Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چند سبق آموز کہانیاں

ابن انشا

چند سبق آموز کہانیاں

ابن انشا

MORE BYابن انشا

    ایک تھی چڑیا ایک تھا چڑا، چڑیا لائی دال کا دانا۔ چڑا لایا چاول کا دانا۔ اس سے کھچڑی پکائی۔ دونوں نے پیٹ بھر کر کھائی۔ آپس میں اتفاق ہو تو ایک ایک دانے کی کھچڑی بھی بہت ہو جاتی ہے۔ چڑا بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل میں وسوسہ آیا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے۔ دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کھچڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں سے چھپن حصے مجھے دے۔ چوالیس حصے تو لے۔ اے بھاگوان۔ پسند کر یا ناپسند کر۔ حقائق سے آنکھیں مت بند کر۔ چڑے نے اپنی چونچ میں سے چند نکات بھی نکالے اور اس بی بی کے آگے ڈالے۔ بی بی حیران ہوئی بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو میرا جنم کا ساتھ تھا لیکن کیا کر سکتی تھی۔

    دوسرے دن پھر چڑیا دال کا دانا لائی اور چڑا چاول کا دانا لایا۔ دوسرے دن الگ الگ ہنڈیا چڑھائی۔ کھچڑی پکائی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو ہی دانے ہیں۔ چڑے نے چاول کا دانا کھایا۔ چڑیا نے دال کا دانا اٹھایا۔ چڑے کو خالی چاول سے پیچش ہوگئی۔ چڑیا کو خالی دال سے قبض ہوگئی۔ دونوں ایک حکیم کے پاس گئے جو ایک بلا تھا۔ اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور پھیرتا ہی چلا گیا۔

    دیکھا تو تھے دو مشت پر۔

    یہ کہانی بہت پرانے زمانے کی ہے۔ آج کل تو چاول ایکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگی ہے، اتنی کہ وہ لڑکیاں جو مولوی اسمٰعیل میرٹھی کے زمانے میں دال بگھارا کرتی تھیں آج کل فقط شیخی بگھارتی ہیں۔

    ***

    ایک تھا گورو، بڑا نیک دھرماتما۔ دو اس کے چیلے تھے۔ وفادار، جاں نثار، گورو کے خون کی جگہ اپنا پسینہ بہانے کے لیے تیار۔ ایک کا شبھ نام پوربومل تھا، دوسرے کا پچھمی چند۔ گوروجی جب لوگوں کو اپدیش دینے اور ان کی مرادیں پوری کرنے کے بعد آرام کرنے کو لیٹتے تو چیلا پوربومل ان کی داہنی ٹانگ دباتا اور پچھمی چند بائیں ٹانگ کی ٹہل سیوا کرتا۔ دونوں اپنے اپنے حصے کی ٹانگ کی مٹھی چاپی کرتے۔ تیل چپڑ کر اسے چمکاتے۔ جھنڈیاں اور گھنگرو باندھ کر اسے سجاتے۔ اس پر مکھی بھی نہ بیٹھنے دیتے تھے۔ ایک روز کرنا پرماتما کا ایسا ہوا کہ گوروجی ایک کروٹ لیٹ گئے اور ان کی بائیں ٹانگ داہنی ٹانگ کے اوپر جاپڑی۔ چیلے پوربومل کو بہت غصہ آیا۔ اس نے فوراً ایک ڈنڈا اٹھایا اور بائیں ٹانگ پر رسید کر دیا۔ گوروجی نے بلبلا کر داہنی ٹانگ اوپر کر لی۔ اب پچھمی چند کی غیرت نے جوش مارا۔ اس نے اپنی لٹھیا اٹھائی اور داہنی ٹانگ کی خوب مرمت کی۔

    گورو جی بہت چلائے کہ ظالموں! کیوں مارے ڈالتے ہو۔ ہائے! لیکن چیلے کب مانتے تھے۔ گوروجی کی ٹانگیں سوج کر کپا ہوگئیں۔ مدتوں ہلدی چونا لگانا پڑا۔ اب آگے چلیے۔ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ لالہ پچھمی چند کے کئی بیٹے تھے۔ بڑے ہونہار اور ہوشیار۔ پشاوری مل، سندھورام، لاہوری مل اور بلوچ رائے۔ لالہ جی کا دیہانت ہوا تو یہ ٹانگ انہوں نے ورثے میں پائی۔ وہ گوروجی کی ٹانگ دباتے تھے لیکن کوئی ران کا حصہ زیادہ دباتا تھا، کوئی پنڈلی پر زیادہ توجہ دیتا تھا۔ آخر ایک زبردست جھگڑا ہوا۔ اور طے ہوا کہ ہم اپنا حصہ الگ کرلیں گے۔ لالہ پوکومل نے کہا۔ ہاں ہاں، ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں بھی اپنے حصے کی ٹانگ کاٹ کر لے جا رہا ہوں۔ اب ان برخورداروں نے گنڈاسہ منگوایا۔ ایک نے ران سنبھالی بوری میں ڈالی۔ دوسرے نے پنڈلی لے لی تیسرے نے گھٹنا اٹھایا۔ چوتھے نے باقی کو سمیٹا اور گھر کی راہ لی اور اس کے بعد سبھی ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    گورو جی کا کیا ہوا؟ مرے یا جیے۔ جیے تو کتنے دن تک جیے۔ اس کا کہانی میں ذکر نہیں۔

    ***

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔ کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزارملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، وہ میری سمجھا جائے۔ اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔۔۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ وابھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستالیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہاتھا۔ کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کرگئے۔ جاتے ہوئے وصیت کرگئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کرلی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

    ***

    ایک کوا روٹی کا ٹکڑا لیے ہوئے ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا تھا۔ ایک لومڑی کا گزر ادھر سے ہوا۔ منہ میں پانی بھر آیا (لومڑی کے ) سوچا کہ کوئی ایسی ترکیب کی جائے کہ یہ اپنی چونچ کھول دے اور یہ روٹی کا ٹکڑا میں جھپٹ لوں۔ پس اس نے مسکین صورت بنا کر اور منہ اوپر اٹھا کر کہا، کوے میاں کو سلام! تیرے حسن کی کیا تعریف کروں۔ کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔ واہ واہ وا، چونچ بھی کالی، پر بھی کالے، آج کل تو دنیا کا مستقبل کالوں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ افریقہ میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لیکن خیر، یہ سیاست کی باتیں ہیں۔ آمدم برسر مطلب میں نے تیرے گانے کی تعریف سنی ہے۔ تو اتنا خوب صورت ہے تو گاتا بھی اچھا ہوگا۔ مجھے گانا سننے کا شوق یہاں کھینچ لایا ہے۔ ہاں تو اک آدھ ٹھمری ہو جائے۔‘‘

    کوا پھولا نہ سمایا لیکن سیانے پن سے کام لیا۔ روٹی کا ٹکڑا منہ سے نکال کرپنجے میں تھاما اور لگا کائیں کائیں کرنے۔ بی لومڑی کا کام نہ بنا تو یہ کہتی ہوئی چل دی، ’’ہت تیرے کی۔ بے سرا بھانڈ معلوم ہوتا ہے۔ تو نے بھی حکایات لقمان پڑھ رکھی ہے۔‘‘

    ***

    ایک پیاسے کوے کو ایک جگہ پانی کا مٹکا پڑا نظر آیا۔ بہت خوش ہوا لیکن یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ پانی بہت نیچے ہے۔ مٹکے کی تہ میں تھوڑا سا ہے۔ سوال یہ تھا کہ پانی کو کیسے اوپر لائے اور اپنی چونچ تر کرے۔ اتفاق سے اس نے حکایات لقمان پڑھ رکھی تھی۔ پاس ہی بہت سے کنکر پڑے تھے۔ اس نے اٹھا کر ایک ایک کنکر اس میں ڈالنا شروع کیا۔ کنکر ڈالتے ڈالتے صبح سے شام ہوگئی۔ پیاسا تو تھا ہی نڈھال ہوگیا۔ مٹکے کے اندر نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہے کہ کنکر ہی کنکر ہیں۔ سارا پانی کنکروں نے پی لیا ہے۔ بے اختیار اس کی زبان سے نکلا، ’’ہت تیرے کی لقمان۔‘‘ پھر بے سدھ ہوکر زمین پر گر گیا اور مرگیا۔

    اگر وہ کوا کہیں سے ایک نلکی لے آتا تو مٹکے کے منہ پر بیٹھا بیٹھا پانی کو چوس لیتا۔ اپنے دل کی مراد پاتا۔ ہرگز جان سے نہ جاتا۔

    مأخذ:

    آپ سے کیا پردہ (Pg. 6)

    • مصنف: ابن انشا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے