورتیں اپنا جسم مکمل ڈھا نپ کر رکھتی تھیں۔ اپنے سے عمرمیں چھوٹی کو بیٹی ‘بڑی کو ماں اور برابر والی کوبہن ماننے والی صوفیانہ منطق پر یہ لوگ پورے طور پرکار بند تھے۔ مجھ جیسے بےعمل آدمی کے لئے اتنے روز یہاں رہنا آسان نہیں تھا لیکن رہنا تو تھا۔ سو کے قریب قریب گھر تھے‘ پہاڑی سلسلے میں واقع ہونے کے باوجود زمین ناہموار نہیں تھی۔ قبیلے کارقبہ بہت زیادہ نہیں تھا لیکن اتنا گنجان بھی نہیں تھاکہ مکان کندھے سے کندھا بھڑائے باجماعت کھڑے ہوں۔ مشرقی کونے میں ایک چھوٹی لیکن صاف ستھری مسجد تھی۔ مسجد سے ملحق حجرہ مہمان سرائے کے طورپر استعمال ہوتا تھا ‘اگلے سفر پر نکلنے سے پہلے یہی میرا ٹھکانہ تھا۔ میں اس پڑاؤ سے پہلے اور بعد میں جہاں کہیں بھی گیا‘ رہائش اور کھانے کاانتظام مجھے خود ہی کرنا پڑتا تھا۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا تینوں اوقات کے کھانے ‘جن میں زیادہ ترپھل ہوتے تھے‘ خبر نہیں کہاں کہاں سے آتے تھے۔ میرا گمان ہے کہ باری باری ہر گھر سے کھانا آتا تھا کیونکہ ہر کھانے کے ساتھ کھانا لانے والے چہرے بھی تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ لوگوں کا ایک دوسرے سے برتاؤ مثالی تھا، انسان اگراپنی چند جبلتوں کا اسیر نہ ہوتا تو اس گاؤں کی حد تک تو شاید چاردیواری کی ضرورت نہیں تھی۔

    کم وبیش تمام لوگ باجماعت نمازاداکرتے تھے ‘مسجدکے حجرے میں ہونے کی وجہ سے مجھے بھی بادل نخواستہ ساری کی ساری نمازیں ادا کرنی پڑتی تھیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے اپنی زند گی میں وہی چند روز باقاعدگی سے عبادت کی ہے‘جس میں مجھ سے اور خدا سے زیادہ ان لوگوں کی رضاشامل تھی۔بہرحال نماز کے بعد ان سب کا ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر ملنامیرے لیے ہمیشہ ہی ایک جذباتی اور دیدہ زیب منظر ہوتا تھا۔ یہ بات حج کے موقع پر ہو تو ہو وگرنہ جس خلوص اور لگاؤ سے یہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے‘ حال چال پوچھتے ‘میں نے زندگی میں کسی عید پربھی یہ منظر نہیں دیکھا۔ اپنے اندر کی تمام تر خباثتوں کے باوجود جو روحانی سکون مجھے وہاں ملا‘ میں عمر بھر اُسے ترستا ہی رہا۔

    میرا معمول یہ تھا کہ ناشتے کے بعد گھومنے کے لئے نکل جاتا اور سہ پہرکے کھانے پر واپسی ہوتی ‘تھوڑی دیرآرام‘ پھر عصر کے بعدکچھ وقت باہر گزرتا۔میں جواپنے ذاتی معاملات میں کسی کی مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرتا تھا ‘جب مجھے بتایا گیا کہ ہر روزایک نوجوان بطور رہبر میرے ساتھ ہوا کرےگا‘ جو میراخیال رکھےگا ‘تو میں سٹپٹا گیا کہ یہ کیا بات ہوئی‘ کیا یہ لوگ مجھے میری مرضی سے کوئی کام نہیں کرنے

    دیں گے؟۔ تنہا گھومنے وا لے فرد کے ساتھ اگر ایک سایہ چپکا دیا جائے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے یہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا تھا۔ میری الجھن کی دو وجوہات تھیں; ایک تو یہ کہ میں گھومنے پھرنے کے معاملے میں دوسرے فرد کا عادی نہیں تھا ‘دوسری بات یہ کہ یہ میری مرضی کے خلاف تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ میں نے کس امتحان میں خود کو ڈال لیا ہے؟لیکن بعد میں خود پر ندامت بھی ہوئی‘ ہوتا یوں تھا کہ جو بھی میرا گائیڈ ہوتا۔۔۔ جوہر روز کھانا لانے والے کی طرح مختلف ہوتا۔۔۔ میرے ساتھ ضرور جاتا‘ لیکن میرے معاملات میں دخل اندازی تو دور کی بات وہ تو میرے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ وہ گاؤں سے میرے ساتھ نکلتا اور ساتھ ہی واپس آتا ‘درمیانی وقت میں کہاں جاتا‘ کیا کرتا اس بات سے میں آخر تک بےخبر ہی رہا۔ روز ہم ایک نئے راستے سے نکلتے تھوڑی دور جا کر وہ کہیں ؂غائب ہو جاتا اور میں اکیلا ہی پھرتا رہتا۔ میں نے کئی بار یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ آخر وہ جاتا کدھر ہے لیکن ناکام رہا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کسی جاسوس کی طرح میری پوری خبر رکھتا۔ زیادہ دن وہاں رکے رہنے کی وجہ سے قدرتی مناظر سے زیادہ یہاں کے لوگوں میں میری دلچسپی زیادہ تھی۔ ویسے بھی جگہیں تو میں نے اپنی زندگی میں اس علاقے سے کئی گنا زیادہ خوب صورت اور دل کو موہ لینے والی دیکھی ہیں۔بھیڑ بکریوں کے پیچھے بھاگتے بچے ‘اونچے نیچے درختوں سے پھل توڑتے ‘چنتے نوجوان; لکڑیاں اکٹھی کرتے افراد‘ یہ اور اس طرح کے مناظر جگہ جگہ دکھائی پڑتے۔ جب میں واپسی کے لیے پلٹتا تو میرا ہمراہی بھی میرے ساتھ ہی گاؤں میں داخل ہوتا۔

    قبیلے سے کوئی بیس پچیس منٹ کی مسافت پر ایک قدیمی قبرستان تھا۔ قبیلے کو جو راستہ بیرونی دنیا سے جوڑتا تھا وہ اسی قبرستان سے ہوکر آتا تھا۔ قبرستان کے عین درمیان میں ایک چھوٹا سا چشمہ تھا جس کا شفاف پانی تمام لوگوں کی ضروریات پورا کرتا۔ چشمے کے ساتھ کسی بزرگ کا مزار تھا جس میں ایک باریش مجاور ہردم تسبیح ہلاتا نظر آتا ‘مجرد زندگی گزارنے والایہ درویش منش ساتویں دہائی کے آخری سالوں میں تھا۔ یہ مجاور ہی یہاں کی واحد مسجد کا امام بھی تھا۔ امام صاحب کا لوگوں سے اتنا ہی تعلق تھاکہ ان کی صرف نماز کے اوقات میں ہی دوسروں سے ملاقات ہوتی ۔لوگوں کی اُن سے لگاؤ کی نوعیت وہی تھی جو چیلوں کی گرو کے ساتھ ہوتی ہے۔ میں ان کا احترام ضرور کرتا تھا لیکن ظا ہر ہےنوعیت وہ نہیں تھی جو باقیوں کی تھی اور دوسرا مہمان ہونے کے ناتے وہ بھی میرے ساتھ برابری کی سطح پہ ہی بات کرتے تھے۔ نماز عصرکے بعد میرا زیادہ تر وقت امام صاحب کے ساتھ ہی گزرتا۔ آخری دنوں میں تو ہمارا تعلق اور بھی مضبوط ہو گیا۔

    میں اب جو نہ صرف ہر فردسے واقف ہو چکا تھا بلکہ یہ بھی جان چکا تھا کہ کس کا تعلق کس گھرانے سے ہے۔ ابتدائی دنوں میں تو اس طرف دھیان نہیں گیا لیکن وہاں ایک مکان ایسا بھی تھا جس میں مکین تو موجود تھے، لیکن ان کا اردگرد موجود دُنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ظاہر ہے یہ بات میرے لیے بہت حیران کن تھی۔

    قبرستان اور قبیلے کے راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے آتے جاتے نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر نظر پڑ جاتی۔ دن کے وقت گھر کے دروازے پر ایک گنداسا پردہ پڑا رہتا۔ لوگوں سے لاتعلق ایک نوجوان تھا جسے۔۔۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔۔۔ میں نے دو یا تین دفعہ سے زیادہ نہیں دیکھا۔ پہلی بار وہ مجھے تب نظر آیا جب میں قبرستان کی طرف جا رہا تھا ‘وہ چپ چاپ میرے پاس سے گزر گیا۔ لیکن اس کا وہ معصوم‘ پرسکون چہرہ اور وہ گہری نیلی ‘اندر تک اترتی آنکھیں ‘وہ چہرہ کوئی عام چہرہ نہیں تھا۔ سچی بات ہے اسے اتنا زیادہ میں نے نہیں دیکھا جتنا اس نے ایک لمحے میں مجھے دیکھ اور جان لیا۔اس کے علاوہ ایک آدھ بار گھر کے دروازے پر‘ لیکن تب اس کے چہرے کی طر ف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ اس کی آنکھیں مجھے اب بھی یاد ہیں ‘ایسی آنکھیں کسی درویش منش انسان کی ہی ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ خبر نہیں کہ اندر کیا معاملات تھے؟ یہ نوجوان اکیلا ہی ہے یا اس گھر میں کچھ اور لوگ بھی ہیں؟ اخلاقی روایات کے امین لوگوں میں رہنے والا یہ نوجوان‘ سب سے اتنا مختلف اور دور کیوں ہے؟ اس معاملے نے میرا ذہن اُلجھا دیا ‘ایک طرف تو قبیلے کا جینا مرنا ساتھ ہے تو دوسری طرف اس گھر سے یکسر قطع تعلقی‘ سمجھ سے بالاتر تھی۔ آخر وہ کون سا جرم ہے جس کی وجہ سے سب نے اس گھر سے ناتا توڑ رکھا ہے یا اس گھر والوں نے باقی لوگوں سے رابطہ منقطع کر رکھا ہے؟ نوجوان کی شکل و شباہت میں کوئی ایسی خرابی نہیں تھی کہ جس سے یہ گمان ہو کہ اس نے کوئی جرم یا کوئی ایسا کام کیا ہوگا جس سے دوسروں کی دل ازاری ہوئی ہو۔ بلکہ میرے گمان کے مطابق ایسا فرشتہ صفت انسان تو چاہ کر بھی کسی کی د ل آزاری نہیں کر سکتا۔ اپنی دنیا میں مگن رہنے والا دوسروں کے لیے ضرر رساں کیسے ہو سکتا ہے؟ لوگوں کا حسنِ سلوک اب مجھے کھلنے لگا تھا‘ کبھی خیال آتا کہ کو ئی تو ایسا جرم اس گھر والوں سے بھی سرزد ہوا ہے جو پورے قبیلے نے اس گھر کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ ایک روز سرراہ میں نے ایک نوجوان سے اس معاملے کے بارے میں سوال کرنے کی کوشش کی تو اس نے میری طرف یوں گھور کر دیکھا جیسے کہ میں نے اسے کوئی گالی دے دی ہو۔ میں نے باتوں باتوں میں چند ایک سے پوچھنے کی کوشش ضرور کی لیکن دانستہ مجھے بتانے سے اجتناب کیا گیا۔ اب اس بات نے میرے تجسس کو اور بڑھا دیا ‘اور عجیب صورت حال یہ تھی کہ یہاں آ کر میں اس قبیلے کا ایک باشندہ ہی بن گیا تھا‘ اور میرے اندر تو یہ ہمت پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ میں خود اس نوجوان سے اس کا مسئلہ پوچھوں کہ کیا وجہ ہے کہ تم دوسروں سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہو؟میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کر دیا کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے جو لوگ مجھے اپنے اس راز میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ اب یہاں رہنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح پتہ چلایا جائے کہ ٓاخر یہ ماجرا کیا ہے؟ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بتانے کی تیار نہیں تھا۔ مکانوں میں بسنے والوں کی اگر خبر نہ ہو تو مکان آسیب بن جاتے ہیں اور میرے لیے تو پورا گاؤں ہی حیرت کدہ تھا۔

    ایک روز میں امام صاحب کے پاس بیٹھا ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا تو دل میں خیال آیاکہ کیوں نہ انہیں سے اپنی الجھن کا ذکر کیا جائے۔ میں بات کا آغاز کرنے کے لیے ابھی مناسب الفاظ ذہن میں ترتیب دے ہی رہا تھا کہ وہ بھانپ گئے کہ میرے دماغ میں کیا کشمکش چل رہی ہے؟ جب تم اگلے سفر کے لیے یہاں سے نکلو تو مجھے ملنا ‘تم بھی اس گھر کی کہانی سننا اور اپنی راہ لینا۔ ویسے میرا مشورہ یہی ہے کہ کہانی ان کہی رہے تو بہتر ہے اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تم سنے بغیر جا ہی نہیں سکتے۔شفیق بزرگ کے اس ایک جملے نے میرا تجسس حیرت میں بدل دیا اور مجھے بھی لگا کے میں سنے بغیر جا ہی نہیں سکتا۔ گاؤں والوں کے گریز نے میرے اندر جاننے کی وہ شدت پیدا نہیں کی جو ان کے اقرار نے پیدا کر دی۔ جس دن ان سے میری بات ہوئی مجھے وہاں رہتے مہینہ ہو چلا تھا اب مجھے مزید دس روز انتظار کرنا۔ سچی بات ہے وہ میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ میں جو سیاحی کا اسیر تھا‘ زندگی جس کے نزدیک چلتے رہنے کا نام ہے ‘دس دن خبر نہیں کس عالم میں رہا۔ کیا کھایا کیا پیا‘ حجرے میں ہی رہا یا باہر بھی کہیں نکلا‘ امام صاحب کے پاس جاتا بھی تھا کہ نہیں اور میری ان سے کیا باتیں ہوتی تھیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان دنوں وقت کی رفتار کیا تھی یہ جاننے کی تو اب حسرت بھی نہیں رہی۔

    ؔ

    بالآخر وہ دن آہی پہنچا لوگوں نے مجھے یوں الوداع کیا جیسے کوئی مرنے والے کو کرتا ہے۔ تمام مرد حضرات وہاں موجود تھے اس دن کوئی اپنے دھندے پر نہیں گیا ہر کوئی غمزدہ تھا ‘بیشتر تو باقاعدہ رو رو کے گلے مل رہے تھے۔ اس سارے منظرنے مجھے بھی جذباتی کر دیا کچھ وقت کے لیے میرے ذہن سے وہ مکان والا معمہ نکل گیا اور جسم کی پور پور سے مجھے ان لوگوں کی بےلوث محبت پر پیار آنے لگا۔ بالآخر جب میں نے قبیلے کی طرف پشت پھیری اور قبرستان کے راستے کی طرف مڑا تو میرے دماغ میں متضاد خیالات کی بے ہنگم چیخ وپکار تھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ لوگوں کی اِ س گرم جوشی کے ردعمل میں کِس قسم کا رویہ اختیار کیا جائے؟ اِیک لمحے کے لیے خیال آیا کہ یہ اِن کا ذاتی معاملہ ہے مجھے کیا ضرورت ہے ٹوہ لینے کی سکون سے اگلی منزل کی طرف نکلتا ہوں۔ لیکن خبر نہیں وہ خیال‘ وہ لمحہ آیا بھی یا نہیں اور اگر آیا تو کدھر گیا۔میں ان کے سامنے بیٹھا تھا اور وہ ہمکلام ہونے سے پہلے دور بادلوں کی اوٹ میں پتہ نہیں کیا ڈھونڈ رہے تھے؟ ان کاانہماک جتنی دیر قائم رہا میں ان کی طرف تو کبھی بادلوں کی طرف گھورتا رہا۔

    انہماک کا سحریوں ٹوٹا اس گھر کے باسی بھی قبیلے کی زندگی کا ویسے ہی حصہ تھے جیسا کہ تم نے دیکھا۔ عرصہ پہلے یہاں میاں بیوی رہتے تھے جو ظاہر ہے دوسرں کی طرح ہی ملنسار اور پارسا تھے۔ شاد ی کے کوئی دس سال بعد خدانے انہیں ایک بیٹا دیا۔ تقدیر نے انہیں اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ اپنے برخوردارکو پھلتا پھولتا اورجوان ہوتا دیکھتے۔ وہ بمشکل پانچ سال کا تھا جب یکے بعد دیگرے ان کا انتقال ہو گیا۔ قبیلے والوں نے اُس یتیم اور مسکین بچے کی پرورش اور دیکھ بھال اپنے بچوں کی طرح کی۔ وہ نوجوان سب کی آنکھ کا تارا تھا ‘وہ پورے قبیلے کا بھائی اور بیٹا تھا ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کر اس پر اپنا حق جتاتا۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ جواب میں وہ اتنی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا‘ بعدکے دنوں میں تو ناگواری اُس کے چہرے سے عیاں ہو جاتی۔ وہ دوسرں سے دور دور رہنے کی کوشش کرتا ‘پہلے پہل تو لوگوں نے ٓاس کے اِس رویے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی ‘پھر سب نے اُسے اُس کے حال پہ چھوڑ دیا۔ کئی کئی دن وہ غائب رہتا اور پھر اچانک کہیں سے نمودار ہو جاتا‘ چپ چاپ اور اپنی دنیا میں مگن رہنے والا یہ نوجوان سب کے لیے معمہ بنتا جا رہا تھا۔ اس کی شخصیت میں ایسا اسرار تھا کہ لو گ اس سے خوفزدہ رہنے لگے تھے۔ ایک دن سرِشام جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ ایک خوبرو لڑکی تھی ‘اتنی خوبصورت کہ ویسی نہ تو انہوں نے کہیں دیکھی اور نہ کبھی سنی اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور ہو گئیں‘ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ جو کئی کئی روز غائب رہتا تھا اس کی وجہ یہی لڑکی تھی۔ اس کے نین نقش اور شکل و شباہت اس بات کی چغلی کھاتے تھے کہ اس دوشیزہ کا تعلق دور نزدیک کے کسی قبیلے سے نہیں ہے۔ وہ کس دنیا کی مخلوق تھی ‘یہ کیسے اُسے اپنے ساتھ لے آیا‘ وہ اس کی منکوحہ تھی کہ نہیں تھی یہ ایک سربستہ راز ہے جس سے پردہ اٹھانا ہنوز باقی ہے۔یہ معاملہ جو بھی تھالیکن ان کی محبت ہماری دنیا کی محبت نہیں تھی ‘وہ دنیا ومافیہا سے بے خبرسارا سارا دن اُنہیں جگہوں پہ گھومتے رہتے جو تمہاری دیکھی بھالی ہیں۔ کوئی ایک سال بعد ان کے ہاں لڑکی کی پیدا ئش ہوئی‘ کرنی خدا کی ابھی وہ چھ ماہ کی ہوئی تھی کہ اُس کی ماں اللہ کو پیاری ہو گئی۔‘‘

    ’’نوجوان جو اس عورت کی محبت میں پاگل تھا سارادن بچی کو سینے سے لگائے پاگلوں کی طرح انہیں جگہوں پہ گھومتا رہتا جہاں کبھی وہ دونوں پھرتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لڑکی جوان ہو گئی ‘لڑکی جوان کیا ہوئی ساتھ ایک انہونی بھی ہو گئی۔۔۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں۔۔۔ کہ وہ ہو بہو اپنی ماں کی شکل کی تھی۔ نوجوان جو ابھی بمشکل بتیس تینتیس سال کا ہی ہوا تھا اس دوشیزہ کو۔۔۔ جومہذب دنیا کی نظر میں رشتے میں اس کی بیٹی تھی۔۔۔ ویسے ہی لیے پھرتا جیسے کہ وہ اس کی ماں کے ساتھ پھرتا تھا۔ اسے خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب اس نے اپنی بیوی۔۔۔ یاتم کچھ بھی سمجھ لو۔۔۔کی ہمشکل دوشیزہ کو ایک مرد کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ نوجوان کی نگاہ جب اس کے جسم کے نشیب وفراز پر ٹھہر ٹھہرجاتی تو اُس کا انگ انگ تمتما اُٹھتا۔ وہ صرف ایک ہی رشتے کو جانتے تھے جو نراور مادہ کا جبلی رشتہ ہے اس کے علاوہ دنیا کے کسی رشتے کا اُن کے لیے کوئی وجود نہیں تھا۔مقررہ وقت پر اُن کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا‘اُس کی پرورش ویسے ہی کی گئی جیسے کہ ہر ماں باپ کرتے ہیں۔اُن دونوں کی دُنیا اُس بچے سے شروع ہو کر اسی پہ ختم ہو جاتی تھی ‘بچے نے ابھی چلنا سیکھنا تھا کہ اُس کے باپ کا انتقال ہو گیا۔ بےرحم وقت پھر وہی چال چلنے کو بیتاب تھا‘ لڑکا من و عن اپنا باپ تھا۔

    سولہ سترہ سالہ گبھرو جوان ایک ہی کام جانتا تھا اور وہ تھا اپنے سے تقریباً دوگنی عمر کی شہوت سے لبریز عورت کو اپنی رانوں میں دبائے رکھنا۔ یہ سلسلہ کئی صدیوں سے نسل در نسل چل رہا ہے لڑکی پیدا ہوتی ہے تو عورت مر جاتی ہے اور اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو مرد زندہ نہیں رہتا۔ عمر کا فرق وہی رہتا ہے شکل وشباہت بھی وہی اور تعلق بھی وہی۔ جو نوجوان تم نے دیکھا سمجھ لو یہ نوجوان ہر سولہ ستر ہ سال بعد پیدا ہوتا ہے اور جو لڑکی تم نے نہیں دیکھی وہ بھی۔ تمھارے آنے سے چند روز پہلے اِن کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہو چکی ہے اب پورے قبیلے کو اُس کی ماں کی موت کا انتظار ہے یہ تیسرا جنازہ ہوگا جو مجھے پڑھانا ہے۔‘‘

    یہاں تک بات کر کے وہ خاموش ہو گئے اور میں تو پہلے ہی خاموش تھا، ہمارے درمیان خاموشی کی خلیج گہری ہوتی چلی گئی اور شام کا دھندلکا بھی گھپ اندھیرے میں بدل چکا تھا۔ منہ اندھیرے انہیں الوداعی سلام کرکے میں اپنی اگلی منزل کے راستے پر تھا۔

    میاں یہ تھا وہ معاملہ جو تب سے اب تک میرے سینے کا بوجھ بنا ہوا ہے۔ تم پہلے انسان ہو جسے میں نے یہ کہانی سنائی، گھڑیاں ناپتے ناپتے میں تو وہاں آہی پہنچا ہوں جہاں موت گمشدہ بچے کی منتظرماں کی طرح بانہیں کھولے کھڑی ہے۔ اب بھی وہاں وہ کھیل جاری ہو گا ہم تو ایک نسل کی وراثت دوسری نسل کے سپرد کر چلے۔وقت آنے پر تم بھی یہ بوجھ اگلے کندھوں پہ منتقل کر کے اپنی راہ لینا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے