Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زمیں زادہ

فارحہ ارشد

زمیں زادہ

فارحہ ارشد

MORE BYفارحہ ارشد

    وہ جس کے سر سے جنگلی کبوتروں کی خوشبو آتی تھی، اسے کافور کی بو نے بد حواس کردیا۔ اس بُو کے ادراک نے اسے انکار کا حرف سکھایا اور وہ رات کے اندھیرے میں وہاں سے بھاگ نکلا۔

    کتنی کھائیوں میں گرا، کتنی چوٹیں کھائیں۔ کیسے زخموں نے نڈھال کیا، یہ ایک خوفناک اور درد و آشوب سے بھرے طویل سفر کی کہانی تھی۔ جانے کتنے گھنٹے وہ بھاگتا رہا تھا، اب تو اسے خود بھی یاد نہ تھا۔ یاد تھا تو بس اتنا کہ اسے اس جسم و جان کو چیر دینے والی بُو سے دور جانا تھا۔ ان لڑکوں میں نہیں رہنا تھا جو سفید چہرے لیے پھرتے تھے، نہ پوری طرح روتے تھے اور نہ ہی جنہیں کھل کے ہنسنا اتا تھا۔ مخصوص قسم کی جذباتی و جسمانی تربیت اور مشقوں کے بعد کندھوں پہ اس طرح 'سر' رکھے پھرتے تھے جیسے کوئی دہقان سر پر پگڑی رکھتا ہے۔ جب جی چاہا رکھ لی، اور جب دل کیا اتار دی۔۔

    وہ ان کی حالت اور ان کی برزخی کیفیت محسوس کر سکتا تھا کیونکہ وہ انہی میں سے ایک تھا۔ کچھ لڑکوں کو تو وہاں اس نے اس انتظار سے بیزار بھی دیکھا تھا کہ موت کا انتظار، موت کے منہ میں جانے سے کہیں بدتر تھا۔ اس لیے جب ان کا نام پکارا جاتا تو وہ بنا ڈگمگائے ایک سرعت سے اٹھتے اور زندگی کے اسباب سمیٹتے موت کی تیاری پکڑ لیتے۔ بالکل ان مسافروں کی طرح جو کئی گھنٹوں سے مسافر خانے میں ٹرین کا انتظار کرتے ہوں۔ ان کا سفر تو اور بھی ہیبتناک تھا کہ انہیں جس موت کے لیے کئی سالوں سے تیار کیا جا رہا تھا۔ وہ صرف ان کی اپنی نہیں بلکہ کئی ہنستے،اپنے کام نمٹا تے اور اپنی زندگیوں میں ایک لمحہ پہلے تک مگن لوگوں کی موت بھی تھی۔۔۔

    وہ لڑکا۔۔۔ جس کی آنکھیں بھوری تھیں اور ابرو سیاہ

    ان لوگوں سے دور نکل آیا تھا جن کے لیے موت ایک لذت تھی۔۔۔ موت کی تلذذ سے بھری نسل جو انسانوں میں گھس آئی تھی۔ یہ وہی لوگ تھے جن کی جھولیاں بد دعاؤں سے بھری رہتی تھیں۔۔۔ وہی سیاہ بخت نسل

    مکار کووں کی نسل۔ جو معصوم لوگوں کی زندگیاں آباد کرنے کا ہنر بھول چکے تھے۔ جن کی فاختاؤں کا دوسرا جنم گدھ کی صورت ہوا تھا

    اور وہ۔۔۔ کہ جس کی ابھی مسیں پھوٹ رہی تھیں، جن کے نیچے گلابی بھرے بھرے ہونٹ جانے کب سے بند تھے اور مسکراہٹ ان سے کب کی روٹھ چکی تھی۔ وہی لڑکا، ان کے پنجوں سے آزاد ہو چکا تھا۔ وہی، جو 'ایک' نہیں تھا، پوری نسل تھا۔

    بھاگتے بھاگتے اب ان سے اتنی دور آچکا تھا کہ اس کے لب مسکرانے لگے تھے۔۔۔ آہ۔۔۔ یعنی وہ زندگی سے مل رہا تھا۔۔۔ اسے لگنے لگا فضاؤں میں اس کے خلیے تیر رہے ہوں۔ یہاں، وہاں۔۔۔ زمین سے آسمان تک اس کا ایک ایک خلیہ زندگی سے مل رہا تھا۔

    زندگی۔۔۔ جس سے ملنے کے لیے وہ ادھ مرا ہوا پڑا تھا مگر پھر بھی کہیں رکنے کو تیار نہ تھا کہ پیچھے موت تھی، برزخ تھا۔۔۔

    وہ پیچھے رہ جانے والی، ظالم جادوگر کی پراسرار دنیا جہاں ایک بار جن لڑکوں کے نام پکارے جاتے، وہ پھر کبھی نظر نہیں آئے۔ انہوں نے موت کو ہنس کے گلے لگایا۔ اس برزخی کیفیت سے نکلنے کے لیے ہی نا جسے وہ خود بھی کئی سال سہہ چکا تھا۔۔۔ اور جس سے باہر نکلنا خواب لگتا تھا۔

    اور جو پیچھے رہ جاتے، وہ بھی تومر ہی چکے تھے۔۔۔ بس۔۔۔ اپنے قدموں پہ چل کر خود کو دفن کرنے جاتے تھے۔۔۔ اور دفن بھی کہاں؟۔۔۔ فنا کا درندہ ان کی لاشیں تک کھا جاتا تھا۔

    وہ۔۔۔۔ کہ جس کے ریشمی بال شانوں سے اوپر لہراتے تھے، بہت سوچتا تھا۔ سوچنا تو اس نے اس وقت شروع کر دیا تھا جب اس کا معلم کچھ سال پہلے اسے یہاں چھوڑ گیا تھا اس سے پہلے تو وہ اپنے سارے اختیارات اپنے پاس رکھتا تھا۔ الف، ب، پ کے قاعدوں سے آگے زندگی نے ابھی پڑھایا ہی کیا تھا۔۔۔ یہاں آنے کے بعد اس کی سوچ کے رستے تیزی سے کھل گئے تھے اور وہ اپنی عمر سے دس سال بڑا ہو گیا تھا۔۔۔ اسے علم تھا کہ دوسرے لڑکے بھی اس کی طرح سوچنا چاہتے ہیں مگر ایسی برزخی کیفیتوں میں کیا سوچتے۔ جب خون سے مستقل صندل اور اگربتیوں کی زعفرانی خوشبو آتی ہو۔۔۔ اور جن کے جسم ہی ان کی قبریں ہوں۔ قبریں بھی بھلا کبھی سوچتی ہیں؟۔۔۔

    جوں جوں وہ ان سے دور ہوتا جارہا تھا قہقہے اس کے مساموں سے پھوٹنے لگے تھے بالکل ویسے ہی جیسے کافورکی بو سے اس کے مسام اٹے رہتے تھے۔

    وہ چشموں کے پانی سے اعصاب کو شل ہونے سے بچاتا اورپھر بھاگنے لگتا یہ بھی اس کی سوچ تھی کہ وہ بھاگ رہا ہے۔ جس کی ٹانگیں اور گھٹنے جگہ جگہ سے کپڑوں سمیت رگڑ سے گھس چکے تھے اور ہڈیاں پتھروں سے بار بار ٹکراتی رہی تھیں۔۔۔ ان سے بھاگا نہیں، بمشکل چلاہی جا سکتا تھا مگر کیا کریں کہ وہ سوچتا بہت تھا۔۔۔

    زندگی سے ملنے اور زندہ رہنے کی آس وہ واحد طاقت تھی جو اسے گھسیٹ کر ہی سہی مگر آگے بڑھنے کی ہمت دے رہی تھی۔۔۔

    وہ۔۔۔ کچے ناریل سا، بانکا لڑکا۔۔۔ جس کی ایڑیاں لہو لہو تھیں، زندگی سے ملتے ہوئے کیسا تازہ دم تھا۔۔۔ اس کے زندگی سے بھر پور قہقہے وادی میں گونج رہے تھے۔۔۔ اور جب دنیا میں ٹرانس ہیومنزم کے تجربات کر کے عقاب سی تیز نظر، کتے جیسی تیز قوت شامہ، شیر جیسے دل، چیتے کی سی چستی، بلی جیسی لچک، ہاتھی کی سی حساسیت پیدا کرنے کے لیے انسان کے ڈی این اے اور ان جانداروں کی خصوصیات والے ڈی این اے ملا کر سپر ہیومن تشکیل دئیے جا رہے تھے، عبادتوں کی لمبائیاں ناپی جا رہی تھیں، ادق فلسفہ اور منطق مزید گاڑھے کیے جارہے تھے، نئی جنگوں کے لیے نئی تدابیر سوچی جا رہی تھیں اور اس کی عمر کے لڑکے اپنے غسلخانوں میں صابن کی چکیاں گھسا کر بڑھتے ہوئے ہارمونز کو پانیوں میں بہا رہے تھے۔ وہ کچے گھر کا سادہ سا معصوم لڑکا زمینی حقائق سے جڑے جبر کے سیاہ ماتھے پہ انکار کا روشن کلمہ لکھ رہا تھا۔

    آہ۔۔۔ وہ سیا ہ سفر کا پہلا باغی۔

    وہ امن پسند لڑکا جس پہ فاختائیں پابلو نیرودا کے امن کے گیت گاتی تھیں۔

    وہ، اداس قوم کی نوجوان نسل کا پہلا باغی جس نے جبر کے خلاف بغاوت کا عَلم، کووں کی نسل کے دماغ میں گاڑ دیا تھا اور اب۔۔۔

    جنگل میں کھڑا مرلی پہ امن اور زندگی کا نغمہ سناتا تھا اور چرند پرند حیرت سے اس زمین زادے کا میٹھا گیت سنتے اور جھومتے تھے۔

    ایک طویل مسافت کے بعد اس کی آنکھوں کے سامنے کسی سڑک کی کوئی مدھم سی، شبیہہ ابھر ی تھی۔۔۔ زندگی سے بھر پور مسکراہٹ اس کے سرخ و سفید مگر تھکے ہوئے چہرے پہ آن رکی۔

    وہ نڈھال تھا، سر کی چوٹ، زخموں سے اٹا نیلو نیل بدن، بھوک اور پیاس۔۔ لمبے خوفناک سفر کی بےپناہ تھکن۔۔۔ وہ سڑک تک پہنچ کر گر گیا۔۔۔ اٹھنے کی کوشش کی مگر اعصاب مفلوج ہو چکے تھے۔ وہ، جو سینہ تان کر زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے رگ رگ میں محسوس کرنا چاہتا تھا، سڑک پہ شل اعصاب کے ساتھ گرا پڑا تھا۔۔۔

    اس وقت چکنی سرخ مٹی کا مجسمہ سڑک پر اوندھے منہ پڑا تھا۔ جیسے پیڑ سے چڑیا کا ننھا بچہ زمین پر آ گرا ہو، لوتھڑا سا۔۔۔ کاسنی اور زرد پھولوں کی پتیاں گرد سے اٹے بالوں میں اڑسی تھیں۔ جسم بھوک، پیاس اور تھکن سے ٹھنڈا پڑتا جا رہا تھا۔

    پنچھی جانے کہاں چھپ گئے تھے۔ زمین پر تنا آسمان خالی تھا۔ اداس اور رنجیدہ۔

    اور تب اس نے محسوس کیا۔ ارتعاش۔۔۔ زندگی کا ارتعاش۔۔۔ اس کے کانوں کی لویں پھڑ پھڑائیں۔۔۔ دھمک۔۔۔ جیسے کوئی آ رہا ہو۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولنا چاہیں، جسم کو جنبش دینا چاہی مگر بےسود۔۔۔

    جانے کتنا لمبا سفر تھا جسے وہ طے کر کے یہاں تک پہنچا تھا۔ بدن کی نقاہت ایڑیوں سے سر کی چوٹی تک پنجے گاڑ چکی تھی مگر روح میں ولولہ تھا، جوش تھا، جنون تھا۔ وہ زندگی کو اسی حیرت سے دیکھنا چاہتا تھا جیسے وہ 'برزخ' میں جانے سے پہلے دیکھتا تھا۔۔۔ وہی برزخ جسے وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا اور جہاں پہلی بار اس کی معصومیت بھری حیرتوں کا قتل ہوا تھا۔ وہی حیرت جو تندور والی عورت کے اس خاک میں لتھڑے لعل کو میٹھی سی گدگدی کیا کرتی تھی۔۔۔ جب چاند پورا ہوا کرتا تھا اور اس میں چرخہ کاتتی بُڑھیا لوریاں گایا کرتی۔ چھت پر رکھے لوہے کے پنجرے سے سفید کبوتر نکال کر جب وہ انہیں آزاد فضاؤں میں چھوڑتا تو تتلیاں سی پیٹ کو گدگدانے لگتیں اور وہ دورتک پھیلے آسمان کے نیچے ایک نقطے جیسا وجود لیے بےسری سیٹیاں بجایا کرتا۔۔۔ پتنگوں کے ساتھ جب دل بھی پتنگ بن کر اڑا کرتا۔۔۔

    آہ۔۔۔ زندگی!

    مگر آج آسمان خالی تھا، وقت کی ٹہنی پر لٹکا کوئی نیلا پارچہ۔۔۔

    کبوتر، حیرت، گدگدی بھری مسکراہٹ اور وہ۔۔۔ سب ہی زخمی تھے۔

    اسے زمین کا ارتعاش اور دھمک اب اور تیز سنائی دینے لگی تھی، نزدیک آتی ہوئی۔۔۔ اس کے لب زندگی کی مدھر چاپ سن کر مسکرا اٹھے۔۔۔ وہ مسکراہٹ جو قدیم مصر کےفرعونوں کی ممیوں کے لبوں پر پھیلی چپ کی اوٹ سے گھومتی ہوئی اس کے پھڑ پھڑاتے لبوں پر آن چپکی تھی۔ اس مسکراہٹ میں ان فرعونوں کے تختوں کے گرنے کا مژدہ تھا۔۔۔

    مگر آہ۔۔۔ زندگی کی طرف بانہیں پھیلا کر بھاگتا لڑکا۔

    وہ تیز ہارن کی آواز سن رہا تھا۔۔۔

    شاید کوئی ٹرک تھا، قریب آتا ہوا۔۔۔

    اور قریب۔۔۔

    زندگی کی چاپ تھی یا۔۔۔

    کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ۔۔۔ چھالوں بھرے پاؤں۔۔۔ نڈھال بدن۔۔۔ حیرت کی انتہا۔

    اس نے سہم کر زمین کو مضبوطی سے بند مٹھیوں میں جکڑ لیا

    اور۔۔۔ اور قریب

    جانے کہاں سے پرندوں کا ایک غول آیا اور اس کے اوپر طواف کرنے لگا۔ پرندے کچھ بتانا چاہتے تھے مگر انسان۔۔۔ منزل کے قریب تھک جاتا ہے، پرجوش ہو کر تیز پہنچنا چاہتا ہے اور ٹرک والے بھی منزل سے چند کوہ کی دوری پر تھے۔ پرجوش تھے۔۔۔ ایسے میں کچھ نظر کے ہتھے نہیں چڑھتا۔۔۔ رستوں پر گرے پھول بھی نہیں۔

    وہی، جس کے بالوں سے جنگلی کبوتروں کی سی خوشبو آتی تھی۔۔۔

    پہیوں کے چرچرانے کی آواز اس نے اپنے دائیں کان کے قریب۔۔۔ بہت قریب، آخری بار سنی تھی۔۔۔!!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے