Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب انڈ گوئٹے

حاجی لق لق

غالب انڈ گوئٹے

حاجی لق لق

MORE BYحاجی لق لق

    مجھ سے روایت کیا کامریڈ باری علیگ نے اور انہوں نے سنا اپنے دوست مرزا کاظم سے اور مرزا کاظم نے سنائی آپ بیتی اور اب آپ مجھ سے سنیے ’’مرزا بیتی‘‘ میرے الفاظ میں اور اس کا ثواب پہنچائیے غالب اور گوئٹے کی ارواح کو اور دعا کیجیے میرے حق میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

    مرزا کاظم جن دنوں برلن میں تھے ان ایام کا ذکر ہے کہ مرزا صاحب کی ملاقات ایک پنجابی سکھ پریتم سنگھ سے ہوئی اور دونوں تین چار روز تک ایک قہوہ خانے میں ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ ایک روز سردار جی نے مرزا صاحب سے کہا کہ بھائی صاحب! بات یہ ہے کہ میں اٹلی جانا چاہتا ہوں اور میرے پاس پیسہ کوئی نہیں۔ اٹلی میں میرا مستقبل بہت شاندار ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کچھ روپیہ مجھے بطور قرض دے دیں یا کسی دوست سے دلادیں تو میں اٹلی پہنچ کر تھوڑے ہی عرصے میں قرض چکادوں گا۔

    مرزا کاظم نے ایک لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہا، ’’قرض؟‘‘، ’’سردار صاحب یہاں پردیس میں کون ایسا ہندوستانی فارغ البال ہوسکتا ہے جو اپنے اللّے تللّوں کے علاوہ کسی دوست کو قرض دے سکے؟‘‘

    سردار جی، مجھے کوئی زیادہ روپیہ نہیں چاہیے صرف۔۔۔

    مرزا صاحب، (بات کاٹ کر) ’’اجی کم زیادہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بات یہ ہے کہ کسی سے ایسی درخواست کرنا ہی بے معنی چیز ہے۔‘‘

    سردار جی، (مایوسی کے لہجے میں) تو پھر کیا کیا جائے؟

    مرزا صاحب، کیا کیا جائے، بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

    سردار جی، (پر امید نگاہوں سے دیکھتے ہوئے) وہ کیا، وہ کیا؟

    مرزا صاحب، وہ یہ کہ ہندوستانیوں کی بجائے جرمنوں سے روپیہ حاصل کیا جائے، جو بہت آسان کام ہے۔

    سردار جی، وہ کیسے؟

    مرزا صاحب، میں کل بتاؤں گا۔ آپ اسی وقت یہاں تشریف لے آئیے۔

    (سردار جی کی آنکھیں ان الفاظ کو سن کر چمک اٹھیں اور آپ مرزا صاحب کا ’’پیشگی‘‘ شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔ رات بھر سردار جی کو نیند نہ آئیاور دوسرے دن وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی قہوہ خانے میں پہنچ گئے اور بے صبری کے ساتھ مرزا کاظم کا انتظار کرنے لگے۔ آخر مرزا آئے اور قہوہ کی پیالی پیتے ہوئے یوں گویا ہوئے)،

    مرزا صاحب، دیکھئے سردار جی! مرزا غالب ہندوستان کے بہت بڑے شاعر تھے آپ جانتے ہوں گے؟

    سردار جی، وہی نا جنہیں انڈین شکسپیئر کہتے ہیں؟

    مرزا صاحب، (مسکراتے ہوئے) نہیں نہیں۔ انڈین شکسپیئر تو آغاحشر کاشمیری مرحوم تھے جو مشہور ڈرامانویس تھے۔ غالب ان سے بہت پہلے عہدِ مغلیہ میں گزرے ہیں۔ آپ کا نام اسداللہ خاں تھا اور وطن دہلی۔ آپ فارسی اور اُردو دونوں زبانوں کے بہت بڑے شاعر تھے۔ لیکن عمر تنگ دستی میں گزری، آپ کو شراب نوشی کا بہت شو ق تھا۔ اس لیے کبھی فارغ البالی نصیب نہ ہوئی۔

    سردار جی، بالکل میرے چچا ہرنام سنگھ کی طرح، ذیلدار تھا۔ دوسو بیگھہ زمین تھی۔ ضلع بھر میں عزت تھی لیکن شراب نے بیڑا غرق کردیا۔ آج اسے کوئی دس روپے ادھار نہیں دیتا۔

    مرزا صاحب، ہاں ہاں، بس غالب کی بھی یہی حالت تھی۔ لیکن تھا بڑا خوددار، مرتا مرگیا لیکن اُمراء کے سامنے نہ جھکا۔ اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ۔۔۔

    سردار سرتو ہلاتے جاتے تھے لیکن دل میں سوچتے تھے کہ بات تو جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی تھی۔ یہ مرزا صاحب غالب کا قصہ کیوں چھیڑ بیٹھے؟ آپ کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ مرزا کاظم نے ان کے دل کی بات کو بھانپ کر ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ خاموشی سے سنتے جائیے۔

    مرزا صاحب، غالب ایک فلاسفر شاعر تھے اور انہوں نے وہی زمانہ پایا جو جرمنی کے فلاسفر شاعر گوئٹے کو نصیب ہوا۔ گوئٹے بھی۔۔۔

    مرزا صاحب یہاں تک کہہ پائے تھے کہ سردار جی سے صبر نہ ہوسکا اور انہوں نے بات کاٹ کر اپنی بات شروع کردی۔

    سردار جی، لیکن مرزا صاحب! جہنم میں جائیں غالب اور گوئٹے، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی ترکیب بتائیں گے۔

    مرزا صاحب، بالکل درست، اور میں وہی ترکیب تو بتا رہا ہوں۔ آپ ذرا سنتے جائیے۔ آپ ہندوستان کے بہت بڑے مورخ، شاعر اور ادیب ہیں۔

    سردار جی، میں اور شاعر؟

    مرزا صاحب، بس آپ چپ رہیے اور میری بات سنیے، آپ اتوار کے دن ’’ہومبرگ ہال‘‘ میں ایک تقریر کریں گے جس میں آپ غالب اور گوئٹے کی شاعری کا موازنہ فرمائیں گے۔

    سردار جی، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میں تو جرمن زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا اور نہ غالب اور گوئٹے کی شاعری سے واقف ہوں۔

    مرزا صاحب، آپ اردو زبان میں اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو پنجابی زبان میں تقریر فرمائیے۔ بات صرف یہ ہے کہ بولتے جائیے اور گوئٹے کی شاعری سے آپ واقف نہیں تو ان کا نام تو چنداں مشکل نہیں، ذرا کہیے تو۔

    سردار جی، غالب گوئٹے۔ غالب گوئٹے۔

    مرزا صاحب، بالکل ٹھیک! آپ پاس ہوگئے۔ صرف اتنی بات ہے کہ ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ انگریزی زبان میں جسے ہم اینڈ کہتے ہیں۔ جرمن میں اسے انڈ کہا جاتا ہے۔

    سردار جی، غالب انڈ گوئٹے۔۔۔ غالب انڈ گوئٹے۔

    مرزا صاحب، واہ وا۔ خوب! اب آپ ہندوستان کے بہت بڑے اسکالر ہیں۔ کل برلن کے اخبارات میں اعلان شائع ہوگا کہ ہندوستان کے مشہور اسکالر سردار پر یتم سنگھ اتوار کے دن بوقت شام ہومبرگ ہال میں ’’غالب اور گوئٹے‘‘ کے موضوع پر ایک زبردست تقریر کریں گے۔ داخلہ ٹکٹ کے ذریعہ ہوگا وغیرہ۔

    سردار جی، لیکن میں تقریر میں کہوں گا کیا۔

    مرزا صاحب، جو جی میں آئے کہتے جائیے۔ بس بولتے جائیے اور ہر تین چار جملوں کے بعد ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ کہتے رہیے۔

    اتوار کی شام آپہنچی۔ ہومبرگ ہال جرمن ’’اہل ذوق‘‘ سے کھچا کھچ بھر گیا۔ صدارت کی کرسی پر برلن کے ایک مشہور ماہر ادبیات جلوہ افروز تھے۔ ان کے ایک طرف سردار پریتم سنگھ اور دوسری طرف مرزا کاظم بیٹھے تھے۔ تقریر کا وقت آگیا اور سردار صاحب تقریر کرنے کے لیے اٹھے صاحب صدر نے اٹھ کر حاضرین سے پروفیسر پریتم سنگھ کا تعارف کرایا۔ جس پر ہال خیر مقدم کی تالیوں سے گونج اٹھا۔

    سردار صاحب نے اپنی تقریر شروع کی۔

    ’’صاحبان! مرزا اسد خاں غالب دہلی کے رہنے والے تھے، اردو فارسی دونوں زبان کے شاعر تھے۔ شراب بہت پیتے تھے اس لیے ان کی عمر تنگ دستی میں گزری۔ دہلی ہندوستان کا دارالسلطنت ہے۔ وہاں ایک گھنٹہ گھر بھی ہے۔ چاندنی چوک میں سودا بیچنے والوں کی صدائیں بہت پیاری ہوتی ہیں ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں۔ غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    مجمع نے پرزور تالیاں بجاکر آسمان سرپر اٹھا لیا اور جب تالیوں کی گونج ختم ہوئی تو سردار صاحب نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا،

    ’’دہلی سے تین سومیل کے فاصلے پر لاہور ہے۔ میں ضلع لاہور کارہنے والا ہوں۔ ہمارا علاقہ بڑا زرخیز ہے۔ پچھلے سال بارشیں کم ہوئی تھیں۔ اس لیے فصلیں اچھی نہ ہوئیں، اس سال گورومہاراج کی کرپا ہے۔ نہر میں بھی پانی خوب رہا اور بارشیں بھی اچھی ہوگئیں، امید ہے کہ گیہوں کی فصل اچھی رہے گی۔ لاہور کی بہت سی چیزیں دیکھنے لائق ہیں۔ مثلاً شاہی مسجد، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی، چڑیا گھر عجائب گھر غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    پھر تالیوں سے فضا گونج اُٹھی اور صاحب صدر کے لبوں پر تبسم رقص کرنے لگا۔ آپ نے میز پر ہاتھ مار مار کر مقرر کی ’’جادو بیانی‘‘ کی داد دی۔ سردار صاحب نے اپنی حوصلہ افزائی ہوتی دیکھی تو ذرا زیادہ بلند آواز سے تقریر کرنے لگے۔ فرمایا،

    ’’غالب انڈگوئٹے کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے شری دربار صاحب امرتسر کے درشن نہ کیے۔ حتیٰ کہ وہ ضلع گورداسپور بھی نہ جاسکے، ورنہ وہاں کا گڑکھاکر انھیں نانی سپنے میں یاد آجاتی۔ ضلع امرت سرمیں ایک گائوں چمیاری ہے۔ وہاں کے خربوزے بہت مشہور ہیں، قصور کی میتھی بہت خوشبودار ہوتی ہے اور پھر غالب انڈ گوئٹے کے کیا ہی کہنے گویا انڈیا انڈ جرمنی!‘‘

    اس دفعہ سردار نے استاد کے بتائے ہوئے سبق ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ پر ’’انڈیا انڈ جرمنی‘‘ کا اضافہ کرکے کمال کردکھایا اور ان الفاظ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ تالیوں سے ہال گونج اُٹھا۔ سردار صاحب نے تقریر جاری رکھی اور دوتین فقرے کہنے کے بعد فرمایا کہ،

    ’’صاحبان! اب غالب کے اشعار بھی سنیے!‘‘

    اس مقام پر مرزا کاظم نے اُٹھ کر حاضرین سے جرمن زبان میں کہا کہ پروفیسر پریتم سنگھ اب غالب کے چند اشعار سنائیں گے۔ سردار صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں یہ گانا شروع کردیا،

    اساں نِت دے

    نی اساں نِت دے شرابی رہنا نی ہرنام کورے نارے

    اودھ وِچ کندھ کرلئے

    مرزا کاظم کرسی سے اچھل پڑے، جس پر حاضرین نے تالیوں سے فضا میں گونج پیدا کردی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب نے ان اشعار کو بے حد پسند کیا ہے سردرار صاحب پھر بولے!

    اسیں مرگئے۔

    نی اسیں مرگئے کمایاں کردے نی ہر نام کورے نارے

    اجے تیرے بند نہ ہے ہائے نی اسیں مرگئے

    اس دفعہ بھی حسب معمول کافی داد ملی۔ لیکن داد کی حد تو اس وقت ہوئی جب سردار صاحب نے غالب کی وہ ’’مثلث‘‘ سنائی جس کی ٹیپ کا مصرعہ یہ تھا،

    ’’موڑیں بابا ڈانگ والیا چھئی‘‘

    ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا اور سردار پریتم سنگھ مورخ، شاعر اور ماہر ادبیات کی تقریرختم ہوئی، اس کے بعد مرزا کاظم اٹھے اور انھوں نے نہایت فصیح جرمن زبان میں بیان کیا کہ پروفیسر نے جس قابلیت کے ساتھ غالب اور گوئٹے کا موازنہ کیاہے شاید ہی آج تک کسی نے کیا ہو۔ کم از کم برلن میں تو آج تک ایسی تقریر نہ ہوئی ہوگی اور مجھے فخر ہے کہ میرے ملک نے پروفیسر صاحب جیسے آدمی پیدا کیے ہیں۔ میں اس پوری تقریر کا ترجمہ کرکے برلن کے اخبارات میں شائع کراؤں گا اور آپ دیکھیں گے کہ میرے وطن کے مایہ ناز ماہر ادبیات نے علم وفضل کے کیا کیا دریا بہائے ہیں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پروفیسر صاحب کے خیالات سننے کی تکلیف گوارا فرمائی۔ اس کے بعد صاحب صدر اُٹھے اور انھوں نے پروفیسر صاحب اور مرزا کا ظم کا شکریہ حاضرین کی طرف سے ادا کی اور جلسے کے اختتام کا اعلان کیا۔ پھر کیا تھا بڑے بڑے ادیب، شاعر، اخبار نویس اور رئیس سردار صاحب سے مصافحہ کرنے کو لپکے اور آپ کو بڑی مشکل سے ہال کے دروازے تک لے جایا گیا۔ اسی رات کو مرزا کاظم پروفیسر پریتم سنگھ کو ٹرین پر سوار کرانے کے لیے اسٹیشن تک لے گئے اور دونوں کی جیبیں نوٹوں سے پُر تھیں۔

    مأخذ:

    آزادی کے بعد اردو طنز و مزاح (Pg. 116)

      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے