Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جہلستان

MORE BYکنہیا لال کپور

    جہلستان میں جسے کچھ لوگ جہالت نشان بھی کہتے تھے بہت سی چیزیں اور اشخاص عجیب و غریب تھے۔ ایسے دو پائے تھے جن پر چوپایوں کاگمان ہوتا تھا۔ ایسے وکلا تھے جن میں اور جیب کتروں میں بظاہر کوئی فرق نہ تھا۔ ایسے حکیم تھے جو دکھتی آنکھ کے مریض کو آنکھ نکلوادینے کا مشورہ دیتے تھے۔ ایسے ڈاکٹر تھے جو مہلک سےمہلک مرض سے بھی زیادہ خطرناک تھے۔ ایسے سادھو اور ملنگ تھے جو پچھلے چوبیس سال سے درختوں کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے اور جنہیں جب نیچے اترنے کے لیے کہا جاتا تو کہتے ہم لٹکنے کی سلور جوبلی مناکر ہی اتریں گے۔ ایسے اسکول اور کالج تھے جن میں تعلیم پانے کے بعد بھلا چنگا طالب علم وحشی بن جاتاتھا۔ تاہم جہلستان کا سب سے بڑا عجوبہ ’’حزف اختلاف‘‘ تھا جسے دیکھ کر امیر خسرو کا یہ مصرع بے اختیار زبان پر آجاتا تھا

    بسیار خوباں دیدہ ام اما تو چیزے دیگری!

    ’’حزب اختلاف‘‘ نے دارالعلوم کی ایک سو ایک نشستوں کے لیے ایک سو ایک امیدوار کھڑے کیے تھے۔ بدقسمتی سے سات امیدواروں کے علاوہ جو کامیاب ہوئے باقی سب کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ اسے اس شکست سے اتنی مایوسی نہیں جتنی کہ حیرانی ہوئی تھی۔ کیونکہ اس نے اپنے الیکشن مینی فیسٹو میں برسراقتدار آنےکے بعد ملک میں مکمل مساوات لانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے ببانگ دہل اعلان کیا تھا،

    ’’ہم وعدہ کرتے ہیں اگر حکومت کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں آگئی تو ملک میں مساوات کا دور دورہ ہوگا۔

    ہر گھر میں ایک جیسے خدوخال رکھنےوالے بچے پیدا ہواکریں گے۔ تمام شوہروں کی ایک جیسی خوبصورت یا بدصورت بیویاں ہوں گی۔ سب لوگ ایک جیسے عالی دماغ یا بددماغ ہوں گے۔ جملہ مریض ایک جیسے امراض میں مبتلا ہوا کریں گے۔ ہر ایک شخص کو فنونِ لطیفہ پر یکساں دسترس حاصل ہوا کرے گی۔ تمام گھروں میں چوہوں، بلیوں اور چمگادڑوں کی ایک جیسی تعداد ہوگی۔ سب افراد ایک جیسی عمر پایا کریں گے۔ کمانڈر اور سپاہی کو ایک جیسی تنخواہ ملا کرے گی۔‘‘

    اس مینی فیسٹو کے باوجود جو اچھا خاصہ ’سبز باغ‘ تھا،جب ’’حزف اختلاف‘‘ کو عبرتناک شکست ہوئی تو اس نےاپنی خفت مٹانے کے لیے طرح طرح کے دلائل کا سہارا لیا۔ کہا کہ پولنگ افسر بے ایمان تھے۔ ووٹر بے شعور تھے۔ ووٹوں کی گنتی کرنے والے حساب میں کمزور تھے۔ مزید کہا ہم اس شکست کاانتقام حکمراں پارٹی سے ’’مخالفت برائے مخالفت‘‘ کےاصول پر عمل کرکے لیں گے۔ چنانچہ آئے دن اس اور سرکار میں اس قسم کی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔

    سرکار۔ ’’سورج مشرق میں طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا ہے۔‘‘

    ’’حزب اختلاف۔‘‘ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے اگر آپ نے اسے بیان نہ کیا ہوتا۔ اب تو ہم یہی کہیں گے ’’سورج جنوب مشرق میں طلوع اور شمال مغرب میں غروب ہوتا ہے۔‘‘

    ’’شور و غل مچانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’مسائل کو حل کرنا آپ کا کام ہے۔ ہمارا فرض صرف شور و غل مچانا ہے۔‘‘

    ’’تاریکی کو کوسنے کی بجائے یہ بہتر ہے اسے دور کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی شمع روشن کی جائے۔‘‘

    ’’ہم آپ کے ساتھ متفق نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ تاریکی کو دور کرنے کے لیے اسے صرف کوسنا کافی نہیں۔‘‘

    ’’ناؤ اگر منجدھار میں پھنس جائے تو متحدہ کوشش سے اسے بچانا چاہیے۔ اگر وہ ڈوبے گی تو سب ڈوبیں گے۔‘‘

    ’’بے شک ہم بھی ڈوبیں گے لیکن ہمیں مسرت ہوگی کہ آپ بھی تو ڈوبیں گے۔‘‘

    ’’حزب اختلاف‘‘ کے صرف دو تکبیرہائے کلام تھے۔ پہلا یہ کہ ہر مصیبت کے لیے چاہے وہ آسمانی قہر کیوں نہ ہو، حکومت ذمہ دار ہے۔ دوسرا، سرکار کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے۔

    ایک سال قدرت نے حزف اختلاف کی اس طرح امداد کی کہ ملک میں بارش بالکل نہ ہوئی۔ بہت سے علاقوں میں سوکھا پڑگیا۔ حزب اختلاف نے اس کی ذمہ داری سرکارکے سر تھوپتے ہوئے کہا۔ ہمیں معتبر ذریعہ سے پتہ چلا ہے کہ ہماری سرکار نے امسال دیدہ و دانستہ بارش ہونے نہیں دی۔ بادلوں کو غیرممالک میں برآمد کیا گیا تاکہ بدیسی سکہ کمایا جاسکے۔ جنتا فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہوگئی۔ انصاف کاتقاضا ہے کہ سرکارکو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے۔

    اس سے اگلے سال اتنی زبردست بارش ہوئی کہ جگہ جگہ سیلاب آناشروع ہوگئے۔ ’’حزب اختلاف‘‘ کوایسا موقع خدا دے۔ اس نے سرکار میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے ہوئے الزام لگایا، غیر معمولی بارش کے لیے سرکار ذمہ دار ہے۔ اس نے غیر ممالک سے اتنی تعداد میں بادل درآمد کیے کہ کثرتِ باراں کی وجہ سے سیلاب آئے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کو فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

    جب آبادی کے بڑھنے اور پیداوار کے گھٹنےکی وجہ سے ضروریاتِ زندگی بہت گراں یا کمیاب ہوگئی تو ’’حزب اختلاف‘‘ نے حسب دستور سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ جب اس سے پوچھا گیا۔ کیا ایسی صورت حال کم و بیش تمام ممالک میں نہیں پائی جاتی تو اس نے کہا ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ دوسرے ممالک میں صورتِ حال ہمارے ملک سے بدتر ہے۔ ہم اس بات سے کیا تسلی حاصل کرسکتے ہیں کہ اگر ہم پریشان ہیں تو دوسرے بھی تو پریشان ہیں۔

    دو سال کے دوران ’’حزب اختلاف‘‘ نے سرکار میں عدم اعتماد کی آٹھ تحریکیں پیش کیں۔ جب وہ سب رد ہوگئیں اور ان کےمسلسل تقاضوں کے باوجود سرکار مستعفی نہ ہوئی، اس نےایک نئے حربے کا سہارا لیا۔ غیرمطمئن عوام کو اکسانااور بھڑکانا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بات بات پر ہڑتالیں ہونےلگیں۔ ایک برات کو جو بلاٹکٹ سفر کررہی تھی پولیس نے حراست میں لے لیا۔ پولیس کے اس ناجائز رویے کے خلاف ہڑتال کی گئی۔انجن میں خرابی کی وجہ سےایک ایکسپریس ٹرین لیٹ ہوگئی۔ ریلوے کے خلاف ہڑتال کرنے کااعلان کیا گیا۔ ایک شہر میں آوارہ کتوں اور سانڈوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ کتوں اور سانڈوں کے خلاف ہڑتال کی گئی

    جب ہڑتالوں سے بھی ’’حزب اختلاف‘‘ کو اپنےمقصد میں کامیابی نہ ہوئی، اس نے ایک ملک گیر ’’بندھ‘‘ کے اہتمام کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے بڑے زور شور سےپراپیگنڈا کیا گیا۔ کہا گیا یہ ’’بندھ‘‘ جنتا کی تمام مشکلات کاواحد حل ثابت ہوگا۔

    یہ آخری بندھ ہوگا۔ اس کے بعد ملک میں ہر چیز کی فراوانی ہوجائے گی۔ نایاب یا کمیاب چیزوں کے گلیوں اور بازاروں میں ڈھیر لگ جائیں گے۔ چونکہ یہ بندھ اپنی نوعیت کاپہلا بندھ تھا، لوگوں کو تلقین کی گئی کہ اسے کامیاب بنانے کے لے وہ ایک خاص دن اور خاص وقت اپنے اپنے گھروں کو آگ لگادیں تاکہ سرکار کو پتہ لگے کہ وہ کتنے بے چین اور مضطرب ہیں۔

    جتنا ’’حزب اختلاف‘‘ کے بھرے میں آگئی۔ اس نے مقررہ تاریخ اور وقت پر اپنےگھروں کو نذرِآتش کردیا اور آگ کچھ ایسی لگی گھر میں کہ جو تھاجل گیا، کے مصداق تمام تیزیں جل کر سیا ہ ہوگئیں۔

    اب چاروں طرف راکھ ہی راکھ کے ڈھیر تھے اور بھوکی ننگی اور بے حال جنتا تھی۔ فانی بدایونی نے جب یہ نظارا خلدبریں سے دیکھا تو انھیں بے ساختہ اپنا ایک شعر یاد آگی،

    بہلا نہ دل، نہ تیرگیٔ شام غم گئی

    یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں

    مأخذ:

    (Pg. 27)

      • ناشر: پبلیکیشنز ڈویژن، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے