Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک شعر یاد آیا

کنہیا لال کپور

ایک شعر یاد آیا

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔ پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘

    ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘

    ’’شعر سننے اور سنانے کا یہ کون سا موقع ہے۔‘‘

    ’’غم غلط ہو جائے گا۔ ذوق کا شعر ہے‘‘، فرماتے ہیں،

    تو ہی جب پہلو سے اپنے دل ربا جاتا رہا

    دل کا پھر کہنا تھا کیا ،کیا جاتا رہا،جاتا رہا

    ’’کہئے پسند آیا؟‘‘

    ’’دل ربا نہیں پہلو سے بٹوا جاتا رہا ہے‘‘، ہم نے نیا پہلو نکالا۔

    پہلو کے مضمون پر امیر مینائی کا شعر بے نظیر ہے،

    کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں سو بدلتے ہیں

    جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

    ہم نے جھلا کر کہا، ’’توبہ توبہ! آغا صاحب آپ تو بات بات پر شعر سناتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’چلتے چلتے ایک شعر ’توبہ‘ پر بھی سن لیجئے‘‘،

    توبہ کرکے آج پھر پی لی ریاض

    کیا کیا کم بخت تونے کیا کیا

    ’’اچھا صاحب اجازت دیجئے۔ پھر کبھی ملاقات ہوگی۔‘‘

    ’’ملاقات! ملاقات پر وہ شعر آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    نگاہوں میں ہر بات ہوتی رہی

    ادھوری ملاقات ہوتی رہی

    ’’اچھا شعر ہے لیکن داغ نے جس انداز سے’’ملاقاتوں‘‘ کو باندھا ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی‘‘،

    راہ پر ان کو لگا لگائے تو ہیں باتوں میں

    اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

    ’’بہت خوب۔ اچھا آداب عرض۔‘‘

    ’’آداب عرض۔‘‘

    بڑی مشکل سے آغا صاحب سے جان چھڑائی۔ آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔ آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھئے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھئے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘، اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔ ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں‘‘۔ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے،

    آدمی آدمی سے ملتا ہے

    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے،

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لئے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے ،لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فر مایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر

    پر کترنے کولگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے،

    کیا کیافریب دل کو دیئے اضطراب میں

    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے،

    ہیں بھی نامہ بر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے

    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔۔۔ وہ شعر ہے، شعر ہے کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔ ہاں، یاد آ گیا، لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    ایک دن ہماری آنکھیں آگئیں۔ کالج سے دو دن کی چھٹی لی۔ آغا صاحب کو پتہ چلا، حال پوچھنے آئے۔ فرمانے لگے، ’’بادام کا استعمال کیا کیجئے۔ نہ صرف آپ آنکھوں کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے بلکہ آنکھوں کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘ دوایک منٹ چپ رہنے کے بعد ہم سے پوچھا، ’’آپ نے آنکھوں سے متعلق وہ شعر سنا جسے سن کر سامعین وجد میں آگئے تھے۔ میرا خیال ہے نہیں سنا۔‘‘ وہ شعر تھا،

    جس طرف اٹھ گئی ہیں آہیں ہیں

    چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں

    نہایت عمدہ شعر ہے لیکن پھر بھی سودا کے شعر سے ٹکر نہیں لے سکتا۔

    کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا

    ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

    اسی موضوع پر عدم کا شعر بھی خاصا اچھا ہے۔

    اک حسیں آنکھ کے اشارے پر

    قافلے راہ بھول جاتے ہیں

    عدم کے بعد انہوں نے جگرؔ، فراقؔ، جوشؔ، اقبالؔ، حسرتؔ،فانیؔ کے درجنوں اشعار سنائے۔ انہیں سن کر کئی بار اپنی آنکھوں کو کوسنے کو جی چاہا کہ نہ کم بخت آتیں اور نہ یہ مصیبت نازل ہوتی۔ رات کے بارہ بج گئے لیکن آغا صاحب کا ذخیرہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ آخر تنگ آ کر ہم نے کہا، ’’آغا صاحب! آپ نے اتنے اشعار سنائے۔ دو شعر ہم سے بھی سن لیجئے‘‘،

    ’’ارشاد،‘‘ آغا صاحب نے بے دلی سے کہا۔

    ’’ایسے لوگوں سے تو اللہ بچائے سب کو

    جن سے بھاگے نہ بنے جن کو بھگائے نہ بنے

    جس سے اک بار چمٹ جائیں تو مر کے چھوٹیں

    وہ پلستر ہیں کہ دامن سے چھڑائے نہ بنے‘‘

    آغا صاحب نے مسکرا کر فرمایا، ’’حالانکہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف نہیں ہے، پھر بھی آداب عرض۔‘‘

    مأخذ:

    گستاخیاں (Pg. 62)

    • مصنف: کنہیا لال کپور

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے