aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ

MORE BYبلراج مینرا

    کہانی کی کہانی

    سکون و اطمینان کے لیے مضطرب انسان کی کہانی ہے۔ ماچس کی تلاش کو سکون کی تلاش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص کو رات میں سگریٹ پینے کی خواہش ہوتی ہے۔ سارے گھر میں ماچس تلاش کرنے کے بعد وہ باہر نکل پڑتا ہے۔ حلوائی کی بھٹی اور چیک پوسٹ پر آگ نہ ملنے کے بعد وہ سنسان لمبی سڑک پر چلتا چلا جاتا ہے۔ مرمت شدہ پل کے پاس جلتی لالٹین سے سگریٹ جلانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے اور پولیس اسے تھانے لے جاتی ہے۔ رات بھر وہاں رہنے کے بعد جب وہ گھر کی طرف لوٹتا ہے تو ایک شخص سے ماچس مانگتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے تو خود ماچس کی تلاش ہے۔

    جب اس کی آنکھ کھلی، وہ وقت سے بے خبر تھا۔

    اس نے دایاں ہاتھ بڑھا کر بیڈ ٹیبل سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا اور سگریٹ نکال کر لبوں میں تھام لیا۔

    سگریٹ کا پیکٹ پھینک کر اس نے پھر ہاتھ بڑھایا اور ماچس تلاش کی۔

    ماچس خالی تھی۔

    اس نے خالی ماچس کمرے میں اچھال دی۔

    خالی ماچس چھت سے ٹکرائی اور فرش پر آن پڑی۔

    اس نے ٹیبل لمپ روشن کیا۔

    بیڈ ٹیبل پر چار پانچ ماچسیں الٹی سیدھی پڑی ہوئی تھیں۔

    اس نے باری باری سب کو دیکھا۔

    سب خالی تھیں۔

    اس نے لحاف اتار پھینکا اور کمرے کی بتی روشن کی۔

    دو بج رہے تھے۔

    فرش برف ہو رہا تھا۔

    ابھی دو بجے ہیں، میں وقت سے بے خبر تھا، میں سمجھ رہا تھا، صبح ہونے کو ہے!

    آج یہ بے وقت نیند کیسے کھل گئی؟

    ایک بار آنکھ کھل جائے، پھر آنکھ نہیں لگتی!

    اس نے تمام کمرہ چھان مارا۔

    کتابوں کی الماری، ویسٹ پیپر باسکٹ، پتلون جیبیں، جیکٹ کی جیبیں۔۔۔ ماچس کہیں نہ ملی۔

    اس نے ایک ایک کتاب الٹ دی۔۔۔ کوئی دیا سلائی نہ ملی۔

    کمرے کی بری حالت ہوگئی تھی۔

    کتابیں الٹی سیدھی پڑی ہوئی تھیں، کپڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے ٹرنک کھلا ہوا تھا۔ کوئی آجائے اس سمے؟

    رات کے دو بجے، کمر ے کی یہ حالت؟

    سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

    سلگتے سگریٹ اور دھڑکتے دل میں کتنی مماثلت ہے!

    ماچس کہا ں ملے گی؟

    ماچس نہ ملی تو کہیں۔۔۔

    تو کہیں۔۔۔

    کہیں میرا دھڑکتا دل خاموش نہ ہو جائے؟

    آج یہ بے وقت نیند کیسے کھل گئی؟

    میں وقت سے بے خبر تھا،

    ایک بار آنکھ کھل جائے، پھر آنکھ نہیں لگتی!

    ماچس کہاں ملے گی؟

    اس نے چادر کندھوں پر ڈال لی اور کمرے سے باہر آگیا۔

    دسمبر کی سر د رات تھی، سیاہی کی حکومت اور خاموشی کا پہرہ۔

    کسی ایک طرف قدم اٹھانے سے پہلے وہ چند لمحے سڑک کے وسط میں کھڑا رہا۔

    جب اس نے قدم اٹھائے، وہ راستے سے بے خبر تھا۔

    رات کالی تھی، رات خاموش تھی اور دور دور، تا حد نظر، کوئی دکھلائی نہیں دے رہا تھا۔

    لمپ پوسٹوں کی مدھم روشنی رات کی سیاہی اور خاموشی کو گہرا کر رہی تھی اور۔۔۔

    چوراہے پر اس کے قدم رک گئے۔

    یہاں تیز روشنی تھی کہ دودھیا روشنی کی ٹیوبیں چمک رہی تھیں لیکن خاموشی جوں کہ توں ساری دوکانیں بند تھیں۔

    اس نے حلوائی کی دوکان کی جانب قدم بڑھائے۔

    ممکن ہے بھٹی میں کوئی کوئلہ مل جائے، دہکتا کوئلہ، دم بہ لب کوئلہ!

    حلوائی کی دوکان کے چبوتر ے پر کوئی لحاف میں گٹھری بنا سو رہا تھا۔

    وہ بھٹی میں جھانکا ہی تھا کہ چبوترے پر بنی گٹھری کھل گئی۔

    کون ہے؟ کیا کر رہے ہو؟

    میں بھٹی میں سلگتا ہوا کوئلہ ڈھونڈ رہا ہوں!

    پاگل ہو کیا؟ بھٹی ٹھنڈی پڑی ہے!

    تو پھر!

    پھر کیا! گھر جاؤ!

    ماچس ہے آپ کے پاس؟

    ماچس؟

    ہاں مجھے سگریٹ سلگانا ہے!

    تم پاگل ہو! جاؤ میری نیند خراب مت کرو، جاؤ!

    تو ماچس نہیں ہے آپ کے پاس؟

    ماچس سیٹھ کے پاس ہوتی ہے وہ آئے گا اور بھٹی گرم ہوگی۔ جاؤ تم!

    وہ پھر سڑک پر آ گیا۔

    سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

    اس نے قدم بڑھائے۔

    چوراہا پیچھے رہ گیا، تیز روشنی پیچھے رہ گئی، کیا کیا کچھ نہ پیچھے رہ گیا۔

    اس کے قدم تیزی سے اٹھ رہے تھے۔

    لمپ پوسٹ، لمپ پوسٹ، لمپ پوسٹ، ان گنت لمپ پوسٹ پیچھے رہ گئے، دھیمی روشنیوں والے لمپ پوسٹ جو رات کی سیاہی اور خاموشی کو گہرا کرتے ہیں۔

    یکا یک اس کے قدم رک گئے۔

    سامنے سے کوئی آرہا تھا۔

    وہ اس کے قریب آکر رک گیا۔

    ماچس ہے آپ کے پاس؟

    ماچس؟

    مجھے سگریٹ سلگانا ہے۔۔۔

    نہیں! میرے پاس ماچس نہیں ہے۔ میں اس علت سے بچاہوا ہوں۔۔۔!

    میں سمجھا۔۔۔

    کیا سمجھے؟

    شاید آپ کے پاس ماچس ہو؟

    میرے پاس ماچس نہیں ہے۔ میں اس علت سے بچا ہوا ہوں اور اپنے گھر جا رہا ہوں۔ تم بھی اپنے گھر جاؤ!

    اس نے قدم بڑھائے۔

    سگریٹ اس کے لبوں میں کانپ رہا تھا۔

    وہ دھیمے دھیمے قدم اٹھا رہا تھا کہ تھک گیا تھا۔

    وقت سے بے خبر، اس کے تھکے تھکے قدم اٹھ رہے تھے۔

    لمپ پوسٹ آتا، مدھم روشنی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی اور پھر سیاہی۔

    پھر لمپ پوسٹ، مدھم روشنی اور پھر سیاہی۔

    وہ لبوں میں سگریٹ تھامے دھیمے دھیمے قدم اٹھا رہا تھا۔

    اس کی پھیپھڑوں تک دھواں کھینچنے کی طلب شدید ہوگئی تھی۔

    اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔

    شب خوابی کے لباس اور چادر میں اسے سردی لگ رہی تھی۔

    وہ کانپ رہا تھا اور کانپتے قدموں سے دھیمے دھیمے بڑھ رہا تھا، وقت سے بے خبر، لمپ پوسٹوں سے بے خبر۔

    ایک بار پھر اس کے قدم رک گئے۔

    اس کی نظروں کے سامنے خطر ے کا نشان تھا۔

    سامنے پل تھا، مرمت طلب پل۔

    حادثوں کی روک تھام کے لئے سرخ کپڑے سے لپٹی ہوئی لالٹین سڑک کے بیچوں بیچ تختے کے ساتھ لٹک رہی تھی۔

    اس نے لالٹین کی بتی سے سگریٹ سلگانے کے لئے قدم اٹھایا ہی تھا کہ۔۔۔

    کون ہے؟

    وہ خاموش رہا۔

    سیاہی کی ایک انجانی تہ کھول کر سپاہی اس کی طرف لپکا۔

    کیا کر رہے تھے؟

    کچھ نہیں!

    میں کہتا ہوں، کیا کر رہے تھے؟

    آپ کے پاس ماچس ہے؟

    میں پوچھتا ہوں کیا کر رہے تھے اور تم کہتے ہو، ماچس ہے۔ کون ہو تم؟

    مجھے سگریٹ سلگانا ہے، آپ کے پاس ماچس ہو تو۔۔۔

    تم یہاں کچھ کر رہے تھے؟

    میں لالٹین کی بتی سے سگریٹ سلگانا چاہتا تھا۔۔۔ آپ کے پاس ماچس ہو تو۔۔۔

    تم کون ہو، کہاں رہتے ہو؟

    میں۔۔۔

    کہاں رہتے ہو؟

    ماڈل ٹاؤن!

    اور تمہیں ماچس چاہئے۔۔۔ ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہو۔۔۔ ماڈ ل ٹاؤن کہاں ہے؟

    ماڈل ٹاؤن!

    اس نے گھوم کر اشارہ کیا۔

    دور دور تا حد نظر سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔

    چلو میرے ساتھ تھانے تک۔۔۔ ماڈل ٹاؤن۔۔۔؟ ماڈل ٹاؤن یہاں سے دس میل کے فاصلے پر ہے۔۔۔ ماچس چاہئے نا! تھانے میں مل جائے گی!

    سپاہی نے اس کا بازو تھام لیا۔

    وہ سپاہی کے ساتھ چل پڑا۔

    تھانہ اسی سڑک پر تھا جو ختم ہونے کو نہ آتی تھی۔

    وہ سپاہی کے ساتھ تھانے کے ایک کمرے میں داخل ہوا۔

    کمرے میں کئی آدمی ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔

    سب سگریٹ پی رہے تھے۔

    میز پر سگریٹ کے کئی پیکٹ اور کئی ماچس پڑی تھیں۔

    صاحب! یہ شخص پل کے پاس کھڑا تھا، کہتا ہے، ماڈل ٹاؤن میں رہتا ہوں اور ماچس ماچس کی رٹ لگائے ہوئے ہے!

    کیوں بے؟

    اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی ماچس استعمال کرلوں، مجھے اپنا سگریٹ سلگانا ہے!

    کہاں رہتے ہو؟

    ماڈل ٹاؤن؟ کیا میں آ پ کی ماچس لے سکتا ہوں؟

    کیا کرتے ہو؟

    میں اجنبی ہوں! کیا میں ماچس۔۔۔

    ماڈل ٹاؤن میں کب سے رہتے ہو؟

    تین ماہ سے! ماچس۔۔۔

    ماچس۔۔۔ ماچس کا بچہ۔۔۔ اجنبی۔۔۔ جاؤ اپنے گھر۔۔۔ ورنہ بند کر دوں گا۔۔۔ ماچس۔۔۔؟

    جب وہ تھانے سے باہر آ گیا، وہ بری طرح تھک چکا تھا۔

    اس نے اس ناختم ہونے والی سڑک پر دھیمے دھیمے چلنا شروع کر دیا۔

    اس کی ناک سوں سوں کرنے لگی تھی اور اس کا بدن ٹوٹنے لگا تھا۔

    سگریٹ پینا ایک علت ہے!

    میں نے یہ علت کیو ں پال رکھی ہے؟

    ماچس کہاں ملے گی؟

    نہ ملی تو؟

    وہ وقت سے بے خبر تھا، لمپ پوسٹوں سے بے خبر تھا، سڑک سے بے خبر تھا، اپنے بدن سے بے خبر تھا۔

    وہ گرتا پڑتا بڑھ رہا تھا۔

    اس کے لغزش زدہ قدموں میں نشے کی کیفیت تھی۔

    پو پھٹی اور وہ دم بھر کو رکا۔۔۔

    دم بھر کو رکا اور سنبھلا۔۔۔

    سنبھلا اور اس نے قدم اٹھانا ہی چاہا کہ۔۔۔

    سامنے سے کوئی آ رہا تھا اور اس کے قدم لغزش کھا رہے تھے،

    وہ اس کے قریب آکر رکا۔

    اس کے لبوں میں سگریٹ کانپ رہا تھا۔

    آپ کے پاس ماچس ہے؟

    ماچس؟

    آپ کے پاس ماچس نہیں ہے؟

    ماچس کے لئے تو میں۔۔۔

    وہ اس کی بات سنے بنا ہی آگے بڑھ گیا۔

    آگے، جدھر سے وہ خود آیا تھا۔

    اس نے قدم بڑھایا۔

    آگے، جدھر سے وہ آیا تھا۔

    مأخذ:

    سرخ و سیاہ (Pg. 52)

    • مصنف: بلراج مینرا
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے