Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اتم چند والیہ

غضنفر

اتم چند والیہ

غضنفر

MORE BYغضنفر

    سوٹ اور ٹائی میں ملبوس گندمی رنگ کے ایک صاحب اکثر ہمارے دفتر کے کیمپس میں دکھائی دیتے۔ خاموشی سے داخل ہوتے اور ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھے پروفیسر جمال کے کمرے کی طرف بڑ ھ جاتے۔

    حسب معمول ایک دن وہ کیمپس میں داخل ہوئے۔ خاموشی سے جمال صاحب کے روم کی جانب بڑھے مگر جلدی ہی واپس آکر کیمپس کے لان میں بے چین سے پھر نے لگے۔ کچھ دیر تک وہ لان کا چکر کاٹتے رہے پھر جھجھکتے جھجھکتے میرے کمرے کی طرف بڑھ آئے۔ ’’کیا میں حاضر ہو سکتا ہوں‘‘ دروازے کے پاس پہنچ کر نہایت اد ب کے ساتھ بڑے ہی شائستہ لہجے میں مجھ سے انہوں نے اجازت طلب کی۔

    ’’جی، ضرور، تشریف لائیے‘‘ میں نے انہیں اندر بلا لیا۔ وہ میرے کمرے میں داخل ہو گئے مگر کھڑے رہے

    ’’تشریف رکھیے‘‘ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا

    ’’شکریہ‘‘ وہ سامنے والی کرسی پر محتاط انداز میں بیٹھ گئے۔

    ’’جی فرمائیے۔‘‘ حسبِ عادت ہر آنے والے کی طرح ان سے بھی میں نے ان کی منشا معلوم کی۔

    ’’جمال صا حب آج نہیں آئے ہیں کیا؟ انہوں نے کچھ پریشان کن لہجے میں سوال کیا

    ’’نہیں۔ وہ لمبی چھٹی پر باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’لمبی چھٹی!‘‘ حیرتی لہجے میں وہ یہ فقر ہ دہراکر خاموش ہو گئے جیسے میرے جواب نے ان پر فالج گرا دیا ہو۔ ان کے چہرے پر اداسی آمیز مایوسی چھا گئی۔

    ’’کیابات ہے! کوئی ضروری کام تھا کیا؟‘‘ میں نے ان کی پریشانی کا اندازہ لگاتے ہوئے سوال کیا۔

    ’’جی‘‘ انہوں نے بہت ہی آہستہ سے جواب دیا

    ’’آپ میسج دے دیجیے ، میں ان تک پہنچا دوں گا

    ’’میسیج سے کام نہیں چلےگا سر۔‘‘

    ’’ایسا کیا کام ہے کہ آپ اس قدر پریشان ہو گئے؟‘‘

    ’’بات دراصل یہ ہے سر کہ میں اردو سے ایم۔ اے۔ کر رہا ہوں۔ تیاری کے سلسلے میں جمال صاحب سے رہنمائی حاصل کرنے یہاں آتا ہوں۔ امتحان قریب ہے اور رہنمائی کرنے والا دور۔ اس بات نے مجھے بوکھلا دیا ہے‘‘

    ’’بس یہی بات ہے۔‘‘

    ’’جی، مگر یہ بات بس یہی بات تک محدود نہیں ہے، میرے لیے تو یہ بے چین کردینے والی بات ہے۔‘‘

    ’’گھبرائیے نہیں، پروفیسر جمال جب تک نہیں آتے ہیں آپ کا یہ کام میں کر دیا کروں گا۔‘‘

    ’’آپ !‘‘

    کیو ں؛ میں نہیں کر سکتا! میں بھی اردو کا لیکچر ہوں صاحب !

    ’’یہ بات نہیں ہے سر۔

    ’’ تو پھر یہ حیرانی کیوں؟‘‘

    بات درا صل یہ ہے سر کہ مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ آپ میری مدد فرمائیں گے۔

    ’’کیوں‘‘ ؟

    ’’کیوں کہ اس کام کے لیے آپ نے اتنی آسانی سے حامی جو بھر دی۔‘‘ کوئی حلیہ حجت، نہ کوئی شرط، نہ ہی کسی قسم کا کوئی مطالبہ اور نہیں کوئی۔۔۔

    ’’دیکھیے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو علم بانٹنے میں آنا کانی کرتے ہیں یا اس کے لیے کسی قسم کا سودا کرتے ہیں۔ بتا ئیے آج آپ کیا پڑھنا چاہتے ہیں؟۔۔۔‘‘

    ’’سر آج میں میرؔ کو سمجھنا چاہتا ہوں، ان کی امتیازی خصوصیات جاننا چاہتا ہوں‘‘

    ’’بہتر‘‘ میں نے مزید کسی گفتگو کے میر کی شاعری کی امتیازی خصو صیات پر بولنا شروع کر دیا۔

    ’’سر‘‘ میں نوٹ کرتا جاؤں۔‘‘

    ’’ضرور، جو پوائنٹس آپ کو اہم لگیں انہیں نو ٹ کر لیجیے‘‘ میں نے اپنی گفتگو کی رفتار دھیمی کر دی۔

    ’’ ۔۔۔۔۔ میرؔ کی ایک اور اہم خصوصیت ’درد مند ی‘ ہے۔ ان کی ’درد مندی‘ کئی صورتوں میں ضاہر ہوتی ہے ایک صورت یہ ہے؂

    جو اس شور سے میرؔ روتا رہےگا

    تو ہم سایہ کاہے کو سوتا رہےگا

    میرؔ اپنے درد سے پریشان ہیں۔ ان کا درد انہیں بری طرح رلا رہا ہے مگر انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان کا اس طرح رونا دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ میر کا یہ شعر؂

    سرہانے میر کے آہستہ بولو

    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    بھی ان کی دردمندی کی ایک صورت کا غماز ہے۔ میرؔ کا یہ وصف میر کو امتیازی شان عطا کرتا ہے۔۔۔

    ’’امید ہے میرؔ کی شاعری کی کچھ بنیادی باتیں واضح ہو گئی ہوں گی۔‘‘ تقریباً پینتس چالیس منٹ کے بعد میں نے میر تقی میرؔ کاسلسلہ ختم کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’’جی، بالکل، ایک ایک بات واضح ہو گئی۔ ایک ایک نکتہ ذہن نشیں ہو گیا۔ جناب کا اس مہربانی کے لیے بے حد شکریہ۔‘‘

    ’’اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک استاد ہونے کے ناطے میرا یہ فرض ہے کہ کسی علمی معاملے میں میں کسی کے کام آؤں۔‘‘

    ’’یہ تو آپ کا بڑکپن ہے صاحب آپ کا یہ خیال جان کر میرے دل میں آپ کی قدر اور بڑھ گئی۔

    ’’شکریہ۔ کچھ اور پڑھنا ہے یا آج کے لیے اتنا کا فی ہے؟‘‘

    ’’اتنا کافی ہے سر! سر آپ سے ایک گزارش تھی۔‘‘

    ’’فرمائیے۔‘‘

    ’’آپ برانہ مانیں تو عرض کروں؟‘‘

    ’’ بتا ئیے کیا بات ہے؟‘‘

    ’’سر یہ کچھ پھل ہیں میرے باغ کے انہیں جمال صاحب کے لیے لایا تھا مگر ان پر اب آپ کا۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ انہیں قبول کر لیتے تو مجھے خوشی ہوتی۔

    ’’دیکھیے، میں پڑھائی لکھا ئی کے سلسلے میں کسی سے کچھ نہیں لیتا اس لیے میں انہیں نہیں رکھ پاؤںگا‘‘

    ’’سر یہ کسی قسم کا کوئی Return نہیں ہے۔ اسے لانے میں صرف میری شردھا اور میرا خلوص شامل ہے۔مجھے یقین تھا کہ آپ میرے خلوص کو ٹھکرائیں گے نہیں اسی لیے میں ہمّت بھی کر سکا۔ ایک بار پھر آپ سے التجا ہے کہ میرے اس خلوص ‘‘

    ’’ٹھیک ہے رکھ دیجیے مگر آئندہ خیال رکھیےگا کہ مجھے یہ سب پسند نہیں‘‘

    ’’جی بہتر، سر میں دو بارہ کب آ جاؤں؟‘‘

    ’’جب چاہیں۔‘‘

    ’’آپ کو کو زحمت تو ہوگی

    ’’مجھے کوئی زحمت نہیں ہوگی۔ آپ اس کام کے لیے میرے پاس بلا جھجھک آ سکتے ہیں‘‘

    ’’شکریہ۔ ویسے کو ن سا وقت منا سب رہےگا؟‘‘

    ’’شام سے تھوڑا پہلے، یہی چار اور پانچ کے بیچ‘‘

    ’’جی، بہتر، سر اب میں چلوں؟‘‘

    اجازت لے کر وہ چلے گئے۔ جاتے وقت ان کا چہرہ ان کیفیات سے آزاد تھا جو آتے وقت وہ اپنے ساتھ لائے تھے اور جن میں یہ سن کر اور بھی شدت پیدا ہو گئی تھی کہ پرنسپل صاحب لمبی چھٹی پر با ہر گئے ہوئے ہیں۔

    تین چار روز بعد وہ دو بارہ تشریف لائے رسمی گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کا نام اتم چند والیہ ہے۔ وہ گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر ہیں اور اپنے شوق یا کسی ضرورت کی خاطر اس عمر میں ایم۔ اے۔ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا موضوع بتا یا اور میں شروع ہو گیا۔ موضوع کے ایک ایک پہلو کی جب وضاحت ہو گئی اور ان کے ایک ایک سوال کا جواب انہیں مل گیا تو بولے ’’سر آپ بڑی اچھی طرح سمجھاتے ہیں۔ مو ضو ع کا ایک ایک پہلو آئینے کی طرح صاف ہو جاتا ہے۔ پوری طرح تسلی ہو جاتی ہے۔ آپ کے سمجھانے کا انداز بھی بہت پیارا ہے اور آپ کے علم کا کیا کہنا وہ تو دریا ہے دریا، شروع ہوتا ہے تو بہتا ہی چلا جاتا ہے۔ خدا اس دریا کو ہمیشہ رواں دواں رکھے۔

    میری تعریف کے بعد وہ کچھ دیر تک خاموش رہے مگر ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ ان کے لب تو خاموش ہو گئے ہیں لیکن ان کے اندرون میں کوئی زبردست مکالمہ چل رہا ہے۔

    ’’کیا بات ہے؟ اچانک آپ اس قدر سنجیدہ کیوں ہو گئے؟‘‘ میرے پوچھنے پر بولے ’’بات دراصل یہ ہے سر کہ خلوص و محبت اور اطا عت و فر ماں برداری میں جنگ چھڑ گئی ہے۔‘‘

    ’’میں کچھ سمجھا نہیں‘‘ میں ان کی طرف غور سے دیکھنے لگا میرے اس سوال پر اپنی نظر یں جھکائے ہوئے بولے ’’سر آپ کو جو بات پسند نہیں میں وہی کر بیٹھا ہوں مگر قصوروار اکیلا میں نہیں ہوں۔ اس میں میری بیوی بھی شامل ہیں۔ آتے وقت انہوں نے ضد کر کے کہا کہ میں آپ کے لیے اپنے کچن گارڈن سے کچھ تازہ سبزیاں لیتا جاؤں۔ خاص کر پہاری کندرو اور ولائتی کھیرا۔ انہوں نے اس لیے بھی ضد کی کہ ان دنوں بازار کی سبزیوں کے بارے میں طرح طرح کی خطر ناک خبریں سننے میں آ رہی ہیں سو میں کچھ تازہ سبزیاں لیتا آیا ہوں مگر ہمت نہیں ہو رہی ہے کہ آپ کو پیش کروں‘‘

    ان کی باتیں سن کر میرے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی مگر میں سہج اور سنجیدگی کے درمیان کا لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولا

    ’’جنگ میں محبت کو ہارنا نہیں چاہیے مگر استاد کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ امید ہے آئندہ سے استاد کی نافرمانی نہیں ہوگی۔

    ’’سر آپ بہت اچھے ہیں اس بار نہ صرف یہ کہ آپ نے میری محبت کو ما ت کھانے سے بچالیا بلکہ مجھے اپنی بیوی کے سامنے شرمندہ ہونے کے احساس سے بھی نجا ت دلادی۔ سر، اب میں بغیر کسی بوجھ کے اپنے گھر جا سکوں گا۔‘‘

    والیہ کو جاتے ہوئے دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ واقعی انہیں کسی دباؤ کے کرب سے چھٹکارہ مل گیا تھا۔

    دو روز بعد والیہ صاحب پھر تشریف لائے۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے اپنا موضوع بتا یا اور میں شروع ہو گیا۔ گفتگو کے اختتام پر والیہ صاحب کا شگفتہ چہرہ پھر سے اسی سنجیدگی کا شکار ہو گیا جو اس سے پہلے والی ملا قات میں ہوا تھا۔

    ’’لگتا ہے آج پھر آپ کے اندر کوئی جنگ چھڑ گئی ہے؟‘‘

    ’’ جی آپ نے با لکل صحیح اندازہ لگایا۔ مجھ سے پھر ایک نا فرمانی ہو گئی ہے۔ میں یہ نافرمانی نہیں کرتا اس لیے کہ آپ کی پچھلی مٹنگ والی بات میرے ذہن میں اب بھی گونج رہی ہے مگر آج پانچ ستمبر ہے اور ہمارے درمیان پانچ ستمبر والا رشتہ بن چکا ہے۔ آج کی تاریخ کے رشتے نے مجھے ایسا حوصلہ بخشا کہ میں آپ کی اطاعت کی بھی پر واہ نہ کر سکا لیکن نافرمانی کا احساس بھی مجھے کچو کے لگا رہا ہے۔ اس لیے آج کے دن بھی آپ کو تحفہ پیش کرنے کی ہمّت نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’والیہ صا حب آپ لو جک اچھّی پیش کرتے ہیں آپ کو تو وکیل ہونا چا ہیے۔‘‘

    ’’وہ تو میں ہوں سر۔ میں نے .L.L.B بھی کر رکھا ہے۔ سر اجازت ہو تو۔۔۔

    ’’ٹھیک ہے ‘‘

    ’’والیہ صاحب نے میرے منہ سے ٹھیک ہے سنتے ہی تھیلے سے تحفہ نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔ میں شکریے کے ساتھ تحفہ قبول کرتے ہوئے بولا۔

    ’’ آج تو میں یہ تحفہ لے لے رہا ہوں مگر یاد رکھیے آئندہ آپ کی کوئی لو جک نہیں چلےگی۔‘‘

    ’’ شکریہ، سر ! شکریہ، بہت بہت شکریہ!‘‘

    ایک دن پڑھائی کے ختم ہونے کے بعد وہ میری طرف بڑی معصومیت اور بیچارگی سے دیکھنے لگے۔

    کیا بات ہے میں نے پوچھا تو بولے،

    ’’سر ودیا کا کوئی مول نہیں ہے۔ استاد کے احسانوں کو شاگرد اپنی کھال کی جوتی پہناکر بھی چکانا چاہے تو بھی نہیں چکا سکتا اور میں جس پرمپرا میں پلا ہوں وہاں گرو کے چرنوں میں تخت و تاج بھی چڑھانے کا رواج رہا ہے یہاں تک کہ گرو دکشنا میں اپنا انگوٹھا تک بھیٹ کیا جاتا رہا ہے مگر میں۔۔۔

    ’’کیا آج بھی آپ کچھ لائے ہیں ؟‘‘

    جی لایا تو ہوں۔۔۔ دراصل میرے ایک عزیز امریکہ سے کچھ ٹائیاں لائے تھے۔ ایک ٹائی پر نظر پڑ تے ہی مجھے بےساختہ آپ یاد آ گئے ۔ آپ جس رنگ کا لباس پسند کرتے میں اس پر وہ ٹائی بہت جچےگی۔ آپ اور آپ کے لباس کی یاد آتے ہی میں نے اس ٹائی کے ڈبے کو آپ کے لیے اپنے تھیلے میں ڈال لیا۔ ڈالنے کو تو ڈال لیا مگر ‘‘ ان کا چہرہ مایوسیوں سے بھر گیا۔

    ’’دکھائیے کیسی ٹائی ہے ؟‘‘میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    یہ سنتے ہی والیہ صاحب نے جلدی سے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ٹائی کا ڈبا باہر نکال لیا اور اسے کھول کر میری طرف سرکا دیا۔

    ٹائی واقعی شاندار تھی اور اس کا رنگ میرا پسندیدہ رنگ تھا۔

    ’’ ٹائی تو واقعی بہت خوبصورت ہے ‘‘میں نے تعریف کی۔

    سر یہ آپ کے گلے سے لگ کر اور بھی خوبصورت ہو جائیگی۔ ‘‘ان کی مایو سی میں رمق دوڑ آئی۔

    ’’شکریہ، آج کیا پڑھنا ہے ؟

    ’’آج غالب کے خطوں کی خصو صیات بتا دیجیے‘‘ والیہ صاحب کی آوازسے بھی مایوسی غائب ہو گئی۔

    ایک دن پڑھائی کے اختتام پر وہ بولے،

    ’’سر میں سنڈے کو سر ہند شریف ماتھا ٹیکنے گیا تھا۔ درگاہ سے باہر نکل رہا تھا تو میری نظر ایک دکان کے سامنے بچھی ایک جانماز پر پڑی۔ میں اس کی جانب کھنچتا چلا گیا۔ معلوم ہوا مکہ شریف کی بنی ہوئی ہے۔ مجھے وہ متبرک جانماز بہت اچھی لگی اور میں نے اسے بیگم صاحبہ کے لیے لے لی۔ آپ برا نہ مانیں تو بیگم صاحبہ کی خدمت میں میری طرف سے یہ جانماز پیش کر دیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں بھی یہ جانماز پسند آئےگی۔‘‘ اور انہوں نے جانماز کا پیکٹ میری طرف بڑھا دیا۔

    ’’والیہ صاحب یہ سب آپ کیوں کرتے ہیں؟‘‘میں نے پوچھا تو بولے،

    ’’مجھے اچھا لگتا ہے سر! اور سر ! تحفے کا رواج تو آپ کے مذہب میں بھی ہے۔ سنتا ہوں تحفے کے لین دین سے قربت بڑھتی ہے۔ اپنا ئیت کے جذبہ کو فروغ ملتا ہے۔ اس سے خلو ص و محبت کی خوشبو پھیلتی ہے۔‘‘

    ’’سو تو ٹھیک ہے مگر اس تحائفی لین دین میں مجھے کچھ اور بوئیں بھی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’سر میرے تحفے میں اس طرح کی کوئی بو محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ میں اسے بڑی عقیدت سے لایا ہوں۔ آپ اگر۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے میں انھیں دے دوں گا مگر میں پھر کہہ رہا ہوں کہ یہ سب مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا ۔کل آتے وقت کچھ پچھلے سالوں کے سوال بھی لیتے آئیےگا تاکہ ان کی روشنی میں آپ کی اور بہتر تیاری کرائی جا سکے‘‘۔

    ’’جی بہتر، شکریہ‘‘

    چار پانچ ملا قاتوں کے بعد والیہ صاحب کے آنے کی رفتار بڑ ھ گئی۔ اب وہ جلدی جلدی آنے لگے اور ہر بار کوئی نہ کوئی تحفہ بھی لانے لگے۔ کبھی کچن گارڈن کی تازہ سبزی۔ کبھی اپنے باغ کے موسمی پھل۔ کبھی کسی مشہور دکان کی کوئی مشہور مٹھائی۔ کبھی کسی مخصوص بیکری کی اسپیشل بسکٹ۔ کبھی لندن سے آیا ہوا کوئی تحفہ، کبھی ان کی سسرال چندی گڑ ھ سے آیا کوئی گفٹ، کبھی کچھ، کبھی کچھ۔ تحفے کے ساتھ وہ اپنی منطق بھی پیش کرتے رہے۔

    والیہ صاحب کی معمولات میں فرق صرف یہ آیا کہ وہ دفترکے بجائے گھر پر آنے لگے۔ یہ تبدیلی انہوں نے کیوں کی یہ بات ٹھیک سے میری سمجھ میں نہ آسکی، البتہ ان کا گھر پر آنا دفتر کے مقابلے میں مجھے زیادہ Comfortable محسوس ہوا۔

    وہ روزانہ ٹھیک پانچ سوا پانچ کے درمیان گھر آجاتے ۔وہ ہمیں خصوصاً میرے بچوں اور بیوی کو دور ہی سے دکھائی دے جاتے۔ میرے ڈرائنگ روم کی ایک بڑی کھڑ کی سڑک کی طرف کھلتی تھی جس سے کافی دور تک کا منظر دکھائی دیتا تھا۔

    میرے بچوں کی نظر ان پر پہلے پڑتی اور جیسے ہی پڑ تی وہ قدرے اونچی آواز میں اپنی ممی کو خبر کرتے۔

    ’’ممی !ممّی؛ دیکھیے، والیہ انکل رہے ہیں!‘‘

    بچوں کی آواز سنتے ہی اور کبھی کبھی آواز سے پہلے ہی میر ی بیوی کھڑ کی کے پاس پہنچ جاتیں۔ نظروں کا کھڑ کی سے باہر نکلتے ہی ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی دوڑ جاتی اور چہر ے پر ایک عجیب طرح کی خوشی کی سی کیفیت ابھر آتی ۔ایک دن جب دیوار گھڑی کی سو ئیاں ساڑھے پانچ سے اوپر پہنچ گئیں اور چھوٹی سوئی چھ کے ہند سے کو چھونے لگی تو میری بیوی میرے پاس آکر بولیں:

    ’’والیہ صاحب کہیں باہر گئے ہوئے ہیں کیا؟‘‘

    ’’نہیں تو، کیوں؟‘‘ میں نے ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا

    ’’چھے بج گئے، ابھی تک وہ آئے نہیں اس لیے۔۔۔۔‘‘

    ’’ممکن ہے کسی وجہ سے دیر ہو گئی ہو یا آج کا پروگرام ملتوی کر دیا ہو‘‘

    ’’یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان کی طبیعت خراب ہو گئی ہو گئی ہو یا خدا نخواستہ راستے میں کچھ۔۔۔ آپ فون سے معلوم کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘

    ’’ایسی بات ہوتی تو وہ خود ہی فون کر دیتے۔‘‘

    ’’آپ کر لیں گے تو کیا چھوٹے ہو جائیں گے؟‘‘

    بیوی کے اس جملے پر میں انہیں اور بھی زیادہ غور سے دیکھنے لگا۔

    ’’کچھ دیر اور انتظار کر لیتے ہیں، نہیں آئیں گے تو میں فون کر لوں گا، آپ بے چین نہ ہوئیے‘‘

    ’’بےچین تو آپ کو بھی ہو نا چاہیے۔ آپ کے شاگرد ہیں۔ روزانہ کی روٹین ہے، شاگرد کے روٹین میں فرق آ جائے تو استاد کو فکر مند تو ہونا ہی چاہیے۔‘‘

    مجھے ایسا لگا جیسے انہوں نے میرے دل کی بات کہہ دی ہو۔ والیہ صاحب کی تا خیر سے میرے اندر بھی ایک بےقرار ی کی سی کیفیت پیدا ہونے لگی تھی۔

    ایک دن بچوں کی آواز پر میری بیوی کھڑ کی کی طرف لپکیں اور کھڑ کی سے باہر دیکھنے لگیں مگر اس دن ان کی آنکھوں میں وہ چمک پیدا نہ ہوسکی جو اکثر والیہ صاحب کو گھر کی طرف آتا دیکھ کر ہوا کرتی تھی۔

    والیہ صاحب گھر آکر میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ کندھے سے تھیلا اتار کر حسب معمول میز پر رکھ دیا مگر بیگ کے علاوہ آج انہوں نے میز پر اورکوئی تھیلا یا پیکٹ نہیں رکھا جیسا کہ ان کا معمول تھا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے بھی حیرت ہوئی مگر جلد ہی میری حیرت اس پھولے ہوئے بیگ کو دیکھ کر دور ہو گئی جسے ابھی ابھی انھوں نے کندھے سے اتارکر میز پر رکھا تھا۔ میری بیو ی والیہ صاحب کے لیے پانی کا گلاس لے آئیں اور اسے میز پر رکھنے لگیں کہ اچانک ان کے چہرے کی بے اطمینانی میں اطمینان کی لہریں ہلکورے مارنے لگیں۔ وہ گلاس رکھ کر چلی گئیں اور ہم اردو ادب کی تاریخ سمجھنے اور سمجھانے میں مصروف ہو گئے۔

    ’’والیہ صاحب! اس سے قبل کہ ہم اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں ہمیں تاریخ کی غرض و غایت کو سمجھ لینا چاہیے، کیا خیال ہے؟‘‘

    ’’بالکل درست خیال ہے سر، انہوں نے اپنے مخصو ص انداز میں جواب دیا۔

    ’’والیہ صاحب کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ تاریخ ہوتی کیا ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں میں بتا سکتا ہوں۔ اتفاق سے کل رات ہی میں نے ایک کتاب میں اس موضوع کا مطا لعہ کیا ہے۔ تاریخ کے معنی ہیں گزرے ہوئے واقعات وسانحات کا ذکر۔ میرا مطلب ہے وہ نمایاں واقعات و حادثات جو ماضی میں رونما ہوئے اور جنہوں نے زمانے کے حالات کو متا ثر کیا اور جن سے زندگیاں متاثر ہوئیں، ان کا ذکر یا ان کو دوہرانا تاریخ ہے، میں نے صحیح سمجھا ہے نا سر؟‘‘

    ’’والیہ صاحب میرے سوال کا جواب دے کر میری طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگے۔

    والیہ صاحب جب تاریخ کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار کر رہے تھے، میری بیوی جو چائے کی ٹرے لگارہی تھیں والیہ صاحب کی باتوں کو بڑے غورسے سن رہی تھیں۔

    ’’جی ہاں، آپ نے بالکل صحیح سمجھا ۔بس یوں سمجھیے کہ اردو ادب کے ارتقا میں جو اہم اور نما یا ں موڑ آئے ہیں اور جن سے اردو ادب کے سفر میں تبدیلیا ں واقع ہوئی ہیں اور ان تبدیلیوں سے اردو ادب کے چہرے پر جو نئے نئے تاثرات مرتب ہوئے ہیں وہی اردو ادب کی تاریخ ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کب کب کہاں کہاں اور کس کس طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ان سے کیا کیا اثرات مرتب ہوئے تو سب سے پہلے ہم دکن کی طرف چلتے ہیں۔

    میں نے اردو ادب کی تاریخ پر لیکچر دینا شروع کر دیا۔

    تاریخ پر لیکچر کے دوران میری بیوی کسی نہ کسی کام کے لیے ہمارے پا س آ جاتی تھیں اور ان کی نظریں تھیلے پر مرکوز ہو جاتی تھیں۔ جب جب بیوی کی نظریں تھیلے پر مرکوز ہوتیں تب تب کچھ نہ کچھ تھیلے سے باہر نکل کر میرے ذہن میں جمع ہونے لگتا۔

    والیہ صاحب جب سے آئے تھے کئی بار تھیلے میں ہاتھ ڈل کر کچھ نہ کچھ نکال چکے تھے لیکن تھیلے کا پھولا ہو ا حصّہ ابھی تک جیوں کا تیوں بنا ہوا تھا۔

    اردو ادب کی تاریخ پر میرا لیکچر ختم ہو ا اور آخر ی بار والیہ صاحب نے جب تھیلے میں ہاتھ ڈالا تو میری بیوی میرے قریب سمٹ آئیں اور ان کی نظریں والیہ صاحب کے اس ہاتھ پر مرکوز ہو گئیں جس کا آدھا حصّہ تھیلے کے اندر جا چکا تھا۔ اس وقت مجھے ایک مداری یاد آ رہا تھا جو مجمعے کے درمیان ہر پانچ منٹ کے بعد ڈگڈگی روک کر اپنا ہاتھ اس پٹاری کے اندر ڈال دیتا تھا جس کے اندرکوئی عجیب و غریب سانپ بند تھا۔

    والیہ صاحب کا ہاتھ تھیلے سے جب باہر آیا تو انگلیوں میں ایک موٹی سی کتاب دبی تھی۔ والیہ صاحب اس کتا ب کی طرف میری توجہ مبذول کراتے ہوئے بولے

    ’’سر، مجھے ایک اچھی کتاب مل گئی ہے۔ میں یہ کتاب آپ کو دکھانے لایا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میں میرے سارے ٹوپکس کور ہو جا رہے ہیںآپ ذرا ایک نظر اس پر ڈال لیجیے تو مجھے اطمینان ہو جائےگا۔

    ’’ کتاب‘‘! یہ لفظ میرے منہ سے اس طرح نکلا جیسے تھیلے سے کتاب نہ نکلی ہو بلکہ کوئی اور چیز باہر آئی ہو۔ میری نظریں اس کتاب میں الجھ گئیں۔

    ’’سر ! آپ نے بتا یا نہیں کہ یہ کتاب تیاری کے لیے کیسی رہےگی؟‘‘

    ’’اچھی رہےگی، بہت اچھی رہےگی‘‘ میں جلدی جلدی ورق الٹنے لگا۔ ورق گردانی کے دوران مجھے محسوس ہوا جیسے کچھ آنکھیں مجھے غورسے دیکھ رہی ہوں۔

    ’’سر کتاب اچھی ہے نا؟ ‘‘ والیہ صاحب نے پرجوش لہجے میں پوچھا۔

    ’’ہاں بہت اچھی ہے‘‘ میں نے والیہ صاحب کے کھلے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا

    ’’سر، اب اجازت دیجیے۔‘‘

    ’’جی، ضرور‘‘ میں نے کتاب والیہ صاحب کی طرف بڑھا دی۔

    والیہ صاحب نے تھیلا کھولا۔ تھیلے میں کتاب رکھی۔ تھیلے کو بند کیا۔ دونوں ہاتھ جوڑ ے۔ نمستے کیا اور اطمینان سے کھڑے ہوکر باہر نکل گئے۔

    میری بیوی انھیں دور تک اس طرح دیکھتی رہیں جیسے وہ لوٹ کر آنے والے ہوں۔ جب والیہ صاحب پوری طرح نظروں سے اوجھل ہو گئے تو میری بیو ی میرے پاس آکر بیٹھتی ہوئی بولیں۔

    ’’آپ کے شاگرد کو آج کیا ہو گیا؟‘‘

    ’’کیا ہو گیا کا کیا مطلب؟ ‘‘ میں نے وضاحت چاہی۔

    ’’مطلب یہ کہ آپ کو نہیں لگتا کہ وہ آج کچھ ‘‘انہوں نے جملہ پورا نہیں کیا۔

    ’’لگتا تو ہے مگر ‘‘ میں نے بھی جملے کو ادھورا چھوڑ دیا۔

    ’’مگر کیا ؟‘‘بیوی نے بےچین ہوکر پو چھا۔

    ’’مگر یہ کہ کوئی وجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

    ’’بھلا ایسی بھی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ رٹی رٹا ئی تاریخ بھی یاد نہ رہے۔‘‘

    ’’امتحان۔، سر پہ امتحان ہوتو کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔‘‘ میں نے بیوی کو مطمئن کرنے کوشش کی۔

    ’’امتحان نہیں کتاب! امتحان میں تو سبق اور بھی یاد رہنا چاہیے ورنہ فیل ہو جانے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ آپ تو ماسٹر ہیں کیا اتنا بھی نہیں جانتے؟‘‘

    ’’جانتا ہوں۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کبھی کبھار کچھ بھول جانا چاہیے ورنہ چہرہ ۔۔۔ میں ٹھیک، کہہ رہا ہوں نا؟‘‘

    ’’شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں مگر اس طرح کی نصیحت کیا صرف دوسروں کے لیے ہی ہوتی ہے؟‘‘

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’مطلب آپ کے چہرے پر لکھا ہوا ہے۔ نہیں سمجھ میں آ رہا ہو تو باتھ روم میں جاکر اپنا چہرہ دیکھ لیجیے‘‘۔ اور وہ میری طرف گہری نظروں سے دیکھتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔

    باتھ روم کا آئینہ میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور میری نظریں آئینہ کے عکس میں گڑ تی چلی گئیں۔

    (افسانوی مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 33)

    مأخذ:

    (Pg. 33)

    • مصنف: غضنفر
      • ناشر: غضنفر
      • سن اشاعت: 2015

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے