Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ نہ تھی ہماری قسمت

ناز قادری

یہ نہ تھی ہماری قسمت

ناز قادری

MORE BYناز قادری

    اور میری نظریں فرحتؔ پر جم سی گئی ہیں۔

    یادوں کے دیے جگمگا اٹھے ہیں، ذہن کے پردے پر ماضی کی تصویریں اجاگر ہوگئی ہیں اور حال نے مجھے آج سے پانچ سال پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔

    کلاس میں پہنچتے ہی کریم کے چاروں طرف طلبا کا ہجوم دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے کیوں کہ وہ ایک طرح سے کالج کا نیوز بیوریو تھا۔ کس شعبے میں کیا ہو رہا ہے، کہاں کون سا نیا واقعہ ہوا ہے، کس لڑکی کا کردار کیسا ہے، کون پروفیسر کس مونالزا کے تبسم کا شکار ہے اور کس لڑکے کا نام بلیک رجسٹر میں درج ہوا ہے یہ ساری باتیں وقت سے پہلے ہی کریم کو معلوم ہو جاتیں اور پھر جنگل کی آگ کی طرح کالج کی عمارت کے گوشے گوشے میں پھیل جاتیں۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کریم کو مخاطب کیا۔

    ’’مولانا! اپنے ڈپارٹمنٹ میں بھی ایک بلبل نے داخلہ لیا ہے۔‘‘ کریم نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا ’’اب جان آ گئی ہمارے ڈپارٹمنٹ میں!!‘‘

    یوں تو کالج میں سیکڑوں لڑکیاں تھیں لیکن اردو ڈپارٹمنٹ قدرت کے اس حسین شاہکار سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ شعبۂ اردو میں آفتاب کی تمازت تھی نہ چاندنی کی ٹھنڈک، گُل ولالہ کی خوشبو تھی نہ قوسِ قزح کی رعنائیاں! قدرت کے اس عطیہ سے محرومی کا واحد سبب صدرِ شعبہ ڈاکٹر فاروقی کی مولویت تھی۔ لیکن جب فرحت کے داخلے کی خبر مشہور ہوئی توجیسے اجڑے چمن میں بہار آ گئی، تپتے صحرا میں پھول کھِل اٹھے اور طلبا متحیر تھے کہ ڈاکٹر فاروقی جیسے زاہد خشک کی مولویت کہاں چلی گئی؟ لیکن دوسرے ہی دن معلوم ہوا کہ فرحت نے سا ئیکلوجی میں آنرز لے رکھا ہے۔ اردو آنرز کے طلبا کے چہروں پر ایک بار مایوسیوں کی گھٹا چھا گئی اور منچلے لڑکوں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔

    فرحت بہت جلد کالج میں مقبول ہو گئی۔ وہ جتنی خوبصورت تھی اس سے کہیں زیادہ اس کے حُسن کی شہرت ہوئی۔ طلبا ہی نہیں اساتذہ بھی اس کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے۔ ہر شخص اُس کا نام لے کر اپنے دل میں فرحت سی محسوس کرتا۔ اس کے آتے ہی سارا کالج سدھا، بھارتی، روزی اور بملا کو بھول گیا۔ اب تو کوئی غلطی سے بھی نہ کہتا کہ بھارتی کے حسن کی سادگی میں ایک پرکاری ہے، سُدھا کے متناسب جسم اور ابھرتے خطوط میں دلکشی و دلربائی ہے، روزی قیامت ہے اور بملا کی شخصیت پر وقار ہے۔ فرحت نے بھارتی کے پرستاروں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ سدھا پر مرنے والے اس کے مداح ہو گئے، روزی کے شیدائی اس میں دلچسپی لینے لگے اور بملا کے چاہنے والوں کے دل فرحت کے لیے بےقرار رہنے لگے۔ کالج کینٹین سے لے کر لائبریری اور کامن روم تک فرحت کا ذکر ہونے لگا۔ وہ کون سی محفل تھی جہاں وہ موضوعِ گفتگو نہ تھی۔ کالج کے در ودیوار سے فرحت! فرحت!! کی صدائیں آنے لگیں جیسے فرحت کا نام لینا ہر شخص کا فریضہ ہو اور اس کے نام سے ان سب کو سکون وقرار ملتا ہو۔ لیکن وہ خود دار وغیور لڑکی تھی، وہ کسی کو لفٹ نہ دیتی تھی۔

    فرحت عام خد وخال کی حسین لڑکی تھی۔ اس کا باپ نہ تھا، ایک بہن تھی اور ماں کسی گرلس سکول میں ٹیچر تھی۔ ان کی معاش کا دارو مدار ماں کی ملازمت پر ہی تھا۔ وہ اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں رہ کر تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ وہ جدید فیشن کی دل دادہ تھی اور ہمیشہ سجی رہتی تھی، جھیل سی آنکھوں میں کاجل، رخساروں پر غازے کی ہلکی سی تہ اور جسم سے لپٹے ہوئے جدید لباس سے حسن وشباب کی کرنیں پھوٹتی رہتی تھیں۔ جب وہ ساڑی پہنتی تو اس کی دلکشی ورعنائی اور بڑھ جاتی۔ وہ آئینہ کی طرح چمکنے لگتی اور اس کی چال میں عجیب شان وتمکنت پیدا ہو جاتی۔

    فرحت کالج کی ہر Activity میں حصہ لیتی۔ وہ لیڈیز کامن روم کی سکریٹری بھی منتخب ہوئی لیکن کسی لڑکے کو منھ نہ لگاتی۔ آخرکار اس کی اِس بےاعتنائی نے افواہوں کو جنم دیا۔

    ’’فرحت پروفیسر سبحانی کی کیپٹ ہے۔‘‘ نیازی انکشاف کرتا۔

    ’’لیکن پرویز اس سے محبت کرتا ہے!‘‘ اعجازی کی آواز ابھرتی۔

    ’’فرحت بھی شاید پرویز کو چاہتی ہے!‘‘نسیم بولتا۔

    ’’پھر کیا ہوا؟ کیا محبت کوئی جرم ہے؟‘‘ میں کہتا۔

    ’’یہ بات نہیں جناب! توبہ کیجیے اس کمبخت نے‘‘

    ’’اجی مولانا اسے آپ محبت کہتے ہیں!؟‘‘ کریم نے اعجازی کی بات کاٹتے ہوئے ایک بار مجھ سے کہا ’’یہ محبت نہیں محض ہوس ہے ہوس!!‘‘

    ’’بھئی اس کے کئی پرستار ہیں اور وہ ہر ایک میں دلچسپی لیتی ہے۔‘‘ نعیم نے اپنی واقفیت کا اظہار کیا۔

    ’’ایسا نہیں ہو سکتا‘‘ میں نے کہا ’’عورت صرف ایک سے محبت کرتی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں صرف ایک کو چاہتی ہے، اس کے من مندر میں ایک ہی دیوتا ہوتا ہے جس کی پوجا وہ تادم حیات کرتی رہتی ہے۔‘‘

    ’’پھر وہی محبت! کہہ تو دیا یہ ہوس ہے!‘‘ کریم نے آخری لفظ پر زور دیا۔

    فرحت سے پہلی ملاقات سا ئیکلوجی ڈپیارٹمنٹ کے قریب ہوئی تھی۔ میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ ایک ہلکی سی نغمہ بار آواز فضا میں لہرائی۔

    ’’سنئے!‘‘

    اور میں نے مڑکر دیکھا تو فرحت سبک روی سے میری جانب آ رہی تھی۔

    ’’کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟‘‘ اس کے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

    ’’کیوں؟ کیا بات ہے؟؟‘‘

    ’’آج پریکٹیکل ہے، اگر آپ میرا سبجکٹ ‘‘

    ’’لیکن ‘‘

    ’’میں آپ کی ممنون ہوں گی‘‘ اس کے لہجے میں التجا تھی اور ہونٹوں کا تبسم کافور ہو چکا تھا۔

    اور نہ جانے میں کس جذبے کے تحت تیار ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی چیز چپکے سے میرے دل کے آنگن میں اتر آئی ہو۔

    میں فرحت سے ملنا اور اس سے بے تکلف ہونا نہیں چاہتا تھا جب کہ دوسرے طلبا ہمیشہ اس کی قربت حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے تھے مگر وہ کسی کو لفٹ نہ دیتی تھی۔ پھر بھی فرحت سے اکثر میری ملاقات ہو جاتی کبھی لائبریری میں تو کبھی کالج کینٹین میں۔ جب لڑکے مجھے فرحت سے باتیں کرتے اور اس کے ساتھ کالج کینٹین میں چائے پیتے دیکھتے تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل جاتیں اور پھر کالج میں فرحت کے ساتھ میرا بھی چرچا ہونے لگا۔

    ’’دل ہی تو ہے اور وہ بھی شاعر کا دل!‘‘ اعجازی کہتا۔

    ’’کہیے جناب شاعری خوب ہو رہی ہے نا؟‘‘اسلم بولتا۔

    لیکن میں ان باتوں پر دھیان نہ دیتا کیوں کہ مجھے خود پر اعتماد تھا اور خود اعتمادی زندگی سنوارتی ہے۔

    آئے دن فرحت کے بارے انکشافات ہوتے رہتے اور اس کی زندگی کی دھوپ چھاؤں معلوم ہوتی رہتی۔

    ’’فرحت کرپٹیڈ ہے‘‘۔ حیدری راز دارانہ لہجے میں کہتا۔

    ’’لاحول ‘‘ اسلم عینک صاف کرتا۔

    ’’ارے تم لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟‘‘ عابدی کہتا ’’کچھ بھی ہو تمہیں اس سے کیا مطلب؟‘‘

    ’’ہاں جی چھوڑو اِن باتوں کو۔ کوئی اور موضوع نہیں ہے؟‘‘ فہیم کی نحیف آواز ابھرتی۔

    ’’جدید فیشن نے تو لڑکیوں کو آزاد ہی کر دیا ہے۔‘‘ راشدی نے اظہار خیال کیا۔

    مجھے یہ بات بری معلوم ہوئی۔ عابدی کو بھی غصہ آ گیا۔ اس نے بغیر کسی تمہید کے راشدی سے کہا۔

    ’’کسی پر کیچڑ اچھالنا کہاں کی شرافت ہے؟‘‘

    راشدی نے خشمگیں نظروں سے عابدی کو دیکھا اور ملائم لہجے میں کہا۔

    ’’فرحت کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے۔‘‘

    ’’آپ چپ رہیے، آپ کچھ بھی نہیں جانتے!‘‘ عابدی منھ سکوڑتے ہوئے بولا۔

    نہ جانے کتنی باتیں کالج کی فضامیں تحلیل ہوتی رہیں اور فرحت ان سب سے بےنیاز اپنی راہ پر گامزن رہی۔

    فرحت ہر وقت شگفتہ اور تروتازہ رہتی۔ شبنم کے قطروں سے دھلے ہوئے گلاب کی طرح اس کے معصوم چہرے پر ہمیشہ مُسکراہٹ کا نور پھیلا ہوتا لیکن وہ دورانِ گفتگو کبھی کبھی اداس ہو جاتی۔ مسکراہٹوں کی چاندنی اور قہقہوں کے جلترنگ کے ساتھ اداسی کے بادل اور اشکوں کی پھوار دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی۔ اُس کی زندگی مجھے معمہ معلوم ہونے لگی۔ میرے دل میں یہ راز جاننے کا تجسّس جاگ اٹھا۔ مجھے محسوس ہوتا جیسے وہ اپنی تکلیف، اپنا دکھ مسکراہٹوں میں چھپانا چاہتی ہے۔ وہ کون سا غم تھا جس کا احساس اس کے تبسم اور قہقہوں کو آنسوؤں میں بھگو دیتا۔ کئی بار میرا جی چاہا میں اس سے پوچھوں آخر لوگ اسے بدنام کیوں کرتے ہیں؟ وہ اداس کیوں رہتی ہے؟ لیکن میں خاموش رہتا۔

    اور ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔ میرے سوال پر وہ اچانک غمگین ہو گئی اور کچھ پریشان سی نظر آنے لگی جیسے اسے مجھ سے ایسے سوال کی توقع نہ تھی۔ وہ خاموش رہی پھر خیالات میں کھوسی گئی۔ اس کی آنکھوں میں بادل امڈ آئے اور دوسرے لمحہ اُس کی پلکوں سے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر رخساروں پر بکھرنے لگے۔

    ’’شاید مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں اِس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔‘‘ میں گھبرا سا گیا۔

    اس کے ہونٹ کپکپانے لگے جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو لیکن الفاظ ساتھ نہ دے رہے ہوں۔

    ’’میں آپ کے سوال کا جواب نہیں دے سکتی۔‘‘ اور اس کی آواز سِسکیوں میں ڈوب گئی۔

    تھوڑی دیر بعد وہ آنسوؤں کے موتی اپنے آنچل میں سمیٹتے ہوئے پہلے کی طرح مسکرانے لگی جیسے ابھی ابھی بادل برس کر آسمان کھل گیا ہو لیکن اس کی مسکراہٹ میں غم کی آمیزش تھی اور چہرے پر اداسی کے ہلکے ہلکے سایے لہرا رہے تھے۔

    اِس واقعہ کے بعد میں نے کبھی اس سے اس موضوع پر بات نہیں کی۔ وقت کا طائر پرواز کرتا رہا اور دن گزرتے رہے آخر کار امتحان آ گیا اور آخری پرچے کے بعد ہم سب ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔

    زندگی کے سفر میں بعض لمحات ایسے بھی آتے ہیں جن کی یادیں کبھی کبھی جگنو کی طرح جگمگاتی رہتی ہیں۔ فرحت بھی گاہے گاہے یاد آتی رہی اور آج پانچ سال کے بعد فرحت سے ملاقات ہو گئی ہے۔ میری نظریں اس پر جم سی گئی ہیں اور یادوں کے نقوش چمکنے لگے ہیں۔

    میں اور اسلم ’’الکا‘‘ میں چائے پی رہے ہیں۔ عابدی ہوٹل میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ فرحت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ دونوں ہمارے قریب آتے ہیں اور عابدی بہت تپاک سے ملتے ہوئے بتاتا ہے کہ اس نے فرحت سے شادی کر لی ہے اور دونوں اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں۔

    اور مجھے اپنے دل میں ایک عجیب سی کسک کا احساس ہونے لگا ہے جیسے میں نے کوئی عزیز اور قیمتی شے کھودی ہے۔ میں اسلم کی طرف دیکھتا ہوں، وہ کچھ پریشان سا ہے جیسے کوئی خیال اس کے دل میں چٹکیاں لے رہا ہے!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے