aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

واپسی سے پہلے

صغیر رحمانی وارثی

واپسی سے پہلے

صغیر رحمانی وارثی

MORE BYصغیر رحمانی وارثی

    ان دنوں ایک نیا جوڑا وولگا پر آیا تھا۔

    وولگا کے ساحلی علاقوں میں جون کے پہلے ہفتے سے رونقیں بڑھنے لگتی تھیں۔ داچا آباد ہونے لگتے تھے اور رنگین اور خوبصورت چھتریاں چمک اٹھتی تھیں۔ ہر سال دنیا بھر کے خصوصاً ماسکو واسی مچھلی پکڑ نے والے شائقین سیاحوں سے یہ ویران اور خالی علاقہ ایک دم سے آباد ہونے لگتا تھا۔ پندرہ پندرہ دنوں کے چار سیزن ہوتے تھے۔ پہلے سیزن میں ندی کا پانی چڑھنے اور آخری سیزن میں اترنے کے سبب ندی کی سطح پر بےحد دباؤ بنا رہتا تھا اور ان دوسیزنوں میں بھیڑ کچھ کم ہوتی تھی۔ مگر بیچ کے دوسرے اور تیسرے سیزن میں یہاں کا ماحول بے حد ہنگامہ پرور ہوتا تھا اور اس ٹھنڈے موسم کی فضا جیسے عرق عرق ہوتی رہتی تھی اور امنگوں کا سیلاب امڈتا محسوس ہوتا تھا۔

    بالائی حصے میں جہاں داچا اور باغ تھے، ریستراں اور چھوٹے چھوٹے اسٹال بھی ہوتے تھے جہاں کے ویار، ٹین بند پنیر، خوبانی کے آچار اور نشیلی مشروبات کے علاوہ دوسری غذائیں ملتی تھیں اور ادویات بھی مہیا ہوا کرتی تھیں۔ ویسے وہاں آنے والے سیاحوں کی غذا عام طور پر اس ساحل سے پکڑی گئی مچھلیوں کا بھنا ہوا گوشت اور مشروبات ہوا کرتی تھی اور وہ انہیں کا لطف اٹھانے وہاں آتے تھے۔ دو مہینے بعد اگست سے جب پت جھڑ شروع ہوتا اور ندی کا پانی نیچے سرکنے لگتا اور مچھلیوں کی قلت محسوس ہونے لگتی تو وہاں آف سیزن کی تختی آویزاں ہو جاتی۔

    اور آخری سیزن کے داچا خالی ہونے لگتے تھے۔

    یہ جوڑا تیسرے سیزن کے ابتدائی دنوں میں آیا تھا۔

    الیوا بھورے بالوں اور چھوٹے چہرے والی ایک خوبصورت نئی عورت تھی۔ اس کی عمر23-24 سال سے زیادہ نہیں رہی ہوگی۔ وہ زور زور سے ہنستی تھی تو اس کی غلافی آنکھوں میں نمی پیدا ہو جاتی اور پلکوں کے کنارے بھیگ جاتے۔ داشاچوڑے اور جھکے ہوئے کندھوں والا ایک دراز قد مرد تھا اور اسے ہمیشہ گردن اٹھا کر آسمان دیکھنے کی عادت تھی۔ وہ کچھ دیر پہلے داچا سے باہر آیا تھا اور الیوا کو آواز دے رہا تھا۔

    ’’الیوا، الیوا... سنیے تو... واپس آجائیے، آگے پانی کافی گہرا ہے۔‘‘ ندی کے شور کے باوجود الیوا کی کھلکھلاہٹ اسے سنائی دے رہی تھی۔ ’’الیواخدا کے لیے جلدی واپس لوٹ آؤ... میں کسی کو ملوانے لایا ہوں۔‘‘ اور تھوڑی دیر بعد الیوا کی کشتی کنارے سے ٹکرائی تو داشا نے خوش ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی مدد کے لیے بڑھا دیا۔ الیوا اس کی مضبوط ہتھیلی پکڑ کر کشتی سے نیچے نرم اور بھیگی ہوئی ریت پر آ گئی۔ اس نے چوڑا اور مہنگا لیس لگا ہوا بڑے بڑے چھاپے کا فراک پہن رکھا تھا اور بالکل جاپانی دکانوں کے شوکیس میں رکھی ہوئی گڑیا لگ رہی تھی۔ اسے ریت پر چلنا اچھا لگ رہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے سہارے چل رہے تھے۔ دونوں جب اپنے داچا میں پہنچے، وہاں وہ شخص موجود تھا جسے داشا اس سے ملوانے لایا تھا۔ ’’الیوا! ان سے ملو، مسٹردموع۔ آج کا کھانا انہوں نے ہی مہیا کرایا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ مسٹر دموع اپنے شکار کی مچھلیاں ہر روز دوسروں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور انہیں روز نئے لوگوں کا انتظار رہتا ہے۔‘‘

    الیوا نے ممنون نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دموع سے ہاتھ ملایا اور کافی بنانے لگی۔ اس بیچ دموع چپ رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کافی پی کر چلا گیا۔

    ’’یہ پراسرار شخصیت کون ہے داشا؟‘‘ اس کے جانے کے بعد الیوا نے ہول ڈال سے رات کے کپڑے نکالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’کون ؟ دموع؟ وہ یہاں سے قریب کے گاؤں میں رہتے ہیں اور شہر کے ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ موجودہ انتظامیہ اس کارخانے میں کچھ تبدیلی کرنا چاہتی ہے جس کے خلاف مسٹر دموع اور ان کے ساتھی احتجاج کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی براہ راست لڑائی موجودہ نظام سے چل رہی ہے۔ سعی لاحاصل۔‘‘ وہ گردن ہلاکر ہنسا تھا جب کہ الیوا سنجیدہ تھی۔

    ’’سعئی لاحاصل؟‘‘

    ’’اور نہیں تو کیا؟ ہمیں اپنے سوچنے کا ڈھنگ حالات کے مطابق بدلتے رہنا چاہیے۔‘‘ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔

    ’’نئے سے پرانے کی تجدید ضروری ہے۔‘‘

    ’’بشرطیکہ ’وہ‘ جسے ہم پرانا کہتے ہیں اور جس کی بنیاد پر تبدیلی کی مانگ کرتے ہیں، برا بھی ہو، ناکام بھی ہواور اس بات کو دموع سمجھتے ہوں گے اور ہم اور آپ بھی کہ ’اسے‘ ناکام نہیں کہا جا سکتا۔‘‘

    داشا نے الیواکو غور سے دیکھا تھا۔ ’’ہم دموع کی بات کر رہے ہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں قطعیت تھی۔ ’’شاید اس کے دماغ میں خلل ہے۔‘‘

    الیواکو انجانا سا دکھ ہوا۔

    ’’دموع کو جانے کیسا یقین ہے کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہوگا ایک دن۔‘‘

    ’’ایک دن؟‘‘

    ’’ہاں ایک دن۔ وہ ایک کردار بھی ہو سکتے ہیں آپ کے ناول کے۔ مجھے پتاہے، اسکول میں آپ کا موضوع نفسیات تھا اور آپ نے چند ایک اچھی کہانیاں اور ناولیں لکھی ہیں۔‘‘ داشا کے لہجے میں شکایت تھی۔

    الیوا کو شرارت سوجھی۔ ’’نہیں ، ایک اور اچھا کام کیا ہے میں نے، میں نے آپ سے شادی کی ہے۔‘‘ اس نے جھک کر کورنش کیا۔ داشا اس کی طرف لپکا مگر وہ کھلکھلاتی ہوئی اور قلانچیں بھرتی ہوئی باہر ریت پر بھاگ گئی لیکن وہ جانتی تھی کہ داشا اپنے طالب علمی کے زمانے میں مشہور اتھلٹ رہ چکے ہیں اور وہ ان سے بھاگ نہیں پائےگی۔ لہٰذا اس نے بہت جلد خود کو اس کے سپرد کر دیا لیکن اس کی آنکھوں میں عاجزی مچل رہی تھی کہ وہ اسے زیادہ نہ ستائیں، وہ تھکی ہوئی ہے۔

    دوسری صبح وہ گہری نیند میں تھے کہ کسی کے چلانے سے ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ جلدی جلدی اٹھ کر باہر آئے تو آواز صاف سنائی دینے لگی۔ دموع اونچی آواز میں کہتا پھر رہا تھا۔ ’’آج موسم ٹھیک نہیں ہے، طوفان آ سکتا ہے۔ کوئی اپنی کشتی ندی میں نہ اتارے۔‘‘

    ’’دموع آپ بہت اچھے ہیں۔ میری بات سن رہے ہیں دموع۔ آپ بہت اچھے ہیں۔ ’’ الیوااپنے پاؤں کے پنجوں پر اچک اچک کر بولتی رہی۔

    داشا دوبارہ بستر پر گر گیا اور الیوا کے بہت چاہنے اور کوشش کرنے پر بھی نہیں اٹھا تب الیوا جلدی جلدی تیار ہونے لگی۔ اس نے رات کے کپڑے اتار کر علیحدہ رکھ دیے اور سلیٹی رنگ کے جینس کی اسکرٹ پر گہرے اسکوائر چیک کا بلاؤز پہن کر اور سر پر کھجور کی پتیوں کا بنا ہوا ٹوپ لگا کر اس نے دا شا کو پیار کیا اور باہر نکل گئی۔ وہ کافی دیر تک ریت پر چلتی رہی۔ کچھ دیر بعد بڑے بڑے پتھروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو اُسے دموع نظر آیا۔ وہ ایک سپاٹ پتھر پر ٹیک لگائے اپنے اسکارف سے منہ ڈھانپے لیٹا تھا۔ اس کے کپڑے گندے ہو رہے تھے اور داڑ ھی کے بال بڑے بڑے۔ الیوانے اسے آواز دی تو اس نے چہرے سے اسکارف ہٹا دیا۔

    ’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں مسٹر وموع؟ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

    ’’انتظار...۔‘‘

    ’’کس کا ؟‘‘

    ’’وہی جو آئےگا۔ انہیں پتھروں میں سے اور اس سمندر کے بیچ سے۔ کہیں سے بھی۔‘‘ وہ زور ززور سے اپنی داڑھی نوچنے لگتا تھا۔ الیوانے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس کے من میں آیا کہ کیا اس آدمی سے کبھی کسی عورت نے پیار کیا ہوگا جب کہ دموع سندر بھی ہو سکتے ہیں، اگر ان کی داڑھی ترش جائے اور بال سنور جائیں۔

    دموع ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ الیوا سمجھ رہی تھی کہ ان کی نظریں داشا کو تلاش رہی ہیں۔

    داشا بڑے اچھے ساتھی ہیں دموع۔ آپ نے دیکھا نہیں ان کی پیشانی کافی چوڑی اور بال لمبے اور چمکدار ہیں۔‘‘

    موسم بدلنے لگا تھا، گرمی بڑھ گئی تھی اور ریت اڑنے لگی تھی۔

    ’’ہاں، ہمارے اپنے وچاروں کا فرق ہو سکتا ہے، یہ میں مانتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا ٹوپ اتار لیا تھا اور ہوا کرنے لگی تھی۔

    ’’داشا ہمیشہ آسمان دیکھتے ہیں اور انہیں زمین کی نا برابری کا احساس نہیں ہے شاید اور یہ ایک بڑی عجیب بات ہے۔‘‘ دموع نے دور کہیں خلا میں گھورتے ہوئے اپنی بات کہی۔

    ’’آپ سچ کہتے ہیں دموع، آپ سچ کہتے ہیں۔ طاقت والے لوگ، عجوبے لوگ ہمیشہ داشا کے آدرش رہے ہیں۔وہ سماج میں اپنے سے بڑوں کی قدر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میخائل کل بھی کامیاب مرد تھے اور آج بھی ہیں۔ آپ سچ کہتے ہیں۔‘‘

    ’’بات آئیڈیالوجی کی نہیں ہے اچھی الیوا، بات ہے اپنی ذہنیت کی، اپنی اس سوچ کی جس کی ککرمتے جیسی شاخ پر انسان بیٹھنا چاہتا ہے۔ سچ، یہ بہت عجیب بات ہے۔‘‘ دموع کا اسکارف ہوا میں پھڑ پھڑا رہا تھا اور وہ اپنی داڑھی نوچ رہا تھا جس سے الیوا کو الجھن ہو رہی تھی۔

    ’’میں بھی چاہتی ہوں،میں بھی چاہتی ہوں کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہو جائے لیکن، ایک دم سے الٹ پلٹ کیسے ہو؟ آج بھی لوگ مصلحت پسند ہیں، سوچتے ہیں اچانک بجلی لہرائےگی اور کچھ ہو جائےگا۔۔ ایک دم سے ہو جائےگا، جیسے عجوبہ ہو۔‘‘

    دموع نے پہلی بار الیوا کی طرف دیکھا تھا۔

    ’’آئیے میرے ساتھ۔‘‘

    دونوں چلنے لگے اور قریب کی کھلی سڑک پر آ گئے جو گاؤں کی طرف جاتی تھی۔ دموع اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے ہوئے چل رہا تھا اور اس کے گلے کا اسکارف ابھی بھی ہوا میں پھڑ پھڑا رہا تھا اور وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنی داڑھی نوچتا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد دموع کا گاؤں دکھنے لگا تھا۔ گاؤں سے پہلے لکڑی کی بڑی بڑی باڑیں نظر آرہی تھیں جو کافی وسعت میں پھیلی ہوئی تھیں اور شمالی بھوج اور لنڈن کے پرانے درختوں کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ 1917ء سے پہلے وہاں کوئی بہت بڑا فارم ہاؤس رہا ہوگا جس کا مالک کوئی زمین دار رہا ہوگا یا اس کا کوئی قریبی۔ اس سے لگ کر ہی مٹی اور لکڑیوں کی مدد سے کھڑی کی ہوئی گھاس کے چھپر والی جھونپڑیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ان سے لگے سپاٹ اور بے ترتیب کھیتوں کا سلسلہ جن کے کناروں پر بید اور بکائن کی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں اور چتکبرے گھوڑے چر رہے تھے۔

    ایک جھونپڑی کے پاس دموع ٹھہر گیا تھا اور الیوا کی طرف دیکھا تھا۔

    ’’کون؟‘‘

    ’’ یہ میرے بابا ہیں۔‘‘ اندر جاکر اس نے کہا تھا۔ کمرے میں بید کی دو تین پرانی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں اور دیواروں پر کئی طرح کے پوسٹر سٹے ہوئے تھے۔

    ۰ بھوک سرمایہ داری کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔

    ۰ اس فر سو دہ نظام کی بنیاد آزاد مارکیٹ کے اندھے تقاضوں پر ٹکی ہے۔

    ۰ کیا انسانی ارتقا محض ایک دھوکہ ہے؟

    ۰ کیا دبے کچلے انسانوں کی تقدیر میں ا یک رات کے بعد دوسری رات لکھی ہے؟

    پوسٹروں کے کئی بوسیدہ بنڈل ایک طرف اس کونے میں بھی رکھے ہوئے تھے جہاں اونچا، دبلا اور دمے کے مرض سے پیلا پڑ گیا ہوا بوڑھا ایک کھاٹ پر پڑا ہوا تھا اور اس کے منہ سے اخ... اخ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ پہلی ہی بار میں الیوا کو اس بوڑھے آدمی سے ہمدردی ہونے لگی۔ وہ اپنے من میں اس کی مدد کے لیے سوچ ہی رہی تھی کہ دموع نے اسے بید کی کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا اور وہ بیٹھ کر سوچنے لگی کہ سچ ،وہ کتنی انہونی بات سوچ رہی تھی۔دموع بھلا ایسا کب چاہیں گے؟

    اس کے سامنے کی کرسی پر کئی مڑے تڑے کاغذ کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ اس نے دیکھا ان کاغذ کے ٹکڑوں پر یونہی اسکچنگ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لگتا تھا نرسری کے کسی بہت چھوٹے بچے نے ڈرائنگ کے پنوں پر شاید وولگا کے، ندی کے، دو کناروں کو بار بار بنانے کی کوشش کی ہو۔

    دموع بتا رہا تھا کہ اس کے بابا کسان تھے اور وہ خود ایک کارخانے میں مستری ہے اور یہ کہ وہ یونین کرتا ہے اور احتجاجی پارٹی کا لیڈر بھی ہے۔ اس نے کہا ہمارے کارخانے کے سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے ’بورژوا‘ حکمت عملی کو کارگر بنانے کی غرض سے کارخانے کے ہزاروں مزدوروں کی تعداد کم سے کم کر دینا چاہتے ہیں اور ان کی یہ استحصالی نوعیت ہزاروں مزدوروں کے مستقبل کو کھا جائےگی۔ زندگی ایک طویل سفر ہے اور اس سفر میں مسلسل لڑائی ہے اور لڑنے کے لیے، مرنے کے لیے یہ مزدور ہی جاتے رہے ہیں اور انہیں ہی جانا ہوگا جن کا سماج میں کوئی مقام نہیں کوئی قدر نہیں۔ کتنا عجیب ہے یہ سب؟‘‘ دموع تھوڑی دیر اپنے بابا کے پاس اس کی کھاٹ پر بیٹھا رہا اور اس کی طبیعت کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتا رہا، پھر اس نے الیوا کو آواز دی۔

    ’’الیوا ! یہاں آئیے اور میرے بابا سے ان کے ایک عظیم کسان دوست شین کی نظم سنیے۔‘‘

    الیوا اٹھ کر دموع کے بابا کی کھاٹ تک پہنچی۔ اس نے دیکھا وہ بوڑھا آدمی بیماری سے کھاٹ میں ہی جیسے سٹ گیا تھا اور اخ... اخ سے ایک دم سے بے سد ھ ہو کر ہانپنے لگتا تھا اور پھر پیلی آنکھیں موند کر غنودگی میں ڈوب جاتا تھا۔ الیوا کو مایوسی ہوئی کہ ایسے میں وہ دموع کے بابا سے ان کے عظیم کسان دوست کی نظم شاید ہی سن پائےگی لیکن دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے پر چمک آ گئی۔ دموع کے بابا نے دھیرے دھیرے نظم سنانا شروع کی۔ پیلی آنکھیں کھل گئیں اور چھپر کی گھاس میں کہیں اٹک گئیں۔

    ’’تم

    وچرتے رہو

    سپنوں کی دنیا میں

    لال، پیلے، نیلے، ہرے، سنہرے

    خوابوں کے دھاگے بنتے رہو

    ایک دن

    وہ سمے آئے گا

    جب تمہاری روٹی

    چھوٹی

    بہت چھوٹی ہو جائےگی۔‘‘

    ندی میں طوفان زوروں کا تھا اور تیز ہوا کے جھونکوں سے چھپر کی گھاس گرنے لگتی تھی۔

    نظم سننے کے بعد الیوا کے چہرے پر چمک کی جگہ اداسی چھا گئی اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے تھے۔ آج وہ ایک نئی دنیا سے متعارف ہو رہی تھی۔ اس کا من کر رہا تھا کہ وہ اپنا سر کھاٹ کے پوّے سے ٹکرا کر پھوڑ لے۔ دموع بکھرے ہوئے کاغذ کے ٹکڑوں کو سمیٹنے لگا تھا اور اپنی آستین میں منہ چھپا کر سسکیوں کے درمیان کہہ رہا تھا۔ ‘‘ان کی مورتیاں چوراہوں اور لائبریریوں سے اٹھا کر کوڑے کے ٹرنک میں پھینک دی گئیں اور سارے طالب علم اور فنکار خاموش تماشائی سے بنے رہے۔ اسی دھول میں کہیں روس کی اپنی تہذیب چھپی ہے، اور وہ یہیں سے کہیں سے آئےگا، یہ بتانے کہ موقع پر ستوں سے کیسے لڑا جاتا ہے؟‘‘ وہ امید بھری نظروں سے الیوا کو تاک رہا تھا۔ الیوا نے کھونٹی پر ٹنگا دموع کا کئی رنگوں والا کوٹ جس کے فلیپ میںیوم مئی کا سرخ بیج لگا ہوا تھا اور جس میں سے مردانہ پسینے کی گندھ پھوٹ رہی تھی، اتار کر اسے پہنا دیا اور اس کے ساتھ گاؤں میں چلی آئی۔ گاؤں میں سروکے پیڑوں پر پت جھڑ کا اثر شروع ہو گیا تھا اور مٹی خشک ہو گئی تھی۔

    دموع نے کہا کہ آج اس کے ساتھی ڈراما پیش کریں گے۔ ان کے ساتھ کچھ ایسے طالب علم بھی ہیں جو اسی گاؤں کے ہیں لیکن شہروں کی یونیورسیٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس وقت گاؤں آئے ہوئے ہیں۔ اس دن الیوا نے دموع کے ساتھ گاؤں کے تھیٹر میں ناٹک بھی دیکھا۔ اسے یہ سب بڑا عجیب سالگ رہا تھا۔ تھیٹر کی معمولی نشست پر بیٹھی ناٹک کے ایک منظر کو دیکھتے ہوئے وہ پہلو بدل رہی تھی۔

    ایک ماں جس کا بیٹا مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کی رہبری اور سربراہی کرتا ہے اور اشتراکیت کا علم بردار مانا جاتا ہے وہ صرف اس بنا پر منافع خوری، افسر شاہی اور کرپشن کا شکار ہو جاتا ہے کہ اس کے اشتراکی اصول اسے سوکھی روٹیاں، موٹے کپڑے اور معمولی چھت تو دے سکتے تھے مگر اعلا قسم کی مصنوعات اور اعلیٰ طرززندگی فراہم نہیں کر سکتے تھے اور جو اپنے یہاں رات کے کھانے پر تھانے کے داروغہ اور تحصیل کے بابو کو مدعو کیا کر تا ہے...۔

    ....اس ماں کو یہ احساس ہے کہ اس کا بیٹا ضرور کسی سازش کا شکار ہو گیا ہے اور وہ نائٹ کلب اور ڈرگ کے عادی اپنے بیٹے کو سمجھانا چاہتی ہے کہ نجات اسی میں ہے کہ معیشت کی اجتماعی اور سماجی نوعیت ہو اور اس کی بنیاد انفرادی منافع خوری پر قائم نہ ہو۔ جب تم ہی موقع پرستوں کا چشمہ اپنی آنکھوں پر چڑھا لوگے تو انفرادی آزادی کے مسئلے کا حل اور معاشی آسودگی کی راہ ڈھونڈ نکالنا تو دور ان بھوکے اور ننگے لوگوں کو دو وقت کی روٹی اور تن ڈھکنے کے لیے کپڑا کیسے ملےگا؟

    اس کا بیٹا کہتا ہے کہ تم کس اشتراکیت کی بات کرتی ہو؟ جس میں انسانوں کو گونگا بنا دیا گیا تھا، ان کی خود مختاری چھین لی گئی تھی۔ کیا تم نے سول زے نت سن اور پاستر ناک کے ناول پڑھے ہیں؟ کیا تم نہیں جانتیں کس قدرگھٹن تھی اس سماج میں آج سے پہلے۔‘‘

    ’’کتابوں اور ناولوں کی بات میں کیا جانوں؟ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ میں نے کبھی روس کی سڑکوں پر بھکاریوں کو نہیں دیکھا۔ ڈرگس اور سمیک کے نشے میں دھت نوجوان نظر نہیں آئے۔ ملازمت کے دفتر کے دروازے پر بے روزگاروں کی لمبی قطار نہیں دیکھی۔ جہاں عورت کو برابری اور احترام کی نظر سے دیکھا گیا اور جس روس کو عورتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا وہ آج کی طرح ٹکڑوں میں بٹی روس کی سرزمیں نہیں تھی۔‘‘

    ماں چیختی رہی، اپنے بے آبرو ہونے کی دہائی دیتی رہی مگر بیٹا گونگا اور بہرابن گیا۔ ناٹک ختم ہونے پر دموع نے ناٹک کے فنکاروں سے الیوا کا تعارف کرایا۔ ان میں سنہرے بالوں والی چھوٹے قد کی وہ لڑکی بھی تھی جو ناٹک میں ماں کا کردار ادا کر رہی تھی۔ الیوا نے محسوس کیا کہ وہ لڑکی اب تک خود کو نارمل نہیں کر پائی ہے او ر اس کی آنکھیں اداس ہیں۔

    اس نے گاؤں کی دکانوں سے داشا کے لیے کئی نایاب چیزیں جیسے مٹی کی مورتیاں اور کئی رنگوں والے لباس خریدے جنہیں یقیناً داشا نے کبھی دیکھا نہیں ہوگا۔ جب وہ داچا کی طرف لوٹے او ر بڑے بڑے پتھروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو اس وقت سورج کافی نیچے جھک گیا تھا اور پنچھی خلاؤں میں چہچہانے لگے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد تربوز کی قاش کی مانند سرخ ہو کر سورج سیاہی میں بدل گیا تو ہر طرف سائے سائے سے دکھائی دینے لگے اور ہوا گرم ہو گئی۔

    ’’ا ب مجھے جلدی چلے جانا چاہیے۔‘‘ الیوا نے کہا اور تیز تیز چلنے لگی۔ ’’داشا کیا سوچ رہے ہوں گے اور میں ان سے کافی دیر سے الگ ہوں، اور ایسا بہت ہی کم ہوا ہے۔‘‘

    ’’الیوا ...۔‘‘

    جب تک وہ مڑی، دموع اس کے شانے پر سر رکھ کر سسکنے لگا تھا۔

    ’’اوہ دموع! آپ بہت اچھے ہیں۔‘‘ الیوا بولی۔ ’’آپ مضبوط، ایماندار او ر غیر معمولی ہیں اور ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔‘‘ ا س نے دموع کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اسے اپنے سے الگ کیا اور بےتحاشا اپنے داچا کی طرف دوڑنے لگی۔ ایسے میں اس کا ٹوپ اور داشاکے لیے خریدی ہوئی چیزیں گر کر اندھیرے میں جانے کہاں گم ہو گئیں۔ بس وہ ایک تیز ہیجان کے دباؤ میں بھاگتی رہی اور اپنے دا چا میں پہنچ کر دم لینے لگی۔ اس نے پہلے کھانے کے کمرے میں جھانک کر دیکھا مگر وہ خالی تھا۔ سونے کے کمرے میں داشا اکیلے تاش کھیل رہا تھا۔ وہ ابھی تک انہیں کپڑوں میں تھا جو اس نے پچھلی رات پہنے ہوئے تھے۔

    ؁ؑ الیوا کو ایک دم سے اس پر ترس آگیا۔ وہ اندر داخل ہوئی تو داشانے تاش بند کرکے رکھ دیا۔ ظاہر تھا کہ وہ ناراض تھا اور الیوا سے فی الحال بات کرنا مناسب نہیں سمجھ رہا تھا۔

    ’اوہ میرے اچھے، پیارے داشا۔آپ اس طرح اپنی بے رخی سے مجھے دکھی نہ کریں ۔مجھے بہت افسوس ہے کہ مری وجہ سے آپ کو آج پورے دن بھوکے رہنا پڑا۔‘‘ وہ اس پر لیٹ سی گئی۔ داشا نے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ کراہ اٹھی۔ اس نے اسے نیچے گرا کر اس کے ہونٹوں کو اپنے پورے منہ میں بھر لیا اور اسکرٹ نیچے سرکا دی۔

    ’’خود غرض ہیں آپ۔‘‘ الیوا نے اس کے گال پر طمانچہ جڑ دیا اور تڑپ کر بستر سے نیچے آ گئی۔ داشا سر جھکا کر بیٹھ گیا تھا۔ الیوا نے اسکرٹ اتار کر داشا کی نیکر چڑھا لی اور کافی بنانے لگی۔ اس نے دموع کے ساتھ گزرے وقت، ناٹک کے کرداروں اور گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں کی پوری روداد کافی پینے کے دوران داشا کو سنا دی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس دلکش ماحول میں، اس کبھی نہ بھولنے والی جگہ پر داشا اداس ہو جائیں۔ اس نے سوچا زندگی میں نہ بھولنے والے لمحے کتنے کم ہوتے ہیں؟ پھر دونوں نے مل کر رات کا کھانا کھایا، کھانے کے بعد پھر کافی، اور تب دونوں نے شب بخیر کہا اور سو گئے۔

    دن کے گیارہ بجے تک الیوا سوتی رہی۔ اٹھی تو داشا خط لکھ کر اور اپنی ڈوری والی بنسی لے کر کشتی میں جا چکا تھا۔ اس نے خط پڑھا۔

    ’’پیاری اور دنیا میں سب سے اچھی الیوا۔‘‘

    دکھ ہے کہ میں تمہیں جگا کر صبح بخیر نہیں کہہ سکا۔ بغل کے داچامیں کریمیا کے فنکار ہیں اور جن کی باہری ملکوں میں بھی تصویروں کی نمائشیں لگا کرتی ہیں، ان کی دعوت نہ ٹال سکا اور مچھلیاں پکڑنے جا رہا ہوں اور آپ کے لیے ان کی پنٹنگس چھوڑے جا رہا ہوں۔

    میں ایک بار پھر اپنے عظیم پیار کو یاد کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دنیا میں جتنی عورتیں ہیں آپ ان سب میں اچھی ہیں۔

    آپ کا اپنا... داشا۔

    الیوا نے آنکھیں موند کر داشا کو یاد کیا اور بدبدائی۔’’ اوہ داشا، میں انتظار کر رہی ہوں اس اچھی گھڑی کا جب آپ لوٹ کر آئیں گے اور ہم دونوں ہنس ہنس کر کافی پئیں گے اور ادب، آرٹ اور موجودہ سیاست پر سنجیدگی سے باتیں کریں گے۔پیارے داشا، آ جائیے۔‘‘

    وہ کریمیا کے فنکار کی پنٹنگس دیکھنے لگی مگر چند ساعتوں میں اوب سی گئی۔ چاندنی رات، خوبصورت عورت، پرندوں اور پہاڑیوں سے گرتے ہوئے جھرنوں کے علاوہ ان تصاویر میں ایسا کچھ نہیں تھا جن میں زندگی کے معنی تلاش کی جاسکیں۔ ایک تصویر میں وولگا جم کر برف کا میدان بن گئی تھی اور اس کی سفید چادر پر سفید ہی مگر اس برف کی رنگت سے مختلف کسی دوسری دنیا کی مخلوق جیسے بچے اسکیٹنگ کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ اس نے گہرا سانس لیا اور تصویروں کو بند کرکے رکھ دیا۔

    تقریباً دو بجے دموع آیا تھا۔ پہلے کی طرح وہی ربرکا بوٹ اور کرمچ کی پتلون پہنے ہوئے۔ اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ پوری رات سویا نہیں ہے۔ وہ خاموش دھوپ میں کھڑا تھا۔

    ’’آپ کیسے ہیں دموع؟‘‘ اسے چپ دیکھ کر الیوا نے پوچھا۔

    ’’میں سوچ رہا ہوں۔

    انقلاب کب آئےگا؟

    میری پتلون کی جیب میں پڑی

    ہلتی ڈلتی

    میری یہ پانچ انگلیاں

    پوچھتی ہیں

    ’’انقلاب کب آئےگا؟‘‘

    کل رات میرے بابا نے اپنے عظیم کسان دوست شین کی نظم پھر سنائی۔ سچ، میں رات بھر سویا نہیں ہوں۔‘‘اور تھوڑی دیر بعد داشا بھی لوٹ آیا تھا اپنے کندھوں پر دو بڑی بڑی ہیرنگ مچھلیاں لادے ہوئے، جن کی جڑوں سے خون رس رہا تھا او ر ان کی آنکھیں ابھی تک جاگ رہی تھیں۔ اس نے ڈوری والی بنسی کھانے کے کمرے میں رکھ دی تھی اور مچھلیوں کو الیواکے سامنے فرش پرپٹک کر مسکراتے ہوئے فخر سے بولا۔

    ’’پچیس پونڈ کی ایک۔‘‘

    ’’اوہ عجوبے داشا، آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ دیکھیے دموع ہے نایہ عجوبہ؟‘‘

    ’’ندی میں جہاں تک پانی بہتا ہے اور جہاں تک یہ تیر سکتی ہیں، وہاں تک ان کی حکومت قائم رہے اس کے لیے انہونے نہ جانے کتنی چھوٹی مچھلیوں کا نشانہ بنایا ہوگا۔ اس بھیتر کی دنیا میں جہاں ہماری اور آپ کی معمولی نظر نہیں پہنچ سکتی، بڑا ہونے کے لیے، ننگے پاؤں اوپر پہنچنے کے لیے استحصال کی سیڑھی کا سہارا لیا جاتا ہے اور وہاں دوسرے کی ایڑی کی بدولت اپنا قد ناپنے کی اور کسی دوسرے کی بیساکھی کے سہارے رینگنے کی کوشش کی جاتی ہے اور آج یہ مچھلیاں مسٹر داشا جیسے شکاری کے ہاتھ آ گئیں توعجوبہ ہو گئیں، پچیس پونڈ کی۔‘‘ دموع نے مچھلیوں کے شلک تراشنے اور ان کے دانت نکالنے میں داشا کی مدد کرتے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں ٹھیک ہے... یہ ٹھیک ہے۔‘‘ داشا کے ساتھ آیا ہوا کریمیا کا فنکار پہلی بار بولا تھا۔ وہ بھری آنکھوں اور اکہرے بدن کا چالاک مرد تھا۔ وہ دولت مند تھا اور اس کی انگلیوں میں قیمتی انگوٹھیاں اور کوٹ میں مہنگے کلیپ لگے ہوئے تھے مگر وہ اپنی حرکت سے بے وقوف لگتا تھا جیسے اس کے اپنے نام کی کوئی شے نہیں۔ نہ اصول، نہ سوچ اور نہ کوئی نظریہ۔ وہ ہمیشہ سامنے والے کے من کی بات کرتا تھا اور اسے خوش رکھنا چاہتا تھا اور ایسے خوشامدی لوگوں سے الیوا کو ہمیشہ الجھن ہوتی تھی۔ جن کے پاس اپنی زندگی کا کوئی بنیادی جواز نہیں ہوتا اور جن کے پاس کچھ کہنے کو اپنے الفاظ نہیں ہوتے، وہ شاید ہاں یہ ٹھیک ہے، ہاں یہ ٹھیک نہیں ہے، کہہ لینے بھر ہی سے اکتفا کرتے ہیں۔ جن کے پاس اپنا کچھ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنا اعتماد جب اپنے پاس ہوتا ہے تو وہ کسی سے ریت مستعار لے کر محل کھڑا نہیں کرتے ۔ جزوی طور پر بھی نہیں۔ الیوا نے سوچا، پتا نہیں یہ آدمی ایزل، برش اور کینوس سے کس طرح رشتہ قائم کرتا ہوگا۔ اس نے ڈچ فنکار واں گوگ کے بارے میں سنا تھا کہ وہ تمام عمر اذیتوں میں جیتا رہا اور جورنگوں کے حوالے سے اپنے عہد کو زندگی کی سچائیوں سے روشناس کرانے کا کرب جھیلتا رہا اور جس کے برش نے رنگوں کے امتزاج سے کیسے کیسے جہان معنی کینواس کے حوالے سے پیدا کیے تھے۔

    الیوا نے سنجیدگی سے کہا۔

    ’’آپ فنکار ہیں اور آپ اس بات کو اچھی طرح، ہم سب سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔‘‘

    داشا نے ہیرنگ کی دم الیوا کے منہ پر رگڑ دی تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی اور کنارے بھیگ گئے تو وہ بہت ہی کم سن، پیاری اور معصوم لگنے لگی۔ پھر داشا اور کریمیا کا فنکار بہت دیر تک آپس میں باتیں کرتے رہے۔ ان کی بات چیت مصوری اور موسم پر ہو رہی تھی۔ کریمیا کا فنکار جلدی جلدی اپنی گردن ہلاتا تھا اور وہ دموع اور الیوا کی موجودگی کو تقریباً بھول گئے تھے۔ گرمی بڑھ گئی تھی اور شام کے چھٹ پٹے میں باغ کی جھاڑیوں سے بکائین کے پھولوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ دموع خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد کریمیا کا فنکار بھی۔

    الیوا نے ہاتھوں میں منہ چھپا لیا اور سسکنے لگی۔

    ’’آپ چپ ہو جائیے الیوا!! اور رونے کی وجہ بتائیے؟‘‘ داشا نے بےچین ہو کر اپنی نیک ٹائی نوچ ڈالی۔

    ’’ میں دکھی ہو ں داشا، آپ چاہیں تو میری مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ ا س کی سسکی ہچکیوں میں بدل گئی تھی۔

    ’اوہ اچھی الیوا، میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں پھر اس طرح رونے کی کیا وجہ ہے؟‘‘

    ’’میں آپ کو بتانا چاہ رہی تھی کہ آپ کا سلوک غیر مہذب ہوتا جا رہا ہے۔ اب آپ میں وہ بات، وہ خوبی نہیں پائی جاتی جس سے ہمارے مہمان متاثر ہوا کرتے تھے۔ہمیں ہمیشہ لوگوں کو یاد آتے رہنا چاہیے۔‘‘ وہ پھر سسکنے لگی اور مچھلی پکڑنے والی نپکین سے اپنی گیلی ناک صاف کرنے لگی۔

    ’’لیکن میں نے ایسا کون سا جرم کیا ہے اچھی الیوا؟ ‘‘ اس میں بے کلی بھر گئی تھی۔

    ’’آپ نے مسٹر دموع کو، اس اچھے اور نیک آدمی کر یکسر نظرانداز ہی کر دیا۔ نہ جانے وہ کیا سوچتے ہوں گے؟ آپ نے انہیں مخا طب تک نہ کیا۔ اوہ میرے داشا، یہ آپ نے کیا کر دیا۔ اب میں ان کے سامنے کیسے جا سکوں گی؟‘‘

    ’’الیوا میں پاگل ہو جاؤں گا۔ سچ مچ میں پاگل ہو جاؤں گا اور شاید اسی وولگا پر میری قبر بن جائے۔ میں کل صبح ہی مسٹر دموع سے معافی مانگنے جاؤں گا۔ سچ ،میں یقین دلاتا ہوں۔‘‘

    دوسری صبح دونوں گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر دموع سے ملنے گئے تو وہ اپنی بید کی کرسی پر بیٹھا کاغذ کے ان ٹکڑوں پر جن پر وولگا کے، ندی کے دو کناروں کو اسکیچ کیا گیا تھا، گہرا سرخ رنگ بھر رہا تھا۔ ایک رات میں ہی وہ پیلا اور بہت بیمار ہو گیا تھا اور ممی سا دکھ رہا تھا۔ کوچی پھنسی ہوئی انگلیوں کی رگیں جیسے کیکڑے کی طرح لگ رہی تھیں۔ وہ اپنی آنکھیں بار بار موند تا اور کھولتا تھا جیسے ان میں شدید درد ہو اور وہ پوری رات کام کرتا رہا ہو، اسی بید کی کرسی پر بیٹھ کر، انہیں کا غذی جھنڈوں اور پوسٹروں کے بیچ۔

    دموع کے بابا، وہ بوڑھا اور بیمار آدمی پہلے سے زیادہ بیمار ہو گیا تھا اور کھاٹ سے سٹ گیا تھا۔ اب اس کے منہ سے اخ... اخ کی دبی دبی آواز نکلتی تھی اور بڑی مشکل سے سنائی دیتی تھی۔ اب وہ اپنے عظیم کسان دوست کی نظم سنانا بھی چاہتا تو وہ سنائی نہیں دے سکتی تھی۔

    اس کی خواہش ہوئی کہ وہ دموع سے کہے کہ وہ اس کے بابا سے پھر نظم سننا چاہتی ہے مگر اس بوڑھے آدمی کی حالت دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ داشا سر جھکائے کھڑا تھا۔ الیوا کو اور بھی دکھ ہوا۔ اس نے جیسے سرگوشی میں کہا۔

    ’’داشا بہت شرمندہ ہیں۔کل آپ کو اس طرح چپ چاپ نہیں چلے آنا چاہئے تھا۔‘‘

    دموع نے کہا۔ ’’کل کارخانے کے مزدور انتظامیہ کے آگے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مظاہرہ کریں گے۔‘‘

    ’’مسٹر دموع آپ بیمار ہیں۔‘‘

    ’’ہاں، شاید۔‘‘

    ’’لیکن...‘‘

    ’’لیکن ان کی طرح...ہماری سوچ... ہمارا ارادہ... شاید بیمار نہیں۔‘‘

    ’’پھر بھی...‘‘

    ’’ہمیں بہت کام کرنا ہے ابھی۔ کل تک کوئی زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کل گرفتاریاں بھی ہوں؟‘‘

    ’’مسٹر دموع آپ کی پیلی آنکھیں دیکھ کر ہمیں دکھ ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’کل ہمارے ساتھ بابا بھی ہوں گے...۔‘‘

    اس بوڑھے آدمی کی اخ اخ سنائی دی تھی تب۔

    ’’کل میں بھی آپ کے ساتھ رہوں گی۔ مجھے لگ رہا ہے جیسے میں ہر پل چھوٹی ہوتی جا رہی ہوں۔ایک نقطے میں میرا قد سمٹنے لگا ہو جیسے...۔‘‘

    ’’دموع آپ تبدیلی میں یقین رکھتے ہیں؟‘‘ پہلی بار داشا نے دھیرے سے کہا تھا۔

    ’’ہاں لیکن...‘‘ اس نے اپنی داڑھی بے دردی سے نوچی اور درد سے بلبلا اٹھا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔

    اس نے کہا۔’’ لیکن ایسی تبدیلی میں نہیں کہ ماسکو کے چوراہوں پر زندہ گوشت بکنے لگے اور دکانوں میں آگ۔ کیا تبدیلی کی یہی مانگ ہے؟ کون جواب دےگا؟‘‘ اس نے باری باری الیوا اور داشا کو دیکھا۔

    ’’مہربانی کرکے میری بات سنیے، آپ کی سوچ ہیجانی ہو سکتی ہے۔‘‘

    ’’اسی مٹی میں عظیم لیکن بدقسمت روس کی اپنی تہذیب کہیں چھپی ہے جس کے سینے پر مغربی تہذیب ننگا ناچ کر رہی ہے۔ اس کو کون دیکھ رہا ہے؟ کیا کوئی نہیں؟ کوئی بھی نہیں؟ ماں کہاں ہو...؟‘‘

    الیوا اور داشا لوٹ آئے تھے اور ایک ریستراں میں بیٹھ گئے تھے۔

    ’’جیسے سب کچھ ہونے میں بھی کچھ بھی نہ ہونا ہے۔‘‘

    ’’مگر فطرت تو ہر وقت کچھ ہوتے رہنے کی مانگ کرتی ہے۔‘‘ الیوا کے رگ وپے میں ایک سیلن بھری گھٹن سماتی محسوس ہوئی۔

    ’’ہاں، جیسے اپنے نہ ہونے پر بھی ہونے کا گمان خود پر غالب کرنا۔‘‘

    ’’سچ یہ ہے کہ زندگی ایک مسلسل لڑائی ہے۔‘‘

    ویٹر کریم والی کافی رکھ گیا۔

    ’’دموع چند کوپیک کے لیے محتاج ہیں۔‘‘

    ’’داشا... داشا... اوہ داشا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ انسانی سماج میں انسان کی قدر اس کے مقام سے ہوتی ہے اور جن کے لیے دولت اور عہدہ ہی اہمیت رکھتا ہے۔‘‘

    ’’جبھی تو...۔‘‘

    ’’میں سمجھنا چاہتی ہوں داشا۔‘‘

    ’’آسمان میں چمکتے تاروں کو ہم گن سکتے ہیں لیکن توڑ نہیں سکتے۔ کیا یہ حد انسانی ارتقا کو شوبھا دیتی ہے؟ کیا یہ انصاف کی مانگ نہیں کرتی اور کیا یہ فکر کا موضوع نہیں جس پر دانشور سوچیں۔‘‘

    ’’تب یہ کیسے کہا جا سکتا ہے، اپنے بوٹ کے اندر بدبو میں اڑسے پاؤں کو دھونے اور بدبو دور کرنے کی بجائے بیوی کو ’تو‘ کہنا اور اس کی بے عزتی کرنا شاید وہاں سکھایا جاتا ہے یا خود ہی سیکھ جانا پڑتا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے بہرحال معیار اور عہدے کا حق دار بلکہ حصہ دار ہوا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’فطرت بھی تغیر کا ایک روپ ہے۔ اگر ترقی پسند انسان تغیر کو اپناتا ہے اور سوچ کو سمت دیتا ہے تو اس میں جواز تلاشنے کی کیسی گنجائش ہونی چاہئے؟ اور یہ کیا صحیح ہے، گنجائش نہیں بھی ہو اور ہو بھی؟‘‘

    ’’لیکن اسے اس سمت کو طے کرتے وقت اس کی نوعیت اور اقدار کا بہرحال جائزہ لینا ہوگا اور اگر دانشور طبقہ بھی اس رجحان کی قیادت نہیں کرے تو پھر... امیدیں تو شاید یا پھر ہرحال میں کرنی چاہیے اور اس کی مانگ بھی ورنہ اس سے کس کی صحت متاثر ہوگی؟ کیا کریمیا کے فنکار جیسے لوگوں کی؟ جب کہ دموع مزدوروں، محنت کشوں کے بیچ کا ایک محنت کش مانگ کرتا ہے اور کل اس کی مانگ کرےگا۔ کسی بیسا کھی کے سہارے تیز تیز چلنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے پاؤں پر رہیں اور زمین کی سطح پر رینگیں اور یہی سمت معیشت اور اخلاقیات کی معیار بلند کرتی ہے۔ ورنہ کریمیاکے فنکار کے مطابق یہ سب ٹھیک ہے اور جو شاید ضروری نہیں سمجھا جاتا۔‘‘ الیواکے چہرے پر تھکان کے تاثرات نمایاں ہو رہے تھے۔

    داشانے جھنجھلا کر اس کا دھیان اس طرف مبذول کرایا کہ اب تک اتنی دیر سے ان دونوں کے بیچ کتنی غیراہم، غیر دلچسپ اور اکتا دینے والی بات چیت ہو رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے بارش ہونے کے بعد کی گرمی۔ اس نے کہا کہ انہیں ابھی کچھ دیر کے لیے الگ ہونا ہوگا بلکہ اسے وہاں سے چلے جانا ہوگا تاکہ دونوں ٹھیک طرح، ایک نئی طرح پھر سے سوچ سکیں۔

    ’’ہاں شاید یہی ٹھیک ہوگا۔‘‘

    داچا میں آکر داشا اپنا سامان باندھنے لگا اور الیوا نے باغ کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھول دی۔ بکا ئین کی جھاڑیوں سے آنے والی ٹھنڈی اور خوشبودار ہوا اس سے ٹکرائی تو اسے لگا، سیلن بھری گھٹن کا احساس جیسے ایک دم غائب ہو گیا ہو اور اس نے منہ کھول کر ہوا کو پینے کی کوشش کی تو لگا اس کے پھیپھڑے میں اچانک حرکت پیدا ہو گئی ہو اور وہ جی اٹھی ہو۔ وہ دیر تک کھڑکی کے پاس ٹھہری ہوا کے تھپیڑوں کو اپنے چہرے پر محسوس کرتی رہی۔ داشا تیار ہو کر جانے لگا تو اس نے کہا۔

    ’’ہمیں بہرحال بہتری کی امید کرنی چاہیے اور اس کے لیے آزاد ذہن سے سوچنا چاہئے۔‘‘ داشا سر جھکائے باہر نکل گیا اور وہ کمرے میں تنہارہ گئی۔ اچانک وہ اچک کر دروازے پر پہنچی اور اونچی آواز میں ہاتھ اٹھا کر بولی۔

    ’’داشا، داشا ہمیں پریکٹیکل ہونا چاہیے۔ اچھا الوداع داشا۔‘‘

    داشا چلا گیا۔

    اور دوسرے دن شام کو الیوا اسے خط لکھ رہی تھی۔

    ’’آج دموع اور ان کے بابا ایک حادثے میں مارے گئے۔ میں اگلے ہفتے لوٹ رہی ہوں۔ میں گزارش کروں گی اور آپ اجازت دیں(یہ لکھتے ہوئے اسے وہ لڑکی یاد آئی جس نے ناٹک میں ماں کا کردار ادا کیا تھا اور جس کی آنکھیں بہت دیر تک ،ناٹک ختم ہونے کے بعد تک اداس تھیں۔ اس نے خود پر بھی ویسی ہی اداسی کا کہرا چھاتا ہوا محسوس کیا) تو میں مرحوم کا مریڈ دموع کے بنائے ہوئے پوسٹر اور ان کا کئی رنگوں والا کوٹ جس کے فلیپ میں یوم مئی کا سرخ بیج لگا ہوا ہے اور جس میں سے مردانہ پسینے کی بو، پھوٹتی رہتی ہے، لیتی آؤں؟‘‘

    سدا آپ کی،

    ........... الیوا...........۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے