Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنہائی پر اشعار

کلاسیکی شاعری میں تنہائی

روایتی عشق کی پیدا کردہ تھی ۔ محبوب وصل سے انکار کردیتا تھا تو عاشق تنہا ہو جاتا تھا ۔ اس تنہائی میں محبوب کی یاد اس کا سہارا بنتی لیکن تنہائی کو جدید شاعروں نے جس وسیع سیاق میں برتا ہےاور اسے جدید دور کے جس بڑے عذاب کے طور دیکھا ہے اس سے شعری موضوعات میں اور اضافہ ہوا ہے ۔ تنہائی کو موضوع بنانے والے شعروں کا ہمارا یہ انتخاب ایک سطح پر جدید غزل کو سمجھنے میں بھی معاون ہوگا ۔

یادوں کا اک ہجوم تھا تنہا نہیں تھی میری ذات

خود کلامی میں ہوئی تمام شب انہیں سے بات

امیتا پرسو رام میتا

بھیڑ تنہائیوں کا میلا ہے

آدمی آدمی اکیلا ہے

صبا اکبرآبادی

تنہائی کی دلہن اپنی مانگ سجائے بیٹھی ہے

ویرانی آباد ہوئی ہے اجڑے ہوئے درختوں میں

کیف احمد صدیقی

شہر میں کس سے سخن رکھیے کدھر کو چلیے

اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے گھر کو چلیے

نصیر ترابی

کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

مرزا غالب

یہ کس مقام پہ لائی ہے میری تنہائی

کہ مجھ سے آج کوئی بد گماں نہیں ہوتا

وسیم بریلوی

کسی حالت میں بھی تنہا نہیں ہونے دیتی

ہے یہی ایک خرابی مری تنہائی کی

فرحت احساس

میں کس سے کرتا یہاں گفتگو کوئی بھی نہ تھا

نہیں تھا میرے مقابل جو تو کوئی بھی نہ تھا

کرشن کمار طورؔ

ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے

کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا

احمد ندیم قاسمی

کتنے چہرے کتنی شکلیں پھر بھی تنہائی وہی

کون لے آیا مجھے ان آئینوں کے درمیاں

محمود شام

گو مجھے احساس تنہائی رہا شدت کے ساتھ

کاٹ دی آدھی صدی ایک اجنبی عورت کے ساتھ

انور شعور

کوئی کیا جانے کہ ہے روز قیامت کیا چیز

دوسرا نام ہے میری شب تنہائی کا

جلیل مانک پوری

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا

قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

گلزار

کمرے میں مزے کی روشنی ہو

اچھی سی کوئی کتاب دیکھوں

محمد علوی

دل دبا جاتا ہے کتنا آج غم کے بار سے

کیسی تنہائی ٹپکتی ہے در و دیوار سے

اکبر حیدرآبادی
  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف

پنچھی سارے پیڑ سے اڑ جائیں گے

صحن میں اک خامشی رہ جائے گی

افضل ہزاروی

اس بلندی پہ بہت تنہا ہوں

کاش میں سب کے برابر ہوتا

طاہر فراز

اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے

کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے

زہرا نگاہ

کس قدر بد نامیاں ہیں میرے ساتھ

کیا بتاؤں کس قدر تنہا ہوں میں

انور شعور

سر بلندی مری تنہائی تک آ پہنچی ہے

میں وہاں ہوں کہ جہاں کوئی نہیں میرے سوا

ارشد عبد الحمید

اداسیاں ہیں جو دن میں تو شب میں تنہائی

بسا کے دیکھ لیا شہر آرزو میں نے

جنید حزیں لاری

یادوں کے شبستان میں بیٹھا ہوا سائل

تنہا جو نظر آتا ہے تنہا نہیں ہوتا

سائل عمران

میں تو تنہا تھا مگر تجھ کو بھی تنہا دیکھا

اپنی تصویر کے پیچھے ترا چہرا دیکھا

جمیل ملک

مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں

یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہات چھوڑیں

جاوید صبا

اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں

کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں

فراق گورکھپوری

میں اپنے ساتھ رہتا ہوں ہمیشہ

اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں

نامعلوم

بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا

گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا

علیم مسرور

پکارا جب مجھے تنہائی نے تو یاد آیا

کہ اپنے ساتھ بہت مختصر رہا ہوں میں

فارغ بخاری

مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں

مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے

احمد ندیم قاسمی

دیکھ کبھی آ کر یہ لا محدود فضا

تو بھی میری تنہائی میں شامل ہو

زیب غوری

یادوں کی محفل میں کھو کر

دل اپنا تنہا تنہا ہے

آزاد گلاٹی

خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں

یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا

سلیم احمد

ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں

تری یاد آنکھیں دکھانے لگی

عادل منصوری

دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں

تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ

عادل منصوری

جمع کرتی ہے مجھے رات بہت مشکل سے

صبح کو گھر سے نکلتے ہی بکھرنے کے لیے

جاوید شاہین

یوں رات گئے کس کو صدا دیتے ہیں اکثر

وہ کون ہمارا تھا جو واپس نہیں آیہ

قمر عباس قمر

ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے

یہ تنہائی عجب لڑکی ہے سناٹے میں روتی ہے

شاہد کمال

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

ناصر کاظمی

مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں

میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں

منیر نیازی

میرا کرب مری تنہائی کی زینت

میں چہروں کے جنگل کا سناٹا ہوں

عنبر بہرائچی

سمٹتی پھیلتی تنہائی سوتے جاگتے درد

وہ اپنے اور مرے درمیان چھوڑ گیا

ریاض مجید

تو میرے ساتھ نہیں ہے تو سوچتا ہوں میں

کہ اب تو تجھ سے بچھڑنے کا کوئی ڈر بھی نہیں

شاہد کمال

شہر کی بھیڑ میں شامل ہے اکیلا پن بھی

آج ہر ذہن ہے تنہائی کا مارا دیکھو

حسن نجمی سکندرپوری

ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے

اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا

مصطفی زیدی

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں

عمر گزری ہے اس قدر تنہا

گلزار

یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

تشریح

یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔

شفق سوپوری

امید فاضلی

اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی

جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

اطہر نفیس

تری یادوں سے مہکا ہے میری تنہائی کا عالم

قیامت تک انہیں تنہائیاں میں ڈوبنا چاہوں

امیتا پرسو رام میتا

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے

کہاں جائے گی تنہائی ہماری

کاشف حسین غائر

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے