میٹھا معشوق
یہ اس وقت کی کہانی ہے جب ریل ایجاد نہیں، ہوئی تھی لوگ پیدل،اونٹ یا پھر گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ لکھنئو شہر میں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ شخص شہر سے کافی دور رہتا تھا۔ مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہونے کے لیے وہ اپنے قافلے کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا، ساتھ میں نذرانے کے طور پر میٹھائی کا ٹوکرا بھی تھا۔ پورے راستے اس میٹھے معشوق کی وجہ سے انھیں کچھ ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آرام سے سو تک نہیں سکے۔
چودھری محمد علی ردولوی
خاں صاحب
’’کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے، جو بہت دین دار ہے۔ مگر اتنا کنجوس ہے کہ اس کی بیوی بیٹی بہت مفلسی میں گزارا کرتی ہیں۔ اس کی بیوی بیٹی کو اچھی پرورش کے لیے ایک عورت کے پاس چھوڑ دیتی ہے، تو بدلے میں وہ اس عورت سے پیسے بھی مانگتا ہے۔ عورت پیسے تو نہیں دیتی، ہاں ایک پڑھے لکھے لڑکے سے اس کا رشتہ طے کر دیتی ہے۔ مگر کم مہر اور نقد نہ ملنے کی وجہ سے وہ دھوکے سے اپنی بیٹی کی شادی ایک امیر اور ادھیڑ عمر کے شخص سے کرا دیتا ہے۔‘‘
محمد مجیب
باغی
’’یہ کہانی ایک ریلوے اسٹیشن، اس کےاسٹیشن ماسٹر اور ٹکٹ بابو کے گرد گھومتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کا ماننا ہے کہ پورے ہندوستان میں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہے۔ بہت کم لوگ ہی اس رشتہ کو دیکھ پاتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس رشتہ سے انکار کرتے ہیں وہ باغی ہیں۔ اسٹیشن ماسٹر کے مطابق ان رشتوں کو جوڑے رکھنے میں آم کے باغ اہم رول نبھاتے ہیں۔ اگر کہیں آم کے باغ نہیں ہیں تو وہ علاقہ اور وہاں کے لوگ سرے سے ہندوستانی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کو ہندستانی ہونے کے لیے یہاں کی تہذیب میں آم کے باغ کی اہمیت کو سمجھنا ہی ہوگا۔‘‘
محمد مجیب
نیا مکان
’’کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو بیوی بچوں کی موت کے بعد دنیا کو ترک کر دیتا ہے اور محض عبادت گزاری کے لیے نیا مکان بنوانا شروع کر دیتا ہے۔ مکان کی تعمیر کو دیکھنے کے لیے وہ ہر روز وہاں جاتا ہے۔ ایک دن اسے وہاں ایک نوجوان عورت مزدور دکھائی دیتی ہے اور وہ اس کی مسکراہٹ پر فدا ہو جاتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ اس کے ساتھ شادی کرنے اور نئے مکان میں بس جانے کے بارے میں بھی سوچنے لگتا ہے۔ مگر ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت ایک دوسرے شخص کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔‘‘
محمد مجیب
گرم لہو میں غلطاں
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ایک قتل کا گواہ تھا۔ اس نے شادی میں جب پہلی بار اس عورت کو دیکھا تھا تو وہ اسے پہچان نہیں سکا تھا، غور سے دیکھنے پر اسے یاد آیا کہ وہ عورت ایک بار ان کے گھر آئی تھی۔ تنہائی میں اس نے بڑے بھائی سے بات کی تھی اور پھر رات کے اندھیرے میں بڑے بھائی نے ایک بیگ کو ٹھکانے لگانے کے لیے کچھ لوگوں کو دیا تھا، اس بیگ میں لاش تھی۔ اس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا مگر چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکا تھا۔
قاضی عبد الستار
مجو بھیا
افسانہ ایک ایسے شخص کی داستان بیان کرتا ہے جس کا باپ پنڈت آنند سہائے تعلقدار کا نوکر تھا۔ اکلوتا ہونے کے باوجود باپ اسے رعب داب میں رکھتا تھا۔ باپ کے مرتے ہی اس کے پر نکل آئے اور وہ پہلوانی کے دنگل میں کود پڑا۔ پہلوانی سے نکلا تو گاؤں کی سیاست نے اسے گلے لگایا اور اس میں اس نے ایسے ایسے معرکے سر کیے کہ اپنی ایک الگ پہچان بنالی اور ساتھ ہی دوست و دشمن بھی، جنھیں ایک ایک کرکے اپنے راستے سے ہٹاتا چلا گیا۔