Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بڑی آپا

شفیق الرحمان

بڑی آپا

شفیق الرحمان

MORE BYشفیق الرحمان

    وہ بھیا کے ساتھ اکثر ہمارے ہاں آیا کرتا تھا۔ کئی سال سے دونوں ساتھ پڑھتے تھے۔ پہلے پہل بھیا جب اس کی باتیں کیا کرتے تو میرے دل میں گدگدی سی ہونے لگتی۔ وہ بڑے فخر سے سینہ پھلا کر کہتے۔ آج رفیق نے یہ کیا، وہ کیا، اتنے نمبر لیے۔ فلاں کھیل میں حصہ لیا۔ ویسے بھیا اور اس کی جوڑی بھی خوب تھی۔

    ایک سے قد، ایک سے جسم اور ایک سی عادتیں۔ دونوں سینما کے عاشق، دونوں کھیل کود کے دیوانے۔ جب سائیکلوں پرایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھے سڑک پر جاتے تو دور سے پہچاننا مشکل ہو جاتا، البتہ ایک فرق نمایاں تھا، وہ یہ کہ بھیا ذرا سانولے تھے اور اس کا رنگ کھلا ہوا تھا۔ اس لیے جو نیلے اور کالے سوٹ اس کے رنگ کو نمایاں کر دیتے تھے وہ بھیا کو اتنے اچھے نہیں لگتے تھے۔ اور ہاں ایک بات اور بھی تھی، وہ یہ کہ اس کی ناک پر ہر وقت کالے شیشوں کی ایک عینک رکھی رہتی تھی۔ بھیا کے بتانے پرمعلوم ہوا کہ جناب سینما بہت دیکھتے ہیں، جس سے آنکھیں کبھی کبھی سرخ ہو جاتی ہیں۔ اس لیے یہ عینک لگا رکھی ہے۔

    میں اسے چھپ چھپ کر شیشوں میں سے اور کواڑوں کی آڑ سے دیکھا کرتی۔ دراز قد، چھریرا اور ورزشی جسم، بکھرے ہوئے بال، چہرے پر ایک عجیب قسم کی معصومیت۔ جب بات کرتا، تو بچوں کا سا بھولاپن چہرے پر آجاتا۔ کچھ ایسا حسین بھی نہ تھا۔ نہ ہی خط و خال ایسے دلکش تھے۔ وہ تقریباً ہر روز ہمارے ہاں آیا کرتا۔ بعض اوقات بھیا پہلے چلے آتے اور شام کو اس کا انتظار کیا کرتے۔ جس روز وہ نہ آتا، بے چین ہو جاتے۔ بار بار دوازے تک جاتے اور گھڑی دیکھتے۔ کبھی مجھ سے وقت پوچھتے اور جیسے ہی اس کے سائیکل کی گھنٹی کی آواز کانوں میں آتی، ان کاچہرہ دمک اٹھتا۔ فوراً دوڑ کردوسرے کمرے میں چھپ جاتے۔ وہ بھاگا بھاگا آتا، نوکر آگے بڑھ کر کہہ دیتا، ’’وہ تو باہر چلے گئے۔‘‘ یہ مذاق ہر بار کیا جاتا، مگر وہ ہمیشہ اسے سچ سمجھ لیتا اور واپس مڑنے لگتا۔ بھیا دوڑ کر اس سے چمٹ جاتے اور پھر جو باتیں شروع ہوتیں تو بس خدا کی پناہ، رات کے بارہ بارہ بجے تک دونوں بیٹھے رہتے۔ وہ ریڈیو والے کمرے ہی میں بیٹھتے اور ریڈیو کو ہمیشہ بند کردیتے کہ باتوں میں مخل ہوتا ہے۔ میرا جی بڑا جلتا، اگر یہ داستانِ امیر حمزہ چھیڑنی ہے تو اس کمرے میں کیوں بیٹھتے ہیں اور پھر ریڈیو بند کیوں کر دیتے ہیں۔ جانتے ہیں نا کہ میں اس بات سے چڑتی ہوں۔

    کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں کواڑوں سے لگی ان کی باتیں سن رہی ہوں۔ یکایک کسی کے آنے کی آہٹ سنائی دی، میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ پسینہ پسینہ ہوگئی۔ اگر امی دیکھ لیں تو کیا کہیں۔ وہاں سے ایسی بھاگتی کہ اپنے کمرے میں آکر دم لیتی۔ توبہ توبہ ایک لڑکی کے لیے اس سے زیادہ اور کیا بے شرمی ہوسکتی ہے؟ میں قسم کھاتی کہ پھر اسے کبھی نہیں دیکھوں گی۔ بھلا اس میں کیا خاص بات تھی آخر؟ یونہی معمولی لڑکوں جیسا تھا۔ بھیا کو اچھا لگتا تھا تو اس کے معنی یہ تو نہیں کہ مجھے بھی اچھا لگے۔ اور پھر ہر بار میں ہی دیکھتی تھی، اس نے کس روز کوشش کی کہ مجھے دیکھے۔

    ماشاء اللہ بھیا میں ویسے تو ساری خوبیاں تھیں، مگر ایک ذرا زیادہ نمایاں تھی۔ وہ یہ کہ سگریٹ اتنی بری طرح پیتے تھے کہ کوئی حد تھی نہ حساب۔ امی نے بہتیرا سر کھپایا۔ ابا نے بہتیرا سمجھایا۔ وہ بھی تمباکو کے نقصانات پر لیکچر دیتا رہا۔ مگر شاباش ہے بھیا کو، ایسے چکنے گھڑے نکلے کہ کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ امی سے منہ بناکر کہتے، ’’بھلا کب پیتا ہوں سگریٹ، کبھی آپ نے دیکھا بھی ہے مجھے پیتے ہوئے۔‘‘ اور وہ واقعی گھر میں پیتے بھی نہیں تھے۔ میں اور ننھا ہم دونوں ان کے پیچھے جاسوس لگے ہوئے تھے۔

    ایک شام کو میں کالج سے گھر ذرا دیر سے پہنچی۔ آہستہ سے پردہ ہٹاکر دبے پاؤں اندر داخل ہوئی۔ میری آنکھیں مارے خوشی کے چمک اٹھیں۔ بھیا ریڈیو کے سامنے آرام کرسی پر میری طرف پیٹھ کیے بیٹھے تھے۔ سگریٹ کا دھواں ایک عجیب شان سے نکل رہا تھا۔ ویسے تو اپنی طرف سے پوری مورچہ بندی کی ہوئی تھی۔ کرسی میں دھنسے ہوئے بیٹھے تھے اور بیٹھے بھی کیا تھے بس لیٹے ہوئے تھے۔ سر پر آڑا ہیٹ رکھا ہوا تھا تاکہ دور سے سراچھی طرح نظر نہ آسکے اور دیکھنے والا یہی سمجھے کہ آرام کرسی کی پشت پر ایک ہیٹ رکھا ہے۔ میں نے آہستہ سے کتابیں میز پر رکھیں اور قالین پر دبے پاؤں آگے بڑھی۔ ایک ہاتھ سے ہیٹ ایک طرف پھینکا اور دوسرے سے سگریٹ چھین لی۔ بھیا ہڑبڑاکر اٹھے۔ توبہ۔۔۔ جو نظارہ میں نے دیکھا بس دھک سے رہ گئی۔ یہ بھیا نہیں تھے کوئی اور تھا۔۔۔ یہ رفیق تھا۔ جو اوڑھنی چھوڑ کر بھاگی ہوں تو تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ سامنے سے امی آرہی تھیں، دروازے میں ان سے زور کی ٹکر ہوئی، ’’یا وحشت! آخر یہ بچپنا جائے گا کب؟‘‘ انہوں نے ڈانٹ کر کہا۔

    میں نے اپنے کمرے میں پہنچ کر دم لیا۔ امی کے لیکچر کی آواز برابر کانوں میں آرہی تھی۔ رات کو دیر تک نیند نہ آئی۔ وہ اپنے دل میں کیا کہتا ہوگا کہ یا تو کبھی سامنے نہیں آتی تھی اور یا یکلخت اس قدر بے تکلفی؟ اگر وہ بھیا سے کہہ دے کہ ’’جناب! میرا آپ کے گھر سگریٹ پینا آپ کی ہمشیرہ صاحبہ پر ناگوار گزرتا ہے۔‘‘ تو بھیا کیا کہیں گے کہ کتنی بدتمیز ہے۔

    مگر پھر ایک عجیب سے خیال نے دل پر سرور طاری کردیا۔ کچھ بھی ہو، آخر اس نے بھی تو مجھے دیکھ لیا تھا نا۔۔۔ مگر کس حلیے میں؟ میں نے اپنے کپڑوں پر نظر ڈالی، چاکلیٹ رنگ کی شلوار، ویسی ہی قمیض اور ویسا ہی دوپٹہ (جو میں وہیں چھوڑ آئی تھی۔ ) گویا مجسم چاکلیٹ! میں نے اپنے آپ کو کوس ڈالا۔ میرے پاس بہترین جوڑے موجود تھے۔ اچھی سے اچھی ساڑیاں تھیں۔ کاش میں نے اس روز چمک دار بارڈر والی سبز ساڑی پہنی ہوتی۔ میرے بال بکھرے ہوئے تھے۔ چہرہ سارے دن کی پڑھائی کے بعد کچھ کملایا ہوا سا تھا، مگر شاید بجلی کی روشنی میں قدرے گلابی جھلک آگئی ہو۔

    کوئی ہفتہ بعد بھیا بیمار ہوگئے۔ اچھے بھلے کالج سے آئے، شام کو نہ معلوم کیا ہوگیا۔ رات ہوتے ہوتے پلنگ پر دراز ہوگئے۔ ابا جان دورے پر گئے ہوئے تھے۔ امی نوکرانی اور ننھے سمیت دوسرے محلے میں کسی سے ملنے گئی ہوئی تھیں۔ میں اکیلی گھبرا گئی، فوراً نوکر کو بھیجا کہ رفیق کو بلالائے۔ اس کے سوا اور میں کر ہی کیا سکتی تھی؟ نوکر چلا تو گیا مگر میرے دل میں ایک خیال آتا تھا، دوسرا جاتا تھا۔ بار بار یہ سوچتی کہ اس سے بات کیسے کرسکوں گی؟ سائیکل کی گھنٹی بجی، پردہ اٹھاکر وہ اندر داخل ہوا۔ مجھے دیکھ کر پہلے تو کچھ ٹھٹکا۔ پھر بھیا کی طرف دیکھ کر لپک کر اندر گیا۔

    ’’یہ کب سے بے ہوش ہیں؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھے بغیر پوچھا۔ میں نے کچھ جواب دیا۔ بہت سے اور سوالوں کا بھی الٹا سیدھا جواب دیا۔ یہ تھی میری اور اس کی پہلی بات چیت۔ وہ بچوں کی طرح شرمارہا تھا۔ سرجھکائے اور بغیر میری جانب دیکھے کوئی سوال پوچھتا اور میں رک رک کر جواب دیتی۔ الفاظ میرے حلق میں اٹک رہے تھے۔ پانچ چھ دن میں بھیا اچھے ہوگئے۔ اس کی ان تھک تیمارداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہم لوگوں میں کافی گھل مل گیا۔ ادھر ننھا تھا کہ ہر وقت بھیا رفو، بھیا رفو کی رٹ لگائے رکھتا۔ کتنی بار سمجھایا کہ بے وقوف کہیں کے، اول تو بڑوں کانام نہیں لیا کرتے اور پھر اگر لیں بھی، تو یہ کیا ستم ہے کہ اس بری طرح سے۔ ہرروز ننھے کی جیب میں چاکلیٹ ہوتے۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا کہ جب ننھا اس کے ساتھ سیر کرنے گیا ہو، اور چاکلیٹ کی جگالی کرتا ہوا نہ آیا ہو۔ ایک روز میں نے تنگ آکر کہہ دیا، ’’آپ ننھے کی عادت بگاڑ رہے ہیں۔ یہ کیا کہ ہرروز سیر کو بھی لے جائیں اور چاکلیٹ بھی لے کر دیں۔ خواہ مخواہ کا بار ہے نا آپ پر!‘‘

    ’’تو آپ ننھے کو میرے ساتھ جانے ہی کیوں دیتی ہیں؟ شوق سے روکیے۔ یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ جو کوئی بھی میرے ساتھ رہے گا، اس کی عادتیں بگڑ جائیں گی۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔

    ایک روز میں کالج جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ باہر سے آواز آئی، ’’تار لے لیجیے!‘‘ بھیا دوڑے گئے اور چلا کر بولے، ’’بڑی آپا آرہی ہیں!‘‘

    ’’بڑی آپا آرہی ہیں سچ مچ؟‘‘ میں نے خوش ہوکر پوچھا۔ بھیا تار لے کر امی کو خبر دینے چلے گئے۔ وہ سال بھر کے بعد آرہی تھیں۔ امتحان پاس کرچکی تھیں۔ پھر وہی شیخیاں بگھاریں گی، ’’میں تو رات بھر سوتی نہیں تھی۔ پڑھتے پڑھتے گردن اکڑ جاتی تھی۔ جب امتحان دیا تو بخار چڑھا ہوا تھا۔‘‘ مگر میں بھی خوب جھٹلاؤں گی اس دفعہ، اس ایک سال میں میں بھی خاصی سمجھ دار ہوگئی تھی۔ شام کو آپا آگئیں۔ ہم خوب لپٹ لپٹ کر ملے۔ پھر جو باتیں شروع ہوئیں تو رات کے دو بج گئے۔ یکایک آپا نے ایک عجیب سا سوال کیا۔

    ’’جو تصویر بھیا نے مجھے بھیجی تھی، اس میں ایک اجنبی لڑکا بھی تھا۔ کون ہے بھلا وہ؟‘‘

    ’’کوئی دوست ہے ان کا۔‘‘ میں نے بے پروائی سے کہا۔

    ’’وہ تو مجھے بھی پتہ ہے، نام کیوں نہیں بتاتی اس کا۔‘‘

    ’’رفیق ہے اس کا نام!‘‘ میں نے کہا۔

    ’’نام تو بڑا اچھا ہے اور ویسے خود بھی اچھا ہے۔ ہے نا؟‘‘

    ’’مجھے کیا معلوم؟ ہوگا۔‘‘ میں نے منہ بنا کر کہا۔ مجھے آپا کی یہ تعریف بڑی ناگوار لگی۔ میں نے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔

    ’’کیوں نیند آگئی کیا؟‘‘ وہ بولیں۔

    ’’ہاں۔‘‘

    دوسرے روز آپا نے اسے دیکھا۔ باتیں کیں۔ کمرے میں میں اور بھیا بھی بیٹھے تھے، مگر کیا مجال جو آپا نے کسی اور سے ایک بات بھی کی ہو۔ رفیق کے پیچھے اس طرح پڑیں کہ اس غریب کا ناک میں دم آگیا۔ آپا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، اور رفیق کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ صوفے میں گھسا جارہا تھا۔ بار بار گفتگو کا رخ پلٹتا تھا کہ چھٹکارا ملے۔ ادھر میں بے چین ہو رہی تھی۔ آخر آپا کا مطلب کیا ہے اس قسم کے سوالوں سے، ’’بھیا سے کب واقفیت ہوئی تھی؟ گھر میں آنا جانا کب سے ہوا؟ یہ لڑکی (میری طرف اشارہ کرکے ) تمہیں ستاتی تو نہیں؟ اچھی لڑکی ہے نا! تم بڑے شرمیلے ہو، کیوں ہو اتنے شرمیلے؟ روز آیا کرتے ہو نا۔۔۔؟‘‘ آپا کو کیا ہوگیا تھا؟

    اس کے بعد آپا کا زیادہ وقت آئینے کے سامنے گزرنے لگا۔ صبح ہی سے شام کے لیے کپڑے چن لیے جاتے۔ شام کو سیر سے دواڑھائی گھنٹے پہلے میک اَپ شروع ہوجاتا۔ رفیق بھی پہلے سے زیادہ بن سنور کر آنے لگا۔ بکھرے ہوئے بال سنورنے لگے۔ ٹائی بھی کوٹ کے رنگ کے مطابق ہوا کرتی، یا شاید یہ تبدیلی مجھے ہی محسوس ہوتی ہو، کیونکہ آپا ان دنوں مجھے زہر دکھائی دیتی تھیں۔ بات بات پر رفیق، ہر وقت اسی کا نام۔ جب وہ آجاتا تو گویا آپا کی جان میں جان آجاتی۔ ایسی گرویدہ ہوتیں کہ کسی تیسرے کا خیال نہ رہتا۔ رفیق بہت شرماتا۔ باتیں کرتے کرتے میری طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھتا۔ گویا شکایت کرتا کہ دیکھ لو۔

    آپا سے میں بے حد محبت کرتی تھی۔ ہم بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑی تھیں۔ مجھ میں اور ان میں کوئی چھ سال کا فرق ہوگا۔ ویسے بھی وہ مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔ مگر جب وہ رفیق کا ذکر کرتیں، یا اس سے باتیں کرتیں تو میں دیوانی سی ہوجاتی۔ بہتیرا دل کو سمجھاتی کہ یہ اسے کہیں لے کر بھاگنے سے تو رہیں۔ کچھ دنوں کے لیے آئی ہیں پھر چلی جائیں گی۔ اور پھر رفیق کون سا میرا ہوگیا تھا۔ فقط یہی تھا کہ مجھے اس سے دلچسپی تھی اور جیسا کہ اس کی باتیں ظاہر کرتی تھیں، اسے بھی مجھ سے کچھ نہ کچھ انس ضرور تھا۔ نہ تو کبھی اس نے اظہار کیا اور نہ میں نے۔ بس اتنی سی بات پر ہر وقت کاچڑنا اوراس قدر حسد! سارا قصور آپا کا تھوڑا ہی تھا۔ وہ بھی کہاں کا بھولا تھا۔ آخر ہرروز یوں بن ٹھن کر کیوں آتا تھا؟

    ایک روز آپا نے اس کی ٹائی پکڑ کر کھینچ لی اور مسکرا کر بولیں، ’’شریر کہیں کے، ہر روز گلابی ٹائی لگا کر آتے ہو۔ جانتے ہو نا کہ میرے پاس گلابی رنگ کی ایسے پھولوں والی کوئی ساڑی نہیں ہے۔‘‘ میں جل ہی تو گئی۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی ساڑی آپا کی ہو ویسی ہی ٹائی رفیق کی ہونی چاہیے! سبحان اللہ! کیا نرالی منطق ہے! اور رفیق بھی بس موم کی ناک تھا۔ اگلے روز سے اس نے وہ ٹائی لگانی چھوڑدی۔ یہ مرد ایورسٹ پر چڑھ جائیں، سمندر کی تہ تک پہنچ جائیں، خواہ کیسا ہی ناممکن کام کیوں نہ کرلیں، مگر عورت کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ بعض اوقات ایسی احمقانہ حرکت کر بیٹھتے ہیں کہ اچھی بھلی محبت نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور پھر عورت کا دل۔۔۔ ایک ٹھیس لگی اور بس گیا۔ جانتے ہیں کہ حسد اور رشک تو عورت کی سرشت میں ہے۔ اپنی طرف سے بڑے چالاک بنتے ہیں مگر مرد کے دل کو عورت ایک ہی نظر میں بھانپ جاتی ہے۔ اور پھر رفیق جیسا پگلا تو کوئی بھی نہ ہوگا۔ میں نے ہزار بار اشارتاً ذکر کیا۔ کئی مرتبہ تو صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ چونچلے نہیں بھاتے، مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

    ایک بہت اچھی فلم آ رہی تھی۔ بھیا نے پروگرام بنایا کہ شام کو فلم دیکھی جائے۔ رفیق کو بھی بلایا۔ دوپہر کا وقت ہوگا کہ آپا میرے کمرے میں دوڑی دوڑی آئیں، ’’تیرے پاس کوئی کالی ساڑی ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’اس رنگ کی کیا؟‘‘ میں نے وارڈ روب میں رکھی ہوئی ایک گہرے چاکلیٹ رنگ کی ساڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں نہیں! ایسی نہیں، بالکل سیاہ! جیسے میرے بال ہیں۔ جیسا ڈنر سوٹ ہوتا ہے۔‘‘ ڈنر سوٹ کا ذکر۔ میں اس نرالی تشبیہ پر حیران رہ گئی۔ آخر تھوڑی دیر کی الٹ پلٹ کے بعد ایک سلک کی سیاہ ساڑی نکال دی۔

    ’’اور بلاوز؟‘‘

    ’’وہ بھی سیاہ رنگ کا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ہاں بالکل سیاہ رنگ کا۔‘‘

    میں نے بلاوز بھی نکال دیا۔ ان کی باچھیں کھل گئیں۔

    ’’بس ٹھیک ہے، سیاہ جوتے تو میرے پاس ہیں۔ وہ بھاگ کر کمرے سے نکل گئیں۔ شام ہوئی۔ میں نے ایک سادہ سی سفید ساڑی پہن لی۔ آپا اپنے کمرے سے نکلیں۔ سر سے لے کر پاؤں تک سیاہ لباس میں ملبوس، سفید چہرہ کالے لباس میں چاند کی طرح چمک رہا تھا۔

    ’’آہا آپا! آج کتنی پیاری معلوم ہو رہی ہیں، چشم بددور۔‘‘

    ’’چل جھوٹی کہیں کی۔ دیکھ تو سہی! ادھر آبھلا۔‘‘ وہ مجھے پکڑ کر آئینے کے سامنے لے گئیں، ’’لے دیکھ تو اس سادی ساڑی میں بھی مجھ سے ہزار درجے اچھی ہے۔‘‘ وہ بولیں۔

    ’’خاک اچھی ہوں۔ آپ تو مجھے بنا رہی ہیں بس، بھلا کہاں میں اور کہاں آپ؟‘‘

    ’’ساتھ کے کمرے سے بھیا کے بڑبڑانے کی آواز آئی۔ میں تو عاجز آگیا اس سے۔ یہ رفیق بھی عجیب لڑکا ہے۔ دیکھو تو سہی اب تک نہیں پہنچا۔‘‘

    ’’کیا اب تک نہیں آیا وہ باؤلا؟‘‘ آپا نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔ یہ الفاظ کچھ چبھتے ہوئے سے محسوس ہوئے۔ آخر آپا اسے باؤلا کہنے والی کون ہوتی ہیں؟

    ’’میں نے آج تک ایسا لڑکا نہیں دیکھا۔‘‘ آپا بولیں۔

    ’’اب کب تک انتظار کریں گے۔ چلیے آپا، وہ خود ہی سینما پہنچ جائے گا۔‘‘ بھیا نے کہا۔ ہم نے گھڑی دیکھی۔ وقت بہت تھوڑا رہ گیا تھا۔ اگرچہ آپا مصر تھیں کہ رفیق کا انتظار کیا جائے مگر بھیا نہ مانے۔ ہم سب کار میں جابیٹھے۔ بھیا نے مجھے آگے بٹھا لیا اور ننھا اور آپا پیچھے بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ یکایک بھیا نے زور سے آواز دی، ’’رفیق! ادھر آؤ، ذرا جلدی کرو۔‘‘

    ’’ننھے تو آگے بیٹھ جا۔‘‘ آپا نے کہا، ’’ادھر آجاؤ رفیق!‘‘

    میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ رفیق سیاہ سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ بالکل سیاہ رنگ کا کوٹ، ویسے ہی بو، ویسا ہی جوتا۔ بھیا نے ننھے کو آگے بٹھا لیا اور وہ پیچھے جابیٹھا۔ مجھے آگ لگ گئی۔ اب میں سمجھی کہ آپا نے سیاہ ساڑی کیوں پہنی تھی اور رفیق۔۔۔ کتنا مکار نکلا۔ آج تک ہمارے ہاں کبھی سیاہ سوٹ پہن کر نہیں آیا۔ ضرور آپا نے فرمائش کی ہوگی۔ میں نے دوبارہ رفیق کی طرف دیکھا۔ سیاہ سوٹ میں وہ آنکھوں میں کھبا جا رہا تھا۔ سینما پہنچے۔ آپا نے سرے کی سیٹ پر رفیق کو بٹھایا اور خود ساتھ بیٹھ گئیں۔ ان کے برابر ننھا بیٹھ گیا۔ اب میری باری تھی۔ میں نے ایک سیٹ چھوڑی دی۔ بھیا کے لیے۔

    ’’آپ۔۔۔! اتنی دور؟‘‘ رفیق بولا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے پتہ نہیں کہ کیا فلم تھی، بھیا کیا کہہ رہے تھے اور آپا کیا کہہ رہی تھیں۔ کچھ عجیب مدھم سی آوازیں میرے کانوں میں آرہی تھیں۔ سر چکرا رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے سیاہی اور سفیدی کے چند بے ڈھنگے سے دھبے ناچ رہے تھے۔ میں پھنک رہی تھی۔ فقط میرے آنسو نہیں نکلے، باقی میرے رونے میں کوئی کسر نہیں رہی۔ آپا اور رفیق ہنس ہنس کر مجھے مارے ڈالتے تھے۔ فلم ختم ہوگئی اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔ بھیا نے میرا بازو پکڑ کر ہلایا، ’’چلو! ارے یہ کیا اونگھ رہی ہو تم؟‘‘ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ بھیا اور آپا پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

    ’’اب تو میں کار چلاؤں گا!‘‘ رفیق نے میرے برابر بیٹھتے ہوئے کہا۔

    ’’آپ پیچھے بیٹھیے!‘‘ میں نے ایک طرف ہٹتے ہوئے کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘ وہ حیران رہ گیا۔

    ’’بس یونہی! آپ وہاں بیٹھے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔‘‘

    ’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ وہ بھونچکا سا رہ گیا۔

    ’’آپ وہاں بیٹھیے، آپا کے ساتھ!‘‘ میں نے منہ پھیر لیا۔ وہ اور آپا پیچھے بیٹھ گئے۔ راستے میں وہ فلم پر تنقید کرتے رہے، مگر میں چپ تھی۔ شاید اگر بولنے کی کوشش کرتی تو بھی نہ بول سکتی۔ میں ساری رات روتی رہی۔ کتنے مکار ہوتے ہیں یہ مرد، ان کے نزدیک ایک دل کی کوئی قیمت ہی نہیں ہوتی۔۔۔ رو رو کر میں نے اپنا تکیہ بھگودیا۔ آخر صبح ہوگئی۔۔۔ اور میری زندگی کا سب سے منحوس دن طلوع ہوا جس روز میں نے اپنا سب کچھ گنوا دیا۔ بھیاکالج میں تھے۔ آپا کسی سہیلی کے ہاں چلی گئیں۔ امی اوپر تھیں اور ننھا میرے پاس تھا۔ دروازہ کھلااوررفیق اندر داخل ہوا۔ اس کاچہرہ اتنا سنجیدہ تھا کہ کسی حد تک ڈراؤنا معلوم ہو رہا تھا۔ وہ کچھ ٹھٹکا، بالکل اسی طرح جس طرح وہ بھیا کی علالت والی رات کو شرما سا گیا تھا۔

    ’’ذرا اِدھر آئیے، مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے!‘‘

    ’’کیا ہے؟‘‘

    ’’مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے!‘‘

    ’’آپ کو جو کچھ کہنا ہے، یہیں کہہ دیجیے!‘‘ میں نے غصے سے کہا۔

    ’’تو آپ نہیں سنیں گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’کہہ جو رہی ہوں کہ آپ کو جو کچھ کہنا ہے یہیں کہہ دیجیے!‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ آپ کو میری باتیں ناگوار لگتی ہیں!‘‘

    ’’ناگوار لگتی ہیں۔ ناگوار لگتی ہیں!‘‘ میں نے جھلا کر کہا، ’’بھلا مجھے کسی کی باتیں کیوں ناگوار معلوم ہوں، کوئی کچھ کہے، مجھے کیا؟‘‘

    وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ گویا سوچتا تھا کہ اب کیا کہوں۔

    ’’میں آپ کو ہمیشہ غلط سمجھتا رہا۔‘‘

    ’’مگر میں نے تو کبھی ایسا اشارہ نہیں کیا جس سے آپ کو غلط فہمی ہوتی۔‘‘

    ’’واقعی آپ نے کوئی اشارہ نہیں کیا، مگر یہ میری حماقت تھی جو میں نے یوں سمجھا اور اب تک سمجھتا رہا۔ میں اب آپ کو کبھی تکلیف نہ دوں گا!‘‘

    ’’آپ کی مرضی۔۔۔ میں نے کب آپ سے التجا کی تھی۔‘‘

    اس نے عجیب نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔ گویا کہہ رہا ہو کہ مجھے تم سے ایسی امید ہرگز نہ تھی۔ اس کے چہرے پر کرب تھا، بے چینی تھی۔

    ’’بہت اچھا۔۔۔ آپ نے وقت سے پہلے بتا دیا کہ آپ کی نظروں میں میری کیا وقعت ہے۔ کاش مجھے پہلے ہی معلوم ہوجاتا۔ اب جب سب کچھ ظاہر ہوگیا ہے ایک بات اور بتا دوں، وہ یہ کہ اس سے پہلے بھی اسی قسم کے حالات میں مجھے ٹھکرایا جا چکا ہے۔ مجھے ٹھکرانے والی آپ کوئی پہلی ہستی نہیں ہیں۔۔۔ خداحافظ۔‘‘

    اس نے اپنے سر کو جنبش دی۔ اس کے لبوں پر ایک بھیانک سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ میں نے خدا حافظ نہیں کہا۔ وہ چل دیا، سرجھکائے ہوئے۔ اس نے پردہ اٹھایا اور بغیر میری طرف دیکھے کمرے سے باہر نکل گیا۔ پردہ ہل رہاتھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری قسمت پر ہمیشہ کے لیے پردہ پڑگیا ہو۔ جی میں آیا کہ اسے آواز دے کر بلا لوں، مگر میری زبان نہ ہل سکی۔ حلق خشک ہوگیا۔ میں کوچ پر گرپڑی۔ جی چاہتا تھا کہ خوب پھوٹ پھوٹ کر روؤں، چلاؤں، مگر باوجود انتہائی کوشش کے ایک آنسو بھی نہ نکل سکا۔ میں نے اسے ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔

    اس کے بعد کیا ہوا؟ آپا دوسرے ہفتے واپس چلی گئیں۔ اتنے دن ہوگئے اس واقعے کو۔ مگر پھر کبھی رفیق ہمارے ہاں نہیں آیا۔ خدا جانے بھیا سے کیا بہانہ کیا ہوگا۔ پھر ایک دن سنا کہ وہ کہیں چلا گیا۔ نہ اس کا کوئی خط آیا نہ کوئی خبر۔ میرے دل میں ایک پچھتاوا رہ گیا اور ساری عمر رہے گا۔ کاش کہ میں اس کی بات سن لیتی جسے سنانے کے لیے وہ اتنا بے تاب تھا۔ خدا جانے وہ اس روز محبت کا پیغام لے کر آیا تھا یا میری غلط فہمی دور کرنا چاہتا تھا۔ پھر سال کے اندر اندر ہی آپا کی ہمارے ایک رشتہ دار سے شادی ہوگئی۔ میں سوچا کرتی ہوں کہ میرے اس المیے کا باعث میری کمزوری تھی یا بڑی آپا؟ اس معمے کو آج تک حل نہ کر سکی، مگر اس کا وہ فقرہ کہ ’’مجھے ٹھکرانے والی آپ پہلی ہستی نہیں ہیں۔‘‘ مجھے مرتے دم تک یاد رہے گا۔

    مأخذ:

    شگوفے (Pg. 4)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: کتاب والا، دہلی
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے