Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ ایک بات

ناز قادری

وہ ایک بات

ناز قادری

MORE BYناز قادری

    آج سال کی آخری تاریخ ہے۔

    پرانا سال دم توڑ رہا ہے اور نیا سال جنم لے رہا ہے۔ نئے سال کی آمد کے اہتمام میں رائل ہوٹل نئی نویلی دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ ہال میں مدھم سی رنگین روشنی پھیلی ہوئی ہے اور ماحول بےحد رومان انگیز ہے۔ آرکِسٹرا کی ہلکی سی دھن فضا میں امرت رس گھول رہی ہے۔ اس کی سرور انگیز موسیقی دل کے تاروں کو چھو رہی ہے۔ نئے نئے رنگوں اور نِت نئی وضع کے کپڑوں میں ملبوس جوڑے آ رہے ہیں۔ حُسن وزیبائش کے پیکروں سے ہال جگمگا رہا ہے۔ نوجوان جوڑے چکنے فرش پر محوِ رقص ہیں۔ ہر شخص مسرور وشادمان نظر آرہا ہے۔ آج زندگی تھرک رہی ہے، حُسن گنگنا رہا ہے، روح جھوم رہی ہے، دل مچل رہا ہے اور حسین جسموں کی خوشبوئیں فضا میں رچ رہی ہیں۔

    ہم دونوں بھی رقص کر رہے ہیں۔ اس کے نم آلود ہونٹ انگارے کی طرح دہک رہے ہیں اور اس کا خوبصورت چہرہ کُندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس کے گداز جسم کے لمس سے میرے انگ انگ میں گد گدی سی پیدا ہو رہی ہے۔

    ہال میں پرسرور موسیقی تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ فضا کیف برسا رہی ہے اور رقص میں تندی آ گئی ہے۔ نوجوان جوڑے موسیقی کے بہاؤ میں بہے جارہے ہیں۔ نوجوان جسموں کے الاؤ کے گرد ہر شخص اپنا وجود پھنکتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ سریتاؔ کی آنکھیں دعوتِ سرور دے رہی ہیں۔ اسکاچ وہسکی کے نشے نے مجھے اور مدہوش کر دیا ہے۔ میرا وجود تپتے صحرا کی طرح جلنے لگا ہے۔ وہ بھی میرے وجود میں سماجانا چاہتی ہے۔

    معاً ہال اندھیرے میں ڈوب گیا ہے۔

    ’’نیا سال مبارک ہو!‘‘

    A happy New year to you

    Heartiest New year greetings

    My best wishes to you

    سارے ہال میں جلترنگ سی بجنے لگی ہے۔

    اب روشنی قدرے تیز ہو گئی ہے۔ آرکسٹرا کی مدھر دھن مدھم پڑ گئی ہے اور تھکے تھکے سے حسین جوڑے اپنی اپنی جگہوں پر آ گئے ہیں۔

    دفعتاً سریتا گھر چلنے کو تیار ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے قدم لڑکھڑانے لگے ہیں۔ میں نے اسے سہارا دے کر ٹیکسی میں بٹھا دیا ہے۔ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جا رہی ہے۔ آج پہلی بار میں اس کے گھر جا رہا ہوں۔

    سریتا ایک بڑے باپ کی بیٹی اور اونچی سوسائٹی کی فرد ہے۔ وہ ایم۔ اے۔ میں پڑھتی ہے۔ اس سے میری پہلی ملاقات ایک کیفے میں ہوئی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اس شہر میں نیا نیا آیا تھا۔ یہاں کی ہر چیز میرے لیے اجنبی تھی نیا شہر، نئے لوگ، نئی تہذیب، نئے چہرے ہر شے نئی تھی۔ یہاں کی زندگی رواں دواں تھی، ایک بہتی ہوئی ندی کی طرح! ہر طرف شور وغل اور ہنگامے تھے۔ شوخ قہقہوں کا ترنم، دلکش مسکراہٹوں کی تجلیاں اور چنچل اداؤں کے جادو تھے۔ ان رعنائیوں اور رنگینیوں کے باوجود میں خود کو تنہا محسوس کرتا۔ احساسِ تنہائی اور اجنبیت سے دل اداس رہتا اور زندگی ایک یاس انگیز گیت بن جاتی۔ میں دل بستگی کے لیے لان، لائبریریاں، کیفے اور ہوٹل جاتا۔ لیکن کہیں بھی طبیعت نہ لگتی۔ تنہائی کی ناگن ڈستی رہتی۔ آخرکار تھک ہار کر میں اپنے کمرے میں محبوس ہو جاتا اور خیالوں کی دھن میں کھو جاتا۔

    وہ ایک حسین شام

    میں کیفے میں بیٹھا، سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے بنا رہا تھا کہ وہ میرے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گئی اور میری نظریں اس پر جم سی گئیں۔ میں نے اس کے سراپا کا جائزہ لیا۔ وہ بےحد حسین اور اسمارٹ معلوم ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں کاجل کی لکیر اور رخسار پر غازے کی ہلکی سی سرخی تھی۔ وہ سفید رنگ کی ساڑی میں ملبوس نو شگفتہ کلی کی طرح میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کی آرائش وزبیائش میں ایک د ل کشی تھی، ایک جاذبیت تھی۔ اس کی عمر کوئی زیادہ نہ تھی۔ وہ بچپن کے آنگن سے نکل کر شباب کی وادی میں محوِ خرام تھی۔ اس کے ہر عضوِ بدن سے حسن وجوانی کی بھینی بھینی مدہوش کن خوشبو بکھر رہی تھی۔ میری نگاہیں اس کے حسن و جمال کو چومنے لگیں۔ وہ مجھے مانوس دکھائی دے رہی تھی اور اس کے ہر انداز میں مجھے اپنائیت نظر آ رہی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے وہ منزل مل گئی جس کی تلاش تھی!

    وہ بہت جلد مجھ سے بےتکلف ہو گئی اور اب کبھی کیفے میں مل جاتی تو کبھی وکٹوریہ میموریل کے دلکش میدان میں۔ اس کا قرب پاکر مجھے سکون اور فرحت کا احساس ہوتا۔ دشت تنہائی میں میری بےقرار روح کے لیے وہ ایک ایسا سہارا بنی جِس سے کچھ نہ پاکر بھی میں نے سب کچھ پا لیا۔

    ٹیکسی ایک عالیشان عمارت کے سامنے رک گئی ہے۔ یہ اس کا اپنا گھر ہے۔ وہ میرا ہاتھ تھامے بالائی منزل کے ایک کشادہ کمرے میں لے آئی ہے۔ اس نے دروازہ اندر سے بند کر لیا ہے۔ کمرہ ہلکی نیلگوں روشنی میں نہا رہا ہے۔ فرش پر ایرانی قالین بچھے ہیں۔ کمرے میں الماری، ڈریسنگ ٹیبل، پلنگ، گلاس ٹینک، بُک شیلف، میز اور صوفے ہیں۔ یہ شاید اس کی خواب گاہ ہے اور اسٹڈی روم بھی۔ اندر کے دروازے سے متصل بالکونی اور باتھ روم ہے۔ ڈریسنگ ٹیبل پر کمے کا ڈبہ ہے۔ یہ اُس کا پسندیدہ پاؤڈر ہے۔ یہاں ہر چیز ترتیب اور سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔ میری نگاہیں گلاس ٹینک پر جم سی گئی ہیں جس میں چھوٹی چھوٹی لال مچھلیاں تیر رہی ہیں۔ میرے ذہن میں ایک خیال رینگ گیا ہے۔ میں سریتا کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہ جدید طرز کے لباس میں ملبوس ہے۔ سپید جسم کے تمام خطوط نکھر رہے ہیں اور وہ آئینہ کی طرح چمک رہی ہے۔ کمے کی روح پرور خوشبو سے فضا معطر ہو رہی ہے۔ معاً میری نظریں الماری میں لگے قد آدم آئینہ پر پڑتی ہیں اور میں اپنا سراپا دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے سہم گیا ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہور ہا ہے جیسے میں؛ میں نہیں کوئی اور ہوں۔

    ’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘ اور میں دبیز وگرم صوفے پر نیم دراز ہو گیا ہوں۔

    وہ الماری سے ڈپلومٹ کی اسکاچ لاکر میرے قریب بیٹھ گئی ہے۔ وہ وہسکی میری طرف بڑھاتی ہے۔

    ’’نہیں، اب نہیں ‘‘

    ’’بس ایک اور صرف ایک میری خاطر ڈارلنگ ‘‘

    اور اس نے جام میرے ہونٹوں سے لگا دیا ہے۔ جب کوئی حسین لڑکی اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے شراب پلاتی ہے تو سرور اور بڑھ جاتا ہے۔

    اسکاچ وہسکی کا سِپ لے کر سریتا کا حسن اور تابناک ہو گیا ہے۔ شراب پینے کے بعد عورت اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے، سہ آتشہ ہو جاتی ہے! سریتا کی آنکھوں میں عمر خیامؔ کی ساری شاعری سمٹ آئی ہے۔ اس کی چشم میگوں کچھ کہہ رہی ہے۔ لیکن میں سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔

    وہ میرے بہت قریب سرک آئی ہے۔

    ’’آج تم بہت اچھی معلوم ہو رہی ہو!‘‘

    ’’میں آہستہ سے اس کی یاقوتی ہونٹوں کو چھیڑتا ہوں۔‘‘

    ’’سچ!‘‘

    اس کے چہرے پر مسرت کا نور پھیل گیا ہے۔

    دفعتاً دروازے پر ہلکی سی دستک ہوتی ہے اور میں چونک کر اس طرف دیکھتا ہوں۔

    ’’ڈونٹ وری، ڈارلنگ! وہ اندر نہیں آ سکتا!‘‘

    ’’لیکن اس شیشے سے اندر تو جھانک سکتا ہے!‘‘

    میں دروازے پر لگے چھوٹے قطر کے گول شیشہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

    وہ مسکراتی ہوئی اٹھ کر شیشہ سے باہر جھانکتی ہے۔

    میں ایک نامعلوم کشش اور بےنام جذبے کے تحت ڈبل بیڈ پر دراز ہو گیا ہوں جس پر ریشمی چادر بچھی ہے اور ڈنلپ کے تکیے لگائے گئے ہیں۔

    وہ میرے اور قریب آ گئی ہے۔

    ’’تم کتنے بھولے ہو!‘‘

    اس نے خمار آلود نگاہوں سے مجھے دیکھا ہے۔

    اور میں گھبرا سا گیا ہوں۔ اس کے لبوں پر شرارت انگیز مسکراہٹ کھیل رہی ہے اور آنکھوں میں نشے کے شعلے لہرا رہے ہیں۔

    ’’آخر دروازے پر وہ شیشہ کیوں ہے؟‘‘

    میرا تجسس جاگ اٹھتا ہے۔

    ’’اس شیشے سے باہر تو دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن باہر سے کوئی اندر نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

    اور پھر وہ دیوانہ وار اِس طرح میری طرف بڑھتی ہے کہ میں گھبرا جاتا ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے میں کوئی بات بھول رہا ہوں جو سریتا سے پوچھنی ہے!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے